skip to Main Content

رسول اللہ ﷺ کے حالاتِ زندگی

ذکیہ جہانگیر
۔۔۔۔۔۔

سوانحِ حیات رسولِ پاک ﷺ

 شجرہ مبارک

حضر ت آدم علیہ السلام(۱) ،شیث علیہ السلام(۲)، انوش(۳)، قینان( ۴)، مہلایل( ۵)، یرو (۶)، اصنوخ( ۷)(انھیں اندرلس بھی کہتے ہیں ) ، متو شلخ( ۸)، لمک (۹)، حضرت نوح علیہ السلام (۱۰)، سام( ۱۱)، ارلخشد( ۱۲)، شالخ(۱۳)(انھیں صالح بھی کہتے ہیں )، عابر( ۱۴) (انھیں ہود کہتے ہیں ) ،فالغ( ۱۵) ، ارعو( ۱۶)، شارو غ (۱۷)، تاحور( ۱۸)، تارخ (۱۹)(انھیں آذر بھی کہتے ہیں )، یہ مشہور بت تراش تھے۔ حضرت ابراہیم (۲۰) خلیل اللہ علیہ السلام، حضرت اسماعیل (۲۱)ذبیح اللہ علیہ السلام، قیدار( ۲۲)، عوام(۲۳)، عوص اول( ۲۴) ، مرہ( ۲۵)، سمائے( ۲۶)، زراخ (۲۷)، ناجب (۲۸)، معصر( ۲۹)،ایہام( ۳۰)، افتاد (۳۱)، عیسیٰ (۳۲)،حسان (۳۳)، عنعا(۳۴)،ارعوا( ۳۵)،بلخی (۳۶)۔
ٍ مجری( ۳۷)،ہری (۳۸)، لیسن (۳۹)، حمران (۴۰)، الرعا (۴۱)، عبید(۴۲)،عنف(۴۳)،عسقی(۴۴)، ماصی(۴۵)، ناخود( ۴۶) ، فاجم (۴۷)،کالج (۴۸)،بدلان( ۴۹)، یلد ازم( ۵۰)، صرا( ۵۱)،ناسل (۵۲)،ابی العلوام (۵۳)،تبساویل( ۵۴)، برد( ۵۵)،عوص دوم (۵۶)، سلامان اول(۵۷)، الیمع اول (۵۸)،اوواول (۵۹)،عدنان اول( ۶۰) ،معد اول(۶۱)،حمل (۶۲)، نابت (۶۳)،سلامان دوم (۶۴)،الیمسع دوم (۶۵)،الیسع(۶۶)، اور دوم (۶۷)، ار (۶۸)، عدنان دوم( ۶۹)، معد ثانی (۷۰)، نزا (۷۱)،مضر(۷۲)، الیاس(۷۳)، مواکہ (۷۴)، خزیمہ (۷۵)، کنانہ(۷۶)،النصیر (۷۷)، مالک(۷۸)،قہریاقریش(۷۹)، غالب(۸۰)، لوی(۸۱)، کعب (۸۲)،مرہ (۸۳)،کلاب(۸۴)، قصی(۸۵)، عبدمناف (۸۶)، ہاشم(۸۷)،عبدالمطلب (۸۸) (انھیں شیبہ بھی کہتے ہیں )، عبداللہ (۸۹)اور حضرت محمدﷺ۔
اس شجرہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام تک آنحضور ﷺ کی نوے پشتیں تھیں ۔
آمدِ سحر 
حضرت محمدﷺ کی ولادت سے پہلے دنیا و جہان پر کفر و ضلالت اور بے حیائی ، بدکاری ، درندگی ، سفاکی اور جہالت کی تاریکی چھائی ہوئی تھی ۔ دنیا کا تمدن برباد ہو گیا تھا ، تہذیب مٹ گئی تھی اور مذاہب بدل گئے تھے ۔توحید کی روشنی کسی ملک میں کہیں نظر نہ آتی تھی۔ رُبع مسکون پر لامذہبیت کا اندھیر چھایا ہوا تھااور تمام عالم اخلاقی پستی اور نحوست و اِدبار کے قعر میں گرا ہوا تھا۔ اگر برائے چندے اور یہی کیفیت رہتی تو شاید نظام درہم برہم ہوجاتااور انسان کو انسان ہی ختم کر ڈالتا ۔
اس دور میں ہر ملک میں قربانی کا رواج تھااور معبد گاہوں پر انسانوں کو بھینٹ چڑھادیاجاتا تھا ۔جہل و کفر کی تاریکی دیکھ کر نیکی اور توحید کی متلاشی طبیعتیں گھبرا اٹھی تھیں اور وہ واحد نیت کی روشنی کی تلاش میں سر گرم ہو گئی تھیں ۔
لیکن کسی ملک اور کسی مذہب میں بھی توحید کی روشنی نہ تھی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ تمام مذاہب جو توحید کے علم بردار تھے ، کسی نہ کسی طور سے شرک کرنے لگے تھے اور ساری دنیا مشرک بن گئی تھی ۔ اب ضرورت تھی کسی ایسے ہادی کی جو دنیا و جہان کی رہبری کرے ، قوموں کی نا اتفاقی کو مٹا دے ، کفر و شرک کو نیست و نابود کر دے ، اور ایسا تمدن اور ایسی تہذیب رائج کرے جسے دنیا مان لے ۔ چنانچہ پروردگار عالم نے خاتم الانبیاء اور ہادئ کامل حضرت محمدﷺ کو پیداکیا ۔ آفتابِ رسالت ریگ زارِ عرب سے طلوع ہوا اور اس کی روشنی کرّہ ارض پر پڑنے لگی ۔ 
چاہِ زمزم کی بر آمدگی 
دورِ جہالت و ضلالت میں لوگ جب کوئی چیز چھپانا چاہتے تو اسے چاہِ زمزم میں ڈال دیتے ۔ ان متواتر و مسلسل چیزوں کے پڑنے سے زمزم اَٹ گیااور مدتوں اسی حالت میں رہنے کی وجہ سے آنکھوں سے ایسا مستور ہوا کہ اس کا پتا و نشان ہی مٹ گیا ، صرف اس کا تذکرہ لوگوں کی زبان پر رہ گیا۔
غرض اس طرح اسے لوگوں کی نگاہوں سے چھپے ہوئے مدت گزر گئی یہاں تک کہ عبد المطلب مکہ کے سردار مقرر ہوئے ۔ اُنھوں نے اپنے بڑے بیٹے حارث کو ساتھ لے کر چاہِ زمزم کی تلاش شروع کر دی اور جگہ جگہ کھودا ، لیکن کہیں بر آمد نہ ہوا۔ مگر وہ برابر اس کی جستجو کرتے رہے ۔ لوگوں نے ان کا مذاق بھی اڑایا لیکن انھوں نے اس کی کوئی پروا نہ کی ۔
پھر یوں ہوا کہ ایک روز اُنھوں نے خواب میں چاہ زمزم کا نشان دیکھا ۔صبح جب اس مقام پر پہنچے تو یہ وہ جگہ تھی جہاں اساف اور نائلہ دو بت رکھے تھے ۔ انھوں نے ان بتوں کو ہٹاناچاہا۔ قریش نے ممانعت و مخالفت کی اور لڑنے مرنے پر تیار ہو گئے ۔
لیکن عبد المطلب کا گھرا نا کوئی معمولی گھرانا نہ تھا۔ تمام قریش ان کا لحاظ کرتے تھے ۔ وہ سارے قبائل جو قبیلہ قریش کو مانتے تھے ، وہ بھی ڈٹ گئے۔ اگر چہ اس معاملے میں ان کے قبیلے نے ان کا ساتھ نہ دیا مگر وہ دونوں باپ بیٹا جمے رہے اور آخر دونوں ممانعت کرنے والوں پر غالب آئے اور بت ہٹا کر زمین کھودنے میں مصروف ہو گئے ۔
زمین کھودتے وقت انھیں خیال آیا کہ ان کے زیادہ بیٹے ہوتے تو ان کا ساتھ دیتے اور کسی کو ان کی مخالفت کرنے کی جرأت نہ ہوتی چنانچہ انھوں نے منت مانی کہ اگر میرے دس بیٹے ہوئے ، تو ان میں سے ایک کو خدا کی راہ میں قربان کر دوں گا ۔
چند روز بعد چاہِ زمزم بر آمد ہو گیا۔ اہل مکہ پر ان کی بزرگی اور سرداری کا سکہ بیٹھ گیااور دوسرے تمام قبائل بھی ان کا ادب و احترام کرنے لگے ۔
ذبیح ثانی 
کچھ عرصہ بعد عبد المطلب کے دس بیٹے ہوگئے ، جب وہ سب جوان ہوئے تو انھیں اپنی منت کا خیال آیا چنانچہ انھوں نے اس کا پجاریوں سے ذکر کیا۔
پجاریوں نے کہا کہ اپنے بیٹوں کے نام قرعہ ڈالو، جس کا نام نکلے اس کی قربانی چڑھا دو۔ واقدی ؒ کہتے ہیں کہ عبدالمطلب کے دس بیٹوں میں پانچ زیادہ مشہور ہیں ۔ ان پانچ بیٹوں کے نام یہ ہیں :ابو لہب ، ابو طالب ، حضرت حمزہؓ ، حضرت عباسؓ ، اور حضرت عبداللہؓ ۔ ابو لہب کی بابت مشہور ہے کہ وہ زیادہ حسین و جمیل تھا۔ طبقات ابن سعد میں لکھا ہے کہ ابو لہب کا نام تو کچھ اور تھا لیکن عبد المطلب نے اسے یہ لقب دیااوراسی سے مشہور ہو گیا۔
عبدالمطلب اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو لے کر خانہ کعبہ میں آیااور ہبل کے سامنے پہنچ کر قرعہ اندازی کی ۔ اتفاق سے قرعہ حضرت عبداللہؓ کے نام نکلا۔
عبدالمطلب کو اپنے تمام بیٹوں میں سب سے بڑھ کر حضرت عبداللہؓ سے محبت تھی ۔وہ تھے بھی متین و حلیم و فرما ں بردار ۔ خوب صورت بھی کافی تھے ۔ ان سے ان کے تمام بھائی اور سب بہنیں بہت زیادہ محبت کرتی تھیں ۔ جب ان کا نام قرعے میں نکلا تو عبدالمطلب کو نہایت غم اور قلق ہوا لیکن منت پوری کرنی تھی ۔
چنانچہ وہ حضرت عبداللہؓ کو لے کر قربان گاہ کی طرف چلے ۔ تمام بھائی اور ساری بہنیں رونے لگیں ۔ بہنوں نے کہا کہ ہم میں سے کسی کو قربان کر دو مگر عبداللہؓ کو بچا لو۔ یہی بھائیوں نے بھی کہا لیکن یہ کیسے ہو سکتا تھا! 
اس وقت امراء اور شرفاء مکہ بھی موجود تھے ۔ انھوں نے کہا کہ دس اونٹوں اور عبداللہؓ پر قرعہ ڈالو ۔ چناچہ عبدالمطلب نے پجاریوں سے کہا اور پجاریوں نے قرعہ اندازی شروع کی ۔ اہل عرب میں خون بہا دس اونٹ تھے ، اس لیے دس اونٹ تجویز کیے گئے ۔ 
لیکن قرعہ پھر بھی عبداللہؓ ہی کے نام نکلا۔ غرض اس طرح ہر مرتبہ دس دس اونٹ بڑھاتے گئے یہاں تک کہ سو اونٹوں پر نوبت پہنچ گئی تو اونٹوں پر قرعہ آیا ۔ لیکن عبد المطلب نے احتیاط کے خیال سے اور تسکین قلب کے لحاظ سے دو مرتبہ پھر قرعہ ڈلوایااور دونوں مرتبہ اونٹوں کے نام نکلے ۔
چنانچہ سو اونٹ قربان کر دیے گئے اور حضرت عبداللہؓ بچ گئے ۔ اسی وقت سے قریش میں ایک آدمی کا خون بہا سو اونٹ مقرر ہوئے ۔ اس کے بعد عبد المطلب کے ہاں اور بھی اولاد ہوئی ،کل تیرہ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہوئیں ۔ بیٹوں کے نام یہ ہیں :
حارث ، ابو لہب،ضرار ، عبدالکعبہ ، زبیر ،حجل ، مقوم ، قشم ، غیاں ، ابو طالب ، حمزہ، عباس اور عبداللہ ۔ بیٹیوں کے نام یہ ہیں :
اُم حبیبہ ، صفیہ ، امیمہ ، برہ ، اُم حکم اور اروی ۔
حضورﷺ فرمایا کرتے تھے کہ انا ابن الذبیحین ۔ یعنی میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں ، ایک اسماعیل ؑ کا کہ خدا کے حکم سے انھیں ان کے باپ حضرت ابراہیم ؑ نے ذبح کرنا چاہا تھااور مینڈھا ذبح کیا گیا جس سے مسلمانوں پر قربانی فرض ہوئی ۔ دوسرے حضرت عبداللہؓ کا کہ انھیں بھی قربانی کے لیے منتخب کیا گیا تھا لیکن سو اونٹ قربان کیے گئے ۔
حضرت عبداللہؓ کی شادی
جب حضرت عبداللہؓ قربانی سے بچ گئے تو عبدالمطلب کو ان کی شادی کی فکر ہوئی ۔ چونکہ خدا کی راہ میں ذبح ہونے کے واقعے نے انھیں اطرافِ عرب میں مشہور کر دیا تھا اس لیے ہر قبیلے کی ان سے رشتہ کرنے کی خواہش تھی ۔
اس زمانے میں قریش میں قبیلہ زہرہ ایک ممتاز قبیلہ تھا ۔ اس قبیلے کے ایک اعرابی وہب بن عبد مناف کی صاحبزادی حضرت آمنہؓ کی خاص شہرت تھی ۔ آپ نہایت نیک ، بڑی سلیقہ شعار اور بہت زیادہ حلیم الطبع تھیں ۔ حسین و جمیل بھی خاصی تھیں ۔ اس وقت وہ اپنے چچا وہب کے پاس مدینہ منورہ میں رہتی تھیں ۔
چنانچہ عبدالمطلب وہب کے پاس گئے اور عبداللہؓ کا حضرت آمنہؓ سے رشتے کا پیغام دیا جو انھوں نے فوراًمنظور کر لیا اور عقد کر دیا گیا۔
عرب میں دستور تھا کہ دولہا شادی کے بعد تین دن تک سسرال میں رہتا تھا ۔ چنانچہ حضرت عبداللہؓ بھی تین دن سسرال میں رہے ۔ زرقانی میں لکھا ہے کہ شادی کے وقت حضرت عبداللہؓ کی عمر سترہ سال کے قریب تھی لیکن دوسری تاریخوں میں شادی کے وقت ان کی عمر چوبیس سال لکھی ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
حضرت عبداللہؓ کی وفات 
شادی کے کچھ عرصہ بعد حضرت عبداللہؓ کو ان کے والد عبدالمطلب نے تجارت کے سلسلے میں ملک شام بھیجا ۔ وہاں سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں بیما ر ہو گئے اور مدینہ منورہ میں ہی ٹھہر گئے ۔ اہل قافلہ کے ہاتھ انھوں نے اپنے باپ کو اپنی علالت سے آگاہ کیا ۔
جوں ہی عبدالمطلب اور ان کے خاندان والوں کو حضرت عبداللہؓ کی بیماری کا حال معلوم ہوا تو سب گھبرا گئے ۔ فوراً عبدالمطلب نے اپنے سب سے بڑے بیٹے حارث کو انھیں لانے کے لیے بھیجا ، لیکن حارث کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ہی حضرت عبداللہؓ وفات پا چکے تھے اور اپنے رشتہ دار بنو نجار کے قبرستان میں دفن کر دیے گئے تھے ۔
حارث نے جب واپس آکر یہ روح فرسا خبر سنائی تو تمام خاندان والوں کو سخت صدمہ ہوا ۔ عبدالمطلب نے کئی روز تک کھانا ہی نہ کھایا ۔ حضرت آمنہؓ کو بھی بے حد ملال ہوااور وہ عرصے تک ان کے غم میں سوگوار رہیں ۔
ترکہ 
حضرت عبداللہؓ نے ترکے میں کچھ اونٹ، بکریاں اور ایک لونڈی یعنی کنیز چھوڑی تھی۔ لونڈی کا نام اُمِ ایمن (اصل نام برکنہ )تھا۔
دُرِّ یتیم 
ابھی آنحضور ﷺ ماں کے پیٹ میں تھے کہ باپ کا سایہ اُٹھ گیااور آپﷺ یتیم رہ گئے ۔ دراصل قدرت کو یہی منظور تھا کہ آپﷺ کااور کوئی بھائی بہن نہ ہوتا۔ جس وقت آپﷺ کے والد محترم حضرت عبداللہؓ کا انتقال ہوا تھااس وقت اُن کی عمر پچیس سال تھی ۔
طلوع آفتاب 
۱۲ربیع الاول کا دن بھی یاد گار عالم ہو کر رہ گیا ۔ اس دن کی شب سیاروں کی دمک ، ستاروں کی چمک اور شہاب ثاقب کی کثرت سے آسمان منور ہو رہا تھا۔
ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے کارکنان قضا و قدر نے اس میں کوئی بزم ترتیب دی ہے ۔ عالم قُدس سے دنیا ئے فانی تک نور جلوہ ریز تھا۔ ایسی نورانی شب اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی گئی تھی ۔
عالمِ امکان کا پتا پتااور ذرّہ ذرّہ نور میں نہا رہا تھا۔ دنیا حیران تھی کہ آج کیا ہونے والا ہے ۔ کوئی یوسفِ ثانی ، مسیح دم، موسیٰ نفس تو آج دنیا میں نہیں آرہا ہے ۔ آخر دعائے خلیل ؑ اور نویدِ مسیحا ؑ پوری ہوئی اور صبح صادق کے بعد اور طلوع آفتاب سے پہلے آفتابِ عالم ، فخر بنی آدم حضرت محمدﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی ۔
حضرت آمنہؓ فرماتی ہیں کہ ولادت کے وقت مجھے مطلق بھی تکلیف نہ ہوئی ۔ حضوراکرم ﷺ کی ولادت کے وقت نور اور خوشبو سے کمرہ بھر گیا ۔ حضوراکرمﷺ کو جب گود میں لیاتو آپﷺ مسکرارہے تھے ، آپﷺ مختون پیدا ہوئے تھے ۔
محمدﷺ
عبدالمطلب نے آپﷺ کا نام مبارک محمد(ﷺ) رکھا۔ ابو الفار نے روایت کی ہے کہ لوگوں کو اس نئے نام سے بڑا استعجاب ہوا ۔ چنانچہ انھوں نے عبدالمطلب سے دریافت کیا کہ آپ نے اپنے خاندان اور قبیلے کے مروجہ ناموں کو چھوڑ کر ایک نیااور بالکل عجیب نام کیوں رکھا؟
عبدالمطلب نے جواب دیا کہ میرا بیٹا عبداللہ اوصافِ محمود اور عاداتِ مسعود رکھتا تھا ۔ اس لیے میں نے اس کے بیٹے اور اپنے پوتے کانام محمدﷺ رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میرا پوتا بزرگِ قوم اور فخرِ خاندان ہو ۔ دنیا بھر کی ستائش و تعریف کا شایاں قرار پائے ، اس لیے بھی میں نے یہ نام رکھا ہے ۔
پہلا معجزہ
حضرت محمدﷺ کا پہلا معجزہ ولادتِ مبارکہ کے وقت یہ ہوا کہ کسریٰ (شاہ ایران ) کا محل جو نہایت مضبوط اور فلک رفعت تھا، اس کے چودہ کنگورے خودبخود ٹوٹ کر گر گئے ۔
تاریخ میں یہ منقول ہے کہ آنحضورﷺ کی ولادت تک ۱۴ پشتوں تک شاہانِ ایران کی حکومت رہی لیکن چودھویں پشت میں جا کر بالکل ختم ہو گئی ۔ فارس استخر کا آتش کدہ ایک ہزار سال سے روشن تھااور اس عرصہ کے دوران اس کی آگ کبھی نہ بجھی تھی ۔
حضور ﷺ کی ولادت کی رات وہ آگ خود بخود ٹھنڈی ہو گئی جس سے تمام فارس میں بے چینی پھیل گئی ۔ ہبل کے پجاری کا بیان ہے کہ وہ مبارک رات غیر معمولی روشنی دیکھ کر جب خانہ کعبہ کی چھت پر آیا تو اس نے ہبل کوکانپتے اور ہلتے ہوئے دیکھا۔
بعض مورخوں نے لکھا ہے کہ وہ اندھے منہ سجدے میں گر گیا ۔ صحیح مسلم میں انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک روز جب آپﷺ مکہ میں اپنے ہم سن بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے تو حضرت جبرائیل ؑ آپ ﷺ کے پاس آئے ۔ آپﷺ کا سینہ چاک کر کے دل چیرااور ایک قطرہ نکال کر کہا :
’’یہ شیطان کا حصہ تھا‘‘ ۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے دل کو سونے کے طشت میں رکھ کر آب زمزم سے خوب دھویااور پھر اسی جگہ رکھ دیا۔
تعلیم 
ماں اور دادا کو آپﷺ سے اس قدر محبت تھی کہ ایک لمحہ کے لیے بھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے ۔ اس محبت کی زیادتی ہی نے ان دونوں شفیق ہستیوں کوآپﷺ کی تعلیم کی طرف متوجہ نہ ہونے دیااور آپﷺ ’’اُمی ‘‘یعنی ان پڑھ ہی ر ہ گئے ۔ 
خدا کو یہی منظور تھا کہ آپﷺ ’’اُمی ‘‘رہیں تا کہ آپﷺ پر جو کتاب اللہ کی طرف سے نازل ہو نے والی تھی ، کوئی اس کے متعلق یہ نہ کہے کہ آپﷺ نے از خود لکھی ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔

سفرِ مدینہ
تقریباًایک سال اور چند ماہ ہوئے تھے کہ بی بی آمنہؓ کو اپنے شوہر کی یاد آئی اورا نھوں نے مرحوم کی قبر کی زیارت کرنے کا ارادہ کیا۔ چنانچہ آپ نے عبدالمطلب سے اجازت لی اور حضرت محمدﷺ اور اُم ایمن کو ساتھ لے کر مدینہ منورہ تشریف لے گئیں ۔چونکہ حضرت محمدﷺ کے دادا کی ننھیال قبیلہ نجار میں تھی اس لیے اس قبیلے میں جا کر ٹھہریں اور ایک ماہ تک وہاں مقیم رہ کر واپس لوٹیں ۔
حضرت آمنہؓ کی وفات 
مدینہ سے واپس لوٹتے ہی بی بی آمنہؓ بیمار ہو گئیں ۔ اس وقت آنحضورﷺکی عمر چھ سال کے قریب تھی ۔ مقام ابواء میں پہنچ کر بی بی آمنہؓ کی حالت غیر ہوگئی اور اسی جگہ آپ نے وفات پائی ۔یہ مقام مجہ سے تئیس (۲۳) میل کے فاصلے پر ہے ۔
تاریخوں سے یہ پتا نہیں چلتا کہ بی بی آمنہؓ کی میت مکہ معظمہ لائی گئی یا وہیں تدفین ہوئی ۔ آنحضور ﷺ کو شفیق والدہ کے انتقال کا بڑا صدمہ ہوا۔ آپﷺ ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے کہ والد کے سائے سے محروم ہو چکے تھے اور چھٹے سال کے ختم ہونے سے پہلے والدہ سے بھی محروم ہو گئے ۔
عبدالمطلب کی کفالت 
اُم ایمن آنحضورﷺ کو ساتھ لے کر مکہ معظمہ آگئیں ۔ عبد المطلب کو بی بی آمنہؓ کے انتقال کا بڑا صدمہ ہوا ۔ انھو ں نے حضرت محمدﷺ کو اپنے سینے سے لگا لیااور فرمایا:
’’میرے بچے!تو یتیم ویسیر ہو گیا لیکن جب تک تیرا دادا عبدالمطلب زندہ ہے فکر نہ کر ۔ ان شاء اللہ تجھے کسی قسم کی تکلیف نہ ہوگی ۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ جو کچھ دادا نے کہاتھا اسے نباہ دیا ۔ وہ ہر وقت ، خلوت میں جلوت میں ، شادی میں غم میں انھیں اپنے ہمراہ رکھتے ۔ یہاں تک کہ اپنے پاس ہی سلاتے اور کبھی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتے ۔ ان کی ذات سے ان کی محبت روز بروز بڑھتی جاتی تھی ۔
اگر چہ عبدالمطلب ان کی نگرانی کرتے تھے لیکن اور ہر طرح کی دیکھ بھال ام ایمن کے ذمہ تھی ۔ وہی آپ ﷺ کو نہلاتیں، کپڑے بدلواتیں،کھانا کھلاتیں۔غرض کہ جو کام وہ بی بی آمنہؓ کے سامنے کرتی تھیں ، اب بھی وہ سب کام کرتیں اور ماں کے فرائض بھی انجام دینے لگیں ۔
عبدالمطلب کی وفات 
آنحضورﷺ اپنے دادا کی سر پرستی اور نگرانی میں دو سال تک آرام و اطمینان سے رہے ۔ شفیق دادا نہایت مہربانی سے پیش آتے تھے اور انھیں جگر گوشہ کہہ کر بلایا کرتے اور اس بات کی کوشش کرتے کہ کسی بات سے آپ ﷺ کا دل میلا نہ ہو کہیں ۔ یہ بات آپﷺ کے لیے باعث ملال نہ ہو کہ آپ ﷺ بے ماں کے بچے ہیں ۔ اپنے تمام بیٹوں کو عبدالمطلب نے ہدایت کر دی تھی کہ حضرت محمدﷺ کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں ۔ سب کو آپ ﷺ کی ذات سے محبت تھی اور سب ہی آپﷺ کی دل جوئی میں مصروف رہتے تھے ۔
جب آپﷺ کی عمر آٹھ سال کی ہوئی تو عبدالمطلب بیمار ہو گئے اور ایسے بیمار ہو ئے کہ بچنے کی امید نہ رہی ۔ آنحضورﷺ کی عمر ہی کیا تھی ۔ مگر پھر بھی آپﷺ سے جس قدر ہو سکتا تھااپنے دادا کی خدمت کرتے اور کچھ نہ ہوتا تو ہر وقت ان کے پاس بیٹھے رہتے ۔
عبدالمطلب اکثر انھیں حسرت بھری نظروں سے دیکھا کرتے تھے ۔اگر چہ آپ ﷺکمسن ہونے کے ناطے سمجھ دار نہ تھے لیکن ان نگاہوں سے آپ ﷺ کا دل مجروح ہوجاتا۔
ایک روز عبدالمطلب نے انھیں گلے لگا کر کہا’’نورچشم !اب میں بھی تم سے رخصت ہونے والا ہوں ۔‘‘آنحضور ﷺ نے آب دیدہ ہو کر فرمایا:’’مجھے کس کے سپرد کر جاؤ گے ، دادا جان ؟‘‘
عبدالمطلب نے کہا ، اسی فکر میں کئی روزسے سر گرداں ہوں۔ تم ماشاء اللہ سمجھ دار ہو ۔بتاؤ اگر میں تمھیں تمھارے حقیقی چچا ابو طالب کے سپرد کر دوں تو تمھیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے؟آنحضورﷺ نے فرمایا ، جیسے آپ کی مرضی ۔
عبدالمطلب نے اسی وقت ابو طالب کو بلوایااور کہا بیٹا !میرا آخری وقت آپہنچا ہے ۔ سوائے محمد ﷺ کے مجھے اور کسی کی فکر نہیں ہے ۔ میں اس یتیم ویسیر بچے کو تمھاری کفالت میں دینا چاہتا ہوں ۔
ابو طالب نے چشمِ پرنم ہو کر کہا ،میں اپنی جان سے زیادہ اپنے بھتیجے کی حفاظت کروں گا ۔
عبدالمطلب نے کہا ، مجھے سیف نے بتایا تھا کہ میری اولاد میں سے ہی نبی آخر الزماں ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ میرا یہی پوتا وہ نبی ہے جس کی بشارت عیسائی اور یہودی دے رہے ہیں ۔ تمھیں اس کی نگرانی و حفاظت خاص طور پر کر نا ہو گی ۔
ابو طالب نے جواب دیا ، میں اپنے قول کو جھوٹا نہ ہونے دوں گا۔
عبدالمطلب نے اطمینان کا سانس لیااور اسی روز وفات پائی ۔ آپ کی عمر انتقال کے وقت بیاسی سال تھی ۔ آنحضورﷺ کو دادا کے انتقال کا اس درجہ ملال ہوا کہ بے اختیار آنکھ سے آنسو جاری ہوگئے ، آپﷺ جنازے کے ساتھ بھی فرطِ محبت سے روتے جاتے تھے۔ 
عبدالمطلب کو حجوں میں دفن کیا گیا۔
ملک شام کا پہلاسفر
ابو طالب تجارت کیا کرتے تھے ۔ اکثر اہل قریش سال میں ایک مرتبہ تجارت کی غرض سے ملک شام جایا کرتے تھے ۔ جب حضورﷺکی عمر بارہ سال ہوئی تو ابو طالب نے حسب دستور شام جانے کا ارادہ کیا ۔
چونکہ حضورﷺ صغیر سن تھے اس لیے سفر کی صعوبتوں کا خیال کر کے ابو طالب آپﷺ کو اپنے ہمراہ نہ لے جانا چاہتے تھے مگر حضورﷺ کو ہر وقت ان کے ساتھ رہنے سہنے کی وجہ سے ان سے بڑی محبت ہو گئی تھی ۔ جب وہ چلنے لگے تو آنحضورﷺ ان سے لپٹ گئے اور آب دیدہ ہو کر فرمایا:
’’مجھے کیوں تنہا چھوڑے جاتے ہیں چچا جان ؟‘‘
ابو طالب کا دل بھر آیا ۔ انھوں نے کہا :’’جان عم !تمہاری تکلیف کے خیال سے چھوڑے جاتا ہوں مگر تمھیں ملال ہوگا اور میں تمہارا ملال برداشت نہیں کر سکتا اس لیے میرے ساتھ چلو۔‘‘چنانچہ وہ آپﷺ کو اپنے ساتھ لے کر چلے ۔ اس سفر میں اہل قافلہ نے ایک عجیب چیز دیکھی کہ ایک ابر کا ٹکڑا آسمان پر چھا جاتااور سارے قافلے پر سایہ کر لیتا۔
یمن کا سفر 
ملک شام کی طرف جو لوگ آنحضورﷺ کے ساتھ تجارت کی غرض سے گئے تھے انھیں کافی منافع ہوا تھا۔ اس لیے آپﷺ کے چچاؤں میں سے زبیر بن عبدالمطلب یا عباس بن عبدالمطلب (یہ ٹھیک معلوم نہیں کہ ان دونوں میں سے کون تھے)۔حصول برکت و نفع کے خیال سے آپﷺ کو یمن کی طرف لے گئے ۔ اس قافلے میں جتنے بھی سودا گر تھے، سب کو خاطر خواہ فائدہ ہوا اور قافلہ بخیر و عافیت اپنے انجام کو پہنچا ۔

حضوراکرم ﷺ کی پہلی شرکتِ جنگ 

حربِ فجار 
یہ لڑائی شروع تو قبیلہ ہوازن اور قبیلہ قریش کے درمیان ہوئی لیکن بعد میں اس میں اور بہت سے قبائل بھی شریک ہو گئے مثال کے طور پر ہوازن کے ساتھ قیس عیلان کے تمام قبائل اور قریش کے ساتھ کنانہ کے قبائل شریک ہو گئے ۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لڑائی کی شدت بڑھ گئی اور ہر پہلی لڑائی دوسری سے شدید تر ہوتی گئی ۔ آخری لڑائی نہایت سخت اور بڑی زبردست ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ اس لڑائی میں بعض سرداروں نے خود اپنے پیروں میں اس لیے زنجیریں ڈال لی تھیں کہ میدانِ جنگ سے بھاگ نہ سکیں ۔
قریش کے تمام خاندانوں یعنی قبائل نے اپنی اپنی الگ فوجیں قائم کی تھیں ۔ آل ہاشم کے علم بردار زبیر بن عبدالمطلب تھے جو آنحضور ﷺ کے چچا تھے ۔
بنو کنانہ اور قریش کی ساری فوج کاسپہ سالار رئیسِ مکہ حرب بن امیہ تھا۔ وہ ابو سفیانؓ کا باپ اور امیر معاویہؓ کا دادا تھا۔ آنحضورﷺ اپنے چچا زبیر بن عبدالمطلب علم بردار کے ساتھ تھے ۔ چونکہ قریش اس جنگ میں حق پر تھے اور خاندان کے ننگ و نام کا معاملہ تھا اس لیے آنحضورﷺ نے بھی اس جنگ میں شرکت فرمائی لیکن آپﷺ نے کسی پر ہتھیار نہ اٹھایا۔
ابنِ ہشام نے روایت کی ہے کہ آپ ﷺ کے سپرد یہ خدمت تھی کہ آپ ﷺ تیر اٹھا کر اپنے چچاؤں کو دیتے تھے ۔
امام سہیلی نے بھی یہی تشریح کی ہے کہ اس جنگ میں آنحضورﷺ شریک ضرور ہوئے مگر خود جنگ نہیں کی اور اس کی وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ چونکہ یہ جنگ ایام الحرام میں پیش آئی تھی اور فریقین کافر تھے ۔ اسلام اور کفر کا مقابلہ نہ تھا اس لیے آپﷺ نہیں لڑے ۔ اس لڑائی میں اول اول تو بنی ہوازن غالب رہے لیکن بالآخر قریش غالب آئے اور اس مشہور جنگ کا خاتمہ صلح پر ہو گیا۔
تجارت 
قریش عرصۂ دراز سے تجارت پیشہ تھے ۔ آنحضورﷺ کے جد اعلیٰ ہاشم نے تجارت کے متعلق بہت سے قواعد و ضوابط مقرر کیے تھے ۔ آنحضورﷺ کے چچا ابو طالب بھی بڑے مشہور تاجر تھے ۔
جب آنحضورﷺ کی عمر بیس سال کے قریب ہوئی تو آپ ﷺ نے بھی تجارت کی طرف توجہ کی ۔ ابو طالب نے بھی آپ ﷺ کے لیے تجارت ہی کو موزوں اور مناسب سمجھا ۔ چونکہ آپﷺ اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ رہے تھے اس لیے تجارت کا ہر قسم کا تجربہ حاصل ہو چکا تھا۔ چنانچہ آپﷺ نے تجارت شروع کر دی ۔
حضرت خدیجہؓ 
حضرت خدیجہؓ بنتِ خویلد قبیلہ قریش کی ایک مال دار بیوہ تھیں ۔
ان کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں آنحضرت ﷺ کے خاندان سے ملتا ہے ۔اس حوالے سے وہ آپﷺ کی چچا زاد بہن تھیں ۔ پچھلے خاوند نے ان کے لیے ترکہ میں بڑی دولت چھوڑی تھی ۔ نہایت شریف النفس اور پاکیزہ اخلاق کی حامل تھیں ۔
عہدِ جاہلیت میں ان کا نام طاہرہ تھا۔ طبقات ابنِ سعد میں لکھا ہے کہ وہ اس قدر مال دار تھیں کہ جب اہل مکہ کا قافلہ تجارت کے لیے روانہ ہوتا تھا تو تنہا ان کا سامان قافلے والوں کے سامان کے برابر ہوتا تھا۔
حضرت خدیجہؓ کارندوں کے ذریعے تجارت کرتی تھیں جو شام ، عراق اور یمن کی طرف مال تجارت لے جاتے تھے ۔
جب آنحضورﷺ کی عمر پچیس برس کی ہوئی تو آپ کی راست بازی ، حسنِ معاملہ ، صدق بیانی ، پاکیزہ اخلاقی اور دیانت و امانت کی شہرت عا م ہو چکی تھی ۔ یہ باتیں حضرت خدیجہؓ کے کانوں تک بھی پہنچیں ۔
انھیں ایسے ہی امین کی ضرورت تھی ۔ چنانچہ انھوں نے اپنے بھتیجے قطیمہ کی معرفت آنحضورﷺ پر اپنی خواہش ظاہر کی کہ حضورﷺ ان کا مال تجارت لے کر ملک شام کی طرف جائیں اور بطور کارکن خدمات انجام دیں ۔ ان خدمات کے عوض دوسرے کارندوں سے زیادہ معاوضہ دینے کا وعدہ کیا گیا۔
چونکہ آپﷺ ہر کام اپنے چچا ابو طالب کے مشورے سے کرتے تھے اس لیے ان کی رائے لی تو انھوں نے منظور کر لیا۔ چنانچہ آپﷺ مہتمم تجارت ہو کر شام کی طرف روانہ ہوئے ۔ اس سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کے غلام میسرہ اور ایک عزیز خزیمہ ابن حکیم بھی تھے ۔
شام کا دوسرا سفر
آنحضورﷺ نے جب شام جانے کا قصد کیا تو دوسرے تاجر بھی تیار ہو گئے ۔ یوں ایک بڑا قافلہ شام کی جانب روانہ ہوااور جب ملک شام میں داخل ہوا توایک روز صومعہ کے قریب فروکش ہو گیا۔ اس صومعہ میں ایک راہب رہتا تھا جس کانام نسطورا تھا۔
نسطورا راہب
جوں ہی اس راہب نے اس قافلے کو دیکھا ، صو معہ سے باہر نکلا ۔ اسے کچھ ایسی علامات نظر آئیں جن سے وہ نہایت حیران ہو ااور صومعہ میں جا کر ایک آسمانی کتاب اٹھا لایا۔
اتفاق سے قافلے کے کنارے پر آنحضورﷺ فروکش تھے۔ نسطورا راہب قریب آیااور غور سے آپ ﷺ کا چہرہ اقدس دیکھا ، پھر کتاب کھولی ۔ اب کبھی کتاب کو دیکھتا تو کبھی آپﷺ کو ۔
اس کی اس عجیب حرکت سے خزیمہ کو کچھ شبہ ہوااور اس نے بلند آواز سے کہا:’’یاآلِ غالب !جلدی مدد کو آؤ ۔‘‘یہ آواز سن کر قافلے کے تمام قریش دوڑ پڑے ۔ نسطورا راہب وہاں سے بھاگ کر اپنے صومعہ کی چھت پر جا بیٹھا ۔ اہل قریش نے صومعہ کا محاصرہ کر لیا۔
نسطورا نے نرمی سے کہا’’کوئی خطرے والی بات نہیں ۔ میری بات سنو!‘‘سب سننے لگے۔ اس نے کہا’’میں آج تمھیں ایسی خبر سناؤں گا جسے سن کر تم حیران رہ جاؤ گے ۔‘‘
’’یہ نوجوان جو تمہارے ساتھ ہے کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور اس کا کیا نام ہے ؟‘‘
قریش کے ایک بزرگ آدمی نے جواب دیاکہ یہ خاندان قریش سے ہے اور قبیلہ قریش میں سب سے زیادہ معزز آل ہاشم ہے ، یہ نوجوان ہاشمی ہے اور ان کا نام محمد(ﷺ) ہے ۔
نسطورا نے جواب دیا ، تب مجھ سے سنو!ہماری آسمانی کتاب میں نبی آخر الزماں کی جو علامات اور خط و خال لکھے ہیں ، وہ سب اس ہاشمی نوجوان میں موجود ہیں ، کیا اس نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے ؟
اہل قریش نے کہا’’نہیں !‘‘
نسطورا بولا’’مجھے یقین ہے کہ یہ عنقریب نبوت کا دعویٰ کریں گے ، ان کا دین سچا ہو گا اور ان کی امت دنیا پر چھا جائے گی ، لیکن ان کی قوم ان کے ساتھ دشمنی کرے گی ۔ اس وقت تم ان کے مدد گار بن جانا۔‘‘ٍ
نسطورا اُٹھ کر صومعہ میں چلا گیا ۔ قریش بھی واپس آگئے ۔ اس روز سے ان لوگوں کے دلوں میں حضرت محمدﷺ کی عزت و عظمت اور بڑھ گئی ۔ اس سفر میں قافلے کا مال نہایت منافع سے فروخت ہوا اور ہر سودا گر کو کافی نفع ہوا۔
حضرت خدیجہؓ کا مال چونکہ سب سے زیادہ تھا، اس لیے انھیں سب سے زیادہ فائدہ ہوا۔ 
پیغام نکاح 
جب یہ قافلہ ملک شام سے واپس آیااور آنحضوراکرم ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو تمام حساب سمجھایاتو وہ کثیر منافع پا کر بہت خوش ہوئیں ۔ ادھر میسرہ اور خزیمہ نے حضرت خدیجہؓ سے آنحضورﷺ کی معاملہ داری ، خوش اخلاقی ، صداقت ، راست گوئی ، دیانت داری اور حلم ومروت کی بڑی تعریف کی اور ساتھ ہی راہب نسطورا کا قصہ بھی بیان کر دیا۔
حضر ت خدیجہؓ دولت مند ہونے کے علاوہ حسین و جمیل ، شریف النفس ، پاکیزہ اخلاق ، سلیقہ شعار ، فہیم و ذکی اور دور اندیش بھی تھیں ۔ مکہ کے امراء ، روساء اور شرفاء ان سے نکاح کرنا چاہتے تھے لیکن حضرت خدیجہؓ نے کسی کو قبول و منظو نہ کیا۔
چونکہ ان کی عمر اس وقت ۴۰ سال تھی اس لیے لوگ یہ سمجھ کر چپ ہو رہے کہ وہ شاید اب نکاح کریں گی ہی نہیں ۔ لیکن حضرت خدیجہؓ آنحضرت ﷺ کی تعریف سن کر آنحضورﷺ سے نکاح کرنے پر تیار ہو گئیں ۔ چنانچہ انھوں نے ایک عورت نفیسہ کو پیغام بربنا کر بھیجا ۔ نفیسہ نے آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ آپﷺ کی عمر پچیس سا ل کی ہو چکی ہے ، آپﷺ نے اب تک نکاح کیوں نہیں کیا۔ آنحضورﷺ نے جواب دیا کہ مال و اسباب کی قلت مانع ہے ۔
نفیسہ نے پھر پوچھا ، اگر کوئی ایسی عورت جو شریف اور معزز ہو ، مال دار بھی ہو ، خوبصورت بھی ہو ، پاکیزہ اخلاق اور عقل مند بھی ہو آپ ﷺ کے ساتھ نکاح کی درخواست کرے تو کیا آپﷺ قبو ل کریں گے ۔ آنحضورﷺ نے دریافت کیا کہ وہ عورت کون ہے ؟نفیسہ نے جواب دیا ۔’’خدیجہؓ !‘‘
آنحضور ﷺ نے استفسار کیا’’مگر خدیجہؓ کیوں راضی ہوں گی ۔‘‘
’’وہ رضا مند ہیں ، بس آپ ﷺ کی رضا مندی درکار ہے ۔‘‘نفیسہ نے جواب دیا ۔
آنحضورﷺ :مگر میں کوئی کام بغیر اپنے چچا کی منظوری اور مشورے کے نہیں کر سکتا ۔
نفیسہ :اگر وہ رضا مند ہو جائیں ۔
آنحضورﷺ :تب مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔
نکاح 
نفیسہ واپس ہوئی اور حضرت خدیجہؓ کو خوش خبری جا سنائی ۔ اگر چہ حضرت خدیجہؓ کے والد کاانتقال ہو چکا تھا ، لیکن ان کے چچاعمر بن اسد زندہ تھے۔ مگر خدیجہؓ نے ان سے کوئی مشورہ نہیں لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بالغ عورتوں کو یہ آزادی تھی کہ شادی کے متعلق خود گفتگو کر سکتی تھیں ۔
بعض مورخین تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ بالغہ اور نابالغہ کی بھی کوئی پابندی نہ تھی ، ہر لڑکی آزاد تھی ۔
چنانچہ حضرت خدیجہؓ نے چچا کے ہوتے ہوئے تمام معاملات خود ہی طے کر لیے حتیٰ کہ نکاح کی تاریخ بھی مقرر کر دی ۔ تاریخِ معینہ پر ابو طالب مع تمام رؤسا ئے خاندان جن میں حضرت حمزہؓ بھی تھے، حضرت خدیجہؓ کے مکان پر آئے ۔ خدیجہؓ کے چچا عمر و نے ان کا اچھے پیمانے پر استقبال کیا۔ ابو طالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا اور پانچ سو درہم طلائی مہر قرار پایا۔
مؤ رخ لکھتے ہیں کہ اگر چہ حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی ، لیکن اچھی صحت اور درستی قویٰ کی وجہ سے وہ کم سن معلوم ہوتی تھیں ۔
آنحضورﷺ کو ان سے ایسی محبت ہو گئی تھی کہ جب تک وہ زندہ رہیں ، حضورﷺنے کسی اور سے نکاح نہیں کیا۔
دنیا میں چار عورتیں اعلیٰ درجے کی قرار دی گئی ہیں ۔ ایک حضرت عیسیٰ ؑ کی والدہ حضرت مریم ؑ ۔ دوسری فرعون کی بیوی حضرت آسیہ ؑ ۔ تیسری آنحضور اکرم ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ اور چوتھی رسول ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہؓ ۔
تعمیر کعبہ
کعبہ کی عمارت قدیم طرز کی تھی اور صرف قد آدم اونچی تھی ۔ دیواروں پر چھت نہ تھی بلکہ احاطہ سا گھرا ہوا تھا جس طرح ہندوستان میں عید گاہیں ہوتی ہیں ۔ چونکہ یہ عمارت نشیب میں تھی اس لیے جب بارش ہوتی تھی اور سیلاب آتا تھا، تو شہر کا پانی حرم میں آکر دیواروں کو نقصان پہنچا جاتا تھا۔ چنانچہ سیلاب کو روکنے کے لیے حرم کے بالائی حصے پر بند تعمیر کیا گیا تھا۔ لیکن وہ بند بھی اکثر ٹوٹ جاتا تھااور عمارت کو بار بار نقصان پہنچتا تھا۔
بالآخرز عمائے قوم نے باہمی رضامندی سے فیصلہ کیا کہ موجود ہ بوسیدہ عمارت منہدم کر کے نئے سرے سے بنائی جائے ۔ مگر کعبہ کی حرمت کی وجہ سے کھڑی ہوئی عمارت منہدم کرنے پر کوئی آمادہ نہ ہوتا تھا اور سب ڈرتے تھے لہٰذا کئی روز تک مشورے ہوتے رہے ۔
آخر سردارانِ قریش میں سے ولید بن مغیرہ نے پہل کی ، اس نے انہدام کاکام شروع کر دیا ۔ رفتہ رفتہ تمام قبائل شریک ہو گئے ۔ حسنِ اتفاق سے اسی زمانے میں جدہ کی بندرگاہ پر ایک تجارتی جہاز کنارے سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا۔
قریش کو خبر ہوئی تو ولید بن مغیرہ کو بھیجااور اس نے جدہ پہنچ کر جہاز کے تختے خرید لیے ۔ یہ لکڑی خانہ کعبہ کی چھت کے لیے خریدی گئی تھی ، کار آمد لکڑیاں اونٹوں پر لاد کر مکہ میں لائی گئیں ۔ کعبہ کی دیواریں تعمیر ابراہیمی کی بنیادوں تک گرا دی گئی تھیں ۔ انھی بنیادوں پر پھر عمارت بنانی شروع کی گئی ۔ تمام قریش نے مل کر تعمیر شروع کی ، مختلف قبائل نے عمارت کے مختلف حصے اس لیے آپس میں تقسیم کر لیے کہ اس شرف سے کوئی محروم نہ رہ جائے ۔ جب تعمیر کا یہ کام شروع ہوا تو اس وقت آنحضور ﷺ کی عمر پینتیس(۳۵) سال تھی ۔ جب تعمیر بلند ہو کر اس حد تک پہنچ گئی کہ حجرا سود کے نصب کرنے کاموقع آیا تو تمام قبائل میں سخت نزاع پیدا ہوا، پھر ایک بڑی قبائلی جنگ کے خدشات ابھرنے لگے ۔
یہ جھگڑا اس بات پر اٹھا کہ ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ اس کا خاندانی سردار حجر اسود نصب کرنے کا شرف حاصل کرے ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ تلواریں نیاموں سے نکل آئیں اور کچھ ایسی فضاپیدا ہوگئی کہ لوگ مرنے مارنے پر تل گئے ۔
عرب میں دستور تھا کہ جب کوئی شخص یابہت سے افراد جان دینے کی قسم کھاتے تو پیالہ میں خون بھر کر اس میں انگلیاں ڈبو لیتے چنانچہ اس موقع پر بہت سے قبائل کے سرداروں نے یہ رسم ادا کی ۔ یہ جھگڑا چار دن تک بپا رہا جس کے نتیجے میں تعمیر کا کام بند رہا۔ پانچویں دن تمام معزز ین مکہ اور امرائے قریش خانہ کعبہ میں جمع ہوئے اور ایک مجلس شوریٰ منعقد کی۔ بڑی ردو قدح کے بعد ابو امیہ بن مغیرہ نے جو سب سے زیادہ معمر تھا، رائے دی کہ کل صبح سب سے پہلے جو شخص خانہ کعبہ میں داخل ہو ، وہی حجر اسود کو نصب کرنے کا فیصلہ کرے ۔
آنحضورﷺ کا حکم مقرر ہونا
دوسرے دن علیٰ الصبح لوگوں نے انتظار کرنا شروع کیا۔ کرشمہ ربانی ملاحظہ ہو کہ سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ داخل ہوئے ۔ آپﷺ کا جمال جہاں تاب دیکھتے ہی لوگوں نے اطمینان کا سانس لیااور سب نے بالاتفاق کہا کہ اب جھگڑا طے ہو جائے گا۔
جب آپ ﷺ قریب آئے تو لوگوں نے پکارا:’’الامین تشریف لائیے ہم سب آپﷺ کے فیصلے پر رضا مند ہیں ۔‘‘ آپﷺ تشریف لائے اور تمام واقعات سن کر دعوے دار قبائل سے کہا کہ ہر قبیلہ اپنا ایک ایک سردار منتخب کرے ۔
چنانچہ تمام قبائل نے اپنے سردار منتخب کر لیے ۔ حضوراکرم ﷺ نے اپنی چادر بچھا کر اس پر حجر اسود کو رکھا اور سردارانِ قریش سے کہا کہ چادر کے گوشے تھام لیں اور اوپر اٹھائیں ۔
چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ، جب چادر مقامِ تنصیب کے برابر آگئی تو آپﷺ نے حجر اسود اٹھا کر نصب فرما دیا ۔اس طرح حضورﷺ کے حسن تدبیر سے ایک سخت لڑائی رُک گئی ۔
تمام بوڑھے ذی فہم اور تجربہ کار سردار ان قریش آپﷺ کی ذہانت ، قوتِ فیصلہ اور مدبر انہ تدبیر کو دیکھ کر حیران رہ گئے ۔سب کی زبان سے بے اختیار ’’احسنت مرحبا‘‘نکلا۔
اس واقعے سے عتبہ بن ربیعہ ، اسود بن مطلب ، ابو حذیفہ بن مغیرہ اور قیس بن عدی السہمی چار اشخاص پیش پیش تھے اور کسی طرح معاملہ طے نہ ہونے دیتے تھے مگر اس فیصلے سے یہ چاروں بھی خوش ہو گئے ۔
غرض یہ کہ حضورﷺ کی اس تدبیر سے کسی کو بھی کوئی شکایت باقی نہ رہی اور سب رضا منداور خوش ہو گئے ۔ اگر خدا نخواستہ یہ جنگ چھڑ جاتی تو نہ معلوم کب تک جاری رہتی اور کتنے قبائل برباد ہوتے ۔ لکڑیاں آگئی تھیں اس لیے کعبہ کی عمارت مسقّف کر دی گئی مگر تعمیر کا سامان کافی نہ ہونے کی وجہ سے ایک طرف زمین کا کچھ حصہ چھوڑ دیناپڑااور اس حصہ کے گرد چہار دیواری کھینچ دی گئی تھی، اس حصے کو آج حطیم کہتے ہیں ۔
حضرت علیؓ اور زیدؓ کی تربیت 
حضرت خدیجہؓ سے شادی کے بعد آپﷺ اطمینان اور فارغ البالی سے زندگی بسر کرنے لگے ۔ ایک مرتبہ قحط پڑا۔ آپ ﷺ کے چچا ابو طالب کثیر العیالی کی وجہ سے تنگی کے ساتھ گزر بسر کرتے تھے ۔ ان کی عزت و عظمت صرف اس بنا پر رہ گئی تھی کہ وہ قریش کے معزز قبیلہ بنی ہاشم کے بزرگ خاندان سے تھے ۔
آنحضورﷺ نے ان کی عسرت و تنگ دستی دیکھ کر اپنے دوسرے چچا حضرت عباسؓ سے کہا کہ آج کل قحط کا زمانہ ہے ۔ ابو طالب کا کنبہ بڑا ہے ، مناسب ہے ان کی کچھ مدد کی جائے ۔
حضرت عباسؓ نے کہا اگر آپ ﷺ نقدی سے ان کی مدد کریں گے تو وہ ایسے غیور ہیں کہ ہر گز بھی قبول نہ کریں گے ۔
آنحضورﷺ نے فرمایا !میں خوب جانتا ہوں مدد کا طریقہ میں نے یہ سوچا ہے کہ ان کے لڑکوں میں سے ایک کو آپ اپنے گھر لے آئیں اور ایک کو میں لے آؤں ۔ اس سے ان کا بوجھ کچھ ہلکا ہو جائے گا ۔
حضرت عباس بن عبد المطلب نے یہ مشورہ پسند کیا اور انھوں نے ابو طالب کی خدمت میں پہنچ کر اپنی خواہش ظاہر کی ۔ ابو طالب نے کہا، عقیل کو میرے پاس رہنے دواور باقیوں کو تم لے جاؤ ۔ چنانچہ حضرت جعفرؓ کو عباس نے لے لیااور حضرت علیؓ کو آنحضورﷺ لے آئے ۔
حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے حکیم بن حزام ایک غلام خرید کر لائے تھے ۔ انھوں نے اسے اپنی پھوپھی کی نذر کر دیااور ان کی پھوپھی یعنی حضرت خدیجہؓ نے اس غلا م کو آنحضورﷺ کی نذر گزارا، یہی غلام زید بن حارثؓ تھے ۔ وہ ایک معزز مسیحی خاندان سے تھے لیکن کسی لڑائی میں قید ہوگئے تھے ۔ فاتحین نے انھیں غلام بنا کر فروخت کر دیا ۔ آنحضورﷺ نے انھیں نہایت آرام سے اپنے پاس رکھا۔
وہ حضوراکرم ﷺ کے اخلاق و مروت کے اس درجہ مداح ہوئے کہ کچھ عرصہ بعد ان کے والد حارث اور چچا کعب جب انھیں تلاش کرتے ہوئے آنحضورﷺ کی خدمت میں آئے اور عاجزی سے درخواست کی کہ زید کو آزاد کر کے ہمارے ساتھ روانہ کر دیجیے تو زید نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔
جناب زیدؓ نے کہا میں آنحضورﷺ کی غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتا ہوں ، میں نے آنحضورﷺ میں وہ باتیں دیکھی ہیں جو آج تک کسی میں نہ دیکھی تھیں ۔
آنحضورﷺ زیدؓ کے جواب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اسی وقت انھیں لے کر خانہ کعبہ میں پہنچے اور بلند آواز سے فرمایا:’’اے لوگو!سنواورگواہ رہوکہ آج سے میں نے زید کو آزاد کر دیا اور اپنا متنبیٰ بیٹا بنا لیا۔ یہ میر ا وارث ہو گااور میں اس کا وارث ہو ں گا۔ زیدؓ کے باپ اور چچا یہ کیفیت دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور انھیں حضورﷺ کے پاس چھوڑ کر چلے گئے ۔ اسی روز سے لوگ زید کو بجائے زید بن حارث کے زید بن محمدﷺ کہنے لگے ۔
لیکن ہجرت کے بعد یہ حکم نازل ہوا کہ منہ بولا بیٹا یعنی متنبیٰ بنانا جائز نہیں ہے تو زیدؓ کو پھر زیدؓ بن حارث کہنے لگے ۔ مگر ان کے ساتھ آنحضورﷺ کی محبت و شفقت بڑھتی گئی ۔ آنحضورﷺ کے اخلاق و خصائل کا اِ سی ایک واقعے سے اندازہ ہو سکتا ہے ۔
غارِ حرا میں خلوت نشینی 
جب آپﷺ کی عمر انتالیس سال ہو گئی تو آپﷺ غار حرا میں جا کر مراقبہ کرنے لگے ۔ غار حرا مکہ معظمہ سے تیس میل کے فاصلے پر مِنیٰ کو جاتے ہوئے بائیں جانب پہاڑ پر واقع ہے ۔
اس غار کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز ہے ۔ جس پہاڑ پر یہ غار ہے آج کل اسے جبل نور کہتے ہیں ۔ حضورﷺ اس غار میں تشریف لے جاتے اور مہینوں قیام فرماتے ۔ آپﷺ ستو اور پانی اپنے ہمراہ لے جاتے اور عبادت و ذکر الٰہی میں مشغول ہو جاتے ۔
جب کھانے پینے کا سامان ختم ہو جاتا تو گھر پر تشریف لاتے اور ستو پانی لے کر پھر چلے جاتے ۔
طلوعِ آفتاب 
جب آنحضرت ﷺ کی عمر پورے ۴۰ سال ہو گئی تو پھر دنیا میں عجیب باتوں کا ظہور ہونے لگا۔ ستاروں کی روشنی بڑھ گئی ، آسمان پر شہاب ثاقب کثرت سے نمودار ہونے لگے۔شبِ ظلمات میں عجیب قسم کی روشنی نظر آنے لگی ۔
کاہنوں نے کہنا شروع کر دیاکہ دنیا میں انقلابِ عظیم آ نے والا ہے اور وہ ہستی جو آج سے چالیس سال پہلے پیدا ہوئی ہے ظاہر ہو کر دنیا کا تمدن بدلنے والی ہے ۔ نئی نئی پیشین گوئیاں کی جانے لگیں ۔ لوگوں میں ہل چل مچ گئی ۔
بت پرستوں میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ یہودی اور عیسائی جو ایک عرصے سے نبی آخرالزماں ﷺ کا انتظار کر رہے تھے ، اپنی آسمانی کتابیں دیکھ دیکھ کر کہنے لگے کہ نبی آخر الزماں ﷺ عنقریب ظاہر ہونے والے ہیں ۔ آمد سحر کی خبر دی جا چکی تھی۔ سپیدۂ سحر نمودار ہو چکا تھا۔ اب آفتابِ رسالت طلوع ہو رہا تھااور دنیا کی تیرگئ کفر آفتاب رسالت کے نور سے سمٹنے لگی تھی ۔
قدرت کا یہ اصول رہا ہے کہ ہر انسان کو جو رتبہ عطا کیا جانے والا ہوتا ہے پہلے اس کے تحمل کی اسے قوت دی جاتی ہے اور پھر وہ رتبہ عطا ہوتا ہے ۔چنانچہ آنحضرت ﷺ کی روحانی قوتیں تحمید الٰہی اور تقدس خداوندی سے نشوونما پا کر خلوت نشینی ، مراقبے اور عبادت سے اس قدر پختہ ہو چکی تھیں کہ نزولِ وحی کی متحمل اور منصب نبوت کے برداشت کے قابل ہو گئی تھیں۔ 
نزولِ وحی
جب آپﷺ کی عمر پورے چالیس سال اور ایک دن ہو گئی تو ایک روز جب کہ آپﷺ غار حرا میں مراقبے میں مصروف تھے، حضرت جبرائیل ؑ پیغمبروں کے پاس اللہ کا پیغام لانے والے فرشتے ، انسانی صورت میں نازل ہوئے ۔
حضورﷺ ان کی روشن صورت اور پاکیزہ لباس دیکھ کر متردّد ہوئے اور بیم ورجا کی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے ۔ حضرت جبرائیل ؑ نے کہا،اِقراء یعنی پڑھو۔ حضورﷺ نے فرمایا:وَمَا انا بقاری یعنی میں پڑھنانہیں جانتا ۔
حضرت جبرائیل ؑ نے آپﷺ کو آغوش میں لے کر بھینچااور جھنجھوڑ کر کہا:اِقْراء یعنی پڑھو۔
آپﷺ نے پھر وہی جواب دیا۔ وَمَا انا بقاری یعنی میں پڑھنا نہیں جانتا ۔ حضرت جبرائیل ؑ نے پھر آپﷺ کو بھینچا ۔ اس مرتبہ اس شدت سے بھینچاکہ حضورﷺ کو تکلیف پہنچی اور جبرائیل ؑ نے کہا:
اِقْراْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔خَلَقَ الاِنْسَانَ مِنْ عَلَقِِ ۔ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُ الَّذِیْ عَلَّمَ 
بِالْقَلَمِ ۔عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ۔(سورۃ العلق ۵۔۱)
ترجمہ :پڑھو اس کا نام لے کر جس نے کائنات کو پیدا کیا ۔ جس نے انسان کو گوشت کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ پڑھو اور تمہارا رب بڑا کریم ہے ۔ وہ جس نے انسان کو قلم کے ذریعے سے علم سکھایا ۔جس نے انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو اسے معلوم نہ تھیں ۔
حضرت جبرائیل ؑ اتنا کہہ کر غائب ہو گئے ۔ آپﷺ جلال الٰہی سے خوف زدہ ہو گئے اور وہاں سے چل کر گھر تشریف لائے ۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ ﷺ کو دیکھا ۔ وہ گھبرا گئیں ۔آنحضورﷺ نے فرمایا:
زمتلونی ، زمتلونی یعنی مجھے کمبل اوڑھاؤ ۔ مجھے کمبل اوڑھاؤ ۔ حضرت خدیجہؓ نے فوراًآپ کو کمبل اوڑھا دیااور آپﷺ کے پاس بیٹھ گئیں ۔
نہایت متردّد اور مضطرب تھیں ۔ تھوڑی دیر کے بعد جب حضورﷺ پُر سکون ہوئے تو آپﷺ نے ا ٹھ کر تمام واقعہ حضرت خدیجہؓ سے فرمایا:’’مجھے اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے ۔‘‘
حضرت خدیجہؓ نے تسلی دی اور فرمایا:’’نہیں نہیں ۔آپﷺ کو خوش ہو نا چاہیے ۔ خداآپﷺ کو کبھی رسوا نہ کرے گا ۔ کیونکہ آپﷺ ہمیشہ صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ ہمیشہ سچ بولتے رہے ہیں اور ان کے اخراجات کے کفیل رہے جو نادار تھے اور آپﷺ میں وہ تمام اخلاقی خوبیاں موجود ہیں جو دوسر ے لوگوں میں نہیں پائی جاتیں ۔ آپﷺ مہمان نواز ہیں اور حق باتوں اور نیک کاموں کی وجہ سے اگر کسی پر کوئی مصیبت آجائے تو آپﷺ اس کے مددگار بن جاتے ہیں ۔‘‘
اس گفتگو سے آنحضرت ﷺ کو ایک گو نہ تسلی ہو گئی ۔ یہاں یہ بات ملحوظ رکھنی چاہیے کہ حضرت خدیجہؓ نے جو آپﷺ کی محرم راز تھیں ، آپﷺ کی خوبیاں کس طرح بیان کی ہیں ۔ مؤرخین اور محدثین نے آنحضورﷺ کے ترددو اضطراب کی مختلف تو جیہات پیش کی ہیں ۔
بعض نے لکھا ہے کہ نبوت کے بار گراں کی عظمت سے حضورﷺ متردد ہوئے ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیل ؑ کی ہیبت سے خوف لاحق ہوا۔ بعض کا قول ہے کہ جلال الٰہی کا اثر تھا۔ درحقیقت حضورﷺ کو جس وجہ سے ترددو اضطراب لاحق ہوا اس کا جواب خود قرآن شریف میں موجود ہے :
اللہ تعالیٰ سورۃ الحشر کے آخر میں فرماتے ہیں :
لَوْ اَنْزَلْنَاَھٰذَا الْقُرْاٰ نَ عَلیٰ جَبَلِِ لَّرَاَیْتَہٗ خَاشِعََا مُّتَصَدِّعََاا
مِّنْ خَشْیَۃِاللّٰہِ ۔وَتِلْکَ الْاَمْثَالُ نَضْرِ بُھَا لِلنَّا سِ لَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ۔(۲۱)
ترجمہ :
اگر ہم اس قرآن مقدس کو پہاڑ پر اُتارتے تو وہ بھی خدا کے خوف سے دب اور پھٹ جاتا۔
حضورﷺپر اس کلام پاک کی ہیبت چھا گئی تھی ۔ حضرت خدیجہؓ آنحضرت ﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ۔
یہ ورقہ وہی تھے جو عیسائی ہو گئے تھے اور ان کا شمار بلند مرتبہ عیسائی علماء میں ہوتا تھا ۔ وہ اس وقت بوڑھے ہو گئے تھے ۔ حضرت خدیجہؓ نے ورقہ سے تمام کیفیت بیان کی ۔ ورقہ نے سارے حالات سن کر کہا ، یہ وہی ناموسِ اکبر ہے جو حضرت موسیٰ ؑ پر نازل ہو ا تھا ۔ حضرت عیسیٰ ؑ بھی اس ناموسِ اکبر کے پیغامبر تھے ۔ کاش میں جوان ہوتااور اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ ﷺ کی قوم آپ کے ساتھ زیادتی کر کے اپنے وطن سے نکال دے گی ۔ 
آنحضرت ﷺ نے حیرت سے پوچھا: کیا مجھے میری قوم نکال دے گی ؟
ورقہ نے کہا: دنیا میں جو بھی رسول آیا ، اس نے توحید کی تعلیم پیش کی اور اس کی قوم نے اس کے ساتھ دشمنی کی ۔ آپﷺ کے ساتھ بھی یہی پیش آئے گا ۔ آپﷺ نے فرمایا۔ خدا میری مدد کرے گا ۔
صحیح بخاری باب التعبیر میں ہے کہ چند روز تک وحی رکی رہی ۔ آپﷺ کو نہایت پریشانی ہوئی اور یہ خدشہ ہونے لگا کہ کہیں جن کا وسوسہ تو نہ تھا۔ اگر ایسا ہے تو مجھے ایسی زندگی پسند نہیں ۔ اس سے کہیں یہ بہتر ہے کہ میں قلعہ کوہ سے گرا کر خود کو ہلاک کر ڈالوں ۔
چنانچہ آپﷺ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے اور چاہا کہ کود جائیں کہ دفعتاً جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور فرمایا۔
اے محمدﷺ آ پ رسول اللہ ﷺ ہیں اور میں جبرائیل ہوں ۔ آپﷺ کو یہ سن کر قدرے اطمینان ہوااور فکر و پریشانی دور ہو گئی ۔
آپﷺ بدستور غارِ حرا میں تشریف لے جاتے اور مراقبے میں مصروف رہتے ۔ ایک روز آپ ﷺ مراقبے میں مصروف تھے کہ حضرت جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور کہا اٹھواور میرے ساتھ چلو۔ آنحضورﷺ ان کے ساتھ چل پڑے ۔
جب کوہ صفا اور کوہ مروہ کے درمیان پہنچے تو ان کے گلے میں حضور ﷺ کو ایک تختی لٹکتی نظر آئی جس پہ لکھا تھا :لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ یعنی سوائے خدا کے کوئی معبود نہیں ہے اور حضرت محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ۔ حضرت جبرائیل ؑ پھر غائب ہوگئے اور آنحضرت ﷺ پھر مضطرب حالت میں گھرپہنچے اور حضرت خدیجہؓ کو تمام واقعہ سنایا ۔حضرت خدیجہؓ کو بھی شبہ گزرا ۔ وہ پھر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں اور ان سے کہا :کہ ’’محمدﷺ کہتے ہیں کہ ان کے پاس جبرائیل آتے ہیں ۔‘‘ورقہ نے کہا’’ضرور آتے ہیں کیونکہ وحی الٰہی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے ۔‘‘حضرت خدیجہؓ نے پوچھا ’’یہ جبرائیل ؑ کون ہیں ؟‘‘
ورقہ نے جواب دیا جبرائیل ؑ وہ مقدس فرشتے ہیں جو انبیاء پر اللہ کا پیغام لے کر آتے ہیں ۔حضرت خدیجہؓ نے کہا، مجھے شبہ ہے کہ کہیں جن وغیرہ نہ ہو۔
ورقہ نے کہا، یہ نہیں ہو سکتا لیکن اگر تم کو شبہ ہے تو میں انجیل مقدس تمھیں دیتا ہوں ۔ جب ان پر وحی نازل ہو ، یہ کتاب ان کے سامنے کر دینا ۔ اگر جن کا اثر ہو گا تو محمدﷺ کا چہرہ متغیر ہو جائے گااور اگر واقعی جبرائیل ؑ آتے ہیں تو کوئی اثر نہ ہوگا۔
چنانچہ حضرت خدیجہؓ انجیل کوچھپا کے لے آئیں ۔ ایک روز آنحضرت ﷺ غار حرا سے مکان کو تشریف لا رہے تھے کہ پھر حضرت جبرائیل ؑ کو دیکھا ۔ آپ ﷺ پر ہراس طاری ہو گیااور آپ ﷺ گھر آکر کپڑا اوڑھ کر لیٹے رہے ۔ تھوڑی ہی دیر بعد آپﷺ نے آواز سنی :
ترجمہ:اے چادر اوڑھ کر لیٹنے والے !اٹھیے اور خبر دار کیجیے اور اپنے رب کی بڑائی کا اعلان کیجیے ۔ اپنا لباس پاک رکھیے اور گندگی سے دور رہیے ۔ احسان کسی فائدے کی خاطر نہ کیجیے اور اپنے رب کے لیے صبر کیجیے ۔
(سورۃالمدثر :۷۔۱)
آپﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور حضرت خدیجہؓ سے پھر تمام کیفیت بیان کی۔ وہ جلدی سے انجیل اٹھا لائیں اور اس کو حضورﷺ کے سامنے کر دیا۔ حضورﷺ نے اسے دیکھ کر پوچھا :یہ کیا ہے ؟
حضرت خدیجہؓ نے اپنا ورقہ کے پاس جانے کاحال بیان کر کے کہا کہ آج مجھے اطمینان ہو گیا کہ آپ ﷺ پر جن کا اثر نہیں ہے ۔ ضرور آپﷺ نبی مبعوث ہوئے ہیں ۔ اس واقعے کے بعد وحی کا سلسلہ برابر جاری رہا ۔ ایک روز جبرائیل پھر نازل ہوئے اور آپﷺ کو قلعہ کوہ پر لے جا کر حضورﷺ کے سامنے خود وضو کیااور کہا۔ آپﷺ بھی اس طرح وضو کریں ۔ آنحضورﷺ نے بھی اسی طرح وضو کیا ۔ پھر جبرائیل ؑ نے دو رکعت نماز پڑھی ۔ آپﷺ نے بھی اسی طرح پڑھی اور عرصے تک دو رکعت ہی پڑھتے رہے ۔

تبلیغ اسلام 
آنحضورﷺ پر جب وہ آیاتِ مقدسہ نازل ہوئیں جن میں تبلیغِ اسلام کا حکم تھا تو آپﷺ نے سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے بت پرستی سے منع کیا ہے، کیا تم کفر و شرک سے توبہ کر کے خدا پرستی اختیار کرو گی ؟
حضرت خدیجہ نے لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کر لیا ۔ ان کے بعد آپﷺ کا غلام زیدؓ ایمان لایا۔ پھر حضرت علیؓ اسلام لائے ۔ اس وقت ان کی عمر صرف دس سال تھی ۔ ان تینوں کے مسلمان ہونے سے حضورﷺ کو بہت خوشی حاصل ہوئی ۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ آپ کے احباب میں سے تھے ۔ بہت مال دار اور صاحب رائے تھے۔ حضورﷺ نے انھیں دعوت اسلام دی انھوں نے بھی بلا کسی پس و پیش کے فوراًاسلام قبول کر لیا ۔
اور ا ن کی کوشش تبلیغ سے حضرت عثمانؓ بن عفان ، زبیرؓ بن العوام ، عبدالرحمنؓ بن عوف ، سعدؓ بن وقاص ، طلحہؓ بن عبداللہ اسلام لائے ۔ ان کے بعد عثمانؓ بن مطعون ، ابو عبیدہؓ بن الجراح ، ابو سلمہؓ بن عبداللہ ۔ تخرومی قمؓ بن ابی الاقم آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ ان کے بعد حضرت فاطمہؓ اور حضرت سعید کی پھوپھی بھی مسلمان ہوگئیں۔ اس طرح حضرت عمیرؓ ، حضرت صہیبؓ ، حضرت عبداللہؓ بن مسعود ، حضرت جعفرؓ بن ابو طالب وغیرہ ایمان لائے اور یہ مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی جماعت تیار ہو گئی جس میں مرد ،عورتیں اور جوان، بوڑھے سبھی شامل تھے ۔
چونکہ مشرکین کا خوف تھا اس لیے نماز بھی کفار کی نظروں سے چھپ کر پڑھی جاتی ۔
ایک دن حضرت سعدؓ بن وقاص چند مسلمانوں کے ساتھ ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ چند کافر وہاں آنکلے اور نماز پڑھنے سے روکا ۔ جب مسلمان نہ رکے تو ایک کافر نے تلوار سے حملہ کیا حضرت سعدؓ بن وقاص نے کافر کا مقابلہ کر کے اسے زخمی کر دیا ۔ راہ خدا میں اٹھائی جانے والی یہ سب سے پہلی تلوار تھی ۔
علانیہ تبلیغ 
اب مسلمانوں میں اتنی طاقت آچکی تھی کہ وہ علانیہ تبلیغ کرتے اور ا س کے بارے میں حکمِ خداوندی بھی آچکا تھا۔ چنانچہ ایک روز حضورﷺ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور بلند آواز سے لوگوں کو پکارا۔ حضورﷺ کی آواز سنتے ہی لوگ جمع ہو گئے ۔ آپﷺ نے فرمایا ’’اے لوگو!اگر میں تم سے کہوں کہ پہاڑ کے پیچھے ایک بڑا لشکر جمع ہے اور دفعتاً تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات پر یقین کرو گے ؟‘‘ سب نے یک زبان ہو کر کہا ہم نے آپ ﷺ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں دیکھا اس لیے آپﷺ کی بات کا یقین کریں گے ۔
حضورﷺ نے فرمایا:اچھا تو سنو۔ بت پرستی اور کفر سے توبہ کرو ۔ خدا پر ایمان لاؤ ۔ ورنہ تم پر عذاب نازل ہو نے والا ہے ۔ یہ بات سن کر لوگ برہم ہوئے ۔ ابو لہب نے مجمع میں سے چلا کر کہا کہ تجھ پر ہلاکت ہو ۔ کیااسی بات کے لیے ہمیں جمع کیا تھا۔ لوگ واپس چلے آئے ۔ ایک روز آپﷺ حرم کعبہ میں پہنچے اور دعوت اسلام دی ۔ کفار مکہ نے آپﷺ کی اس جرأ ت کو اپنی توہین اور ذلت سمجھا ۔ اور بکتے جھکتے تلواریں لے کر آپﷺ پر ٹوٹ پڑے ۔ شور سن کر حضرت حارثؓ بن ابی ہالہ دوڑے ۔ دیکھا تو کفار مکہ آنحضورﷺ پر حملہ کر رہے تھے۔ 
وہ آنحضور ﷺ کو بچانے کے لیے آگے بڑھے ۔ کفار نے انھیں شہید کر دیا ، یہ اسلام کی راہ میں بہنے والا سب سے پہلا خون تھا۔ اسلام کی راہ میں سب سے پہلے شہید حضرت حار ثؓ تھے۔ جب ایام حج میں لوگ جمع ہوتے تو آنحضور ﷺ انھیں دعوت اسلام دیتے ، بعض مخول اڑاتے اور ہنس دیتے ، لیکن بعض سعید روحیں مشرف بہ اسلام بھی ہوجاتیں ۔ ابو لہب بہت گستاخیاں کرتا۔ لوگوں سے کہتا کہ حضورﷺ کی باتیں نہ سنو،یہ مجنوں ہے ، ان کا دماغ خراب ہے ، اور یہ پاگل ہو گیا ہے ،حتیٰ کہ وہ حضورﷺ پر غصے کی حالت میں پتھر کھینچ مارتا۔ آپﷺ جواب میں اسے کچھ نہ کہتے بلکہ نہایت نرمی سے تبلیغ اسلام جاری رکھتے ۔
ایک روز آنحضورﷺ طواف کعبہ میں مشغول تھے ۔ بعض شریر لوگوں نے آوازے کسنے شروع کیے اور حد سے بڑھ کر حضورﷺ پر معترض ہوئے ، جب ان کی گستاخیاں حد سے بڑھ گئیں تب آپ ﷺ نے بلند آواز سے فرمایا:
’’اے اہل قریش !تمہاری گستاخیاں حد سے بڑھ گئی ہیں ۔ تم سنتے نہیں ، قسم خداوند پا ک کی ، اگر تم اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو تم پر عذاب الٰہی نازل ہو گااور تم فنا ہو جاؤ گے ۔‘‘
آنحضور ﷺ کی گفتگو سے کفار مرعوب ہوگئے ، ان پر ہیبت چھا گئی اور وہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے ۔ آپﷺ خانہ کعبہ سے باہر تشریف لے آئے ۔
تحریصِ جاہ 
آنحضورﷺ تبلیغ اور اشاعت اسلام میں ہر وقت مصروف رہتے اور باوجود کفار مکہ کے مظالم اور ریشہ دوانیوں کے مسلمانوں کی تعداد روز بروزبڑھتی جاتی تھی ۔ ایک روز قریش کا ایک وفد ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوا جس میں ابو جہل ، عتبہ بن ربیعہ ، ابوسفیان بن حرب شیبہ ، خاص بن ہشام ، ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل وغیرہ شریک تھے ۔
انھوں نے کہا کہ آپﷺ کا بھتیجا ہمارے خداؤں کو برا کہتا ہے اور ہمیں گمراہ بتاتا ہے ۔ آپ اسے سمجھائیں ۔ وہ ان باتوں سے باز آجائے یا آپ اس کی کفالت سے باز آجائیں ۔ اگر ایسا نہیں ہو سکتا تو آپ بھی اس کے ساتھ میدان میں آجائیں تاکہ روز روزکے جھگڑے کا فیصلہ ہو جائے یا جس طرح وہ چاہتا ہے ہم کرنے کو تیار ہیں بشر طیکہ وہ ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنا چھوڑ دے ۔
ابو طالب نے آنحضورﷺ کو بلا بھیجا ۔ جب آپﷺ تشریف لائے تو قریش کے وفد نے کہا کہ آپﷺ کی وجہ سے قوم کے جذبات بھڑک اٹھے ہیں ، اگر کشت و خون ہو گیا تو خون کی ندیاں بہ جائیں گی ۔ آپﷺ ایسی حرکتوں سے باز آجائیں تو اچھا ہے ۔ 
اگر آپ ﷺ کو دولت درکار ہے ، تو ہم آپﷺ کو سب سے زیادہ دولت مند بنا دیتے ہیں ۔ اگر سرداری چاہتے ہو تو ہم اپنا سردار بنا لیتے ہیں ، اگر حکومت چاہتے ہوتو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیتے ہیں۔ حسین عورت پر عاشق ہو تو ہم اسے بھی حاضر کر دیتے ہیں ۔ اگر کوئی آسیب کا اثر ہے تو اس کا علاج کرا دیتے ہیں ۔ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا مجھے کسی چیز کی خواہش نہیں ۔ نہ حکومت چاہتا ہوں اور نہ سرداری اور نہ ہی کسی اور چیز کی ضرورت ہے ۔ میں خدا کا رسول ﷺہوں اور خدا کے احکام تمہیں سناتا رہوں گا ۔ بتوں کو کوئی قدرت نہیں ہے ۔ انھیں تم نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ، یہ خدا نہیں ہو سکتے ۔ یہ جواب سن کر اہلِ وفد غصہ سے برا فروختہ ہو کر چلے گئے ۔ 
ان کے جانے کے بعد ابو طالب نے آنحضورﷺ کو نرم لہجے میں سمجھایا:’’جان من !اب حالت نہایت خطرناک ہو گئی ہے ۔ قوم مغلوب الغضب ہو گئی ہے ۔ میں بوڑھا ہو گیا ہوں ۔ تنہا ان کا مقابلہ نہ کر سکوں گا ۔ تم بتوں کی علانیہ برائیاں نہ کرو۔‘‘
آنحضورﷺ نے فرمایا:’’یاعم!اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج لاکر رکھ دیں میں تب بھی خدا کا پیغام پہنچانے سے باز نہ آؤں گا۔ خواہ میری جان بھی چلی جائے ۔ ‘‘ابو طالب اس جواب سے حد درجہ متاثر ہوئے اور اپنی حمایت و کفالت کا اعلان کر دیا۔

اوّائل اسلام میں مسلمانوں پر ظلم و ستم 

حضرت بلالؓ 
امیہ بن خلف کے غلام اور حبشی نسل سے تھے ۔مؤذن کے لقب سے مشہور ہوئے ۔ جب ان کے مسلمان ہونے کی خبر امیہ کوہوئی تو انھیں قسم قسم کی تکلیفیں دینی شروع کیں ۔ دوپہر کے وقت جب ریت آگ کی طرح گرم ہو جاتی ، انھیں ننگی پشت کر کے لٹا دیا جاتا اور پتھر کی وزنی اور موٹی سل چھاتی پر رکھ دی جاتی ۔ پشت جل جاتی اور اس میں آبلے پڑجاتے اور سانس بھی رک جاتا۔ اس پر ظلم یہ کہ اوپر سے کوڑے مارے جاتے اور اسلام سے باز آنے کے لیے کہا جاتا ۔
حضرت بلالؓ کے انکار پر امیہ دیوانہ ہو جاتا اور اپنی انگلیاں چبا ڈالتا ۔ جب حضرت بلالؓ بے ہوش ہو جاتے تو ایک قطرہ پانی کا نہ دیا جاتا ۔ گلے میں رسی باندھ کر شریر لڑکوں کے حوالے کر دیے جاتے ۔
وہ انھیں گرم سڑکوں پر گھسیٹتے پھرتے ۔ کوڑے اور پتھر مار مار کر جسم لہو لہان کر دیا جاتا ۔ آپ بے ہوش ہو جاتے ۔ جب ہوش میں آتے ’’احد ، احد ‘‘پکارتے ۔ امیہ دیوانہ ہو جاتا اور غصے کی حالت میں ہر طرح کے ظلم و ستم کرتا۔
آخر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے انھیں خرید کر آزاد کر دیا۔ آزاد ہونے پر بھی وہ حضورﷺ کے غلاموں میں شامل رہے اور بلند مرتبہ پایا۔
حضرت زبیرؓ 
زبیرؓ کے چچا کو جب ان کے مسلمان ہونے کی اطلاع ملی تو سخت غصے کی حالت میں ان کے سر کے بال پکڑتے ہوئے دریافت کیا، ’’بدبخت ، کیاتو بھی مسلمان ہو گیا ؟‘‘
حضرت زبیرؓ نے اپنے مسلمان ہونے کا اقرار کیا ۔ یہ سن کر بڈھے چچا کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔ حضرت زبیرؓ کو کس کر باندھ دیااور چٹائی میں لپیٹ کر اُونی کپڑے کی مشعل سے آپ کے ناک میں دھواں دینا شروع کیا۔ جب آپ دھویں سے دوسری طرف منہ پھیرتے تو ظالم چچا سر کے بال پکڑ کر ناک دھوئیں کے قریب کر دیتا ۔
حضرت زبیرؓ بے ہوش ہو گئے مگر پھر بھی ظالم چچا باز نہ آیا یہاں تک کہ آپ کے کپڑے جل گئے ۔ بڈھا تھک گیا تو حضرت زبیر کو بے ہوش چھوڑدیااور ہوش میں لانے کی کوشش نہ کی ۔
حضرت عثمانؓ 
جب حضرت عثمانؓ کے چچا کو معلوم ہوا کہ آپ مسلمان ہو گئے ہیں تو غصے کی حالت میں پوچھا:
’’عثمان کیا تو محمدﷺ کے اللہ پر ایمان لے آیا ہے ؟‘‘
عثمانؓ نے جواب دیا’’یاعم !جو کچھ آپ نے سنا بالکل درست ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ۔‘‘ان کے چچا طیش میں آگئے ۔ حضرت عثمانؓ کو کھجور کی رسیوں میں جکڑ کر کوڑے مارنے شروع کیے۔ چمڑے کا کوڑا جسم کے جس حصے پر پڑتا کھال اتار دیتا۔ بدن زخموں سے چور ہو گیااور جسم کے ہر حصے سے خون جاری تھا، یہاں تک کہ آپ بے ہوش ہو گئے ۔ 
بے ہوشی کی حالت میں چچا کے حکم سے کوٹھری میں بند کر دیا گیا ۔ دوسرے دن پھر انھیں نکالا گیا ۔ پھر زود کوب کر نا شروع کر دیا گیا۔ آخر چچا تھک کر ہار گیا مگر حضرت عثمانؓ نے اسلام سے انکار نہ کیا۔
حضرت لبیّنتہؓ
آپ حضرت عمرؓ کی کنیز تھیں ۔ ابھی تک حضرت عمرؓ دولت اسلام سے مالا مال نہیں ہوئے تھے ۔ جب آپ کو لبینتہؓ کے مسلمان ہونے کی خبر ہوئی توسخت طیش میں آئے اور اس کے بال پکڑ کر کھینچتے ہوئے باہر لائے اور مارتے ہوئے دریافت کیا،’’بتا کون سے لالچ نے تجھے مسلمان ہونے پر آمادہ کیا ہے ؟‘‘
حضرت لبینتہؓ نے کہا !کسی لالچ نے نہیں ۔ حضرت محمدﷺ کوئی بادشاہ نہیں ہیں ۔ ان کے پاس کیا رکھا ہے صرف پیغام حق سن کر مسلمان ہو گئی ہوں ۔ یہ جواب سن کر حضرت عمرؓ غضب ناک ہو گئے ۔ انھوں نے مارنا شروع کیا یہاں تک کہ مارتے مارتے تھک گئے ۔ ایک طرف بیٹھ گئے اور کنیز سے کہا کہ رحم کی بنا پر تجھے نہیں چھوڑا ۔ بلکہ میں تھک گیا ہوں ، زندگی چاہتی ہے تو اسلام چھوڑدے ۔
کنیز نے اسلام چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ عمرؓ کو اس کے انکار پر طیش آگیا۔ پھر مارنا شروع کیا۔ کنیز بے ہوش ہو کر گر پڑی ۔ جب ہوش میں آتی تو عمر پھر مارتے ۔
حضرت صہیبؓ 
قریش مکہ نے حضرت صہیبؓ کو رسیوں سے جکڑ کر سخت گرم ریت پر چت لٹا دیا اور ان کے سینے پر دو قوی ہیکل جوان کھڑے مارتے جاتے اور اللہ کے نام سے انکاری ہونے کو کہتے جاتے تھے ۔ صہیبؓ سخت تکلیف میں ہونے کے باوجود کہتے جاتے تھے ’’اسلام نہ چھوڑوں گا، جان چھوڑدوں گا۔‘‘یہ بات سن کر قریش غضب ناک ہو گئے ۔ پتھر مارنے شروع کر دیے ۔ آپ نے پانی مانگا ۔ کسی نے رحم نہ کھایااور بے ہوشی کی حالت میں بھی قریش حضرت صہیبؓ پر ظلم و ستم سے باز نہ آئے ۔
حضرت ابو فکیہہؓ
آپ کے دونوں پاؤں میں رسی باندھ کر گرم ریت پر گھسیٹاگیا تھا۔ تمام جسم چھل گیا تھا ۔ زخموں پر گرم ریت چپک کر بہت تکلیف دے رہی تھی ۔امیہ نے ازراہ تمسخر ابو فکیہہؓ کو ایک قریش کی طرف اشارہ کر کے کہا ’’دیکھ ، یہ تیرا اللہ کھڑا ہے ۔ ‘‘ابو فکیہہؓ نے کہا ۔’’میرا اور تیرا اللہ وہ ہے جس کے قبضے میں میری اور تمہاری جان ہے ۔‘‘
یہ جواب سن کر امیہ کو سخت غصہ آیا ۔ ابو فکیہہؓ کا گلا پکڑ کر اس قدر زور سے دبایا کہ آنکھیں باہر نکل آئیں ۔ سانس رک گیا ۔ بے ہوش ہو گئے ۔ سب نے سمجھا مر گئے ہیں ۔
تھوڑی دیر بعد ہوش میں آئے ۔ امیہ نے پھر دریافت کیا، بتا اللہ کون ہے ۔ آپ نے وہی جواب دیا جو اس سے قبل دیا تھا۔ امیہ غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ ایک وزنی اور گرم پتھر کئی آدمیوں سے اٹھوایا اور ابو فکیہہؓ کے سینے پر رکھ دیا۔
پتھر اس قدر بوجھل تھا کہ ان کی زبان باہر نکل آئی ۔ بیدم ہو گئے ۔ امیہ نے پوچھا ۔ اب بتا کہ اللہ کون ہے ، حضرت ابو فکیہہ نے اشارے سے آسمان کی طرف انگلی کی ۔
حضرت سمیہؓ 
دشمن اسلام کفار اعظم ابو جہل کی لونڈی تھیں ۔ ان کے اسلام لانے سے ابو جہل کو سخت غصہ آیااور دیوانگی کی حالت میں برچھی ان کے سینے میں مار دی ، خون فوارہ کی طرح نکل آیا۔ ابو جہل کہہ رہا تھا۔ اقرار کر کہ ابو جہل سب سے بڑا خدا ہے ۔ انھوں نے کہا۔ ابو جہل خدا نہیں ہے ۔ یہ سنتے ہی ابو جہل نے حضرت سمیہؓ کے دل پر برچھی ماری ۔ ان کی زبان سے اللہ کا نام نکلااور جنت کو سدھاری ۔ ان کے لڑکے حضرت عمار نے والدہ کو شہید ہوتے دیکھ کر ان کا سر اٹھا کر اپنے زانو پر رکھ لیااور کہا!اٹھو پیاری امی ۔ اللہ کے لیے اٹھو ۔ اللہ کا نام سن کر کافروں کو غصہ آگیا۔ 
حضرت عمارؓ کو بھی اتنا مارا گیا کہ وہ بے ہوش ہو کر اپنی والدہ کی لاش پر گر گئے ۔ یہ دیکھ کر حضرت عمارؓ کے والد حضرت یاسرؓ نے ابو جہل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’تم جتنا مرضی ظلم کر لو مگر کوئی مسلمان اپنے اللہ کو نہیں چھوڑ سکتا اور میں بھی مسلمان ہوں۔ یہ سنتے ہی ابو جہل نے دو اونٹ منگوائے ۔ کافروں نے حضرت یاسرؓ کے دونوں ہاتھ ایک اونٹ سے کس دیے جبکہ دوسرے اونٹ سے دونوں پاؤں باندھ دیے ۔ حضرت یاسر دونوں اونٹوں کے درمیان لٹکنے لگے ۔ اونٹوں کو مخالف اطراف میں ہانکا گیا۔ اونٹوں کے چلنے سے حضرت یاسرؓ کوجھٹکا لگااور دونوں ہاتھ بازوؤں سے اکھڑ گئے ۔
غرضیکہ مسلمانوں پر اس قدر ظلم و ستم ڈھائے گئے جن کی نظیر دنیا کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے ۔ اس پر بھی بعض احمق لوگ اسلام پر بہتان لگاتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ کیا یہ ظلم و ستم مسلمان کر رہے تھے ؟ یا تلوار کفار کے ہاتھ میں تھی ؟ یااسلام فطرت کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے پھیلااور آج بھی پھیل رہا ہے ۔ اگر ہم ان تمام مظلوموں کی داستانیں لکھیں توپڑھنا دشوار ہوجائے ۔ یہاں صرف چند واقعات پر اکتفا کیا گیا ہے ۔
ہجرت 
جب قریش کے ظلم و ستم حد سے بڑھ گئے تو مسلمانوں کی مظلومی اور بے کسی کی یہ کیفیت دیکھ کر حضورﷺ نے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دیدی اور اس مقصد کے لیے حبشہ کو منتخب کیا گیا۔ 
یہاں کا بادشاہ عیسائی تھا، عرب اسے نجاشی کہا کرتے تھے ۔ سب سے پہلا قافلہ نبوت کے پانچویں سال جس میں گیارہ مرد اور چار عورتیں تھیں رات کے وقت مکہ سے روانہ ہو کر جدہ کی بندرگاہ پہنچا۔ اتفاقاًیہاں سے ایک تجارتی جہاز جا رہا تھااس لیے سستا کر ایہ فی شخص پانچ درہم ادا کرنا پڑا ۔
یہ لوگ جہاز میں سوار ہو کر حبشہ پہنچ گئے ۔ کفار مکہ کو جب مسلمانوں کی ہجرت کا علم ہوا تو وہ بھی تعاقب میں چلے آئے مگر جدہ آکر انھیں معلوم ہو ا کہ مسلمان حبشہ کو روانہ ہو گئے ہیں ۔ مسلمانوں کو حبشہ جا کر آرام نصیب ہوا ۔ جب مکہ کے مسلمانوں کو ان کی خیریت کی خبر ملی تو جب اور جسے موقع ملتا وہ کسی نہ کسی طرح حبشہ پہنچنے کی کوشش کرتا ۔
رفتہ رفتہ اسی مرد اور گیارہ عورتیں کل اکیانوے مسلمان ملک حبشہ میں ہجرت کر گئے جن میں ہر طبقے کے لوگ تھے ۔ کفار کو جب یہ معلوم ہوا کہ مسلمان متواتر حبشہ کی طرف ہجرت کرر ہے ہیں اور وہاں بلاخوف و خطر زندگی بسر کر رہے ہیں تو انھوں نے ایک دن عمروؓ بن العاص اور عبداللہؓ بن ربیعہ (آپ دونوں اُس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے )کی قیادت میں بیش قیمت تحائف دے کر ایک وفد حبشہ روانہ کیاتا کہ شاہِ حبشہ کو مسلمانوں سے بد ظن کر وا کے انھیں واپس لایا جائے ۔
یہ وفد حبشہ پہنچ کر شاہ نجاشی کے دربار میں باریاب ہوااور تحائف پیش کر تے ہوئے عمروؓ بن العاص نے کہا کہ ہمارے ملک میں ایک جادو گر پیدا ہوا ہے جس کا نام محمدﷺ ہے اور اس نے ایک نیا مذہب جاری کیا ہے ، بتوں کی تو ہین کرتا ہے اور عیسائی مذہب کو بھی برا کہتا ہے ۔اس کے پیرو کار وہاں سے بھاگ کر آپ کے ملک میں آگئے ہیں ۔ آپ انھیں ہمارے حوالے کر دیں۔ نجا شی حیران ہوا اور اس نے مسلمانوں کو اپنے دربار میں طلب کیااور دریافت کیا: کیا تم لوگ بت پرستی اور نصرانیت کے خلاف ہو ؟
حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے کہا :’’اے بادشاہ !ہم لوگ جاہل تھے بدکار تھے ۔ کمزوروں کو مار ڈالتے تھے ۔ا للہ تعالیٰ نے ہم پر رحم کیا اور ہم میں ہی ایک رسول ﷺ بھیجا ۔ انھوں نے ہمیں نیکی کی دعوت دی ۔ ہم اُن کی صداقت سے خوب واقف تھے ۔ ہم اُن پر ایمان لے آئے اور بُرے اعمال سے توبہ کی ۔
ہماری قوم نے ہم پر ظلم کرنا شروع کیا۔ تنگ آکر ہم وہاں سے نکل آئے اور اس ملک میں آکر پناہ لی ۔ اب یہ ہم پر ظلم و ستم کرنے کے لیے ہمیں یہاں سے لے جاناچاہتے ہیں ۔‘‘
نجاشی نے پوچھا:’’کیاتمہارے رسول اللہ ﷺ پر کوئی کتاب بھی نازل ہوئی ہے ؟‘‘حضرت جعفر نے جواب دیا، ہاں، قرآن شریف نازل ہوا ہے ۔
نجاشی نے کہا کہ تم کو قرآن کا کوئی حصہ یاد ہے ؟ میں سننا چاہتا ہوں ۔
حضرت جعفرؓ نے سورۃ مریم کی تلاوت شروع کی ۔ عام مسلمان ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے ۔ حضرت جعفرؓ نہایت خوش الحانی سے تلاوت قرآن پاک فرما رہے تھے ۔ 
نجاشی پر رِقت طاری ہو گئی اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے ۔ اس نے کہا ، اللہ کی قسم اس کلام سے صداقت کی خوشبو آرہی ہے ۔ یہ وہی ہے جوتوریت اور انجیل میں ہے ۔اس نے عمر وؓ بن العاص کو مخاطب کر تے ہوئے کہا:
’’تم واپس جاؤ ، میں ان مظلوموں کو ہر گز تمہارے حوالے نہ کروں گا ۔ عمروؓ بن العاص نے کہا ’’عالیجاہ !یہ لوگ عیسیٰ کو خدا کا بیٹا نہیں مانتے ۔‘‘
نجاشی نے حضرت جعفر سے پوچھا ’’کیا یہ لوگ سچ کہہ رہے ہیں ؟‘‘
حضرت جعفر نے کہا ’’ہمارے پیغمبرؓ نے حضرت عیسیٰ ؑ کو اللہ کا پیغمبر ،کلیم اللہ اور خدا کے بندے بتایا ہے ۔‘‘
نجاشی نے کہا خدا کی قسم تم سچ کہتے ہو ۔ اس کے بعد نجاشی نے وہ تحائف واپس کر دیے جو سفیر ساتھ لائے تھے اور یوں اہل قریش کا وفد ذلت اور ناکامی کے ساتھ واپس ہوا۔ 
یہ واقعہ نبوت کے چھٹے سال میں پیش آیا۔
امیر حمزہؓ کا قبول اسلام 
ایک روز آنحضورﷺ عصر کے وقت نماز پڑھ رہے تھے کہ ابو جہل اس کی طرف آنکلا ۔ آپ ﷺکو دیکھ کر جل گیا،غصے میں گالیاں بکنے لگا اور ایک پتھر کا ٹکڑا اٹھا کر آپ ﷺ پر مارا جس سے آپ ﷺ زخمی ہو گئے اور خون بہنے لگا۔
ایک کنیز اتفاق سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی ۔ وہ واپس آرہی تھی کہ شام کے کے وقت حضرت حمزہؓ شکار سے واپس آتے ہوئے ملے ۔ حضرت حمزہؓ نہایت بہادر اور بڑے جنگ جو اور آنحضورﷺ کے چچا تھے۔
کنیز نے انھیں دیکھ کر تمام واقعہ حضرت حمزہؓ کو سنایا ۔ حضرت حمزہ کو غصہ آگیا ۔ سیدھے حرم میں آکے ابو جہل کے سر پر اس زور سے کمان ماری کہ اس کا سر پھٹ گیا ۔آپ نے کہا کہ تو میرے بھتیجے کو تنگ کرتا ہے ۔تجھے خبر نہیں ہے کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں ، اگر تجھ میں ہمت ہے تو میرے سامنے آ۔
ابو جہل کے ساتھی حضرت حمزہؓ پر حملہ کرنے کے لیے اٹھے مگر ابو جہل نے انھیں ایسا کرنے سے منع کر دیا کیونکہ وہ حضرت حمزہؓ کی سپہ گری اور بہادری سے خوب واقف تھا۔ 
حضرت حمزہؓ نے ابو جہل سے یہ تو کہہ دیا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں مگر ابھی تک وہ مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ واپس آکر انھوں نے آنحضورﷺ سے کہا کہ میں نے ابو جہل سے آپﷺ کا بدلہ لے لیا ہے ۔
حضورﷺ نے فرمایا ، چچا جان میں تو تب خوش ہوں گاجب آپ مسلمان ہو جائیں گے ۔ آپ نے ایک اندھے کو اس لیے مارا کہ اسے نظرنہیں آتا ، میں اسے اچھا نہیں سمجھتا ۔ 
آنحضورﷺ کی یہ بات اثر کر گئی اور حضرت حمزہؓ اسی وقت مشرف بہ اسلام ہو گئے ۔ مسلمانوں کو ان کے اسلام لانے سے بڑی خوشی اور تقویت ملی ۔
حضرت عمر ؓ کا قبول اسلام
حضرت حمزہؓ کے مسلمان ہونے سے قریش کا غصہ او ر بڑھ گیا۔ا بو جہل نے اعلان کر دیا کہ جو محمدﷺ کو مار ڈالے گا ، اسے ایک سو اونٹنیاں اور ہزارا وقیہ چاند ی انعام دوں گا ۔
حضرت عمرؓ نے جب یہ اعلان سنا تو وہ اس کام کے لیے تیار ہوگئے ۔ حضرت عمرؓ بہادر، بڑے جنگ جو اورپہلوان تھے ۔ مسلمانوں کی ایذا رسانی میں سب سے آگے تھے ۔ انھوں نے قریش کی مجلس میں جا کر اعلان کیااور تلوار میان سے کھینچ لی اور محمدﷺ کو قتل کرنے کے لیے چل پڑے ۔
بپھرے ہوئے شیر کی مانند برہنہ تلوار ہاتھ میں لیے جھومتے جھومتے جا رہے تھے کہ راہ میں نعیمؓ بن عبداللہ مل گئے ۔ انھیں معلوم نہ تھا کہ عمر کس ارادے سے جا رہے ہیں ۔ 
پوچھا کہاں جا رہے ہو، جواب دیامحمدﷺ کو قتل کرنے کے لیے تا کہ یہ فتنہ ختم ہو جائے ۔ 
حضرت نعیم نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر لو ،تمہای بہن اور بہنوئی دونوں مسلمان ہو چکے ہیں ۔ حضرت عمرؓ کو یہ سن کر بڑا غصہ آیا ۔ غیض و غضب میں بولے ۔ اگر یہ بات ہے تو پہلے ان دونوں کاصفایا کروں گا۔ حضرت نعیمؓ کا بھی یہی منشا تھا کہ عمرؓ کسی نہ کسی طرح اپنے ارادوں سے باز آجائیں اور حضرت محمد ﷺ کو اُن کے ارادے معلوم ہو جائیں ۔ حضرت عمرؓ غصے کی حالت میں پلٹ کر اپنی بہن فاطمہؓ کے گھر کی طرف چل دیے ۔ دروازہ بند تھا۔ اندر سے قرآن پاک پڑھنے کی آواز آرہی تھی ۔ بہن تلاوت کر رہی تھیں اور ان کے خاوند سعیدؓ بن زید سن رہے تھے ۔ غصے سے بے تاب ہو کر مکان میں داخل ہوئے ۔ حضرت عمرؓ کو اس حالت میں دیکھ کر ان دونوں نے قرآن شریف کے اوراق چھپادیے ۔
حضرت عمرؓ نے ڈپٹ کر پوچھا کہ تم کیا پڑھ رہے تھے۔ غصے سے سعیدؓ کو نیچے گرا کر مارنا شروع کیا۔ مارے جاتے تھے اور کہتے جاتے ، کم بخت ، کیا تو مسلمان ہو گیا ہے ؟ اے ذلیل کمینے ، تم نے مسلمان ہو کر ہمارے خاندان کے نام کو بٹا لگا دیا ہے ۔
بہن اپنے خاوند کی مدد کے لیے آگے بڑھی ۔ غصے نے حضرت عمر ﷺ کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔ اُنھوں نے بہن کو بھی اس قدر مارا کہ لہو لہان ہو گئی ۔ فاطمہ نے دلیری سے کہا،’’اے بھائی ، ہم مسلمان ہو گئے ہیں ،اب تم سے جو ہو سکتا ہے کر لو ۔‘‘یہ جواب سن کر بہن کی طرف دیکھا ، خون میں تر دیکھ کر غصہ کچھ کم ہوا اور کہا’’اچھا فاطمہ ، جو تم پڑھ رہی تھی مجھے بھی دکھاؤ ۔‘‘
فاطمہ نے کہا’’اس کو پاک لوگ ہی دیکھ سکتے ہیں اگر آپ غسل کر کے آئیں تو ہم آپ کو دکھا سکتے ہیں ۔‘‘
حضرت عمرؓ باہر تشریف لے گئے ، تھوڑی دیر بعد غسل کر کے آئے اور کہا’’دکھاؤ تم کیا پڑھ رہے تھے ؟‘‘حضرت فاطمہؓ نے قرآن مجید کے چند اوراق دکھائے ،آپ نے خود پڑھنا شروع کیا۔ جوں جوں پڑھتے جاتے قلب متاثر ہوتا جاتا تھا، یہاں تک اثر ہوا کہ رونے لگے اور بے ساختہ بولے مجھے محمد ﷺ کے پاس کے چلو۔
وہ صحابیؓ جو حضرت سعیدؓ اور فاطمہؓ کو درس قرآن دے رہے تھے اور عمرؓ کی آمد پر مکان میں چھپ گئے تھے ۔ اب عمرؓ کی بدلی ہوئی حالت دیکھ کر باہر نکل آئے اور کہا ’’عمرؓ مبارک ہو ، آنحضرت ﷺ کل دُعا فرما رہے تھے کہ اے اللہ !یاعمرؓ کو مسلمان کر دے یا ابو جہل کو۔ تمہارے حق میں دُعا قبو ل ہو گئی ہے تمھیں مبارک ہو ۔‘‘
حضرت سعیدؓ ، حضرت فاطمہ اور حضرت عمرؓ حضوراکرم ﷺ کی خدمت میں روانہ ہوئے حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں شمشیرِ برہنہ تھی ۔ دروازے پر دستک دی ۔ صحابہ نے جھانک کر دیکھا سب کو فکر ہوئی ۔ 
حضورﷺ نے فرمایا’’دروازہ کھول دو ۔‘‘حضرت حمزہ موجود تھے ، فرمایا’’اگر عمرؓ نیک ارادے سے آئے ہیں تو خیر ورنہ تلوار سے اُن کا سر اڑا دوں گا۔ ‘‘دروازہ کھولا گیا، حضرت عمرؓ اندر داخل ہوئے ، حضورﷺ نے حضرت عمرؓ کا دامن جھٹکتے ہوئے فرمایا’’عمرؓ کس ارادہ سے آئے ہو ؟‘‘عمرؓ نے عرض کی کہ اللہ کے سچے رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کے لیے حاضر ہوا ہوں ۔
حضورﷺ نے یہ سنتے ہی بلند آواز سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ۔ تمام صحابہ نے مل کر اس زور سے نعرہ لگایا کہ در و دیوار گونج اُٹھے ۔ حضوراکرم ﷺ نے کلمہ پڑھاکے حضرت عمرؓ کو مسلمان کر لیا ۔
مسلمان ہو تے ہی حضرت عمرؓ نے حضورﷺ کی خدمت میں عرض کی :’’اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ جب کفار علانیہ بت پرستی کر تے ہیں تو ہم بھی خانہ کعبہ میں چل کر علانیہ نماز کیوں ادا نہ کریں ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا!اگر تمہارا یہی ارادہ ہے تو چلو۔ سب لوگ خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوئے ، سب سے آگے حضرت عمرؓ شمشیر بر ہنہ لے کر چل رہے تھے ۔ کفار مکہ نے حضرت عمرؓ کو مسلمانوں کے ساتھ جب اس حالت میں آتے دیکھا تو کچھ کہنے کا حوصلہ نہ ہوااور یوں مسلمانوں نے خانہ کعبہ میں جا کر نماز ادا کی ۔ 
یہ سب سے پہلی نماز تھی جو خانہ کعبہ میں ادا کی گئی ۔ حضرت عمرؓ کے دبدبے سے کسی کو چوں و چرا کرنے کی بھی ہمت نہ ہوئی ۔ اس وقت حضرت عمرؓ کی عمر ۲۳ سال تھی اور نبوت کا چھٹا سا ل تھا۔
مقاطعہ 
اسلام کی روز افزوں ترقی دیکھ کر قریش نے جمع ہو کر ایک دن فیصلہ کیا کہ ابو طالب سے کہا جائے کہ محمدﷺ کو ہمارے حوالے کر دے تا کہ ہم اسے قتل کر دیں اور وہ اگر ایسا نہ کرے تو ان سے ہر قسم کا میل جول ترک کر دیا جائے ۔
ابو طالب سے مطالبہ کیا گیا تو انھوں نے انکار کر دیا ۔ اب کفار مکہ نے اس وقت تک مقاطعہ کا اعلان کر دیا۔ جب تک بنو ہاشم آنحضورﷺ کو قتل کے لیے اُن کے حوالے نہ کردیں ۔ اس وقت تک اُن سے کسی قسم کا میل جول اور بول چال نہ کی جائے ۔ 
اس قسم کا مضمون لکھ کر اور اس پر بڑے لوگوں کے دستخط کر وا کر درِ کعبہ پر آویزاں کر دیا گیا ۔ آنحضورﷺ تمام مسلمانوں اور خاندان بنو ہاشم کو ساتھ لے کر پہاڑ کی ایک گھاٹی شعب ابی طالب میں چلے گئے ۔ مسلمان اور بنو ہاشم پور ے تین سال تک اس گھاٹی میں محصور رہے کیونکہ ابھی تک حضورﷺ نے مسلمانوں کو کفار سے لڑائی کی اجازت نہ د ی تھی ۔
صرف حج کے ایام میں مسلمان گھاٹی سے باہر نکلتے ۔ حج سے فارغ ہو کر شام تک جس قدر مسلمان خور دو نوش خرید سکتے ، خرید کر پھر گھاٹی میں چلے جاتے ۔ تین سال کے بعد وہ عہد نامہ جو در کعبہ پر لٹکایا گیا تھا، دیمک نے صاف کر دیااور کچھ قریش کو مسلمانوں کی مظلومی پر بھی ترس آگیا ،یوں اس گھاٹی سے رہائی نصیب ہوئی ۔
ابو طالب کی وفات 
مسلمان جب گھاٹی سے باہر نکلے تو نبوت کا دسواں سال تھا۔ مسلمانوں کا خیال تھا کہ قریش اب ظلم و ستم سے باز آجائیں گے مگر ان کا خیال غلط نکلااور قریش کی عداوت پہلے سے بھی بڑھ گئی ۔
آنحضورﷺ کے چچا ابو طالب جنھیں آنحضورﷺ سے بہت محبت تھی ، بیمار ہو گئے۔ حضورﷺ ان کی عیادت کو تشریف لائے۔ اس وقت وہاں ابو جہل اور عبداللہ بن امیہ اور کئی دیگر قریش بیٹھے تھے۔ حضورﷺ نے فرمایا چچا جان آپ ہمیشہ مجھ پر مہربان رہے ہیں ، آپ نے ہر حالت میں میری معاونت کی ہے اور آپ کے مجھ پر بہت زیادہ حقوق ہیں ۔ میری ایک خواہش ہے کہ آپ میری خاطر کلمہ پڑھ لیجیے تا کہ آپ کی شفاعت ہو جائے ۔
ابو طالبؓ نے کہا ! جان من جو کچھ تم کہتے ہو درست ہے ۔ اب موت کا وقت قریب ہے۔ اگر میں اس وقت کلمہ پڑھ لوں تو لوگ مجھ پر بزدلی کا الزام لگائیں گے اور کہیں گے کہ موت سے ڈر کر کلمہ پڑھ لیا ۔ یہ بات تمھارے لیے بھی اچھی نہیں ہے اور مجھے بھی منظور نہیں ہے ۔
لیکن ابن اسحاق سے روایت ہے کہ جب ابو طالب کی حالت نزع کے قریب ہوئی تو اُن کے ہونٹ ہل رہے تھے ۔ حضرت عباسؓ نے کان لگا کر سنا تو ابو طالب کلمہ پڑھ رہے تھے ۔
ابو طالبؓ کی وفات اسی سال کی عمر میں ہوئی ۔
حضرت خدیجہؓ کی وفات
ابھی آنحضورﷺ کے شفیق چچا کی وفات کو چند روز ہوئے تھے کہ حضرت خدیجہ ؓ آنحضرت ﷺ کی پاک دامن اور نیک بیوی کا انتقال ہو گیا۔حضرت خدیجہؓ بنو اسد کی ایک معزز خاتون تھیں۔ آپ نے خو دخواہش کر کے حضور ﷺ سے عقد کیا تھا ۔ آپ عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لائیں ۔ آپ ﷺ حضرت فاطمہؓ کی والدہ تھیں اور اپنی تمام دولت تبلیغ اسلام کے لیے حضورﷺ کی خدمت میں پیش کر دی تھی ۔
آپ کو آبائی معاشرت کے برخلاف پردہ کے اہتمام سے دفن کیا گیا۔ ابو طالبؓ اور حضرت خدیجہؓ دونوں ہستیاں حضورﷺ کی بے حد غم گسار اور ہمدرد تھیں ۔ آپﷺ نے فرمایا یہ سال ’’عام الحزن‘ ‘یعنی غم کاسال ہے ۔
ظلم و ستم 
حضرت خدیجہؓ اور ابو طالبؓ کی وفات کے بعد قریش کو کسی کا پاس و لحاظ نہ رہا ۔ وہ چاہتے تھے کہ حضورﷺ کو قتل کر ڈالیں ۔
ایک دن آنحضرت ﷺ کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ پر کیچڑ اُچھال دیا۔ آپ ﷺ کے تمام بال اور کپڑے خراب ہو گئے اور آپ ﷺ اسی حالت میں گھر تشریف لے آئے ۔
حضورﷺ کی یہ حالت دیکھ کر حضرت فاطمہؓ پانی لے کر دوڑ یں ۔ سر دھلاتی تھیں اور فرط محبت سے روتی جاتی تھیں ۔ حضرت فاطمہؓ نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا ابا جان !یہ لوگ آپﷺ کو کیوں تنگ کرتے ہیں ؟
حضورﷺ نے فرمایا اس لیے کہ ان کی آنکھیں ہیں اور دیکھتے نہیں ۔ ہر زمانے میں نبیوں کو اسی طرح ستایا گیا ہے ۔ ایک دفعہ آپﷺ خانہ کعبہ تشریف لے گئے ، وہاں بہت سے مشرک اور کفار بیٹھتے تھے، ابو جہل نے ازراہ تمسخر کہا:
’’اے آل ہاشم دیکھو !تمہارانبی آیا ہے ۔ عتبہ بن ربیعہ نے ہنس کر کہا ، ہمیں کیا کوئی نبی بن جائے یا فرشتہ۔ اس پر تمام کفار قہقہہ مار کر ہنس پڑے ۔ حضورﷺ کو جلال آگیا۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
’’عتبہ تیرے ہنسنے کا زمانہ ختم ہونے کو ہے ۔ ‘‘پھر ابو جہل سے فرمایا۔’’مغرور سرکش وقت قریب آرہا ہے کہ تو روئے گا زیادہ اور ہنسے گا کم ۔‘‘
پھر آپﷺ نے ولید کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:’’تجھے اپنی بہادری پر بڑا ناز ہے مگر یاد رکھ جس دن حضرت عمرؓ اور حضرت حمزہؓ کو لڑائی کی اجازت دو ں گا ، مکہ کی گلیاں خون سے سیراب ہو جائیں گی ۔ تم آج جس دین کا مذاق اڑاتے ہو ۔ سب اسی دین میں اپنی خوشی سے داخل ہو جاؤ گے ۔ ‘‘کسی نے کوئی جواب نہ دیا تو حضورﷺ تشریف گئے ۔
آپﷺ کے جانے کے بعد ابو سفیان نے کہا ۔’’بے شک ہمیں احتیاط کرنی چاہیے ، اگر مسلمانوں کو لڑائی کی اجازت مل گئی تو ہزاروں عورتیں بیوہ ہو جائیں گی ۔‘‘
ابو جہل نے غصے میں آکر کہا’’عمرؓ ہو یا حمزہؓ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔‘‘
اہل طائف 
آپﷺ نے جب قریش مکہ کی یہ حالت دیکھی تو آپﷺ نے طائف جا کر تبلیغ اسلام کا ارادہ کیا ۔ رسول ﷺ نے زیدؓ بن حارث کو ساتھ لیا ۔ آپﷺ پا پیادہ کئی دن میں سفر کرتے ہوئے طائف پہنچے ۔
ایک روز آپﷺ نے رئیسان طائف کو اسلام کا پیغام دیا۔ خدا کا نام سن کر قریش مکہ کی طرح طائف کے رئیس بھی غصے میں آگ بگولہ ہو گئے ۔ ان میں سے ایک نے کہا:
’’تمہارے کہنے سے ہم اپنے باپ دادا کے معبودوں کی پوجا نہ چھوڑیں گے ۔‘‘دوسرے نے کہا’’تمہارے دماغ میں خلل ہے ، جبھی تو ایسی واہیات باتیں کرتے ہو ۔‘‘
تیسرے نے کہا ’’وہ کون سا خدا ہے جس نے تم جیسے بے مایہ کو رسول ﷺ بنا کر بھیجا ہے اور تم پیدل جو تیاں چٹخاتے پھرتے ہو ۔ ہم خیالی خدا کو نہیں پوج سکتے ۔ یہاں آپﷺ کی اور آپ ﷺ کے خدا کی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘
آنحضورﷺ مایوس ہو کر وہاں سے چلے ۔ رئیسانِ طائف نے شہر کے بدمعاشوں اور آوارہ لڑکوں کو آپ ﷺکے پیچھے لگا دیا۔ بدمعاش گالیاں بکتے راستے میں دور ویہ صف باندھ کر کھڑے ہو جاتے اور جب آنحضورﷺ گزرتے تو پتھر مارتے ۔
آپﷺ کی پنڈلیوں پر اس قدر پتھر مارے جن کی وجہ سے اس قدر خون بہا کہ آپﷺ کی نعلین مبارک خون سے بھر گئیں ۔ زیدؓ بن حارث آپﷺ کو بچاتے ہوئے بُری طرح زخمی ہو گئے ۔
آخر آپﷺ نے عتبہ بن ربیعہ کے باغ میں پناہ لی اور ایک کھجور کے سہارے نیم دراز ہو گئے ۔ زیدؓ نے اپنے عمامے کی دھجیاں کیں اور حضورﷺ کی پنڈلیوں سے خون پونچھ کر زخموں پر پٹیاں کس دیں ۔
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد آپﷺ نے پھر سفراختیار کیا۔ جب آپﷺ نخلہ کے قریب پہنچے تو آپﷺ کو چند مسلمان ملے ۔ انھوں نے آپﷺ کو بتایا اہل مکہ کو طائف کے تمام حالات کی خبر ہو گئی ہے انھوں نے بھی بدمعاش تیار رکھے ہیں ۔ آپﷺ ابھی مکہ تشریف نہ لے جائیں ۔
حضورﷺ نے فرمایا، خدا مدد گار ہے اور کوہ حرا پر تشریف لے گئے ۔ پورے ایک ماہ بعد آپﷺ مکہ میں دوبارہ تشریف لائے اور اپنے مکان میں داخل ہو گئے ۔
اسی سال حضورﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ ،ابو بکر صدیقؓ کی صاحبزادی سے عقد کیا۔ دوسرا نکاح اسی سال حضرت سودہؓ سے کیا۔ اس وقت حضرت سودہؓ کی عمر پچاس برس تھی ۔ حضرت سودہؓ نے بہتر برس کی عمر میں وفات پائی اور حضرت عائشہؓ نے تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی ۔
معراج 
۱۰ نبوی ۲۷ رجب المرجب دو شنبہ کی رات کو آنحضرت ﷺ سو رہے تھے کہ حضرت جبرائیل ؑ نے خواب سے بیدار کیااور باادب کہا، اے محمدﷺ !آپﷺ کو پرورد گار عالم نے بلایا ہے ۔
پھر حضرت جبرائیل ؑ آپﷺ کو چاہ زم زم پر لے گئے اور آپﷺ کو وضو کرایا۔
پھر حضورﷺ کو ساتھ لے کر کو ہ صفا و مروہ کے درمیان میں پہنچے تو حضورﷺ کی خدمت میں سواری کے لیے براق پیش کیا گیا۔
جبرائیل ؑ نے عرض کیا حضورﷺ اس پر سوار ہو جائیے ۔ اس پر انبیاء ؑ سوار ہوتے ہیں ۔ آپﷺ کے سوار ہوتے ہی وہ اس قدر تیز رفتاری سے چلا کہ چند ہی لمحوں میں بیت المقدس پہنچ گیا ۔ حضورﷺ نے یہاں مسجد اقصیٰ میں داخل ہو کر دو رکعت نماز ادا کی ۔ یہاں تمام انبیاء ؑ نے آپﷺ کے پیچھے نماز ادا کی ۔
نماز سے فارغ ہو کر آپﷺ پھر براق پر سوار ہوئے ، جبرائیل ؑ بھی ساتھ ساتھ آرہے تھے ۔ جب حضورﷺ آسمان کے قریب پہنچے تو جبرائیل ؑ نے دربان کو آواز دی ۔ دربان نے فوراً! دروازہ کھول دیا ، حضورﷺ براق پر آسمان کی سیر کرتے چلے جا رہے تھے ۔ 
یہاں آپﷺ اور انبیاء ؑ سے ان کے مقام پر ملاقات بھی کرتے جا رہے تھے ۔آپ نے جنت اور دوزخ کو بھی ملاحظہ فرمایا ۔
جب آپﷺ سدرۃ المنتہٰی کی آخری حد پر پہنچے تو جبرائیل ؑ رک گئے ۔ آپﷺ کے دریافت کرنے پر جبرائیل ؑ نے عرض کی کہ اس سے آگے بڑھنے کی مجھ میں طاقت نہیں ، اگر آگے بڑھوں تو تجلی الٰہی سے میرے بال و پر جل جائیں گے ۔ 
یا رسول اللہ ﷺ !اس سے آگے قدرت آپﷺ کی رہنمائی کرے گی ، آپ ﷺ تشریف لے جائیے ۔ 
آپﷺ اکیلے آگے بڑھے ، جب آپﷺ رفرف کے قریب پہنچے تو آپﷺ کو حضرت اسرافیل ؑ نے سلام کیا ۔ آپﷺ اکیلے آگے بڑھتے گئے ۔ روشنی عجیب اور کیف آگیں ہوتی جاتی تھی ۔ حتیٰ کہ آ پ عرش معلی کے قریب پہنچ گئے تو غیب سے آواز آئی ’’اے محمد ﷺ نزدیک آؤ ۔‘‘
یہ آواز سنتے ہی آپﷺ نے بے ساختہ فرمایا’’اے خداوند عالم !تمام قسم کی بزرگیاں اور تعریفیں تیرے ہی لیے ہیں ۔‘‘ دوبارہ آواز آئی ’’اے پیارے محبوب ﷺتم پر سلام اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی ہو ۔‘‘
ساتھ ہی بلند آواز سے فرشتوں نے اشہد ان لا الہ الا اللہ واشہد ان محمد رسول اللہ پڑھا ۔
حضورﷺ سجدے میں گر گئے ، رعب الٰہی سے آپﷺ کا جسم تھر تھرانے لگا۔ خداوند عالم نے نہایت شفقت سے نوازا ۔ پانچ وقت کی نماز امت پر فرض کی گئی ۔ حضورﷺ نے خداوند کریم کی بارگاہ میں امت کی بخشش کے لیے عرض کی ۔ جواب ملا ’’پیارے !جب تیری امت میں سے جس امتی کے دل میں رائی کے برابر بھی ایمان ہوگااور جو کفر و شرک سے پاک ہو گا میں اسے بخش دوں گا۔‘‘
یہ نوید جاں فزا سن کر حضورﷺ بہت خوش ہوئے اور آپﷺ نے واپسی کی اجازت چاہی تو آپﷺ کو واپسی کا اذن ملا ۔ حضورﷺ سدرۃ المنتہیٰ تشریف لائے ۔جبرائیل ؑ آپﷺ کے انتظار میں کھڑے تھے ۔ راستے میں عزرائیل ؑ فرشتہ سے ملاقات ہوئی ۔ آپ نے ہر اُمتی کی روح نرمی سے قبض کرنے کی ہدایت کی ۔ یہاں سے آپﷺ پھر براق پر سوار ہوئے اور آسمانوں کو عبور کرتے ہوئے زمین پر واپس تشریف لے آئیں ۔
اسی طرح آپﷺ مکہ میں آگئے اور صفا و مروہ کے مقام پر براق سے اتر پڑے ۔اپنی خواب گاہ میں آئے تو دروازے کی زنجیر بد ستور ہل رہی تھی اور آپ ﷺ کا بستر گرم تھا۔
قریش مکہ کو جب معراج کی بابت معلوم ہوا تو انھوں نے مخول کے طور پر صدیق اکبرؓ سے کہا۔ تمہارے نبی کریم ﷺ کو معراج ہو ا ہے اور ایک ہی رات میں آسمانوں کی سیر کر کے واپس لوٹ آئے ہیں ۔ ہم ان سے واقعات دریافت کرنا چاہتے ہیں ۔ دیکھیں کہ تمہارے نبی کریم ﷺ بتاتے ہیں کہ نہیں۔
صدیقِ اکبرؓ جب خانہ کعبہ پہنچے اس وقت سینکڑوں کفار قریش بھی پہنچ گئے تھے ۔ ابو لہب نے قہقہہ لگاتے ہوئے صدیق اکبرؓ سے کہا۔ ’’تمہارے نبی کریم ﷺ کو معراج ہو اہے او ر وہ جنت اور دوزخ کی سیر بھی کر آئے ہیں ۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کہا۔ میرا ایمان ہے جو کچھ خدا کے رسول ﷺ نے فرمایا سب سچ ہے ۔ میں نے بھی آپﷺ کے معراج کے متعلق سنا ہے اور واقعات معلوم کرنے کے لیے آیا ہوں ۔
حضور ﷺ نے تمام واقعات سب کو سنائے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے سنتے ہی کہا :صدقت یا رسو ل اللہ ، اے اللہ کے رسول آپﷺ نے سچ فرمایا۔
ابو جہل نے کہا ’’ابو بکر تم ایسی لا یعنی باتوں کو سچا سمجھتے ہو ۔کیا یہ ہو سکتا ہے، اتنی بڑی مسافت ایک رات میں طے ہو جائے ۔‘‘
صدیق اکبرؓ نے فرمایا ۔ خدا میں سب کچھ کرنے کی قدرت ہے ۔ محمدﷺ ہر گز جھوٹ نہیں بول سکتے ۔
ابو جہل ہنس پڑا ۔ وہ اپنے ساتھ ان لوگوں کو لایا ہوا تھا جو بیت المقدس میں عرصۃ تک رہ چکے تھے ۔ انھوں نے حضورﷺ سے بار ی باری بیت المقدس کے متعلق سوال کیے ۔
حضورﷺ نے تائیدا یزدی سے سوال کرنے والوں کو ایسا شافی اور تسلی بخش جواب دیا کہ سوال کرنے والے دنگ رہ گئے۔ سب نے اقرار کیا کہ حضورﷺ نے جوکچھ جواب دیا ہے بالکل سچ ہے ۔
بیعت عقبیٰ اولیٰ 
حضور اکرمﷺ حج کے موقع پر جو قافلے باہر سے آتے تھے ، اِ ن میں جا جا کر خدا وند کریم کاپیغام سناتے ۔ آپﷺ کی کوشش سے مدینہ کے پانچ آدمیوں نے اسلام قبول کیا۔ حضورﷺ نے انھیں واپس جا کر مدینے میں پیغام حق سنانے کی تاکید کی ۔
دوسرے سال ماہ ذوالحجہ میں جب قافلے آنے شروع ہوئے تو حضورﷺ کو وہ مسلمان بھی ملے جو پچھلے سال مسلمان ہو کر مدینہ گئے تھے ، یہ مسلمان آپ ﷺکو منیٰ کے پاس مقام عقبیٰ میں ملے ۔ انھوں نے بتایا کہ مدینہ میں اسلام بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے اور سات آدمی ہمارے ساتھ اس سال حج کعبہ کے لیے مسلمان ہو نے آئے ہیں جو اوس و خزرج دونوں قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان بارہ آدمیوں نے حضورﷺ کے ہاتھ پر عہد کرتے ہوئے یہ بیعت کی :
’’ہم صرف خداوند کریم کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ سمجھیں گے ۔ 
ہم چوری اور زنا نہیں کریں گے ۔
اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کریں گے ۔
کسی پر جھوٹی تہمت نہیں لگائیں گے اور نہ کسی کی غیبت کریں گے ۔
خدااور اس کے رسول ﷺکی اطاعت کریں گے ۔‘‘
یہ بیعت عقبیٰ اولیٰ کے نام سے مشہور ہے ۔ جب یہ لوگ مدینہ واپس جانے لگے تو حضورﷺ نے ان کے ساتھ مصعب بن عمیر کو روانہ کیا جو بہت اچھے قاری اور مبلغ تھے ۔ 
مدینہ پہنچ کر ان لوگوں نے تبلیغ اسلام شروع کر دی اور مصعبؓ بن عمیر کی کوششوں سے قبیلے کے قبیلے مسلما ن ہو گئے ۔یہ حالت دیکھ کر سید بن حصیر او ر سعد بن معاذ جو سردارانِ مدینہ میں سے تھے ، برہم ہوگئے اور تلوارہاتھ میں لے کر مصعبؓ کے پاس پہنچے اور انھیں بُرا بھلا کہنا شروع کیا۔
مصعبؓ نے نرمی سے ان کا غصہ فرو کرتے ہوئے قرآن مجید کی چند آیات خوش الحانی سے سنائیں ۔ وہ مرعوب ہو گئے اور کہا کہ ایسا کلام تو آج تک ہم نے نہیں سنا ۔ واقعی اسلام سچا مذہب ہے اور وہ دونوں مسلمان ہو گئے ۔
کفار مکہ بھی اس حالت سے غافل نہ تھے ، انھیں بھی مدینہ میں مسلمانوں کی روز افزوں ترقی کے حالات معلوم ہو رہے تھے ۔ جب ۱۳ ھ نبوی میں ذوالحجہ کا مہینہ آیا تو مصعبؓ بن عمیر مدینہ سے بہتر (۷۲)مسلمان ساتھ لے کر عازم مکہ ہوئے ۔
حضورﷺ کو ان کی آمد کی اطلاع ہو گئی تھی ۔ پہلے کی طرح عقبیٰ کی گھاٹیوں میں یہ قافلہ حضورﷺ سے ملاقاتی ہوا۔ حضورﷺ کے ساتھ اس وقت آپ ﷺ کے چچا حضرت عباسؓ بھی تھے جوا س وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ حضورﷺ کو دیکھتے ہی سب نے آپﷺ کو سلام کیا ۔
آپﷺ نے سلام کا جواب دیااو ر ہر ایک سے مصافحہ کیا۔ آپﷺ ایک پتھر پر بیٹھ گئے اور قافلہ والے آپﷺ کے آس پاس مؤدب بیٹھ گئے ۔ اہل مدینہ نے آپﷺ کو مدینہ چلنے کی درخواست کی ۔ حضرت عباسؓ نے فرمایاکہ یہاں محمد ﷺ اپنے خاندان میں ہیں اور خاندان والے آپﷺ کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اگر آپ لوگ حضورﷺ کو ساتھ لے گئے تو ان کی حفاظت اپنی جان سے زیادہ کرنا پڑے گی ۔ اگر تم ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار ہو تو آپﷺ کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ سعد بن ارو ہ نے کہا ، ہم اپنی ذمہ داری خوب جانتے ہیں ۔ ہم یقین دلاتے ہیں کہ خود مر جائیں گے مگر حضورﷺ پر کوئی آنچ نہ آنے دیں گے ۔ حضورﷺ نے فرمایا، مجھے جب بھی مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم ملا میں مدینہ آؤں گا مگر تم اپنی مشکلات کا اندازہ کر لو ۔ دنیا پھر دشمن ہو جائے گی اور میرے ساتھ جو مسلمان ہجرت کریں گے ان سب کا بوجھ بھی اہل مدینہ پر ہو گا۔
عبداللہؓ رواحہ نے دریافت کیا، اے رسول اللہ ﷺ اس کے صلے میں ہم کو کیا ملے گا۔ آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور جنت ۔سب نے کہا کہ ہمیں منظور ہے اور سب نے بیعت کی ،انھی شرائط پرجو بیعت اولیٰ میں تھیں ۔ اس بیعت کانام عقبیٰ ثانیہ تھااور یہ ۱۳ ھ نبوی میں ہوئی ۔
اس بیعت کی خبر پوشیدہ نہ رہ سکی۔ مشرکین کا غضب بھڑک اٹھا اور مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنا شروع کر دیا گیا ۔ آنحضورﷺ نے ا ن حالات سے مجبور ہو کر مظلوم مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی اجازت دے دی ۔
ہجرت 
اجازت ملتے ہی مسلمانوں کو جب بھی موقع ملا وہ مدینہ کی طرف جانے لگے ۔ قریش کو فکر ہوئی کہ کہیں مدینے جا کر مسلمان اپنی طاقت پکڑ کر مکہ پر حملہ نہ کر دیں ۔ انھوں نے رکاوٹیں ڈالناشروع کیں مگر پھر بھی مسلمان ہر طرح کی تکلیفیں اٹھاتے ہوئے چھپ چھپ کر جانے لگے۔
قریش مکہ کے ہاتھ جو مسلمان آجا تا ، اس کامال و زر اس سے چھین لیتے ۔ حضرت ہشامؓ جب ہجرت کے ارادے سے چلے تو انھیں پکڑ کر قید کر دیا گیا۔ابو سلمہؓ سے ان کی بیوی اور گود سے بچہ چھین لیا ۔ابو سلمہؓ اکیلے مدینہ چلے گئے ۔
مسلمان ہر قسم کا ظلم بر داشت کر کے بھی ہجرت کر تے جاتے تھے ۔ جو مسلمان ہجرت کرتا تھا اگر اس نے کسی کا قرضہ دینا ہوتا تو اد ا کرنے کے بعد ہجرت کرتا تھا۔
حضرت حمزہؓ ، حضرت عمرؓ، حضر ت بلالؓ ،حضرت ابو عبیدہؓ اور بہت سے مسلمان ہجرت کر کے چلے گئے تھے ، جو باقی تھے وہ بھی جانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ آنحضورﷺ جس کواجازت دیتے ، آپﷺ اسے فرماتے کہ مدینہ والوں سے کہہ دینا کہ محمدﷺ بھی عنقریب تشریف لا رہے ہیں ۔
حضرت عمرؓ ابن خطاب بیس آدمیوں کے ہمراہ ہجرت کے لیے روانہ ہوئے ، آپ نے للکار کر کہا، ظالمو جا رہا ہوں ، اگر کسی میں ہمت ہے تو مجھے روکے ، کسی کو بھی روکنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے بھی جانے کا ارادہ کیامگر حضورﷺ نے انھیں روک دیا ۔ اب حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور ان کے اہل و عیال باقی رہ گئے یا وہ مسلمان جو اپنی ناداری کی وجہ سے ابھی تک مکہ میں رہ گئے تھے ۔ آنحضورﷺ کے چچا حضرت عباسؓ بھی تھے۔ مسلمان ہو کر ہجرت کر گئے تھے ۔
یہ حالت دیکھ کر قریشِ مکہ متفکر ہوئے ۔ انھوں نے دارالندوہ میں ۴ا نبوی میں ایک عظیم الشان جلسہ رات کے وقت منعقد کیا۔ قریش کے ہر قبیلے کے سردار اور رئیس شامل اجلاس ہوئے ۔
کسی غیر آدمی کو اس میں شامل ہو نے کی اجازت نہ تھی ۔ جلسہ شروع ہوتے ہی ایک مکار کا فر نے کہا’’ہم نے جس قدر مسلمانوں کو مٹانے اور دبانے کی کوشش کی ، اتنے ہی ہم ناکام ہوئے ۔ یہ خطرہ دبانے کے لیے ہمیں آخری بار فیصلہ کرنا ہو گاکہ کیا کرنا چاہیے ۔‘‘
ارادۂ قتل 
ابو جہل نے کہا اگر محمدﷺ کی قوت کو نہ توڑا گیاتو ہمارے مذہب کو عرب سے ذلیل ہو کر نکلنا پڑے گا ۔ ابو لہب نے کھڑے ہو کر کہا ، کوئی ایسی تجویز کرو کہ محمدﷺ ہمار ے مذہب میں واپس آجائے یا وہ اپنے مذہب کی تبلیغ بند کر دے ۔ ابو سفیان نے کہا ایسی فضول باتوں کو چھوڑ دو ، ہم نے محمدﷺ کو ہر قسم کا لالچ دیا مگر وہ باز نہیں آیا۔
ولید نے کہا ،محمدﷺ کو گرفتار کر کے کسی جگہ بند کر دیا جائے یا ان کے مکان میں ہی نظر بند کر دیا جائے ۔ ایک مکار بڈھے نے کہا ، یہ تمام خطرہ محمدﷺ کی طرف سے ہے ، جب تک اسے قتل نہ کیا جائے گا یہ خطرہ دور نہ ہوگا ۔ ایک نے کہا ان کے خاندان کے لوگ بگڑا ٹھیں گے اور عام قتل و خون شروع کر دیں گے ۔
ابو جہل نے کہا ، اس کی تدبیر یہ ہے کہ تمام قبیلو ں کا ایک ایک آدمی لو اور یہ سب آدمی ایک دم محمدﷺ پر حملہ کر کے اسے قتل کر دیں ۔ جب تمام قبائل کے لوگ شریک ہو ں گے تو ہاشمیوں کو بدلہ لینے کی جرأت نہ ہوگی ۔ آخر یہی طے پایا کہ یہ منتخب شدہ لوگ چھپ کر رہیں اور جب بھی موقع پائیں محمدﷺ کو قتل کر ڈالیں ۔ ابھی یہ اجلاس ختم نہ ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو وحی کے ذریعہ سے خبر دار کر دیااور ساتھ ہی مدینہ کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم نازل ہوا۔
دوسرے دن دوپہر کے وقت حضورﷺ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے مکان پر تشریف لے گئے ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے مکان پر تشریف لے گئے ۔حضرت ابو بکر صدیقؓ آپﷺ کے اس چلچلاتی دھوپ میں تشریف لانے پر سمجھ گئے کوئی ضروری بات ہے ۔ اس وقت ۱۴ نبوی تھا۔ 
حضورﷺ ابو بکر صدیقؓ کے ساتھ مکان کے اندر تشریف لے گئے اور ایک چٹائی پر تشریف فرما ہو گئے ۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ آج مجھے ہجرت کی اجازت مل گئی ہے ۔ ابو بکر صدیقؓ نے عرض کی ، کیا مجھے بھی ساتھ چلنے کی عزت نصیب ہو گی ؟ حضورﷺ نے فرمایا ، ہاں ۔
یہ سنتے ہی ابو بکر صدیقؓ نے کہا۔ حضورﷺ میں نے اس دن کے لیے دو اونٹنیاں خرید کر ببول کے جنگلوں میں چھوڑ رکھی ہیں وہ خوب موٹی تازی ہو گئی ہیں ۔ آپﷺ ان میں سے ایک قبول فرمائیں ۔
حضورﷺ نے فرمایا، میں قیمتاً اونٹنی لوں گا ۔ صدیق اکبرؓ کے انکار کے باوجود حضورﷺ نے قیمت اسی وقت ادا کر دی اور ضروریات سفر کی تیاری شروع کر دی گئی ۔
حضورﷺ یہاں سے واپس آکر حضرت علی المرتضیٰؓ سے ملے ۔ حضورﷺ کو دیکھتے ہی شیر خدا نے عرض کی ’’آج کیا بات ہے کہ مشرک اور کافر تلواریں لیے مکان کے گرد گھوم رہے ہیں ۔؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا’’تم فکر نہ کرو ، خداوند عالم نے مجھے ان کے ارادوں سے آگاہ کر دیا ہے ۔ مجھے ہجرت کا حکم ہو گیا ہے اور میں آج رات روانہ ہو جاؤ ں گا ۔
حضرت علیؓ نے عرض کیا ’’میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گا ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا’’آج رات تم میرے بستر پر سونا اور کفار مکہ کی جو امانتیں میر ے پاس ہیں ، وہ صبح ان کو واپس کر کے یثرب چلے آنا۔’’آنحضورﷺ نے تمام امانتیں حضرت علیؓ کے سپرد کر دیں ۔
حضرت علیؓ نے استفسار کیا’’کیا آپﷺ تنہا تشریف لے جائیں گے ؟‘‘
حضورﷺ نے فرمایا’’نہیں ، میرے ساتھ صدیق اکبرؓ ہوں گے ۔‘‘
رات کا کافی حصہ گزر چکا تھا۔ حضرت علیؓ حضورﷺ کے بستر پر لیٹ گئے ۔ کفار دروازے کے سامنے تا ک جھانک میں مصروف تھے۔ آنحضورﷺ نے مٹھی بھر خاک پر سورۃ ےٰسین کی شروع کی آیات پڑھیں اور کفار کی جانب پھونکتے ہوئے نکلے اور صدیق اکبرؓ کے مکان پر پہنچ گئے ۔ کسی ایک کافر کی آپﷺ پر نظر بھی نہ پڑی ۔ صدیق اکبرؓ نے آہٹ پاتے ہی دروازہ کھول دیا اور حضورﷺ کو دیکھ کر چلنے کے لیے تیار ہو گئے ۔
دونوں مکہ سے نکلے اور تین میل پاپیادہ چل کر غار ثور تک جا پہنچے ۔ چلتے وقت ابو بکر صدیقؓ اپنے بیٹے عبداللہ اور بیٹی اسماء کو ہدایت کر گئے کہ وہ کوہ ثور پر رات کے وقت کھانا لے کر آجایا کریں اور دن بھر کی خبریں بھی سناجایا کریں اور اپنے غلام عامر کو تاکید کر گئے کہ وہ دن بھر بکریاں کوہ ثور کے نزدیک چرایا کریں تا کہ قدموں کے نشان مٹ جا یا کریں ۔
کفار مکہ رات بھر مکان کا محاصرہ کیے رہے ۔ صبح جب حضورﷺ کی جگہ حضرت علیؓ کو مکان سے نکلتے دیکھا تو حیران ہو کر پوچھنے لگے ’’بتاؤ محمدﷺ کہاں ہیں ؟‘‘
شیرِ خدا نے جواب دیا ’’مجھے کیا معلو م۔‘‘
ابو جہل نے کہا ’’یہ بُرا ہوا کہ محمدﷺ بچ کر نکل گئے ۔‘‘ ابو سفیان نے کہا ’’چلو صدیق کے مکان پر چلیں ۔‘‘سب وہاں سے صدیق اکبرؓ کے مکان پر جا پہنچے ۔ دروازے پر دستک دی ۔ حضرت اسماء باہر نکلیں ۔ قریش نے پوچھا ’’تمہارا باپ کہاں ہے ؟‘‘
حضرت اسماءؓ نے جواب دیا ’’مجھے کوئی خبر نہیں ۔‘‘
ابو جہل نے اس زور سے طمانچہ مارا کہ حضر ت اسماءؓ کے کان کی بالی گر گئی ، غصے کی حالت میں کفار واپس چلے آئے اور اعلان کر دیا کہ جو کوئی محمد ﷺ یا ابو بکرؓ کو گرفتار کر کے لائے گا تو ہر ایک کے بدلے میں وہ سو اونٹ پائے گا ۔ یہ سنتے ہی کفار مکہ نے آپﷺ کی جستجو شروع کر دی ۔
آفتاب و ماہتاب غار ثو رمیں 
حضرت نبی اکرم ﷺ اور ابو بکر صدیقؓ غار ثور کے قریب پہنچے تو پہلے ابو بکر صدیقؓ نے داخل ہو کر غار کو اچھی طرح صاف کیا ، یہ غار نہایت تاریک اور مہیب تھا۔ آپ نے اپنی چادر پھاڑ کر جا بجا موجود سوراخوں میں ٹھونس دی ۔
پھر حضورﷺ کو اپنے ساتھ غار میں لے گئے ۔ حضورﷺ سفر سے تھک کر نیند سے مغلوب ہو گئے تھے، لہٰذا حضرت ابو بکر صدیقؓ کے زانو پر سر مبارک رکھ کر آرام فرمانے لگے ۔
اتفاقاً ایک سوراخ پر صدیق اکبرؓ کی نظر پڑی ۔ اس پر ابو بکر صدیقؓ نے اپنے پیر کی ایڑی رکھ دی ۔ اس کے اندر کوئی موذی جانور تھا جس نے آپ کی ایڑی پر کاٹ لیا۔ تکلیف کی وجہ سے ابو بکرؓ بے چین ہو گئے ۔
حضور ﷺنے پوچھا ’’کیا ہوا ؟‘‘
صدیق اکبر نے جواب دیا ۔’’شاید سانپ نے کاٹ لیا ہے ۔‘‘حضورﷺ نے اس جگہ اپنا لعاب دہن مل دیا۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کو بالکل آرام ہو گیا ، تمام دن حضورﷺ غار ثور میں آرام فرما رہے ۔ شام کے وقت ابو بکر صدیقؓ غار سے باہر نکل آئے ، اس وقت ان کا غلام بکریوں کا ریوڑ لیے قریب پھر رہا تھا ۔
صدیق اکبرؓ بکری کا دودھ لے کر غار میں واپس آگئے ۔ آدھادودھ حضورﷺ نے نوش فرما یا اور بقیہ آدھا ابو بکر صدیقؓ نے پیا۔جب اندھیرا زیادہ ہو گیا تو صدیقِ اکبرؓ کے بیٹے اور آپ کی بیٹی کھانا لے کر آئے ۔ ابو بکر صدیقؓ نے قریش مکہ کی بابت اپنے بیٹے حضرت عبداللہ سے دریافت کیا ۔ حضرت عبداللہؓ نے تمام حالات بیان کیے ۔ سب نے مل کر کھانا کھا یا ۔ اب حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے بیٹے عبداللہؓ اور بیٹی اسماء کو واپس جانے کا حکم دیا ۔ یہ دونوں مکہ کی طرف چلے گئے ۔ ان کے پیچھے حضرت عامرؓ بکریوں کا ریوڑ لے کر چلے تا کہ ان کے پاؤ ں کے نشانات مٹ جائیں ۔
دوسرے دن پھر کفار مکہ سراغ رسانوں کو ساتھ لے کر تلاش میں نکلے جب غار کے قریب پہنچے تو سراغ رسانوں نے کہا’’اس سے آگے نشان نہیں ملتا۔‘‘
قریش مکہ نے چاروں طرف تلاش کیا مگر غار کے دہانے پر کبوتروں کے انڈے اور مکڑی کا جا لا دیکھ کر اندرنہ گئے اور کہنے لگے کہ اگر کوئی غار کے اندر جاتا تو جالا ضرور ٹوٹ جاتا۔ 
حضورﷺ اور صدیق اکبرؓ غار کے اندر سے تمام گفتگو سن رہے تھے ۔ صدیق اکبرؓ کچھ فکر مند ہوئے ۔ حضورﷺ نے فرمایا ، کچھ خوف نہ کرو ، اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔ 
تین دن تک حضورﷺ اس غار میں رہے ۔ حضرت عبداللہؓ آکر دن بھر کی خبریں سنا جاتے ۔حضرت اسماءؓ کھانا دے جاتیں اور حضرت عامرؓ دودھ دے جاتے ۔ 
چوتھے روز حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ عبداللہ بن ارلقیط جنھیں میں نے رہبری کے لیے مقرر کیا ہے ۔ اُنھیں دو اونٹنیاں رات کے وقت دے کر یہاں روانہ کر دینا ۔
ماہ ربیع الاول کی چاندنی رات میں عبداللہ بن ار لقیط اونٹنیاں لے کر آگیا۔ حضرت اسماءؓ سفر کے لیے کھانا لے کر آگئیں اور معلوم ہوا کہ کفارِ مکہ مایوس ہو کر بیٹھ گئے ہیں ۔
کھانے سے فراغت پا کر آنحضورﷺ باہر تشریف لائے ۔ کجاوے کے ساتھ ستو کا تھیلاباندھنے کے لیے کوئی تسمہ یا رسی نہ تھی ۔ حضرت اسماءؓ نے اپنی کمر کی ڈوری سے آدھی کاٹ کر تھیلے کو کجاوے سے باندھ دیا۔ حضورﷺ اس تدبیر سے بہت خوش ہوئے اور حضرت اسماءؓ کو ذات النطاقین کہا۔ بعد ازاں آپ اسی لقب سے مشہور ہوئیں ۔
آنحضورﷺ جس اونٹنی پر سوار ہوئے اس کانام القصور تھا ۔صدیق اکبرؓ اور عامر دوسری اونٹنی پر سوار ہوئے اور تیسرے اونٹ پر عبداللہ بن ارلقیط جو اس قافلے کے رہبر تھےِ ، سوا ر ہوئے ۔
جب یہ قافلہ روانہ ہوا تو حضرت اسماءؓ کی آنکھوں سے آنسو گرنے لگے ۔ آنحضورﷺ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا’’اسماء !اللہ تمھاری حفاظت کرے گا ۔‘‘
حضرت اسماء نے فی امان اللہ کہا۔
یہ قافلہ نہایت خاموشی سے کوہ ثور سے اتر کر پہاڑ کا نشیبی میدان طے کرنے لگا ۔ راستے میں اگر کوئی صدیق اکبرؓ سے حضورﷺ کی بابت دریافت کرتا تو آپ جواب دیتے کہ آپ ﷺ میرے ہادی ہیں۔
اگلے روز جب یہ مختصر قافلہ مقام قدید کے قریب پہنچا تو سراقہ بن مالک نے جو انعام کے لالچ میں حضورﷺ کی تلاش میں تھا ، قافلے کو جاتے ہوئے دیکھا تو اس نے اپنے گھوڑے کو تیز دوڑایا۔
اتفاقاً اس کے گھوڑے نے ٹھو کر کھائی اور وہ گر پڑا ۔ دوبارہ جلدی سے گھوڑے پرسوار ہو کر تعاقب کیا۔ گھوڑے نے پھر ٹھوکر کھائی اور سراقہ پھر گر پڑااور اس کے گھوڑے کے پاؤں گھٹنوں تک ریت میں دھنس گئے ۔ مگر لالچ نے اسے اندھا کر دیا تھا لہٰذا پھر گھوڑے پر سوار ہوا اور اُسے چابک لگا کر بڑھایا ۔
جب وہ حضورﷺ کے قریب پہنچا تو زمین شق ہو گئی او رگھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیا اور سراقہ پھر گھوڑے سے نیچے گر گیا ، اس پر ہیبت چھا گئی اور و ہ کانپ اُٹھا ۔
اس نے حضورﷺ کو آواز دی کہ میری ایک بات سن لیجئے ، حضورﷺ رک گئے ۔ سراقہ نے نزدیک آکر کہا:’’میں معافی چاہتا ہوں لالچ نے مجھے آپ ﷺ کو گرفتار کرنے کے لیے آمادہ کیا تھا ۔ مگر میرے ساتھ جو واقعات پیش آئے ہیں ان سے معلوم ہو اکہ آپﷺ کی حفاظت آپﷺ کاخدا کر رہا ہے، کوئی آپ ﷺ کو اسیر نہیں کر سکتا ۔ آپﷺ ایک دن ضرور مکہ کے حکمران ہوں گے ۔ اس لیے میں چاہتاہوں کہ آپﷺ میرے اور میرے خاندان کے لیے امان نامہ لکھ دیں ۔‘‘
حضورﷺ کا حکم پا کر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے غلام عامر بن فہیرہ نے اونٹ پر بیٹھے ہی بیٹھے امان نامہ لکھ دیا ۔ ساتھ ہی آپﷺ نے پیش گوئی کی کہ سراقہ کو شاہ کسریٰ کے کنگن پہنائے جائیں گے ۔ وہ یہ امان نامہ لے کر مکہ کی طرف واپس لوٹا ۔ جو کفار راستے میں تعاقب کرتے ہوئے ملے ، سراقہ نے انہیں یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ میں دور تک تلاش کر آیا ہوں محمدﷺ اس طرف نہیں گئے ۔ فتح مکہ کے بعد سراقہ مسلمان ہو گیااور جب ایران فتح ہوا تو حضرت عمرؓ نے شاہ کسریٰ کا شاہی لباس اور زیورات سراقہ کو پہنا کر شاہانِ کسریٰ کی شان دیکھی اور یوں حضورﷺ کی پیش گوئی پوری ہوئی ۔
حضورﷺ مع ساتھیوں کے چلے جا رہے تھے کہ رہبر نے اصل راستہ چھوڑ کر ساحل سمندر کی طرف رخ کیا تا کہ قریش مکہ کے تعاقب کا خطرہ نہ رہے ۔ مقام عسقان کے قریب سے آنج کے نشیبی میدان سے ہو کر قدید میں پہنچے وہاں سے رابغ پہنچے ۔
حضورﷺ نے مع ساتھیوں کے یہاں مغرب کی نماز ادا کی ۔ پھر سفر شروع ہوا۔ ضرار کے میدان کو عبور کر کے شیتہ المرۃ سے ہوتے ہوئے لقف ، مد، مرقج کو طے کر کے مداید میں پہنچ گئے۔
وہاں سے ذوالعفویں سے ہوتے ہوئے ذی مسلم کے صحرا کو عبور کیا پھر فاختہ عرج جروات العبابید سے ہوتے ہوئے عرج کے مقام پر پہنچے ، یہاں ایک اونٹ بیمار ہو گیااور اس کے بدلے ایک اور اونٹ خریدا پھر یہ قافلہ اکوتیہ ، تھیسن ، جشجاشہ اور وادی ایم کو طے کر کے قبا کے قریب پہنچا ۔ آپﷺ کی انتظار میں مدینے کے لوگ روزانہ قبا سے باہر آکر آپ ﷺ کا انتظار کرتے تھے ۔ آخر ایک روز گردو غبار اڑتا ہوا نظر آیا ۔ ایک یہودی نے اپنے مکان کے اوپر سے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:’’تمہاری خوشی کا سامان آرہا ہے ۔ محمدﷺ تشریف لا رہے ہیں ۔‘‘ تھوڑی دیر میں یہ آواز قبا میں گونج اُٹھی ۔ تمام مسلمان گھروں کو چھوڑ کر باہر دوڑے۔ لڑکے اور لڑکیاں بھی بے حد مسرور ہو کر بھاگی جا رہی تھیں ۔ابو بکر صدیقؓ نے حضورﷺ کی پہچان کے لیے اپنی چادر حضورﷺ پر تان دی ۔ مسلمان جھپٹ کر حضورﷺ کے اردگرد جمع ہو گئے ۔ چھوٹی چھوٹی لڑکیاں خوشی سے دف بجا بجا کر مسرت سے گانے لگیں ، جس کا ترجمہ یہ تھا۔
’’ہم پر چودھویں رات کا چاند طلوع ہوا ۔ مستنیات الوداع کی گھاٹیوں سے ،ہم کو اس تک شکر کرنا واجب ہے ۔ جب تک کوئی اللہ سے دُعا کرنے والا ہے ۔‘‘
’’اے ہم میں مبعوث ہونے والے نبی ﷺ آپ ﷺ کے ہر حکم کی اطاعت کرنا ہمارا فرض ہے ۔‘‘
مسلمان نہایت زور و شور سے اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے ۔ اگر چہ یہاں سے مدینہ دو میل کے فاصلہ پر تھا مگر نعروں کی گونج وہاں بھی پہنچ رہی تھی ۔ حضورﷺ کی تشریف آوری کا غلغلہ بلند ہوا۔یثرب کے مسلمان ، عورتیں بچے، لڑکیاں بے تحاشہ دوڑ کر آپﷺ کی سواری کے جلوس میں شامل ہو گئے ۔
سعد بن معاذؓ نے جو اپنے قبیلے کے سردار اعظم تھے ، حضور ﷺ کی اونٹنی کی مہار پکڑ لی ۔جلوس بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ جب کلثوم کے مکان کے قریب جلوس پہنچا تو انھوں نے عرض کی ۔ یا رسول اللہ ﷺ آپﷺ یہاں قیام فرمائیں اور مجھے خدمت کرنے کی سعادت عطا فرمائیں ۔
حضورﷺ نے اونٹنی کو وہاں بٹھا دیا۔
تمام قافلے والے یہاں اتر پڑے ۔ حضوراکرمﷺ حضرت کلثوم کے مکان میں تشریف لے گئے ۔ تمام لوگ اندر داخل ہو کر ادب سے بیٹھ گئے۔ دن کے وقت حضرت سعدؓ بن حثیمہ کے مکان میں لوگوں کو درس و ہدایات فرماتے تھے ۔ یہاں آپ ﷺ نے چودہ روز قیام فرمایااور سب سے پہلے ایک مسجد کی بنیاد ڈالی اور اپنے دست مبارک سے رکھی ۔ یہ سب سے پہلی مسجد تھی ۔
مسجد کی تعمیر میں حضورﷺ خود مزدوروں کے ساتھ کام کرتے تھے۔ چودہ روز آپﷺ نے یہاں کام کیا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی کفارِ مکہ کی امانتیں لوٹا کر وہاں پہنچ گئے ۔ ۱۲ ربیع الاول کو صبح کی نماز پڑھ کر حضورﷺ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ۔
آپﷺ جمعہ کے وقت مدینہ میں داخل ہوئے ۔ آپﷺ نے جمعہ کی سب سے پہلی نماز یہاں ادا کی اور سب سے پہلا خطبہ ارشاد فرمایا۔ جس جگہ آپﷺ نے نماز ادا کی وہاں بھی ایک مسجد تعمیر کی گئی ۔ نماز سے فارغ ہو کر جب ناقہ پر سوار ہوئے تو ہر قبیلے کے سردار کی یہ خواہش ہوئی کہ آپ ﷺ اُس کے ہاں قیام فرمائیں ۔ بعضوں نے بڑھ کر اونٹنی کی مہار پکڑ لی حتیٰ کہ بحث و حجت بڑھنے لگی ۔ آپﷺ نے فرمایا :’’اونٹنی کی مہار چھوڑ دو ۔ جس جگہ یہ خود بیٹھ جا ئے گی اس محلّے میں قیام ہو گا ۔ ‘‘ناقہ متعدد محلوں سے گزر کر محلّہ ملک بن التجار میں ایک غیر افتادہ اور ویران جگہ پر بیٹھ گئی ۔ اس جگہ کے قریب حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مکان تھا ۔ ابو ایوب انصاریؓ کو اپنے مکان کے قریب اونٹنی کے بیٹھنے کی بے حد خوشی ہوئی ۔ فرط مسرت سے آپﷺ کی آنکھوں سے آنسو چھلک آئے ۔
آپ نے حضور اکرم ﷺ کاسامان اٹھایا اور اپنے مکان میں لے گئے ، حضورﷺ بھی مکان کے اندر تشریف لے گئے ۔ یہ ہجرت کا پہلا سال تھااور یہاں سے سن ہجری شروع ہوا۔ دیگر مہاجر مسلمانوں کو بھی مدینے کے انصار اپنے اپنے ہاں لے گئے ۔
حضورﷺ ہر روز اس ویران میدان میں جس جگہ آپﷺ کی اونٹنی بیٹھتی تھی ۔ مسلمانوں کو وعظ و نصیحت فرماتے اور نمازیں بھی یہاں جماعت کے ساتھ ادا کرتے ۔ ایک روز وہاں مسجد تعمیر کرنے کا اردہ کیا۔
حضرت معاذؓ بن عفر نے عرض کی ’’یہ زمین میرے دو یتیم بچوں کی ملکیت ہے ۔‘‘حضورﷺ نے فرمایا’’میں یہ زمین قیمتاًخریدنا چاہتا ہوں ۔ تا کہ کسی یتیم کا نقصان نہ ہو ۔‘‘ چند آدمیوں نے قیمت تجویز کی جو دونوں بچوں نے منظور کر لی۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے قیمت ادا کر دی اور مسجد کی تعمیر شروع کر دی گئی ۔ آنحضورﷺ خود پتھر دینے اور گارا دینے لگے ۔
مسجد کی دیواریں پتھر کی بنائی گئیں ۔ اور چھت کھجور کی لکڑی اور پتوں کی ڈالی گئی ۔ مسجد کے ساتھ آنحضورﷺ نے اپنے عزیز وں ، رشتہ داروں اور ان مسلمانوں کو جو مکہ میں رہ گئے تھے ، اپنے پاس بلالیا ۔ 
جب مسجد تیار ہو گئی تو حضورﷺ نے مسلمانوں کو نماز کے لیے جمع کرنے کا مشورہ کیا۔ بعض نے کہا نماز کے وقت آگ روشن کی جائے ۔ بعض نے کہا ناقوس بجایا جائے ۔ بعض نے کہا اعلان کرایا جائے ۔ حضورﷺ کو ان میں سے کوئی بھی تجویز پسند نہ آئی ۔
آخر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے حضورﷺ اور چند صحابہ کو خواب میں چند کلمات سکھا دیے ۔ جواب اذان میں پڑھے جاتے ہیں اور حضرت بلالؓ مسجد نبوی ﷺ کے مؤذن مقرر ہوئے ۔ اس مسجد کو مسجد نبوی ﷺ کہتے ہیں ۔ اس مسجد کو گاہ بگاہ آنحضورﷺ کے وصال کے بعد وسیع کیا گیا ۔ آنحضورﷺ کا مکان بھی اس میں شامل کر دیا گیا ۔ اب یہ مسجد نہایت عالی شان مسجد ہے ۔
آغازِ نبوت سے اھ تک بیت المقدس قبلہ رہااور مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے ۔ آخر شعبان ۲ ھ میں حکم خداوندی ہوا کہ مسلمان جہاں کہیں بھی ہوں خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور اس سے انحراف کفر قرار پایا۔
غیر مسلموں سے معاہدہ 
چونکہ مدینہ میں مسلمانوں کے علاوہ مشرک اور یہودی بہت زیادہ تھے اور ان کی طر ف سے یہ خطرہ تھا کہ کہیں کفار مکہ کے اُکسانے پر مسلمانوں پر حملہ نہ کر دیں ۔ یا کفار مکہ اگر مدینہ پر یورش کر دیں تو یہود اور مشرک ہمارا ساتھ نہ دیں اور وہ تفرقہ بازی کی کوشش کریں ۔ ان حالات کی وجہ سے حضورﷺ نے ایک معاہدہ کرنا چا ہا تا کہ خطرات کے وقت ایک دوسرے کی مدد کی جائے ۔ یہود اور مشرکین نے بظاہر آپﷺ کی اس تجویز کو قبول کر لیا مگر در پردہ وہ مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں کرنے لگے ۔
جو شرطیں اس میں مسلمانوں، یہود اور مشرکین مکہ کے درمیان طے ہوئیں وہ مندرجہ ذیل تھیں ۔
۱۔ مدینے کے باشندے خواہ وہ کسی بھی گروہ سے ہوں ، متحد اور متفق رہیں گے ۔
۲۔ یہودی قریش مکہ کی کوئی امداد مسلمانوں کے خلاف نہ کریں گے اور نہ کوئی سازش کریں گے ۔ اگر کوئی مدینہ منورہ پر حملہ آور ہوا تو تینوں قومیں مل کر دشمن کا مقابلہ کریں گی ۔
۳۔ مصارف جنگ میں تینوں قومیں برابر کی شریک ہوں گی ۔ مدینے کے لوگ اپنے جھگڑے خود طے کریں گے ۔ اگر کوئی جھگڑا طے نہ ہو سکا تو جو فیصلہ حضرت محمدﷺ دیں گے وہی آخری فیصلہ ہوگا ۔
۴۔ فوائد جنگ میں بھی تینوں قومیں برابر کی شریک ہوں گی ۔
۵۔ مظلوم کی امداد سب پر فرض ہو گی ۔
اس طرح کی اور بھی شرائط کا فیصلہ آپس میں ہوا ۔ سب نے اس معاہدے پر دستخط کیے ۔ اس معاہدے کی وجہ سے عبداللہ بن ابی کی طرح کے لوگ در پردہ اسلام کے خلاف رہے کیونکہ اس کی وجہ سے اس کی تمام امیدوں کا خون ہو گیااور اس کو اپنی بادشاہی کا خواب خاک میں ملتا دکھائی دیا۔ اس معاہدے کے بعد آنحضورﷺ نے مدینہ کے ارد گرد آباد قبائل کو بھی شریک معاہدہ کر لیا۔ 
آنحضورﷺ کا ارادہ تھاکہ مدینہ سے لے کر مکہ تک جس قدر قبائل ہوں سب کو اس معاہدے میں شریک کر لیا جائے ۔ آپﷺ اسی کوشش میں تھے کہ منافقین نے مسلمانوں کے خلاف مدینہ میں خفیہ سازشیں شروع کر دیں ۔

شاہانِ عالم کے نام
حضورﷺ کی طرف سے دعوت اسلام 

حضورانور ﷺ نے اب اپنے سفراء کو سلاطینِ عالم کے نام دعوت اسلام دے کر روانہ کیا ۔ جن سلاطین کو حضور ﷺ نے دعوت اسلام دی ، ان میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں :
ہر قل شاہ روم کے نام پر فرمان کو حضرت ویمنہؓ بن خلیفہ کلبی لے کر روانہ ہوئے ۔
نجاشی شاہ حبش کے نام پر فرمان حضرت عمروؓ بن امیہ لے کر نجاشی کے پاس پہنچے ، نجاشی نے حضورﷺ کاپیغام سر آنکھوں پر رکھا ۔ حضرت عمروؓ بن امیہ کی بہت خدمت کی اور روانہ کرتے وقت اپنی طرف سے ایک جواب لکھا جس میں اپنے اسلام قبول کرنے کا اقرار کیا۔ 
کسریٰ پرویزشاہ فارس کے نام یہ فرمان حضرت عبداللہؓ بن حذیفہ لے کر پہنچے ۔ کسریٰ حضورﷺ کا فرمان دیکھتے ہی آپے سے باہر ہو گیا ۔ حضورﷺ کی شان میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے غصے کی حالت میں یہ فرمان پھاڑ ڈالا اور اپنے ایک جرنیل کو حکم بھیجا کہ حضورﷺ کو گرفتار کر کے یا (نعوذباللہ) آپ ﷺ کا سر کاٹ کر ہمارے پاس بھیج دو ۔ اس بد بخت کا انجام حضورﷺ کا نامہ پھاڑ ڈالنے کے بعد یہ ہوا کہ ایک مہینہ کے اندر اس کے بیٹے نے باغی ہو کر اس کا سر کاٹ لیااس کابیٹا بھی چند ماہ بعد مر گیا ۔
مقوقش شاہ مصر کے نام یہ فرمان حاطب کے ہاتھ روانہ فرمایا۔ مقوقش نے نامہ اور نامہ بر کی بہت عزت کی اور حضرت حاطبؓ کو روانہ کرتے وقت ایک خلعت اور آپﷺ کی سواری کے لیے ایک خچر اور ماریہ قطبیہ نامی بلند پایہ لونڈی ہدےۃً حضورﷺ کی خدمت میں روانہ کی اور اپنے ایمان لانے کا بھی اقرار کیا۔ 
منذر شاہ بحرین کے پاس حضرت علا بن الحضریؓ فرمان لے کر پہنچے ۔ منذر فرمان دیکھتے ہی مسلمان ہو گیااور اس کی رعایا میں بھی بہت سے لوگ مسلمان ہو گئے ۔ بقیہ کے متعلق منذر نے حضورﷺ سے دریافت کرنے کے لیے لکھا کہ جو لوگ مسلمان نہیں ہوئے ان سے کیاسلوک کرنا چاہیے ۔
حضورﷺ نے جواب میں لکھا کہ جن لوگوں نے اسلام قبول نہیں کیاان پر کسی قسم کی زبر دستی نہ کی جائے بلکہ جزیہ لے کر ان کی ہر طرح سے حفاظت کی جائے ۔
عمان میں دو حقیقی بھائی حکمران تھے ۔ ایک کا نام عبد اور دوسرے کانام جیفر تھا ۔ ان کی طرف فرمان لے کر حضرت عمر وؓ بن العاص گئے۔دونوں بھائیوں نے اسلام کے بارے میں عمرو بن العاصؓ سے کچھ بنیادی سوالات دریافت کیے ۔
حضرت عمروؓ بن العاص نے نہایت معقول جواب دے کر ان کی تسلی کر دی۔ دونوں بھائیوں نے اسلام قبول کر لیااور بھی بہت سے سلاطین کی طرف فرمان نبویؓ روانہ کیے گئے اور خداوند کریم کے فضل و کرم سے ہر طرف کامیابی ہوئی ۔
اذنِ جہاد 
حضورﷺ جب سے مدینہ میں آئے تھے اسلام اور مسلمانوں کی ہر طرف شہرت ہو گئی تھی ۔ کفار مکہ ان خبروں سے بہت برا فروختہ ہوئے ۔ انھیں خدشہ ہوا کی مسلمان طاقت پکڑ کر ہم پر حملہ نہ کر دیں۔ انھوں نے مسلمانوں کو مدینے سے نکالنے کی ہر طرح کی کوششیں کیں مگر کامیاب نہ ہوئے ، جل بھن کر جہاں کہیں انھیں مسلمان مل جاتا اس پر ناروا ظلم و ستم ڈھاتے ۔ 
ایک روز حضورﷺ پر وحی نازل ہوئی جس میں کفار سے جہاد کی اجازت مل گئی ۔ مسلمان یہ حکم ملتے ہی خوش ہو گئے ۔
دوسرے دن حضورﷺ مسجد نبوی ﷺ میں تشریف فرما تھے کہ آپ کے پاس حضرت صدیق اکبرؓ ، حضرت علیؓ ، حضرت سعدؓ ، حضرت حمزہؓ اور دیگر بہت سے فدایان سلام بیٹھے تھے کہ ایک مسلمان پریشا ن حال آپﷺ کے پاس آیا ۔ 
سب سے پہلے سلام عرض کیااور پھر کہنے لگا اے خدا کے پیارے رسول اللہ ﷺ!آج مکہ کے ایک سردار کر زبن جابر ہماری چراگاہ پر چھاپہ مار کر ہمارے اونٹ ساتھ لے گیا ہے ۔ حضورﷺ کا چہرۂ مبارک یہ بات سن کر سرخ ہو گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کفار مکہ ہمیں مکہ سے تین سو میل دور بھی آرام نہیں کرنے دیتے ۔ ایسی حر کتیں کر کے وہ ہمیں اعلان جنگ دیتے ہیں ۔
حضورﷺ کو معلوم تھا کہ مکہ والوں کا ایک قافلہ شام سے آرہا ہے ۔ قافلے کے سالار ابو سفیان تھے ۔ حضورﷺ نے مسلمانوں کی ایک جماعت کو حکم دیا کہ وہ اس قافلے کو راستے میں روکیں تا کہ کفار مکہ پر مسلمانوں کا رعب قائم ہو اورانھیں یہ بات معلوم ہو جائے کہ اگر اب مسلمانوں سے بگاڑ پیدا کیا تو ہماری تجارت ملک شام سے بند ہو جائے گی ۔
حضورﷺ نے خود ساٹھ مجاہدین کو منتخب کیا۔ حضرت عبیدہؓ بن الحرث کو سردار مقرر کر کے انہیں سبز رنگ کا پرچم عطا فرمایا ۔ مدینہ کے منافقین نے ابو سفیان کو مسلمانوں کے حملہ کی اطلاع کر دی ۔ وہ اصل راستہ کترا کر نکل گیااور مکہ کی طرف ایک قاصد دوڑایا کہ مسلمانوں کے حملے کا خطرہ ہے ، فوراً مدد روانہ کرو۔ 
جنگ بدر 
جب ابو سفیان کے قاصد نے مکہ میں جاکر حالا ت بیان کیے تو فوراً مکہ والوں نے ایک عظیم الشان لشکر تیار کیا۔ اس لشکر میں مکہ کے تمام مشہور سردار اور آزمودہ کار جنگ جو بہادر تھے ۔ ابو جہل اس لشکر کا سالار منتخب ہوا ۔ یہ لشکر نہایت شان و شوکت سے روانہ ہوا ۔ راستے میں اس لشکر کو معلوم ہوا کہ ابو سفیان بخیریت مکہ پہنچ گیا ہے اور اس کے قافلے کو کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا، یہ حالات سن کر بعض سرداروں نے رائے دی کہ اب ہمیں واپس لوٹ جانا چاہیے کیونکہ مسلمانو ں نے ابو سفیان کے قافلے کو کوئی گزند نہیں پہنچائی ۔ لیکن ابو جہل نے کہا کہ اب ہمیں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار کر ہی واپس جانا چاہیے ۔ اس رائے پر سب متفق ہو گئے اور یہ لشکر چلتا ہوا مقامِ بدر کے قریب پہنچ گیا ۔ یہاں لشکر کفار نے اپنے خیمے نصب کر دیے اور بدر کے کنوئیں پر قبضہ کر لیا۔ اس لشکر کے ساتھ عرب کی گانے بجانے والی اور حسین عورتیں بھی تھیں ۔ چنانچہ رقص و سرود کی محفلیں گرم ہوئیں اور شراب کا دور چلنے لگا۔ ادھر حضور اکرم ﷺ کو جب کفار کی چڑھائی کی خبر ہوئی تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو اکٹھا کر کے جہاد کی تلقین کی ۔ سب مسلمانوں نے یک زبان ہو کر کفار سے لڑنے کا اعلان کیا ۔
اس مجمع میں چند لڑکے بھی تھے جو حضورﷺ کے ساتھ اس جنگ میں جانے پر اصرار کر رہے تھے ۔ حضورﷺ نے ایک نیزہ پر نشان لگا کر بچوں سے فرمایا ’’جس کا قد اس نشان تک ہو گا اسے شاملِ جہاد کر لیا جائے گا ۔‘‘
چونکہ سب بچوں کے قد چھوٹے تھے ۔ اس لیے نشان تک کسی کا قد نہ ہوا ۔ ایک بچہ ، جب آنحضورﷺ ا س کا قد ناپ رہے تھے ، ایڑھیاں اٹھا کر پاؤ ں کی انگلیوں کے بل کھڑا ہو کر اپنا قد پورا کرنے لگا ۔ حضورﷺ اس کی یہ ہوشیاری دیکھ کر خوش ہوئے اور اسے لشکر اسلام میں داخل ہونے کی اجازت عطا فرمائی ۔
ایک دوسرے لڑکے نے حضورﷺ سے عرض کی میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان اس لڑکے سے میری کشتی کرائی جائے ۔ اگر میں اسے گرا لوں تو مجھے داخل لشکرکر لیا جائے ۔ حضورﷺ نبی کریم ﷺ نے اس کا یہ جوش دیکھ کر اسے بھی شامل جہاد کر لیااور باقی لڑکے حضورﷺ کی ہدایت پر اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ۔ حضورﷺ نے مجاہدین کا جائزہ لیاتو وہ تین سو تیرہ شمار ہوئے اور کسی بھی مجاہد کے پاس پورے ہتھیار نہ تھے ۔
اگر کسی کے پاس تلوار تھی تو نیزہ نہ تھا اور نیزہ تھا تو کما ن نہ تھی ۔ سواری کا انتظام بھی مکمل نہ تھا۔ ایک ایک اونٹ پر تین تین آدمی سوار ہوئے ۔ اس بے سرو سامانی کی حالت میں اس لشکر نے کوچ کیا ۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے اسلامی پھریرا لہرایا اور لشکر کوچ کرتا ہوا بدر کے قریب پہنچ گیا ۔ بدر میں صرف ایک کنواں تھا جس پر کفار مکہ نے قبضہ کر لیا تھا ۔ جب مسلمانوں کا لشکر وہاں پہنچا تو سب سے پہلے انھیں پانی کی تکلیف ہوئی ۔حضورﷺ نے مسلمانوں کو ایک نشیبی جگہ پر تالاب کھودنے کا حکم دیا ۔ مسلمانوں نے تھوڑے ہی وقت میں تالاب کھود کر تیار کر دیا ۔ حضورﷺ نے تمام مسلمانوں کے ساتھ تیمم کیااور نماز ادا کر کے خداوند کریم کی درگاہ میں بارش کے لیے دعا کی ۔ چند لمحوں کے بعد ہلکی ہلکی بدلیاں نمودار ہوئیں ۔ تھوڑی دیر بعد اس زور سے بارش ہوئی کہ جل تھل ہو گیااو ر تالاب پانی سے بھر گیا ۔ بارش رات کے وقت تھمی تو مسلمانوں نے عشاء کی نماز پڑھ کر رات کو اپنے ہتھیار تیار کرنے شروع کیے ۔ جب مسلمان صبح کی نماز سے فارغ ہوئے تو کفار میدان میں صف بستہ ہو چکے تھے ۔ کل کی بارش کی وجہ سے جس میدان میں کفار تھے وہاں کیچڑ اور دلدل ہو گئی تھی اور ان کے گھوڑوں کے پاؤں دھنس جاتے تھے ۔ کفار کو صف بستہ دیکھ کر حضورﷺ سجدہ میں گر گئے اور درگاہ رب العزت میں عرض گزار ہوئے :’’اے پاک پروردگار !یہ تیرے بندے تیرے نام کو بلند کرنے کے لیے میدان میں حاضر ہو گئے ہیں،اگر یہ مٹ گئے تو قیامت تک تیرا نام بلند کرنے والے پیدانہ ہوں گے ۔ خدایا ان کی امداد فرما ۔ دشمنا ن اسلام کو اپنی قوت پر ناز و غرور ہے ۔ مسلمانوں کو صرف تیرا سہارا ہے ۔ حضورﷺ رو رہے تھے اور عرض کر رہے تھے ۔ خدایا اگر کفر و اسلام کی اس پہلی جنگ میں مسلمانوں کوشکست ہو گئی تو دنیا والے تجھ سے باغی ہو جائیں گے ۔ ‘‘ جس جگہ حضورﷺ سجدہ میں پڑے رو رہے تھے اور دعا مانگ رہے تھے وہ آپ ﷺ کے آنسوؤں سے تر ہو گئی ۔ اپنے محبوب ﷺ کی یہ حالت دیکھ کر رحمتِ خداوندی جوش میں آئی اور یہ آیت نازل ہوئی جس کا مفہوم ہے :کفار کو شکست ہو گی اور وہ بھاگ جائیں گے ۔ حضورﷺ نے سجدے سے سر اٹھا یااور مسلمانوں کو آکر یہ بشارت سنائی ۔ مسلمانوں نے زور سے اللہ اکبر کانعرہ بلند کیا ، آپﷺ کے ہاتھ میں ایک تیر تھا ۔آپﷺ اس کے اشارہ سے صفیں درست فرما رہے تھے ۔ دونوں فریق صف بستہ ہو گئے سب سے پہلے لشکر کفار سے عتبہ اور شیبہ دو بھائی اور ولید میدان میں نکلے ۔ تینوں بڑے بہادر اور دلاور تھے ۔ ان کے مقابلے پر لشکر اسلام سے عوفؓ و موعودؓ دو بھائی اور تیسرے عبداللہؓ بن رواحہ خدا کانا م لے کر نکلے ۔ جب یہ کفار کے نزدیک پہنچے تو عتبہ نے پوچھا تم کون ہو ؟ حضرت عوفؓ نے جواب دیا ہم انصار ہیں ۔ عتبہ نے متکبرانہ انداز میں کہا کہ تمھیں ہمارے ساتھ لڑنے کی ضرورت نہیں اور چلا کر کہا محمدﷺ ہمارے مقابلے کے لیے ہماری قوم کے لوگوں کو بھیجو ۔ عتبہ کے بیٹے حضرت حذیفہؓ مسلمان ہو چکے تھے اور لشکر اسلام میں موجود تھے ۔ تلوار کھینچ کر اپنے باپ کے مقابلے کے لیے نکلے ۔ کفار حیران رہ گئے کہ اسلام نے ان پر اتنا اثر کیا ہے کہ مسلمان کسی قرابت داری کا لحاظ نہیں کرتے ۔ حضورﷺ نے جب حذیفہؓ کو میدان جنگ میں جاتے دیکھا تو انھیں روک دیا اور اس بات کو گوارا نہ کیا کہ بیٹا اپنے باپ سے جا کر لڑے ۔
حضورﷺ نے حضرت حمزہؓ ، حضرت عبیدہؓ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو میدان جنگ میں جانے کی اجازت دی ۔ ان تینوں کو دیکھ کر عتبہ نے کہا، ہاں ہم تم سے لڑیں گے ۔ ہبل کی قسم !یا تو تمھیں قتل کر دیا جائے گا یا گرفتار کر لیا جائے گا ۔ حضرت حمزہؓ نے کہا ، عتبہ یہ میدان جنگ ہے ، ابھی تمہارے غرور کا سر نیچا کر دیا جائے گا ۔
ولید نے کہا ، پہاڑ سے سر ٹکرانے سے پہاڑ کا کچھ نہیں بگڑتا ۔ 
حضرت علیؓ نے فرمایا ، باتیں بنانے سے کوئی فائدہ نہیں ہے ، تلوار نکالو او رمقابلے کے لیے تیار ہو جاؤ ، فریقین نے تلواریں نکال لیں ۔ حضرت حمزہؓ کے مقابلہ پر عتبہ اور حضرت علی کےؓ مقابلہ پر ولید اور حضرت عبیدہؓ کے مقابلہ میں شیبہ ہو گیا۔ ولید بڑا بہادر اور آزمودہ کار جنگ جو تھا ۔ اس کے مقابلہ پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ بالکل نو عمر تھے ۔ ولید پوری قوت اور جوش سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر حملہ کر رہا تھا ۔حضرت علیؓ نے ولید کے وار روکتے ہوئے خدا کانام لے کر تلوار کا ایک بھر پور ہاتھ مارا ۔ ولید نے ڈھال پر روکنا چاہا مگر تلوار ڈھال کو کاٹتی ہوئی خود کے کچھ حصے بھی اڑا گئی ، لیکن ولید بچ گیا ۔ ولید یہ وار دیکھ کر حیران رہ گیا ، ابھی اس کی حیرانی دور نہ ہوئی تھی کہ شیر خدا نے دوسراوار کیا ۔ ولید کی گردن کٹ کر زمین پر گری اور بے سر کالا شہ زمین پر تڑپنے لگا۔
دوسری طرف حضرت حمزہؓ نے عتبہ کا کام تمام کر دیااور اس کامغرور سر گھوڑوں کی ٹاپوں میں کچلا جانے لگا ۔ دوسری طرف شیبہ نے لڑتے لڑتے حضرت عبیدہ ؓ پر تلوار کا ایسا وار کیا کہ تلوار بائیں شانے کو کاٹتی ہوئی گردن کے ایک چوتھائی تک اُتر گئی ۔ 
یہ حالت دیکھ کر حضرت علیؓ شیبہ کی طرف بڑھے ۔ شیبہ بھی حضرت عبیدہؓ کو چھوڑ کر بپھرے ہوئے شیر کی مانند لپکااور حضرت علی کرم اللہ وجہہ پر تلوار کا وار کیا ۔ حضرت علیؓ نے اس کا وار روک کر بجلی کی تیزی کے ساتھ اس کی گردن پر تلوار ماری اور اُسے واصل جہنم کر دیا۔
جلدی سے حضرت عبیدہؓ کو زخمی حالت میں اٹھا کر حضورﷺ کے سامنے جا لٹایا گیا۔ عبیدہؓ کو اس وقت ذرا ہوش آئی ۔ حضورﷺکے قدموں میں اپنے آپ کو پا کر آہستہ آواز میں کہنے لگا:
’’ہم محمدﷺ پر اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے مگر دشموں کو غالب نہ آنے دیں گے ۔‘‘کچھ اور کہنا چاہا مگر زبان بند ہوگئی ، ایک ہچکی آئی اور ساتھ ہی روح قفس عنصری سے پر واز کر گئی اب کفار کے لشکر سے عمر وبن العاصؓ فاتح مصر کا بھتیجا سعید بن عاص کا بیٹا نکلا ۔ا س کا تمام جسم لوہے کی زرہ میں چھپا ہوا تھا اور سوائے آنکھوں کے جسم کا کوئی حصہ نظر نہیں آتا تھا۔ اس نے میدان میں آکر پکارا جس کو موت کی آرزو ہو وہ میرے مقابلے پر آئے ۔
حضرت زبیرؓ اس کے مقابلے کے لیے لشکر اسلام سے نکلے ۔ تلواریں میانوں سے نکلیں اور ٹکڑا کر بجلی کے شرارے پیدا کر نے لگیں ، دونوں جنگ جومست ہاتھیوں کی طرح غضب ناک ہو کر ایک دوسرے پر وار کر رہے تھے ۔ حضرت زبیرؓ کو ایک دو زخم بھی لگے لیکن ابنِ سعید کو زرہ کی وجہ سے خراش تک نہ آئی ۔ آخر حضرت زبیرؓ نے تاک کر اس کی آنکھ میں برچھی ماری ۔ برچھی ایسی پیوست ہوئی کہ اس کے گرنے پر حضرت زبیرؓ نے اس کے سینے پر پاؤں رکھ کر پوری قوت سے زور لگایا تو وہ برچھی باہر نکلی ۔ اس برچھی کو حضورﷺ نے یاد گار کے طور پر اپنے پاس رکھا ۔ آپ ﷺ کے بعد خلفا ء کے پاس یہ برچھی رہی ۔ پھرحضرت زبیرؓ کے بیٹے عبداللہؓ بن زبیر کے پاس آئی ۔ حضرت زبیرؓ نے لشکر کفار کو پکارا ۔ یکے بعد دیگرے کئی کفار آپ کے مقابلے پر آئے ۔ آپ جس تلوار سے لڑ رہے تھے اس میں آری کی طرح دندانے پڑ گئے تھے ۔ آ پ کے شانے پر اتنا گہرا زخم آیا کہ اچھا ہونے پر بھی اس میں اتنا گہرا سوراخ ہو گیا تھا کہ آ پ کا لڑکا اس میں انگلی ڈال کر کھیلا کرتا تھا ۔ باوجود اس قدر زخمی ہونے کے ،آپ میدان جنگ میں ڈٹے رہے ۔ دشمن پر خوف و ہراس چھا گیا ۔ یہ حالت دیکھ کر ابو جہل نے عام حملے کا حکم دے دیا ، تھوڑی دیر میں کفار مسلمانوں اور مسلمان کفار میں گھس گئے ۔ مار دھاڑ شروع ہو گئی ، چیخ و پکار سے بدر کا میدان تھر تھرا اُٹھا ۔ مسلمانوں نے اس جوش او رقوت سے حملہ کیا کہ کفار کو یہ یقین ہو گیا کہ مسلمانوں کے ساتھ لڑنا آسان بات نہیں ہے ۔ حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمرؓ ، حضرت عثمانؓ ،حضر ت علیؓ اور حضرت حمزہؓ جس طرف حملہ کرتے کشتوں کے پشتے لگا دیتے ۔
دوسری طرف ابو جہل ، عقیل ابوالبختری ، نوفل وغیرہ سردار رانِ کفاراور نہایت جنگ جو بہادر کمال جوش اور بہادری سے لڑ رہے تھے ۔ ابو جہل گھوڑے پر سوا رتھا ۔ معاذؓ پیدل تھے ۔ ان کی نظر ابو جہل پر پڑی ، معاذؓ ابو جہل کی طرف لڑتے جاتے تھے اور قریب ہوتے جاتے تھے ۔
ابو جہل نے معاذؓ کو دیکھا ۔ تلوار کا وار کیا مگر معاذؓ اس کی زد سے بچ گئے ۔ معاذؓ نے جلد ی سے وار کیا۔ گھوڑے پر سوار ہونے کی وجہ سے تلوار ابو جہل کی پنڈلی پر پڑی اور اس کو کاٹتی ہوئی گھوڑے کے پیٹ میں گھس گئی ۔ معاذ ؓ اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر جھپٹے ۔ابو جہل کے بیٹے عکرمہؓ نے جب باپ کی یہ حالت دیکھی تو پیچھے سے تلوار کا ایک ہاتھ مارا ۔ تلوار شانہ پر پڑی اور حضرت معاذؓ کا بازو کٹ کر لٹک گیا ۔معا ذؓ نے پلٹ کر عکرمہ کو دیکھااور کہا او بزدل ، نامراد !تو نے بے خبری کے عالم میں مجھ پر وار کیا ۔اگر بہادر ہوتا تو سامنے آکر لڑتااور جھپٹ کر عکرمہ پر حملہ کر دیا عکرمہ ڈر کر میدان سے بھاگ نکلا ۔
معاذؓ کا بازو عکرمہ کے وار سے لٹک گیا تھااور لڑائی میں حرج ہو رہا تھا انھوں نے اسے پاؤں کے نیچے رکھ کر زور سے کھینچ کر الگ کر دیا اور اسی حالت میں لڑتے رہے ۔ اپنے زخم کی پروا تک نہ کی ۔ حضرت حمزہؓ یہ رجز پڑھتے جاتے تھے اور دشمنوں پر حملہ کرتے جاتے تھے :
’’میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں ، خون خوار شیر کی طرح حملہ کرتا ہوں ۔ میری تلوار کے سامنے جو ایک دفعہ آجاتا ہے ، بچ کر نہیں جا سکتا ۔‘‘
اس وقت تک کفار مکہ کے بڑے بڑے سرادر قتل ہو چکے تھے جن میں عتبہ ، زمعہ ، ہشام وغیرہ تھے ۔ امیہ جو مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا اور اپنے غلام حضرت بلالؓ کو بے حد اذیتیں دیتا تھا، اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں سے جنگ کر رہا تھا کہ حضرت بلالؓ کی نظر اس پر پڑی ۔ انھوں نے پکارا ’’امیہ اے دشمن خدا !‘‘مسلمان اس کی طرف بڑھے اور امیہ اور اس کے بیٹے علی دونوں کو قتل کر ڈالا ۔ا س وقت ایک صحابی عمیرہؓ بن الحمام جو انصاری تھے اور اُس وقت کھجوریں کھا رہے تھے ، حضورﷺ کی خدمت میں آئے اور حضورﷺ سے دریافت کیا ۔ اے خدا کے رسول ﷺ! اگر میں کفار سے جہاد کرتے ہوئے مارا جاؤں تو کیا جنت میں چلا جاؤ ں گا ۔
حضورﷺ نے فرمایا جو مسلمان بھی کفار کے ہا تھوں لڑائی میں مارا جائے گا اسے جنت ملے گی ۔ یہ سنتے ہی عمیرؓ نے اپنے ہاتھ سے کھجوریں پھینک دیں اور تلوار نکال کر دشمنوں پر جا پڑے۔ دشمنوں کی صفوں کو درہم برہم کر دیااور کفار قریش کے دو نام ور بہادر سرداروں حرث اور زمعہ کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے ۔ 
اس طرف سے فارغ ہو نے کے بعد حضرت عمیرؓ ادھر سے ادھر دشمنوں کا صفایا کر نے لگے ۔ زخموں کی وجہ سے لڑتے لڑتے چور ہو گئے اور اس وقت تک لڑتے رہے جب تک شہید نہیں ہوگئے ۔
اس وقت بھی کفار کے لشکر کی تعداد مسلمانوں سے بہت زیادہ تھی اور پھر کفار آہن پوش تھے۔ مسلمانوں کے پاس پورے ہتھیار بھی نہ تھے لیکن پھر بھی مسلمان بپھرے ہوئے شیروں کی طرح حملے کر رہے تھے ۔
حضورﷺ نے اس وقت مٹھی بھر خاک اور کنکریاں اٹھائیں اور اس پر کچھ پڑھ کر دم کیااور کفار کے لشکر کی طرف پھینک دیں ۔ خد ا کی شان کہ لشکر میں بھگ ڈر مچ گئی ۔ ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ شکست کھا کر بھاگے ۔ یہ حالت دیکھ کر حضورﷺ سجدہ میں گر گئے۔ آپ ﷺ نے اپنے مولا کے حضور میں شکر ادا کیا کہ آج تو نے اپنے بے کس بندوں کی لاج رکھ لی ، اسلام کا بول بالا کر دیا ۔ جس وقت آنحضورﷺ نے سجدے سے سر اٹھایاا س وقت مسلمان کفار کو قیدی بنا بنا کر لارہے تھے ۔ حضورﷺ نے ان قیدیوں میں ابو جہل کو تلاش کیا، جب نہ ملا توحضرت عبداللہؓ بن مسعود کو حکم دیا کہ مقتولین میں جا کر دیکھو تا کہ معلوم ہو ابو جہل کا کیا حشر ہوا ۔ عبداللہؓ نے جا کر تلاش کیا توابوجہل نیم مردہ حالت میں خون میں لت پت پڑا ہوا تھا۔ عبداللہؓ نے اسے دیکھتے ہی کہا ’’ او دشمن اسلام !تو نے اپنا انجام دیکھا ۔‘‘ابو جہل نے تکلیف کے عالم میں جواب دیا ’’مگر مسلمانوں کو ان کے خدا نے فتح دی ہے ۔‘‘عبداللہؓ نے ابو جہل کا سر کاٹنا چاہا تو اس نے کہا ’’دیکھو ، میری گردن مونڈھے سے ملا کر کاٹنا تا کہ دوسروں کے کٹے ہوئے سروں سے بڑا معلوم ہو اور لوگ سمجھیں گے کہ سردار کا سر ہے ۔‘‘عبداللہؓ نے اس کا سر کاٹا اور حضورﷺ کے قدموں میں لاڈالا۔ مسلمان اس مردود ازلی کا سر دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ اس جنگ میں صرف چودہ مسلمان شہید ہوئے جن میں سے آٹھ انصار اور چھ مہاجر تھے ۔ حضورﷺ نے انھیں بڑے اعزاز کے ساتھ دفن کرایااور کفار کی لاشوں کو ایک ناکارہ کنوئیں میں ڈال کر ڈبو ا دیا۔ 
جب کفار کی لاشیں کنوئیں میں پھینکی جا رہی تھیں تو حضورﷺ نے ایک ایک کافر کی لاش کو نام لے کر خطاب کرتے ہوئے فرمایا ، دیکھو اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ ہم سے کیا تھا وہ پورا ہوا ۔ا س کام سے فارغ ہونے تک رات کا بہت حصہ گزر چکا تھا ۔ اس رات حضورﷺ نے وہاں قیام فرمایا ۔ صبح کو کوچ کیااور فاتح لشکر مدینہ میں داخل ہوا ۔ پہلے تو یہودیوں اور مشرکین کو مسلمانوں کی فتح کا یقین نہ ہوا مگر جب اسیران جنگ کو دیکھا تو انھیں بڑا تعجب ہوا ۔ یہ تھی وہ مسلمانوں کی پہلی جنگ جن میں انھیں خداوند کریم نے فتح دی، وہ لوگ بتائیں کہ کون سی تلوار سے اسلام پھیلا ہے ؟ جو اسلام پر الزام لگاتے تھے وہ تاریخ کے آئینے میں جھانک کر دیکھ لیں کہ کیا قریش مکہ زیادہ طاقت ور تھے یا مسلمان ۔ مسلمان تو اتنے کمزور تھے کہ ان کے پاس ہتھیار تک نہ تھے ۔ وہ اللہ کے بھروسے پر لڑے اور اُسی نے انھیں کامیاب کیا ۔
مکہ میں ماتم 
جب مکہ میں مشرکین کے قتل اور شکست کی خبریں پہنچیں تو گھر گھر ماتم ہونے لگا ۔ پہلے توکفار کو یقین ہی نہ آیا کہ اتنا عظیم الشان لشکر جس میں چوٹی کے بہادر شامل تھے مٹھی بھر بے سرو سامان مسلمانوں سے شکست کھا جائے گا ۔ کوئی گھر ایسا نہ تھا جس سے سینہ کو بی کی آوازیں نہ آرہی ہوں ۔ 
ابو لہب نے منادی کے ذریعے اس ماتم کو بند کرایا ۔ لوگوں کو سمجھایا کہ ان کے رونے سے مسلمان خوش ہوں گے ، مگر خود ابو لہب پر اس شکست کا ایسا اثر ہوا کہ غم کی وجہ سے ایک ہفتہ کے اندر اندر مر گیا ۔ ایک روز ایک عورت اپنے اونٹ کے گم ہو جانے کی وجہ سے رو رہی تھی کہ ایک کافر اسود کا گزر وہاں سے ہوا ۔ جب اسے معلوم ہوا کہ یہ عورت اونٹ گم ہونے پر رورہی ہے تو اس نے کہا ’’تو ایک اونٹ گم ہونے کی وجہ سے اس قدر رو رہی ہے ، اگر تجھے رونا ہی ہے تو بدر کے مقتولین کو رو ۔ ان کورو جن کی یاد ہمیں کبھی نہیں بھول سکتی ۔‘‘
ابو سفیان کی بیوی جس کا بھائی اور باپ بدر میں قتل ہو گیا تھا اس نے چند شاعروں سے ان کے فراق میں مرثیے اور نوحے لکھوائے ۔ دن رات انھیں پڑھتی اور روتی رہتی اس نے کپڑے بدلنے اور سنگار کر نا چھوڑ دیا ۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر ابو سفیان دو سو بہادر جوانوں کو لے کر مکہ کی طرف چلا ۔ مدینہ سے چند میل کے فاصلے پر مقام عریض پر اس نے ایک کاشتکار سعدؓ بن عمرو کو قتل کر دیا ۔ مکانوں کو آگ لگا دی ، فصلوں کو جلا دیا ، مگر جب مسلمانوں کی آمد کی خبر ہوئی تو بھاگ کھڑا ہوااور اس کے ساتھی بھاگتے وقت بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ستو کے تھیلے گراتے گئے ۔ عربی میں ستو کو سویق کہتے ہیں ۔ اس لیے واقعہ کو غزوۂ سویق کہتے ہیں ۔ جب وہ بھاگ کر مکہ میں داخل ہو اتو لوگوں نے اسے حقارت کی نظروں سے دیکھا ۔ اس کی بیوی نے اسے لعنت ملامت کی ۔ ایک دن کفارِ مکہ خانہ کعبہ میں موجود تھے ۔ ایک کافر عمیر نے آہ سرد بھرتے ہوئے کہا ’’اب زندگی کا کوئی لطف نہیں رہا ۔ اگر میرے سر قرضہ نہ ہو تا اور بچوں کی پرورش کا وسیلہ ہوتا تو میں جا کر محمدﷺ کو (نعوذ باللہ ) قتل کر دیتا تا کہ بدر کی شکست کی وجہ سے جو آگ ہمارے سینوں میں جل رہی ٹھنڈی ہو جائے ۔‘‘
عمیر اپنے گھر آیااور زہر میں اپنی تلوار بجھا کر مدینہ کی طرف روانہ ہوا ۔ جب مدینہ میں پہنچا تو اتفاق سے حضرت عمرؓ کی نظر اس پر پڑی ۔ عمرؓ اسے پکڑ کر کھینچتے ہوئے حضورﷺ کی خدمت میں لائے ۔
حضورﷺ نے پوچھا ’’کس لیے آئے ہو؟‘‘عمیر نے کہا ’’میرا بیٹا قید ہے اس کو چھڑانے آیا ہوں ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا ’’عمیر جھوٹ نہ بولو کیا تم اپنی تلوار کو زہر میں بجھا کر میرے قتل کے ارادے سے نہیں آئے ؟‘‘ عمیر ،حیران ہو گیا ،ا س نے بے اختیار کہا ،بے شک آپﷺ اللہ کے رسول ﷺہیں جو آپﷺ کو میرے آنے سے قبل یہ خبر ہوگئی ہے ۔ میں مسلمان ہوتا ہوں ۔‘‘
حضورﷺ نے اسے مسلمان کیا ۔ جب عمیر کے مسلمان ہونے کی خبر مکہ میں پہنچی تو قریش اسے گالیاں دینے لگے ۔ قریش مکہ کے دلوں سے کسی طرح بھی مقتولین بدر کی یاد نہ بھولی ۔ابو سفیان کی بیوی ہندہ بھی رو رو کر اپنے خاوند کو انتقام کے لیے ابھارتی ۔
جنگ اُحد 
ابو سفیان نے ایک روز شاعروں اور نقیبوں کو اطراف مکہ روانہ کیا تا کہ وہ قبیلوں کو جنگ کے لیے ابھاریں اور خود مکہ کے لوگوں کو تیار کر نے لگا ۔ اس نے پچاس ہزار مثقال سونا اور ایک ہزار اونٹ خود اس جنگ کے لیے دیے۔ اطراف مکہ سے تمام حلیف قبائل پورے سازو سامان سے آنے شروع ہوئے ۔ ادھر ہندہ ابو سفیان کی بیو ی نے نوجوان عورتوں اور لڑکیوں کو جنگ پر جانے کے لیے آمادہ کر لیا ۔ کفار مکہ نے تہیہ کر لیا کہ یا وہ خود مٹ جائیں گے یا اس جنگ میں مسلمانوں کی ہستی کو ختم کر دیں گے ۔
کعب بن اشرف ایک یہودی جو مدینہ میں رہتا تھا اس وجہ سے مدینہ چھوڑ کر مکہ آگیا تھا کہ بدر کے مقام پر مسلمانوں کو فتح کیوں ہوئی ۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھا ۔ اس نے اس قدر درد ناک مرثیے لکھے جسے سن کر لوگوں میں بے پناہ جوش پیدا ہو گیا ۔ 
ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے قسم کھائی کی جب تک حضرت حمزہؓ کا کلیجہ اپنے دانتوں سے نہ چباؤں گی ۔ کبھی آرام نہ کروں گی ۔ جبیر بن مطعم کے چچا کو بھی حضرت حمزہؓ نے جنگ بدر میں قتل کیا تھا ۔ اس نے اپنے غلام وحشی کو جو بر چھی چلانے میں خوب ماہر تھا ، کہا اگر تو حمزہؓ کو مار ڈالے تو تجھے آزاد کر دوں گا ۔ ہندہ نے کہا وحشی !اگر تو نے اپنے حربے سے حمزہؓ کو قتل کر دیا تو میں اپنا تمام زیورتجھے دے دوں گی ۔ غرضیکہ اس جوش و خروش سے ایک د ن یہ لشکر روانہ ہوا ۔ تمام بڑے بڑے سرداران قریش کی نوجوان لڑکیاں اور عورتیں بھی لشکر کے ساتھ تھیں ۔ نوجوان لڑکیاں ہاتھوں میں دف لے کر یہ اشعار گا رہی تھیں :
’’وہ بہادر تھے جو بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے ۔
آج مکہ کے بہادر ان کا انتقام لینے کے لیے جا رہے ہیں ۔
یہ شیروں کا لشکر ہے یہ اس وقت تک لڑیں گے جب تک ایک مسلمان بھی زندہ رہے ۔
اگر یہ مسلمانوں کو مٹا کر واپس آئے تو ہم انھیں گلے لگائیں گے ۔ 
اگر میدان جنگ سے بھاگ کر آئے تو انھیں منہ نہ لگائیں گی ۔‘‘
جب حضورﷺ کو کفار مکہ کے اس لشکر کی اطلاع ملی تو حضور ﷺ اپنے ساتھ ایک ہزار آدمیوں کا لشکر لے کر مدینے سے باہر نکلے ۔ جب یہ لشکر قبا کے قریب پہنچا تو عبداللہ بن ابی ایک سردار جو بہت بڑا منافق تھا ، اپنے ساتھوں کو لے کر واپس ہو گیا ۔
اس کا خیال تھا کہ ایسا کرنے سے مسلمان بد دل ہو جائیں گے مگر مسلمان صرف اللہ کے بھروسے پر جنگ کرتا ہے ۔ انھوں نے عبداللہ کی اس حرکت کی پروا تک نہ کی ۔ اب حضورﷺ کے ساتھ صرف سات سو مجاہدین مسلمان رہ گئے تھے۔ اس لشکر میں بچے اور بوڑھے سبھی شامل تھے ۔ صرف دو گھوڑے اور اسی اونٹ تھے ۔ قباء سے آگے بڑ ھ کر حضورﷺ نے مع لشکر اسلام کے نماز عصر ادا کی ، نماز ادا کرنے کے بعد لشکر نے پھر کوچ کیا ۔ ۱۴ شوال کو یہ اسلامی لشکر نہایت دبدبہ اور شان کے ساتھ احد کے پہاڑ کے دامن میں پہنچا ۔ قریش دو روز قبل ہی وہاں فروکش ہو چکے تھے ۔ اگلے روز فریقین نے میدان جنگ میں صف آرائی کی ، مسلمانوں کو اتنی تھوڑی تعداد میں دیکھ کر کفار خوش ہو نے لگے ۔
ابو سفیان نے کہا ، یہ تھوڑے سے مسلمان ہبل پر قربان ہونے کے لیے ہمارے سامنے آئے ہیں ۔ عکرمہ بن ابو جہل نے کہا ۔ مسلمانوں کو تھوڑا سمجھ کر خوش نہیں ہونا چاہیے ۔ بدر کے مقام پر مسلمانوں کی بہادری کے کارنامے ابھی تک مجھے یاد ہیں ۔ حضورﷺ نے پچاس تیر اندازوں کو حضرت عبداللہؓ بن جبیر کی ماتحتی میں احد کی گھاٹی پر تعینات فرمایا تا کہ دشمن کا عقب میں آکر حملے کا خطرہ نہ رہے اور تاکید کی کہ اس مقام کو کسی حالت میں بھی نہ چھوڑنا ۔ حضورﷺ نے میمنہ پر حضرت زبیر بن العوامؓ اور میسرہ پر منذرؓ بن عمرو جب کہ درمیان میں حضرت حمزہؓ اور حضرت مصعبؓ کو عَلم عطا فرمایا ۔ 
حضرت ابو دجانہؓ کو حضورﷺ نے اپنی خاص تلوار عنایت فرمائی ۔ ابو دجانہؓ حضورﷺ کی تلوار کو لے کر اکڑ کر چلنے لگے ۔ حضورﷺ نے دیکھ لیااور فرمایا کہ صرف کفار کے مقابلہ پر جنگ میں اکڑ کر چلنا جائز ہے ۔ 
دوسری طرف ابو سفیان نے خالد بن ولید کو میمنہ اور عکرمہ بن ابو جہل کو میسرہ پر علم دیا ۔ خواتین قریش نے دف بجا کر جوش پیدا کرنے کے لیے یہ گانا شروع کیا :’’آج احد پہاڑیوں کے سامنے مکہ کے شیر آئے ہیں ۔ یہ وہ شیر ہیں جن کانام سن کر دنیا کانپتی ہے ۔ ہم آسمان کے تاروں کی بیٹیاں ہیں ۔ ہم قالینوں پر چلنے والیاں، اگر تم بڑھ کر مارو گے تو ہم تم سے گلے ملیں گی ۔ اگر تم پیچھے ہٹو گے تو ہم تم سے جدا ہو جائیں گی ۔‘‘
ہندہ نے جو عورتو ں کے دستہ کی سالار تھی اعلان کیا کہ جب تک حمزہؓ کا کلیجہ نہ کھا لوں ، تب تک چین سے نہ بیٹھوں گی ۔
دونوں لشکر جب قریب پہنچے تو لشکر کفار میں سے طلحہ نے نکل کر طنزیہ کہا :
’’میں قریش کا علم بردار ہوں ، جس مسلمان نے جنت میں جانا ہو میرے سامنے آئے ۔‘‘حضرت علیؓ شیر خدا اس کی یہ لاف زنی سن کر میدان میں نکلے اور آتے ہی تلوار کا ایک ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ اس کی لاش زمین پر تڑپنے لگی ۔ اس کابیٹا عثمان اپنے باپ کو قتل ہوتا دیکھ کر میدان میں نکلا ۔ حضرت حمزہؓ مقابلے پر آئے اور تلوار اس زور سے ماری کہ کمر تک پھاڑتی چلی گئی۔ اس کے بعد چار اور بھائی باری باری میدان میں نکلے اور مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے اور اس خاندان کا کوئی فرد باقی نہ رہا ۔ یہ حالت دیکھ کر ابو سفیان نے عام حملے کا حکم دیا ۔ ادھر مسلمان بھی آگے بڑھے اور تلواریں چلنے لگیں ، خون کی بارش ہونے لگی ۔
حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ ، حضرت حمزہؓ ، حضرت صدیقؓ ، حضرت ابو دجانہؓ کمال دلیری اور بے جگری سے کفار پر حملے کر رہے تھے ۔ حضرت حنظلہؓ مسلمانوں کی طرف سے لڑ رہے تھے اور ان کے باپ ابو عامر کفار کی طرف سے لڑ رہے تھے ۔ حضرت حنظلہ مارتے کاٹتے ابو سفیان کے قریب پہنچ گئے ۔ قریب تھا کہ اس پر حملہ کر کے ابو سفیان کاکام تمام کردیں کہ برابر سے ایک کافر نے عالم بے خبری میں آپ پر حملہ کر دیااور آپ شہید ہو گئے ۔ 
ابو دجانہؓ حضورﷺ کی تلوار ہاتھ میں لیے نہایت بے جگری سے لڑ رہے تھے اتفاق سے ابو سفیان کی بیوی ہندہ ان کی تلوار کی زد میں آگئی ۔ ہندہ کی چیخ نکل گئی جس پر ابو دجانہؓ سنبھل گئے اور انھوں نے کہا ’’اللہ کا شکر ہے ، حضورﷺ کی تلوار سے عورت کا قتل نہیں کیا ۔‘‘ حضرت حمزہؓ دونوں ہاتھوں میں تلواریں لے کر چلا رہے تھے اور جوش جہاد میں اس قدر سر شار تھے کہ سوائے حملہ کرنے کے حملہ روکنے کی طرف مائل نہ تھے ۔ آپ کے سامنے ایک بہادر کا فر غیشانی آگیا۔
آپ نے للکارتے ہوئے اسے کہا ’’او اونٹنی کے بچے کہاں جاتا ہے ؟‘‘اور اس پر حملہ کر کے اس کے دو ٹکڑے کر دیے ۔ وحشی حضرت حمزہؓ کی تلاش میں تھا ۔ اتفاقاً اس کی نظر حضرت حمزہؓ پر پڑی ۔ اس نے حضرت حمزہؓ کو تاک کر نیزہ پھینکا ۔ نیزہ آپ کے پہلو میں لگا اور دوسرے پہلو سے پار ہو گیا ۔ حضرت حمزہؓ شہید ہو کر گر ے ۔ وحشی یہ خوشخبر ی ہندہ اور اپنے مالک کو سنانے کے لیے بھاگا ۔ میدان جنگ میں لڑائی کے وقت اگر کسی فریق کا علم گرجاتا تو اس لشکر کا دل شکستہ ہو جاتا ۔ حضرت علیؓ نے کفارِ قریش کے دس کے قریب علمبردار قتل کیے ۔ آخری علم بردار صواب کے قتل ہونے پر پھر کسی نے قریش کا علم نہیں اٹھایا ۔ ہر محاذ پر مسلمان جوش و غضب میں بھرے ہوئے لڑرہے تھے ۔ان کے بے پناہ حملو ں سے دشمن کے لشکر میں ابتری پھیل گئی، وہ بھاگ نکلے ۔ 
یہ حالت دیکھ کر ابو سفیان بھی بھاگ نکلا ۔ اس کی بیوی ہندہ اور ساری عورتیں اپنی اپنی دف پھینک کر بھاگیں ۔ مسلمان ان کے تعاقب میں برابر تلواریں چلا رہے تھے اور دور تک کفاروں کی لاشیں بچھا دیں ۔ کچھ مسلمان مال غنیمت اکٹھا کرنے لگے ۔
مسلمانوں کا وہ دستہ جو احد کی گھاٹی پر تھا ، کفار کے پیچھے قتل کرنے کے لیے بھاگا ۔ حضرت عبداللہؓ نے کہا’’مسلمانو!کیا کرتے ہو ۔ حضورﷺ کا حکم تھا کہ تا حکم ثانی اس جگہ کوکوئی نہ چھوڑے ۔‘‘مسلمانوں نے جواب دیا حضورﷺ کا یہ حکم بوقت جنگ تھا ۔ اب کفار بھاگ گئے اور خدا نے مسلمانوں کو فتح دی ہے ۔ سوائے چند مسلمانوں کے باقی تمام کفار کے قتل کرنے کے شوق میں وہاں سے چلے گئے ۔
خالد بن ولید نے جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے، جب اس گھاٹی کو خالی دیکھا تو ان کے ذہن میں کوئی بات آگئی ۔ فوراً انھوں نے اپنے ساتھیوں کو اکٹھا کیا جن کی تعداد سو تھی اور ایک لمبا چکر کاٹ کر مسلمانوں کی نظروں سے بچتے ہوئے اس گھاٹی میں داخل ہو گئے ۔ عبداللہؓ اور ان کے ساتھی جن کی تعداد پانچ تھی ،نے خالد کا خوب مقابلہ کیا آخر پانچوں شہید ہو گئے ۔ خالد اور ان کے ساتھی تیز رفتاری سے نیچے اترے اور حضورﷺ کے پاس جو چند مسلمان تھے ان پر حملہ کر دیا ۔ مسلمان جو کفار کے تعاقب میں چلے جا رہے تھے ، جب انھوں نے یہ حالت دیکھی تو پلٹ پڑے ۔
عکرمہ بن ابو جہل نے جب مسلمانوں کو واپس جاتے دیکھا تو اپنے ہمرائیوں کو للکار کر روکااور مسلمانوں کے تعاقب میں دوڑا ۔ ابو سفیان نے بھی رک کر اپنے لشکر کو اکٹھا کیااور انھیں ساتھ لے کر نئی ہمت اور نئے جوش سے حملہ آور ہوا ۔
قریش کی ایک بہادر خاتون عمرۃ نے اپنا گرا ہو اعلم بلند کر کے کہا’’ بہادرو ! اس علم کی لاج رکھواور اس کی حرمت کے لیے کٹ مرو ۔‘‘ کفار پھر پلٹے اور مسلمانوں پر یکے بعد دیگرے حملہ آور ہوئے ۔ اب مسلمانوں کو آگے پیچھے دوطرف سے کفار نے گھیر لیااور مسلمانوں کی کوئی صف بندی نہ رہی اور ایسی بدحواسی چھائی کہ اپنے اور بیگانہ میں کوئی تمیز نہ رہی ۔
اس ہنگامے میں حضرت مصعبؓ جو حضورﷺ کے بالکل ہم شکل تھے ، کفار کے ہاتھوں شہید ہو گئے ۔ اس نے سمجھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو قتل کر ڈالا ہے ۔ زور سے پکارا میں نے حضورﷺ کو قتل کر دیا ۔ اس آواز سے مسلمانو ں پر مایوسی چھا گئی ، حضرت عمرؓ لڑائی سے رک گئے ۔ حضرت نضرؓ نے وجہ پوچھی تو کہا اب لڑنے سے کیا فائدہ حضورﷺ تو شہید ہو گئے ۔
حضرت نضرؓ نے جواب دیا ، اب زندگی کا لطف باقی نہیں رہا جب خدا کے حبیبؓ شہید ہو گئے ۔اب ہمیں بھی شہید ہونا چاہیے ۔ حضرت عمرؓ نے دوبارہ اس کے ساتھ حملہ کر دیا ۔ لڑتے لڑتے حضرت نضرؓ شہید ہو گئے ۔لڑائی کے بعد جب انکی نعش دیکھی گئی تو اسّی زخم تھے۔
حضورﷺ نے بلند آواز سے کہا ، اللہ کے بندو !میری طرف آؤ میں اللہ کا رسول ﷺ زندہ ہوں ۔
حضورﷺ کی آواز سن کر ایک طرف سے مسلمان آ پﷺ کی طرف دوڑنے لگے اور دوسری طرف سے قریش نے یلغار کر دی اور وہ جگہ لڑائی کا مرکز بن گئی ۔ عبداللہ بن ہشاب نے حضورﷺ کے قریب پہنچ کر وار کیا ، آپﷺ کا چہرہ مبارک زخمی ہو گیا ۔ اسی وقت عبداللہ بن قمیۃ نے آپﷺ پر وار کیا جس کی وجہ سے خود کی کڑیاں آنکھ کے نیچے رخسار کی ہڈی میں پیوست ہو گئیں ۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے خود کو جو حضورﷺ کے چہرہ مبارک میں پیوست تھا، اپنے دانتوں میں پکڑ کر زور سے کھینچا ، ابو عبیدہ کے دو دانت ٹوٹ گئے مگر خود نہ نکلا ۔ بڑی جدو جہد کے بعد خود نکلااور ساتھ ہی خون کا فوارہ پھوٹ پڑا ۔ ایک شریر نے حضرت پر ایک پتھر کھینچ مارا جس کی وجہ سے نیچے کا دانت مبارک شہید ہو گیا ۔
اس وقت حضرت عمرؓ حضرت علیؓ ، حضرت صدیقؓ ، حضرت طلحہؓ اور کئی دیگر جان نثار اپنے مقابل کے دشمنوں کو قتل کر کے حضورﷺ کے قریب آگئے ۔ اس وقت خواتین قریش انتقام بدر کے جوش میں مسلمانوں کی لاشوں کے ناک او ر کان کاٹ رہی تھیں ۔ہندہ نے ناکوں اور کانوں کا ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈال لیا ۔ اتفاقاً اسے حضرت حمزہؓ کی لاش مل گئی ۔ 
اس نے لاش کا پیٹ چاک کیا اور جگر نکال کر چبا گئی مگر نگل نہ سکی اور اگل دیا ۔ اسی وقت سے اس کا نام ’’ہندہ جگر خوار ‘‘پڑ گیا ۔
اس وقت کفار کے حملوں میں کچھ کمی آنے لگی ۔ مسلمانوں نے پر زور حملہ کر کے کفار کوکچھ پیچھے دھکیل دیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اگر ہو سکے تو پہاڑ پر چڑھ جاؤ ۔ آپﷺ کا ارشاد پا کر شمع نبوت کے پروانے پہاڑ پر چڑھنا شروع ہوئے اور ایک اچھے مقام پر جم گئے ۔ مسلمان بھی وہاں آآکر جمع ہو گئے ۔ یہ مقام جنگی لحاظ سے بہت مفید تھا ۔ ابو سفیان بھی اپنے ساتھیوں کو لے کر پہاڑی پر چڑھنے لگا ۔ حضورﷺ نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ کفار کو پہاڑی پر چڑھنے سے روکو ۔ حضرت عمرؓ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ آگے بڑھے اور ایساشدید حملہ کیا کہ کفار کو نیچے دھکیل دیا ۔ ایک کافرابی بن حلف اپنا گھوڑ ادوڑا کر پہاڑ پر چڑھا اور حضورﷺ پر حملہ آور ہوا ۔ حضورﷺ نے حضرت حارث سے نیزہ لے کر اس پر وار کیا۔ نیزہ اس کی ہنسلی میں لگا ، وہ ’بچاؤ ،بچاؤ‘ کی رٹ لگاتا ہوا بھاگا ۔ مشرکین نے اس کامذاق اڑایا تو اس نے کہا کہ یہ زخم اُن کے ہاتھ سے لگا ہے جو کنکر بھی پھینک ماریں تو نیزے کی طرح لگے ۔ اسی زخم کی وجہ سے وہ مر گیا ۔ یہی ایک بدبخت شخص تھا جو حضورﷺ کے ہاتھ سے فی النار جہنم ہوا۔ اس وقت تمام مسلمان پہاڑی پر پہنچ گئے تھے ۔ جنگ بند ہو گئی ۔ ابو سفیان نے بلند آواز سے پوچھا کیا تم لوگوں میں محمدﷺ ہیں۔ آپﷺ کے حکم سے اسے جواب نہ دیا گیا ۔ اس نے پھر پوچھا تم میں ابو بکر ہیں ۔ تم میں عمر ہیں۔ حضرت عمرؓ نے جواب دیا ’’او دشمن خدا، ہم سب زندہ ہیں ۔‘‘ ابو سفیان نے کہا ہبل اونچا ہے ہبل کی جے ہو گی ۔حضورﷺ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا!اسے جواب دو ’’اللہ بزرگ و برتر ہے ‘‘۔ابو سفیان نے کہا ہمارے پاس عزا ہے ۔ تمھارے پاس نہیں ۔ حضرت عمرؓ نے جواب میں کہا ، اللہ ہمارا ولی ہے ، تمہار انہیں ۔ ابو سفیان نے کہا ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا اس لیے ہم تم برابر ہو گئے ۔ حضرت عمرؓ نے کہا ، تمہارے مردے دوز خ میں جل رہے ہیں اور ہمارے شہدا جنت میں داخل ہیں ۔ سفیان نے کہا اب ہمارا تمہارا مقابلہ آئندہ سال بدر کے مقام پر ہو گا ۔
حضرت عمرؓ نے جواب دیا ، اچھا ہمیں تمھارا چیلنج منظور ہے ۔ اس کے بعد ابو سفیان اپنا لشکر لے کر واپس ہو گیا ۔مسلمان بھی پہاڑی سے نیچے اترے ، شہد اکی لاشیں اکٹھی کیں اور انھیں دفنانا شروع کیا ۔ حضرت حمزہؓ کی حقیقی بہن حضرت صفیہؓ اپنے بھائی کی لاش دیکھنے کے لیے آئیں ، آپﷺ نے حضرت زبیرؓ سے فرمایا کہ اپنی والدہ کو روکو ۔ 
انھوں نے روکا تو حضرت صفیہؓ نے کہا کہ جو کچھ میرے بھائی کی لاش کے ساتھ ہوا ہے مجھے معلوم ہے میں اس کی لاش پر رونے نہیں آئی بلکہ دعائے مغفرت کرنے اور یہ دیکھنے آئی ہوں کہ میرے شیر دل بھائی نے پشت پر تو زخم نہیں کھایا ۔
حضورﷺ نے اجازت دے دی، لاش پارہ پارہ تھی آنکھیں نکلی ہوئی تھیں بہن کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل گئے ۔ انھوں نے انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا اور واپس ہو گئیں ۔ قبریں تیار ہونے پر ایک ایک قبر میں دو دو مسلمانوں کو دفنایا گیااور پھر مسلمان مدینہ کی طرف روانہ ہوئے ۔
مدینہ منورہ میں پہنچ کر حضورﷺ کو خیال ہوا کہ ابو سفیان لوٹ کر دوبارہ مدینہ پر حملہ نہ کر دے ۔ آنحضورﷺ دوبارہ مجاہدین کو ساتھ لے کر دوسرے روز ۱۴ شوال ۳ھ کو روانہ ہوئے اور مدینہ سے آٹھ میل چل کر مقام حمر الاسد میں قیام فرمایا ۔
دوسری طرف جب ابو سفیان مقام روحا میں پہنچا تو اسے خیال ہو اکہ اس وقت مسلمانوں کی جمعیت تھوڑی اور تھکی ماندہ ہے اور ان کاخاتمہ آسانی سے ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ اس نے اپنے آدمیوں سے مشورہ کیا لیکن ایک قریش نے جو مدینہ سے ابھی آرہا تھا ، اس نے کہا محمدﷺ اور اس کے ساتھی تمہارے تعاقب میں بڑے جوش و خروش سے آرہے ہیں او رمیں نے خو د حمر الاسد میں انھیں دیکھا ہے ۔ یہ سن کر تمام مشرکین بدحواس ہو گئے اور مکہ کی طرف بھاگ اُٹھے ۔ 
جب حضورﷺ کو قریش مکہ کے بھاگ جانے کی اطلاع ملی تو آپﷺ بھی مدینہ واپس تشریف لے آئے ۔ اگر حضورنبی کریم ﷺابو سفیان کا تعاقب نہ کرتے تو یقیناًوہ مدینہ پر دوبارہ حملہ کر دیتا ۔ اسی سن ہجری میں حضرت حسنؓ کی ولادت ہوئی ۔
واقعہ رجیع 
عفیل اور فارۃ قریش مکہ کے دو مشہور قبیلے تھے ۔ ان کے چند آدمی ازراہِ فریب حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ہمارے قبیلے والوں نے اسلام قبول کر لیا ہے ، آپ ﷺ ہمارے ساتھ چند مسلمانوں کو بھیجیں جو ہمارے قبیلے والوں کو ارکانِ اسلام سے شناسا کریں ۔ 
حضورﷺ نے فرمایا تمہاری باتوں سے فریب کی بو آتی ہے لیکن پھر بھی میں تمہاری درخواست رد نہیں کرتا ۔ آپﷺ نے دس مسلمانوں کو حضرت عاصمؓ بن ثابت کی ماتحتی میں ان کے ساتھ روانہ کیا ۔ جب یہ لوگ مقام رجیع پر پہنچے تو وہاں کفار کے اپنے دو سو ساتھی جو شریک سازش تھے اور ان میں سے سو تیر انداز تھے کفار کااشارہ پاتے ہی حملہ آور ہوئے ۔ مسلمان یہ حالت دیکھ کر ایک اونچے ٹیلے قد قد پر چڑھ گئے اور حصول شہادت اور کفار کا مقابلہ کر نے کے لیے تیار ہو گئے ۔ کفار نے ٹیلے کو ہر طرف سے گھیر لیا اور تیروں کا مینہ برسانا شروع کر دیا۔ مسلمانوں نے جی داری سے مقابلہ کیا اور ایک ایک کر کے شہید ہونے لگے ۔ حضرت عاصمؓ بھی شہید ہوئے ۔صرف دو مسلمان باقی بچے جن کے نام خبیبؓ اور زیدؓ تھے۔ کفار نے انھیں گرفتار کر لیااور حضرت عاصمؓ کی لاش تلاش کرنے لگے تا کہ اسے پارہ پار ہ کر دیا جائے مگر خداوند کریم کو شہید کی تحقیر منظور نہ تھی لہٰذالاش کے قریب شہد کی مکھیاں اکٹھی ہو گئیں ۔ جب کفار آگے بڑھے تو وہ ان کو کاٹنے کے لیے آگے بڑھیں ، کافر بھاگ کر ناکام واپس آئے اور حضرت خبیبؓ اور زیدؓ کو ساتھ لے کر مکہ میں آگئے ۔
حارث بن عامر کے بیٹوں نے خبیبؓ کوسوا ونٹوں کے بدلے میں خرید لیا تا کہ اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لیں اور صفوان بن امیہ نے زید کو پچاس اونٹوں کے بدلے میں خرید لیا تاکہ مشرکین بدر کے انتقام میں قتل کیا جائے ۔ ماہ حرام کی وجہ سے یہ قتل نہ ہوسکے جس پر انھیں قید کر دیا گیا ۔ قید میں روزانہ ان پر طرح طرح کی سختیاں کی جانے لگیں ۔ ایک رو زحارث کا بیٹا ، جنھوں نے حضرت خبیبؓ کو خریدا کھیلتے کھیلتے چھری ہاتھ میں لے کر حضرت خبیبؓ کے پاس پہنچ گیا ۔ حارث کی بیوی نے دیکھا تو چیخ مار کر رونے لگی ۔ خبیبؓ نے کہا او ظالم عورت ، کوئی مسلمان اتنا سنگ دل نہیں ہوتا کہ بچے کو قتل کر دے ، اطمینان رکھ میں اسے قتل نہیں کروں گا ۔ یہ کہہ کر بچا چھوڑ دیا ۔ ماں نے اپنے بچے کواٹھا کر سینے سے لگا لیا ۔ جب ماہ حرام گزر گیا تو قریش دونوں قیدیوں کو پھانسی دینے کے لیے مکہ سے باہر میدان میں لائے ۔ کفار تماشہ دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو گئے ۔ حضرت خبیبؓ نے جلدی سے دو رکعت نماز پڑھی اور کہا کہ جلدی سے میں نے اس لیے نماز پڑھی ہے تا کہ تم یہ نہ کہو کہ موت سے ڈر کر نما زلمبی کر دی ۔ جب خبیبؓ کو سولی پر چڑھایا گیاتو کفار نے حضرت خبیبؓ سے اسلام چھوڑنے کے لیے کہا ۔ آپ نے جواب میں انکار کیا اور فرمایا اگر تم مجھے تمام روئے زمین کی دولت بھی دے دو تب بھی اسلام نہیں چھوڑوں گا ۔
جس وقت حضرت خبیبؓ سولی پر چڑھائے گئے تو مقتولینِ بدر کے چالیس رشتہ داروں نے آپ کے جسم میں نیزے چبھائے ۔ آپ شہید ہو گئے ۔ شہادت کے وقت آپ کی زبان پر اللہ کا نام جاری تھااور یہ رجز پڑھ رہے تھے :
’’مجھے کوئی پروا نہیں کہ میں اسلام کے لیے قتل کیاجا رہاہوں مجھے اس بات کی پروا نہیں ہے کہ کس پہلو قتل کیا جا رہا ہوں ۔ محض دنیا سے کفر و شرک مٹانے کے لیے میرے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں ۔ اگر خدا چاہے گا تو ان ٹکڑوں پر بھی اپنی رحمت نازل فر مائے گا ۔‘‘ان کے بعد کفار حضرت زیدؓ کو لائے۔ جب ان کو سولی پر چڑھایا گیاتو ابو سفیان نے کہا ، زید کیا ہی اچھا ہو اگر اس وقت تمہاری بجائے محمدﷺ کو سو لی پر چڑھایا جاتا۔ زیدؓ نے کہا خدا کی قسم ! میں یہ کبھی گوارا نہیں کر سکتا کہ حضورﷺ کے تلوے میں کانٹا بھی چبھے اور اس کے بدلے میں مَیں آرام سے اپنے عزیزوں میں رہوں ۔ ابو سفیان کے منہ سے کف جاری ہو گیا اور اس نے کہا ’’ہائے مجھے یہی حیرت ہے کہ محمد ﷺ نے کیسے جاں نثار دوست پائے ہیں اور انسطلاس کو اشارہ کیا جس نے اپنی تلوار سے حضرت زیدؓ کو شہید کر دیا ۔
اب خیال فرمائیں جو لوگ اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے ، کہاں تک درست ہے۔ کیا تلوار کفار عرب کے ہاتھ میں تھی یا مسلمانوں کے ؟کیا کفار عرب ظلم و ستم کرتے تھے یا مسلمان ؟مسلمان تو بے کس اورلاچار تھے۔ ان کے پاس تلوار تھی کہاں جو اٹھاتے بلکہ بے کسی اور مظلومی کی زندگی بھی کفار انھیں نہ گزارنے دیتے تھے ۔ اگر انھوں نے تلوار اٹھائی بھی انھیں تلوار اٹھانے پر مجبور کر دیا گیا تھااورمحض اللہ کے بھروسے پر مٹھی بھر مسلمانوں نے لاکھوں کفار کے مقابلے میں اپنی حفاظت کے لیے تلوار اٹھائی اور ان کے اللہ نے ان کی مدد فرمائی ۔
بدر کا تیسرا حملہ 
جنگ اُحد سے جاتے وقت ابوسفیان آئندہ سال پھر لڑائی کا چیلنج مسلمانوں کو دے گیا تھا مگر جنگ کے لیے آمادہ نہ ہو ا۔ایک تو مکہ میں اس سال قحط پڑ گیا تھااور دوسرے وہ مسلمانوں کے مقابلے سے اب کترانے لگا تھا مگر مدینے کے منافقین نے ابو سفیان کے پاس اپنے ایک قاصد نعیم کو بھیج کر اسے جنگ کرنے پر اُکسایا۔
ابو سفیان نے تیاری شروع کی اور منافقین مدینہ کے قاصد کو یہ کہا کہ تم جا کر ہماری تیاریوں اور حملوں کا حال سنا کر مسلمانوں کو ڈرا ؤ ۔ اس نے جا کر بڑے مبالغے سے کفار کے حملہ آورہونے کی خبریں سنائیں جنھیں سن کرکچھ مسلمان متفکر ہوئے مگر حضورﷺ نے فرمایا کہ حسب وعدہ ہم بد ر کے مقام پر ضرورجائیں گے ۔ اگر میرے ساتھ کوئی بھی نہ گیا تو میں اکیلا ہی جاؤں گا ۔ حضور ﷺکے ساتھ جانے پر تمام مسلمانوں نے جوش و خروش کا مظاہرہ کیا ۔
آپ ﷺ ڈیڑھ ہزار مسلمانوں کا لشکر لے کر بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ اسلامی جھنڈا حضرت علیؓ کے سپرد کیا ۔ ادھر ابو سفیان بھی ایک لشکر جرار لے کر مکے سے روانہ ہوا۔ چونکہ مکہ میں قحط تھا اس لیے لشکر کے ساتھ صرف ستو کا راشن تھا جو تھیلیوں میں بند تھا ۔
ابو سفیان عقسلان کے قریب پہنچا تو اسے معلوم ہو اکہ پانچ سو مسلمان مقابلے کے لیے چلے آرہے ہیں ۔ اس کو فکر ہوئی کہ جب ہم مٹھی بھر مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکے تو ڈیڑھ ہزار کے لشکر عظیم کو کس طرح ہم شکست دیں گے ۔ اس نے سردارانِ لشکر سے مشورہ کیا۔ ان کے حواس جاتے رہے اور انھوں نے عقسلان ہی سے یہ کہہ کر لشکر واپس کر لیا کہ قحط کے زمانے میں لڑائی ٹھیک نہیں ۔
جب یہ واپس مکہ میں داخل ہوئے تو عورتوں نے لشکر والوں کو طعنے دیے ۔ حضور ﷺ آٹھ روز تک بدر کے مقام پر ٹھہرے رہے اور لشکر قریش کا انتظار کرتے رہے ۔ جب انھیں کفار کے واپس لوٹ جانے کی اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ بھی واپس مدینہ تشریف لے آئے ۔اس دفعہ نہ کوئی لڑائی ہوئی اور نہ دونوں طرف کا کوئی نقصان ہوا۔
جب حضورﷺ مدینہ میں تشریف لائے تو یہود کی ریشہ دانیوں سے تنگ آکر آپ ﷺنے انھیں مدینہ سے باہر نکال دیا کیونکہ جب مسلمان جہاد کے لیے مدینہ سے باہر جاتے، یہود پیچھے کوئی نہ کوئی شرارت ضرور کرتے ۔
متحدہ جنگ
یہودی مدینے سے جلا وطن ہونے کے بعد خیبر میں آباد ہو گئے ۔ وہاں سے ان کے سردار مکہ آگئے تا کہ ایک دفعہ پھر قریش مکہ کو مسلمانوں کے خلاف اُبھار کر جنگ کرائی جائے ۔ ان سرداروں نے جاکر قریش سے کہا ، اگر تم جنگ کرنے کے لیے تیارہو تو ہم تمہاری ہر طرح کی مد د کریں گے چنانچہ تمام قبیلوں کو دعوت نامے ارسال کیے گئے اور چند ہ اکٹھا کرنا شروع کر دیا گیا ۔ 
یہود نے دل کھول کر چندہ دیا تا کہ قریش جنگ کے لیے تیار ہو جائیں اور تمام عرب کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر آمادہ بہ جنگ کر لیا ۔
قبائل کے تمام رئیس اور سردار خانہ کعبہ میں گئے اور ہبل کے سامنے آخری دم تک لڑنے کی قسمیں کھائیں ۔ چوبیس ہزار کا لشکر تیارہو ا ۔ ابو سفیان تمام لشکر کا سردار مقرر ہوااور لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ۔ بڑے بڑے نامور جنگ جو اس لشکر میں موجود تھے ۔
گو یا عرب اور یہود اپنے منتخب جگر گوشوں کو لے کرایک دفعہ پھر مسلمانوں کو مٹانے کے لیے چلے ۔ اس لشکر میں عمر وبن عبد وداور خالد بن ولید جسے بہادر شامل تھے جو ہر ایک، ایک ہزار سوار کے مقابلے کے برابر مانے جاتے تھے ۔ حضورﷺ کو جب خبر ہوئی تو آپﷺ نے صحابہ سے مشورہ کیا ۔ صحابہؓ نے یہ رائے دی کہ مدینہ کے اندر رہ کر مقابلہ کیا جائے ۔ چونکہ مدینہ کے گرد حفاظتی دیوار نہ تھی اس لیے حضرت سلمان فارسیؓ نے خندق کھودنے کی رائے دی۔مسلمان خندق سے واقف نہ تھے۔ حضرت سلمان فارسیؓ نے سمجھایا ۔ سب لوگوں نے اُن کی رائے کو پسند فرمایا ۔ اعلان کیا گیا کہ مدینے کے تما م باشندے مل کر خندق تیار کریں۔ مشرک اور یہودیوں نے حضورﷺ سے تعاون نہ کیا تو مسلمان اکیلے ہی اس کام کے لیے تیار ہو گئے ۔
مدینے کے ایک طرف پہاڑی تھی ، دوسری طرف مکانوں کی دیواریں تھیں اور تیسری طرف نخلستان تھا ۔ صرف ایک طرف حضورﷺ نے اپنے ہاتھ میں نیزہ لے کر نشان لگایااور الگ الگ ٹکڑے تقسیم کر دیے ۔
دشمن بہت قریب تھا اور کڑاکے کی سردی پڑرہی تھی اس لیے شب روز کام کیا گیا ۔ خندق پانچ گز چوڑی اور اتنی ہی گہری کھودی گئی ۔ خود حضورﷺ کام میں برابر کے شریک تھے ۔ ایک جگہ ایک بڑا پتھر نمودا ر ہوا ۔ ہر چند کوشش کی گئی مگر وہ اپنی جگہ سے نہ سرکا ۔ حضورﷺ کو اطلاع کی گئی۔ حضورﷺ نے اپنے ہاتھ میں کدال لے کر اللہ کا نام لے کر ضرب ماری ، پتھر میں سے روشنی نکلی اور ایک شگاف ہو گیا ۔ آپ نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایااور ساتھ ہی تمام صحابہ نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا ۔ دوسری طرف پھر حضورﷺ نے ضرب لگائی تو پتھر زیادہ پھٹ گیا ۔ تیسری دفعہ جب آپﷺ نے ضرب لگائی تو پتھر ریزہ ریزہ ہو گیا ۔ تینوں دفعہ ضرب کی وجہ سے پتھر میں عجب قسم کی روشنی نمودار ہوئی ۔
صحابہ کرامؓ نے روشنی کی بابت دریافت کیا تو حضورﷺ نے جواب میں فرمایا ’’پہلی ضرب شام پر دوسری فارس پراور تیسری یمن پر پڑی تھی ۔‘‘مسلمانوں نے یہ پیغام سن کر زور سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ بعد کے واقعات نے یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری کر دی اور تینوں ملک مسلمانوں کے قبضے میں آئے اور خداکے فضل سے آج تک مسلمانوں کے قبضے میں ہیں ۔ بیس روز کی محنت سے خندق تیار ہوئی اور مسلمانوں کو اطمینان ہوا ۔ بجائے اس کے کہ مدینہ کے یہودی اور مشرک مسلمانوں کا ساتھ دیتے، وہ مسلمانوں کا مذاق اُڑانے لگے کہ محمدﷺ مسلمانوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں ۔ دشمن جنگ کے لیے آرہا ہے اور آپﷺ ان کو یمن ، شام و فارس کی فتح کی خبر دے رہے ہیں ۔
چند دنوں کے بعد کفارِ مکہ کا لشکر جرار مدینے کے قریب آگیااو رکفار نے اس سختی سے محاصرہ کیا کہ باہر سے رسد آنی بند ہو گئی ۔ صحابہ کرامؓ نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے ، مگر بھوک کی شکایت نہ کی ۔ کفار روزانہ خندق کے کنارے پر آکر مسلمانوں پر تیر چلاتے ، مسلمانوں کی طرف سے بھی جواب میں تیر چلائے جاتے ۔ مسلمان دن بھر کفار کا مقابلہ کرتے اور رات کو خندق کی حفاظت کے لیے جاگتے ۔ ابو سفیان اور خالد بن ولید نے باری باری ایک دن اپنے لشکر کے ساتھ حملہ کیا لیکن خندق عبور نہ کر سکے ۔ کفار عرب قریباً ایک ماہ تک کوششیں کرتے رہے مگر خندق عبور نہ کر سکے ۔
ایک دن عمر و بن عبدود جو کہ دو ہزار کے مقابل میں صرف اکیلا ہی مانا جا تا تھا ،مع اپنے دو ساتھیوں کے خندق عبور کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ مسلمانوں نے اس کے دو ساتھیوں کو تو خندق عبور کرتے ہی ٹھکانے لگا دیا۔ حضرت علیؓ ، عمرو کے مقابل ہو گئے تو اس نے کہا ،مجھے یہ توقع نہ تھی کہ آسمان کے نیچے کوئی میرابھی مقابلہ کرے گااور حضرت علیؓ پر ٹوٹ پڑا ۔ جب حضرت علیؓ کاطریقہ جنگ دیکھا تو تمام غرور جاتا رہا ۔ 
حضرت علیؓ نے جوش میں آکر وار کیا ، تلوار ڈھال کو کٹتی ہوئی شہ رگ میں اتر گئی ۔ عمرو نے ایک خوفناک چیخ ماری اور ڈھیر ہو کر گر ا۔ حضورﷺ نے بڑھ کر حضرت علیؓ کی پیشانی کو بوسہ دیااور چھاتی سے لگا لیا ۔
ابو سفیان چند سرداروں کے ساتھ خندق کے کنارے پر کھڑے ہو کر لڑائی کا نظارہ کر رہا تھا۔ جب عمر و کا حال دیکھا تو واپس آکر مسلمانوں پر تیروں کی بارش کرنے کاحکم دیا ۔ شام تک کفار نے مسلمانوں پر تیروں کا مینہ برسا دیا ۔ 
اس روز حضورﷺ کی چار نمازیں قضا ہوئیں ۔ ابو سفیان نے عمر و کی لاش کو خریدنا چاہا مگرحضور ﷺ نے لاش کو یوں ہی واپس کر دیا ۔ اسی رات آسمان ابر آلود ہو گیا۔ اتنازبر دست طوفان آیا کہ کفار کے خیمے اڑ گئے ۔ مینہ اس زور سے برسا کہ تمام رسد بہا لے گیا ۔کفار بدحواس ہوکر بھاگ اُٹھے ۔ 
حضور ﷺکو وحی کے ذریعہ کفار کے بھاگنے کی اطلاع ہو گئی ۔ آپ نے اسی وقت حضرت ابو بکرؓ کو کفار کی خبر لانے کے لیے بھیجا ، انھوں نے آکر کفار کے بھاگنے کی اطلاع دی ۔
حضورﷺ نے مسلمانوں کو اکٹھاکیااور فتح کی مبارک باد دی اور فرمایا کہ اب قریش کبھی ہم پر حملہ آور نہ ہوں گے ۔ حضورﷺ کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور قریش مکہ نے پھر کبھی مدینہ پر حملہ نہیں کیا ۔ مسلمان نہایت مسرور اور شاد ماں اپنے گھر وں کو لوٹے ۔ 
مدینہ کے منافق اور بنو قریظہ کو بڑا فکر ہوا کہ مسلمان انھیں عہد شکنی کہ سزا دیں گے چنانچہ وہ قلعہ قریظہ میں جمع ہوگئے ۔ مسلمانو ں نے نماز عصر قلعہ قریظہ کے سامنے پڑھی ۔ نماز سے فارغ ہو کر جب انھوں نے یہود کو آمادہ بہ جنگ پایا تو قلعہ قریظہ کامحاصرہ کر لیا ۔ پچیس روز تک محاصرہ قائم رہا آخر تنگ آکر مشرکین نے قلعے کا دروازہ کھول دیا اور اپنے آ پ کو مسلمانوں کے حوالے کر دیا ۔
صلح حدیبیہ 
پانچ سال کا عرصہ گزر چکا تھا کہ مسلمانوں کوخانہ کعبہ کے طواف کا موقع نہ ملا لیکن آرزو سب کی تھی ۔ حضورﷺ نے ایک رات خواب میں دیکھا کہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ کعبہ میں داخل ہو رہے ہیں ۔ اس خواب نے زیارت کعبہ پر آپﷺ کو آمادہ کر دیااور صحابہ کو مکہ چلنے کی تیاری کاحکم دے دیا ۔
حضورﷺ ایک ہزار چار سو صحابہ کے ساتھ مکہ جانے کے لیے تیار ہو گئے ۔ حضورﷺ نے مدینہ ہی سے احرام باندھ لیااور قربانی کے ستر اونٹ قافلے کے آگے روانہ کر دیے تا کہ معلوم ہو جائے کہ مسلمان حج کے ارادے سے آرہے ہیں ۔
کسی شخص کو تلوار میان سے نکال کر چلنے کی اجازت نہ تھی ۔ ایک شخص کو بطو رجاسوس آگے روانہ کیا تا کہ قریش کی خبر لائے ۔ جب مکہ میں یہ خبر پہنچی تو قریش کو بڑا اضطراب ہوااور انھوں نے سمجھا شاید مسلمان مکہ پر حملہ کرنے کے لیے آرہے ہیں ،ا نھوں نے حلیف قبائل کے پا س مددکے لیے پیغام بھیج دیے ۔
جب مسلمان عسفان کے مقام پر پہنچے تو جاسوس نے آکر خبر دی کہ مکہ والوں نے زبردست جمعیت فراہم کر لی ہے اور خالد بن ولید کو ایک لشکر کے ساتھ روانہ کر دیا ہے ۔حضورﷺ نے سیدھا راستہ چھوڑ کر داہنی طرف کترا کر سفر کرنا شروع کیا تا کہ کفار کو پتہ نہ چلے ۔ اتفاقاً مسلمانوں کا قافلہ مقام عمیم میں خالد کے قریب پہنچا ۔ خالد مع اپنے ساتھیوں کے بدحواس ہو کر بھاگا اور مکہ میں جا کر دم لیا ۔ مسلمانوں نے مقام حدیبیہ میں پہنچ کر ایک کنویں کے قریب قیام کیا ۔کنویں میں پانی بہت تھوڑا تھا۔ حضورؓ نے ایک تیر حضرت براؓ ء کو دیا کہ اس تیرکو کنویں میں ڈال دو جس وقت حضرت براؓ ء نے تیر کنویں میں ڈالا ۔ پانی نے اتنا جوش مارا کہ کناروں سے باہر نکل آیا ۔ جتناپانی صرف ہوتا اتنا ہی نیچے سے اور آجاتا ۔ دوسرے دن قریش مکہ کی طرف سے بدیل بن ورقہ حاضر خدمت ہوااور دریافت کیا کہ آپ ﷺ کس ارادے سے تشریف لا رہے ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا ہم حج کے لیے آئے ہیں اور قربانی کے اونٹ ہمارے ساتھ ہیں ۔احرام باندھے ہوئے ہیں ۔ اگر ہم کو حج سے روکا تو اس کی ذمہ داری قریش پر ہوگی ۔
بدیل نے واپس جا کر قریش کوسمجھایا کہ مسلمان حج کے ارادے سے آئے ہیں ۔ ابو سفیان نے کہا کہ ہم مسلمانوں کو مکہ میں ہر گز داخل نہ ہونے دیں گے ۔ ایک عربی سردار جس نے خود مسلمانوں کو احرام باندھے دیکھا تھاابو سفیان سے بگڑ کر کہا کہ کعبہ خدا کی زیارت کرنے سے روکنے کا کسی کو حق نہیں ، اگر تم نے انھیں روکا تو میں مسلمانوں کے ساتھ ہو کر تم سے لڑو ں گا ۔ 
قریش نے کہا اس وقت آپس میں مت جھگڑو ۔ اس وقت حضورﷺ نے حضرت خراشؓ کو ثغلب نامی اونٹ دے کر قاصد بنا کر مکہ روانہ کیا ۔ اس نے مکہ میں داخل ہو کر بلند آواز سے پکارا ۔
میں محمد ﷺ کا قاصد ہوں اور پیغام لایا ہوں کہ مسلمان حج کے لیے آئے ہیں اور ایام حج میں کسی شخص کوحق نہیں کہ وہ اس نیک کام سے کسی کو روکے ۔
عکرمہ بن ابو جہل نے کہا کہ اگر ہم حج کر نے کی اجازت نہ دیں ۔ خراش نے دلیرانہ اندا ز میں جواب دیا ۔’’تب ہم لڑیں گے ۔‘‘
غصے کی حالت میں کئی آدمی حضرت خراشؓ کی طرف بڑھے اور ان کا اونٹ ذبح کر دیا ۔ لوگوں نے کہا ’’اے اہل قریش یہ کیا کرتے ہو ؟قاصد پر ہاتھ ڈالنا جائز نہیں ۔‘‘
خراشؓ واپس آئے اور آنحضورﷺ کو تمام قصہ سنا دیا۔ دوبارہ حضورﷺ نے حضرت عثمانؓ کو روانہ کیا ۔ حضرت عثمانؓ نے مکہ میں پہنچ کر لوگوں سے خطاب کیا کہ ہم مسلمان ہیں اور خانہ کعبہ کا اسی طرح احترام کرتے ہیں جس طرح تم کرتے ہو ۔ تمام قبائل آزادانہ حج کرتے ہیں ۔ ہم پر بھی کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے ۔ 
عکرمہ بن ابو جہل نے کہا کہ ہم مسلمانوں کو ہر گز حج کی اجازت نہ دیں گے ، اگر تم حج کرنا چاہو تو کر سکتے ہو۔ حضرت عثمانؓ نے کہا میں مسلمانوں کے بغیر یہاں اکیلا حج نہیں کروں گا ۔ عکرمہ نے کہا ، اچھا تم نظر بند کیے جاتے ہو ۔
جب حضرت عثمانؓ کئی روز تک واپس نہ آئے تو حضورﷺ کو بے حد رنج ہوا ، آپﷺ نے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر مسلمانوں سے بیعت لی کہ جب تک ہم عثمانؓ کے خون کا بدلہ نہ لیں ، واپس نہ جائیں گے ۔
اس بیعت کا نام ’بیعت رضوان ‘ہے ۔ بیعت کے وقت ہی حضرت عثمان واپس تشریف لے آئے ۔ حضورﷺ انھیں دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ جب قریش کو اس بیعت کا حال معلوم ہوا تو کچھ نرم ہو گئے ۔
چنانچہ انھوں نے ایک بزرگ عروہ کو اپنی طرف سے حضورﷺ کی خدمت میں روانہ کیا ۔ عروہ نے حضورﷺ کے پاس آ کر کہا ’’محمدﷺ کیوں اپنی قوم کو تباہ کرا رہے ہو ۔ قوم کی بر بادی کا تم کو افسوس نہ ہوگا ۔‘‘
حضوڑﷺ نے فرمایا ہم لڑنے نہیں آئے لیکن اگر مکہ والے اپنی ضد سے باز نہ آئے تو جنگ ضرور ہو گی ۔
عروہ کا جواب دیتے ہوئے ہاتھ حضورﷺ کی داڑھی کو چھو گیا ۔ حضرت مغیرہؓ نے تلوار کا قبضہ اس کے ہاتھ پر مار کر کہا ’’ادب سے کلام کرو ۔ تم پیغمبر خدا ﷺ کے حضور میں ہو ۔ اگر پھر اس طرح ہاتھ چھو ا تو واپس نہ جا سکے گا ۔‘‘ یہ عقیدت دیکھ کر عروہ پر بڑا اثر ہو ا۔اس نے واپس آکر کہا ،میں نے ہرقل روم اور شاہ ایران کے دربار دیکھے لیکن جو محبت حضورﷺ کے ساتھ مسلمانوں کی ہے کسی اور جگہ نہیں دیکھی ۔ بہتر ہے کہ انھیں کعبہ کی زیارت کر لینے دو ۔ اب قریش نے سہیل بن عمرو کو اپنا سفیر بنا کر روانہ کیا ۔ یہ شخص بلند پائے کامقرر تھا ۔ اس نے حضورﷺ کے ساتھ شرائط صلح طے کیں ۔ حضورﷺ نے حضرت علیؓ کو صلح نامہ لکھنے کے لیے کہا ۔
حضرت علیؓ نے دستاویز کی پیشانی پر جب بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا تو سہیل نے کہا ہم اللہ کو نہیں جانتے اور نہ مانتے ہیں ،با سمک الہم لکھو۔حضور ﷺ نے ایسے ہی لکھنے کو کہا ۔
اور جب حضرت ﷺ نے لکھا کہ اس صلح نامہ کو محمدرسول اللہ ﷺ نے تسلیم کیا تو سہیل نے پھر اعتراض کیااور کہا اگر ہم آپﷺ کو رسول تسلیم کر لیتے تو جھگڑا ہی کیوں ہوتا ۔ آپﷺ صرف محمدبن عبداللہؓ لکھوائیں ۔
حضورﷺ نے فرمایا ’’اگر چہ تم میری نبوت سے انکاری ہو مگر خدا کی قسم میں نبی ہوں ۔‘‘آپ نے حضرت علیؓ سے فرمایا ۔’’رسول اللہ ﷺ کا لفظ کاٹ دو ۔‘‘حضرت علیؓ نے کہا ’’مجھ سے یہ گستاخی نہ ہوگی ۔‘‘ حضورﷺ نے خود رسول اللہ کا لفظ مٹا دیا ۔ اس صلح نامے میں مندرجہ ذیل شرائط تھیں :
۱۔ مسلمان اس سال عمر ہ نہ کریں گے اور نہ مکہ میں داخل ہوں گے ۔
۲۔ اگلے سال عمرہ کر سکیں گے مگر سوائے میان میں تلوار کے لیے کوئی اور ہتھیار ساتھ نہ لائیں گے اور تین دن سے زائد مکہ میں قیام نہ کریں گے ۔
۳۔ صلح کی میعاد دو سال ہو گی اور اس عرصے میں دونوں فریق امن و امان سے رہیں گے ۔
۴۔ عرب کا قبیلہ یا قوم ہر دو فریق میں سے جس کے ساتھ ہم عہد ہو گا اس پر بھی اس عہد نامہ کی پابندی ہو گی ۔
۵۔ دونوں قبائل دیگر قبائل کو اپناہم عہد اور مدرگار بنانے میں آزاد ہوں گے ۔
۶۔ اگر قریش کا کوئی شخص بلا اجازت مسلمانوں کے ہاں چلا جائے گا تو فوراً قریش کو واپس کر دیا جائے گا ۔ لیکن اگر کوئی مسلمان قریش کے پاس آئے گا تو واپس نہ ہو گا ۔
صحابہ کرامؓ کو بعض شرائط ناگوار گزریں ۔ مگر حضورﷺ نے کوئی اعتراض نہ کیا ۔ ایک ایک صلح نامہ فریقین کے حوالہ کر دیا گیا ۔ مسلمانوں نے حضور ﷺکے ساتھ قربانیاں کیں احرام کھولے ، خط بنوائے اور ایک روز یہا ں قیام کرنے کے بعد دوسرے دن مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ 
جنگ خیبر 
یہود کی آبادی حجاز کے ہر گوشے سے آکر ملک شام کے قریب مدینہ سے دور چند میل کے فاصلہ پر خیبر میں اکٹھی ہو گئی ۔ جوں جوں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جاتی ، یہود کو فکر لاحق ہوتی جاتی ۔ خیبر مدینے سے تین دن کی مسافت پر تھااور وہاں متفرق ناموں کے چند مضبوط قلعے تھے مگر سب کو خیبر ہی کہتے تھے ۔ مسلمانوں کی فتوحات سے یہودی ایک دفعہ پھر برا فروختہ ہوئے ۔ انھوں نے مسلمانوں سے متصادم ہونے کی تیاری شروع کر دی اور عرب کے چند قبائل کو ساتھ ملا لیا ۔ا س طرح اب قریش مکہ کے بعد خیبر مسلمانوں کی عداوت کا مر کز بن گیا ۔ انھوں نے قبیلہ غطفان کو اپنے ساتھ اس شرط پر ملالیا کہ جب مدینہ فتح ہو جائے گا تو ان کو آدھی آمدنی دی جایا کرے گی ۔ عبداللہ بن ابی کے آدمی بھی انھیں مسلمانوں کی خبریں پہنچا دیا کرتے تھے ۔ 
حضور ﷺ کو یہودیوں کی جنگ کی تیاریوں کا علم ہوا تو ۷ھ میں پندرہ سو مجاہدین ساتھ لے کر خیبر کی طرف روانہ ہوئے ۔ آپﷺ نے مقام رجیع میں لشکر کا قیام کیا۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ قبیلہ غطفان یہودیوں کی کوئی مدد نہ کر سکا ۔ بلکہ مسلمانوں کو اپنے نزدیک قیام کرتے دیکھ کر وہ رجیع سے باہر نہ نکلے اور اپنے گھروں کی حفاظت پر مجبور ہوئے ۔ جب حضورﷺ رجیع سے بڑھ کر مقام صبہا پہنچے تو عصر کی نماز کا وقت تھا ۔ آپ ﷺ نے مع لشکر کے نماز ادا کی اور اس کے بعد تمام مجاہدین نے حضورﷺ کے ساتھ ستو گھول کر نوش فرمایا اور فارغ ہو کر آگے کوچ کیا ۔ دوسرے روز دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے ۔ حضورﷺ نے تین علم اپنے ہاتھ سے تیار کیے۔ ایک علم حبابؓ ، دوسرا سعدؓ اور تیسرا جو اِن دونوں سے بڑا تھا اور حضرت عائشہؓ کی چادر سے تیار کیا تھا حضرت علیؓ کو عنایت فرمایا ۔
یہود کی طرف سے مرحب اور یاسر، دو فیل تن پہلو ان میدان میں نکلے ۔ ان میں ہر ایک، ایک ہزار آدمی کے مقابلے کی طاقت رکھتا تھا ۔ مسلمانوں کی طرف سے محمدؓبن سلمہ اور زبیرؓ بن العوام نکلے ۔
زبیرؓ نے یاسر پر حملہ کرتے ہوئے تلوار کا ایک ایسا ہاتھ مارا کہ وہ کشتہ ہو کر گرا ۔ دوسری طرف محمدؓ بن سلمہ نے مرحب پر حملہ کیا ۔ مرحب اپنے ساتھی کا یہ حال دیکھ کر ڈر ا مگر محمدؓکی تلوار اس کے سر پر پہنچ چکی تھی ۔اس نے جلدی ڈھال آگے کردی ۔ ڈھال کے دو ٹکڑے ہو گئے مگر مرحب بچ گیا۔
اس کے بھاگنے پر یہودی بھاگ کر قلعوں میں داخل ہو گئے ۔ سب سے پہلے قلعہ ناعم تھا مسلمانوں نے اسے گھیر لیا ۔محمدؓ بن مسلمہ نے قلعے پر دھاوا بول دیا ۔ اس وقت گرمی کی شدت تھی اور محمدؓبن مسلمہ قلعہ کی دیوار کے نیچے کھڑے تھے کہ اوپر سے یہود نے پتھر کا ایک بہت بڑا ٹکڑا آپ پر گرا دیا ۔ جس کی وجہ سے آپ شہید ہو گئے ۔ یہ حالت دیکھ کر مسلمانوں نے غضب ناک ہو کر قلعے پر حملہ کیااور اسے فتح کر لیا۔ یکے بعد دیگرے مسلمان کئی قلعوں پر قبضہ پر قبضہ کرتے ہوئے قلعہ قموص کے قریب پہنچے گئے ۔ یہ قلعہ مفتوح قلعوں سے بہت بڑا تھا۔ یہ مرحب کا تخت گاہ تھا۔ مسلمانوں نے کئی دفعہ حملہ کیا ۔ زبردست لڑائیاں ہوئی مگر قلعہ فتح نہ ہوا ۔ ایک دن حضورﷺ نے ابو بکر صدیقؓ کو اسلامی جھنڈا عنایت فرما کر روانہ کیا، سارا دن گھمسان کی لڑائی ہوئی مگر قلعہ فتح نہ ہو سکا ۔
دوسرے روز حضرت عمرؓ لشکر لیے روانہ ہوئے مگر اس روز بھی قلعہ فتح نہ ہوا۔ اس طرح یکے بعد دیگرے کئی سوار قلعہ فتح کرنے کے لیے گئے مگر قلعہ فتح نہ ہوا ۔ ایک روز حضورﷺ نے فرمایا ، کل میں اس شخص کو علم دوں گا جو قلعہ قموص کو فتح کر کے خیبر شکن کا خطاب حاصل کرے گا ، ہر صحابی کو یہ تمنا ہوئی کہ کل علم اسے ہی ملے ۔
دوسرے روز فجر کی نماز سے فارغ ہو کر حضورﷺ نے فرمایا ’’علی مرتضیٰؓ کہاں ہیں ؟ ‘‘مسلمان سمجھ گئے کہ آج حیدر کرار کو حضورﷺ علم عنایت فرمائیں گے ۔ حضرت علیؓ حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے ، مگر ان کی آنکھیں آشوب چشم کی وجہ سے بہت زیادہ دُکھ رہی تھیں اور کوئی چیز نظر نہ آتی تھی ۔ حضورﷺ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں کو لگایا ۔ تھوڑی دیر بعد حضرت علیؓ کی آنکھیں بالکل اچھی ہو گئیں اور حضورﷺ کے لعاب دہن کی برکت سے پھر تمام عمر کبھی خراب نہ ہوئیں ۔
حضرت علیؓ نے پھریرا ہوا میں لہرایا اور اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر جوش و خروش سے لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ قلعے پر سے کفار نے تیروں اور پتھروں کی بارش شروع کر دی اور اس قدر شورو غل مچایا کہ کانوں کے پردے پھٹنے لگے ۔ مسلمانوں نے کچھ پروا نہ کی اوربڑی پامردی سے آگے بڑھتے رہے ۔بڑھتے بڑھتے مجاہدین قلعے کے آہنی پھاٹک کے قریب پہنچ گئے۔ حضرت علیؓ نے دونوں ہاتھوں سے پھاٹک کو پکڑ کر اللہ اکبر کا نعرہ لگایااور اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر گھماتے ہوئے کچھ فاصلے پر پھینک دیا۔
مسلمان آگے بڑھ کر شیر وں کی طرح جھپٹے اور یہودیوں پر جاٹوٹے ، یہودیوں نے اس حملے کو روکنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر مسلمان انھیں گاجر مولی کی طرح کاٹتے ہوئے آگے بڑھتے چلے گئے ۔
یہ حالت دیکھ کر یہودی بھاگ نکلے ۔ حضرت علیؓ نے یہود کو گرفتار کر لینے کاحکم دیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں تمام یہود گرفتار کر لیے گئے ۔ قیدیوں میں حی بن اخطب کی بیٹی صفیہ بھی تھیں ۔ 
جب اسیران جنگ تقسیم کیے گئے تو صفیہ حضرت وحیدؓ کے حصہ میں آئیں ۔ حضورﷺ نے اسے وحیدؓ سے خرید کر آزاد کر دیا۔ حضورﷺ کی مہربانی کا یہ اثر ہوا کہ صفیہ نے اسلام قبول کیااور ان کی خواہش پر حضورﷺ نے ان سے اپنا عقد کیا ۔ خیبر کی جنگ میں صرف پندرہ مسلمان شہید ہوئے ۔ یہود کا بہت سا لشکر کام آیا اور ان کے بڑے بڑے سردار مثلاً مرحب ، کنانہ ، سلام وغیرہ مارے گئے ۔
فتح مکہ 
مکّہ معظمہ کے قریب دو قبائل خزاعہ اور بنو بکر آباد تھے ۔ دونوں میں شکررنجیا ں چلی آرہی تھیں اور ان دونوں قبائل میں سے بنو خزاعہ مسلمانوں کے طرف دار تھے ۔ اور بنو بکر قریش کے حلیف تھے۔ ایک رات بنو بکر نے قریش مکہ کی امداد سے بنو خزاعہ پر آدھی رات کے وقت بلا وجہ حملہ کر دیا اور بے جرم و خطا انھیں قتل کرنے لگے ۔ بنو خزاعہ کے جو لوگ بچ گئے وہ بھاگ کر حرم میں پناہ لینے کے لیے جا چھپے ، مگر کفار نے انھیں وہاں سے بھی ڈھوند ڈھوند کر قتل کرنا شروع کیا ۔مظلوموں نے بلند آواز سے پکارا ۔ یا رسول اللہ ﷺ ، بنو بکر مع قریش کے ہم پر ظلم کر رہے ہیں اور معاہدے کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ، ہماری امداد فرمائیے ۔
جناب رسول اللہ ﷺ اس وقت مکہ سے دو تین سو میل دور مدینہ منورہ میں حضرت میمونہؓ کے حجرہ میں وضو فرما رہے تھے ۔ آپﷺ نے لبیک لبیک کہا ۔ حضرت میمونہؓ نے حیرت سے دریافت کیا ، آپ ﷺ نے لبیک کس کے جواب میں کہا ۔ حضورﷺ نے فرمایا ، بنو خزاعہ پر ظلم و ستم ہو رہا ہے ۔ انھوں نے مجھے امداد کے لیے پکارا ۔ حضرت میمونہؓ نے دریافت کیا پھر آپ ﷺ کا کیا ارادہ ہے ۔
حضورﷺ نے فرمایا ، عہد نامے کی خلاف ورزی کرنے والوں کی دھجیاں اڑادی جائیں گی ۔ یہ کافر نہ خود آرام سے رہتے ہیں اور نہ ہمیں اور ہمارے حلیفوں کو آرام کرنے دیتے ہیں ۔ جب صبح ہوئی اور حضورﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے کہا اور قریش کی بد عہدی کا ذکر کیا ۔ جب ان حالات کی مسلمانوں کو خبر ہوئی تو ان کوخیال آیاکہ اب ضرور مکہ پر لشکر کشی ہوگی ۔
چند روز بعد آپﷺ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے کہ آپ ﷺ نے دور سے درد ناک آواز سُنی :
’’کوئی غم نہیں ۔ ہم محمدﷺ کو وہ معاہدہ یاد دلائیں گے جوہمارے اور ان کے درمیان ہوا تھا۔ قریش نے وعدہ خلافی کی ہے اور انھوں نے وہ معاہدہ جو آپ ﷺ سے کیا تھا توڑ ڈالا ہے اور ہمیں خشک گھاس کی طرح پامال کر دیا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری امداد کو کوئی نہ آئے گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم تھوڑی تعداد میں ہیں اور انھوں نے سوتے میں ہم پر حملہ کر دیا ۔‘‘
تھوڑی دیر میں بدیل بن ورقہ اور عمرو بن سالم حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ا ور ظلم و ستم کی تمام داستا ن آپﷺ کو سنائی ۔مسلمانوں پر ا ن کی مظلومی کی داستان سُن کر گہرا اثر ہوا ۔
حضورﷺ نے فرمایا ’’ظالموں سے تمہارا بدلہ ضرور لیا جائے گا ۔ ظالموں اور سر کشوں کو تلوار کے زور سے سیدھا کر دیا جائے گا ۔ تم اطمینان سے اپنے گھر وں کو واپس جاؤ ۔ وہ رخصت ہو کر مکہ کی طرف روانہ ہوگئے اور حضورﷺ نے مسلمانوں کو تیار ہونے کا حکم دیا ۔ قریش نے عاقبت نا اندیشی کر کے معاہدے کی خلاف ورزی تو کر دی مگر بعد میں انھیں اپنی غلطی کااحساس ہوااور انھوں نے ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لیے روانہ کیا ۔
ابو سفیان اپنا سفر طے کر کے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوااور تجدید معاہدہ کی درخواست کی ۔حضورﷺ نے کوئی جواب نہ دیا ۔ اس نے صدیق اکبرؓ اور حضرت عمرؓ سے سفارش کے لیے کہا ۔ مگر دونوں نے جواب دے دیا ۔
یہاں سے وہ اپنی بیٹی ام حبیبہ کے پاس آیا ۔ ( ا م حبیبہ حضورﷺ کی زوجہ مطہرہ تھیں ) انھوں نے بھی جواب دیااور کہا:
’’قریش نے بدعہدی کی ہے ، حضورﷺ کو بڑا غصہ ہے اور کسی کو بھی کسی سفارش کرنے کی جرأت نہیں ہو سکتی ۔ مایوس ہو کر ابو سفیان مکہ کی طرف روانہ ہو گیا ۔ اگر چہ مسلمان تیاریاں کر رہے تھے مگر یہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ کس جگہ حملہ ہوگا ۔‘‘
جب ابو سفیان ناکام واپس مکہ میں آیا تو قریش کو فکر لاحق ہوئی ۔ فوراً انھوں نے سفیر اطراف مکہ میں دوڑا دیے تا کہ ایک لشکر عظیم مسلمانوں کے مقابلے کے لیے اکٹھا کیا جائے ۔ 
چند ہی روز کے بعد عرب کے ہر گاؤں قریہ سے امداد کے لیے دستے آنے شروع ہو گئے ۔ ادھر حضورﷺ نے بھی اتحادی قبائل کے پاس قاصد روانہ کر دیے تا کہ ہر منزل پر تیار ہو کر شامل ہو سکیں ۔
۱۰ رمضان المبارک ۸ھ کو یہ فوج الٰہی مدینہ سے روانہ ہوئی جسے دیکھ کر دشمنوں کے چہرے فق ہو جاتے تھے ۔ اسلامی لشکر سیلاب کی طرح بڑھتا چلا جا رہا تھا اور مسلمان راستہ بھر میں اس فوج میں شامل ہوتے جاتے ۔ آخر یہ لشکر ظفر موج مکہ معظمہ سے صرف چار کوس کے فاصلے پر وادی مرالظہران میں پہنچا تو کفار قریش کو مسلمانوں کے لشکر کے آنے کی اطلاع ہوئی ۔
مسلمانوں کے اچانک آجانے سے انھیں بڑی حیرت اور پریشانی ہوئی اور ابو سفیان تحقیق حال کے لیے اپنے ساتھ چند ساتھیوں کو لے کر روانہ ہوا ۔ رات کے وقت مسلمان اپنے اپنے قبیلوں میں ہتھیار صاف کر رہے تھے اور آگ اس کثرت سے روشن تھی کہ دن جیسی روشنی ہو رہی تھی ۔ ابو سفیان اور اس کے ساتھی مسلمانوں کو دیکھ کر ہیبت زدہ ہوگئے ۔
اس وقت حضرت عمر فاروقؓ اپنے دستے کے ہمراہ طلایہ گردی کر رہے تھے ۔ یہ حالت دیکھ کر ابو سفیان اپنے ساتھیوں سے کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ ایک خچر سوار اپنی طرف بڑھتا ہوااسے نظر آیا ۔ حضرت عباسؓ اس وقت مسلمان ہو چکے تھے ۔ وہ اس وقت حضورﷺ کے خچر دُل دُل پر سوار تھے ۔ یہ وہی خچر تھا جسے مقوقش شاہ مصر نے تحفہ کے طور پر حضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا تھا ۔
حضرت عباسؓ کی خواہش تھی کہ قوم میں قتل و غارت نہ ہوااور وہ اہل مکہ کو متنبہ کرنے جارہے تھے ۔ حضرت عباسؓ نے جب ابو سفیان کو دیکھا تو کہا ، سنو خطرہ قریب ہے ۔ اب بچاؤ کے دو طریقے ہیں یا تو مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ ادا کرو ۔ اب کوئی طاقت مکہ معظمہ کو مسلمانوں کے ہاتھوں سے نہیں بچا سکتی ۔ ابو سفیان نے حیرت سے کہا ’’عباس ، کیا تم مجھے امان دے سکتے ہو ۔‘‘
عباسؓ :ہاں میں تجھے اپنی حفاظت میں لینے کو تیار ہوں ۔
ابو سفیان:شکریہ ۔
اب ابو سفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا جلد مکہ جاؤ اور کہہ دو اب بھلائی اسی میں ہے کہ مسلمان ہو جاؤ ۔
ابو سفیان کے ساتھی یہ پیغام لے کر واپس چلے گئے اور ابو سفیان حضرت عباسؓ کے ہمراہ مسلمانوں کے لشکر کی طرف روانہ ہوئے ۔
جب حضرت عباسؓ اسلامی لشکر کے قریب پہنچے تو حضرت عمرؓ اپنے دستہ کے ساتھ طلایہ کرتے ہوئے وہاں سے گزرے ۔ ان کو دیکھتے ہی حضرت عمرؓ نے پُر رعب آواز میں کہا :
’’ابو سفیان ، خدا اور خدا کے رسول ﷺ کا دشمن اور کافر آج تو مسلمانوں کے پنجے میں پھنس ہی گیا ۔‘‘
یہ فرماتے ہوئے آگے بڑھے اور تلوار میان سے کھینچ لی ۔
حضرت عباسؓ نے کہا ۔ عمر ٹھہرو اس وقت ابو سفیان میری امان میں ہے ۔‘‘
حضرت عمرؓ : مگر تم نے اس دشمن اسلام کو امان کیوں دی ۔
حضرت عباسؓ :یہ بات رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جا کر بیان کروں گا ۔
ابو سفیان خوف و دہشت سے کانپ رہا تھا اپنی موت اسے سر پر کھڑی نظر آرہی تھی ۔ 
حضرت عمرؓ :اچھارسول خداﷺ کے حضور میں چلو ۔ حضرت عمرؓ بھی ان کے ساتھ چلے اور حضورﷺ کے خیمہ پر پہنچے ۔ خیمہ پر اسلامی پرچم لہرا رہا تھااور حضورﷺ جاں نثار صحابہ کے ساتھ کمبل کے فرش پر تشریف فرما تھے ۔ 
جب یہ حضورﷺ کے سامنے پہنچے تو حضرت عمرؓ نے کہا:کفر کے خاتمے کا وقت آگیا ہے ۔ حکم دیجیے کہ اس کافر کا سر اڑادوں ۔‘‘
حضرت عباسؓ نے اس کی جان بخشی کی درخواست کی اور اپنے امان میں لینے کا بیان کیااور حضرت عمرؓ سے کہا ’’عمر اگر یہ شخص تمھارے قبیلہ کا ہو تاتو شاید تم اس بے صبری سے اس کے قتل پر اصرار نہ کرتے ۔‘‘حضرت عمرؓ نے جواب دیا ’’کوئی بھی ہوتا میں ایسے دشمن اسلام کا سرا ڑا دیتا ۔ ‘‘ابو سفیان نے یہ حالت دیکھ کر ادب سے جھک کر حضورﷺ کو سلام کیا۔ آج پہلا موقع تھا کہ مسلمانوں کا بدترین دشمن خدا کے رسول ﷺ کے آگے جھکا ۔ حضورﷺ نے ابو سفیان سے پوچھا کہ تم کواب بھی یقین نہیں آتا کہ خدا کے سوا کوئی لائق پر ستش نہیں ہے ۔
ابو سفیان نے جواب دیا کہ اگر کوئی اور خدا ہوتا تو آج ہمارے کام آتا ۔حضورﷺ نے فرمایا’’کیا تم یہ بھی مانتے ہو کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں؟‘‘
ابو سفیان :یہی بات تو بنائے نزاع ہے ۔
حضورﷺ :اب تم کیا چاہتے ہو؟
ابو سفیان ۔مجھے ایک رات کی مہلت دی جائے تا کہ میں غور کر لوں ۔حضرت محمدﷺ نے فرمایا۔ منظور ہے اور حضرت عباسؓ کے ساتھ ان کے خیمہ میں روانہ کر دیا ۔ 
رات بھر ابو سفیان بستر پرپڑا سوچتا رہا ۔اسے خیال ہوا کہ اگر اسلام سچا مذہب نہ ہوتا تو یہ مٹھی بھر فاقہ کش مسلمان کس طرح ہم پر غالب آجاتے ۔ صبح ہوتے ہی ابو سفیان حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوااور مسلمان ہونے کا ارادہ ظاہر کیا ۔
حضورﷺ نے پوچھا:ابو سفیان کیا تم اپنی خوشی سے مسلمان ہوتے ہو ؟
ابو سفیان :ہاں اپنی خوشی سے اور مجھے اپنی سابقہ روش پرا فسوس ہے ۔
حضورﷺ نے اسے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر لیا ۔ مسلمانوں کو بڑی خوشی ہوئی اور انھوں نے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا ۔
حضرت عباسؓ نے حضورﷺ کی خدمت میں عرض کی ’’یا رسول اللہ ﷺ ابو سفیان کے مرتبہ کے مطابق اسے کوئی اعزاز دے دیجیے ۔‘‘
حضورﷺ نے فرمایا ’’جو شخص ابو سفیان کے گھر میں پناہ لے گا اسے پناہ دی جائے گی ، جو شخص خانہ کعبہ میں پناہ لے گا اسے پناہ دی جائے گی اور جو شخص مسلمانوں سے مقابلہ نہیں کرے گا اسے بھی امان دی جائے گی ۔‘‘
ابو سفیان یہ سُن کر خوش ہو گیا اور حضورﷺ سے اجازت طلب کی تا کہ مکہ میں جا کر لوگوں کو سمجھائے ۔ حضورﷺ نے ابو سفیانؓ کو جانے کی اجازت عطا فر مائی ۔ ابھی وہ مکہ کے قریب ہی پہنچے تھے کہ لشکر اسلا م نے بھی کوچ کر دیا ۔
ابو سفیان ایک بلند ٹیلے پر کھڑے ہو کر یہ نظارہ دیکھنے لگے ۔ سب سے آگے حضرت خالد بن ولیدؓ اسلامی علم ہاتھ میں لیے چل رہے تھے ۔ حضرت خالد بن ولیدؓ اس سے قبل اسلام لا چکے تھے ۔ ان کے بعد حضرت عمرؓ ، ان کے بعد حضرت علیؓ پھر حضرت سعدؓ بن معاذ اور ان کے بعد حضرت عباسؓ اور درمیان میں حضورﷺ ۔ آپﷺ کے ساتھ بلال حبشیؓ آپ ﷺ کے عقب میں حضرت زیدؓ بن حارث ، ابو خبرلؓ ، ابو عبیدہ ؓ بن الجراح لشکر اسلام کے ساتھ کوچ کر رہے تھے۔ مسلمانوں کی تعداد دس ہزار تھی ۔ ابو سفیان اسلامی لشکر کی یہ شان دیکھ کر حیران رہ گیا ۔ 
اس نے کہا کہ خدا کی قسم ایسا شان دار لشکر کبھی نہیں دیکھا ۔ بے شک حضورﷺ کی پیش گوئی سچی ہونے کا وقت آگیا ہے کہ تمام عربستان پر قابض ہو جاؤں گا اور فارس اور ملک شام کی کنجیاں میرے سپرد کر دی گئی ہیں ۔ ابو سفیان جلدی سے ٹیلے سے نیچے اترااور مکہ میں داخل ہو کر کفار سے کہا ’’مسلمانوں کی اطاعت کرنے میں فلاح ہے اور ان سے لڑنا فضول ہے ۔ ‘‘
قریش مکہ نے برا سا منہ بنا کر کہا ’’بزدل ، کیا تم مسلمانوں سے مل گئے ہو؟ ہم زندگی کی آخری سانس تک مسلمانوں کا مقابلہ کریں گے اور انھیں مکہ میں ہر گز داخل نہ ہونے دیں گے ۔‘‘ابو سفیان نے کہا ’’اگر تم نے ایسا کیا توتم تمام قتل کر دیے جاؤ گے ، اسلامی لشکر کو روکنا تمھاری طاقت سے باہر ہے ۔‘‘
ایک شخص نے کہا ’’ہم بہادر ہیں ، وہ دیکھو ، عکرمہ ، صفوان اور سہیل کی قیادت میں مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے مٹانے کے لئے جا رہا ہے ۔‘‘
ابو سفیان نے کہا ’’تم غلطی کر رہے ہو ۔ قریش مٹ جائیں گے اور تم اپنی آنکھوں سے اپنا انجام دیکھ لو گے ۔ سنو!جو شخص خانہ کعبہ میں پناہ لے گا ، جو میرے گھر میں پناہ لے گا یا جو اپنا مکان بند کر کے اندر رہے گااور وہ بھی جو بغیر ہتھیار کے ہو گااسے مسلمان قتل نہیں کریں گے ۔ کفار نے ابو سفیان کی ان باتوں کو مذاق میں اڑاد یا ۔ پھر بھی ابو سفیان نے تمام مکہ میں منادی کرادی ۔ کفار مکہ کے چند نوجوانوں نے جن کا سردار صفوان بن امیہ تھا حضرت خالدؓ بن ولید کی فوج پر تیر بر سانے شروع کر دیے جن کی وجہ سے دو مسلمان شہید ہوگئے ۔ حضرت خالدؓ بن ولید نے جواباً حملہ کیا ، تیرہ کافر مارے گئے اور کفار کا یہ دستہ اپنے ساتھیوں کی لاشیں چھوڑ کر بھاگ اٹھا ۔ حضورﷺ نے حضرت خالدؓ کو بلا کر پوچھا حملے میں پہل کس طرف سے ہوئی ، جب معلوم ہو اکہ ابتدا قریش سے ہوئی تو فرمایا اللہ کی یہی مرضی تھی ۔ گویا نبی کریم ﷺ کی خواہش نہ تھی کہ مکہ میں خون خرابہ ہو ۔ مسلمانوں کا خیال تھا کہ کفار مکہ کے سامنے ضرور لڑیں گے لیکن کوئی مقابلے کے لیے نہ آیا ۔ حضورﷺنے حکم دیا کہ مسلمان برہنہ تلوار یں ہاتھوں میں لے مکہ میں داخل ہوں تا کہ کفار پر مسلمانوں کا رعب بیٹھ جائے ۔ چنانچہ مسلمان ہاتھوں میں تلواریں لے کر گروہ در گروہ اپنے سالار کے ماتحت مکہ میں داخل ہونے شروع ہوئے ۔ حضرت عمر فاروقؓ بلند آوازسے پڑھ رہے تھے ’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا ۔ باطل مٹنے ہی کے لیے تھا ۔‘‘، کسی نے کوئی مزاحمت نہ کی ۔ حضورﷺ نے سواری پر ہی بیت اللہ کا طواف کیا اور فرمایا کہ ان باطل کے معبودوں کو خانہ کعبہ سے باہر پھینک دو ۔ خانہ کعبہ کے اندر تین سو ساٹھ بت تھے جو باہر نکال کر پھینک دیے گئے۔ جس قدر تصویریں دیواروں پر تھیں ، سب مٹا دی گئیں ۔
حضوراکرمﷺ ، حضرت بلالؓ اورحضرت طلحہؓ کے ہمراہ اندر داخل ہوئے اور بلند آواز سے تکبیریں کہیں ۔ بہت مدت کے بعد خانہ کعبہ بتوں کی نحوست سے پاک ہوا ۔ آپﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی اور نماز سے فارغ ہو کر باہر تشریف لائے ۔
باہر قریشِ مکہ سروں کو جھکائے کھڑ ے تھے ۔ سب خاموش تھے اور اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے منتظر ۔ حضورﷺ نے باہر آکر بلند آواز سے فرمایا ۔ اللہ ایک ہے ، کوئی اس کا شریک نہیں ۔ اس نے اپنا وعدہ پورا کیااور اپنے عاجز بندوں کی مدد ی ۔ اے اہلِ مکہ آج خدائے وحدہ لا شریک نے مسلمانوں کے ذریعے سے جاہلیت کی تمام رسو مات کو پامال کر دیا ۔اب جاہلیت کا غرور اور نسب کا فخر مٹ گیا ۔ خدا کے نزدیک شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے اور اللہ سب کو جاننے والا ہے ۔
اس مجمع میں وہ زبان دراز بھی تھے جو حضورﷺ کو گالیاں بکا کرتے تھے اور گستاخانہ پیش آتے تھے اور اسلام کومٹانے کی انتہائی کوشش کرتے تھے ۔ وہ سفاک بھی تھے جو مسلمانوں کو جلتی ریت پر لٹا کر گرم سلاخوں سے داغا کرتے تھے اور مدینہ میں بھی مسلمانوں کو چین سے نہ بیٹھنے دیتے تھے ۔ حضورﷺ نے ان کی طر ف مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا’’تم جانتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟‘‘
قریش مکہ نے خوف وہراس کی نگاہوں سے حضورﷺ کی طرف دیکھتے ہوئے عرض کی ہمیں آپﷺ سے بھلائی کی امید ہے ۔
رحمت عالم ﷺ کا جوش موجزن ہوا، آپﷺ نے مسکرا کر فرمایا ۔ جاؤ آج تم سب آزاد ہو، تم پر کچھ الزام نہیں اورتم سے کوئی بدلہ نہیں لیا جائے گا ۔ یہ حکم سن کر قریش مکہ بہت خوش ہوئے اور ان کا خوف و ہراس جاتا رہا ۔ا نھوں نے پکار کر کہا، یامحمدﷺ تم بے شک خدا کے سچے رسول ﷺ ہو ،دشمنوں کے ساتھ یہ مہربانی پیغمبر ہی کی شان ہے ۔
خطبے سے فارغ ہو کر حضورﷺ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی بیعت لینا شروع کی ،مردوں سے حضورﷺ نے خود بیعت لی اور عورتوں سے حضرت عمرؓ بن الخطاب کو بیعت لینے کاحکم دیا ۔
اس کے بعد آپﷺ نے کچھ دن مکہ مکرمہ میں قیام فرمایا اور مدینہ کی طرف واپس تشریف لے گئے ۔ وہ لوگ جو اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ، کیا دنیا کی تاریخ میں کوئی فاتح ایسا کر کے دکھا سکتا ہے ، جس نے اپنے دشمنوں کو اس طرح معاف کر دیا ہو اور دشمن بھی وہ جنھوں نے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہوں ؟کیا فاتح بننے کے بعد کسی ایک مشرک کا بھی خون کیا گیا ؟
اس کتاب میں ہم نے صرف ان جنگوں کے حالات درج کیے ہیں جو بہت مشہور ہوئی ہیں اور ان میں حضورﷺ نے خو دشرکت کی ہے ۔ ان لڑائیوں کی دوا قسام ہیں :ایک غزوہ دوسری سریہ ۔
غزوہ: جس مہم میں حضورﷺ خود شریک ہوتے تھے اسے ٖغزوات کہتے ہیں ۔ ان کی تعداد ۱۹ سے ۲۷ تک ہے ۔ 
سریہ : جن لڑائیوں میں حضورﷺ خود شریک نہ ہوتے تھے بلکہ کسی دوسرے شخص کو اپنا قائم مقام بنا کر بھیجتے تھے اسے سریہ کہتے ہیں ، ان کی تعداد ۵۶ہے ۔
حجۃ الوداع ، ۱۰ہجری 
جب ذیقعدہ کا مہینہ آیا تو حضورﷺ نے حج کا ارادہ کیا ۔ جب یہ خبر پھیلی تو مسلمانوں نے بھی ساتھ جانے کے لیے تیاریاں شروع کر دیں ۔ ۲۵ذیقعدہ ۰ ۱ ہجری بروز ہفتہ آپﷺ نے غسل کیااور بے سلا کپڑا یعنی احرام باندھا ۔ تمام ازواج مطہرات کو ساتھ لیا اور مدینہ منورہ سے چل کر چھ میل کے فاصلہ پر مقام ذوالحلیفہ پر قیام فرمایا ۔
اگلے روز پھر غسل فرمایا ۔ دو رکعت نماز ادا کی اور اپنے ناقہ قصویٰ پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے یہ الفاظ ادا فرمائے جو اب تک ہر حا جی کا ترانہ ہے :
’’اے اللہ ! ہم تیرے سامنے حاضر ہیں ۔ تیرا کوئی شریک نہیں ۔ تعریف اورنعمتیں سب تیری ہیں اور تیرا کوئی شریک نہیں ۔‘‘
جب حضورﷺ لبیک فرماتے تو کم و بیش ایک لاکھ انسانوں کی زبان سے یہی نعرہ نکلتا اور پہاڑ اس آواز سے گونج جاتے ۔ فتح مکہ کے وقت آپﷺ نے جس جس مقام پرنماز ادا کی تھی ، اس سفر میں آپﷺ وہاں وہاں نماز ادا کرتے جاتے تھے مقام سرف میں پہنچ کر حضورﷺ نے غسل فرمایااور مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کا سفر نو دن میں طے کیا ۔جب کعبہ نظر آیاتو آپﷺ کا چہرہ مبارک خوشی سے چمک اٹھا ۔ مکہ معظمہ کے نواح سے بہت سے مسلمان شامل ہو گئے ۔ ۶ھ میں آپﷺ حج کے لیے تشریف لائے تو صرف چودہ مسلمان ساتھ تھے ، مگر صرف چار سال کی مدت کے بعد ایک لاکھ سے زائد مسلمان آپ ﷺکے ساتھ تھے ۔ خانہ کعبہ کی طرف دیکھ کر فرمایا ، اس گھر کو اور زیادہ عزت و شرف عطا فرمائیں ۔ اگلے روز جمعہ کی نماز پڑھ کر وہاں سے روانہ ہوئے اور مزدلفہ میں قیام فرمایااور اس کے بعد عرفات کے میدان میں تشریف لے گئے۔ جب دوپہر ڈھل گئی تو آپﷺ اپنے ناقہ پر سوار ہو کر تشریف لائے اور اس پر بیٹھے بیٹھے ہی خطبہ پڑھااور ایسا جامع اور بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا کہ اہل زبان سن کر دنگ رہ گئے ،خطبے کے بعد حضورﷺ نے مسلمانوں سے پوچھا۔
’’تم سے اللہ کے ہاں میری بابت پوچھا جائے گا تو کیا جواب دو گے ؟کیا میں نے احکامِ خداوندی تم تک پہنچا دیے ہیں ؟‘‘
سب نے یک زبان ہو کر کہا’’ہاں آپﷺ نے خداوند کریم کے احکام پہنچا کر اپنا فرض اداکر دیا ‘‘یہ جواب سن کر آپ ﷺ نے آسمان کی طرف تین بار انگلی اٹھا کر فرمایا ’’اے اللہ ، گواہ رہنا‘‘دسویں ذوالحجہ بروز ہفتہ آپﷺ پھر اپنے ناقہ پر سوار ہوئے ۔ مسلمانوں کا بے پایاں سمندر آپﷺ کے ساتھ تھا ۔ حضرت بلالؓ مہار پکڑے ہوئے تھے ۔ حضرت اسامہؓ بن زید نے ناقہ کے پیچھے بیٹھ کر کپڑا تان دیا تھا ۔ آ پ ﷺ نے فرمایا ’’حج کے مسائل سیکھ لو ، نہیں معلوم کہ اس حج کے بعددوسرے حج کی نوبت آئے اور حضورﷺ کا یہ فرمان درست نکلا ۔ یہ حج آپﷺ کا آخری حج ثابت ہوا اسی لیے اسے حجۃ الوداع کہتے ہیں ۔
یہاں پھرحضورﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایااورمسلمانوں کو اتفاق وا تحاد سے رہنے کی تاکید فرمائی اور لوگوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ’’جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ یہ تمام احکام ان لوگوں کو پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ۔‘‘خطبے کے بعد آپﷺ نے تمام مسلمانوں کوالوداع کہا۔
عین اس وقت جب ﷺ یہ آخری فرض ادا کر رہے تھے خداوند کریم کی طرف سے بشارت ہوئی ، آج میں نے تمہارے لیے تمھارے دین کو پورا کر دیا۔ اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام کو چن لیا ۔ حضورﷺ نے قربانی سے فارغ ہو کر سر کے بال اُتروائے ۔ لوگوں نے بالوں کو تبرکاً اپنے پاس رکھ لیا ۔حضرت خالد بن ولیدؓ نے آپﷺ کے چند بال اپنی ٹوپی میں سی لیے جس کی برکت سے وہ ہر معرکے میں کامیاب ہوئے جس میں انھوں نے وہ مبارک ٹوپی استعمال کی ۔ حج سے فارغ ہو کر حضورﷺ نے مدینہ کی طرف مراجعت فرمائی ۔ جب آپﷺ خم غدیر کے مقام پر پہنچے تو حضورﷺ نے مجمع میں کھڑ ے ہو کر فرمایا ،جو مجھ سے دوستی رکھتا ہے ، وہ علیؓ کو بھی دوست رکھے ۔ یا اللہ جو علیؓ سے محبت رکھے تو بھی اس سے محبت رکھ اور جو علی سے دشمنی رکھے تو بھی اس سے دشمنی رکھ ۔ مدینہ کے قریب پہنچ کر ذوالحلیفہ میں رات بسر کی اور صبح نمازسے فارغ ہو کر کوچ فرمایااور مدینہ منورہ میں داخل ہوئے ۔
۲۸ صفر ۱۱ ہجری کو حضرت اسامہؓ کی سر کردگی میں لشکر کو روانگی کاحکم دیا ۔ اسی رات آپﷺ کی طبیعت ناساز ہو گئی ۔ اگلے روز بھی کوئی افاقہ نہ ہوا۔
حضور ﷺ نے حرم محترم سے فرمایا’’اگر سب اجازت دو تو میں عائشہ صدیقہؓ کے ہاں قیام کروں ۔‘‘سب نے بخوشی اجازت دی چونکہ آپﷺ کاضعف زیادہ بڑھ گیا۔ اس لیے حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ نے بمشکل بازو تھام کر حضورﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہؓ کے ہاں پہنچایا ۔ آپﷺ نے غسل فرمایا اور اٹھنا چاہا کہ غش آگیا۔ 
تین دفعہ آپﷺ نے غسل فرمایااور پوچھا کیا نماز ہو چکی ،تینوں دفعہ حضرت عائشہؓ نے عرض کی آپﷺ کا انتظار ہے ، آپﷺ نے فرمایاابو بکر میری جگہ نماز پڑھائیں ۔
حضرت ابو بکرؓ نے امامت کی اور کئی روز تک نماز پڑھائی ۔ایک روز حضرت ابو بکرؓ نماز پڑھا رہے تھے کہ حضورﷺ تشریف لائے ، اس روز آپﷺ کو کچھ افاقہ تھا ۔ حضرت ابو بکرؓ پیچھے ہٹنے لگے ۔
حضور ﷺ نے اُنھیں پکڑ اکر وہیں قائم رکھااور ان کے پیچھے نماز ادا کی ۔ وصال سے چار روز پیشتر آپﷺ نے تین وصیتیں فرمائیں :
۱۔ کوئی مشرک عرب میں رہنے نہ پائے ۔
۲۔ سفراء کا احترام کیا جائے ۔
۳ اسامہ کے لشکر کو ضرور روانہ کیا جائے۔ 
اس کے بعد مرض نے پھر غلبہ کیا۔ ظہر کے وقت طبیعت کو پھر کچھ سکون ہوا ۔ آپﷺ کے غسل کی خواہش فرمانے کے بعد حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ تھام کر مسجد میں لائے ۔
ابوبکرؓ نماز پڑھا رہے تھے، آہٹ پا کر پیچھے ہٹنے لگے ۔ حضورﷺ نے اشارے سے روکااور پہلو میں بیٹھ کر نماز ادا کی اور نماز سے فارغ ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا ۔
آپﷺ نے اعلان فرمایا کہ اگر کسی کا قرضہ مجھ پر ہو تو وہ اب وصول کر لے۔ ایک شخص نے تین درہم قرضہ کی واپسی کا مطالبہ کیا ۔ آپﷺ نے اسی وقت ادا کر وادیا ۔
حضورﷺ پھر حضرت عائشہ کے حجرہ میں تشریف لائے۔ آپﷺ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ اور اپنی پھوپھی سے مخاطب ہو کر فرمایا :
اے فاطمہؓ یہ خیال نہ کرنا کہ میں رسول اللہ ﷺ کی بیٹی ہوں ۔ آخرت کے روز میں تمھیں نہ بچو سکوں گا ۔ تمہارے نیک اعمال ہی تجھے بچا سکیں گے اور اے میری پھوپھی آخرت میں نیک اعمال ہی کام آئیں گے ۔ 
آنحضورﷺ حضرت عائشہؓ کے سینے پر سر رکھے لیٹے تھے ۔ مرض نے پھر شدت اختیار کرلی ۔ آپﷺ نے حضرت فاطمہؓ کا ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیا۔ حضرت امام حسنؓ اور حسینؓ کو پیار کیااور پھر سب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
’’لوگو! میں تم کو اللہ سے ڈرانے کے لیے آیا تھا ۔ اب تم کو اللہ کے سپرد کر کے واپس جا رہا ہوں ، مجھے میرے قریبی شتہ دار غسل دیں اور جنازہ قبر کے نزدیک رکھ کر سب الگ ہو جائیں تا کہ ملائکہ نماز ادا کر لیں ۔‘‘آپ ﷺ نے آخری دم تک نما زکی تلقین فرمائی ۔
آپ ﷺکا کرب بڑھتا گیا ۔ حضرت عبدالرحمنؓ بن ابو بکر بکرؓ تشریف لائے ۔ ان کے ہاتھ میں نیم کی تازہ مسواک تھی ۔ حضورﷺ نے مسواک کی طرف دیکھا ۔ حضرت عائشہ نے سمجھ لیا کہ آپﷺ مسواک کرنا چاہتے ہیں ۔ اپنے بھائی کے ہاتھ سے مسواک لے کر اپنے دانتوں سے چبا کر نرم کی اور حضورﷺ کو پیش کر دی ۔ آپ ﷺ نے مسواک کی ۔ آپﷺ کے سینے میں سانس کی گڑگڑاہٹ محسوس ہوئی ۔ کچھ وقفے کے بعد آپﷺ کے لب ہلے ۔آپﷺ فرما رہے تھے ‘‘امتی امتی الصلوٰۃ الصلوٰۃ ‘‘یہ کہتے کہتے آپﷺ کے ہاتھ لٹک گئے اور آنکھیں چھت کی طرف لگ گئیں اور روح اطہر نے عالم اقدس کی طرف پرواز کر لیا۔
انا لِلّٰہِ وَانا الیہ راجعون 
جس روز حضورﷺ کا وصال ہوا ۔ ۱۲ ربیع الاول ۱۱ ہجری دو شنبہ سہ پہر کا وقت تھا ۔ اس وقت آپﷺ کی عمر تریسٹھ برس سے دو چار روز زیادہ تھی ۔
جب حضورﷺ کی وفات کی خبر مسجد نبوی ﷺ میں پہنچی تو صحابہ کرامؓ پر کوہ غم ٹوٹ پڑا ۔ وہ غم کی وجہ سے بدحواس ہو گئے ۔ حضرت عمر فاروقؓ تلوار کھینچ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے جو یہ کہے گا کہ حضورﷺ وفات پا گئے ہیں اس کی گردن اڑادوں گا ۔ وہ حالت جوش میں بے خود ہو رہے تھے ۔ جب آپ ﷺ کی وفات کی خبر مدینہ میں عام ہو گئی تو مسلمانوں کے دلوں پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔
حضرت ابو بکرؓ اپنی بیٹی حضرت عائشہؓ کے حجرے میں گئے تو دیکھا سب زار و قطار رور رہے ہیں ۔
آپؓ نے چادر کا گوشہ حضورﷺ کے چہرہ منور سے ہٹایا اور روتے ہوئے فرمایا ،آپﷺ زندگی میں بھی پاک رہے اور مرنے کے بعد بھی ۔ اس کے بعد آپؓ مسجد نبوی ﷺ میں تشریف لائے اور ایک جگہ کھڑے ہو کر فرمایا:
’’اگر تم محمدﷺ کو پوجتے تھے تو وہ فوت ہو گئے ہیں ۔ اگر خدا کی بندگی کرتے تھے تو وہ زندہ ہیں اور کبھی نہ مریں گے ۔‘‘پھر قرآن مجید کی آیت تلاوت فرمائی جس کا مفہوم یہ تھا:
’’محمدﷺ ایک رسول ﷺ ہیں ۔ان سے پہلے بھی رسول گزرے ہیں ،اگر محمدﷺ فوت ہو جائیں تو کیا تم کفر کی طرف لوٹ جاؤ گے ؟اللہ کا اس سے کیا نقصان ہو گا ۔ عنقریب اللہ اسلام پر قائم رہنے والوں کو اچھا صلہ دے گا ۔‘‘
یہ آیت سن کر حضرت عمرؓ کا جسم کانپنے لگااور خود فراموشی دور ہو گئی ۔ آپ بعد میں فرمایا کرتے تھے ’’خدا ابو بکرؓ کابھلا کرے ، ان کی تقریر سن کر میرے حواس بجا ہوئے ۔‘‘آنحضورﷺ کی وصیت کے مطابق آپﷺ کے عزیز و اقارب نے آپﷺ کے غسل اور کفن دفن کی خدمات انجام دیں ۔ حضرت ابو عبیدہؓ اور ابو طلحہؓ نے بغلی قبر کھو دی ۔ آپﷺ کی وفات دو شنبہ کے دن ہوئی اور سہ شنبہ تک لوگ جنازہ کی نماز ادا کرتے رہے ۔ 
حضرت علیؓ ، حضرت فضل بن عباسؓ ، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف اور حضرت اسامہؓ بن زید نے قبر میں اتارا او ر تما م مسلمانوں نے مٹی دی ۔ آپﷺ حضرت عائشہؓ کے حجرے میں دفن ہوئے ۔ وہ حجرہ آج تک روضہ نبوی ﷺ کے نام سے موسوم ہے ۔ 

اللھم صلی علی سیدنا محمد و بارک و سلم

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top