ویران جزیرے کا راز
احمد عدنان طارق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اینیڈ بلیٹن کے ناول ’’آئی لینڈ آف ایڈونچر‘‘ سے ماخوذ
۔۔۔۔۔۔۔۔
باب نمبر1………………..آواز کا راز
یہ بہت ہی عجیب و غریب حالات تھے جن میں معاذ اس وقت مبتلا تھا۔ وہ ایک درخت کے نیچے لیٹا ہوا ریاضی کے سوالات حل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور دور دور تک اس کے نزدیک کوئی اور نہیں تھا لیکن اس کے باوجود کوئی تھا جو اس سے بار بار باتیں کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کوئی کی آواز ایک دفعہ پھر گونجی”بےوقوف کیا تم دروازہ بند نہیں کر سکتے؟“معاذ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔کوئی دوبارہ جھڑکی آمیز لہجے میں بولا،”اور میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ اپنے پاﺅں دھویا کرو؟“ معاذ اٹھ کر بیٹھ گیا اور ایک دفعہ پھر ہونقوں کی طرح ادھر ادھر گردن گھما کر دیکھنے لگا لیکن دور دور تک پہاڑیوں کے سلسلے کے درمیان ایک سرسبز وادی میں جس درخت کے نیچے وہ لیٹا ہوا تھا کوئی ذی روح نظر نہیں آ رہا تھا۔ معاذ اپنے آپ سے بولا،”شاید میں ہی بے وقوف ہوں ۔یہاں کون سا دروازہ ہے جسے میں نے بند کرنا ہے اور کون سے قالین بچھے ہوئے ہیں جن پر میں نے پیر صاف کر کے رکھنے ہیں۔ جو بھی اس قسم کی باتیں کر رہا ہے، میرا خیال ہے پاگل ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کوئی انسان دکھائی بھی نہ دے اور اس کی آواز سنائی دے تو ہو سکتا ہے یہ اپنے ساتھ مجھے بھی پاگل کر دے۔ “تبھی ایک بھورے مٹیالے رنگ کے گول مٹول چہرے نے خود کو اس کے سویٹر سے رگڑا۔ یہ معاذ کی پالتو بلی کا بچہ نیمو تھا ۔یہ معاذ کے کئی پالتو جانوروں میں سے ایک تھا۔ معاذ نے اس کی کمر پر پیار سے ہاتھ پھیرا تو نیمو کی باچھیں خوشی سے کھل گئیں ۔تبھی اچانک نجانے کہاں سے پھر آواز گونجی،”بے وقوف!دروازہ بند کرو اور چھینکو مت ،تمہارا رومال کدھر ہے؟“ اب معاذ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ وہ چلا کر بولا ”بکواس بند کرو،میں کب چھینکا ہوں،اور تم ہو کہاں؟“ لیکن آگے سے پھر خاموشی چھا گئی۔ معاذ بہت پریشان تھا ،اس لئے کہ اس طرح کے حالات سے وہ کبھی نہیں گزرا تھا۔ موسم بہت خوبصورت تھا اور دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ اس کے باوجود یہ چیختی ہوئی آواز اور اس کا تحکمانہ لہجہ، اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ وہ دوبارہ چلایا،”دیکھتے نہیں میں کام کر رہا ہوں۔
تم نے اگر کچھ پوچھنا ہے تو سامنے آ کر پوچھو اور سامنے تو آﺅ۔ چھپنا بزدلوں کا کام ہے۔“کوئی دوبارہ بولا،” ٹھیک ہے چچا!“لیکن اس دفعہ آواز کا لہجہ بدلا ہوا تھا اور آواز میں بلا کی شائستگی اور دھیما پن تھا۔ معاذ نے سر پیٹ لیا۔ وہ خود سے بولا،” یا خدا !کیا مصیبت ہے ۔میں یہ سب برداشت نہیں کر سکتا۔ مجھے اب اس راز سے پردہ اٹھانا ہی ہو گا۔ اگر مجھے اندازہ ہو جائے کہ آواز کس سمت سے آ رہی ہے تو میں باآسانی بولنے والے کو ڈھونڈ لوں گا۔“ وہ پھر چلایا،” تم کہاں ہو؟ سامنے آﺅ ،تاکہ میں تمہیں دیکھ سکوں۔“ اب کی بار آواز میں دوبارہ وہی جھڑکنے والا لہجہ تھا۔ کوئی بولا،” میں نے تمہیں ایک دفعہ نہیں کوئی ایک درجن بار سمجھایا ہے کہ سیٹی مت بجاﺅ۔“ معاذ بے چارہ حیرانی سے چپ ہو گیا۔ وہ قطعی سیٹی نہیں بجا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کا پالا کسی پاگل سے پڑ گیا تھا۔ معاذ کے ذہن میں فوراً ایک خیال آیا کہ اسے کسی بھی حالت میں اس پاگل سے نہیں ملنا چاہئے بلکہ اس سے بچ کر گھر چلا جانا چاہئے۔ اس نے نہایت احتیاط سے ادھر ادھر دیکھا ۔ اسے ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ اجنبی آواز کہاں سے آ رہی ہے لیکن اسے ذرا سا گمان تھا کہ آواز اس کی بائیں طرف سے آ رہی ہے۔ اس نے سوچاکہ ٹھیک ہے میں درختوں میں چھپتا چھپاتا نزدیکی پہاڑی کی دائیں سمت کو جاتا ہوں تاکہ اجنبی اسے دیکھ نہ سکے۔ اس نے اپنی کتابیں اٹھائیں، پنسل جیب میں رکھی اور کھڑا ہو گیا، لیکن تبھی اس چیختی چلاتی آواز میں لگائے گئے ایک بلند قہقہے نے اس کی ساری احتیاط غارت کر دی اور وہ پناہ لینے کے لئے قریبی درختوں کے جھنڈ کی طرف بھاگا، تو قہقہہ اچانک خاموش ہو گیا۔ معاذ اب بڑے درخت کے نیچے کھڑا تھا اور سننے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ وہ گھر واپس چلا جائے ،تبھی وہ آواز دوبارہ گونجی، ”میں نے تمہیں کتنی بار سمجھایا ہے کہ اپنے پاﺅں صاف کیا کرو؟“ اور اس فقرے کے بعد کسی نے چیخ ماری تو ڈر کے مارے معاذ کے ہاتھوں سے کتابیں چھوٹ گئیں۔ تبھی اس نے اوپر درخت کی جانب دیکھا تو ایک شاخ پر بیٹھا ایک انتہائی خوبصورت سفید رنگ کا توتا نظر آیا جس کی کلغی سنہری رنگ کی تھی، جو توتے کے سر ہلانے سے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ وہ اپنی چمکیلی سیاہ آنکھوں سے معاذ کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کا سر بار بار ایک طرف کو جھکتا اور اس کی خمدار چونچ سے کچھ کھرچنے کی آوازیں برآمد ہو رہی تھیں۔ معاذ نے توتے کو بے یقینی سے گھورا تو توتے نے بھی جواب میں معاذ کو آنکھیں دکھائیں۔ پھر توتے نے اپنا ایک پنجہ شاخ سے اٹھا کر ماتھے کو کھرچا جیسے کوئی مفکر سر پر ہاتھ مار کر کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس کی کلغی بدستور اوپر نیچے ہو رہی تھی اور پھر وہ بولا، ”چھینکو مت ،بے وقوف کیا تم دروازہ بند نہیں کر سکتے؟ کیا تمہیں کسی نے آداب نہیں سکھائے؟ معاذ حیرت کی شدت سے بولا،” یا خدا!تو یہ تم تھے جو صبح سے آواز نکال رہے تھے۔ تم نے ڈر کے مارے میری جان ہی نکال لی تھی۔“ جواب میں توتے نے بالکل صحیح چھینک کی نقل اتاری اور بولا،”تمہارا رومال کدھر ہے؟“
اس دفعہ معاذ بے اختیار کھلھلا کر ہنس پڑا اور کہنے لگا،” تم دنیا کے سب سے عجیب و غریب پرندے ہو اور سب سے چالاک بھی۔ لیکن کیا تم اپنے مالک کو دھوکا دیکر یہاں آئے ہو؟“ توتے نے سختی سے اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا، ”اپنے پاﺅں صاف کرو۔“ یہ سن کر معاذ دوبارہ ہنسنے لگا۔ تبھی نیچے گھاٹی سے اسے کسی لڑکے کی آواز سنائی دی جو پکار رہا تھا،” کی کی….کی کی…..کی کی …..تم کہاں ہو؟“ توتے نے اپنے پر پھیلائے ۔ایک دفعہ پھر منہ سے کچھ کھرچنے کی آواز نکالی اور گھاٹی کے دامن میں بنے ایک مکان کی سمت پرواز کرنے لگا۔ معاذ اسے جاتے دیکھ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ لڑکا جسے آوازیں دے رہا تھا، وہ یہ توتا ہی ہو گا۔ اس نے دیکھا وہ لڑکا گھاٹی میں بنے ایک گھر کے باہر باغیچے میں کھڑا تھا اور یہ جگہ بالکل اس جگہ کے نزدیک تھی جہاں معاذ رہتا تھا۔ معاذ نے دل ہی دل میں خواہش کی کہ کاش یہ لڑکا واقعی وہیں رہتا ہو کیونکہ اتنے عجیب توتے کے ساتھ رہنا بڑے مزے کی بات ہو گی۔ وہ ویسے بھی ہر وقت کتابوں کا کیڑا بنے رہنے سے اکتا چکا تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ توتے کے ہونے سے اس کا دل لگ جائے گا ۔ معاذ کو کچھ ماہ پہلے خسرہ نکل آیا تھا جس سے پچھلے سال اس کی کلاسز چھوٹنے سے اس کا کام کافی ادھورا تھا۔ اس کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے اس کے چچا کو ایک خط لکھا تھا کہ اسے سکول کے ہی ایک استاد کے گھر کچھ دن رہنے کے لئے بھجوائیں تاکہ وہ اپنا ادھورا کام مکمل کرے اور معاذ کی دعاﺅں کے باوجود معاذ کے چچا نے ہیڈ ماسٹر صاحب کی یہ بات مان بھی لی تھی۔ لہٰذا اب عین گرمیوں کی چھٹیوں کے درمیان معاذ ریاضی، تاریخ اور جغرافیہ کے اسباق یاد کر رہا تھا، بجائے اس کے کہ وہ اپنی چھوٹی بہن تزئین کے ساتھ گھر میں مختلف کھیل کھیلے۔ ان کا گھر سمندر کے کنارے پر تھا، جسے وہ اب یاد کر رہا تھا۔ اسے اپنے استاد رائے صاحب بہت پسند تھے، لیکن اُن کے ساتھ رہنے والے لڑکوں کو وہ زیادہ پسند نہیں کرتا تھا جو خود بھی کسی بیماری یا اور وجہ سے رائے صاحب سے پڑھنے آئے ہوئے تھے۔ ایک لڑکا عمر میں معاذ سے کہیں بڑا تھا اور دوسرا بالکل ہی دھان پان سامنہ بسورتا ہوا تھا جسے دنیا بھر کے کیڑوں اور پتنگوں سے بہت ڈر لگتا تھا اور جانوروں سے بھی جنہیں ہمیشہ معاذ اکٹھے کرتا رہتا تھا۔ معاذ میں یہ بھرپور خاصیت تھی کہ جانور اس کی طرف کھنچے چلے آتے تھے اور اس پر اعتبار کرتے تھے ۔معاذ تیزی سے گھاٹی کی طرف اترنے لگا تاکہ دیکھ سکے کہ کیا کوئی اور طالبعلم بھی رائے صاحب سے پڑھنے آ چکے ہیں اور اگر توتا واقعی اسی لڑکے کا ہوا تو مزہ آ جائے گا۔ کم از کم اُسے بڑے مسخرے جیسے لڑکے اور دھان پان سے چھوٹے لڑکے سے چھٹکارہ مل جائے گا۔ اس نے باغیچے کا گیٹ کھولا تو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ جب اس نے دیکھا کہ باغیچے میں ایک لڑکی گھوم رہی تھی، لڑکی کی عمر زیادہ نہیں تھی۔ وہ قریب نودس سال کی ہو گی۔ اس کے بال مٹیالے بھورے تھے جو تھوڑے بہت گھنگھریالے بھی تھے جبکہ آنکھوں کا رنگ سلیٹی تھا اور اس کے چہرے پر سیاہ نشان تھے جو دور سے نظر آتے تھے ۔ وہ بھی غور سے معاذ کو دیکھ رہی تھی۔ معاذ نے اسے ہیلو کہا ۔وہ اسے شرارتی لگ رہی تھی۔ معاذ نے اس سے پوچھا ،”کیا تم بھی یہاں پڑھنے کے لئے آئی ہو؟“ تو لڑکی نے جواب دیا وہ یہاں پڑھنے تو نہیں آئی البتہ اپنے بھائی عنریق کے ساتھ رہنے کے لئے آئی ہے۔ معاذ نے پوچھا ،”عنریق کون ہے؟“
لڑکی نے جواب دیا ،”میرا بھائی ہے جو یہاں پڑھنے آیا ہے لیکن لاپروا بہت ہے۔ وہ کہتا ہے کہ بڑا ہو کر پرندوں کے بارے میں تعلیم حاصل کرے گا۔ وہ آرنتھیالوجسٹ بننا چاہتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ پھر یہ نظمیں اور سبق پڑھنے کا اسے کوئی فائدہ نہیں۔ معاذ نے لڑکی سے دوبارہ آرنیتھالوجسٹ لفظ دھرانے کو کہا لیکن دل میں وہ سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی کے چہرے پر کتنے کیلوں کے داغ ہیں۔ لڑکی نے بتایا کہ آرنیتھالوجسٹ اسے کہتے ہیں جو پرندوں کے بارے میں تعلیم حاصل کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ عنریق پرندوں سے دیوانہ وار محبت کرتا ہے۔ معاذ نے کہا، ”پھر تو اسے میرے قریب ہی رہنا چاہئے۔ میں سمنر کے کنارے رہتا ہوں جہاں بڑی تنہائی ہے۔ وہاں جو درختوں کے جھنڈ اگے ہوئے ہیں۔ وہاں پرندوں کی بڑی تعداد کا آنا جانا ہے۔ مجھے بھی پرندے بہت پسند ہیں لیکن مجھے ان کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ کیا وہ توتا عنریق کا پالتو ہے؟“لڑکی نے یہ باتیں سن کر اسے جواب دیا،”ہاں! وہ چار سال سے عنریق کے پاس ہے اور اس کا نام’ کی کی‘ ہے۔ معاذ نے شوق سے پوچھا ،”کیا عنریق نے اسے تمام باتیں بولنا سکھائی ہیں؟“ وہ سوچ رہا تھا کہ بھلے عنریق کے نمبر تمام جماعت سے کم بھی ہوں لیکن توتے کو یہ باتیں سکھانے کے لئے اسے پورے پورے نمبر ملنے چاہئیں۔ لڑکی نے جواب دیا،” نہیں نہیں، کی کی نے یہ تمام باتیں سنتے سناتے خود ہی سیکھ لی ہیں اور زیادہ باتیں اس نے ہمارے بوڑھے تایا سے سیکھی ہیں۔ ہمارے تایا دنیا کے سب سے سخت طبیعت رکھنے والے تایا ہیں۔ ہمارے والدین اب دنیا میں نہیں رہے ،لہٰذا ہمارے تایا کو مجبوری سے ہمیں پالنا پڑا ہے۔ وہ ہم سے محبت نہیں کرتے ہیں ۔ گھر کا ملازم بھی ہم سے چڑتا ہے لیکن کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ میرا بھیا عنریق میرے ساتھ ہوتا ہے۔ میری طرح عنریق بھی خوش رہتا ہے کیونکہ وہ اپنے پرندوں میں مگن رہتا ہے۔“معاذ سب سن کر بولا،” میرا خیال ہے عنریق بھی میری طرح یہاں پڑھنے آیا ہے۔ تم بھی خوش قسمت ہو جو عنریق کے ساتھ آ گئی ہو۔ یہاں تم اپنی مرضی سے رہ سکتی ہو۔ کھیل سکتی ہو۔ ہماری قسمت بری ہے۔ ہم اپنی کتابوں سے مغز ماری کریں گے۔“ لڑکی نے جواب دیا،” نہیں میں ایسا نہیں کروں گی۔ میں عنریق کے ساتھ ساتھ ہی رہوں گی۔ میں اس کے ساتھ کھیلنا پسند کرتی ہوں۔“ معاذ نے حیرت سے لڑکی کو دیکھا اور بولا،” میں اور میری بہن تزئین تو ہمیشہ ایک دوسرے سے لڑتے رہتے ہیں۔ تم تو اپنے بھائی کا بہت خیال کرتی ہو۔“ تبھی عنریق رستے سے نمودار ہوا۔
اس کے بائیں کندھے پر توتا ’کی کی‘ بیٹھا ہوا تھا جو پیارسے اپنی چونچ عنریق کے کان کے پیچھے رگڑ رہا تھا جیسے آہستگی سے عنریق کے کان میں کچھ کہہ رہا ہو۔ عنریق نے پیار سے توتے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنی بہن کی مشابہ سلیٹی آنکھوں سے معاذ کو گھورنے لگا۔ اس کے بال اپنی بہن سے بھی مٹیالے رنگ کے تھے اور اس کے منہ پر بھی اتنے تلوں کے نشان تھے کہ جلد پر کوئی خالی جگہ ڈھونڈنا ناممکن تھا بلکہ تلوں کے نشانات پر لگتا تھا اور تل نکل آئے ہوں۔ معاذ نے اسے آتے ہی چھیڑا ،”کیا خیال ہیں تِلوں والے کلچے؟“ اور پھر مسکرایا عنریق نے جواب میں کہا، ”میں ٹھیک ہوں بودی والے لڑکے۔“ اور پھر وہ بھی مسکرا دیا لیکن لاشعوری طور پر معاذ کا ہاتھ اپنے سر پر گیا جہاں اس کی بالوں کی ایک لٹ بودی کی صورت میں سیدھی کھڑی تھی جو وہ کبھی پانی لگا کر یا کنگھی کر کے سیدھا نہیں کر پایا تھا۔ اب بولنے کی باری کی کی کی تھی جو چیخا،” اپنے پاﺅں صاف کرو۔“ لڑکی نے کہا،” مجھے خوشی ہے کہ تمہیں کی کی مل گیا ۔کی کی کو اجنبی جگہیں پسند نہیں ہیں اس لئے وہ اُڑ گیا تھا۔“ میرا خیال ہے عنریق نے بہن کو بتایا۔ ”کی کی زیادہ دور نہیں گیا تھا اور مجھے پورا یقین ہے کہ کی کی کی باتیں سن کر یہ بودی والا لڑکا ضرور سر پر پاﺅں رکھ کر بھاگا ہو گا“۔
معاذ نے اسے بتایا، میں واقعی بھاگ نکلا تھا اور پھر دونوں بہن بھائیوں کو سارا واقعہ سنانے لگا ۔وہ تینوں اکٹھے ہنسنے بولنے لگے اور کی کی بھی اس میں شریک ہو گیا۔ وہ ایسے ہنس رہا تھا جیسے کوئی لڑکا ہنس رہا ہو۔ معاذ بولا،” مجھے خوشی ہے کہ تم دونوں بہن بھائی یہاں آئے ۔“وہ واقعی بہت خوش تھا۔ بڑی مدت کے بعد وہ اتنا خوش تھا۔ وہ دونوں بہن بھائیوں سے مل کر بہت خوش تھا۔ وہ انہیں دوست بنانا چاہتا تھا۔ وہ انہیں اپنے پالتوں جانوروں سے ملوانا چاہتا تھا۔ وہ اکٹھے سیر کو جا سکتے تھے۔ عنریق اپنی بہن نایاب سے کچھ سال بڑا تھا۔ وہ کوئی بارہ تیرہ سال کا ہو گا۔ معاذ بھی تقریباً عنریق کا ہم عمر تھا۔ معاذ کو افسوس ہو رہا تھا کہ تزئین وہاں موجود نہیں تھی۔ تزئین بھی نایاب کی طرح نو دس سال کی تھی۔ وہ باآسانی اس گروپ میں شریک ہو سکتی تھی لیکن ہو سکتا ہے اس کی جھگڑالو طبیعت کی وجہ سے ایسا نہ بھی ہو سکتا۔ معاذ نے سوچا کہ عنریق اور نایاب ،اس کے اور تزئین سے کتنے مختلف ہیں۔ صاف ظاہر تھا کہ نایاب اپنے بھائی سے بہت محبت کرتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ شاید ہی کبھی تزئین نے اس کا کوئی کام کیا ہو جیسا نایاب کرتی تھی۔ وہ اپنے بھائی سے بہت محبت کرتی تھی۔ اسے یقین تھا کہ شاید ہی کبھی تزئین نے اس کا کام کیا ہو جیسا نایاب دوڑ دوڑ کر اپنے بھائی کے لئے کر رہی تھی۔ پھر لڑکے نے سوچا کہ ہر شخص کی طبیعت مختلف ہوتی ہے۔ تزئین بھی طبیعت کی بری نہیں ہے۔ اگرچہ وہ اس کے ساتھ لڑتی جھگڑتی رہتی ہے لیکن اسے پتا تھا کہ وہ اس کے بغیر سمندر کے کنارے گھر میں تنہا ہو گی اور اس کی چچی اس سے کام بھی خوب لے رہی ہوں گی۔ شام کو چائے پیتے وقت سبھی خوشی سے عنریق کے شانے پر بیٹھے توتے کو دیکھ رہے تھے اور اسی کے متعلق فقرے بھی کس رہے تھے، البتہ نایاب بڑے لڑکے کو تنگ کر کے اور دھان پان سے بزدل لڑکے کو گدگدی کر کے مزا لے رہی تھے۔ بچوں کی بوریت دورہوتی جا رہی تھی۔ معاذ کو لگتا تھا کہ عنریق اور نایاب کی موجودگی میں پڑھنا اتنا اکتانے والا تجربہ نہیں ہو گا۔
رائے صاحب نے چھٹیوں میں بچوں پر بہت محنت کی۔ وہ ساری صبح انکو مختلف سبق پڑھاتے رہتے۔ پھر بار بار ان اسباق کی دہرائی کرواتے تاکہ بچوں کو یہ اسباق ازبر ہو جائیں۔ وہ اس سارے عرصے کے بعد تمام ہی بچوں کی تیاری سے مطمئن تھے ماسوائے عنریق کے۔ عنریق نے پرندوں کے علاوہ کسی چیز پر ہرگز توجہ نہیں دی۔ رائے صاحب اسے شکایتاً کہتے، ”عنریق! اگر تم نے جیومیٹری پر اتنی توجہ دی ہوتی جتنی تم پرندوں پر لکھی گئی کتابوں پر دیتے ہو تو اپنے ہم جماعتوں سے کہیں زیادہ نمبر لے سکتے تھے۔ تم مجھے تنگ کرتے ہو۔ مجھے کبھی کسی نے اتنا زچ نہیں کیا جتنا تم نے کیا ہے۔“تبھی کی کی بولا،” اپنا رومال استعمال کرو۔“ رائے صاحب نے مایوسی اور غصے کی ملی جلی کیفیت سے منہ سے عجیب سی آواز نکالی اور کہنے لگے، ”میں کسی دن تمہارے اس توتے کی گردن تو ضرور مروڑ دوں گا۔ مجھے یقین ہے تم کبھی اتنی دیر پڑھ نہیں سکتے جب تک یہ توتا تمہارے بازو پر براجمان ہے اور تمہارے علاوہ معاذ بھی اگر اپنے کریہہ پالتو جانور جماعت میں مسلسل لاتا رہا تو یہ جماعت میرے لئے تو کیا سب کے لئے ناقابل برداشت ہو جائے گی۔ تم سب میں سے صرف نایاب ہے جو پڑھنے میں دھیان دیتی رہی ہے، حالانکہ وہ یہاں پڑھنے کے لئے نہیں آئی تھی۔“ نایاب کو کام کرنا واقعی پسند تھا۔ وہ خوشی خوشی بھائی کے پہلو میں بیٹھی رہتی اور ویسا کام خود بھی کرتی رہتی جو اس کے بھائی عنریق کو کرنے کے لئے کہا جاتا اور اس عرصہ میں جب اس کا بھائی پرندوں کے بارے میں سوچ رہا ہوتا، وہ دیئے گئے کام کو حل کرنے کی کوشش کرتی رہتی۔ اب وہ معاذ کی شرارتوں کو بھی پسند کرنے لگی تھی کیونکہ اس کا کوئی پتہ نہیں چلتا تھا کہ کب اس کی کسی آستین یا جیب سے کوئی نامانوس پالتو جانور برآمد ہو جائے۔ ایک دن پہلے ہی اس کی آستین سے رینگتا ہوا گھاس کا رنگ برنگا ٹڈا نکلا تھا جس سے رائے صاحب بہت ناراض ہوئے تھے اور ایک دن تو ایک ننھا منا پھرتیلا چوہا معاذ کی کسی جیب سے برآمد ہوا اور رائے صاحب کی پتلون کے پائینچے میں جا گھسا تھا۔ اس واقعے سے ساری جماعت تقریباً پندرہ منٹ تک ششدر بیٹھی رہی اور اس عرصے میں رائے صاحب اپنی پتلون میں گھسنے والے چوہے کو نکالنے کی کوشش کرتے رہے۔ عام حالات میں رائے صاحب بہت صابر اور خاموش طبع شخص تھے لیکن عنریق اور معاذ میں یہ صلاحیت تھی کہ وہ کسی جماعت کا سکون درہم برہم کر سکتے تھے۔ ان دنوں گرمیاںسخت محنت کرتے ہوئے گزر رہی تھیں۔ سہ پہر بچوں کو دی جاتی تاکہ وہ اگلے دن کے اسباق کی تیاری کر لیں اور صبح پوچھے جانے والے سوالات لکھ کر یاد کریں البتہ شام کو سب بچے بالکل آزاد ہوتے کیونکہ بچے تھے ہی صرف چار۔ اس لئے رائے صاحب سب کو ذاتی توجہ دے سکتے تھے اور علم حاصل کرنے میں جو کمی رہتی وہ پورا کروانے کی کوشش کرتے۔ کئی سالوں سے رائے صاحب کو بہت کامیاب استاد تصور کیا جاتا رہا تھا، حتیٰ کہ انہیں یہ جماعت مل گئی جہاں ان کا ااستعمال کردہ کوئی حربہ کامیاب نہیں ہو رہا تھا۔ عنریق کو سبق کی طرف راغب کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ اسے پڑھاتے ہوئے رائے صاحب کو کئی دفعہ لگتا کہ وہ وقت ضائع کر رہے ہیں۔ وہ ہر وقت سوچتا رہتا اور اس کی سوچ ہمیشہ پرندوں میں اٹکی ہوتی۔ رائے صاحب سوچتے کہ اگر میرے کندھوں پر پر اگ آتے تو شاید عنریق میری ہر بات مان لیتا۔ انہوں نے پرندوں کے لئے کسی کو اتنا پاگل ہوتا نہیں دیکھا تھا ۔ پرندے تو دور کی بات عنریق کو سبھی پرندوں کے انڈوں کی بھی پہچان ہو گئی تھی ۔ وہ ذہنی طور پر تیز ضرور تھا مگر وہ کسی ایسی چیز پر دماغ لڑانے کو تیار نہیں تھا جس میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
معاذ واحد طالب علم تھا جس نے پڑھائی میں بہتری دکھائی تھی۔ اگرچہ وہ بھی اپنے پالتو جانوروں سے دوسروں کو زچ کر دیتا تھا۔ وہ چوہا جو ان کی ٹانگوں پر چڑھا تھا، انہیں آج بھی یاد تھا۔ صرف نایاب تھی جو ہر کام قاعدے سے کرتی تھی۔ بے شک اسے اس میں دلچسپی ہو نہ ہو وہ بے چاری صرف اس لئے یہاں موجود تھی تاکہ اپنے بھائی سے جدا نہ ہو۔ جلد ہی معاذ، عنریق اور نایاب پکے دوست بن گئے۔ معاذ اور عنریق کی مشترکہ دلچسپی جو وہ جانوروں اور پرندوں میں دکھاتے تھے، اس دوستی کی ایک وجہ تھی۔ عنریق کا دنیا میں پہلے کوئی دوست نہیں تھا اس لئے اسے معاذ کے مذاق اور اس کا تنگ کرنا اچھا لگتا تھا۔ نایاب کو بھی معاذ اچھا لگتا تھا لیکن کبھی کبھار وہ دونوں دوستوں کے درمیان دوستی سے حسد میں مبتلا بھی ہو جاتی تھی۔ کی کی معاذ سے بہت مانوس ہو گیا تھا اور جب بھی معاذ اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتا تو وہ عجیب مضحکہ خیز آوازیں نکالتا رہتا۔ شروع شروع میں رائے صاحب کو کی کی سے نفرت تھی۔ وہ اپنی بے تکی فقرے بازی سے ان کی جماعت کو پریشان کرتا رہتا تھا۔ یہ ان کی بدقسمتی تھی کہ وہ چھینکتے رہتے تھے اور کی کی ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانا نہ بھولتا۔
کی کی جب انہیں بڑے رعب سے کہتا ”مت چھینکو“ اور یہ سن کر ہمیشہ تمام بچوں کی ہنسی چھوٹ جاتی۔ لہٰذا آخر کا رائے صاحب نے کی کی کا جماعت میں داخلہ روک دیا لیکن معاملات اور بگڑ گئے کیونکہ کی کی جو جماعت میں نہ آ سکنے کی وجہ سے سخت ناراض تھا اور وہ اپنے مالک کے کندھے پر بھی نہیں بیٹھ سکتا تھا جو اس کے بیٹھنے کی پسندیدہ جگہ تھی، وہ ادھر کھلی کھڑکی کے باہر ایک جھاڑی میں بیٹھ جاتا اور پھر انتہائی اونچی آواز میں بے چارے رائے صاحب پر فقرے کس کر انہیں تنگ کرتا رہتا۔ توتے کی آواز آتی،” بے وقوفانہ باتیں مت کرو۔“ یہ اس وقت ہوتا جب رائے صاحب تاریخ کے موضوع پر بہت ہی دلچسپ موضوع چھیڑ چکے ہوتے ۔تبھی کبھی کبھار رائے صاحب کو چھینک آجاتی تو کی کی صاحب فوراً فرماتے،” استاد جی! آپ کا رومال کدھر ہے۔“رائے صاحب غصے میں بھرے ہوئے کھڑکی کے پاس جا کر شور مچا کر اور ہاتھ ہلا ہلا کر کی کی کو اڑانے اور خوفزدہ کرنے کی کوشش کرتے تو کی کی صاحب کہتے، ”شرارتی لڑکا، میں تمہیں تمہارے کمرے میں بند کر دوں گا۔ تم شرارتی لڑکے ہو۔“ اور خود ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹتے۔ کیونکہ ظاہر ہے آپ اس طرح کے ڈھیٹ پرندے کا کچھ نہیں کر سکتے ۔ لہٰذا رائے صاحب نے ہار مان لی تھی اور دوبارہ کی کی کو عنریق کے شانے پر بیٹھنے کی اجازت دیدی تھی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ توتے کے قریب ہونے سے عنریق کی کارکردگی میں بھی اضافہ ہونے لگا اور کی کی بھی کمرے میں رہ کر اتنا تنگ نہیں کرتا تھا جتنا کمرے سے باہر رہ کر ۔
رائے صاحب آج کل بہت خوش تھے کیونکہ جماعت کے واپس جانے کا وقت قریب آ رہا تھا اور چاروں لڑکے اور ایک لڑکی جلد گھر واپس جا رہے تھے اور ظاہر ہے ان کے ساتھ کی کی اور معاذ کے پالتو جانور بھی واپس جا رہے تھے۔ معاذ، عنریق اور نایاب ہر شام لمبے علی اور کمزور حسن کو اکٹھا چائے پیتے چھوڑتے اور خود اکٹھے کہیں نہ کہیں نکل جاتے۔ دونوں لڑکے بڑی دیر تک پرندوں اور پالتو جانوروں کے متعلق گفتگو کرتے رہتے اور نایاب سنتی رہتی اور جب وہ سیر کرتے تو نایاب کوشش کرتی کہ وہ کہیں ان سے پیچھے نہ رہ جائے چاہے وہ جتنا زیادہ دور تک جاتے یا کسی خطرناک ڈھلوان پر چلتے لیکن پھر بھی چھوٹی نایاب ان کا ساتھ دیتی ۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی بھی لمحے اس کا پیارا بھائی اس کی نظروں سے جدا ہو۔ کئی دفعہ معاذ، نایاب کی موجودگی سے تنگ آ جاتا اور کہتا،” شکر ہے میری چھوٹی بہن مجھ سے اس طرح چمٹی نہیں رہتی جس طرح نایاب عنریق سے۔“پھر وہ سوچتا پتا نہیں عنریق کیسے گزارا کرتا ہے لیکن عنریق گزارا کر لیتا تھا، حالانکہ کئی دفعہ وہ نایاب کو اہمیت نہ دیتے ہوئے نظر انداز بھی کر دیتا تھا اور خاصی دیر تک اس سے بات نہیں کرتا لیکن وہ کبھی بھی اپنی بہن کو جھڑکتا نہیں تھا اور نہ ہی اس سے ناراض ہوتا تھا۔ پرندوں کے علاوہ وہ نایاب کا خیال کرتا تھا۔ معاذ سوچتا کہ بہت اچھی بات ہے اگر وہ اپنی بہن کا خیال کرتا ہے کیونکہ نایاب کی ساری دنیا اس کا بھائی تھا، تینوں بچے ایک دوسرے کو اپنے متعلق بتاتے رہتے۔عنریق نے بتایا ہمارے ماں باپ دونوں اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ ہمیں اب وہ یاد بھی نہیں ہیں وہ ایک کار کے ہونے والے حادثے میں فوت ہو گئے تھے۔ تب ہمیں ہمارے اکلوتے رشتہ دار یعنی ہمارے تایا کے پاس بھجوا دیا گیا جن کا نام چوہدری الیاس ہے وہ بوڑھے ہیں۔ چڑ چڑے ہو چکے ہیں اور ہمیشہ ہم سے غصے رہتے ہیں اور گھر میں واحد ملازم بابا ناظر چھٹیوں میں ہمیں گھر دیکھ کر غصے میں آ جاتا ہے ۔تمہیں کی کی کے ادا کردہ فقروں سے بخوبی اندازہ ہوتا ہو گا کہ ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے۔ مثلاً، ”اپنے پاﺅں صاف کرو، چھینکو مت، فوراً اپنے جوتے بدلو، تمہارا رومال کدھر ہے، کتنی دفعہ تم سے کہا ہے کہ سیٹی نہ بجاﺅ اور بے وقوف کیا تم دروازہ بند نہیں کر سکتے ۔وغیروغیرہ۔“ معاذ ہنسنے لگا۔ اس نے عنریق سے کہا کہ واقعی اگر کی کی کی باتیں غور سے سنیں تو تمہیں خاصا مشکل وقت گزارنا پڑ رہا ہے۔ کیا تمہارے والدین بھی فوت ہو چکے ہیں ۔نایاب اپنی سلیٹی آنکھوں سے مسلسل معاذ کو گھور رہی تھی۔ معاذ نے بتایا،” ہمارے والد فوت ہو چکے ہیں اور وہ اپنے پیچھے کوئی رقم چھوڑ کر نہیں گئے لیکن امی زندہ ہیں مگر مسئلہ یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ زیادہ نہیں رہ پاتیں۔“ نایاب نے حیران ہو کر پوچھا،” کیوں نہیں؟“
اس کے پوچھنے پر معاذ نے بتایا،” وہ ایک نوکری کرتی ہیں۔ وہ اس نوکری سے اتنا کما لیتی ہیں جس سے گھر چلا سکیں اور ہماری سکول کی فیس ادا کر سکیں۔ وہ ایک آرٹ ایجنسی چلاتی ہیں جس کے لئے انہیں پوسٹر اور تصویروں کے بنانے کے آرڈر لینے پڑتے ہیں اور وہ ان چیزوں کے بکنے سے اپنی فیس لیتی ہیں۔ وہ ایک بہت اچھی کاروباری خاتون ہیں لیکن ان کے پاس ہمارے لئے زیادہ وقت نہیں بچتا۔“ عنریق نے پوچھا، ”کیا وہ تم سے پیار کرتی ہیں؟“ وہ اس لئے کرید کر یہ بات پوچھ رہا تھا کیونکہ اس نے کبھی اپنی ماں کو نہیں دیکھا تھا ۔معاذ نے سر ہلا کر انہیں بتایا،” وہ بہت اچھی ہیں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اپنی خوبصورت امی کے متعلق سوچ رہا تھا اور اسے اپنی ماں کے کامیابی سے کام کرنے پر بھی فخر تھا لیکن کبھی کبھی وہ انہیں بہت تھکی محسوس ہوتیں ،جب وہ انہیں ملنے آتیں ۔معاذ نے سوچا ایک دن بڑا ہو کر وہ بھی کامیابی سے کوئی کام کرے گا اور رقم کمائے گا اور اپنی محنت کرنے والی ماں کا سہارا بنے گا۔ نایاب نے پوچھا ،”کیا تم بھی ہماری طرح اپنے چچا کے ساتھ رہتے ہو؟“ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک ننھی گلہری جو معاذ کی قمیض کی آستین سے اچانک باہر نکل آئی تھی کے سر پر ہاتھ سے دوبارہ اندرکر دیا۔ معاذ نے بتایا،” ہاں ہم اپنی تمام چھٹیاں اپنے چچا آصف اور چچی کے ساتھ گزارتے ہیں ۔میرے چچا بہت سنکی ہیں۔ وہ ہمیشہ پرانے اخبار، کتابیں، دستاویز خرید کر پڑھتے رہتے ہیں اور انہیں سنبھال کر رکھتے ہیں۔ وہ دراصل سمندر کے کنارے ہونے والی خون ریز لڑائیوں کے بارے میں تاریخ سے شواہد اکٹھے کرتے رہتے ہیں ،جہاں ہم رہتے ہیں۔ وہ وہاں کی مکمل تاریخ لکھ رہے ہیں لیکن انہیں ایک یا دو واقعات لکھنے کے لئے بھی ایک سال لگ جاتا ہے اور جب تک وہ یہ کتاب لکھ پائیں گے مجھے امید ہے ان کی عمر اس وقت چار یا پانچ سو سال ہو گی۔“ یہ بات سن کر سبھی ہنس پڑے۔ انہوں نے خیالوں ہی خیالوں میں ایک بوڑھے پڑھاکو کو دیکھا جو پرانے بوسیدہ اخبارات کو جھاڑتا رہتا ہے۔ نایاب سوچنے لگی کہ یہ کتنا وقت ضائع کرنے والی بات ہے۔ پھر وہ چچی کے متعلق سوچنے لگی کہ وہ کیسی ہوں گی ۔پھر اس نے پوچھ ہی لیا،”تمہاری چچی کیسی ہیں؟“ تو معاذ نے اپنا ناک چڑھایا اور کہنے لگا،”تھوڑی نک چڑھی ہیں لیکن اتنی بری بھی نہیں، بہت محنتی ہیں۔ ان کے پاس پیسے نہیں ہوتے ۔ان کا مددگار صرف ایک پرانا ملازم صغیر ہے جو گھر کے کاموں میں ان کی مدد کرتا ہے۔ اس لئے چچی ہمیشہ تزئین سے ملازموں کی طرح کام کرواتی ہیں۔ میں کیوں کہ کہنا نہیں مانتا اس لئے انہوں نے مجھے کام کہنا بند کر دیا ہے لیکن کیونکہ تزئین ان سے ڈرتی ہے اس لئے جو چچی کہتی ہیں اس سے بڑھ کر کرتی ہے۔“ نایاب نے پوچھا ،”تمہارا گھر کیسا ہے؟“ معاذ نے بتایا کہ،” بہت مضحکہ خیز اور بہت پرانا ہے، کئی سو سال پرانا، جو آدھا ڈھ چکا ہے ۔بہت ہی بڑا ہے اور اس طرح بنا ہوا ہے کہ آدھا ایک چٹان کی ڈھلان پر جیسے اٹکا ہوا ہے اور ایک آدھ بار تو طوفان میں ڈوب ہی گیا تھا لیکن مجھے اس جگہ سے پیار ہے۔ وہ پراسرار ہے اور ہر وقت وہاں پرندوں کے بولنے اور چیخنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ عنریق تمہیں بھی وہ پسند آئے گا۔“ عنریق سوچ رہا تھا کہ واقعی اسے وہ جگہ پسند آئے گی ۔وہ سن کر ہی پرجوش ہو گیا تھا۔ اس کا گھر ایک عام سے محلہ میں بنا ہوا عام سا گھر تھا لیکن معاذ کے گھر میں تو اسے ابھی سے دلچسپی پیدا ہونی شروع ہو گئی تھی ۔وہ تیز ہوا، لہروں اور سمندری پرندوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اسے لگا جیسے وہ ان پرندوں کی بولی یہیں سے سن سکتا ہے ۔اس نے انہیں محسوس کرنے کے لئے آنکھیں بند کر لیں۔ تبھی کی کی چلا کر بولا،” جاگو جاگو اے سست انسان!“ اور ساتھ ہی اس نے آہستگی سے عنریق کے کان پر کاٹ لیا۔ عنریق نے آنکھیں کھولیں اور ہنسنے لگا ۔کبھی کبھار وہ خود حیران ہو جاتا کہ یہ توتا موقعہ کی مناسبت سے بالکل صحیح بات کرتا تھا ۔عنریق نے معاذ سے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ،”میں تمہارے گھر کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے آج بھی وہاں کچھ ہونے والا ہے حقیقی، زندہ سلامت ، پرجوش واقعات، سنسنی خیز معرکے۔ لیکن میرے گھرمیں ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔“معاذ نے ہنستے ہوئے کہا ،”میرے گھر میں بھی کچھ نہیں ہوتا۔“ یہ کہہ کر اس نے ننھی گلہری دوبارہ اپنی جیب میں ڈال لی اور دوسری جیب میں ایک خار پشت کا بچہ جس کے کانٹے ابھی سخت نہیں ہوئے تھے ۔وہ بڑے مزے سے معاذ کی جیب میں چلا گیا جہاں آگے ہی ایک بڑا گھونگا آرام فرما رہا تھا اور احتیاطاً اپنے خول میں بند تھا۔ عنریق کہنے لگا،” میری خواہش ہے کہ ہم اکٹھے گھر جائیں ۔مجھے تزئین سے بھی ملنے کی خواہش ہے اگرچہ تمہاری باتوں سے لگتا ہے کہ وہ کوئی خونخوار جنگلی بلی ہے لیکن میں وہاں پائے جانے والے پرندے دیکھنا چاہتا ہوں اور میں تمہارا آدھا رہ جانے والا گھر دیکھنا چاہتا ہوں۔ ایک ایسے گھر میں رہنا جو بہت قدیم ہو اور آدھا تباہ ہو گیا ہو کتنی دلچسپی کی بات ہے معاذ تم نہیں جانتے۔ تم کتنے خوش قسمت ہو۔“ معاذ نے کہا،”اتنا خوش نصیب بھی نہیں ۔جہاں نہانے کا گرم پانی لانے کے لئے خاصا دور کا سفر کرنا پڑے۔ آﺅ اب جانے کا وقت ہو چکا ہے۔ شاید تم کبھی میرا گھر نہ دیکھ سکو اور ہو سکتا ہے جب دیکھو تو تمہیں پسند بھی نہ آئے اور ویسے بھی جو کام بندہ کرنہ سکے اس کے بارے میں بات کرنے کا کیا فائدہ ہے۔“ یہ کہہ کر جس گھاس پر معاذ بیٹھاہوا تھا،اٹھا اور اپنے کپڑے جھاڑے۔
تیسرا باب………………..خطوط اور منصوبہ
اگلے دن معاذ کو تزئین کا خط ملا جو اس نے دوسروں کو دکھایا اس نے بتایا،”تزئین مشکل میں ہے ۔میرا خیال ہے مجھے جلد اس کے پاس پہنچنا چاہئے کیوںکہ جب میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں تو وہ بہادر ہو جاتی ہے“۔
معاذ بھائی(تزئین اپنے بھائی کو خط میں کہہ رہی تھی)
”کیا اب تمہارا واپس گھر آنے کا ارادہ نہیں رہا۔ اگرچہ جب بھی تم میرے ساتھ ہوتے ہو تو لڑنے جھگڑنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے لیکن پھر بھی تمہارے بغیر میں بہت اکیلی رہ جاتی ہوں، اب یہاں میں تنہا ہوں اور ساتھ ہیں چچا،چچی اور ملازم صغیر۔ لیکن آج کل سب کا رویہ آگے سے بھی بدل گیا ہے۔ کل چچا نے شام کے بعد مجھے گھر سے باہر جانے سے منع کر دیا ہے ان کا خیال ہے کہ رات کو وہاں ”چیزیں“ بھٹکتی پھرتی ہیں ۔ مجھے تو یقین ہے کہ وہ مزید سنکی ہوتے جا رہے ہیں۔ میرے علاوہ یہاں جو چیزیں بھٹکتی پھرتی ہیں وہ صرف یہاں کے سمندری پرندے ہیں اور اس سال تو وہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں لیکن خدا کے واسطے اس دفعہ گھر اپنے نامانوس پالتو جانور نہ لے آنا‘ تمہیں معلوم ہے مجھے ان سے کتنی گھن آتی ہے اور اگر تم گھر کوئی چمگادڑ لے کر آئے تو میری موت پکی ہے اور اگر تم نے کسی رینگتی چیز کو پچھلے سال کی طرح سدھانے کی کوشش کی تو میں کوئی کرسی تمہارے سر پر توڑ دوں گی۔ چچی مجھ سے بہت زیادہ کام کروا رہی ہیں۔ ہم کپڑے دھوتے ہیں، فرش صاف کرتے ہیں اور گھر کی صفائی کرتے رہتے ہیں لیکن یہ سب کچھ پتا نہیں اتنے زور و شور سے کیوں کیا جاتا ہے حالانکہ مدتوں ہوئیں ہمارے ہاں کوئی مہمان نہیں آیا۔ مجھے بہت خوشی ہو گی جب چھٹیاں ختم ہوں گی اور ہم دوبارہ سکول جا سکیں گے بھائی!تم کب آ رہے ہو؟میرا دل ہے کہ ہم کسی نہ کسی طرح کچھ رقم کمائیں ۔چچی جب کوئی بل ادا نہیں کر سکتیں تو انہیں ایسا لگتا ہے جیسے وہ مر رہی ہیں ۔چچا ان کے سامنے قسمیں کھاتے ہیں کہ ان کے پاس پیسے نہیں ہیں اور اگر ان کے پاس رقم ہو بھی تو وہ چچی کو نہیں دیتے۔ مجھے امید ہے کہ اگر ہم امی کو لکھیں تو وہ زیادہ پیسے بھجوا دیں گی۔ لیکن اس کے لئے انہیں جو مزید محنت کرنی پڑے گی وہ مجھے اچھا نہیں لگتا۔ مجھے عنریق اور نایاب کے متعلق مزید بتاﺅ۔ میں ان کی آوازیں سننے کے لئے بے تاب ہوں۔ تمہاری چھوٹی بہن تزئین“
عنریق نے خط پڑھتے ہوئے سوچا کہ تزئین تو مزے میں لگتی ہے اور پھر خط پڑھ کر اس نے خط معاذ کو واپس کر دیا۔ وہ کہنے لگا،” اب بتاﺅ بودی والے لڑکے! تزئین بالکل تنہا ہے۔ اچھا ذرا سنو ، میرا خیال ہے رائے صاحب مجھے بلا رہے ہیں ۔میں ذرا پتا کر لوں وہ کیا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے مزید پڑھائی!!!“آج کی ڈاک میں رائے صاحب کے نام بھی ایک خط موصول ہوا تھا ۔یہ خط عنریق کے تایا چوہدری الیاس کے ملازم بابا ناظر کی طرف سے تھا۔ رائے صاحب نے یہ خط بڑی مایوسی کے عالم میں پڑھا تھا۔ خط بہت مختصر تھا۔ انہوں نے عنریق کو بلایا۔عنریق نے بھی اسے مایوسی میں ہی پڑھا:
” محترم رائے صاحب!“ خط میں لکھا تھا،”چوہدری صاحب کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے اور وہ ابھی نہیں چاہتے کہ بچے فوراً واپس جائیں ۔وہ جاننا چاہتے ہیں کہ آپ انہیں مزید اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ وہ آپ کے وقت کے بدلے میں کچھ رقم بھی بھجوا رہے ہیں۔ بچے سکول میں چھٹیاں ختم ہونے سے دو یوم پہلے واپس آ سکتے ہیں تاکہ وہ اپنا سکول کا یونیفارم درست کر لیں۔ آپ کا تابعدار ناظر بابا۔“
”رائے صاحب!اب کیا ہو گا؟“ عنریق نے بتایا گھر جانا تو وہ بھی پسند نہیں کرتا تھا لیکن رائے صاحب کے ساتھ رہنا بھی اس کے لئے بڑا محال تھا یا لاغر حسن کے ساتھ جو ابھی رائے صاحب کے ساتھ رہنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ وہ بڑ بڑایا ،”مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ہم چوہدری تایا کے گھرواپس کیوں نہیں جا سکتے۔“رائے صاحب کی عنریق سے بھی بڑی خواہش تھی کہ وہ مزید اکٹھے نہ ہی رہیں اور پھر کی کی کے ساتھ ایک بھی مزید دن گزارنا انہیں ایک ڈراﺅنے خواب کی مانند نظر آتا تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی کو اتنا ناپسند نہیں کیا تھا جتنا وہ کی کی کو کرتے تھے۔ وہ بدتمیز لڑکوں کے ساتھ تو گزارا کر سکتے تھے لیکن بدتمیز توتوں کے ساتھ گزارا کرنا تقریباً ناممکن تھا ۔رائے صاحب نے ٹھنڈی آہ بھری۔ ہونٹوں پر زبان پھیری،کی کی کی طرف نفرت سے دیکھا اور کہنے لگے،”مجھے نہیں لگتا میں تمہیں مزید ادھر رکھ سکتا ہوں کیونکہ یہ وقت کا ضیاع ہو گا کیونکہ محنت کے باوجود اتنے عرصے میں تم نے ایک لفظ نہیں سیکھا۔ لیکن اب کوئی چارہ بھی نہیں ہے ۔ یہ تو واضع ہے کہ تمہارے تایا نہیں چاہتے کہ تم واپس آﺅ۔ تم واپس نہ آﺅ اس کے لئے انہوں نے مجھے خطیر رقم بھی بھجوائی ہے لیکن میرے پاس ایک اور ترکیب بھی ہے کیونکہ اب صرف حسن ہی یہاں رہ رہا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم کسی کے پاس مہمان بن کر جائیں۔ مجھے امید ہے کہ ہم کوئی ایسی جگہ ڈھونڈ لیں گے جہاں جایا جا سکتا ہے۔“
عنریق جب نایاب اورمعاذ کے پاس واپس آیا تو اس کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ نایاب فوراً اس کی دلجوئی میں مصروف ہو گئی اور پوچھنے لگی کیا بات ہے؟ کیا مسئلہ ہے؟عنریق نے انہیں بتایا،”تایا چوہدری نہیں چاہتے کہ ہم واپس گھر جائیں اور رائے صاحب نہیں چاہتے کہ ہم ادھر رہیں، اس لئے مجھے لگتا ہے کہ دنیا میں کسی کو ہماری ضرورت نہیں ہے اور کوئی ہم سے پیارنہیں کرتا۔“ تینوں بچوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور تب معاذ کے دماغ نے کام کیا۔ اس نے عنریق کے شانے پر اتنے زور سے ہاتھ مارا کہ کی کی گرتا گرتا بچا۔ وہ جوش سے بولا،”عنریق تم اور نایاب میرے ساتھ میرے گھر چلو، تمہیں دیکھ کر تزئین بھی خوش ہو گی اور سمندری پرندوں کے ساتھ تم خوشی خوشی وقت گزارو گے ،کیا خیال ہے؟“ عنریق اور نایاب نے غیر یقینی اور خوشی سے اسے گھورا۔ کیا واقعی سمندر کے کنارے گھر میں وہ رہ سکتے ہیں جو آدھا تباہ ہو چکا ہے اور جہاں ایک پڑھا لکھا سنکی چچا، ایک بے صبری چچی۔ ایک عجیب و غریب ملازم صغیر رہتے ہیں اور جہاں ہر وقت سمندر کی لہریں شور مچاتی ہیں۔ کیا خوبصورت وقت آنے والا تھا۔ عنریق نے لیکن ٹھنڈی آہ بھری کیونکہ اسے معلوم تھا کہ بڑوں کی مرضی کے بغیر بچے جو بھی منصوبے بناتے رہیں وہ کبھی پورے نہیں ہوتے۔ وہ بولا، یہ منصوبہ کسی کام کا نہیں کیونکہ تایا چوہدری اجازت نہیں دیں گے اور نہ ہی رائے صاحب اور تمہارے چچا اور چچی کی ذمہ داریاں اور اخراجات ہمارے جانے سے بڑھ جائیں گے۔ عنریق خط میں لکھی تمام تفصیلات معاذ اور نایاب کو بتا چکا تھا لہٰذا معاذ کہنے لگا،”وہ ہرگز ناراض نہیں ہونگے ۔تمہارے تایا نے جو رقم رائے صاحب کو بھجوائی ہے وہ تم میرے چچا کو دے دینا۔ مجھے یقین ہے کہ میری چچی کو تمہیں رکھنے میں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ وہ اس رقم سے اپنے بل ادا کر لیں گی جن کا ذکر تزئین اپنے خط میں کر چکی ہے۔ نایاب تو منتوں پر اتر آئی وہ کہنے لگی،” معاذ بھیا!عنریق بھیا اگر ہم ادھر رہتے رہے تو رائے صاحب ایک نہ ایک دن کی کی کو اس کی کسی بدتمیزی کی پاداش میں قتل کر دیں گے۔“
کی کی نے بھی نایاب کی باتیں سنکر خوفزدہ سی چیخ منہ سے نکالی۔ اور اپنی چونچ عنریق کی گردن میں چبھوئی۔ عنریق کہنے لگا کوئی بات نہیں کی کی۔ میں کسی کو تمہیں ہاتھ لگانے کی اجازت نہیں دوں گا۔ نایاب مجھے نہیں لگتا کہ رائے صاحب سے پوچھنے کا کوئی فائدہ ہو سکتا ہے۔ وہ ہمیں ساتھ رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور ہمیں انہی کے ساتھ رہنا ہو گا۔“ نایاب نے فوراً بھائی کو کہا، ”پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔“ اس کا جوش دیکھ کر دونوں لڑکے اسے دیکھتے ہی رہ گئے،” پوچھے بغیر ہی چلے جائیں؟؟“معاذ نے کہا۔” یہ تو بڑے مزے اور خوشی والی بات ہو گی اگر ہم سب ساحل سمندر والے مکان میں اکٹھے ہو جائیں۔ تم دیکھنا ایک بار ہم وہاں چلے جائیں تو چچی کا رویہ درست نہ بھی ہوا تو ہم انہیں سمجھائیں گے کہ وہ رقم کے لئے رائے صاحب کو فون کردیں تاکہ وہ انہیں رقم بھیج دیں ۔“نایاب نے کہا،” رائے صاحب تو یہ سوچ کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ ہم جانے والے ہیں اور تایا چوہدری کو ہماری ویسے بھی پروا نہیں ہے ۔ہم اس پروگرام پر عملدرآمد کر سکتے ہیں، عنریق بھیا۔“وہ دل ہی دل میں معاذ اور تزئین کے ساتھ رہنے کے خیال سے ہی خوش ہو رہی تھی۔ سوچ سوچ کر آخر عنریق بولا،”ٹھیک ہے ہم سبھی اکٹھے ہی جائیں گے ۔تو معاذ اب بتاﺅ تمہارے قصبے کو جانے والی ٹرین کب جاتی ہے ؟
ہم ریلوے اسٹیشن پر تمہیں الوداع کہنے کے بہانے جائیں گے لیکن آخری منٹوں میں چھلانگ لگا کر تمہارے ڈبے میں سوار ہو جائیں گے۔“ نایاب یہ سن کر بہت پرجوش تھی۔ کی کی کو بھی کچھ غیر معمولی لگ رہا تھا۔ وہ فوراً بولا،” تمہارا رومال کدھر ہے؟“وہ عنریق کے بازو سے لیکر شانے تک پھدکتا ہوا ادھر سے ادھر جا رہا تھا لیکن جب کسی نے اسے اہمیت نہ دی تو وہ افسوس سے بار بار پکارنے لگا،” بے چارہ کی کی ،بے چارہ کی کی۔“عنریق نے ہاتھ سے کی کی کو چپ کروایا۔ وہ روانگی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ وہ کہنے لگا،” میں اپنا اٹیچی کیس اور نایاب کو کچھ دیر پہلے ہی اسٹیشن پر چھوڑ آﺅں گا۔ جب بعد میں ہم تمہارے ساتھ آئیں گے، ہم وہیں اپنے ٹکٹ خریدیں گے۔ کسی کو گمان بھی نہیں ہو گا۔ اب مجھے بتاﺅ تم دونوں میں سے کس کے پاس پیسے ہیں ؟“پھر تینوں نے اپنے پیسے نکال کر اکٹھے کئے جو اتنے ہی تھے جن سے وہ ٹکٹیں خرید سکیں۔ اب وہ مصمم ارادہ کر چکے تھے کہ وہ اکٹھے ہی جائیں گے اور یہ سوچنا بھی محال تھا کہ اس ارادے میں کوئی دراڑ ڈال سکے۔ انہوں نے مکمل منصوبہ بنا لیا تھا۔ جب معاذ نے روانہ ہونا تھا، معاذ نے اپنا اٹیچی کیس بغیر کسی کو شبہ ہونے کے کھسکا لیا تھا۔ انہوں نے اسے اپنے کمرے میں ایک پرانی الماری میں چھپا لیا تھا۔ اور نایاب نے سامان ترتیب دینے میں بھائی کی مدد کی تھی۔
معاذ نے رائے صاحب کو بتایا،” جناب!میں اپنا اٹیچی نیچے لگے پہیوں کی مدد سے اسٹیشن لے جاﺅں گا۔“ پہلے بھی ایسا ہی ہوتا تھا اس لئے رائے صاحب نے فوراً آمادگی کا اظہار کر دیا۔ وہ دل ہی دل میں خواہش کر رہے تھے کہ کاش کسی طرح عنریق بھی اپنے بدتمیز توتے کو لیکر چلا جائے۔ دونوں لڑکوں نے آنکھ بچا کر اپنا سامان ایک ریڑھی پر رکھ لیا تھا اور وہ اسے لیکر اسٹیشن کی طرف چل دیئے۔ وہاں سے رفوچکر ہونا انہیں بہت آسان لگ رہا تھا ۔علی اور اور حسن کو معاملات میں ذرا بھی دلچسپی نہیں تھی۔ علی ویسے ہی گھر واپس جانے کے خیال سے بہت خوش تھا اور حسن اس غم میں گھلا جا رہا تھا کہ ابھی اسے مزید رائے صاحب کے پاس ٹھہرنا پڑے گا۔ کچھ دیر بعد معاذ نے رائے صاحب کو بڑی خوشدلی سے خدا حافظ کہا،”جناب آپ کا بہت شکریہ۔ آپ نے ہمیں پڑھایا ۔مجھے امید ہے کہ میری کارکردگی میں اگلے سال بہتری ہو گی۔ رائے صاحب کہنے لگے ،”خدا حافظ معاذ! تم نے کوئی اتنا برا کام بھی نہیں کیا۔“ پھر معاذ نے رائے صاحب سے ہاتھ ملایا لیکن رائے صاحب نے ہاتھ فوراً ڈھانپ لیا۔ رائے صاحب کو ایک زبردست چھینک آئی اور وہ کہنے لگے،” خدا کی پناہ، تم کیسے اپنے جسم کے ساتھ ان کریہہ جانوروں کی موجودگی قبول کر لیتے ہو؟“کی کی چھینک سن کر چپکا بیٹھ سکتا تھا؟ فوراً بولا” تمہارا رومال کدھر ہے؟“رائے صاحب نے اسے گھورا تو وہ فوراً عنریق کے بازو سے اس کے شانے پر چلا گیا۔
عنریق نے رائے صاحب سے پوچھا ،”کیا میں اور نایاب معاذ کو خدا حافظ کہنے ریلوے اسٹیشن پر جا سکتے ہیں؟“ کی کی صورت حال سمجھ کر ہنسنے لگا تو عنریق نے اس کے سر پر جھانپڑ مارا اور کہنے لگا ،”خاموش رہو، اس میں ہنسنے والی کیا بات ہے؟“ کی کی نے فوراً جواب دیا،”شرارتی لڑکا۔“ جیسے وہ جانتا ہو کہ اس وقت عنریق کے ذہن میں کیا منصوبہ چل رہا ہے۔ رائے صاحب نے کہا ،”ضرور! تم معاذ کو خدا حافظ کہنے جا سکتے ہو۔“ وہ سوچ رہے تھے کہ اس توتے سے جتنی دیر بھی جان چھوٹ جائے غنیمت ہے۔ تب سارے بچے اکٹھے سٹیشن گئے ۔ان کی زیادہ گفتگو سرگوشیوں میں تبدیل ہو چکی تھی۔ کی کی آخری بار رائے صاحب کو حکم دینے سے باز نہیں آیا۔ اس نے کہا کیا ،”تم دروازہ بند نہیں کر سکتے؟“رائے صاحب نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور واقعی دروازہ بند کر لیا۔ دروازہ بند کرنے کے باوجود انہوں نے باہر جاتے ہوئے بچوں کے ساتھ کی کی کا قہقہہ سنا۔ انہوں نے بڑ بڑاتے ہوئے خود کو کہا،” کاش میں اس منحوس پرندے کی شکل دوبارہ نہ دیکھوں۔“ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی یہ شدید خواہش کچھ ہی لمحوں کے بعد قبول ہونے والی ہے ۔معاذ، عنریق اور نایاب اسٹیشن پہنچے۔ انہوں نے اپنا سامان لیا اور ایک قلی سے کہہ کر اسے گاڑی کے ڈبے میں رکھوایا اور جب سیٹی بجا کر گاڑی نے دھواں چھوڑنا شروع کیا تو وہ ڈبے میں سوار ہو گئے۔ کسی نے انہیں منع نہیں کیا ۔کسی کو اندازہ نہیں ہوا کہ ان تین میں سے دو بچے فرار ہو رہے ہیں۔ بچے پرجوش بھی تھے اور تھوڑے سے خائف بھی۔ عنریق بولا،” مجھے امید ہے کہ تمہارے چچا اور چچی ہمیں واپس نہیں بھجیں گے ۔“پھر پیار سے کی کی کے سر پر ہاتھ پھیرا جو ریل گاڑی کی آواز سے ڈرا بیٹھا تھا۔ اب تو اس کی اپنی سیٹیاں بھی ڈر کر بند ہو چکی تھیں۔ ایک بوڑھی عورت ان کے خالی ڈبے میں بیٹھنا چاہ رہی تھی لیکن جب کی کی نے دوچار خوفناک چیخیں ماریں تو اس نے اس ڈبے میں بیٹھنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ آخر کار ریل گاڑی چلنا شروع ہو گئی۔ اس کی آوازوں سے کی کی کو کسی کی چھینک کا گمان ہوا تو وہ رومال استعمال کرنے کا مشورہ دینے لگا۔ بچے کی کی کی کیفیات پر ہنس رہے تھے اور پہاڑوں کے درمیان وادی میں بنا ہوا تھا۔ معاذ نے اطمینان کا سانس لیا اور بولا،” چلیں خدا کا شکر ہے ہمارا سفر شروع ہوا اور تمہارے فرار میں کوئی مسئلہ نہیں بنا ۔واہ کیا مزا آئے گا جب ہم ساحل سمندرپر اکٹھے ہوں گے۔ تزئین تو تمہیں دیکھ کر خوشی سے پاگل ہو جائے گی۔“نایاب گانے لگی،”ساحل سمندر، سمندر کی لہریں، لہروں کا شور، ہو…..ہو۔“ جی ہاں ساحل سمندر کے حیران کن لمحات جو کبھی بچوں نے نہیں سوچے تھے ۔ساحل سمندر اور ممکن طور پر ساحل سمندر پر کوئی کارنامہ بھی۔
ساحل سمندر والا گھر
ریل گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی کھیتوں، کھلیانوں اور ریلوے اسٹیشنوں سے گزرتی رہی اور کئی اسٹیشنوں پر رکی بھی، لیکن ساحل سمندر کی طرف بڑھتی رہی۔ راستے میں اونچے پہاڑ آئے۔ چاندی جیسے پانی سے بہتے دریا آئے اور کئی بڑے شہر بھی۔آخر گاڑی ایک بڑے ویرانے میں آ گئی۔ سمندر کی مخصوص ہوا کھڑکی سے اندر گھس آئی۔ عنریق کہنے لگا،” میں سمندر کی مہک کو دیکھے بغیر ہی پہچان سکتا ہوں۔“ لیکن وہ پہلے ایک دفعہ سمندر کے کنارے جا چکا تھا لیکن اب اسے وہ تجربہ زیادہ یاد نہیں تھا۔ آخر ریل گاڑی ایک ویران سے چھوٹے ریلوے اسٹیشن پر رک گئی۔ معاذ بولا،” لو آخر ہم پہنچ ہی گئے۔ وہ دیکھو صغیر ہمیں لینے آیا ہے۔ صغیر کیا تم پرانی گاڑی پر آئے ہو؟“عنریق اور نایاب نے ایک عجیب سا آدمی اپنی طرف آتے دیکھا ۔اس کی جلد پر جیسے دراڑیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے دانت بہت سفید تھے لیکن بھینگے ہونے کی وجہ سے اس کی آنکھوں کے ڈھیلے کسی اور سمت کو بھٹک رہے تھے لیکن وہ ان کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ اس کے پیچھے ایک لڑکی بھاگتی ہوئی آ رہی تھی جو نایاب سے کچھ ہی بڑی ہو گی لیکن اپنی عمر کے حساب سے اس کا قد لمبا تھا۔ اس کے سر کے بال بالکل معاذ کی طرح گھنگھریالے تھے ۔حتیٰ کہ اس کے ماتھے پر بالوں پر معاذ کی طرح بودی بھی کھڑی تھی۔ عنریق نے سوچا کہ یہ لو ایک اور بودی والے بچے سے واسطہ پڑ گیا لیکن یہ زیادہ غصیلی لگتی ہے ۔یہ ضرور تزئین ہو گی اور واقعی وہ تزئین ہی تھی۔ وہ صغیر کے ساتھ معاذ کو لینے آئی تھی لیکن ایک بہت ہی پرانی کار میں ۔وہ چلتے چلتے اچانک رک گئی اور حیرانی سے عنریق اور نایاب کو دیکھنے لگی۔ عنریق تو اسے دیکھ کر مسکرا دیا لیکن نایاب تزئین جیسی پراعتماد اور بنی ٹھنی لڑکی کو دیکھ کر بھائی کے پیچھے ہو گئی۔ تزئین کو سب سے زیادہ حیرت کی کی کو دیکھ کر ہو رہی تھی جو صغیر کو حکم دے رہا تھا کہ اپنے پیروں کو صاف کرے۔ صغیر نے غصے سے کہا، ”جاﺅ منہ دھو کر آﺅ!“ وہ توتے سے ایسے بات کر رہا تھا جیسے انسانوں سے کی جاتی ہیں۔ کی کی نے اپنی چھاتی آگے کو نکالی اور صغیر پر کتے کے بھونکنے کی آواز نکالنے لگا۔ صغیر حیران رہ گیا۔ اس نے معاذ سے پوچھا،” کیا یہ پرندہ ہی ہے؟“ معاذ نے جواب دیا،” ہاں کیوں نہیں ۔اچھا صغیر یہ اٹیچی کیس بھی کار کی ڈگی میں رکھوا دو۔ میرے دونوں مہمانوں کا ہے۔“صغیر نے حیران ہو کر پوچھا،” کیا یہ رہنے کے لئے آئے ہیں؟ تمہاری چچی نے تو مجھ سے ان کے آنے کا کوئی ذکر نہیں کیا۔“ تزئین نے پوچھا،”بھیا یہ کون ہیں؟“ وہ نزدیک آ کر بولا،” میرے خطوں والے دوست جو رائے صاحب کے پاس رہتے تھے لیکن یہ سب کچھ میں تمہیں بعد میں بتاﺅں گا۔“ پھر اس نے بہن کو آنکھ کے خفیف اشارے سے سمجھا دیا کہ وہ اسے تب سمجھائے گا جب صغیر پاس نہیں ہو گا۔ پھر اس نے تزئین کو یاد دلایا یہ عنریق ہے اور نایاب جن کے بارے میں وہ پہلے ہی بتا چکا ہے۔ تینوں بچوں نے سر کو خفیف سی حرکت سے خم کیا اور پھر سبھی دھچکوں والی کار میں سوار ہو گئے۔ ان کے دونوں اٹیچی کار کی ڈگی میں تھے اور پھر جس طرح صغیر نے گاڑی چلائی وہ نایاب کے لئے سب سے خطرناک بات تھی۔ وہ کار میں سمٹ کر بیٹھی ہوئی تھی، ڈری سہمی۔
ان کی کار نے اپنا سفر ایک ایسے رستے پر جاری رکھا جس کے اردگرد سنگلاخ چٹانیں سر اٹھائے کھڑی تھیں ۔پر شکوہ چوٹیاں جا بجا تھیں ماسوائے کچھ مقامات کے جہاں ویرانہ تھا۔ یہ ساحل سمندر بہت ویران اور اجاڑ لگتا تھا۔ وہ راستے میں شکستہ اور تباہ شدہ گھروں کو دیکھ رہے تھے۔ معاذ نے بتایا،” یہ جنگ میں جلائے گئے گھر ہیں۔ میں ان کے متعلق تمہیں بتا چکا ہوں اور انہیں کسی نے دوبارہ تعمیر نہیں کیا۔ صرف ہمارے گھر کے قریب والی جگہ جنگ سے بچی تھی ۔“تزئین بولی ،”وہ دیکھو ،وہ چٹان ہے جس پر ہمارا گھر تعمیر ہوا ہے۔“ تزئین کے بتانے پر سبھی ایک اونچی چٹان کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر مڑتے ہوئے انہیں دور ایک مینار نظر آیا جس کے متعلق بچوں کو لگا کہ وہ معاذ کے گھر کا حصہ ہو سکتا ہے۔ معاذ بتانے لگا،” ہمارا گھر ایسا بنایا گیا تھا جو سمندر کی لہروں سے بچا رہے لیکن طوفان کے دنوں میں لہروں سے بننے والی پھواریں اتنی ہی تیز ہوتی ہیں جتنی خود لہریں۔“ نایاب اور عنریق کو یہ سب بڑا حیرت انگیز لگ رہا تھا۔ یہ بڑی زبردست چیز تھی کہ کسی ایسے گھر میں رہا جائے جس کی دیواروں سے سمندر کی لہریں سرپٹختی ہوں۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں کر رہے تھے کہ کاش ان کے یہاں قیام کے دوران کوئی بڑا سا سمندری طوفان آئے۔ اچانک صغیر بولا، ”کیا تمہاری چچی تم سب کا انتظار کر رہی ہیں؟انہوں نے مہمانوں کا مجھے نہیں بتایا تھا۔ “وہ دراصل بہت حیران تھا کہ یہ دو مہمان کہاں سے ٹپک پڑے ہیں۔ معاذ بولا،” انہوں نے اگر ذکر نہیں کیا تو یہ بڑی حیرانی والی بات ہے۔“ کی کی کا یہ سنکر پھر قہقہہ نکل گیا لیکن صغیر نے اس قہقہے پر خاصا ناک منہ چڑھایا۔ اس کی دوستی لگتا تھا کہ کی کی کے ساتھ ہونے والی نہیں تھی۔ عنریق کو بھی یہ بات بالکل پسند نہیں آ رہی تھی جس طرح صغیر کی کی کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک تزئین نے چیخ ماری اور معاذ کو دھکا دے کر بولی،” اوہ، تمہاری گردن کے پیچھے ننھا منا چوہا پھر رہا ہے۔ میں نے تمہاری گردن کے پیچھے سے اس کو جھانکتے دیکھا ہے۔ اس کو گاڑی سے باہر پھینکو۔ تمہیں معلوم ہے میں چوہے برداشت نہیں کر سکتی۔“معاذ ناراضگی سے بولا،” اپنا منہ بند کرو اور بیوقوفی کی باتیں مت کیا کرو۔“ اتنی بات تزئین کو طیش دلانے کے لئے کافی تھی۔ اس نے معاذ کا کالر پکڑ کر اسے جھنجھوڑا تاکہ چوہے کو باہر نکال کر گاڑی سے باہر پھینک دے ۔معاذ نے بھی جواب میں تزئین کو دھکا دیا۔ جس نے اس کا سر گاڑی کے دروازے میں لگا۔ اب تزئین کی باری تھی۔ اس نے معاذ کو بلا جھجھک ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ عنریق اور نایاب حیران پریشان ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ تزئین بولی ”جانور! میری خواہش تھی کہ کاش تم واپس نہ ہی آتے۔ اپنے دونوں عجیب دوستوں کو بھی ساتھ لے کراور رائے صاحب کے پاس واپس لوٹ جاﺅ۔“معاذ کہنے لگا،”میرے مہمان عجیب نہیں ہیں۔ یہ بہت اچھے ہیں۔“ پھر اس نے اپنا منہ تزئین کے کان کے قریب کر لیا۔ جب اس نے دیکھا کہ صغیر ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا اور تزئین کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگا۔
”یہ رائے صاحب کی دسترس سے فرار ہو کر آئے ہیں اور میں نے ہی انہیں آنے کے لئے کہا ہے۔ ان کے تایا ہماری چچی کو باقاعدہ ان کے رہنے کے عوض رقم دیں گے اور اس رقم سے چچی گھر کے بل ادا کریں گی جن کے متعلق تم نے خط میں بتایا تھا۔“تزئین کا غصہ اتنی ہی تیزی سے غائب ہو گیا جتنی تیزی سے ظاہر ہوا تھا۔ وہ اب انہماک سے دونوں بہن بھائیوں کو دیکھ رہی تھی اور ساتھ اپنے دکھتے سر کو سہلا بھی رہی تھی۔ چچی کیا کہیں گی؟یہ کہاں سوئیں گے؟ لیکن یہ مسئلہ مزے کا ہو گا ۔وہ سوچ رہی تھی۔ صغیر پتھریلے اور دھچکوں والے رستے پر گاڑی بھگاتا رہا۔ عنریق حیران تھا کہ اس طرح کی ڈرائنگ سے گاڑی اب تک ٹکڑوں میں تقسیم کیوں نہیں ہوئی۔ وہ پہلے چٹان پر سیدھا چڑھے اور پھر ایک خفیہ ڈھلوان پر سفر کرتے ہوئے گھر تک پہنچے۔ وہاں اچانک ہی غراتا ہوا سمندر ان کے سامنے تھا اور اوپر سامنے ان کا گھر تھا جو چٹان کی اونچائی کے وسط میں واقع تھی۔ یہ ایک انتہائی حیران کن جگہ تھی۔ کئی سال پہلے یہاں دو مینار ہوا کرتے تھے جن میں سے ایک گر چکا تھا لیکن دوسرا ابھی پورے طمطراق سے کھڑا تھا ۔گھر بڑے بڑے مٹیالے پتھروں سے بنایا گیا تھا۔ وہ بہت بڑا لیکن آنکھوں کولبھانے والا نہیں تھا لیکن پھر بھی پر شکوہ دکھائی دیتا تھا۔ وہ ایک مغرور اور ناراضگی بھرا تاثر لئے سمندر کے سامنے سینہ تانے کھڑا تھا جیسے بے چین سمندر کا مقابلہ کر رہا ہو۔ عنریق نے نیچے پانی پر نظر دوڑائی تو اسے مختلف اقسام کے سمندری پرندوں کے جھنڈ دکھائی دیے۔ عنریق کا دل خوشی سے جھوم اٹھا۔ ہزاروں پرندے، لاکھوں پرند، اس نے سوچا کہ وہ پورے ذوق و شوق سے پرندوں کے متعلق معلومات حاصل کرے گا۔ ان کے گھونسلے ڈھونڈے گا اور سکون سے ان کی تصویریں کھینچے گا ۔کیا مزے کا وقت ہو گا۔ ایک عورت دروازے پر آئی اور حیرت سے چاروں بچوں کو دیکھنے لگی۔ وہ کمزور سی تھی اور اس کے بال ریتلے رنگ کے الجھے ہوئے تھے ۔وہ تھکی ہوئی لگ رہی تھی ۔معاذ چلایا،”سلام چچی!میں واپس آ گیا ہوں۔“ دہ دوڑتا ہوا پتھریلے راستے پر آ رہا تھا۔ چچی نے معاذ کو پیار کیا اور کہنے لگیں، ”وہ تو میں دیکھ رہی ہوں لیکن تمہارے ساتھ کون ہے؟“تو معاذ بولا،” چچی یہ میرے دوست ہیں۔ یہ گھر نہیں جا سکے کیونکہ ان کے تایا کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے اس لئے میں انہیں ساتھ لے آیا ہوں۔ ان کے تایا ان کے یہاں رہنے کے اخراجات برداشت کریں گے۔“ چچی یہ سنکر تیزی سے بولیں،”لیکن تم ایسے کیسے کر سکتے ہو اور وہ بھی مجھے بتائے بغیر۔ یہ کہاں سوئیں گے۔ تمہیں پتا ہے ہمارے گھر میں مہمانوں کو ٹھہرانے کا کوئی کمرہ نہیں ہے۔“معاذ نے کہا،” یہ مینار والے کمرے میں سو جائیں گے۔ “مینار والا کمرہ،یہ ذکر سنکر ہی عنریق اور نایاب کی باچھیں کھل گئیں۔ چچی دبے دبے لہجے میں بولیں ،”وہاں کوئی بستر نہیں ہے۔ انہیں واپس جانا ہو گا۔ یہ آج رات ادھر رہیں اور صبح واپس چلے جائیں۔“ نایاب روہانسی ہو گئی تھی۔ چچی کے لہجے میں بڑی سختی تھی جسے وہ برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ اسے یہاں آنے میں بے عزتی محسوس ہو رہی تھی۔ عنریق نے یہ دیکھ کر اسے بازوﺅں میں بھر لیا ۔وہ ارادہ کر چکا تھا کہ وہ واپس جانے والا نہیں۔
وہ اڑتے،چکر کاٹتے، لہراتے پرندوں کے جو مناظر دیکھ چکا تھا ۔اس نے اس کے دل میں ان جانی خوشی بھر دی تھی۔ وہ چٹان پر لیٹ کر انہیں غور سے دیکھنا چاہتا تھا۔ وہ واپس نہیں جانا چاہتا تھا وہ تمام گھر کے اندر داخل ہوئے ۔صغیر ان کے اٹیچی لیکر آ رہا تھا اور چچی نفرت سے کی کی کو گھو ررہی تھی۔ انہوں نے کہا،”ایک توتا بھی ہے۔ ایک شور مچانے والا پرندہ۔کیا تمہارے گندے مندے سے پالتو جانور کافی نہیں تھے معاذ جو اب ایک توتا بھی تشریف لے آیا ہے۔“اچانک کی کی بولا،” بیچاری چچی، بیچاری بوڑھی چچی۔ “ چچی حیران ہو کر توتے کو دیکھنے لگیں۔ انہوں نے حیرانی سے پوچھا،”یہ مجھے کیسے جانتا ہے؟“ کی کی یہ نام نہیں جانتا تھا بلکہ خود چچی کئی دفعہ اپنے آپ کو بوڑھی بیچارے چچی کے نام سے پکارتی رہتی تھیں۔ اس نے دیکھا کہ اس نے بوڑھی عورت پر اپنا ایک تاثر قائم کر لیا ہے تو اس نے انہی الفاظ کو بہت نرمی سے دوبارہ ادا کیا۔ لگتا تھا جیسے وہ رونے کے قریب ہے،” بیچاری چچی، بے چاری بوڑھی چچی“ چچی مزید متاثر ہو کر اب کی کی کو پسندیدگی کی نظروں سے دیکھنے لگی تھیں۔ کام کرتے کرتے چچی کئی دفعہ بیمار ہوئیں، تھکیں یا ان کو جھڑکا گیا لیکن کبھی کسی نے نہ ان سے افسوس کیا اور نہ ہی ہمدردی کا ایک لفظ کہا۔ اب وہ کھڑی تھیں اور ایک توتا ان کے لئے ہمدردی کے بول بول رہا تھا اور دنیا میں کسی بھی شخص سے زیادہ ان پر مہربانی کے پھول برسا رہا ہے۔ چچی کو عجیب بھی لگ رہا تھا لیکن وہ خوش بھی ہو رہی تھیں۔ وہ معاذ سے بولیں”معاذ تم ایک سونے والا گدا اوپر مینار والے کمرے میں لے جانا اور لڑکے کے ساتھ ہی آج رات سو جانا۔ اس کا نام کیا ہے؟اور لڑکی تزئین کے ساتھ سو سکتی ہے ۔گدا چھوٹا ہے لیکن میں کچھ نہیں کر سکتی۔ اگر تم مہمانوں کو میرے پوچھے بغیر لے آﺅ گے تو میں تیاری کیسے کروں گی۔“
بچے کھانا کھانے لگے، کھانا بہت مزیدار تھا۔ چچی کھانا بہت مزے کا بناتی تھیں۔ یہ چائے اور دوپہر کے کھانے کا امتزاج تھا اور بچوں نے اسے بڑی رغبت سے کھایا۔ سارے دن میں ناشتے کے بعد انہوں نے صرف وہ سینڈوچ بانٹ کر کھائے تھے جو معاذ کو رائے صاحب نے کھانے کے لئے دیئے تھے ۔ظاہر ہے ایک سینڈوچ تین بچے بانٹ کر کھائیں گے تو ان کا پیٹ کیسے بھرے گا؟ تبھی تزئین چھینکی اور کی کی نے تحکمانہ لہجے میں اس سے کہنے لگا ،”تمہارا رومال کدھرہے؟“ چچی نے توتے کی طرف حیران لیکن متاثر کن نظروں سے دیکھا اور کہنے لگی ”میں نے ہمیشہ یہ بات تزئین سے کہی ہے مجھے تو یہ توتا بہت ذہین لگتا ہے ۔“کی کی چچی کی تعریف سے پھولا نہ سمایا اور چہکا،”بیچاری چچی۔ بے چاری پیاری چچی“ یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پیارے سے ایک طرف پھینک دی اور اس کی چمکدار آنکھوں میں چچی کے لئے محبت امڈی ہوئی تھی۔ معاذ نے عنریق کے کان میں آہستگی سے کہا ،”چچی تم سے زیادہ تمہارے توتے کو پسند کرتی ہیں۔“ کھانے کے بعد چچی معاذ کو چچا کے مطالعے کے کمرے میں لے گئیں ۔انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر چلی گئیں۔ اس کے چچا کاغذوں سے بھری الماری کے ایک خانے پر جھکے ہوئے تھے اور ایک خوردبین سے ان کا باریک بینی سے جائزہ لے رہے تھے۔ وہ معاذ کو جیسے دانت پیتے ہوئے کہنے لگے۔” تو تم دوبارہ واپس آ گئے ہو۔ اب تمیز سے رہنا اور میرا کوئی کام خراب نہیں کرنا۔
میں ان بقایا چھٹیوں میں بہت مصروف ہوں۔“ چچی نے چچا کو مخاطب کر کے کہا ”آصف صاحب! معاذ اپنے ساتھ دو مہمان بھی لایا ہے اور ایک عدد توتا بھی اور وہ چاہتا ہے کہ وہ ہمارے ساتھ رہیں۔“چچا آصف فوراً بولے۔” وہ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ تو تا رہ سکتا ہے ،تم توتا رکھنا چاہو تو رکھ لو۔ نہ رکھنا چاہو تو نہ رکھو میں مصروف ہوں۔“ وہ اپنے کاغذوں پر جھک گئے۔ چچی نے ٹھنڈی سانس لی اور دروازہ بند کر دیا۔ وہ بڑبڑاتے ہوئے بولیں۔ ”وہ اپنے ماضی میں اتنا مگن ہے کہ اپنا حال بھول چکا ہے۔ مجھے لگتا ہے مجھے خود رائے صاحب سے بات کرنی ہو گی ۔وہ ان بچوں کے متعلق پریشان ہو رہا ہو گا۔“ وہ ٹیلی فون کرنے گئیں۔ معاذ ان کے پیچھے تھا۔ وہ سننا چاہتا تھا کہ اس بارے میں رائے صاحب کیا کہتے ہیں؟ ایک کمرے سے تزئین نے بھی جھانکا اور معاذ نے ٹیلی فون کی طرف اشارہ کیا۔ اگر رائے صاحب ناراض ہوئے اور انہوں نے عنریق اور نایاب کو واپس لینے سے انکار کر دیا اور ہو سکتا ہے رائے صاحب اتنی رقم چچی کو بھجوا دیں جس سے چچی کا عنریق اور نایاب کو واپس بھجوانے کا ارادہ تبدیل ہو جائے۔
قیام
رائے صاحب پریشان تھا کیونکہ عنریق اور نایاب واپس نہیں لوٹے تھے۔ پہلے پہل وہ یہ سمجھے کہ شاید دونوں بہن بھائی سیر پر نہ نکل گئے ہوں یا ہو سکتا ہے کہ عنریق کو کوئی غیر معمولی پرندہ مل گیا ہو اور وہ وقت کے بارے میں بالکل بھول گیا ہو لیکن پھر جب گھنٹے بیت گئے اور ابھی بھی بچے واپس نہیں لوٹے تو وہ واقعی بہت پریشان ہو گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹیلی فون کرنے میں چچی نے لمبی مدت لگا دی۔
یہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ وہ معاذ کے ساتھ بھی جا سکتے ہیں۔ اگر یہ ان کے ذہن میں ہوتا تو وہ فوراً معاذ کے چچا کو ٹیلی فون کر سکتے تھے۔ جب معاذ کی چچی نے انہیں فون کر کے یہ اطلاع دی کہ بچے محفوظ ہیں تو رائے صاحب کی جان میں جان آئی، وہ بتا رہی تھیں ۔”وہ معاذ کے ساتھ ہی میرے پاس آ گئے ہیں مجھے اندازہ نہیں کہ انہیں ایسا کرنے کی اجازت کیسے مل گئی لیکن مجھے لگتا ہے کہ میں انہیں مزید اپنے پاس نہیں رکھ سکتی“ یہ بات سن کر رائے صاحب کا دل جیسے ڈوب ہی گیا۔ کیونکہ ایک لمحہ ایسا تھا جب انہیں محسوس ہوا کہ شاید ان کی جان عنریق ۔نایاب اور ان کے بدتمیز توتے سے چھوٹ گئی ہے لیکن اب ایسا نہیں لگ رہا تھا رائے صاحب نے بڑے ادب سے چچی کو کہا۔”ٹھیک ہے بیگم آصف! مجھے اس بارے میں افسوس ہے بچے مجھے بتا کر گئے تھے کہ وہ معاذ کو الوداع کہنے جا رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ معاذ نے انہیں ساتھ چلنے کے لئے مجبور کیا ہے ۔مجھے اس بات کا احساس ہے کہ آپ باقی چھٹیاں بچوں کو اپنے پاس نہیں رکھ سکتیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچے چھٹیاں آپ اور معاذ کے ساتھ گزارنا پسند کریں گے۔ وہ صحیح کہہ رہے ہیں کہ ان کے تایا چوہدری انہیں ابھی واپس بلانا نہیں چاہتے۔ البتہ انہوں نے مجھے بچوں کے مزید اخراجات کے لئے کافی رقم بھی بھیجی ہے تاکہ میں انہیں ساری چھٹیاں ساتھ رکھ سکوں۔ مجھے خوشی ہو گی اگر وہ رقم میں آپ کو بھجوا دوں۔ لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہے اگر آپ مزید کچھ دیربچے اپنے ساتھ رکھیں اور اس سلسلہ میں بچوں کے تایا جان سے بھی بات کر لیتا ہوں۔“یہ باتیں سن کر ٹیلی فون پر تھوڑی سی خاموشی ہو گئی اور پھر چچی جان نے پوچھا ،” کتنی رقم ہے؟“
اب پھر چند لمحے خاموش رہی اور پھر رائے صاحب نے حاصل کردہ رقم بتائی جو واقعی خاصی بڑی رقم تھی۔ چچی جان نے جلدی جلدی سوچا کہ بچوں کے رہنے پر تو کوئی اتنے زیادہ اخراجات نہیں اٹھیں گے۔ اس کے علاوہ وہ احتیاط کریں گی کہ بچے آصف صاحب کے کاموں میں مخل نہ ہوں۔ نایاب گھر کے کاموں میں تزئین کی مدد بھی کرے گی اور وہ اپنی تمام ادائیگیاں آرام سے کر لیں گی جس سے ان کی مصیبت حل ہو گی ۔ٹیلی فون کے دوسرے سرے پر رائے صاحب چچی کے فیصلے کا انتظار کر رہے تھے وہ ہر قیمت پر چاہتے تھے کہ کی کی واپس نہ آئے۔ عنریق کو وہ برداشت کر سکتے تھے ،نایاب بھی ٹھیک تھی لیکن کی کی کو برداشت کرنا ان کے بس کی بات نہیں تھی۔ پھر چچی ایسے بولیں جیسے انہوں نے ہار مان لی ہو۔ انہوں نے کہا، ”ٹھیک ہے مجھے سوچنے دیں ۔یہ بہت مشکل ہو گا کیونکہ ہمارے پاس بہت مختصر سی رہنے والی جگہ ہے۔ میرا مطلب ہے اگرچہ ایک کمرہ تو بہت بڑا ہے مگر مینار والا کمرہ…….“معاذ اور دوسرے بچے وہ تمام باتیں سن چکے تھے جو چچی کے منہ سے نکلیں۔ اب وہ ایک دوسرے کو خوشی سے دیکھ رہے تھے معاذ نے سرگوشی کی، ”چچی ہار مان گئی ہیں اور عنریق شرط لگالو تم اور میں مینار والے کمرے میں رہنے والے ہیں۔ میں ہمیشہ سے وہاں سونا چاہتا تھا لیکن چچی نے مجھے کبھی وہاں رہنے نہیں دیا۔“ رائے صاحب ایک دفعہ پھر لجاجت سے بولے، بیگم آصف! آپ مجھ پر بہت بڑا احسان کریں گی اگر آپ بچوں کی بھاگ دوڑ اپنے ہاتھوں میں لیں گی۔ میں ابھی چوہدری صاحب کو ٹیلی فون کرتا ہوں۔ یہ مجھ پر چھوڑ دیں اور میں آپ کو فوراً رقم بھی بھجواتا ہوں اور اگر آپ کو مزید رقم کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیے گا۔ آپ سوچ نہیں سکتیں آپ مجھ پر کتنی مہربانی کریں گی۔ بہت اچھے بچے ہیں آپ انہیں آسانی سے سنبھال لیں گی۔
نایاب بہت اچھی بچی ہے مسئلہ صرف اس بدتمیز توتے کا ہے ہو سکے تو اس کے لئے ایک پنجرہ منگوا لیجئے گا۔“ چچی یہ سنکر تنگ آ کر بولیں۔ ”مجھے اس توتے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ “یہ فقرہ سنکر رائے صاحب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کی کی نے خوشی سے چیخ ماری جو رائے صاحب نے ٹیلی فون پر بڑی صاف سنی۔ رائے صاحب نے سوچا کہ بیگم آصف کمال بہادر عورت ہیں جنہیں کی کی جیسے عفریت سے کوئی مسئلہ نہیں ۔گفتگو یہاں ختم ہو گئی۔ بیگم آصف نے کہا کہ وہ خود چوہدری صاحب کو لکھیں گی۔ جب ان کا ذکر انہوں نے رائے صاحب سے سنا۔ اس اثناءمیں وہ وعدہ کر چکی تھیں کہ وہ بقایا تمام چھٹیوں میں بچوں کی دیکھ بھال کریں گی۔ ٹیلی فون کے چونگے رکھ دیئے گئے۔ بچوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ معاذ اپنی چچی کے پاس گیا ۔وہ بولا ”چچی آپ کا بہت بہت شکریہ۔ آپ نے ہمارے دوستوں کو ہمارے ساتھ رہنے دیا ہم وعدہ کرتے ہیں کہ چچا کے کام میں دخل نہیں دیں گے اور آپ کے کاموں میں مدد کریں گے۔ کی کی بھی بڑی شفقت سے بولا ،”پیاری چچی!“ اور یہ کہہ کر وہ عنریق کے شانے سے پھدک کر چچی کے شانے پر جا بیٹھا۔ سب حیران پریشان کھڑے تھے چالاک کی کی! چچی کو خوب بنا رہا تھا۔ چچی بولیں ”بے وقوف پرندہ!“وہ چھپا رہی تھیں کہ دراصل کی کی کی اس حرکت سے وہ کتنی خوش ہوئی ہیں۔کی کی سب کی امیدوں کے بالکل برعکس بولا ”اللہ سب کا بھلا کرے“ اور سب کا بے اختیار قہقہہ نکل گیا چچی بولیں”معاذ تم اور عنریق مینار والے کمرے میں رہو گے۔ آﺅ دیکھتے ہیں وہاں کون کون سی کمی پوری کرنی ہے۔ تزئین تم اپنے کمرے میں دیکھو کہ نایاب تمہارے ساتھ رہے گی تو تمہیں مزید کن چیزوں کی ضرورت ہو گی یا وہ معاذ کے پرانے کمرے میں رہ سکتی ہے۔ دونوں کمرے درمیان سے کھلتے بھی ہیں اس لئے بہتر ہو گا کہ تم دونوں کمرے استعمال کر لو۔“تزئین خوشی خوشی نایاب کو لیکر کمرہ دیکھنے گئی۔
نایاب کی خواہش تھی کہ وہ کسی طرح بھائی کے نزدیک ہی سوتی۔ اب جہاں جس کمرے میں سونا تھا مینار والا کمرہ اس سے خاصی مسافت پر تھا ۔عنریق نے بازو پر کی کی کو بٹھایا اور اونچائی پر بنی کھڑکی میں آرام سے بیٹھ کر سمندری پرندوں کو اڑتا ہوا دیکھنے لگا معاذ چچی کے ہمراہ مینار والے کمرے میں گیا۔ وہ بہت خوش تھا۔ وہ عنریق اور نایاب کو بہت پسند کرنے لگا تھا اور اسے اپنا خواب حقیقت میں بدلتا دکھائی دے رہا تھا کہ وہ کئی ہفتے اکٹھے رہنے والے تھے ۔وہ دونوں ایک پتھریلے ڈھلوانی راستے پر گئے پھر وہ ایک تنگ پتھریلے سیڑھیوں والے راستے کے قریب پہنچے اور پھر سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ سیڑھیاں چکر کھاتی ہوئی اوپر چڑھ رہی تھیں اور آخر کار وہ مینار والے کمرے میں پہنچ گئیں۔ یہ بالکل بناوٹ میں گول تھا جس کی دیواریں بڑی دبیز تھیں۔ اس میں تین تنگ سی کھڑکیاں تھیں جن میں سے ایک کا رخ سمندر کی طرف تھا جس میں بالکل کوئی شیشہ لگا ہوا نہیں تھا۔ کمرہ بہت خستہ تھا اور پرندوں کے شور سے گونج رہا تھا اور تند لہروں کا شور علیحدہ تھا۔ چچی بولیں۔ ”مجھے ڈر ہے کہ تم دونوں کو یہاں سردی لگے گی۔ “لیکن یہ سنکر معاذ نے فوراً سر نفی میں ہلایا۔ وہ کہنے لگا۔” ہمیں اس کی فکر نہیں ہے ۔اگر شیشہ کھڑکیوں میں لگا بھی ہوتا تو پھر بھی ہم انہیں کھول کر ہی سوتے۔ ہم ٹھیک رہیں گے اور بہت خوش بھی۔ اور وہ دیکھیں شاہ بلوط کی لکڑی سے بنی ایک الماری بھی ہے جس میں ہم اپنی چیزیں رکھ سکتے اور ایک لکڑی کا اسٹول بھی ہے ہمیں سونے کے لئے صرف گدا چاہئے ہو گا چچی بولیں،”ہم ایک چھوٹا پلنگ ان تنگ راستوں سے اوپر لا سکتے ہیں جس کے اوپر گدا بچھا کر تم سو سکتے ہو۔ میرے پاس بڑا گدا ہے جو تم دونوں کے لئے کافی ہو گا۔ میں تزئین کو جھاڑو دیکر اوپر بھیج دوں گی وہ کمرہ صاف کر دے گی۔“ معاذ بولا،” چچی دوبارہ آپ کا بہت شکریہ۔
آپ کو ہمارے لئے اتنا کچھ کرنا پڑ رہا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ عنریق اور نایاب کے یہاں رہنے سے آپ کے اخراجات میں بہت زیادہ اضافہ نہیں ہو گا۔“ چچی نے الماری کا دروازہ بند کیا اور معاذ سے کہنے لگیں ،”بیٹے تم یہ مت سمجھو کہ میں جان بوجھ کر تمہیں اپنی مجبوریاں بتا رہی ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تمہاری والدہ بیمار ہیں اور وہ اب اتنی رقم ماہانہ نہیں بھیج رہیں جتنی وہ پہلے بھیجا کرتی تھیں اور تم جانتے ہو کہ تمہاری سکول کی فیس خاصی زیادہ ہے اور کئی دفعہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا کروں تم اب اتنے بڑے ہو گئے ہو کہ سمجھ سکتے ہو کہ تمہارے چچا گھر کی ذمہ داریوں میں اتنی توجہ نہیں دیتے۔ اور میرے پاس جو پیسے ہوتے ہیں وہ پلک جھپکتے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ “معاذ کو ان باتوں کا علم نہیں تھا۔ اس کی امی بیمار تھیں اور چچی کو ان سے پیسے نہیں مل رہے تھے ۔یہ سب معاذ کو فکر مند کرنے کے لئے کافی تھا۔ اس نے پوچھا،” چچی! امی جان کو کیا ہوا ہے؟“ تو چچی نے جواب دیا،” وہ بہت کمزور ہو چکی ہیں اور انہیں بڑی شدید کھانسی ہے ۔ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ انہیں آرام کی ضرورت ہے اور ہو سکے تو سمندر کے کنارے آرام کریں لیکن وہ نوکری کیسے چھوڑ سکتی ہیں؟“ معاذ کہنے لگا۔” چچی میں سکول چھوڑ دیتا ہوں۔ میں کسی نہ کسی طور کوئی نوکری ڈھونڈ لیتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ امی جان ہمارے لئے کام کرتے کرتے مستقل مریضہ بن جائیں ۔“ چچی کہنے لگیں۔” تم اس طرح نہیں کر سکتے۔ تم تو ابھی صرف بارہ تیرہ سال کے ہو۔ اب جو پیسے رائے صاحب بھجوا رہے ہیں اس سے میری مشکلوں میں کچھ کمی ہو گی۔“معاذ نے گفتگو جاری رکھی وہ کہنے لگا،”چچی یہ مکان بہت بڑا ہے ۔ہم نے یہاں رہ کر کیا کرنا ہے ؟“کیوں نہ ہم یہ مکان چھوڑ کر کسی چھوٹے سے خوبصورت مکان میں رہیں۔ جہاں آپ کو بھی اتنی محنت سے کام نہ کرنا پڑے اور جہاں تنہائی کا احساس بھی کم ہو ۔“چچی بولیں، ”میں اسے بیچنا چاہتی ہوں لیکن آدھا تباہ ہوا مکان کون خریدے گا جہاں ہر وقت تند و تیز ہواﺅں کا شور ہو اور وہ عام لوگوں کی دسترس سے اتنی دور واقع ہو؟ اور میں تمہارے چچا کا کیا کروں۔ وہ اس جگہ سے محبت کرتے ہیں وہ اس ساحل سے محبت کرتے ہیں اور اس جگہ کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ جانتے ہیں اور سبھی خواہش پوری نہیں ہوتیں۔ ہمیں یہیں زندگی گزارنا ہے۔ جب تک تم اور تزئین اپنے پاﺅں پر کھڑا نہ ہو جاﺅ۔ “معاذ نے سوچا کہ پھر وہ ایک گھر بنائے گا جس میں وہ اپنی ماں اور تزئین کے ساتھ رہے گا۔ پھر وہ اپنی چچی کے ساتھ گدے لانے کے لئے سیڑھیاں اترنے لگا ۔اس نے عنریق کو آواز دی اور پھر دونوں لڑکے ہانپتے کانپتے تنگ سیڑھیوں کے راستے سے گدے مینار والے کمرے میں لے ہی گئے کی کی اپنی چیخوں اور جملوں سے ان کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔ صغیر اس کی باتوں سے البتہ چڑتا رہا وہ سمجھ رہا تھا شاید کی کی اسے حکم دے رہا ہے اور کی کی کو علم ہو گیا کہ وہ اس کی باتوں سے چڑتا ہے تو وہ جان بوجھ کر آوازیں نکال کر اسے چڑاتا رہا۔
صغیر نے ایک چھوٹا میز اور عنریق کا اٹیچی اٹھایا ہوا تھا جو اس نے مینار والے کمرے میں رکھ دیئے۔ وہ مزاج کا بہت برا تھا۔ معاذ سوچ رہا تھا کہ صغیر کا مزاج ہمیشہ سے خراب ہی رہا ہے لیکن اب اس کا دماغ زیادہ ہی خراب لگ رہا تھا۔ معاذ نے اس سے پوچھا،” صغیر کیا مسئلہ ہے؟ کیا آج کل بھی ”چیزیں“ رات کو آوارہ گردی کرتی ہیں؟“ اور پھر دونوں لڑکے بے اختیار صغیر کے اس مفروضے پر ہنس دیئے کہ شام کو ساحل سمندر پر ”چیزیں“ گھومتی ہیں ۔صغیر بولا ”میں نے تمہاری چچی کو بتایا تھا کہ انہیں یہ کمرہ استعمال میں نہیں لینا چاہئے ۔یہ بہت برا کمرہ ہے اور جب دھند چھٹتی ہے تو یہاں سے دکھ والا جزیرہ نظر آتا ہے اور یہ بہت بڑی بدشگونی ہے اگر آپ کو دکھوں کا جزیرہ نظر آئے۔ “معاذ نے اسے ہنستے ہوئے کہا، ”صغیر بے وقوفی کی باتیں مت کرو“ یہی فقرہ فوراً کی کی نے بھی دہرا دیا۔ صغیر معاذ اور کی کی دونوں پر برسنے لگا۔ اس نے کہا،” میری بات کا یقین کرو معاذ اور کوشش کرنا کہ علیحدہ کمرے سے ”دکھ کاجریرہ“ کہتے ہیں تم نہ ہی دیکھو لیکن یہی وہ کمرہ ہے جو تم یہاں سے دیکھ سکتے ہو۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ مینار والا کمرہ برا کمرہ ہے۔ کبھی کوئی اچھی خبر ”سکھ کے جزیرہ“ سے نہیں آئی۔ مافوق الفطرت لوگ وہاں رہتے ہیں جو بڑے ہیں اور انہوں نے وہاں بڑے کام کئے ہوئے ہیں اور ہمیشہ وہاں سے کوئی نہ کوئی مصیبت ہی نازل ہوتی ہے۔“پھر اس ڈراﺅنی گفتگو کے بعد صغیر وہاں سے روانہ ہو گیا۔ جاتے وقت اس نے دونوں لڑکوں کو خوب گھورا۔ معاذ طنزاً کہنے لگا”کیا خوش اخلاق انسان ہے۔ پتا نہیں کیا وجہ ہے کہ صغیر یہ جگہ چھوڑ کر نہیں جاتا حالانکہ کہیں اور وہ یہاں سے دوگنی رقم کما سکتا ہے اور پھر دونوں گدے بچھانے لگے۔عنریق کھڑکی کے باہر دیکھتے ہوئے معاذ سے پوچھنے لگا ”یہ دکھ کا جزیرہ کیا ہے اور کیا ڈراﺅنا نام ہے لیکن میں تو کوئی جزیرہ دیکھ سکتا ہوں ۔ معاذ نے اسے بتایا تم شاید ہی کبھی اسے دیکھ سکتے ہو ۔وہ ادھر مغرب میں ہے اور اس کے اردگرد بہت نوکیلی چٹانیں ہیں جہاں پانی کی پھوار ایک چادر بنائے رکھتی ہے۔ اسی لئے وہاں ہر وقت دھند چھائے رہتی ہے۔ وہاں کوئی نہیں رہتا کبھی وہاں لوگ البتہ رہا کرتے تھے ۔“عنریق کہنے لگا۔
”میں وہاں جانا چاہوں گا۔ وہاں جزیرے میں ہزاروں سمندری پرندے ہونگے جو ہم سے نہیں ڈریں گے۔ میرے لئے انہیں قریب سے دیکھنا بہت شاندار تجربہ گاہ۔“ معاذ حیرانی سے عنریق سے پوچھنے لگا ،”تم کہتے ہو کہ پرندے ہم سے نہیں ڈریں گے۔ وہ تو کی کی سے بھی ڈر جائیں گے۔“عنریق نے کہا،” لیکن دکھ کے جزیرہ ستون جزیرے میں پرندوں نے کبھی انسان نہیں دیکھے ہوں گے اس لئے وہ نہ احتیاط کریں گے اور نہ ہی ڈریں گے۔ میں ان کی بہت ہی قریب سے تصویریں لے سکوں گا۔ میرا دل کرتا ہے کہ ابھی وہاں چلا جاﺅں۔“معاذ کہنے لگا۔” لیکن تم جا نہیں سکتے۔ میں بھی کبھی وہاں نہیں گیا اور شاید کبھی کوئی بھی اتنی دور تک نہیں گیا۔ ہم اس کے زیادہ نزدیک جائیں گے تو پھوار ہمیں مکمل گیلا کر دے گی اور پھر وہاں اکثر بارش بھی ہوتی رہتی ہے۔“عنریق نے اسے کہا،” گدے جہاں مرضی رکھ دو۔“وہ دھندوں میں لپٹے جزیرے اور نامانوس پرندوں کے خواب میں کھویا ہوا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ہو سکتا ہے اسے وہاں ایسے پرندے دیکھنے کو ملیں جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھے ہوں۔ ہو سکتا ہے وہ ان کے گھونسلوں اور انڈوں تک پہنچ سکے وہ دنیا کو یہ عجیب و غریب پرندے اپنی شاندار تصویروں سے دکھا سکے ع۔نریق نے مصمم ارادہ کر لیا تھا کہ وہ جزیرے تک جائے گا۔ بے شک صغیر اسے جتنا بھی ڈرا لے۔ آخر معاذ اونچی آواز میں بولا۔” اب آﺅ بھی نیچے سب کے پاس چلیں۔ بے شک صغیر اسے جتنا بھی ڈرا لے وہ اکیلا ہی کپڑے الماری میں رکھ رہا تھا۔ پھر وہ تنگ سیڑھیوں سے نیچے پہنچے ۔اگلے ہفتوں کے بارے میں سوچنا سب کو بہت اچھا لگ رہا تھا۔ جن میں کوئی کام نہ ہو۔ کوئی سبق نہ ہو صرف سمندر میں نہانا ہو، چٹانوں پر چڑھنا ہو، کشتی میں سیر ہو، سو پتا تھا کہ اچھے دن آ رہے ہیں۔
دن گزرتے گئے
لڑکیوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ دونوں کمرے استعمال کریں گی۔ کمرے بہت چھوٹے تھے اور ویسے بھی آسان تھا کہ وہ دونوں اپنا اپنا کمرہ صاف رکھیں تزئین کہنے لگی،”اگر ہم اپنی تمام چیزیں ایک ہی کمرہ میں رکھ لیں تو وہاں بیٹھنے کو جگہ بھی نہیں بچے گی“ نایاب بھی اس بات سے اتفاق کرتی تھی تزئین مینار والے کمرہ میں جا چکی تھیں اور وہ اسے پسند بھی کرتی تھیں اسے ایسا کمرہ پسند تھا جس میں زیادہ کھڑکیاں ہوں جہاں سے باہر نظر آتا رہے اسے ایسے کمرے میں لیٹنا اچھا لگتا تھا جیسے وہ کھلے آسمان کے نیچے لیٹی ہوئی ہے پھر اس نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو ہوا اس کے بال اڑا کر گزر گئی لڑکیوں کے کمرے سے بھی سمندر نظر آتا تھا لیکن اس سمت کے مخالف جس سمت سے لڑکے سمندر کو دیکھ سکتے تھے دکھ کا جزیرہ ان کے کمروں سے بالکل دکھائی نہیں دے سکتا تھا عنریق نے صغیر کی باتیں نایاب کو بتائیں تو وہ سہم گئی معاذ ہنستے ہوئے کہنے لگا”فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں صغیر اس طرح کے افسانوں پر یقین کرتا ہے اور کچھ کہانیا ںخود بھی گڑھ لیتا ہے ان کہانیوں میں کوئی حقیقت نہیں یہ صرف لوگوں کو ڈرانے کے لئے بنائی گئی ہیں“ ساحل سمندر کے کنارے پہلی رات کے سونے کا تجربہ عجیب تھا نایاب تو بڑی دیر تک جاگتی رہی۔ اور چٹانوں کے ساتھ سر پٹختی لہروں کی آوازوں کا شور سنتی رہی۔
تند ہوا سیٹیوں کی آواز نکال رہی تھیں جو نایاب کو بہت اچھی لگ رہی تھیں۔ یہ ماحول اس خاموشی والے قصبے سے کتنا فرق تھا جہاں تایا الیاس رہتے تھے وہاں اتنی خاموشی تھی جیسے آدھی موت واقع ہو گئی ہو لیکن یہاں زندگی متحرک تھی۔ شور تھا۔ ان کے ہونٹوں پر سمندری نمک جم رہا تھا۔ ہوا میں طوفان سے تیزی تھی ایسا لگتا تھا جیسے اس تنہا ساحل سمندر پر کسی وقت بھی کچھ ہونے والا ہے عنریق بھی مینار والے کمرے میں جاگتا رہا۔ معاذ اس کے ساتھ گدے پر سویا ہوا تھا پھر عنریق اٹھا اور کھڑکی سے آ لگا کمرے میں سے ہوا گزر رہی تھی عنریق نے کھڑکی سے سر نکالا اور نیچے دیکھا دور چاند بادلوں سے گزر رہا تھا نیچے بھنور بناتا پانی تھا سیاہ چٹانوں سے لہریں ٹکرا رہی تھیں جس سے ہوا میں پھوار بلند ہو رہی تھی جو مینار والے کمرے میں عنریق کے چہرے کو گیلا کر رہی تھی۔ عنریق نے زبان سے پانی کو چکھا تو وہ بڑے مزے کا نمکین تھا۔ پھر ایک پرندہ رات کے اندھیرے میں چیخا۔ جس کی آواز میں اداسی اور غم تھا لیکن عنریق کو پھر بھی پسند آئی یہ کونسا پرندہ تھا؟ اسے معلوم نہیں تھا عنریق سردی سے کانپنے لگا ابھی گرمیاں تھیں لیکن اس جگہ سمندر کے کنارے یہ گھر اس طرح بنایا گیا تھا کہ ہوا کا اس میں سے مکمل گزر ہو۔پھر اچانک وہ بے اختیار اچھلا اسے ایسے لگا جیسے کسی نے اسکے شانے کو چھوا ہے اس کا دل تیزی سے دھڑکنے لگا لیکن پھر اس کی ہنسی چھوٹ گئی کیونکہ اسے چھونے والا بے چارہ کی کی تھا۔ کی کی ہمیشہ عنریق کے ساتھ ہی سوتا تھا اکثر وہ اس کے پلنگ کے سرہانے بنی کسی چیز پر سو جاتا تھا اور وہ اپنے بڑے سر کو پروں میں چھپا لیا کرتا تھا لیکن آج کوئی پلنگ تو تھا نہیں اور انہوں نے گدے زمین پر بچھائے ہوئے تھے لہٰذا کی کی مجبوراً آج ایک الماری سے تھوڑے سے کھلے دروازے پر سویا ہوا تھا لیکن جب اس نے عنریق کے قدموں کی چاپ سنی تو وہ اپنی مستقل جگہ یعنی عنریق کے شانے پر آ کر بیٹھ گیا اور اس نے عنریق کو بھی حیران کر دیا کی کی بولا”شرارتی لڑکے ! بستر پر جاﺅ“ عنریق مسکرایا۔
سب سے مزے کا لمحہ وہ ہوتا تھا جب کی کی کوئی ایسا فقرہ بولے جو حالات کے عین مطابق ہو اب بھی وہ اتنی آہستگی سے بول رہا تھا جیسے کوشش کر رہا ہو کہ کہیں معاذ جاگ نہ جائے۔عنریق بولا”کی کی کل میں تمہیں سونے کے لئے کوئی جگہ بنا دوں گا تم اس الماری پر آرام سے نہیں سو سکتے اب میں سونے لگا ہوں کیسی عجیب رات ہے لیکن ہے مزے کی۔ہے نا“وہ بستر پر واپس آیا تو ٹھنڈ سے کانپ رہا تھا لیکن جلد ہی وہ معاذ کے ساتھ جڑ کر لیٹا تو گرم ہو گیا پھر وہ سو گیا اور اسے ہزاروں پرندے خوابوں میں دکھائی دینے لگے جن کی تصویریں وہ کھینچنے والا تھا شروع شروع میں یہاں کی زندگی عنریق اور نایاب کو عجیب لگتی رہی۔ بہت سال ہو گئے تھے ان کو ایک عام سے قصبے میں ایک عام سے مکان میں رہتے ہوئے لیکن یہاں بجلی نہیں تھی ٹونٹیوں سے گرم اور ٹھنڈا پانی نہیں آتا تھا یہاں اردگرد دکانیں نہیں تھیں یہاں تیل سے جلنے والی لالٹین تھی گھر کے پیچھے ایک چھوٹا سا صحن بنا ہوا تھا جہاں کنواں تھا جہاں گھر والے اپنی پانی کی ضرورتیں پوری کرتے تھے عنریق اور نایاب پانی چکھ کر پریشان ہو گئے کیونکہ کنویں کے پانی میں نمک نہیں تھا تزئین نے بتایا کہ یہ بالکل پینے کے قابل پانی ہے اتنا مزے کا جتنا گرمیوں میں بچے برف ملا پیتے رہتے ہیں ۔عنریق نے جھک کر اندھے سیاہ کنویں میں جھانکا اور کہنے لگا”میں چاہتا ہوں کہ پانی نکالنے والی مشک پر بیٹھ کر جاﺅں اور دیکھوں کہ کنواں آخر کتنا گہرا ہے ”تزئین نے کہا“ لیکن یہ بہت مضحکہ خیز ہو گا اگر تم اندر پھنس جاﺅ اور اوپر نہ آسکو اب آﺅ عنریق اور پانی کھینچنے میں میری مدد کرو اور ہر وقت خواب نہ دیکھا کرو تم ہر وقت خوابوں میں ہی کھوئے رہتے ہو“۔
معاذ نزدیک کھڑے کہنے لگا”اور تم ہمیشہ جلد باز اورہر کام میں بے صبری ہوتی ہو“تزئین نے یہ سن کر اسے غصے سے گھورا۔ وہ بہت جلد غصے میں آ جاتی تھی اور اسے غصہ دلانا بہت آسان تھا معاذ کی بات سن کر اس نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا“ اگر تمہیں اتنے کام کرنے کو دیئے جاتے جو مجھے اور نایاب کو کرنے کے لئے دیئے گئے ہیں تو تم بھی انہیں جلدی نپٹانے کی کوشش کرتے۔ آﺅ نایاب چھوڑو لڑکوں کو تاکہ ہم اپنے کام نبٹائیں۔ لڑکے ویسے بھی اتنے اچھے نہیں ہوتے” معاذ یہ باتیں سن کر اسے چیخ کر کہنے لگا“ بہتر یہی ہے کہ تم چلے ہی جاﺅ۔ اس سے پہلے کہ میں تمہیں ایک تھپڑ رسید کر دوں۔ یہ کہہ کر وہ اپنے بچاﺅ کے لئے تھوڑا سا پیچھے ہو کر کھڑا ہو گیا کہ مبادا تزئین اس پر جھپٹ پڑے۔ (نایاب حیران و پریشان ہو کر ان کے اتنی ہی جلدی راضی ہو جاتے تھے اور ایسا لگتا تھا جیسے ان کے درمیان کبھی لڑائی نہ ہوئے ہو شاپنگ کرنا ایک پوری ذمہ داری کا کام تھا۔) اس کا صریحاً مقصد یہی تھا کہ صغیر ایک لمبی چیزوں کی خریداری کی فہرست لے اور کھٹارہ کار نکال کر مہینے میں دو دفعہ قریبی قصبے میں جائے اور وہ اگر کوئی چیز بھول جائے تو پھر یہ چیز اگلی دفعہ آ کر ہی لی جا سکتی تھی سبزیاں صغیر چٹانوں کے درمیان ایک چھوٹی سی ہموار سطح پر خود بوتا تھا اور خود ہی کاشت کے تمام مراحل پورے کرتا تھا ایک صبح نایاب نے سب کو مشورہ دیا کہ سب کو صغیر کے ساتھ گاڑی پر سیر کے لئے جانا چاہئے لیکن معاذ نے نفی میں سر ہلایا وہ بلایا” کوئی فائدہ نہیں۔ میں اور تزئین کئی دفعہ صغیر کو درخواست کر چکے ہیں لیکن وہ کبھی ہمیں ساتھ لیکر نہیں جاتا اور ہمیشہ انکار کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اگر ہم نے کار میں گھسنے کی کوشش کی تو وہ ہمیں کار سے دھکا دیکر اتار دے گا”عنریق کہنے لگا“ بوڑھا پا جی!میں حیران ہوں تم اس کے ساتھ گزارا کیسے کرتے ہو؟”تزئین کہنے لگی“ اس لئے کہ اور اور کون ہو گا جو ایسی تنہا اور ویران جگہ پر ہمارے لئے کام کرے گا ظاہر ہے کوئی نہیں۔
صغیر بھی نہ کرتا اگر وہ خود اتنا عجیب نہ ہوتا“ ان باتوں کے باوجود پھر بھی نایاب نے صغیر سے پوچھا۔“صغیر مہربانی کر کے لے جاﺅ“ اور پھر معصوم نظروں سے اسے دیکھنے لگی اکثر وہ باتیں منوانے کے لئے ضد بھی کر لیتی تھی لیکن صغیر کے معاملے میں ایسا ممکن نہیں تھا صغیر نے اپنی بات سختی سے دہرائی اور انکار کر کے وہاں سے روانہ ہو گیا۔ اس کے طاقتور ہاتھ تیزی سے آگے پیچھے ہو رہے تھے۔ نایاب اس کے پیچھے چلنے لگی وہ کتنا ڈراﺅنا تھا آخر وہ کسی کو شاپنگ کرنے کے لئے ساتھ کیوں نہیں لیکر جاتا تھا؟ میرا خیال ہے صرف مردم بیزار ہونے کی وجہ سے وہ سوچ رہی تھی بہت سی مشکلات ہونے کے باوجود ساحل سمندر پر رہنا بہت مزے کا عمل تھا ہفتے میں صرف ایک بار انہیں نہانے کے لئے گرم پانی ملتا تھا شکر ہے گرم پانی ہفتے میں ایک بار ملتا تھا وگرنہ سنگلاخ راستوں سے روزانہ جا کر برتنوں میں یہ پانی بھر کر لانے جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا۔ چچا آصف کا حال یہ تھا کہ کئی دفعہ وہ انہیں کھانے پر بھی نہیں ملتے تھے ایک دن چچی ان کو ملانے کے لئے چچا کے مطالعہ والے کمرے میں لے گئیں تو انہیں یقین آیا کہ چچا بھی اسے گھر میں رہتے ہیں عنریق ہفتے میں ایک دفعہ پانی لا کر بھول گیا کہ اسے دوبارہ اگلے ہفتے پانی لانا بھی ہے یا نہیں خصوصاً جب تک وہ یہاں رہتا ہے کیونکہ وہ سمندر میں دن میں دو تین دفعہ نہا لیتا تھا لڑکیاں گھر کا کام کرتی رہتی تھیں چچی کھانا بناتی تھیں لڑکوں کو کنویں سے پانی نکالنا ہوتا تھا باورچی خانے میں آگ جلانے کے لئے لکڑیاں لانا ہوتی تھیں تیل کے چولہوں میں تیل ڈالنا ہوتا تھا وہ لالٹین لڑکیوں کے ساتھ باری باری صاف کرتے تھے یہ کام کوئی نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ یہ کام کرتے ہوئے ان کے ہاتھ اور کپڑے بہت گندے ہو جاتے تھے۔ صغیر کار کو سنبھالتا تھا اور سبزیوں کو بھی۔
اس کے علاوہ کئی دفعہ جھاڑ پونچھ کھڑکیوں کی صفائی جب وہ بہت گندی ہو جاتی تھیں اور اس کے علاوہ مختلف گھر کے کام بھی کرتا تھا۔ اس کی اپنی کشتی بھی تھی جو بہت مضبوط تھی اور ایک دن عنریق نے پوچھا”کیا ہم بھی کبھی کشتی پر سوار ہو سکتے ہیں“تو معاذ نے بتایا ”کبھی نہیں اور اجازت کے بغیر تو بالکل بھی نہیں اگر تم نے ایسا کیا تو وہ تم پر ہاتھ بھی اٹھا سکتا ہے۔ یہ کشتی تو اس کی آنکھوں کا تارہ ہے ہمیں اس پر پیر رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے“ عنریق کشتی کو دیکھنے اس کے نزدیک گیا یہ بہت خوبصورت کشتی تھی۔ اور خاصی مالیت کی بھی ہو گی۔ اس پر نیا نیا رنگ کیا گیا تھا اور بہت اچھی حالت میں تھی۔ کشتی میں پتواربھی تھے۔ مستول بھی تھا اور بادبان بھی اور کشتی سے مچھلیاں پکڑنے کا بندوبست بھی تھا ۔عنریق کا دل مچل رہا تھا کہ کشتی کے اندر جا کر اسے دیکھے لیکن ابھی وہ کشتی کے نزدیک کھڑا سوچ ہی رہا تھا کہ وہ کشتی پر پاﺅں رکھے یا نہیں اور اپنے پاﺅں کے نیچے کشتی کو ڈولتا محسوس کرے لیکن تبھی صغیر معمول کے مطابق بکتا جھکتا نمودار ہوا۔ اس نے آتے ہی پوچھا”تم کیا کر رہے ہو یہ میری کشتی ہے“ اس کی آنکھیں غصے سے اوپر چڑھ گئی تھیں اور ان کے اندر صرف سفید رنگ ہی نظر آ رہا تھا تبھی عنریق بے صبری سے بولا ٹھیک ہے ٹھیک ہے لیکن کیا میں اسے اندر سے دیکھ سکتا ہوں“ صغیر دوبارہ غرا کر بولا کہ ہرگز نہیں۔ کی کی بولا ”شرارتی لڑکا“ اور پھر صغیر کو دیکھ کر چیخا جو اسے ایسی نظروں سے دیکھ رہا تھا جیسے ابھی اس کی گردن ہی مروڑ دے گا۔عنریق نے کہا ”ٹھیک ہے تم بہت اچھے آدمی ہو“یہ کہہ کر وہ کشتی سے کچھ قدم پیچھے ہٹ گیا وہ دل ہی دل میں صغیر کے رویے سے گویا خائف ہو گیا تھا پھر وہ دوبارہ بولا لیکن میں تمہیں ایک بات بتا دوں۔ میں کسی نہ کسی طرح کشتی پر بیٹھ چلاﺅں گا اور تم مجھے پکڑ نہیں سکو گے“ صغیر نے عنریق کی طرف دیکھا۔ اس نے غصے سے آدھی آنکھیں موندی ہوئی تھیں اور غصے سے اس کا چہرہ تمتما رہا تھا۔ وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ تم نے اگر یہ حرکت کرنے کی کوشش کی تو وہ اسے ہر صورت روک لے گا۔
باب نمبر7…………….عجیب دریافت
اگر معاذ کے ساحل سمندر والے گھر میں صغیر نہ ہوتا تو جس طرح بچوں کی زندگی کا ایک معمول بن گیا تھا تو ماحول خوشگوار ہی رہنا تھا۔وہاں ان کی مرضی کرنے کے کئی کام تھے جیسے چٹانوں کے درمیان قدرتی طور پر صاف پانی کے تالابوں میں تیراکی‘ چٹانوں کے درمیان بنے ہوئی تاریک غاریں‘ ڈوری اور بنسی سے کسی چٹان پر بیٹھ کر مچھلیاں پکڑنا کیونکہ وہاں کئی دفعہ وہ خاصی بڑی مچھلیاں بھی پکڑ لیتے تھے لیکن صغیر کی موجودگی سے ان کے رنگ میں بھنگ پڑ جاتی تھی۔ اس کا ہر وقت بدتمیزی پر آمادہ رہنا اور جا بجا مداخلت ان کو کھلتی رہتی تھی اس کا ستا ہوا چہرہ برآمد ہوتا اگر وہ مچھلیاں پکڑ رہے ہوتے تو وہ آ کر ان کا یہ کہہ کر دل توڑتا کہ وہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔ ایک دن تنگ آ کر معاذ نے اسے کہا ”صغیر تم ہمارا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتے تمہارا رویہ ہمارے ساتھ ایسا ہے جیسے تم ہمارے محافظ ہو خدا کے واسطے ہمیں ہماری مرضی سے جینے دو۔ ہم کسی کا کوئی نقصان نہیں کر رہے ہیں۔ صغیر نے روایتی دکھ دینے والے لہجے میں کہا ”تمہاری چچی نے مجھ سے کہا ہے کہ تم پر نظر رکھوں‘ انہوں نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہیں کسی خطرے میں پڑنے سے بچاﺅ“ معاذ نے ناراضگی سے اسے کہا میں نہیں مانتا۔ مجھے تو صرف اتنا معلوم ہے کہ تم خواہ مخواہ وہاں ٹانگ اڑاتے ہو۔ جہاں ہم ہوتے ہیں اور ہمیں تنگ کرتے ہو۔ ہمارے معاملات میں دخل دینا بند کر دو ہمیں یہ ہرگز پسند نہیں ہے۔
نایاب کے لئے یہ بہت متاثر کن تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ معاذ کا صغیر جیسے تگڑے بندے کے ساتھ اس طرح بات کرنا بڑی بہادری کی بات تھی وہ واقعی ان کے لئے ایک مصیبت بن چکا تھا اگر وہ اچھی طبیعت کا شخص ہوتا تو وہ بھی اس کی بڑی عزت کرتے۔ وہ اس کے ساتھ کشتی کی سیر کو جاتے اور مچھلیاں پکڑتے۔ وہ اس کے ساتھ زیادہ بہتر انداز میں مچھلیاں پکڑ سکتے تھے وہ اس کے ساتھ کار میں جا کر پکنک منا سکتے تھے نایاب بولی”کیونکہ یہ شخص بہت غصیلا اور ہٹ دھرم ہے اس لئے اس کے ساتھ وقت تو گزارا ہی نہیں جا سکتا۔ ہو سکتا ہے ہم کشتی میں بیٹھ کر دکھوں کے جزیرے میں جا سکتے اور دیکھتے وہاں کیسے کیسے پرندے ہیں جیسا کہ عنریق کی خواہش ہے لیکن یہ سب ممکن تھا اگر صغیر اچھا انسان ہوتا تو ”معاذ بولا“ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اچھا انسان نہیں ہے اور ہم کبھی بھی دکھ والے جزےرے میں نہیں جا سکتے اور اگر ہم چلے بھی گئے تو میں شرط لگانے کو تیار ہوں کہ اتنی ویران جگہ پر کوئی پرندہ بھی نہیں ہو گا لیکن آﺅ چلیں اور اس بڑی غار کے اندر دیکھیں جو ہم نے کل دریافت کی تھی”ساحل پر غاروں میں پھرنا واقعی بڑے مزے کی بات تھی کئی تو چٹانوں میں بہت گہرائی میں بنی ہوئی تھیں کئی غاروں کی چھتوں میں بڑے بڑے سوراخ تھے معاذ ان کو بتا رہا تھا کہ پرانے زمانے میں انسان ان غاروں کو چھپنے کے لئے استعمال کرتا تھا یا پھر سمگلنگ کی چیزیں چھپا کر رکھتا تھا لیکن آج کل غاروں میں جڑی بوٹیوں اور گلے سڑے گھونگوں کے خولوں کے علاوہ کچھ نہیں ملتا۔عنریق کہنے لگا“ ہمارے پاس ایک ٹارچ ہونی چاہئے تھی میرے پاس موم بتیاں ختم ہو رہی ہیں اگر نزدیک کوئی دکان ہوتی تو ہم وہاں سے جا کر ایک ٹارچ خرید لیتے۔ میں نے صغیر کو شاپنگ پر جانے سے پہلے کہا بھی تھا لیکن وہ لیکر نہیں آیا۔ معاذ چلایا ارے دیکھو یہاں کتنی بڑی سٹار فش ہے۔
تزئین کی چیخ نکل گئی اسے رینگنے والی چیزوں سے بہت ڈر لگتا تھا جبکہ معاذ ان کو اتنا ہی پسند کرتا تھا وہ کہنے لگی”اسے مت چھوﺅ اور میرے قریب ہرگز نہ لانا“لیکن معاذ کو بہن کو تنگ کرنے میں بہت مزا آتا تھا اس نے فوراً سٹار فش انگلیوں میں پکڑی اور تزئین کی طرف چلنے لگا تزئین چیخ مار کر بھاگ کھڑی ہوئی ”تم بہت بدتمیز ہو‘ میں نے تمہیں کہا بھی ہے کہ اسے میرے پاس مت لاﺅ۔ میں اسے مار دوں گی اگر تم اسے میرے پاس لائے“معاءکہنے لگا تم سٹار فش کو کبھی نہیں مار سکتی اگر تم اس کے دو حصے بھی کر دو گی تو دونوں حصے علیحدہ علیحدہ دو سٹار فش بن جائیں گی لہذا اب اسے دیکھو تو …..اسے سونگھو تو……اسے محسوس تو کرو۔ معاذ نے یہ کہہ کر وہ چیز بہن کے منہ کی طرف پھینک دی۔ تزئین اب سچ مچ غصے میں تھی اس نے معاذ کو زور سے دھکا دیا جس کا توازن بگڑا اور وہ لڑکھڑا کر فرش پر جا گرا معاذ کے منہ سے چیخ نکلی لیکن ساتھ کوئی اور بھی تکلیف سے بولا اور پھر خاموشی چھا گئی عنریق نے پوچھا”بودی والے لڑکے! تم خیریت سے تو ہو؟“ یہ پوچھ کر اس نے موم بتی اونچی کر کے دیکھا لیکن یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ معاذ مکمل طور پر غائب ہو چکا تھا سٹار فش اگی ہوئی جڑی بوٹیوں پر رینگ رہی تھی مگر معاذ کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا تینوں بچے آنکھیں پھاڑے غار میں لٹکی جنگلی پودوں کی بیلیں دیکھ رہے تھے جو فرش تک جا رہی تھیں وہ حیران تھے کہ آحر معاذ کدھر گیا تزئین بہت خوفزدہ تھی بے شک وہ چاہتی تھی کہ معاذ کو زور سے دھکا دے لیکن وہ یہ ہرگز نہیں چاہتی تھی کہ وہ دنیا کے نقشے سے ہی سراسر غائب ہو جائے اس نے زور دار چیخ ماری اور زور سے کہنے لگی”معاذ کیا تم چھپے ہوئے ہو باہر نکلو بے وقوف“ تو ایک دبی دبی آواز کہیں سے آئی ارے میں کہاں ہوں؟عنریق بولا”یہ معاذ ہی کی آواز ہے لیکن وہ ہے کہاں؟ لگتا ہے تو ایسا ہی ہے کہ وہ غار میں ہی ہے“تینوں بچوں نے موم بتیاں اکٹھے آگے کیں اور بالکل نیچے چھت والی غار جس میں جا بجا جنگلی بیلیں اگی ہوئی تھیں میں جا بجا دیکھا ہر طرف کائی اور سیلن کی بو پھیلی ہوئی تھی معاذ کی آواز پھر کہیں سے آئی۔ انہیں اس کی آواز سہمی سہمی سی لگی وہ پوچھ رہا تھا کہ آخر وہ کہاں ہے؟عنریق پھسلن والی کائی پر بڑی احتیاط سے قدم جما کر چلا جہاں سے تزئین کے دھکے سے معاذ گرا تھا لیکن لاکھ احتیاط کے باوجود عنریق کا پاﺅں بھی پھسلا اور دونوں لڑکیاں دم بخود رہ گئیں جب عنریق بھی ان کی نظروں کے سامنے ہی غائب ہو گیا ایسا لگتا تھا جیسے وہ فرش میں سمو دیا گیا ہو۔ کیا حیران کن صورتحال تھی اب موم بتیوں کی ٹمٹماتی لو میں نکلا۔ کائی اور بیلوں نے فرش میں بنے ایک سوراخ کو ڈھانپ کر چھپا رکھا تھا اور جب لڑکوں نے اس سوراخ پر بوجھ ڈالا تو وہ اس بڑے سوراخ سے غار میں فرش سے نیچے گر گئے تھے تزئین کائی زدہ فرش میں سے نظر آتے ایک اندھیرے خلا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔
”میں صرف دعا ہی کر سکتی ہوں کہ کہیں ان کا کوئی بازو یا ٹانگ ٹوٹ نہ گئی ہو اور یہی وہ جگہ ہے جہاں وہ گرے ہیں“اب سوچو ہم ان کو باہر کیسے نکالیں” عنریق بیچارے پہلے سے گرے معاذ کے اوپر گرا تھا جیسے اسے پیس ہی دینا ہو ‘ کی کی جو غار میں اوپر رہ گیا تھا نے ایک دردناک چیخ ماری وہ ان تاریک غاروں سے بہت ڈرتا تھا تزئین بولی”بکواس بند کرو کی کی‘ دیکھو نایاب غار کے فرش میں کتنا بڑا سوراخ ہے اور اس کے اوپر کائی کی دبیز تہہ ہے اب احتیاط سے چلو ورنہ تم بھی غائب ہو جاﺅ گی اب اپنی اور میری دونوں موم بتیاں سنبھالو تو میں دیکھتی ہوں کہ آخر ہوا کیا ہے؟ لیکن جو ہوا تھا وہ بہت سادہ سی بات تھی پہلے معاذ اس سوراخ کے ذریعے غاز کے نیچے جا گرا تھا اور پھر عنریق اس کے اوپر جا گرا تھا معاذ ڈرا ہوا بھی تھا اور اسے چوٹ بھی لگی تھی اب ڈر کے مارے اُس نے عنریق کو زور سے پکڑا ہوا تھا اور اسے چھوڑ نہیں رہا تھا آخر معاذ نے پوچھا ”ہوا کیا ہے آخر“عنریق نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا غار کے فرش میں سوراخ تھا اس کے ساتھ ہی معاذ نے ہاتھ لمبے کر کے ٹٹولنا شروع کیا تاکہ اسے اندازہ ہو کہ غار کے جس حصے میں وہ گرے ہیں وہ کتنا بڑا ہے اس نے اردگرد چاروں طرف پتھرلیلی دیواروں کو فوراً چھو لیا اور پھر کہنے لگا میں اندازہ لگا رہا ہوں کہ اس غار میں ایک چھوٹی غار ہے۔ لڑکیو ذرا موم بتیوں کی روشنی سوراخ کے اوپر کرو تاکہ ہمیں کچھ نظر آئے فوراً موم بتیوں کی روشنی سوراخ کے اوپر ہوئی تو و کچھ دیکھنے کے قابل ہوئے اچانک حیرانی سے عنریق بولا ”ارے ہم کسی غار میں نہیں ہیں بلکہ یہ تو ایک راستہ ہے ہم ایک راستے کے شروع میں ہیں اب یہ پتا نہیں یہ راستہ کہاں جاتا ہے میرا خیال ہے سیدھا چٹانوں میں ……..”معاذ بولا“ ہمیں ایک موم بتی پکڑا دو۔ارے ……یہ کیا ہے؟ اوہ میرے خدایا یہ تو کی کی ہے“کی کی عادت سے مجبور بولا کیا تم دروازہ بند نہیں کر سکتے“ اب وہ بڑی مضبوطی سے عنریق کے شانے پربیٹھا تھا اور خوش تھا کہ وہ اپنے مالک کے ساتھ ہے اس نے سیٹی بجانی شروع کردی تو اسے منع کیا گیا۔ عنریق بولا ”خاموش رہو کی کی“دیکھو معاذ! واقعی یہ ایک راستہ ہے جو اوپر کی طرف جا رہا ہے یہ کتنا تنگ اور اندھیرا ہے اور اس میں یہ بو کیسی ہے تزئین جلدی سے موم بتی نیچے دو۔
تزئین نے آخر کار بڑی مشکل سے انہیں موم بتی پکڑا دی ایسا کرنے کے لئے اسے جڑی بوٹیوں اور جنگلی بیلوں اور کائی والے فرش پر اوندھا لیٹنا پڑا تب کہیں جا کر سوراخ کے ذریعے اس نے موم بتی لڑکوں تک پہنچائی عنریق نے اسے پکڑ لیا اندھیرا راستہ پراسرار اور حیرت انگیز تھا معاذ کہنے لگا“ کیا خیال ہے اس کو دیکھیں یہ کدھر جاتا ہے ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ ہمارے گھر کے آس پاس کہیں نیچے کو جاتا ہے یہ خفیہ راستہ ہے “عنریق کہنے لگا ” میرا خیال ہے کہ یہ چٹانوں کے درمیان کسی خفیف سی دراڑ کا نتیجہ ہے کی کی اتنے زور سے مجھے چونچیں مت مارو۔ ہم جلد ہی کھلی ہوا میں سانس لے رہے ہوں گے لڑکیو! ہم اس عجیب و غریب راستے سے اوپر جا رہے ہیں کیا تم ہمارے ساتھ آ رہی ہو “۔نایاب کہنے لگی نہیں شکریہ۔ ہم تو اس قسم کے راستے کا ذکر سننا بھی پسند نہیں کرتے۔ راستہ وہ بھی تنگ اور اندھیرا چٹانوں کے درمیان سے ہم ادھر سے ہی تمہارا انتظار کریں گی جب تک تم واپس نہیں آتے۔ زیادہ دیر مر کرنا۔ ہمارے پاس اب جلانے کو صرف ایک ہی موم بتی ہے کیا تمہارے پاس کچھ ماچس کی تیلیاں بقایا ہیں اگر تمہاری موم بتی بجھ جائے تو “۔عنریق نے جیب تھپتھپا کر دیکھا اور کہنے لگا ۔”ہیں اور اب فی الحال ہماری طرف خدا حافظ لیکن تم احتیاط کرنا اور سوراخ میں نہ گر جانا“پھر دونوں لڑکوں نے وہ اندھیرا سوراخ چھوڑا اور اُس نمی سے بھرپور راستے سے جانے لگے اب لڑکیوں کو کچھ ہی لمحوں کے بعد ان کی آوازیں یا ان کے قدموں کی چاپیں آنا بند ہو گئیں وہ صبر سے بیٹھی غار کے اوپر ان کا انتظار کرتی رہیں ان کے پاس اب ٹمٹماتی ہوئی ایک ہی موم بتی تھی وہاں سردی تھی اور وہ کانپ رہی تھیں وہ شکر کر رہی تھیں کہ آنے سے پہلے انہوں نے سویٹر پہن لئے تھے لڑکوں کو گئے خاصا وقت بیت گیا پہلے تو لڑکیوں کو تھوڑی کھدبد ہوئی لیکن پھر وہ باقاعدہ پریشان ہو گئیں انہیں کوئی مشکل تو نہیں آن پڑی۔ انہوں نے سوراخ میں جھانکا اور کوئی آواز سننے کی کوشش کی لیکن وہاں کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھیں نایاب بے صبری سے بولی ”تزئین کیا ہمیں ان کے پیچھے جانا چاہئے“ اگرچہ اس خیال سے ہی اس کی روح کانپ رہی تھی کہ اسے اس تنگ و تاریک راستے سے گزرنا پڑے گا مگر یہ اس کی فطرت میں شامل تھا کہ اگر اس کے بھائی کو اس کی ضرورت ہوتی تو وہ یہ کام کرنے میں بھی ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہ کرتی۔ تزئین نے کہا ”میرا خیال ہے کہ ہمیں صغیر کو بتانا چاہئے تاکہ وہ ہماری مدد کرے۔ وہ لیکر آئے گا میرا خیال ہے رسے کے بغیر لڑکے اس سوراخ سے واپس غار میں اوپر نہیں چڑھ سکتے“نایاب صغیر کو سخت ناپسند کرتی تھی وہ بولی ”نہیں ہمیں صغیر کو نہیں بتانا چاہئے ہمیں تھوڑی دیر اور انتظار کرنا چاہئے ہو سکتا ہے راستہ بہت لمبا ہو جس کی وجہ سے انہیں دیر ہو گئی ہو“ واقعی نایاب کی بات درست تھی راستہ لڑکوں کی توقع سے کہیں لمبا تھا وہ آڑا ترچھا رستہ جو چٹانوں کے بیچ سے جا رہا تھا اس کا رخ ہمیشہ اونچائی کی طرف ہی تھا وہاں مکمل تاریکی تھی اور موم بتی کی روشنی بھی اچھی طرح نہیں ہو رہی تھی۔ دونوں لڑکوں کے سر کئی دفعہ اطراف کی دیواروں میں لگے اس راستے کی چھت بھی ان کے سروں بے بس تھوڑی سی اونچی تھی لیکن اب راستے میں سیلن کا خاتمہ ہو رہا تھا اور فرش سوکھا ہوا مل رہا تھا پھر کائی کی بو بھی ختم ہو گئی لیکن اب انہیں تنگ راستے کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری آ رہی تھی معاذ ہانپتے ہوئے بولا۔
”یہاں کی ہوا تو بہت بھاری ہے مجھے سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے عنریق مجھے لگتا ہے شاید موم بتی بھی بجھنے والی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں آکسیجن کی کمی ہے مجھے لگتا ہے اب یہ راستہ ختم ہونے والا ہے اس نے جیسے ہی بات ختم کی راستہ بہت عمودی ہو گیا اور بہت ناہموار بھی ہو گیا۔ آخرراستہ ایک چٹانی دیوار کے ساتھ ختم ہو گیا لڑکے بہت حیران تھے معاذ کہنے لگا یہ کوئی حقیقی راستہ نہیں لگتا صرف چٹانوں کے درمیان ایک دراڑ ہے جیسے کہ تم نے کہا تھا لیکن یہ راستہ ناہموار ہے۔ ہے نا“جب موم بتی کی روشنی نیچے ناہموار راستہ پر پڑی تو انہیں اندازہ ہو گیا کہ یہاں جو سیڑھیاں سی بنی ہوئی تھیں وہ کسی انسان کی بنائی ہوئی لگ رہی تھیں لیکن آخر کیوں؟ عنریق نے موم بتی سر کے اوپر کر کے اور دیکھا تو حیرت سے چلایا “دیکھو ہمارے سروں کے اوپر ایک دروازہ بنا ہوا ہے یہاں تک راستہ جاتا ہے ۔ اب کوشش کریں اگر ہم اس راستہ کو کھول سکیں واقعی وہاں ایک بہت پرانا لکڑی کا دروازہ تھا جس نے اس راستے کا ایک سرا بند کیا ہوا تھا اب وہ سوچ رہے تھے کہ اگر ہم اس کو کھولنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو دیکھیں ہم باہر کہاں نکلتے ہیں۔
باب نمبر8…………….تہہ خانوں
معاذ کہنے لگا”آﺅ اسے اکٹھے زور لگا کر کھولنے کی کوشش کرتے ہیں میں موم بتی اس پتھر پر رکھ دیتا ہوں“اس نے ایک پتھر پر موم بتی موم کی مدد سے سختی سے جما دی پھر اس نے عنریق کے ساتھ ملکر خفیہ لکڑی کے راستے کو کھولنے کے لئے پورا زور لگا دیا۔ مٹی کی ایک پوری تہہ ان کے سروں پر پڑی معاذ نے آنکھیں بار بار جھپکیں وہ آدھا اندھا ہو چکا تھا عنریق نے تو ویسے ہی آنکھیں بند کر لی تھیں معاذ نے کہا ”عنریق آﺅ اسے ایک اور دھکا اور لگائیں مجھے لگا ہے جیسے یہ ہلا ہو“ انہوں نے پھر بھرپور کوشش کی اور اس دفعہ اچانک خفیہ دروازہ کھل گیا وہ کچھ انچ اوپر کو اٹھ گیا لیکن پھر نیچے گر گیا جس سے پھر مٹی کی ایک تہہ نیچے گری۔ عنریق بولا”کہیں سے کوئی بڑا پتھر ڈھونڈو جس پر ہم کھڑے ہو سکیں تھوڑا سا دھکا اور لگایا تو یہ دروازہ پوری طرح کھل جائے گا“ انہوں نے تین چار ستواں پتھر ڈھونڈے انہیں ایک دوسرے کے اوپر رکھا اور ان پر کھڑے ہو گئے پھر انہوں نے دروازے کو دوبارہ دھکا لگایا ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ دروازہ مکمل کھل گیا ہے اور اوپر کی جانب دونوں طرف فرش پر گر گیا اور ایک چوکور سوراخ ان دونوں کے سروں کے اوپر کھلا رہ گیا معاذ کہنے لگا مجھے اوپر اٹھانے میں مدد کرو۔
عنریق ”اور پھر عنریق نے اسے اٹھانے کے لئے پورا زور لگا دیا معاذ جلد ہی عنریق کی مدد سے اوپر والے حصے کے فرش پر جا پہنچا وہاں بھی اندھیرا تھا اور معاذ کو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا معاذ نے کہا ”موم بتی ہے دو عنریق اور پھر میں تمہیں اوپر اٹھاتا ہوں“ موم بتی معاذ تک پہنچ گئی لیکن جلد ہی بجھ گئی تبھی معاذ چیخا”ارے یہ کیا ہے؟ کیا مصیبت ہے؟ عنریق نے کہا “میرا خیال ہے کی کی ہو گا وہ میرے کندھے سے اڑ گیا ہے “اس دفعہ کی کی نے اڑتے ہوئے کوئی آواز نہیں نکالی تھی اور پورے خفیہ راستہ سے گزتے ہوئے ایک لفظ نہیں کہا تھا وہ اتنی تاریک جگہ کی دہشت سے ویسے ہی بہت خائف تھا بعد میں وہ تمام راستے عنریق کے شانے پر جم کر بیٹھا رہا تھا معاذ نے عنریق کو اوپر اٹھانے میں مدد کی اور پھر اپنی جیب سے ماچس نکالی تاکہ موم بتی کو دوبارہ روشن کیا جائے۔ پھر وہ معاذ سے پوچھنے لگا کیا تمہیں اندازہ ہے ہم کہاں ہیں میرا تو ذہن ماﺅف ہو چکا ہے”عنریق کہنے لگا“میرا خیال ہے یہاں دنیا ختم ہو جاتی ہے ہاں اب بہتر ہے کم از کم ہم دیکھ تو سکتے ہیں “اس نے جلتی ہوئی موم بتی پکڑی اور پھر دونوں لڑکوں نے ادھر ادھر دیکھا تو اچنک معاذ بولا“ مجھے پتا ہم کہاں ہیں ہم اپنے گھر کے نیچے تہہ خانوں میں سے ایک تہہ خانے میں ہیں وہ اوپر دیکھو سٹور میں پڑے ڈبے نظر آ رہے ہیں کھانے کے اور دوسری چیزیں“ عنریق بولا لو دیکھو! کیا بات ہے تمہاری چچی سٹور میں کھانے پینے کا کتنا خزانہ محفوظ رکھتی ہیں ہم نے تو بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہارے چچا اور چچی جان اس خفیہ راستے کے بارے میں جانتے ہوں گے؟معاذ کہنے لگا میرا خیال ہے وہ نہیں جانتے چچی کو معلوم ہوتا تو وہ کبھی نہ کبھی اس کا ذکر کرتیں مجھے بھی شاید یہ راستہ مکمل یاد نہ ہو سکے مجھے دیکھنے دو کہ اس تہہ خانے کا دروازہ کہاں ہے؟
لڑکے تہہ خانے میں ڈھونڈتے رہے کہ باہر جانے کا کون سا راستہ ہے وہ ایک مضبوط لکڑی کے دروازے کے پاس پہنچے لیکن وہ حیرت زدہ رہ گئے جب انہوں نے اسے مقفل دیکھا معاذ ناراضگی سے کہنے لگا اب ہمیں دوبارہ رینگتے ہوئے واپس وہیں تنگ و تاریک راستے سے جانا ہو گا میں یہ کرنا نہیں چاہتا لیکن یہ مقفل راستہ بھی باورچی خانے میں نہیں بلکہ کہیں اور جاتا ہے تمہیں اس میں سے گزرنے کے لئے اوپر کو جانا پڑے گا یہ یقیناً ایسا راستہ ہو گا جو ایک تہہ خانے کو کسی دوسرے تہہ خانے سے جدا کرتا ہے مجھے یاد نہیں میں نے کبھی اسے دیکھا ہو“پھر عنریق اچانک کہنے لگا سنو لگتا ہے کوئی آ رہا ہے اس کے تیز کان کسی کے قدموں کی چاپ سن رہے تھے معاذ کہنے لگا ہاں! یہ صغیر ہے آﺅ چھپ جائیں میں اس راستے کے بارے میں صغیر کو نہیں بتانا چاہتا ہم اسے ایک دوسرے میں ہی ایک راز کی صورت میں رکھیں گے خفیہ دروازے کو جلدی سے بند کر دو اور ہم چھپ جاتے ہیں جب صغیر دروازہ کھولے گا تو ہم آسانی سے نکل جائیں گے موم بتی بجھا دو “انہوں نے خفیہ دروازہ آہستہ سے بند کر دیا اور پھر مکمل تاریکی میں ایک بڑے پتھر کے عقب میں چھپ گئے انہوں نے دروازے کے قفل میں صغیر کو چابی لگاتے سنا دروازہ کھل گیا وہ دروازے سے باہر نکلا تو لالٹین کی روشنی میں بہت خوفناک دکھائی دے رہا تھا اس نے دروازہ کھلا رہنے دیا اور تہہ خانے کے عقب کی جانب چل دیا جہاں گھر کا سٹور اور باورچی خانہ تھا لڑکے ربڑ کے جوتے پہنے ہوئے تھے اور تاریکی میں بڑی آسانی سے اسی راستے سے نکل سکتے تھے لیکن تب کی کی نے وہ لمحہ صغیر کی کھانسی کی آواز کی نقل اتارنے کے لئے چنا۔ اس کی آواز کی گونج سے تہہ خانے میں گویا طوفان آ گیا۔ گھبرا کر صغیر کے ہاتھ سے لالٹین چھوٹ گئی اس کا شیشہ ٹوٹ گیا اور لالٹین بجھ گئی۔ صغیر نے ڈر کے مارے چیخ ماری اور دروازے سے بھاگ نکلا۔ وہ راستے میں لڑکوں سے ٹکرایا جس سے اس کے منہ سے ایک اور چیخ نکلی کیونکہ ٹکراتے وقت اسے دونوں لڑکوں کے جسموں کی گرمی محسوس ہو گئی تھی کی کی جو کھانسی کی نقل سے نکلنے والے نتائج سے متاثر ہو کر اترا رہا تھا۔ اس نے ایک اور دلدوز چیخ اپنے حلق سے نکالی تو صغیر کی بھاگتے ہوئے قلابازیاں لگ گئیں وہ گرتا پڑتا جب باورچی خانے میں پہنچا تو چچی وہاں بیٹھی تھیں وہ اسے دیکھ کر پریشان ہو گئیں اور پوچھنے لگیں ”کیا مسئلہ ہے تمہیں کیا ہوا ہے؟“ہانپتے کانپتے صغیر نے انہیں بتایا”نیچے چیزیں ہیں“اس کا چہرہ اتنا خوفزدہ تھا جو شاید کبھی نہ ہوا ہو۔ چچی سخت غصے میں بولیں چیزیں؟ ”چیزوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟“۔
صغیر ایک کرسی میں گر گیا اس نے آنکھیں بند کر لیں اور کہنے لگا“چیزیں جو چیخیں مارتی ہیں مجھے پکڑنے کی کوشش کرتی ہیں اور چلاتی ہیں “چچی جو فرائنگ پین میں چمچ ہلا رہی تھیں چمچ اور تیزی سے ہلاتے ہوئے بولیں“بے وقوف نہ بنو۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تم نیچے کرنے کیا جاتے ہیں اور آج تمہیں تہہ خانے سے کیا نکالنے کی اچانک ضرورت آن پڑی ہے میرے پاس باورچی خانے میں کافی آلو پڑے ہیں اپنے آپ کو ٹھیک کرو صغیر۔ تم اسی طرح کرتے رہے تو بچوں کو بھی ڈرا دو گے “ادھر دونوں لڑکے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے جب سے انہوں نے ڈر کے مارے صغیر کو تہہ خانے میں پٹختیاں کھاتے دیکھا تھا انہوں نے ایک دوسرے کو پکڑ لیا اور اتنی دیر ہنستے رہے جب تک کہ ان کی پسلیاں نہیں چڑھ گئیں عنریق بولا ”صغیر کو اپنے کئے کا بدلہ ملا ہے وہ ہمیشہ ہمیں ”چیزوں“ سے ڈرایا کرتا تھا اور اب ذہن کی پیدا کردہ چیزوں سے ڈر کر بھاگ گیا ہے“ معاذ نے کہا ”میرا خیال ہے کہ وہ چابی تالے میں ہی چھوڑ گیا ہے آﺅ اسے قابو میں کرتے ہیں تب ہمیں جب بھی یہ راستہ استعمال کرنے کی ضرورت ہو گی ہم آسانی سے اس راستے سے نکل جایا کریں گے“۔ پھر اس نے موم بتی جلائی اور مسکراتے ہوئے بڑی چابی اپنی جیب میں ڈال لی لڑکے تہہ خانے میں اُس جگہ پہنچے جسے وہ دیکھ چکے تھے،معاذ نے دلچسپی سے اُس دروازے کو دیکھا جس سے وہ آئے تھے۔معاذ بولا”مجھے معلوم نہیں ہو سکاکہ ایک تہہ خانے کے پیچھے کوئی اور تہہ خانہ بھی ہے “پھر اس نے بہت بڑے تہہ خانے کا جائزہ لیا اور پھر بڑبڑایا انہوں نے اس کو چھپایا ہوا ہو گا“ واقعی وہاں بڑے بڑے خالی ڈبے پڑے ہوئے تھے اور اب جب وہ ان کے متعلق سوچ رہے تھے تو معاذ کو انہیں دیکھتے ہوئے یاد آیا کہ واقعی ہر دفعہ یہاں ڈبوں کو سلیقے سے اوپر تلے رکھا ہوتا تھا کیا یہ صغیر نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہوتا تھا تاکہ بچے دوسرے تہہ خانے میں نہ جا سکیں جہاں سب دوسری چیزیں رکھی ہوتی تھیں کیا بچگانہ اور بے وقوفانہ بات تھی لیکن کیا فائدہ وہ انہیں وہاں جانے سے نہیں روک سکا تھا معاذ نے سوچا کہ وہ آسانی سے خفیہ راستے سے آ جا سکتے ہیں یا وہ دوروازے سے گزر سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس چابی ہے وہ صغیر کو شکست دینے پر بہت خوش تھا عنریق کہنے لگا میرا خیال ہے یہ سیڑھیاں اوپر باورچی خانے میں جاتی ہیں اوپر جانا اب خطرناک نہیں ہے کیا خیال ہے احتیاط کرنی چاہئے تاکہ کوئی ہمیں دیکھ نہ لے کیونکہ پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
”معاذ نے کہا“ میں اوپر چڑھ کر احتیاط سے دروازہ کھولتا ہوں اور سنتا ہوں کہ وہاں کوئی ہے تو نہیں “ یہ کہہ کر وہ گیا لیکن صغیر وہاں سے رفوچکر ہو چکا تھا اور چچی بھی وہاں نہیں تھیں باورچی خانہ بالکل خالی تھی۔ دونوں لڑکے اوپر چڑھے باہری دروازے پر آئے اور پہاڑی راستہ اترنے لگے انہیں کسی نے نہیں دیکھا تھا عنریق کہنے لگا لڑکیاں پریشان ہو رہی ہونگی کہ ہم پر کیا بیتی ہو گی؟ اس کو اچانک تزئین اور نایاب یاد آئیں جو بڑے صبر سے لڑکوں کا انتظار کر رہی تھیں اسی غار کے سوراخ کے پاس جہاں لڑکے پھسلے تھے وہ بولا ”آﺅ ان کو حیران کرتے ہیں وہ سوچ رہی ہونگی کہ ہم اسی راستے سے واپس آئیں گے ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ہم ادھر سے بھی آ سکتے ہیں“ وہ دوبارہ چٹانوں سے گھرے ہوئے ساحل سمندر پر پہنچے وہ دوبارہ صبح والی غار میں گئے دونوں لڑکیاں ابھی سوراخ کے کنارے ہی بیٹھی تھیں اور ان کے درمیان بڑی شد و مد سے گفتگو جاری تھی کہ وہ کیا کریں نایاب کہنے لگی” ہمیں اب اسی وقت کسی کی مدد لینی چاہئے مجھے یقین ہے کہ لڑکے کسی مصیبت کا شکار ہو گئے ہیں“معاذ کو دوبارہ وہی بڑی سٹار فش نظر آ گئی وہیں سٹار فش جس کی وجہ سے ساری مصیبت شروع ہوئی تھی بڑی خاموشی سے اس نے سٹار فش کو اٹھا لیا پھر دبے پاﺅں وہ کائی زدہ غار میں بیچاری تزئین کے پاس پہنچا اس نے سٹار فش اس کے بازو پر رکھ دی جو بازو پر بڑے خوفناک انداز میں رینگنا شروع ہو گئی تزئین ایک چیخ مار کر اچھلی جو کی کی کی چیخ سے بھی خوفناک تھی اور بولی ”معاذ تم جانور ہو۔ کیسے واپس آ گئے اب ٹھہر جاﺅ میں تمہیں پکڑ لوں تو تمہارے سر کے تمام بال نہ نوچے تو مجھے تزئین نہ کہنا”مجھے تم سے نفرت ہے“
سخت غصے کے عالم میں تزئین نے معاذ کو پکڑنے کے لئے چھلانگ لگا دی جو غار سے نکل کر باہر دوڑ رہا تھا وہ اس وقت ریتلے ساحل پر دوڑتا ہوا کچھ گنگنا بھی رہا تھا۔ نایاب نے اپنی باہیں بھائی کے گلے میں ڈال دیں۔ وہ اس کے بارے میں بہت پریشان رہی تھی اب وہ پیار سے اسے بار بار پوچھ رہی تھی”عنریق بھیا! تمہیں کیا ہوا تھا میں نے تمہارا بہت شدت سے انتظار کیا اور مجھے بتاﺅ تم کس راستے سے واپس آئے اور وہ خفیہ راستہ کہاں تک جاتا ہے؟“ لیکن تزئین اور معاذ کے چیخنے چلانے اور لڑنے سے اتنا شور ہو رہا تھا کہ عنریق کے لئے جواب دینا مشکل ہو رہا تھا اور اس شور میں کی کی بھی مزید شور کرنے کے لئے شامل ہو گیا تھا اب وہ اس طرح کی آوازیں نکال رہا تھا جیسے کوئی ریل گاڑی کسی سرنگ میں سے گزر رہی ہو۔ اب تزئین اور معاذ کے درمیان خاصی مزے کی جنگ جاری تھی ناراض تزئین نے بھائی کو پکڑ لیا تھا اور اپنی پوری طاقت سے بھائی پر گھونسے برسا رہی تھی”میں سٹارفش پھینکنے کا بدلہ لوں گی تم کو بخوبی علم ہے کہ مجھے ان چیزوں سے سخت نفرت ہے میں تمہارے بال نوچ لوں گی“ معاذ پھر تزئین سے چھوٹ گیا اور بھاگ نکلا تزئین کی مٹھی میں بھائی کے سر کے پھوڑے سے بال ضرور رہ گئے تزئین اب باقی دوستوں سے بھی ناراض تھی وہ ان سے اپنی تمنا کا اظہار کر رہی تھی ”وہ بہت برا ہے میں اس سے نہیں بولوں گی میری خواہش ہے کہ کاش وہ میرا بھائی نہ ہوتا”عنریق بولا“ وہ صرف مذاق کر رہا تھا“ لیکن عنریق کی اس بات سے معاملہ اور بھی خراب ہو گیا تزئین مزید ناراض ہو گئی نایاب اس کے چہرے پر عضے کو دیکھ کر پریشان تھی اس نے سوچا کہ وہ اپنے بھائی کا دفاع کرے گی اگر تزئین اس کے بھائی کی طرف بڑھی تو ”اب میرا تم دونوں سے بھی کوئی تعلق نہیں“ یہ کہہ کر تزئین ناراضگی سے وہاں سے چل دی۔
عنریق نے کہا تزئین اب وہ سارا قصہ سننے سے قاصر رہے گی جو کارنامہ وہ صبح سے اب تک انجام دے چکے ہیں ۔یہ سٹار فش کتنی بڑی ہے لیکن نایاب ہم تمہیں سارا کچھ بتائیں گے ہم واقعی ایک زبردست کارنامہ انجام دے چکے ہیں “تزئین جواب سخت غصے میں وہاں سے جا رہی تھی اچانک اسے یاد آیا کہ اس نے خفیہ راستے کے بارے میں بالکل ہی نہیں پوچھا اور یہ دونوں لڑکے کس راستے سے واپس لوٹے ہیں وہ الٹے پاﺅں واپس لوٹ آئی۔ اس نے دونوں لڑکوں اور نایاب کو ایک ساتھ دیکھا۔ جب وہ لوٹی تو معاذ نے منہ پر ے کر لیا لیکن تزئین کا رویہ برسات کے موسم کی طرح بدلتا رہتا تھا اور اس کا رویہ ٹھیک ہونے میں بھی وقت نہیں لگتا تھا اس نے پیار سے باہیں معاذ کی کمر میں ڈالیں اور کہنے لگی”مجھے معاد کر دو معاذ! اب مجھے ذرا خفیہ راستے کے بارے میں بتاﺅ کہ تم دونوں نے ساتھ کیا کیا۔ مہربانی فرما کر جلدی سناﺅ میرا سننے کو بہت دل کر رہا ہے“ اب امن دوبارہ قائم ہو چکا تھا جلد ہی دونوں لڑکیاں سن رہی تھیں اور لڑکے انہیں سارے دن کی کہانی سنا رہے تھے عنریق نے کہا ”میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہم نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔“ لڑکے سنا تو رہے تھے لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ آگے ان کے مستقبل میں کیا لکھا ہے۔
نواں باب…………….اجنبی کشتی
لڑکیاں کسی طرح بھی خفیہ راستے سے جانے کے لئے تیار نہیں ہوئیں حالانکہ لڑکوں نے لاکھ کوشش کر لی وہ اندھیرے سے گزرنے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی تھیں حالانکہ وہ جانتی تھیں کہ یہ بڑا حیرت انگیز سفر ہے لیکن پھر بھی انہیں ایک اندھیری بل کھاتی سرنگ سے رینگ کر گزرنا ہرگز پسند نہیں تھا۔ معاذ بولا”اصل میں تزئین ڈرتی ہے کہ پھر کوئی سٹار فش اس کے بازو پر نہ رینگنے لگے اور نایاب تو ہمیشہ اپنی سہیلی ہی کی طرفداری کرتی ہے“ لیکن اس طرح کے طعنے بھی لڑکیوں کو خفیہ راستے سے گزرنے کے لئے تیار نہ کر سکے لیکن وہ خفیہ راستے کے بارے میں ہر وقت سننے کو تیار تھیں لڑکے اگلے دن پھر تہہ خانے میں جا پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ صغیر نے ایک دفعہ پھر بڑے سامان کے ڈبوں کو دوسرے دروازے کے آگے رکھ دیا ہے اور اب وہ دروازہ آنکھوں سے اوجھل ہو چکا تھا یہ حیرانی کی بات تھی لیکن صغیر اکثر ایسی فضول حرکتیں کرتا رہتا تھا لیکن اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ ان کے پاس چابی تھی جو بہت اہم چیز تھی موسم آج خنک اور سہانا تھا نیلے آسمان پر سورج چمک رہا تھا بچوں نے تیراکی کے لباس لئے اور ساحل سمندر پر جا نکلے۔ جلد ہی گرمی سے ان کا برا حال ہو گیا معاذ‘ تزئین اور نایاب نے عنریق سے کہیں زیادہ سمندر میں تیراکی کی۔
عنریق خاموش تھا وہ مبہوت ہو کر سمندری پرندوں کو دیکھ رہا تھا جو ہزاروں کی تعداد میں ساحل سمندر آئے تھے وہ پرندوں کو پہچاننے کی کوشش کر رہا تھا اسے نایاب کی بھی پرواہ نہیں تھی اس بات سے نایاب مایوس تھی اس نے اپنی بہن کو سمجھاتے ہوئے کہا ”پرندے بھی مجھے پہچاننے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن نایاب وہ مجھے مکمل طور پر نہیں جانتے تم اپنی سہیلی کے ساتھ کھیلو کیونکہ اگر ہم دونوں بہن بھائی علیحدہ رہے تو یہ بدتمیزی ہو گی اور تزئین اور معاذ کیا سوچیں گے“اب ویسے بھی نایاب عنریق کا ہر وقت سایہ بنے نہیں رہتی تھی اور دوسروں کے ساتھ بھی وقت گزارنے لگی تھی لیکن وہ اکثر جانتی تھی کہ عنریق کہاں ہے اور جب اس کے آنے کا وقت ہوتا تو وہ اس کی راہ دیکھ رہی ہوتی تزئین کو وہ بے وقوف لگتی تھی اس کے وہم و گمان میں بھی کبھی نہیں آیا تھا کہ وہ معاذ کا اس طرح خیال کرے گی وہ نایاب کو بتاتی“میں تو اس وقت خوش ہوتی ہوں جب وہ میرے کام میں روڑے نہیں اٹکاتا۔ وہ مجھے بہت تنگ کرتا ہے پچھلے سال میں تو ڈر کر پاگل ہو گئی تھی جب اس نے دو کینچوے میرے تکیے میں ڈال دیئے تھے اور وہ ساری رات میرے بستر میں کلبلاتے رہے“ نایاب کو بھی یہ سن کر گھن آنے لگی لیکن اب تک وہ معاذ اور اس کی شرارتوں سے مانوس ہو چکی تھی اسے معلوم تھا کہ پیراکی کے تنگ لباس میں سے بھی وہ کوئی رطوبتیں نکالتا۔ کیڑا نکال سکتا ہے کل دو بڑے دوست قسم کے کیکڑوں کی باری تھی لیکن جب وہ حادثاتی طور پر ایک کیکڑے پر بیٹھ گئی اور اس نے نایاب کو چٹکی کاٹی تو نایاب کو معلوم ہوا کہ کیکڑے سمندر کے اندر ہی اچھے لگتے ہیں تزئین نے کہا ۔
”مجھے خوشی ہے کہ کم از کم عنریق اپنے ساتھ کی کی کو تو رکھتا ہے جب وہ سمندری پرندوں کو دیکھنے جاتا ہے مجھے کی کی بہت پسند ہے لیکن جب سے اس نے سمندری پرندوں کی آوازوں کی نقل کرنا شروع کی ہے مجھے لگتا ہے وہ پاگل ہو گیا ہے مجھے حیرت ہے کہ چچی جان اور کی کی کی اتنی گہری دوستی کیسے ہو گئی ہے“ واقعی چچی جان پرندے کی شیدائی ہو چکی تھیں وہ بہت چالاک توتا تھا اسے معلوم تھا کہ وہ آہستگی سے کہے گا بیچاری چچی تو وہ کھانے کی ر پسندیدہ چیز چچی سے حاصل کر سکتا ہے اس دفعہ چچی سے صغیر کو خاصی جھڑکیاں سننی پڑی تھی جب وہ کار پر خریداری کے لئے گیا تھا اور واپسی پر پرندے کے کھانے کے بیج بھول آیا تھا اس کو جھڑکیاں پڑتے دیکھ کر بچے خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے لیکن چچا آصف سے ملاقات کا تجربہ کی کی کے لئے کوئی اتنا اچھا نہیں تھا۔ ایک گرم دن توتا خاموشی سے مطالعہ والے کمرے کی کھلی کھڑکی سے اندر چلا گیا جہاں چچا آصف بیٹھے ہوئے تھے اور حسب سابق پرانے کاغذات اور کتابوں میں اُلجھے ہوئے تھے کی کی اڑا اور کتابوں کی الماری پر بیٹھ گیا پہلے تو وہ اردگرد کا جائزہ بڑے شوق سے لیتا رہا اور پھر ایک تحکمانہ لہجے میں بولا”میں نے تمہیں کتنی بار منع کیا ہے کہ سیٹی نہ بجایا کرو“ چچا آصف جو مکمل طور پر اپنی کتابوں میں گم تھے۔ وہ ڈر کر ان سے باہر نکلے انہوں نے توتے کو نہیں دیکھا تھا اور یہ یکسر بھول چکے تھے کہ ایک توتارہنے کے لئے ان کے گھر میں بھی آ چکا ہے وہ بیٹھ کر سر کھجانے لگے کہ اتنی تحکمانہ آواز سے کون بول رہا ہے کچھ دیر کے لئے کی کی خاموش رہا چچا آصف جب اس نتیجے پر پہنچے کہ انہیں کوئی غلطی لگی ہے تو پھر کاغذات میں گم ہو گئے کی کی نے پھر اسی لہجے میں پوچھا تمہارا رومال کدھر ہے چچا آصف کو یقین ہو گیا کہ اس کی بیوی کہیں نزدیک ہی ہے کیونکہ کی کی جواب چچی کی آواز کی کمال نقل اتار لیتا تھا چچی کی آواز میں ہی بول رہا تھا انہوں نے فوراً اپنی جیبوں میں رومال تلاش کرنا شروع کر دیا توتے نے کہا ”اچھا بچہ‘ اب اپنے پاﺅں صاف کرنا نہیں بھولنا“ تو چچا آصف نے کہا ”لیکن میری پیاری بیوی میرے پاﺅں تو گندے نہیں ہیں“ ۔
وہ سوچ رہے تھے کہ وہ شاید اپنی بیوی سے ہی بات کر رہے ہیں وہ پریشان اور ناراض تھے اکثر چچی ان کے پاس آکر انہیں پریشان نہیں کرتی تھی جیسے وہ اب غیر ضروری احکامات جاری کر رہی تھیں وہ واپس مڑے تاکہ بیوی کو کہیں کہ وہ جائے لیکن بیوی وہاں ہوتی تو وہ اسے دیکھ پاتے کی کی اب بالکل صغیر کی آواز میں کھانسا چچا آصف کو یقین تھا کہ صغیر ان کے کمرے میں موجود ہے۔ بہت ناراض ہوئے آج تمام لوگ کیوں ان کے کمرے میں آکر انہیں پریشان کر رہے تھے یہ معاملہ ان کے لئے ناقابل برداشت تھا وہ اپنے تئیں صغیر سے بولے دفع ہو جاﺅ دیکھتے نہیں میں مصروف ہوں“ توتے نے ناراضگی سے کہا ”اوہ تم ایک شرارتی لڑکے ہو“ پھر وہ دوبارہ کھانسا اور پھر بالکل اصلی چھینک جیسی چھینک ماری اور پھر تھوڑی دیر کے لئے خاموشی چھا گئی چچا آصف پھر کام میں جٹ گئے وہ ہونے والی مداخلت کو یکسر بھلا چکے تھے لیکن کی کی کو اس خاموشی سے ایسا لگا جیسے اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے وہ کتابوں کی الماری سے اڑا اور چچا آصف کے سفید بالوں والے سر پر بیٹھ گیا اور ریل گاڑی کے انجن کی سیٹی کی آواز نکالنے لگا چچا آصف بے چارے فوراً ہڑ بڑا کر اچھلے اس نے سر پر ہاتھ پھیر کر کی کی کو ہٹایا اور اتنا زور سے چیخے کہ چچی جان کو فوراً ان کے کمرے میں آنا پڑا کی کی فوراً کھڑکی سے باہر اڑ گیا“ اور اڑتے ہوئے ایسی آواز نکالی جیسے کوئی قہقہہ لگا رہا ہو چچی نے پوچھا” آصف! کیا بات ہے؟“ چچا آصف بہت غصے میں تھے بولے ”پہلے تو صبح سے لوگوں کا میرے کمرے میں تانتا بندھا رہا ہے کوئی مجھے جوتے صاف کرنے کا حکم سنا رہا تھا‘ کوئی کہہ رہا تھا کہ میں سیٹی نہ بجایا کروں اور پھر کسی نے زور سے کوئی چیز میرے سر پر دے ماری“ تو چچی نے مسکراتے ہوئے انہیں بتایا کہ وہ کئی آدمی نہیں تھے صرف کی کی تھا ”چچا چلائے“ صرف کی کی! صرف کی کی! اور کیا تم مجھے بتاﺅ گی کہ یہ کی کی کس بلا کا نام ہے؟“وہ اس لئے بھی مزید غصے میں آ گئے جب انہوں نے دیکھا ہ بجائے ان کی بیوی ان کی دلجوئی کرے الٹا ان کی باتوں پر مسکرا رہی ہے تو چچی نے بتایا کی کی ایک توتا ہے مہمان آئے ہوئے لڑکے کا توتا”چچا تو کب سے عنریق اور نایاب کو بھول چکے تھے۔
انہوں نے چچی کو ایسے گھورا جیسے وہ پاگل ہو گئی ہوں اور پھر پوچھنے لگے ،کونسا لڑکا اور کونسا توتا۔ کیا تم سٹھیا گئی ہو؟ چچی نے ٹھنڈی سانس لی اور بولیں“ تم چیزیں بڑی جلدی بھول جاتے ہو۔ انہوں نے چچا کو دونوں بچوں کی آمد کے بارے میں دوبارہ یاد دلایا اور پھر کی کی کے بارے میں وضاحت کی اور کہنے لگیں ”وہ دنیا میں سب سے ذہین توتا ہے چچی اب دل سے کی کی کو پسند کرتی تھیں چچا آصف نے آہستگی سے کہا “میری گذارش صرف یہ ہے کہ میں تمہاری بات کی تائید کر دیتا ہوں کہ واقعی وہ دنیا کا ذہین ترین توتا ہے لیکن اسے میرے کمرے سے باہر رکھا جائے کیونکہ اگر وہ آئندہ میرے کمرے میں آیا تو پھر میرے پھینکے ہوئے جوتے کی زد میں نہیں بچ سکے گا“ چچی نے دوبارہ کھڑکی کی طرف دیکھا تو انہیں ذہن میں آیا کہ چچا آصف نے آج تک کبھی بھی کسی چیز کا نشانہ لیا ہو تو کبھی بھی وہ صحیح ٹھکانے پر نہیں لگا۔ انہوں نے سوچا کہ بہتر ہے کہ وہ کھڑکی ہی بند کر دیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اگلی دفعہ کی کی کے آنے کے بعد انہیں وہ تمام چیزیں سنبھالنی پڑیں جو چچا آصف اس پر پھینکیں گے۔ چچی کے لئے ناراض ہونے والی کئی واقعات رونما ہو رہے تھے مثلاً بچے ہر وقت کھانے کا تقاضا کرتے رہتے تھے صغیر کی حرکتیں انہیں تنگ کر رہی تھیں اور اگر صغیر کوئی حرکت نہ بھی کرتا تو کی کی کچھ نہ کچھ گڑ بڑ کر دیتا اور اگر کی کی خاموش ہوتا تو چچا آصف کے جوتے پھینکنے جیسی باتیں سننے کو ملتیں چچی نے کھڑکی بند کی۔
اپنے کمرے میں گئیں اور اندر سے زور سے دروازہ بند کر لیا راہداری میں کی کی آواز گونجی دروازے کو اتنے زور سے بند مت کرو اور میں نے تمہیں کتنی دفعہ منع کیا ہے وغیرہ ”لیکن اس دفعہ چچی توتے پر برس پڑیں تم اچھے پرندے نہیں ہو بہت برے ہو“ کی کی یہ باتیں سنکر چیخ مارتا ہوا راہداری سے اڑا اور عنریق کو ڈھونڈنے لگا عنریق ہمیشہ اسے پیار کرتا تھا اور کبھی جھڑکتا نہیں تھا عنریق کدھر تھا؟ عنریق دوسرے بچوں کے ساتھ نہیں تھا وہ ایک چٹان پر چڑھا ہوا تھا اور سیدھا لیٹ کر بغور پرندوں کو دیکھ رہا تھا جو اس کے سر پر اڑ رہے تھے کی کی سیدھا جا کر اس پر بیٹھ گیا جس کی وجہ سے اسے فوراً سیدھا بیٹھنا پڑا اس نے کی کی کو کہا تو یہ تم ہو کی کی۔ اپنے پنجے مجھے نہ مار دینا کیونکہ میں نے صرف تیراکی کا لباس پہن رکھا ہے اب خاموش رہنا ورنہ تم باقی پرندوں کو بھی ڈرا دو گے میں اب تک پانچ قسم کے نئے بگلے دیکھ چکا ہوں “یہ کہہ کر اس نے کی کی کو پرے کیا اور پھر اردگرد دیکھنے لگا۔ اس نے عینک لگائی اور سمندر میں اس طرف دیکھنے لگا جہاں دکھ والاجزیرہ تھا اور جو ابھی تک اسے واضح نظر نہیں آ سکا تھا لیکن آج اگرچہ باقی چٹانیں دھند میں ڈھکی ہونے کی وجہ سے نظر نہیں آ رہی تھیں مگر کسی وجہ سے وہ جزیرہ صاف اور واضح نظر آ رہا تھا حیرانی سے عنریق کے منہ سے نکلا”یا خدا وہ رہا پراسرار جزیرہ جسے صغیر ہمیشہ برا کہتا ہے۔ آج وہ کیسا صاف نظر آ رہا ہے مجھے تو اس کے اردگرد کی چٹانیں بھی نظر آ رہی ہیں بلکہ وہ لہریں بھی جو ہر وقت اس کے ساحل سے ٹکرا کر اس پر دھند بنائے رکھتی ہیں“عنریق البتہ جزیرے پر پرندے نہ دیکھ سکا کیونکہ اس کی پہنی ہوئی عینک سے وہ زیادہ سے زیادہ جزیرہ اور اس کے اردگرد پھیلی چٹانیں ہی دیکھ سکتا تھا لیکن کسی نہ کسی طرح عنریق کو یقین ہو گیا تھا کہ وہاں ہزاروں پرندے ہیں۔ اس نے خود سے کہا ”نایاب پرندے! ایسے پرندے جو آج تک کسی نے نہ دیکھے وں گے ہو سکتا ہے ایسے جزیرے پر جہاں کوئی انہیں پریشان نہیں کرتا وہاں انہوں نے گھونسلے بنا رکھے ہوں یا خدا میری کتنی خواہش ہے کہ میں اس جزیرے پر جا سکوں یہ صغیر کتنا برا انسان ہے جس کی وجہ سے ہم پراسرار جزیرے پر نہیں جا سکتے۔
جب سمندر آج ہی کی طرح پرسکون ہو تو ہم کتنی آسانی سے جزیرے پر جا سکتے ہیں۔ اللہ تمہیںسمجھے صغیر“عنریق نے اپنی عینک سنبھالی اور پھر کسی شے کو شدید حیرت سے گھونے لگا وہ ایک کشتی تھی جو ساحل سمندر سے ایک میل دور کوئی چلا رہا تھا ایسا کیسے ہو سکتا ہے صغیر نے انہیں بتایا تھا کہ میلوں دور تک یہاں اس کے علاوہ کسی کے پاس کشتی نہیں ہے اور چچی نے بتایا تھا کہ اس ساحل سمندر پر دور دور تک کوئی نہیں رہتا چھ سات میل دور تک کوئی آبادی نہیں ہے اور چچا نے بتایا کہ اس ساحل سمندر پر دور دور تک کوئی نہیں رہتا چھ سات میل دور تک کوئی آبادی نہیں ہے عنریق خود سے بولا” پھر بھی چٹان کی مغربی جانب اتنی دور کس کی کشتی ہے یہ صغیر کے علاوہ کون ہو سکتا ہے؟ ۔
عنریق آخر اس نتیجے پر پنچا کر یہ صرف صغیر ہی ہو سکتا ہے اس نے سورج کی طرف دیکھا وہ خاصا اونچائی پر تھا اب کھانے کا وقت تھا اور اسے واپس جانا تھا اس نے ارادہ کیا کہ وہ راستے میں صغیر کی کشتی کو دیکھتا جائے گا کہ کیا وہ اپنی جگہ پر بندھی ہوئی ہے اور اگر کشتی نہ ہوئی تو اس کا مطلب ہے کہ دور کشتی میں صغیر ہی ہے لیکن کشتی وہیں موجود تھی اور اپنی مخصوص جگہ پر بندھی ہوئی تھی اور پانی کی لہریں اسے آہستگی سے ادھر ادھر کر رہی تھیں اور صغیر بھی وہیں موجود تھا جو لکڑی کے ٹکڑے باورچی خانے میں استعمال کے لئے اکٹھے کر رہا تھا تو پھر کشتی والا شخص کوئی اور تھا اور کہیں نزدیک ہی رہتا تھا اور اس کی اپنی کشتی بھی تھیں عنریق دوڑ کر دوسرے بچوں کے پاس پہنچا وہ یہ سنکر حیران بھی ہوئے اور خاموش بھی اور کہنے لگے” ہم جا کر دیکھیں گے کہ وہ شخص کون ہے اس کے دوستی کریں گے تاکہ اس کی کشتی پر سوار ہو کر مچھلیاں پکڑ سکیں”معاذ کہنے لگا“۔
یار عنریق تم نے بڑا کام کیا اور آخر کار تمہاری عینک نے پرندوں کے علاوہ کچھ اور بھی تمہیں دکھانا شروع کر ہی دیا ہے ”عنریق نے کہا “ہم کل جا کر دیکھیں گے میں تو ایک دفعہ دکھ کا جزیرہ دیکھنا چاہتا ہوں تاکہ دیکھ سکوں کہ وہاں کوئی نایاب پرندے ہیں بس مجھے لگتا ہے کہ مجھے ہر حال میں وہاں جانا چاہئے ”تزئین نے کہا“ کوئی صغیر کو نہ بتائے کہ ہم نے کسی اور کشتی والے کو دیکھا ہے وہ میں روکنے کی کوشش کرے گا اسے ہماری اس دلچسپی سے بہت نفرت ہے لہذا فیصلے کے مطابق چچی اور صغیر نے اس اجنبی کشتی والے کا ذکر نہیں کیا گیا وہ تہیہ کر چکے تھے کہ کل صبح اسے تلاش کریں گے اور اس سے بات کریں گے لیکن اگلی صبح کے ہونے سے پہلے ہی کچھ ہونا بقایا تھا۔
دسواں باب…………….رات کی مہم
اس رات عنریق سو نہیں سکا۔ پورا چاند تھا جو اسے کھڑکی سے نظر آ رہا تھا چاندنی چھن کر اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی وہ لیٹے لیٹے چاندی کے لئے اس تھال کو گھورتا رہا۔ وہ ہوا میں لہراتے منڈلاتے بگلوں کے متعلق سوچ رہا تھا اور ان سیاہ بگلوں کے متعلق جو چٹانوں پر کھڑے رہتے ہیں جن کی چونچیں پوری طرح کھلی رہتی ہیں اتنی دیر تک جب تک وہ نگلی ہوئی مچھلی ہضم نہیں کر لیتے اسے دکھ والا جزیرہ یاد تھا کیونکہ صبح ہی اس نے اسے دیکھا تھا اور بہت پراسرار لگا تھا وہ دنیا کے شور سے کتنا پرے اور تنہا تھا لیکن پھر بھی سب کا کہنا تھا کہ کبھی لوگ وہاں رہتے تھے اوراب وہاں کوئی کیوں نہیں رہتا تھی؟ اور وہ کیسی جگہ تھا؟ عنریق نے سوچا”کاش ممکن ہوتا تو میں آج رات ہی وہاں سے ہو آتا“ یہ سوچ کر وہ گدے سے شور مچائے بغیر اترا۔ اس نے معاذ کو بھی نہیں جگایا اور کھڑکی کے پاس چلا گیا اور باہر گھورنے لگا۔سمندر چاند کی کرنوں سے دمک رہا تھا۔ ادھر سیدھی کھڑی چٹانوں کے سائے بڑے بڑے دھبوں کی صورت میں سمندر پر پڑ رہے تھے۔ عام دنوں سے سمندر آج رات بہت پرسکون تھا اور ہوا کی تیزی میں بھی بہت کمی تھی کبھی کبھار ہوا عنریق سے کھڑکی میں کھڑے ہونے کی وجہ اس کے کانوں میں کوئی سرگوشی کی جاتی تھی پھر اچانک وہ حیرت سے دنگ رہ گیا ایک کشتی پانی میں اس کی طرف آ رہی تھی ابھی وہ کنارے سے خاصی دور تھی لیکن وہ ساحل کی طرف ہی آ رہی تھی یہ کس کی کشتی تھی؟ عنریق نے بہتیرا غور سے دیکھا لیکن اسے نظر نہیں آیا ایک کشتی رات کے وقت یہاں! یہ بہت حیرت انگیز بات تھی اُس نے سوچا”میں معاذ کو جگاتا ہوں“ وہ معاذ کے پاس اس کے گدے کے پاس پہنچا اور اسے جگانے لگا۔ معاذ‘ معاذ جاگو اور کھڑکی کے پاس آﺅ“۔ آدھے منٹ میں معاذ مکمل بیدار ہو گیا تھا اور کھڑکی سے عنریق کے ساتھ باہر جھانک رہا تھا۔
اس نے بھی کشتی دیکھی اور ہونٹ سکوڑ کر سیٹی ماری جس نے کی کی کو بھی جگا دیا جو فوراًعنریق کے سامنے آ کر بیٹھ گیا معاذ نے پوچھا”کیا کشتی میں صغیر سوار ہے مجھے تو اندازہ نہیں ہو سکتا کہ یہ کشتی اس کی ہے یا کسی اور کی۔ لیکن عنریق آﺅ نیچے ساحل پر چلیں اور کشتی کو قریب سے دیکھیں۔ میں تو بہت حیران ہوں کہ یہ کشتی رات کو وہاں کیا کر رہی ہے اور صغیر کے بارے میں مجھے حیرت یہ ہے کہ وہ ہم سب لوگوں کو نادیدہ چیزوں سے ڈراتا رہتا ہے لیکن وہ خود اس وقت کیسے باہر ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ صغیر ہے“ انہوں نے گرم کپڑے پہنے پیروں میں ربڑ کے جوتے پہنے اور پھر چکر کھاتی ہوئی سیڑھیوں سے نیچے اترنے لگے جلد ہی وہ چٹانوں والا راستہ عبور کر رہے تھے چاند کی روشنی میں کشتی آہستگی سے کنارے پر آ لگی معاذ آخر کار بولا” یہ تو صغیر کی کشتی ہے اب ہم آسانی سے اسے دیکھ سکتے ہیں اور کشتی کے اندر بھی صغیر ہی ہے وہ اکیلا ہے لیکن اس کے پاس کافی سامان ہے“ عنریق کہنے لگا ”ہو سکتا ہے وہ مچھلیاں پکڑتا رہا ہو آﺅ اس کی جان نکالیں معاذ “لڑکے چھپتے چھپاتے وہاں پہنچے جہاں کشتی آ رہی تھی صغیر بادبان سنبھال رہا تھا۔ اس نے کشتی اس جانب کھینچی شروع کر دی جہاں وہ ہمیشہ کشتی کو باندھا کرتا تھا لڑکے دم سادھے ایک چٹان کے پیچھے بیٹھے تھے صغیر نے بڑی کشتی آسانی سے اس کی مخصوص جگہ سے باندھ دی اور اور پھر کشتی سے سامان نکالنے لگا لیکن اسی وقت یکایک لڑکے اس کے قریب جا دھمکے اور بھوتوں کی طرح اچھلنے کودنے لگے اور کشتی کو زور زور سے ہلانے لگے صغیر کو کچھ پتا نہ چلا اس کا توازن بگڑا اور وہ کشتی سے سیدھا پانی میں جا گرا اس کے گرنے سے لہروں کے ارتعاش سے اچانک خاصا شور ہوا لیکن وہ فوراً سطح پر آیا اس کے چہرے پر سختی کے آثار چاندنی کی روشنی میں صاف دکھائی دے رہے تھے۔
لڑکے کو اس کے چہرے کے تاثرات سے تھوڑی بے چینی ہوئی صغیر پانی سے نکلا اپنے جسم کو کسی جانور کی طرح پھریری لے کر جسم سے پانی ہٹایا اور بڑی تیزی سے لڑکوں کی طرف آیا۔ عنریق نے معاذ کو کہا ”یہ تو جیسے ہمیں کھانے کے لئے آ رہا ہے آﺅ یہاں سے بھاگیں“ لیکن گھر جانے والے راستے کے بیچ صغیر کا مضبوط جسم کھڑا تھا وہ دانت بھینچ کر بولا” اب میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ ایسے لڑکوں کا کیا حشر ہوتا ہے جو رات کو جاسوسی کرتے پھرتے ہیں عنریق نے اسے جھکائی دینے کی کوشش کی لیکن صغیر نے اسے پکڑ لیا اس نے مکا ہوا میں لہرایا ادھر عنریق کے منہ سے چیخ نکلی اسی وقت معاذ نے پورے زور سے صغیر کو دھکا دیا۔ اس دھکے سے صغیر کا توازن بگڑا اور اس کے ہاتھ سے عنریق چھوٹ گیا لڑکے پوری تیزی سے ساحل سمندر پر دوڑنے لگے لیکن وہ اس پتھریلے راستے جو گھر کی طرف جاتا تھا کی مخالف سمت کو دوڑ رہے تھے اور صغیر ان کے پیچھے تھا معاذ ہانپتے ہوئے بولا”اب واپس بھی نہیںمڑ سکتے صغیر آج ہماری چٹنی بنا کر کھائے گا عنریق اس غار کی طرف بھاگو تو ہو سکتا ہے ہم اس خفیہ راستے تک پنچ جائیں یہ اب ہماری زندگی موت کا مسئلہ ہے میں نہیں جانتا یہ خبیث آدمی غصے میں کیا کر بیٹھے ہو سکتا ہے ہمیں قتل ہی کر دے“ انتہائی ڈرے ہوئے دونوں لڑکے آخر غار میں گھس گئے اور پھر اپنی جان بچانے تاریک خفیہ راستے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو ہی گئے صغیر بھی پوری تیزی سے ان کے پیچھے پیچھے تھا لیکن پھر انہوں نے غار کے باہر ہانپتے ہوئے صغیر کے سانسوں کی آوازیں سنیں وہ دعا مانگ رہے تھے کہ صغیر اس تاریک سوراخ میں نہ گھس آئے اس نے ایسا نہ کیا وہ غار کے دھانے پر کھڑا انتظار کرتا رہا تاکہ لڑکے خود ہی غار سے باہر نکلیں اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ غار کے اندر کوئی خفیہ راستہ بھی ہو سکتا ہے وہ باہر مٹھیاں بھنچے کھڑا تھا اور بری طرح ہانپ رہا تھا ایک تیز لہر آئی جس نے صغیر کے ٹخنوں کو ڈھانپ لیا لہریں تیزی سے آ رہی تھیں وہ بڑ بڑا رہا تھا کہ اگر یہ دونوں باہر نہیں نکلتے تو ساری رات اسی غار میں ہی قید رہیں گے وہ یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا تھا کہ سمندر کی سرکش لہریں اسے جا بجا پٹختیں پھریں وہ سوچتا جا رہا تھا کہ اب یہ دونوں لڑکے غار میں ہی ساری رات بسر کریں گے اور میں صبح سویرے ان سے نبٹوں گا جیسے ہی سمندر کی لہریں صبح کچھ پر سکون ہوں گی ان کے استقبال کے لئے تیار ہوں گا اور جو سزا میںان کو دوں گا یہ ساری عمر اسے یاد رکھیں گے لیکن لڑکے غار میں بیٹھے کانپ نہیں رہے تھے۔
وہ خفیہ راستے کو ایک بار پھر عبور کر رہے تھے لیکن فرق صرف یہ تھا کہ موم بتیاں موجود نہیں تھیں اور راستہ مکمل تاریک تھا خفیہ راستہ بہت ڈراﺅنی جگہ ہو گی مگر صغیر سے زیادہ نہیں۔ آخر وہ خفیہ دروازے پر پہنچے اور اسے دھکا دیکر کھولا پھر وہ اوپر چڑھ کر پتھریلے فرش والے تہہ خانے میں پہنچ گئے اور پھر دروازہ بند کر دیا عنریق نے کہا ”میرا ہاتھ پکڑلو اور ہم دونوں ملکر دوسرا راستہ بھی ڈھونڈ لیں گے تمہیں وہ راستہ تو یاد ہی ہو گا میں تو بھول گیا ہوں“ وہ باتیں کرتے وقت سردی سے زیادہ خوف سے کانپ رہا تھا معاذ کو یقین تھا کہ وہ راستہ جانتا ہے لیکن پھر اسے کچھ لمحوں کی تلاش کے بعد احساس ہوا کہ وہ راستہ بھول چکا ہے انہیں دوسرے تہہ خانے کا راستہ ڈھونڈتے خاصا وقت لگ گیا انہوں نے دروازہ ڈھونڈنے کے لئے بڑا جتن کیا اور آخر مختلف قسم کے کئی ڈبوں کو گرا کر انہیں دروازہ نظر آیا۔ وہ مقفل نہیں تھا وہ شکر کر رہے تھے کہ انہوں نے چابی اڑا لی تھی معاذ نے دھکا دیکر دروازہ کھول لیا جس سے دوسری طرف لگے ڈبوں کی قطار ایک زور دار دھماکے سے نیچے گر گئی جس کی گونج تہہ خانے کے کونے کونے میں گئی دونوں لڑکے دم بخود کھڑے رہ گئے اور انتظار کرنے لگے کہ مباوا کسی نے سنا ہو تو ادھر آئے لیکن کوئی نہیں آیا انہوں نے ڈبے دوبارہ ترتیب سے لگا دیئے پھر وہ سیڑھیاں چڑھ کر چاند کی روشنی میں چمکتے باورچی خانے میں آ گئے اب وہ سوچ رہے تھے کہ صغیر کہاں ہو گا کیا وہ ابھی تک غار کے دہانے پر کھڑا ان کے باہر نکلنے کا انتظار کر رہا ہو گا لیکن وہ وہاں نہیں تھا وہ تیزی سے اپنی کشتی کی طرف گیا تھا اس میں سے کئی چیزیں نکالی تھیں اور پھر پتھریلے راستے پر چلتا ہوا گھر کی طرف روانہ ہو گیا تھا وہ اپنے سونے والے کمرے میں پہنچا جو باورچی خانے کے بالکل ساتھ تھا وہ سوچ رہا تھا کہ دونوں لڑکے غار میں کانپ رہے ہونگے جب ایک زور دار آواز اس کے کانوں نے سنی یہ آواز ان ڈبوں کے گرنے کی تھی جو تہہ خانے میں گرے تھے لیکن صغیر کو اس حقیقت کا ابھی علم نہیں ہوا تھا وہ اپنے سونے والے کمرے میں کھڑا تھا جیسے اس کے پیر زمین سے جڑ گئے ہوں یہ آواز آخر کیسی تھی؟ اس نے پتا کرنے کی جرات نہیں کی۔
اگروہ کر لیتا تو وہ ان دونوں کو چاند کی روشنی میں باورچی خانے سے چوری چوری گزرتا ضرور دیکھ لیتا وہ انہیں ڈرے چوہوں کی سی تیزی سے سیڑھیاں چڑھتے ضرور دیکھ لیتا جلد ہی دونوں لڑکے اپنے سونے والے گدوں پر تھے اور صحیح سلامت پہنچنے پر خدا کا شکر ادا کر رہے تھے۔ وہ یہ سوچ کر ہنس رہے تھے کہ صغیر ابھی تک وہی کھڑا ان کا انتظار کر رہا ہو گا اور ادھر صغیر کی باچھیں کھلی تھیں۔ یہ سوچ کر ابھی دونوں لڑکے غار میں ہونگے اور صبح وہ اسی جیسے ہتھیار سے لیس ہو کر جائے گا اور انہیں یاد رہنے والی سزا دے گا آخر کار وہ سب سو گئے صغیر صبح سب سے پہلے بیدار ہوا اور باورچی خانے میں آگ سینکنے لگا اس نے اپنے معمول کے کام ختم کئے اور پھر ایک مضبوط رسی کو کمر سے باندھ لیا اب وہ وقت آ گیا تھا جب وہ ساحل سمندر پر جاتا اور دونوں لڑکوں کو قابو کرتا لہریں اس کے خیال کے مطابق اتنی پرسکون ہو چکی ہوں گی کہ اب لڑکے غار سے باہر نکلنے کی سوچ رہے ہوں گے لیکن پھر شدید حیرت سے اس کے پاﺅں جیسے پتھر کے ہو گئے جب اس نے دیکھا کہ چاروں بچے ہنستے بولتے باورچی خانے میں داخل ہو رہے ہیں وہ آپس میں اونچی آواز میں باتیں کر رہے تھے“ آج پتا نہیں ناشتے میں کیا ملے گا انہیں بہت بھوک لگی ہوئی ہے“ لڑکو کیا تم رات کو مزے سے سوئے تھے “پھر معاذ کے منہ نکلا “ ہم ساری رات بہت گہری نیند سوئے رہے“پھر عنریق بھی گفتگو میں شامل ہو گیا اسے صغیر کے چہرے پر حیرت کے آثار دیکھ کر بہت مزا آ رہا تھا وہ کہنے لگا ”بڑی گہری نیند تھی میرا خیال ہے کی کی نے کئی دفعہ ریل گاڑی کے انجن کی سیٹی کی آواز نکالی لیکن وہ بھی ہمیں جگا نہیں سکا“ تزئین نے پوچھا ”صغیر آج ناشتے میں کھانے کو کیا ملے گا“ دونوں لڑکیاں لڑکوں سے ان کی رات کی مہم کے بارے میں سن چکی تھیں اور اب وہ بھی لڑکوں ے ساتھ مل کر صغیر کو چڑا رہی تھیں جو ابھی تک سوچ رہا تھا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے اور لڑکے ابھی بھی غار میں ہی ہیں آخر صغیر نے پوچھا ”کیا تم دونوں لڑکے ساری رات اپنے کمرے میں سوئے رہے ہو؟“اسے نہ اپنی آنکھوں پر یقین آ رہا تھا اور نہ کانوں پر۔ تو معاذ نے لاپرواہی سے کہا ” تو ہم اور کہاں سوتے ہیں کیا دکھ والے جزیرے پر؟“ صغیر کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا اور وہ واپس مڑ گیاوہ سوچ رہا تھا رات جو ہوا وہ یہ لڑکے نہیں کر سکتے۔
یہ بھی صحیح تھا کہ وہ ان دونوں کے چہرے بالکل واضح طور پر نہیں دیکھ سکا تھالیکن اسے یقین تھا کہ وہ عنریق اور معاذ ہی تھے لیکن اب ایسا ہونا ناممکن لگ رہا تھا اتنی اونچی لہروں کی موجودگی میں کوئی بھی اس غار سے باہر نہیں نکل سکتا تھا تو پھر یہ لڑکے کیسے نکل سکتے ہیں اس کے لئے بہت پریشانی کا عالم تھا اور صغیر کو یہ سب پسند نہیں آ رہا تھا۔ آخر اس نے سوچا کہ اسے نیچے غاروں کے پاس جا کر دیکھنا چاہئے کہ غاروں سے کون نکلتا ہے اور مجھے معلوم ہو جائے گا کہ رات اس کی جاسوسی کون کرتا رہا ہے یہ سوچ کر وہ نیچے غار کے پاس گیا اور دو گھنٹے وہاں کسی کے باہر نکلنے کا انتظار کرتا رہا لیکن یہ بھلا کونسی حیرانی والی بات تھی کہ وہاں کوئی بھی نہیں تھا عنریق جو پتھریلے راستے پر کھڑا صغیر کی بے چینی دیکھ رہا تھا ہنستے ہوئے کہنے لگا ”اسے صورتحال کی قطعی سمجھ نہیں آ رہی ہے سب سے اچھا ہم یہ کیا کہ ہم نے خفیہ راستے کا ذکر کسی سے نہیں کیا جس کا بھرپور فائدہ ہم نے کل رات حاصل کیا ہے“تزئین کہنے لگی صغیر اب تم دونوں کو بھی ان چیزوں میں شامل کر لے گا جن سے وہ ہمیں ہمیشہ ڈراتا رہا ہے بے وقوف صغیر! ہمیں سوچتا رہا کہ ہم دودھ پیتے بچے ہیں جو اس کی باتوں سے ڈر جائیں گے”نایاب پوچھنے لگی“ آج جب ہم کام ختم کر لیں گے تو پھر کیا کرنے کا ارادہ ہے بہت سہانا موسم ہے کیا ہم پکنک نہیں منا سکتے یا ساحل سمندر پر چٹانوں کے اوپر مٹر گشت “وہ باتیں کرتے ہوئے ایک لالٹین بھی صاف کر رہی تھی ۔
عنریق ذہن پر زور دیتے ہوئے بولا ہو سکتا ہے ہمیں وہ آدمی سرراہ مل جائے جسے ہم نے کل دیکھا تھا یہ بہت اچھا ہو گا ہو سکتا ہے وہ ہمیں اپنی کشتی پر آنے دے تزئین اپنی چچی جان سے پوچھ لو کیا ہم اپنا کھانا اپنے ساتھ لیکر جا سکتے ہیں چچی نے انہیں اجازت دیدی اور آدھے گھنٹے میں وہ روانہ بھی ہو گئے۔ راستے میں انہیں صغیر بھی ملا وہ اپنی سبزیوں میں گوڈی کر رہا تھا جو گھر کے پیچھے اگائی ہوئی تھیں معاذ چلایا”صغیر کیا تمہاری رات خیریت سے گزری کیا تم بھی ہمارے جیسے اچھے بچوں کی طرح ساری رات سوئے رہے“ صغیر فوراً غصے میں آ گیا اور انہیں دھمکیاں دینے لگا۔ کی کی نے فوراً اس کی نقل اتارنی شروع کر دی جس سے وہ جھکا تاکہ کوئی پتھر اٹھا کر کی کی کو مارے کی کی بولا”شرارتی لڑکا!فوراً اپنے بستر میں لیٹو“ شرارتی لڑکا“ اب وہ فضا میں صغیر کی پہنچ سے باہر خاصا اونچا اڑ رہا تھا۔
باب نمبر11…………….پرویز صاحب
معاذ اور بچے جب چٹانوں پر چڑھ رہے تھے اُنہوںنے پوچھا”عنریق !تم نے اس اجنبی کشتی کو کہاں سے دیکھا تھا؟“ تو عنریق اشارہ کرتے ہوئے بولا”وہاں اوپر سے۔ چٹانوں کے پیچھے۔ وہ بہت بڑی کشتی تھی شاید انجن والی۔ پتا نہیں جب اس کا مالک اسے استعمال نہیں کرتا تو کہاں کھڑا کرتا ہو گا؟لیکن وہ جو بھی ہے کہیں قریب ہی رہتا ہے لیکن مجھے تو دور دور تک کس کی رہائش نظر نہیں آتی”معاذ نے کہا“ واقعی دور دور تک باقاعدہ گھر تو نہیں بنے ہوئے ہیں یہاں لوگ بہت عرصہ پہلے رہتے رہے ہیں لیکن پھر یہاں جنگیں شروع ہو گئیں اور گھروں کو آگ لگنا شروع ہو گئی اور اب یہ ایک تباہ حال علاقہ ہے لیکن یہ اس قسم کے شخص کے لئے رہنے کو مناسب جگہ ہے جو تنہا رہنا چاہتا ہوں اور کوئی چھٹی گزارنا چاہتا ہو“ وہ چٹانوں کے اوپر چلتے رہے کی کی ان کے سروں کے اوپر اڑ رہا تھا اور تھوڑی تھوڑے وقفے کے بعد سمندری پرندوں کی طرح آوازیں نکال کر سمندری بگلوں کو حیران کر دیتا معاذ کو ایک جھاڑی میں ایک غیر معمولی جھینگر نظر آیا جو اس نے تزئین کے بھرپور احتجاج کے باوجود اٹھا لیا اسی طرح اس نے جیب میں ایک چھپکلی بھی ڈال لی یہ سب دیکھنے کے بعد تزئین اب اس سے خاصی دور رہ کر چل رہی تھی نایاب بھی پریشان تھی۔
نایاب کو زندہ حشرات الارض سے اتنا خوف نہیں آتا تھا لیکن وہ یہ بھی پسند نہیں کرتی تھی کہ معاذ جیب میں جھینگر اور چھپکلی ڈال کر پھرے یا وہ نایاب کو درخواست کرے کو وہ یہ چیزیں پکڑ کر گھر تک لے جائے کیونکہ معاذ کا کچھ پتا نہیں تھا کہ اس کی جیب میں کوئی اور ایسا جاندار بھی ہو جو جھینگر اور چھپکلی کو جیب میں ڈالنے پر چٹ کر کر جائے وہ سب خوشی خوشی جا رہے تھے تند و تیز سمندری ہوا انہیں مزا دے رہی تھی سمندر نے ساری آب و ہوا نمکین کی ہوئی تھی اور سمندر کی بڑی بڑی لہروں نے نیچے ساحل پر شور مچا رکھا تھا ان کے پیروں کے نیچے نرم نرم گھاس آ رہا تھا اور آسمان پر بے شمار پرندے اڑ رہے تھے یہ بہت مزے کی چھٹیاں تھیں پھر وہ چٹانوں کے اس حصہ پر پہنچے جہاں یہ چٹانیں نیچے کو جھکی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے انہیں بالکل کناروں پر چلنا پڑا عنریق کہنے لگا”مجھے تو سمندر میں دور تک کوئی کشتی نظر نہیں آ رہی۔ معاذ نے پوچھا یاد کرو عنریق! کیا وہ تمہارا وہم تو نہیں تھا یہ بہت عجیب بات ہے ہ آج کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ اتنی بڑی کشتی نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتی”نایاب بولی“ وہ دیکھو نیچے ایک دراڑ نظر آ رہی ہے جہاں سے روشنی چھن چھن کر ساحل سمندر پر آ رہی ہے آﺅ وہاں جا کر پکنک مناتے ہیں وہاں ہم سمندر میں نہا بھی سکیں گے یہاں ہوا بہت تند و تیز ہے مجھے تو سانس چڑھ رہی ہے اور چلا بھی نہیں جا رہا وہ سب عمودی چٹانوں سے نیچے اترنے لگے لڑکے آگے تھے اور لڑکیاں پیچھے کبھی کبھی ان کے پیر پھسلتے لیکن وہ پہاڑوں پر چڑھنے کے عادی تھے لہذا آسانی سے چٹانوں سے نیچے اتر آئے یہاں وہ تند ہوا کے زور سے محفوظ تھے خاموشی بھی تھی اور اتنی ٹھنڈ بھی نہیں تھی بچوں نے سویٹر اتار لئے اور پانی میں کھیلنے کے لئے سمندر میں گھس گئے معاذ بہت اچھا تیراک تھا تیرتا ہوا ان سیاہ چٹانوں تک اکیلا چلا گیا جو ساحل سے کچھ دور سمندر میں کھڑی تھیں وہ بہت اونچی تھیں اور ان کے پیچھے کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا معاذ تیرتا ہوا وہاں تک پہنچا اور پھر ان چٹانوں کے اوپر چڑھ گیا اور وہاں کھڑا ہو کر اس نے دوسری سمت دیکھا تو اسے اچانک کشتی نظر آ گئی۔
وہاں ایک محفوظ کگر تھی جہاں تک لہریں اپنا زور نہیں کر سکتی تھیں اس کشتی کو اس کگر کے ساتھ باندھا گیا تھا یہ وہ کشتی تھی جسے عنریق نے ایک دن پہلے دیکھا تھا اور کوئی بھی اس کشتی کو نہیں دیکھ سکتا تھا جب تک وہ معاذ کی طرح ان چٹانوں پر نہ چڑھتا کیونکہ ساحل سمندر سے ان سیاہ چٹانوں کے پیچھے کچھ بھی دکھائی نہیں دے سکتا تھا۔ معاذ کے منہ سے حیرت سے ایک سیٹی کی آواز نکلی۔ وہ کشتی کے پاس چلا گیا یہ بہت خوبصورت بادبانی کشتی تھی اور صغیر کی کشتی جتنی ہی بڑی تھی اس کشتی کا نام بحری عقاب تھا۔ اس کے ساتھ دو پتوار بھی تھے۔ معاذ نے حیران ہو کر کہا ”کیا حیران کن جگہ ہے جہاں کشتی باندھی جا سکتی ہے بالکل چٹانوں کے پیچھے جہاں کوئی دیکھ نہ سکے ۔ یہ جس کی بھی کشتی ہے اسے جب بھی کشتی کی ضرورت پڑتی ہو گی اسے لے جانے کے لئے تیر کر آنا پڑتا ہو گا لیکن اس کا مالک کون ہے۔ ابھی تو اس کا کوئی نام و نشان دکھائی نہیں دے رہا تب تک سبھی بچے بھی وہاں پہنچ گئے تھے اور کشتی کو دیکھ رہے تھے معاذ کہنے لگا”ہم کھانا کھا لیں پھر ہم اسے بغور دیکھیں گے“ آﺅ واپس ساحل پر چلیں پھر ہی ہم اپنے پکنک اور مہم جوئی کے پروگرام علیحدہ علیحدہ کر سکیں گے اور کشتی کے مالک سے بھی مل سکیں گے“ پھر وہ تیرتے ہوئے واپس ساحل سمندر پر پہنچے سوکھے ہوئے کپڑے پہنے اور پھر وہ سینڈوچ ‘ چاکلیٹ اور پھل کھانے بیٹھ گئے جو چچی نے ان کو دیئے تھے انہیں سورج کی تمازت بہت مزا دے رہی تھی کیونکہ تیراکی سے وہ تھک چکے تھے اور انہیں شدت سے بھوک اور پیاس لگ رہی تھی اس لئے کھانا کھاتے ہوئے وہ بہت لطف اندوز ہوئے نایاب نے سینڈوچ کا بڑا سا ٹکڑا منہ میں ڈالا اور کہنے لگی ”بھوک زیادہ لگی ہو تو کھانے کا بہت لطف آتا ہے۔ عنریق کہنے لگا “ مجھے تو ہر وقت بھوک لگتی ہے اچھا کی کی اب چپکے بیٹھے رہو تم نے میرے سیب کا اچھا حصہ تو پہلے ہی کھا لیا ہے میں نے تمہارے لئے سورج مکھی کے بیج جیب میں ڈالے ہوئے ہیں اگر وہ تم مجھے نکالنے کا موقعہ دو تو ”کی کی بولا“ بہت بری بات ہے بہت بری بات ہے“ وہ اب چچی کی نقل اتار رہا تھا تزئین کہنے لگی” اسے چپ کرواﺅ“ کیونکہ وہ بخوبی جانتی تھی کہ جب کی کی کوئی نیا فقرہ سیکھتا تھا تو وہ کئی دفعہ ہزاروں دفعہ اسے دہراتا رہتا ہے ادھرکی کی لگا ہوا تھا بہت بری بات ہے بہت بری بات ہے؟اس نے کہا ”کی کی۔
آﺅ میں تمہیں سیب کھلاتی ہوں“ اس پیشکش نے کی کی کو چپ کروایا وہ تزئین کے پاس اڑ کر سیب کھانے پہنچا سیب کھانے سے وہ چند لمحوں کے لئے مصروف ہو گیا پھر معاذ اور تزئین کی جنگ چھڑتے چھڑتے رہ گئی کیونکہ معاذ کی جیب سے جھینگر نکل کر تزئین کی طرف چل پڑا تھا اس نے جھینگر کو دیکھ کر چیخ ماری اور ایک پتھر نما گھونگا اٹھا کر معاذ کو مارنے ہی والی تھی جب عنریق نے جھینگر اٹھایا اور دوبارہ معاذ کی جیب میں ڈال دیا اس نے کہا ”تزئین تمہارا کوئی نقصان نہیں ہوا“ اپنے بال ٹھیک کر لو اب دوبارہ کشتی شروع نہیں ہونی چاہئے اور سارا دن صلح صفائی میں ہی گزرنا چاہئے“ انہوں نے کھانا بڑی رغبت سے کھایا معاذ نے کہا ”بگلوں کے لئے کچھ نہیں بچ سکا وہ دیکھو ننھا بگلا اسے ہم سے کوئی جھجھک نہیں“عنریق کہنے لگا کاش میرے پاس کیمرہ ہوتا تو میں اس بگلے کی بڑی شاندار تصویریں لیتا۔ ابھی میں کسی پرندے کی کوئی تصویر نہیں بنا سکا میں کل کیمرہ کا بندوبست کرتا ہوں” پھر تزئین پھرتی سے کھڑی ہو کر بولی“ اب اٹھو اگر ہم نے کشتی کے مالک کو تلاش کرنا ہے تو پھر جلدی کرنا چاہئے مجھے یقین ہے میں سب سے پہلے اسے تلاش کر لوں گی پھر وہ علیحدہ علیحدہ ہو گئے عنریق اور معاذ ایک سمت کو چل دیئے اور لڑکیاں دوسری سمت میں۔
وہ سمندری چٹانوں کے نزدیک رہ کر سمندری ریت پر مٹر گشت کرتے رہے لڑکیاں دور نہ جا سکیں کیونکہ ان کے راستے میں بار بار کوئی چٹان آ جاتی جس سے انہیں واپس مڑنا پڑتا لیکن لڑکے اس عمودی چٹان کو بھی عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے جو انہیں راہ میں پڑتی تھی جس دراڑ میں بیٹھ کر وہ آرام سے کھانا کھاتے رہے تھے اس کے عقب میں بھی دراڑ تھی لیکن اس کے ساتھ ساحل نہیں لگتا تھا اور صرف چوٹی تک چٹان ہی تھی۔ لڑکے اس پر چڑھ گئے اور دراڑ میں بنے ایک تالاب میں سمندری مخلوق کو دیکھنے لگے۔ معاذ نے ایک سمندری گھونگا اٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ عنریق کہنے لگا ”وہ دیکھو چٹانوں کے درمیان تھوڑا سا وقفہ ہے اور آﺅ وہاں دیکھتے ہیں وہ اس وقفے کی طرف روانہ ہو گئے یہ ان کی توقع سے کہیں چوڑا تھا چٹانوں کے بیچ سے ایک ندی سمندر کی طرف بہہ رہی تھی عنریق کہنے لگا یہ کسی چشمے کا پانی لگتا ہے“ اس نے پانی چکھ کر دیکھا تو وہ سمندر کے پانی کی طرح نمکین نہیں تھا پھر اس نے کہا ” بودی والے بچے‘ وہ دیکھو“ معاذ نے ادھر دیکھا جس طرف عنریق اشارہ کر رہا تھا انہوں نے دیکھا چشمے سے بنے تالاب میں سگریٹ کا ٹکڑا تیر رہا تھا جو ٹکڑوں میں تقسیم ہو رہا تھا عنریق بولا ”کوئی چند لمحے پہلے ہی ادھر تھا ورنہ کوئی لہر کب کی اس ٹکڑے کو بہا کر لے گئی ہوتی“۔
لڑکے اب زیادہ پر امید ہو کر تلاش کرنے لگے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ سگریٹ کا ٹکڑا اس شخص کے یہاں ہونے کا ثبوت تھا۔ وہ چٹان کی بڑی دراڑ کے پاس آئے جہاں کچھ ہی اونچائی پر چٹان کی ڈھلوان کے قریب ایک خستہ حال جھونپڑی بنی ہوئی تھی جس کی پشت پر صرف چٹان کی دیوار تھی جھونپڑی کی چھت گزارے کے مطابق مرمت کی گئی تھی۔ اس کی دیواریں جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھیں اور سردیوں میں یہاں رہنا ناممکن تھا لیکن ابھی تو یقینی طور پر وہاں کوئی رہ رہا تھا کیونکہ باہر ایک سڑی ہوئی جھاڑی پر کسی نے اپنی قمیض سوکھنے کے لئے ٹانگی ہوئی تھی عنریق سرگوشی کرتے ہوئے بولا”دیکھو وہ کشتی والا آدمی ادھر رہتا ہے اس نے چھپ کر رہنے کے لئے کتنی اچھی جگہ کا انتخاب کیا ہے“ دونوں لڑکے خاموشی سے اوپر جھونپڑی کے پاس گئے۔ وہ بہت ہی پرانی اور خستہ تھی اور گئے وقت میں کسی مچھیرے کی ملکیت رہی ہو گی۔ جھونپڑی کے اندر کسی کے سیٹی بجانے کی آواز آ رہی تھی معاذ پوچھنے لگا ”کیا ہمیں دروازہ کھٹکھٹانا چاہئے؟ لیکن ابھی وہ یہ پوچھ ہی رہا تھا کہ جھونپڑی سے کوئی شخص باہر نکل آیا۔ اس کی نظر لڑکوں پر پڑی تو وہ حیرانی سے انہیں دیکھنے لگا لڑکے بھی کچھ بولے بغیر اسے ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے تھے لیکن اجنبی کے چہرے کے تاثرات پسندیدگی والے تھے اس نے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن رکھے تھے۔اُس کا چہرہ سرخی مائل اور خوش باش تھا ۔ چمکتی آنکھیں تھیں اور سر کے سامنے والا حصہ گنجا تھا لیکن کنپٹیوں پر خاصے بال تھے۔ وہ مضبوط جسم اور لمبے قد کا تھا اور اس کے مونچھوں داڑھی کے بغیر چہرے پر تھوڑی تھی جو دو حصوں میں تقسیم ہو رہی تھی اس نے کہا کہ خوش آمدید اگر آپ مجھے ملنے آئے ہیں تو میرے لئے بڑی خوشی کی بات ہے۔
”عنریق نے کہا“جناب میرا خیال ہے کہ میں نے آپ کو کشتی میں دیکھا تھا لہذا ہم ادھر چلے آئے ۔ہماراگھر یہاں سے ایک میل دور ہے میرا خیال ہے آپ نہیں جانتے“ اس شخص نے امید کے خلاف کہا“ میں جانتا ہوں لیکن میں سمجھتا تھا کہ وہاں صرف میری عمر کے لوگ رہتے ہیں ایک مرد‘ ایک خاتون اور ایک عجیب و غریب ملازم” تو معاذ نے اسے بتایا“عام طور پر وہاں بڑے ہی رہتے ہیں لیکن چھٹیوں میں میری بہن رہنے کے لئے یہاں آ جاتے ہیں یہاں میرے چچا آصف اور چچی رہتے ہیں اور یہ میرے دونوں دوست ہیں عنریق اور نایاب جو چھٹیاں ہمارے ساتھ گزارنے آئے ہیں مجھے معاذ کہتے ہیں اور یہ میری بہن تزئین ہے“وہ اُس شخص سے کہنے لگا ”یہاں آ کر کچھ حاصل تو نہیں کیا جا سکتا آپ کیوں آئے ہیں“ پرویز صاحب ایک لمحے کے لئے ہچکچائے پھر بولے میں اصل میں پرندوں کا شوقین ہوں اور یہاں لاتعداد ایسے پرندے ہیں جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا“ عنریق خوشی سے چلایا ”واقعی جناب! آپ بھی پرندوں میں دلچسپی لیتے ہیں میں تو اس سلسلے میں پاگل ہوں میں نے پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ ادھر آتے دیکھے ہیں جنہیں میں صرف کتابوں میں دیکھ سکا تھا“ پھر عنریق نے جیب سے پرندوں کی ایک فہرست نکال کر دکھائی معاذ اب اس گفتگو سے جمائیاں لے رہا تھا“ پھر عنریق نے جیب سے پرندوں کی ایک فہرست نکال کر دکھائی۔ لیکن پرویز صاحب سن رہے تھے وہ کچھ بولے نہیں۔ وہ عنریق کی پرجوش گفتگو سے متاثر ضرور تھے عنریق نے پوچھا“ پرویز صاحب ! کیا آپ یہاں کسی خاص پرندے کی تلاش میں آئے ہیں“ ۔
پرویز صاحب سوچنے لگے پھر ایک شمالی سمندری پرندے کا نام لیا۔ عنریق کی زبان اس پرندے کا نام سن کر گنگ ہو گئی کیونکہ انہوں نے آک(AUK) کا نام لیا تھا جس کے بارے میں سمھا جاتا تھا کہ وہ اب ناپید ہو چکا ہے اس نے اس بارے میں پرویز صاحب سے پوچھا تو وہ کہنے لگے۔ آپ کچھ کہہ نہیں سکتے ہو سکتا ہے کوئی ایک دوآک ابھی بھی دنیا میں موجود ہوں اور دنیا کے لئے یہ ایک معجزے والی بات ہو گی“عنریق کا جوش سے رنگ تمتما اٹھا اس نے مغرب کی طرف سمندر کو دور تک دیکھا جہاں دکھ والا جزیرہ دھند میں چھپا ہوا تھا وہ مغرب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا میں شرط لگانے کو تیار ہوں کہ اگر آک کا وجود دنیا میں ہے تو وہ ایسے کسی دور افتادہ جزیرے پر ہو سکتا ہے جیسے ”دکھ کا جزیرہ“ آپ نے امید ہے اس جزیرے کے بارے میں سنا ہو گا وہ بولے کیوں نہیں۔ میں نے سنا ہے میں اس جزیرے پر جانا چاہتا ہوں لیکن لگتا ہے کہ یہ ناممکن ہے ”معاذ نے پوچھا“ جناب کبھی ہم آپ کے ساتھ کشتی کی سیر کو چل سکتے ہیں۔ صغیر وہی عجیب و غریب ملازم اس کے پاس بڑی اچھی کشتی ہے لیکن وہ ہمیں استعمال نہیں کرنے دیتا۔ ہمارا دل کرتا ہے کہ ہم مچھلیاں پکڑنے جائیں۔ کیا ہم آپ کو کبھی درخواست کریں کیا آپ خود کو کبھی تنہا محسوس نہیں کرتے“۔ پرویز صاحب بولے،کبھی کبھار۔ٹھیک ہے کسی دن اکٹھے چلیں گے اور مچھلیاں پکڑیں گے تم بھی چلنا اور تمہاری بہنیں بھی۔ تفریح رہے گی۔ ہم دکھ والے جزیرے کے نزدیک جانے کی کوشش کریں گے۔ لڑکے خوش ہو گئے کہ شکر ہے وہ کشتی کی سیر کر سکیں گے وہ بہنوں کو بتانے گئے عنریق انہیں دیکھ کر دور سے چلایا”تزئین۔نایاب آﺅ ہم تمہیں اپنے نئے دوست سے ملوائیں۔ یہ ہیں پرویز صاحب!“
بارہواں باب…………دعوت
پرویز صاحب بہت اچھے دوست ثابت ہوئے۔ وہ بہت خوش مزاج شخص تھے۔ انہیں شائستہ مذاق بہت پسند تھا۔ وہ کی کی کی حرکات سے زیادہ ناراض بھی نہیں ہوتے تھے۔ اور تو اور وہ معاذ کے ہر وقت بدلتے ہوئے پالتو جانوروں سے بھی زیادہ پریشان نہیں ہوتے تھے۔ حتی کہ جب معاذ کی جیب سے ایک بہت بڑی مکڑی نکلی اور پرویز صاحب کی دائیں ٹانگ پر پتلون میں سفر کررہی تھی۔ وہ تب بھی ناراض نہیں ہوئے انہوں نے ہاتھ ڈالا اور رینگتی ہوئی مکڑی کو پکڑا اور اسے معاذ کے ٹخنے پر چھوڑ دیا تزئین تو ظاہر ہے اس وقت تک مرگی کے دور جیسے کیفیت سے گزر رہی تھی لیکن خدا کا شکر ہے مکڑی کا دل بھی قید میں رہ رہ کر بھر چکا تھا وہ ایک چٹان کی ننھی سی دراڑ میں گھسی اور پھر غائب ہو گئی اب ہر روز بچے پرویز صاحب سے ملنے چلے جاتے تھے وہ کشتی پر سیر کے دوران مچھلیاں پکڑتے اور کئی دفعہ تو پکڑی ہوئی کوئی بڑی سی مچھلی گھر لاتے تو صغیر کا منہ کھلے کا کھلا رہ جاتا پرویز صاحب نے انہیں بادبانی کشتی سنبھالنے کا طریقہ بتایا اور کچھ ہی دنوں میں وہ اس قابل ہو گئے کہ خود ہی کشتی سنبھال سکیں۔ تیز ہوا میں بادبانی کشتی میں سیر کرنا بہت پرلطف تجربہ تھا معاذ خوش ہو کر بولا” یہ تو کسی لانچ کی تیزی سے سفر کرتی ہے۔
پرویز صاحب ہم خوش قسمت ہیں جو آپ سا دوست ہمیں مل گیا“ لیکن عنریق مایوس تھا کیونکہ پرویز صاحب اب ہر وقت شوق سے پرندوں کے متعلق گفتگو نہیں کرتے تھے اور نہ ہی انہیں کوئی دلچسپی تھی ہ وہ عنریق کو ساتھ لیکر سمندر کے کنارے چٹانوں پر چڑھ کر پرندوں کو دیکھیں لیکن وہ پرندوں کے متعلق کئی نئی خوبصورت کتابیں لیکر آئے تھے جو انہوں نے عنریق کو تحفے میں دی تھیں عنریق نے احتجاج کرتے ہوئے کہا ”یہ تو بالکل نئی ہیں دیکھئے اس میں کئی صفحے آپس میں جڑے ہوئے ہیں وہ بھی ابھی کسی نے علیحدہ نہیں کئے ہیں ظاہر ہے آپ نے یہ کتابیں خود بھی نہیں پڑھیں لہذا پہلے آپ ان کتابوں کو پڑھےئے” پرویز صاحب بولے“کوئی بات نہیں میں یہ تمہارے لئے ہی لیکر آیا ہوں ان میں سے ایک کتاب میں عظیم پرندے آک کا بھی ذکر ہے لیکن ہو سکتا ہے ہم کبھی بھی اس پرندے کو نہ دیکھ سکیں پچھلے سو سالوں سے کسی نے اس پرندے کو نہیں دیکھا یہ کہہ کر انہوں نے سگریٹ سلگا لیا تو عنریق پرامید انداز سے بولا لیکن ہو سکتا ہے یہ کسی دور افتادہ جزیرے جیسے دکھ والے جزیرے پر پائے جاتے ہوں۔ میری خواہش ہے کہ کاش ہم وہاں جا سکیں میں شرط لگا سکتا ہوں وہاں ہم ہزاروں ایسے پرندے دیکھ سکتے ہیں جنہیں ہم جانتے بھی نہیں ہوں گے “یہ پرندوں کے متعلق ختم نہ ہونے والی گفتگو سے ہمیشہ تزئین اکتا جاتی تھی اس نے موضوع تبدیل کر دیا۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی” کل جب ہم مچھلی لے کر گھر گئے تھے تو صغیر کا چہرہ دیکھنے والا تھا وہ بولا، مچھلیاں کبھی چٹانوں سے نہیں پکڑی جاتیں اور اسے یقین تھا کہ ہم نے یہ مچھلی کھلے سمندر سے پکڑی ہے“ تو پرویز صاحب نے فوراً پوچھا“ اور کیا تم نے اسے بتا تو نہیں دیا“۔
تزئین نے انکار میں سر کو ہلایا اور ہنے لگا”کبھی نہیں اسے معلوم ہو گیا کہ ہم آپ کی کشتی میں سیر کرتے ہیں تو وہ ہماری یہ خوشی بھی ہم سے چھین لے گا ”پرویز صاحب پوچھنے لگے“کیا تمہارے چچا اور چچی کو میرے بارے میں علم ہے؟ تو تزئین نے پھر انکار میں سر کو ہلایا اور پوچھا” ان کو بتانے سے کیا فرق پڑتا ہے لیکن آپ چاہتے ہیں کہ انہیں معلوم ہو؟ پرویز صاحب ماتھے کے اوپر گنجے سر کو کھجاتے ہوئے بولے“ میں دراصل یہاں اکیلے رہنے آیا تھا تاکہ پرندوں کے متعلق جان سکوں اور میں نہیں چاہتا کہ میرا میل ملاپ بڑھے اور لوگ میری چھٹیاں خراب کر دیں لیکن آپ کی بات اور ہے بچو مجھے آپ اچھے لگتے ہو“پرویز صاحب اس خستہ حال جھونڑی میں اکیلے رہتے تھے حالانکہ ان کے پاس ایک نئی آرام دہ کار تھی جیسے وہ ایک چٹان کی کگر کے نیچے کھڑا رکھتے تھے اور کار کے اوپر کپڑا ڈالا ہوتا تھا وہ جب چاہتے اپنی کار میں بیٹھ کر نزدیکی قصبے میں خرید و فروخت کے لئے جایا کرتے تھے انہوں نے سونے کے لئے گدا اور دوسری چیزیں لا کر جھونپڑی میں رکھی تھی تاکہ اپنے رہنے کو پرسکون بنا سکیں بچے بھی خوشی سے پاگل ہو رہے تھے ان کے استعمال میں اب کشتی بھی تھی اور ایک کار بھی۔ انہوں نے پرویز صاحب کو درخواست کی کہ وہ اگلی دفعہ انہیں بھی نزدیکی قصبے میں لے جائیں۔عنریق کنے لگا ”میں نے ایک ٹارچ خریدنی ہے پرویز صاحب آپ کو یاد ہے ہم نے آپ کو خفیہ راستے کے بارے میں بتایا تھا اس راستے پر ایک ہاتھ میں موم بتی لیکر چلنا بہت مشکل ہے وہاں جانے کے لئے ٹارچ کی ضرورت ہے اگر آپ مجھے اپنی کار میں ساتھ لے جائیں گے تو میں وہاں سے ایک ٹارچ خرید لوں گا ”معاذ نے کہا“ میں بھی ایک ٹارچ خریدوں گا اور عنریق تم کیمرے میں فلم ڈلوانے کی بات کر رہے تھے کیونکہ تمہاری فلمیں رائے صاحب کے گھر رہ گئی تھیں۔ تم اگر کیمرے میں فلم نہیں ڈلواﺅ گے تو پرندوں کی تصویریں کیسے لے سکو گے تم قصبے سے فلمیں بھی خرید سکتے ہو“لڑکیوں نے بھی کچھ چیزیں خریدنی تھیں پرویز صاحب خوشی خوشی انہیں اگلے دن ساتھ لے جانے کو تیار ہو گئے صبح وہ سبھی کار میں سوار ہو گئے وہ بہت خوش تھے۔ تزئین نے بتایا”صغیر بھی آج قصبے میں جا رہا ہے یہ بہت مزے کی بات ہو گی اگر اس کی نظر ہم پر پڑی کیونکہ وہ ہمیں دیکھ کر حیران ہو جائے گا۔
پرویز صاحب کی کار بہت خوبصورت تھی لڑکوں نے اس کا جائزہ بڑی خوشی سے لیا تھا کیونکہ وہ اکثر کاروں کے متعلق جانتے تھے عنریق کہنے لگا”یہ کار بالکل نئی نکور ہے اور یہ بڑی تیز رفتار بھی ہے پرویز صاحب کیا آپ بہت امیر آدمی ہیں؟ کیونکہ یہ کار بیش قیمت ہے آپ ضرور امیر ہیں” پرویز صاحب ہنسنے لگے“نہیں اتنا نہیں لیکن آﺅ اب چلیں“ اور پھر جیسے ہی انہوں نے ساحل سمندر کو پیچھے چھوڑا بڑی سبک خرامی سے رواں دواں ہو گئے کار میں وہ بہت مزے کا سفر کر رہے تھے اور انہیں دھچکے نہیں لگ رہے تھے۔ تزئین بولی ”یہ کار چچی جان کی کار سے کتنی مختلف ہے یہ ہمیں بہت جلد قصبے میں پہنچا دے گی“ واقعی بہت جلد وہ قصبے میں تھے پرویز صاحب نے کار پارکنگ میں کار کھڑی کی اور پھر کسی کام کے لئے تنہا روانہ ہو گئے انہوں نے بچوں سے کہا کہ وہ دوپہر کے کھانے کے وقت گرینڈ ہوٹل آ جائیں وہاں ملاقات ہو گی” عنریق کہنے لگا “پتا نہیں پرویز صاحب کدھر گئے ہیں کتنا اچھا ہوتا وہ ہمیں اپنے ساتھ ہی رکھتے میں ان کے ساتھ حنوط کئے جانوروں کی دکان پر جانا چاہتا تھا اور وہاں حنوط کئے ہوئے پرندے دیکھنا چاہتا تھا۔
”تزئین بولی“ تو اب تم خود ہی دیکھ سکتے ہو کیونکہ وہ ہمیں ساتھ لیکر نہیں جانا چاہتے تھے وہ بھی مایوس تھی وہ پرویز صاحب سے بہت متاثر تھی اس نے کچھ پیسے بھی جمع کئے تھے تاکہ تشکر کے اظہار کے لئے ان کے لئے ایک آئس کریم خریدے۔ وہ کہنے لگی ”میرا خیال ہے وہ اپنے کاروبار کے سلسلہ میں کہیں گئے ہیں“ نایاب نے پوچھا“ ان کا کاروبار کیا ہے؟ وہ پرندوں پر تحقیق کے علاوہ بھی کچھ تو کرتے ہی ہونگے”عنریق بولا“ انہوں نے اپنے کاروبار کے بارے میں ہمیں کبھی کچھ نہیں بتایا لیکن وہ بتائیں بھی کیوں؟ وہ ہماری طرح بچے تھوڑی ہیں ۔بڑی ہوک ر سب بدل جاتے ہیں۔ چھوڑو ان باتوں کو اور وہ دکان ڈھونڈیں جہاں ٹارچیں بکتی ہیں“ پھر انہوں نے جو دکان ڈھونڈی وہاں انہیں بہت اچھی جیبی ٹارچیں مل گئیں جن کی روشنی بہت زیادہ تھی بچے ذہن میں سوچ کر خوش ہو رہے تھے کہ ان ٹارچوں کی روشنی سے خفیہ راستہ بھی جگمگا اٹھے گا ان سب نے ایک ایک ٹارچ خرید لی۔ تزئین بولی اب ہمیں اپنے کمروں میں بھی موم بتیاں جلانے کی ضرورت نہیں رہے گی ہم اپنی ٹارچیں استعمال کر سکتے ہیں“ پھر وہ عنریق کے کیمرہ کے لئے فلمیں خریدنے گئے انہوں نے بسکٹ اور ٹافیاں خریدیں اور سب نے پیسے ڈال کر چچی جان کے لئے خوشبو کی ایک بوتل بھی خریدی۔ عنریق کہنے لگا ”اب بہتر ہے کہ ہم کی کی کے لئے بھی سورج مکھی کے بیج خرید لیں“یہ بات سن کر کی کی نے خوشی سے چیخ ماری وہ معمول کے مطابق عنریق کے شانے پر براجمان تھا اور خلاف معمول آج بہت شریف بنا ہوا تھا ہر راہگیر حیران ہو کر اسے دیکھ رہا تھا اور توتے کو یہ سب بہت بھلا لگ رہا تھا لیکن ایک شرارتی لڑکے کو دیکھ کر وہ بولا”شرارتی لڑکے سیٹی مت بجاﺅ“۔
اصل میں اسے سورج مکھی کے بیج کھانا بہت پسند تھا اور وہ دکان پر بھی سب سے چھپ کر منہ میں ڈال بھی چکا تھا کچھ دیر بچوں نے ایسے ہی دکانوں میں وقت گزارا تاکہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو جائے تاکہ وہ گرینڈ ہوٹل میں پرویز صاحب کو جا ملیں اور تبھی اچانک انہیں صغیر نظر آ گیا وہ اپنی پرانی کار کو چلاتا ہوا آ رہا تھا ایک عورت سڑک عبور کر رہی تھی اور وہ اسے ہارن بجا کر متنبہ کر رہا تھا بچوں نے ایک دوسرے کو تھام لیا اس سے پہلے کہ اس کی نظر ان پر پڑتی اور پھر اس کی نظر واقعی ان پر پڑ ہی گئی اس نے سب سے پہلے معاذ کو دیکھا پھر اسے عنریق نظر آیا جس کے شانے پر کی کی بیٹھا ہوا تھا اور پیچھے آتی ہوئی دونوں لڑکیاں وہ بچوں کو حیرت سے دیکھنے میں اتنا محو تھا کہ کار سڑک پر ادھر ادھر ہچکولے کھانے لگی اور ایک پولیس آفیسر اس کے نیچے آتے آتے بچا وہ پولیس آفیسر غصے میں چلایا”اوئے پاگل! تم نشے میں تو نہیں ہو“ صغیر نے پولیس آفیسر سے معافی مانگی اور پھر بچوں کی طرف دیکھنے لگا۔ عنریق نے دوسرے ساتھیوں کو کہا ”بھاگو مت وہ کار میں بیٹھ کر ہمارا پیچھا نہیں کر سکتا صرف چلتے رہو اور اسے نظر انداز کر دو لہذا وہ باتیں کرتے سڑک کے کنارے چلتے رہے اور ایسا ظاہر کرتے رہے جیسے انہوں نے صغیر کو دیکھا ہی نہ ہو اور صغیر ان کو جو آوازیں د ے کربُلا رہا تھا ان کو بھی انہوں نے نظرانداز کر دیا۔صغیر کو اپنی بینائی پر شُبہ ہو رہا تھا،بچے قصبے تک کیسے پہنچے،وہ بس پر آئے تھے اور نہ وہاںکوئی ریل گاڑی تھی اور نہ ہی کوئی اور سواری ان کے پاس سائیکل بھی نہیں تھے اور اتنا زیادہ فاصلہ وہ پیدل ہرگز طے نہیں کر سکتے تھے تو پھر وہ یہاں تک کیسے پہنچ گئے تھے؟ صغیر جلدی جلدی کار کو پارک کرنے گیا تاکہ پھر بچوں کو پوچھے کہ وہ یہاں کیسے پہنچے؟ اس نے کار پارک کی اور چھلانگ لگا کر گاڑی سے اترا۔ پھر وہ بچوں کے پیچھے دوڑ پڑا لیکن اس وقت تک بچے گرینڈ ہوٹل پہنچ چکے تھے جہاں انہیں پرویز صاحب کو ملنا تھا وہ جلدی سے ہوٹل کی سیڑھیاں چڑھ گئے صغیر کو جرات نہیں ہوئی کہ بچوں کے پیچھے گرینڈ ہوٹل میں جا گھسے وہ ہوٹل کی سیڑھیوں کے نیچے کھڑا ہو گیا اور سخت غصے میں ان کا انتظار کرنے لگا پہلے تو یہ اس کے لئے حیرت کی بات تھی کہ بچوں کو قصبے میں دیکھے لیکن اس سے بھی حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ آرام سے قصبے کے سب سے مہنگے ہوٹل میں گھس جائیں صغیر غصے میں ہوٹل کی سیڑھیوں میں ہی بیٹھ گیا وہ اس بات کا انتظار کر رہا تھا کہ بچے ہوٹل سے باہر نکلیں تو وہ انہیں پکڑ کر کار میں سوار کرے اور سیدھا گھر لے جائے اور چچی جان کو بتائے کہ وہ انہیں کہاں سے پکڑ کر لایا ہے وہ قطعی یہ پسند نہیں کریں گی کہ بچے اتنے مہنگے ہوٹل میں پیسے اڑاتے رہیں حالاکہ وہ گھر سے سینڈوچ وغیرہ بنوا کر لے جا سکتے تھے بچوں کی بے اختیار ہنسی چھوٹ رہی تھی جب وہ سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔
پرویز صاحب ہوٹل کے لاﺅنج میں ان کا انتظار کر رہے تھے انہوں نے بچوں کو منہ دھونے اور بال سنوارنے کی جگہ بتائی وہ صاف ستھرے ہو کر کچھ منٹوں میں دوبارہ اکٹھے ہو گئے اور پھر کھانا کھانے ہوٹل کی مقررہ جگہ کی طرف چل دیئے کیا زبردست کھانا تھا بچوں کے آگے جو بھی رکھا گیا بچے اسے چٹ کر گئے اور پھر کھانے کے بعد بڑی بڑی آئس کریمیں ان کا انتظار کر رہی تھیں تزئین کہنے لگی ”پرویز صاحب بہت مزے کا کھانا تھا اتنا شاندار‘ بہت بہت شکریہ“یہ کہہ کر وہ ہوٹل کی آرام کردہ کرسی میں نیم دراز ہو گئی نایاب بولی ”پرویز صاحب آپ کروڑ پتی تو ضرور ہوں گے۔ میں نے اتنا کھا لیا ہے کہ میں اٹھ کر چل بھی نہیں سکتی“ کروڑ پتی والی بات اس نے بیرے کو پرویز صاحب کی بخشیش دینے پر ناکی تھی۔
تب عنریق کو صغیر یاد آ گیا اسے پکا یقین تھا کہ صغیر ان کا انتظار کر رہا ہو گا پھر وہ اسے دیکھنے کے لئے اٹھا اس نے کھڑکی سے جھانکا جہاں سے ہوٹل کا باہری حصہ صاف نظر آ تھا اس نے دیکھا صغیرہوٹل کی سیڑھیوں میں بیٹھا شدت سے ان کا انتظار کر رہا تھا عنریق ہنستا ہوا باقی ساتھیوں کے پاس آیا اس نے پرویز صاحب سے پوچھا ”کیا نکلنے کے لئے ہوٹل کا کوئی عقبی دروازہ بھی ہے“ یہ سن کر پرویز صاحب حیران رہ گئے انہوں نے کہا ”ہاں ہے لیکن آحر کیوں“ عنریق بولا” کیونکہ صغیر ہوٹل کے مرکزی دروازے پر ہمارا انتظار کر رہا ہے“تو پرویز صاحب نے حالات سمجھتے ہوئے سر کو ہلایا انہوں نے کہا ”تو ٹھیک ہے ہم خاموشی سے عقبی دروازہ استعمال کرتے ہیں۔
آﺅ! اب یہاں سے نکلیں کیا تم نے اپنی ساری چیزیں خرید لیں ہیں بچوں نے یک زبان ہو کر کہا ”جی ہاں“ اور پھر پرویز صاحب کے پیچھے چلنے لگے وہ انہیں ہوٹل کے عقبی دروازے سے باہر لے گئے جو ایک خالی گلی میں کھلتا تھا پھر وہ وہاں گئے جہاں پرویز صاحب کی کار کھڑی تھی سب اس میں سوار ہو گئے وہ اتنا اچھا دن ملنے پر بہت خوش تھے وہ تیز رفتاری سے ساحل سمندر پر پہنچے گھر کے نزدیک جا کر کار سے اترے اور چٹان پر چڑھنے لگے تاکہ صغیر سے پہلے پہلے گھر پہنچ جائیں وہ ان کے پہنچنے کے قریب ایک گھنٹہ بعد پہنچا اور بڑا غمگین لگ رہا تھا اس نے کار کھڑی کی اور گھر پہنچا اور گھر پہنچ کر جو پہلی چیز اس نے دیکھی وہ چاروں بچے تھے جو چٹانوں پر کھیل رہے تھے وہ کھڑا ہو کر غصے اور حیرت سے انہیں دیکھنے لگا کہیں نہ کہیں دال میں کچھ کالا تھا اور صغیر نے مصمم ارادہ کیا تھا کہ وہ اس راز کو بے نقاب کر کے رہے گا۔اس نے دل میں ٹھان لیا تھا کہ وہ ان چار بچوں سے دھوکہ نہیں کھائے گا اور نہ ہی شکست!!!
تیرھواں باب…………….صغیر سے دوبارہ دھوکہ
صغیر بار بار اسے گتھی کو سلجھانے کی کوشش میں جتا رہا کہ آخر بچے کیسے قصبے میں گئے جب کہ وہ پیدل چنے کے علاوہ کسی اور کے ذریعے سے نہیں جا سکتے تہے اور جتنے وقت میں وہ واپس بھی پہنچ گئے تھے اتنی دیر میں بچے تو نہیں البتہ بھتنے یہ کام کر سکتے تھے آخر وہ سوچ سوچ کر اس نتیجے پر پہنچا کر ضرور وہ کسی ایسے شخص کو جانتے ہیں جو اپنے طور پر انہیں قصبے تک لے کر گیا اور پھر واپس بھی لایا یہ سوچ کر اس نے فیصلہ کیا کہ اب وہ سختی سے ان بچوں کی نگرانی کرے گا وہ جان بوجھ کر ایسے کام ڈھونڈنے لگا جنہیں کرتے وقت وہ بچوں پر نظر بھی رکھ سکے اگر وہ سمندر کے کنارے جاتے تو صغیر وہاں پہلے سے موجود ہوتا۔ اور ظاہر کرتا کہ وہ لکڑی کے ٹکڑے اکٹھے کر رہا ہے اگر وہ گھر میں رہتے تو وہ بھی گھر سے باہر نہ نکلتا اگر وہ چٹان پر چڑھتے تو صغیر ان کے پیچھے ہوتا۔ بچوں کے لئے وہ سر درد بن چکا تھا نایاب کہنے لگی”اگر ہم پرویز صاحب کو ملنے گئے تو یہ ہمارے پیچھے آئے گا اور اسے پرویز صاحب کا علم ہو جائے گا ہم کل سے اسی وجہ سے انہیں ملنے نہیں جا سکے ہیں اور اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو ہم آج اور کل بھی انہیں نہیں مل سکیں گے اب صغیر کو دھوکہ دینا تقریباً ناممکن تھا وہ بہت کایاں تھا اور ہر وقت بچوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھا۔ بیچاروں کی جان مصیبت میں آئی ہوئی تھی دونوں لڑکیاں لڑکوں کے ساتھ مینار والے کمرے میں گئیں رات ہو گئی تھی اور وہ یہی مسئلہ حل کرنے کے لئے بات چیت کرنا چاہتے تھے عنریق اچانک بولا”مجھے ایک ترکیب سوجھی ہے جس سے ہم آسانی سے دھوکہ دے سکتے ہیں اور اسے کاٹھ کااُلو بھی بنا سکتے ہیں تو سب سے یک زبان ہو کر اس سے پوچھا وہ کیسے؟۔
”عنریق نے کہا “ہم سب غاروں میں جاتے ہیں اور پھر سوراخ سے خفیہ راستے میں داخل ہو جاتے ہیں اور پھر گھر کے نیچے تہہ خانوں میں پہنچتے ہیں اور وہاں سے رفوچکر ہو جاتے ہیں صغیر ساحل سمندری پر غار کے کنارے ہمارا انتظار کرتا ہی رہ جائے گا اور ہم چٹانوں سے ہوتے ہوئے دوسری سمت پرویز صاحب کو ملنے چلے جائیں گے ”معاذ کہنے لگا“ یہ تو بہت شاندار ترکیب ہے لڑکیوں کو اس ترکیب کی کامیابی میں کچھ شبہ تھا وجہ وہی پرانی تھی کیونکہ وہ خفیہ راستے سے گزرنا نہیں چاہتی تھیں پھر بھی سب نے اپنی ٹارچیں خرید لی تھی ان کے استعمال کا یہ اچھا وقت تھا لہذا اگلے دن جب صغیر چاروں بچوں کے پیچھے تھا وہ کی کی کو ساتھ لئے ساحل سمندر پر چلے گئے معاذ نے کہا ”صغیر خدا کے واسطے ہمارا پیچھا چھوڑ دو ہم غاروں میں جا رہے ہیں اور وہاں سے ہم تمہارے لئے درد سر نہیں بن سکتے۔ اب چلے بھی جاﺅ “صغیر نے پرانی گھسی پٹی بات دھرائی چچی نے مجھے حکم دے رکھا ہے کہ تم پر ہمہ وقت نظر رکھی جائے” یہ بات وہ بچوں سے ہزاروں دفعہ پہلے بھی کر چکا تھا لیکن وہ جانتے تھے کہ اصل وجہ کیا ہے صغیر دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑانے کو اپنی شان سمجھتا تھا وہ جو کوئی کام بھی کرتے صغیر اس میں اپنی ٹانگ ضرور اڑاتا وہ غاروں میں چلے گئے اور صغیر باہر آوارہ گردی کرتے ہوئے رہ گیا۔ وہ اپنے تھیلے میں لکڑی کے ٹکڑے جو لہروں میں سے بہہ کر آتے تھے۔ڈال رہا تھا بچے سوراخ کے قریب پہنچے اور پھر اس کے ذریعہ خفیہ راستے میں داخل ہو گئے انہوں نے اپنی ٹارچیں روشن کر لیں تاکہ راستہ روشن ہو سکے۔ لڑکیاں مسلسل ناک منہ چڑھا رہی تھیں انہیں وہاں کی بو سے گھن آ رہی تھی اور جب انہیں احساس ہوا کہ راستے میں کچھ وقت سانس لینے میں بھی دشواری ہو گی تو وہ ٹھہر گئیں معاذ نے انہیں بتایا ۔
”اب واپس جانا ممکن نہیں ہم آدھے راستے سے بھی آگے آ گئے ہیں تزئین اب آگے بڑھو تمہاری وجہ سے سب جمے کھڑے ہیں“ تزئین کہنے لگی” مجھے دھکا مت دو جہاں میرا دل کرے گا میں ٹھہروں گی عنریق اکتا کر سختی سے بولا“ تم دونوں بے وقوفی کی باتیں مت کرو میرا خیال ہے تم دوبارہ لڑنے کی تیاری کرنے لگے ہو۔ تم تو ایسے ظاہر کر رہے ہو جیسے تمہارا بحری جہاز غرق ہونے والا ہے جس میں تم سوار ہو ۔ تزئین میری بہن چلو ہم جلدی سے یہاں سے نکل جائیں گے “ ہو سکتا ہے تزئین معاذ کی طرح عنریق سے بھی بحث شروع کر لیتی مگر تبھی کی کی کو پتا نہیں کیا سوجھی کہ وہ بالکل صغیر کی طرح کھانسنے لگا بچے پہلے تو ڈر گئے کہ شاید صغیر خفیہ راستے سے ان تک آن پہنچا ہے لیکن اس سے فائدہ یہ ہوا کہ رکی ہوئی تزئین آگے بڑھنے لگی عنریق نے اطمینان کا سانس لیا کی کی دوبارہ کھانسا تو وہ بولا ”پریشانی کی کوئی بات نہیں یہ اپنا کی کی ہمیں ڈرا رہا ہے“۔ پھر وہ آگے بڑھنے لگے اور آحر کار راستے کے اختتام پر آن پہنچے اور اپنے سروں پر موجود دوسرے راستے کو گھورنے لگے جواب ٹارچوں کی روشنی میں انہیں بخوبی نظر آ رہا تھا انہوں نے زور لگا کر اسے کھولا اور اس کے کواڑ اوپر کی طرف گر گئے لڑکے تہہ خانے کے فرش پر چڑھے اور پھر لڑکیوں کو اوپر چڑھنے میں مدد کی اور پھر دروازہ بند کر دیا پھر وہ دوسرے تہہ خانے کے دروازے پر پہنچے وہ بھی بند تھا انہوں نے اسے دھکا دیکر کھول لیا ڈبے ایک زور دار آواز سے پھر دوسری جانب گر گئے لڑکے راستے کے ذریعے اندر چلے گئے اور ڈبوں کو پھر ترتیب سے رکھ دیا اور پھر تہہ خانے کی سیڑھیوں سے باورچی خانے میں چلے گئے وہاں کوئی نہیں تھا وہ خوش قسمت تھے وہ وہاں سے نکلے اور چٹانوں پر چلے گئے وہ ایسے راستے پر جا رہے تھے جہاں سے انہیں ساحل سمندر سے دیکھنا ناممکن تھا وہ جلدی جلدی اپنے مہربان پرویز صاحب کے پاس پہنچے وہ زیر لب مسکرا رہے تھے کہ صغیر وہیں بیٹھا مکھیاں مار رہا ہو گا تاکہ وہ غار سے باہر نکلیں پرویز صاحب کشتی کا جائزہ لے رہے تھے جب انہیں دیکھا تو خوشی سے ہاتھ ہلایا اور آتے ہی پوچھنے لگے ارے بھائی تم لوگ کل کیوں نہیں آئے میں تمہارا انتظار ہی کرتا رہا“۔
عنریق انہیں بتانے لگا”یہ صرف صغیر کی وجہ سے ہوا ہے وہ سائے کی طرح ہمارے پیچھے لگا رہا ہے میرا خیال ہے اسے شک ہو گیا ہے کہ ہمارا کوئی دوست بھی ہے جس کے پاس کار ہے اور وہ اب اسی تلاش میں ہے کہ اس کا پتا لگا سکے “یہ سنکر پرویز صاحب تیزی سے بولے “ تم ہرگز اسے نہ بتانا۔ اپنے راز کسی کو نہیں بتانے چاہئیں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ ادھر کا رخ کرے۔ تمہاری باتوں سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کوئی اچھا آدمی نہیں ہے”عنریق نے پوچھا“ آپ اپنی کشتی میں کیا کر رہے ہیں کیا کشتی میں کہیں جانے کا ارادہ ہے؟“ پرویز صاحب نے جواب دیا ”میرا خیال ہے بہت خوبصورت دن ہے سمندر بھی پرسکون ہے اور بہت خوبصورت ہوا چل رہی ہے میں چاہتا ہوں کہ میں کشتی پر کس طرف نکلوں اور میرا ایک دل کر رہا ہے کہ میں دکھ والے جزیرے کے نزدیک جاﺅں“ یہ سنکر خاموشی چھا گئی لیکن اس خاموشی کے پیچھے بچوں کا جوش چھپا ہوا تھا دکھ والا جزیرہ تمام بچے اسے نزدیک سے دیکھنے کی تمنا رکھتے تھے اور عنریق ہر صورت میں جزیرے پر جانا چاہتا تھا لیکن یہ اسی صورت میں ممکن تھا اگر اسے پرویز صاحب ساتھ لے جاتے۔ عنریق نے مغرب کی جانب دیکھا اسے جزیرہ نظر نہیں آیا کیونکہ ایک دفعہ پھر وہاں دھند کی ایک دبیز تہہ چھائی ہوئی تھی لیکن وہ جانتا تھا کہ جزیرہ کہاں ہے اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا ہو سکتا ہے ۔
وہ عظیم آگ کو وہاں ڈھونڈلے اور اگر نہیں بھی تو بھی اسے اور طرح کے ہزاروں پرندے مل سکتے ہیں وہ اپنا کیمرہ ساتھ لے سکتا ہے کیونکہ ان پرندوں نے پہلے انسانوں کو نہیں دیکھا ہو گا اس لئے وہ بہت نزدیک سے ان کی تصویریں لے سکتا ہے نایاب منتوں پر اتر آئی کہنے لگی پرویز انکل! مہربانی فرما کر ہمیں ضرور ساتھ لے جائے گا ہماری بڑی خواہش ہے کہ ہم وہاں تک جائیں اور آپ نے ہمیں کشتی سنبھالنا بھی سکھا دیا ہے ہم آپ کی اب مدد بھی کریں گے” پرویز صاحب کہنے لگے“ بات کرنے کا مطلب تمہیں ساتھ لیکر ہی جانا تھا“ وہ سگریٹ سلگا رہے تھے اور پھر مسکراتے ہوئے بولے میں کل ہی جانا چاہتا تھا لیکن جب تم نہیں آئے تو میں نے ارادہ آج تک موقوف کر دیا تھا ہم آج سہ پہر چلیں گے اور چائے کا سامان بھی لے جائیں گے تمہیں ایک دفعہ پھر صغیر کو دھوکہ دینا ہو گا اسے کسی طرح تمہیں میری کشتی میں نہیں دیکھنا چاہئے ورنہ وہ تمہیں ہر صورت روکنے کی کوشش کرے گا“۔ عنریق کی آنکھیں خوشی سے جگمگا رہی تھیں وہ بولا” ہم ہر صورت سہ پہر کو پےہنچ جائیں گے ۔
پرویز صاحب “ معاذ بولا“ بہت بہت شکریہ جناب ”نایاب جوش سے پوچھنے لگی“ کیا ہم واقعی دکھ کے ستون والے جزیرے کو نزدیک سے دیکھیں گے“ تزئین نے پوچھا“ تو کیا ہم جزیرے پر اتر نہیں سکتے؟“ پرویز صاحب کہنے لگے”شاید نہیں اس کے اردگرد خطرناک چٹانیں پھیلی ہوئی ہیں ہو سکتا ہے ان کے درمیان کوئی راستہ ہو لیکن جب تک وہ نہ ملے میں کشتی کو ڈبونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا“ بچے یہ سنکر مایوس ہو گئے وہ تو اس خطرے کے باوجود جزیرے پر جانا چاےہتے تھے کیونکہ وہ اس بدنام جزیرے پر قدم ضرور رکھنا چاہتے تھے پرویز صاحب کہنے لگے“ بہتر ہے اب تم جاﺅ اور دوپہر کا کھانا جلدی کھا لو اور پھر چچی سے اجازت لے لو میں جانے میں دیر نہیں کرنا چاہتا سمندر کی لہریں ہماری مدد کریں گی اگر ہم جلدی چلیں گے ”چاروں نے کہا “ٹھیک ہے سہ پہر تک خدا حافظ پرویز صاحب “پھر وہ اچھلتے کودتے چٹانوں پر چڑھ گئے اور ایک دفعہ پھر کہنے لگے“ پرویز صاحب ہم چائے بھی لائیں گے اور یہ آپ کا ہمارا انتظار کرنے کا انعام ہو گا وہ سیدھا گھر کو چلے۔ وہ شدت سے سہ پہر کا انتظار کر رہے تھے صغیر اس جزیرے کے بارے میں مختلف قصے سنا کر انہیں اتنا ڈرا چکا تھا اس لئے جزیرے کا ذکر آتے ہی بچوں کے جسموں میں سنسنی سی پھیل جاتی تھیں۔ عنریق بولا” مجھے لگتا ہے صغیر ابھی بھی غاروں میں ہمارا انتظار کر رہا تھا وہ گھر گئے تو انہیں چچی جان ملیں معاذ نے پوچھا ”چچی جان کیا ہم آج کھانا جلدی کھا کر شام کی چائے اپنے ساتھ لیکر جا سکتے ہیں کیا آپ کے لئے کوئی مشکل تو نہیں ہو گا؟ ہم آپ کی کھانا بنانے میں مدد کریں گے اور آپ جو بھی کھلائیں گی خوشی سے کھا لیں گے” چچی سوچتے ہوئے بولیں“فریج میں کچھ قیمہ پڑا ے کچھ بھرے ہوئے ٹماٹر بھی ہیں آلو بخارے ہیں تزئین تم میز بچھاﺅ باقی اس پر کھانا لاکر رکھتے ہیں میں تمہیں چائے کے لئے کچھ سینڈوچ بنا دیتی ہوں اور ایک کیک بھی بنا ہوا ہے نایاب تم چائے کے لئے پانی کیتلی میں گرم ہونے کے لئے رکھ دو تم چائے ایک تھرموس میں اپنے ساتھ لیکر جا سکتے ہو“ بچوں نے چچی کا شکریہ ادا کیا اور کام میں جت گئے انہوں نے چچی کے کھانے کے لئے بھی ایک کرسی رکھی لیکن انہوں نے انکار کرکر دیا وہ بولیں ”آج میری طبیعت ناساز ہے میرے سر میں درد ہے میرا دل کچھ کھانے کو نہیں کر رہا۔
تم لوگ وقت باہر گزارو گے تو میں آرام کر لوں گی“ بچوں کو سنکر افسوس ہوا کہ واقعی چچی بہت تھکی ہوئی لگ رہی تھیں۔ معاذ سوچنے لگا کہ پتا نہیں امی نے چچی کو کچھ مزید رقم بھیج دی ہے یا بیچاری ابھی بھی مشکل میں ہی ہے وہ سب کے سامنے یہ بات ان سے پوچھنا نہیں چاہتا تھا کچھ ہی دیر بعد بچے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے اور پھر چائے کی تھرموس اور چائے کے لوازمات کے ساتھ وہ تیار تھے وہ چٹانوں کی طرف چل دیئے ۔انہوں نے صغیر کو نہیں دیکھا وہ ابھی بھی ساحل سمندر پر ہی تھا۔ اور غائب ہونے والے بچوں پر سیخ پا بھی۔ اسے یقین ہو گیا تھا کہ وہ غاروں میں ہی ہیں وہ خود غار میں گیا اور انہیں آوازیں دینے لگا لیکن آگے سے اسے کوئی نہیں ملا۔ وہ بار بار چلا کر انہیں پکارتا رہا۔ وہ خود سے کہنے لگا ”اچھا ہے اگر یہ غاروں میں غائب ہو گئے خس کم جہاں پاک“ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اوپر جا کر چچی جان کو سارا ماجرہ بتاتا ہے لہذا وہ اوپر پہپنچا تو بچے جا چکے تھے اور چچی برتن دھو رہی تھیں انہوں نے سختی سے صغیر کو پوچھا تم صبح سے کہاں تھے میں نے تمہاری تلاش بھی کی لیکن تم کہیں نہیں ملے”صغیر بولا“ میں تو بچوں کی حفاظت کر رہا تھا میرا خیال ہے وہ نیچے غاروں میں گئے ہیں اور گم ہو گئے ہیں میں انہیں وہاں بار بار پکار کر آیا ہوں ”چچی بولیں“۔
تم انتہائی بے وقوف ہو صغیر! تم صرف اپنی سستی پر پردہ ڈالنے کے لئے بچوں کا نام لے رہے ہو تم اچھی طرح جانتے ہو کہ وہ غاروں میں نہیں ہیں صغیر گڑ بڑا کر بولا ”میں نے خود انہیں غاروں کے اندر جاتے دیکھا ہے اور میں ہمہ وقت باہر ساحل پر تھا میں آپ کو صحیح بتا رہا ہوں وہ غاروں میں ہی گئے تھے اور ابھی تک غاروں میں ہی ہیں“ چچی غصے سے بولیں“ وہ غاروں میں نہیں ہیں وہ ابھی ابھی پکنک کے لئے گئے ہیں وہ میرے پاس آئے تھے انہوں نے یہاں بیٹھ کر دوپہر کا کھانا کھایا اور پھر باہر چلے گئے لہذا بہتر ہے کہ تم مجھے اپنی شکل نہ دکھاﺅ اور نہ یہ بے وقوف کہانی مجھے سناﺅ کہ وہ غاروں میں گم ہو گئے ہیں“۔ صغیر کا منہ ایک دفعہ پھر کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اسے اپنے کانوں کی سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا کیا وہ واقعی سارا دن ساحل پر نہیں رہا تھا بچے جیسے ہی غاروں سے نکلتے وہ انہیں دیکھ لیتا چچی نے اسی غصے سے کہا ” اب یہ حیرت کا جھوٹا مظاہرہ کرنا بند کرو اپنے آپ کو جھنجوڑو اور کوئی کام کرو تمہیں ابھی وہ تمام کام کرنا ہونگے جو تم نے صبح سے نہیں کئے میرا خیال ہے بچے غاروں میں گئے ہوں گے اور تمہاری آنکھ بچا کر نکل گئے ہوں گے اب یہاں مت کھڑے رہو اور کوئی کام کرو” صغیر نے ایک جھرجھری لی اور خود کو سنبھالا۔
اپنا کھلا ہوا منہ بند کیا اور گھر سے باہر خاموشی سے کام کرنے کے لئے نکل پڑا وہ حیرت سے پاگل ہو رہا تھا اسے یاد آ رہا تھا کہ ایک رات کس طرح اس نے دو لڑکوں کا پیچھا کیا تھا اس کا خیال تھا کہ وہ معاذ اور عنریق تھے پھر اونچی لہریں آئیں اور غاروں میں وہ قید ہو گئے لیکن اگلی صبح وہ وہاں نہیں تھے اور اب چاروں بچوں نے ایک دفعہ پھر اسے ویسے ہی دھوکہ دیا تھا صغیر کو ہزیمت محسوس ہو رہی تھی اسے یہ حالات پسند نہیں آ رہے تھے اب بچے اسے پھر طرا دے گئے تھے وہ اب کہاں گئے تھے؟ اب ان کو تلاش کرنا مشکل تھا اور وہ دور نہیں جا سکتا تھا کیونکہ چچی جان کا پارہ آگے ہی اس پر چڑھا ہوا تھا۔
چودھواں باب…………دکھ والاجزیرہ
بچے تیز تیز چلتے ہوئے چٹانوں کو عبور کر کے پرویز صاحب اور ان کی کشتی کے پاس پنچے جو انہی کا انتظار کر رہے تھے انہوں نے بچوں کے لائے ہوئے سینڈوچ‘ کیک‘ ان کی تھرموس‘ بسکٹ اور اپنی طرف سے چاکلیٹ کشتی میں رکھ دیئے اور پھر سب کشتی پر سوار ہو گئے پرویز صاحب کشتی کو چھپانے کے بجائے ساحل پر لے آئے تھے وہ کشتی کو دھکیل کر اتنے گہرے پانی میں لے گئے جہاں کشتی خود بخود تیر سکے پھر پرویز صاحب چھلانگ لگا کر خود بھی کشتی میں سوار ہو گئے اور پتوار چلانے شروع کر دیئے حتی کہ وہ ساحل سمندر سے دور چلے گئے جب وہ سمندر کے گہرے پانیوں میں پہنچ گئے وہ کہنے لگے ” اب لڑکو ذرا بادبان سنبھالو۔ دیکھتے ہیں تم کیسا کام کرتے ہو“ ۔
لڑکوں نے بخوبی اپنا کام سنبھال لیا پھر موجوں کے بہاﺅ کے مطابق جب انہوں نے کشتی کو ایک دو دفعہ موڑا تو پرویز صاحب بہت خوش ہوئے وہ کہنے لگے ”تم بہت اچھے طالب علم ہو تم تنہا ہی کشتی کو سنبھال سکتے ہو“ عنریق بڑے اشتیاق سے بولا واقعی ہم تنہا کشتی کھے سکتے ہیں آپ ہم پر بھروسہ کر سکتے ہو ”پرویز صاحب کہنے لگے “ ایک دن بھروسہ کرنے لگوں گا لیکن وعدہ کرو کہ تم کشتی کو کھلے سمندر میں بہت دور تک نہیں لے جاﺅ گے”بچوں نے وعدہ کرتے ہوئے کہا“ ہم وعدہ کرتے ہیں وہ سوچ رہے تھے کہ کتنا مزا آئے گا جب وہ تنہا کشتی سمندر میں لے جا سکیں گے“ ہوا بہت مناسب رفتار سے چل رہی تھی جس کی وجہ سے کشتی بھی بہت ہموار سفر کر رہی تھی صرف جب وہ کسی بھنور کے نزدیک جاتے تو کشتی دائیں بائیں لڑکھڑاتی ۔ سمندر واقعی بہت پرسکون تھا۔ عنریق کہنے لگا” بہت مزا آ رہا ہے مجھے بادبانوں کے پھڑپھڑانے کی آواز بہت پسند ہے اور کشتی کے آگے حرکت کرنے سے پانی کی رک رک کر آنے والی آواز تھی۔ اورہوا کی میٹھی سیٹیوں کی بھی۔۔۔۔۔
تزئین اور نایاب کشتی میں جھک کر ہاتھوں سے سمندر کے ٹھنڈے پانی کو چھو رہی تھیں۔ کی کی صاحب بادبان پر پروں میں سر دیئے بیٹھے تھے وہ بڑی مشکل سے اپنا توازن برقرار رکھ رہا تھا اور بار بار توازن برقرار رکھنے کے لئے اسے یکا یک اپنے پر کھولنے پڑتے تھے۔ وہ بھی اس سفر سے اتنا ہی لطف اٹھا رہا تھا جتنے کہ بچے پھر اچانک اس نے پرویز صاحب کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ”اپنے پاﺅں صاف کرو اور دروازہ بند کرو ۔میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے“ تو سبھی چلا اٹھے بکواس بند کرو کی کی۔ پرویز صاحب کے ساتھ بدتمیزی مت کرو ورنہ ہم تمہیں کشتی سے نیچے گرا دیں گے“ کی کی نے قہقہہ لگایا ہوا میں اڑا اور دو سمندری بگلوں کے ساتھ پرواز کرنے لگا وہ انہیں حکم دے رہا تھا کہ اپنے رومال استعمال کیا کریں پھر اچانک اس نے ایک خطرناک چیخ مارا تو بے چارے بگلوں کی روح فنا ہو گئی کی کی نے پھر پروں میں سر چھپا لیا وہ اپنے کارنامے سے بہت خوش تھا وہ سنسنی پھیلانے میں ماہر تھا وہ خواہ انسانوں میں پھیلائے جانوروں میں یا پرندوں میں۔ عنریق کہنے لگا”مجھے ابھی تک جزیرہ نظر نہیں آ رہا پرویز صاحب بھلا وہ جزیرہ کس سمت میں ہے میں تو سمندر کے وسط میں آ کر سمتیں ہی بھول گیا ہوں“ پرویز صاحب اشارہ کرتے ہوئے بولے”وہاں ہے ؟بچوں نے ان کی سونتی ہوئی انگلی کی طرف نگاہیں دوڑائیں لیکن انہیں کچھ نظر نہیں آیا آخر وہ وقت آ ہی گیا جب بقول صغیر ”برا جزیرہ“ نزدیک سے نزدیک تر آتا جا رہا تھا کشتی کی رفتار اور تیز ہو گئی جو وہ آگے بڑھے تو یکا یک ہوا میں تازگی محسوسہ ونے لگی۔ لڑکیوں کے بال ہوا میں لہرا رہے تھے اور ان کے چہروں کو مکمل ڈھانپ لیتے تھے ۔
پرویز صاحب ناراض ہو کر بڑبڑانے لگے جب تیز ہوا نے ان کی انگلیوں میں سلگا ہوا سگریٹ چھین لیا اور سمندر کی لہریں اسے بہا کر لے گئیں پرویز صاحب کہنے لگے“ کی کی اگر تم کسی کام کے ہو تو آج ثابت کر سکتے ہو اڑ کے جاﺅ اور میرے سگریٹ کو سمندر سے نکال کر لاﺅ توتا بولا” بے چارہ توتا! بے چارہ غریب توتا‘ کیا مشکل ہے‘ کیا مشکل ہے“ وہ بیٹھا بیٹھا سر کو نفی میں ہلا رہا تھا عنریق نے ایک پرانا گھونگا کی کی کو مارا اور اس نے اپنی رٹ ایک قہقہے سے ختم کر دی پرویز صاحب نے سگریٹ سلگانے کی کوشش کی مگر تند ہوا نے یہ کام ناممکن بنا دیا پھر اچانک عنریق نے نعرہ مار کر کہا ”دیکھو‘ وہ رہی زمین‘ کیا یہی دکھ والا جزیرہ ہے ضرور یہی ہونا چاہئے“ سب بڑے غور سے اسے دیکھنے لگے جو دھند کی دبیز تہہ سے آہستہ آہستہ برآمد ہو رہا تھا اب کوئی شبہ باقی نہیں رہا تھا۔ پرویز صاحب کہنے لگے ”واقعی یہی وہ جزیرہ ہے یہ تو بہت بڑا ہے“ وہ بڑے شوق سے جزیرے کو دیکھ رہے تھے کشتی جزیرے کے اور نزدیک ہوئی تو جزیرہ صاف دکھائی دینے لگا بچے صاف دیکھ سکتے تھے کہ اس پر چٹانوں اور پہاڑوں کی بھرمار تھی اور جزیرے کے اردگرد پانی میں بھنور بن رہے تھے بڑی بڑی لہریں ہوا میں بلند ہو رہی تھیں اور ادھر ادھر سمندر میں چٹانوں کے نوکیلے سرے ابھرے ہوئے تھے وہ اور قریب چلے گئے سمندر وہاں بہت متلاطم اور شوریدہ تھا نایاب کو ایسا لگا جیسے سب کچھ ہرا ہرادکھائی دے رہا ہو وہ سارے ساتھیوں میں سے کم مشتاق ملاح تھی لیکن وہ بہاد رتھی کچھ نہ بولی۔کچھ ہی دیر میں وہ ٹھیک ہو گئی۔
پرویز صاحب بولے ”اب تم اچھی طرح سے جزیرے کے اردگرد ایک انگوٹھی کی طرح چٹانیں دیکھ سکتے ہو۔ واقعی کیا یہ خطرناک نہیں ہیں بہت زیادہ کشتیاں ان سے ٹکرا کر تباہ ہو چکی ہیں ہم سب اس کے گرد چکر لگا کر سیر کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں اگر ہمیں جزیرے تک پہنچنے کا کوئی محفوظ راستہ مل سکے اب اس سے زیادہ جزیرے کے نزدیک ہم نہیں جا سکتے لہذا اب مجھے اس کام کو کرنے کی درخواست کوئی نہ کرے” بحری عقاب“ اب بہت متلاطم سمندر میں تھی اور نایاب کو دوبارہ سب کچھ ہرا ہرا دکھائی دینے لگا پرویز صاحب کہنے لگے ”خشک بسکٹ کھا لو۔ اسے چباﺅ تو تم ٹھیک ہو جاﺅ گی “ انہیں نایاب کی طبیعت کے متعلق احساس ہو رہا تھا وہی ہوا۔ نایاب نے خشک بسکٹ آہستہ آہستہ چبایا تو تھوڑی دیر بعد وہ پھر سیر کا مزا لے رہی تھی دکھ والا جزیرہ اپنے نام کا اثر دکھا رہا تھا وہ بہت ویران جگہ تھی جو بچوں کو واضح نظر آ رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ نوکیلی چٹانیں جزیرے پر ننھے پودوں کی طرح اگی تھیں اور بعد میں بڑی ہو گئیں کہیں کہیں اکا دکا درخت نظر آ رہے تھے اور بہت تھوڑی جگہ ایسی تھی جہاں انہیں سبز گھاس دکھائی دیا چٹانیں عجیب سے سرخ رنگ کی تھیں لاکھوں کی تعداد میں پرندے ہیں ذرا دیکھئے تو سہی ”عنریق عینک لگا کر بڑے غور سے جزیرے پر دیکھ رہا تھا لیکن پرویز صاحب ٹس سے مس نہیں ہوئے یہ بہت خطرناک کام تھا کہ اتنے برہم سمندر میں کشتی کو اتنی نوکیلی چٹانوں کی موجوگی میں ساحل کے ساتھ لگایا جائے انہوں نے عنریق کی طرف دیکھ کر سر ہلایا اور کہنے لگے ”اب ذرا غور سے دیکھ کر بتاﺅ کیا کوئی پرندہ تمہاری پہچان میں آتا ہے “۔
عنریق فوراً ایک پرندوں کی فہرست گنوانے میں لگ گیا اور پھر کہنے لگا یہاں تو ہزاروں پرندے ہیں میں درخواست کرتا ہوں کہ کسی طرح ہم اس جزیرے پر قدم رکھیں پرویز صاحب کوئی محفوظ راستہ ڈھونڈیں “پرویز صاحب سختی سے بولے ”نہیں میں اگر راستہ ڈھونڈ بھی لوں تو بھی کشتی کو جزیرے کے سحل پر لے جانا بہت خطرناک ہو گا میں کچھ پرندوں کو نزدیک سے دیکھنے کے لئے سب کی جان خطرے میں نہیں ڈال سکتا۔ تم روز پرندے ساحل والے گھر سے بھی دیکھ سکتے ہو“ کشتی تیرتی ہوئی جزیرے کے اردگرد چلتی رہی اس کے اردگرد اگی ہوئی چٹانوں کے دائرے سے دور جہاں سمندر کی لہریں زور زور سے سر پٹخ رہی تھیں بچے انہیں دیکھتے رہے کہ کس طرح وہ آسانی سے چٹانوں کو اپنی گود میں چھپا لیتی ہیں اور شیر کی دھاڑ جیسی گونج پیدا کرتی رہتی ہیں بچوں کا دل کر رہا تھا کہ وہ زور سے چیخیں چلائیں عنریق کی عینکوں کی وجہ سے اسے جزیرہ بالکل صاف دکھائی دے رہا تھا۔
معاذبولااپنی عینک کو ایک لمحے کو مجھے دے دو“۔عنریق کا دل عینک دینے کو نہیں کر رہا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی لمحے وہ عظیم آک کو دیکھنے سے محروم نہ ہو جائے لیکن پھر بھی اس نے عینک معاذ کو دے دی معاذ کو پرندوں میں دلچسپی نہیں تھی اس نے عینک لگا کر جزیرے کا بغور جائزہ لیا اور پھر کہنے لگا ”مجھے تو لگتا ہے کہ جزیرے پر ابھی بھی مکان موجود ہیں لیکن لگتا ہے لوگ اب نہیں رہتے“ پرویز صاحب کہنے لگا “واقعی نہیں یہ تو مدت سے اجڑ چکا ہے میں تو سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی اس جزیرے پر اب بھی رہ سکتا ہے نہ تو اس جزیرے پر کھیتی باڑی ہو سکتی ہے اور نہ ہی مچھلیاں پکڑی جا سکتی ہیں یہ رہنے کے لئے ناممکن اور مکمل ویران جگہ ہے ”معاذ کہنے لگا“ میں جو دیکھ رہا ہوں وہ میرا خیال ہے تباہ مکانوں کے ڈھانچے ہیں میرا خیال ہے یہ چٹانوں کے پیچھے ہیں انہیں صحیح سے دیکھ نہیں سکتا” تزئین ہنستے ہوئے پوچھنے لگی“ کوئی چلتا ہوا تو نظر نہیں آ رہا مثلاً صغیر کی بتائی ہوئی چیزیں وغیرہ”معاذ کہنے لگا“ ہرگز نہیں تزئین تم بھی عینک لگا کر دیکھو اور پھر نایاب تم بھی“
مجھے اب سمجھ آ چکی ہے کہ اس جزیرے کو دکھ والا جزیرہ کیوں کہتے ہیں؟ یہ واقعی دکھوں سے بھری سرزمین لگتی ہے پرندوں کے علاوہ یہاں کوئی ذی روح نظر نہیں آتا“ لڑکیوں نے باری باری عینک لگا کر جزیرے کو دیکھا۔ لیکن انہیں جزیرہ قطعی پسند نہیں آیا یہ بہت بنجر اور بدصورت تھا اور اس کی فضا میں عجیب سی اداسی پھیلی ہوئی تھی کشتی جزیرے کے چاروں طرف تیرتی رہی۔ لیکن اردگرد اگی ہوئی چٹانوں سے دور دور سے ہی ایک جگہ جہاں سے کوئی راستہ جزیرے کو جا سکتا تھا وہ مغرب کی طرف چٹانوں کے درمیان سے ہو سکتا تھا یہاں سمندر قدرے پرسکون تھا اگرچہ یہاں بھی سمندر کی بڑی لہریں بن رہی تھیں لیکن انہیں زمین پر کوئی چٹان اگی ہوئی نظر نہیں آ رہی تھی۔ عنریق نے کہا ” میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ جزیرے تک جانے کا یہی راستہ ہے“ تو پرویز صاحب فوراً بولے لیکن ہم یہ اختیار نہیں کر رہے ہیں میں اب جزیرے کو خدا حافظ کہنے لگا ہوں اور پر سکون پانیوں کی طرف لوٹنے لگا ہوں پھر ہم بادبانوں کا خیال چھوڑ کر چائے کی طرف متوجہ ہوں گے کیونکہ وہاں ہمارے ہاتھوں سے چیزیں چھوٹ کر نہیں گریں گی اور بے چاری نایاب کو ہرے رنگ کے علاوہ اور رنگ بھی نظر آئیں گے“ ۔
عنریق نے عینک لگا کر آخری بار جزیرے کو دیکھا اور اتنی زور سے چیخ ماری کہ تزئین پانی میں گرتے گرتے بچی اور کی کی بھی بادبان سے گر پڑا پرویز صاحب نے حیران ہو کر پوچھا ”کیا بات ہے“ عنریق چلایا“ عظیم آک‘ وہی ہے وہی ہے عظیم الشان جثے والا پرندہ لیکن دونوں اطراف چھوٹے چھوٹے پر اور انتہائی تیز بلیڈ جیسی چونچ‘ یہ واقعی عظیم آک ہی ہے“ پرویز صاحب نے عنریق سے عینک لیکر لگائی لیکن انہیں ایسا کوئی پرندہ نظر نہیں آیا اور یہ اس سے مشابہ ایک اور پرندہ ہے تم نے عظیم آک کو اپنے حواس پر سوار کر لیا ہے ورنہ دونوں پرندوں میں فرق محسو س کر لیتے“ لیکن عنریق کو سو فیصد یقین تھا کہ اس نے عظیم آک کو ہی دیکھا ہے وہ اسے دوبارہ تو نہ دیکھ سکا لیکن جب وہ جزیرے سے پرے جا رہے تھے تو عنریق پیچھے مڑ کر ٹکٹکی باندھے اسی کی طرف دیکھ رہا تھا عظیم آک وہی تھا کہ اس نے اسے دیکھا ہے تو پرویز صاحب کیسے کہہ سکتے تھے کہ وہ اس سے کوئی مشابہ پرندہ تھا وہ گڑ گڑایا ”خدا کے راستے پرویز صاحب واپس چلئے میں جانتا ہوں واقعی وہ عظیم آک ہی تھا میں نے اسے اچانک ہی دیکھ لیا ذرا سوچئے کہ دنیا کیا کہے گی جب پتا چلے گا کہ میں نے دوبارہ عظیم آک کو ڈھونڈ لیا ہے ایک ایک پرندہ جسے سب نایاب سمجھتے ہیں پرویز صاحب بڑے خشک لہجے میں بولے ”دنیا کو عظیم آک کی فکرنہیں ہے صرف کچھ لوگ جو پرندوں سے محبت کرتے ہیں جوش میں آئیں گے لیکن مجھے بھی یقین ہے کہ جو پرندہ تم نے دیکھا ہے وہ کوئی اور پرندہ تھا“عنریق اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہا تھا اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں اس کے گال تمتما رہے تھے اس کے بال ہوا میں اڑ رہے تھے وہ بہت بے چین لگ رہا تھا کی کی نے بھی اس کی بے چینی کو بھانپ لیا اور نیچے آ کر اس کے شانے پر بیٹھ گیا اور اس کی توجہ حاصل کرنے کے لئے اس کے کان پر ٹھونگے مارنے لگا۔ عنریق پھر بولا” عظیم آک ہی تھا۔
ہاں ہاں وہ عظیم آک ہی تھا“ تو نایاب نے زور سے اپنے ہاتھ سے اس کا بازو دبایا اسے بھی یقین تھا کہ وہ عظیم آک ہی تھا وہ اپنے بھائی کی خوشی برباد نہیں کرنا چاہتی تھی صرف یہ کہہ کر کہ وہ عظیم آک نہیں تھا لیکن تزئین اور معاذ کو یقین نہیں آیا تھا پھر پرسکون سمندر میں آ کر انہوں نے چائے پی‘ کشتی کے بادبان نیچے کر لئے گئے تھے اور کشتی کو چھوڑ دیا گیا تھا اور وہ اپنی مرضی سے ادھر ادھر تیرتی پھرے عنریق نے چائے زہر مار کی لیکن اس سے کچھ کھایا نہیں گیا نایاب کی طبیعت اب بہتر تھی اس نے بھی چائے کا بھرپور لطف اٹھایا دوسرے بھی چائے کا بھرپور مزا اٹھا رہے تھے بہت بھرپور سہ پہر تھی عنریق نے اچانک پوچھا پرویز صاحب ! آپ کے وعدے کے مطابق کبھی ہم خود بھی اپ کی کشتی لے جا سکتے ہیں تو پرویز صاحب نے انہیں غور سے دیکھا اور کہنے لگے “اگر تم بھی اپنا وعدہ پورا کرو گے اور کشتی کو سمندر میں زیادہ دور نہیں لیکر جاﺅ گے میرا مطلب ہے کہ تم عظیم آک کو ڈھونڈنے دکھ والے جزیرے پر نہیں جاﺅ گے کیونکہ عنریق کے لاشعور میں یہی بات تھی اس لئے اس کا رنگ سرخ ہو گیا آخر اس نے کہا”ٹھیک ہے جناب میں وعدہ کرتا ہوں کہ کشتی لیکر جزیرے پر نہیں جاﺅں گا لیکن کیا ویسے تو ہم جا سکتے ہیں؟ پرویز صاحب کہنے لگے “ٹھیک ہے چلے جانا‘ مجھے یقین ہے کہ تم کشتی سنبھال سکتے ہو اور اگر سمندر پر سکون ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں“ عنریق اب خوش نظر آنے لگا اس کے چہرے پر ایسے تاثرات ابھرے جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو اسے معلوم تھا کہ وہ کیا کرنے والا ہے وہ پرویز صاحب کے ساتھ کیا وعدہ پورا کرے گا ۔وہ پرویزصاحب کی کشتی میں جزیرے پر نہیں جائے گا بلکہ کسی اور کی کشتی پر جائے گا البتہ وہ کشتی چلانے کی مکمل مشق پرویز صاحب کی کشتی پر ہی کرے گا اور جب وہ مطمئن ہو گیا کہ وہ کشتی چلانے میں مکمل ماہر ہو گیا ہے تو پھر صغیر سے کشتی ادھار مانگ کر جزیرے پر جائے گا یہ بظاہر ایسا ارادہ تھا جو پورا ہونا ناممکن تھا لیکن عظیم آک کو ڈھونڈنے کی دھن نے عنریق کے ہوش اڑا دیئے تھے جسے ہر کوئی اب دنیا میں نایاب سمجھتا تھا اور اسی غلطی کو سدھارنے کے لئے وہ یہ خطرہ مول لینے کو تیار تھا اسے یقین تھا کہ چٹانوں کے درمیان سے وہ راستہ نکال سکتا ہے وہ وہاں جا کر بادبان سمیٹ لے گا اور چپو چلا لے گا صغیر کی کشتی بڑی اور مضبوط تھی لیکن عنریق کو یقین تھا کہ وہ اسے سنبھال لے گا اس نے دوسروں سے کوئی ذکر نہیں کیا جب تک وہ پرویز صاحب کے ساتھ رہے وہ بہت اچھے شخص اور بہت اچھے دوست بھی تھے لیکن وہ عمر میں بہت بڑے تھے اور بڑے ہمیشہ ہی چھوٹوں کو خطرہ مول نہ لینے کی نصیحت کیا کرتے تھے لہذا عنریق کشتی میں بیٹھے بیٹھے اپنے منصوبے کے بارے میں سوچتا رہا اور دوسروں کے مذاق کا جواب بھی دینا بند کر دیا تزئین ہنس کر بولی یہ تو بیٹھا بیٹھا کر ہی عظیم آک کو دیکھنے جزیرے پر چلا گیا ہے “معاذ نے کہنے لگے ”جاگو بھئی“اور تھوڑے سے گھلوملو بھی“ چائے کے بعد انہوں نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔
پرویز صاحب کا خیال تھا کہ بچوں کی تھوڑی ورزش ہو جائے انہوں نے ان کو پتوار چلانے پر لگا دیا عنریق نے پتوار چلانے میں پورا زور لگا دیا وہ اسے مشق کے طور پر لے رہا تھا جو اسے جزیرے پر دوبارہ جاتے ہوئے مدد دے گی پرویز صاحب کہنے لگے ”ٹھیک ہے اب ہم حفاظت سے واپس آ گئے ہیں کشتی ساحل کے ساتھ آ لگی تھی لڑکے چھلانگیں مار کر اترے اور کشتی کو کھینچ کر پانی سے نکالا۔ لڑکیاں بھی اتر آئیں وہ تھرموس لانا نہیں بھولیں تب تک پرویز صاحب کشتی کو باندھ چکے تھے انہوں نے کہا اچھا بھئی۔ خدا حافظ۔ تمہارے ساتھ بہت اچھا وقت گزرا۔ اب کبھی موقعہ ملے تو تنہا بھی کشتی کی سیر کو چلے جانا۔ بچے چلائے۔ بہت بہت شکریہ۔ تو کی کی نے ان کی نقل بمطابق اصل اتارتے ہوئے کہا ”بہت بہت شکریہ ۔بہت بہت شکریہ۔۔۔ بہت ۔۔۔۔۔“ معاذ نے کی کی کو ہنستے ہوئے ڈانٹا”خاموش ہو جاﺅ“ ورنہ کی کی شاید یہ رٹ لگائے ہی رکھتا۔ چچی سے انہوںنے پوچھا ،کیسا وقت گزرا؟ جواب دیا زیادہ ٹھیک نہیں ،میں آج جلدی سو جاﺅں گی اگر تزئین تم اپنے چچا کو رات کا کھانا دے دو گی تو“۔
تزئین نے ہاں میں جواب تو دے دیا لیکن اسے یہ کام پسند نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے پڑھاکو اور سنکی چچا سے بڑی خائف تھی صغیر تبھی اندر داخل ہوا اور بچوں کو گھونے لگا اس نے سختی سے پوچھا تم کہاں تھے اور پھر تم آج صبح غاروں میں جا کر کہاں غائب ہو گئے تھے ”معاذ بولا“ ہم سیدھے گھر آئے تھے کیا تم نے ہمیں نہیں دیکھا اور ابھی ہم پکنک منا کر واپس آئے ہیں تمہیں ہماری سرگرمیوں میں کیا دلچسپی ہے کیا تم ہمارے ساتھ جانا چاہتے تھے؟”ا س کے چہرے کے تاثرات اتنے بھولے تھے کہ صغیر جل کر راکھ ہو گیا صغیر نے غصے میں آواز نکالی تو کی کی نے فوراً اس کی نقل اتاری اور پھر کھل کر قہقہہ لگایا صغیر نے توتے کی طرف نفرت سے دیکھا اور وہاں سے چل دیا۔ چچی فکر مند ہو کر بولیں”اسے زچ مت کیا کرو“ یہ بہت سست ہوتا جا رہا ہے وہ ساری صبح گھر کے نزدیک نہیں بھٹکا اچھا اب میں سونے جا رہی ہوں ”تزئین نے کہا “عنریق تم چچا کی کھانے کی رکابی بنانے میں میری مدد کرو یہ بہت بھاری ہے معاذ تو معمول کے مطابق پتا نہیں کدھر چلا گیا ہے۔
وہ کام کے وقت ہمیشہ ہی غائب ہو جاتا ہے تزئین چچا کے مطالعے والے کمرے کی طرف گئی عنریق رکابی اٹھائے اس کے پیچھے پیچھے تھا اس نے دروازے پر دستک دی ایک آواز گونجی اور تزئین کا خیال تھا کہ کسی نے کہا ہے کہ اندر آ جاﺅ وہ اندر گئے کی کی عنریق کے شانے پر بیٹھا ہوا تھا۔ تزئین نے کہا ”چچا! آپ کا کھانا“ چچی کی طبیعت ٹھیک نہیں وہ سونے چلی گئی ہیں“ کی کی نے ترس کھانے والی آواز میں رٹ لگا لی” بے چاری چچی“ چچا آصف نے سر اٹھا کر دیکھا انہوں نے توتے کو دیکھا تو جوتا اٹھا لیا کی کی فوراً کمرے سے باہر اڑ گیا تو چچا نے جوتا واپس نیچے دکھ دیا انہوں نے سختی سے کہا ”توتے کو میرے کمرے سے باہر رکھا کرو ‘ دخل انداز توتا اب کھانا نیچے رکھ دو اور تم نوجوان کون ہو؟”عنریق نے کہا” میں عنریق ہوں” وہ حیران تھا کہ دنیا میں کوئی شخص اتنا بھی بھلکڑ ہو سکتا ہے وہ ہنے لگا ”آپ نے میری بہن نایاب کو دیکھا تھا جس دن ہم یہاں آئے تھے جناب کیا آپ کو یاد ہے ”چچا نے بوریت سے کہا ”گھر میں بہت سے بچے ہو گئے ہیں میں تو کوئی کام بھی نہیں کر سکتا ”تزئین تنک کر بولی” لیکن چچا ہم تو کبھی آپ کو تنگ نہیں کرتے ”چچا آصف ایک بہت بڑے اور پرانے نقشے پر جھکے ہوئے تھے عنریق نے بھی اس کی جھلکی دیکھا وہ بولا“ یہ تو ساحل سمندر کا نقشہ ہے اور یہ جزیرہ ہے جسے دکھ کا جزیرہ کہتے ہیں۔ ”چچا آصف نے ہاں میں سر ہلایا عنریق نے پوچھا“ جناب کیا آپ کبھی اس جزیرے پر گئے ہیں “ ہم نے آج شام یہ جزیرہ دیکھا ہے چچا سرعت سے بولے“ میں کبھی وہاں نہیں گیا اور نہ ہی جانا چاہتا ہوں عنریق نے فخریہ انداز میں بتایا میں نے آج وہاں عطیم آک دیکھا تھا“لیکن یہ سنکر چچا قطعی متاثر نہیں ہوئے” فضول ۔ یہ پرندہ مدتوں پہلے نایاب ہو چکا ہے تم نے اس سے مشابہ پرندہ دیکھا ہے بے وقوفی کی باتیں نہ کرو لڑکے“عنریق ناراض ہو گیا اس کی اس زبردست دریافت پر صرف نایاب نے اس کی پذیرائی کی تھی اور اسے پتا تھا کہ اس کی بہن آنکھیں بند کر کے اس پر یقین کرتی ہے اس نے ناپسندیدگی کی نگاہ اس مغرور بوڑھے پر ڈالی تو چچا نے اسے جواباً گھورا تو عنریق کہنے لگا ”کیا میں نقشہ دیکھ سکتا ہوں“ وہ سوچ رہا تھا کہ نقشے کی مدد سے شاید وہ چنانوں میں سے جزیرے کو جانے کا راستہ ڈھونڈ سکے چچا آصف نے حیران ہو کر اسے پوچھا“ ۔
کیا واقعی تمہیں نقشے جیسی چیزوں میں دلچسپی ہے تو عنریق بولا”دراصل مجھے پورے جزیرے سے دلچسپی ہے جناب! کیا میں یہ نقشہ دیکھ سکتا ہوں چچا آصف اس کی باتیں سنکر بہت خوش تھے کہ چلو شکر ہے کوئی تو ان کے علاوہ اور بھی ہے جسے ان باتوں میں دلچسپی ہے وہ بولے “میرے پاس ایک بڑا نقشہ بھی ہے جو صرف جزیرے کا ہے اور جزیرے کا چپہ چپہ دکھاتا ہے مجھے دیکھنے دو میں نے وہ کہاں رکھا ہے “وہ جیسے ہی نقشے کو ڈھونڈنے کے لئے گئے عنریق اور تزئین نہایت غور سے ساحل کا نقشہ دیکھنے لگے نقشہ بچھا ہوا تھا اور اس پر آسانی سے جزیرے کے گرد بکھرے ہوئے چٹانوں کے دائرے کو دیکھا جا سکتا تھا جس کی عجیب و غریب ہیئت تھی وہ ایک انڈے کے مانند بیضوی شکل تھا جو درمیان سے ایک جگہ سے سوجا ہوا ہو ورنہ جزیرے کا سارا ساحل ایک سا تھا یہ ان کے گھر سے مغرب کی طرف تھا عنریق تو پورے انہماک سے نقشے پر جھکا ہوا تھا وہ چاہتا تھا کہ کاش چچا اسے کچھ عرصے کے لئے نقشہ رکھنے کو دے دیں۔ اس نے آہستگی سے تزئین کو کہا ”دیکھو تزئین! چٹانوں کا دائرہ یہاں سے ٹوٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں سے میں کشتی جزیرے میں لے کر جانا چاہتا ہوں دیکھو نقشے میں جو پہاڑی نظر آ رہی ہے چٹانوں میں سے راستہ اس کے بالکل مخالف سمت میں ہے اگر کبھی بھی ہم جزیرے پر جانا چاہیں جو کہ کم از کم میں تو ہر صورت جانا چاہتا ہوں ہمیں صرف اس پہاڑی کو تلاش کرنا ہو گا اور یہ آسان ہو گا کیونکہ جزیرے پر یہ سب سے اونچی جگہ ہے اور پھر اس پہاڑی کی مخالف سمت میں آسانی سے ہمیرہ جزیرے کا راستہ مل جائے گا ”تزئین کہنے لگی“یہ سب نقشے پر آسانی دکھائی دیتا ہے لیکن یہ سمندر میں جا کر معلوم ہو گا مجھے لگتا ہے کہ تم وہاں جانے کا تہیہ کر چکے ہو عنریق لیکن تمہیں یاد ہونا چاہئے کہ تم نے پرویز صاحب سے وہاں نہ جانے کا وعدہ کیا ہے اور وعدہ توڑنا نہیں چاہئے“ تو عنریق کہنے لگا“۔
میں جاتا ہوں بے وقوف‘ میں نے زندگی میں کبھی وعدہ نہیں توڑا۔ لیکن میں اور ترکیب سوچ چکا ہوں لیکن وہ میں بعد میں بتاﺅں گا” چچا آصف بڑا نقشہ نہ ڈھونڈ سکے جس سے بچے بڑی مایوس ہوئے اور دوسرا نقشہ انہوں نے عنریق کو دینے سے انکار کر دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ نقشہ دینے کے خیال سے ہی انہیں دھچکا لگا تھا انہوں نے کہا کہ”ہرگز نہیں۔ یہ بہت ہی قدیم نقشہ ہے کئی سو سال پرانا میں نے تو کبھی خواب میں بھی یہ تصور نہیں کیا کہ یہ میں کسی کو دوں گا تم اس کو خراب کر سکتے ہو پھاڑ سکتے ہو یا گم کر سکتے ہو مجھے پتا ہے بچے ایسا ہی کرتے ہیں“ تزئین تنک کر بولی” چچا سارے بچے ایسا نہیں کرتے آپ ہمارے متعلق زیادہ نہیں جانتے کیونکہ کبھی کبھار تو ہماری ملاقات ہوا کرتی ہے نقشہ ہمیں ادھار دے ہی دیں“ لیکن کوئی وضاحت یا منت بوڑھے چچا کو نقشہ دینے پر تیار نہیں کر سکی لہذا انہوں نے نقشے پر دوبارہ ایک طائرانہ نظر ماری۔ جس پر چٹانوں کا دائرہ بنا ہوا تھا اور جس میں سے جزیرے کو جانے کا راستہ بنا ہوا تھا اور چچا کی بے ترتیب کتابوں سے بھرے کمرے سے باہر نکل گئے۔ تزئین کہنے لگی” چچا اب کھانا کھانا نہ بھول جانا“ اور یہ کہہ کر دروازہ بند کر دیا چچا نے زور سے ہُوں نہ کہا لیکن وہ ہُوں کہنے سے پہلے ہی دوبارہ کام میں غرق ہو چکے تھے کھانے کی رکابی ویسے ہی ان کی میز پر پڑی تھی۔
تزئین نے کہا”مجھے یقین ہے کہ وہ بھول جائیں گے” اور وہ بالکل صحیح کہہ رہی تھی جب اگلے دن حسب معمول چچی جان کمرے کو صاف کرنے گئیں تو رکابی میں پڑا گوشت‘سبزیاں اور کسٹرڈ ان کا منہ چڑا رہا تھا چچی غصے سے بولیں” تم بچوں سے بھی بدتر ہو ۔ میں صحیح کہہ رہی ہوں آصف!!
پندرھواں باب…………….عجیب و غریب حالات
اس رات عنریق نے سبکو اپنی ترکیب بتائی جو سن کر پہلے پہل تو ہچکچائے اور پھر جوش میں آ گئے۔ ڈری ہوئی نایاب پوچھنے لگی”کیا ہم واقعی راستہ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائیں گے“ عنریق جو ارادہ ایک دفعہ کر لیتا تھا پورا کر کے رہتا ہے وہ کہنے لگا” آسانی سے ڈھونڈ لیں گے میں نے وہ راستہ آج سہ پہر دیکھ لیا تھا مجھے یقین ہے یہ وہی راستہ تھا جو میں نے نقشے میں دیکھا ہے یا تزئین بھی اسے دیکھ چکی ہے “کی کی چلایا“ تزئین دیکھ چکی ہے تزئین دیکھ چکی ہے“ کسی نے اس پر توجہ نہیں دی صرف آپس میں زور و شور سے باتیں کرتے رہے۔ عنریق بولا” میں صرف انتظار کر رہا ہوں کہ کشتی چلانے میں مجھے مکمل مہارت ہو جائے تو پھر میں صغیر کی کشتی بھی اس سے خائف ہوئے بغیر لے جاﺅں گا”معاذ کہنے لگا“ وہ تمہیں دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دے گا اگر اسے معلوم ہو گیا تو اور تم کشتی کو اس سے چھپا کر کیسے لے جاﺅ گے ’ تو عنریق فوراً بولا“ میں کشتی پر تب جاﺅ گا جب وہ کار میں بیٹھ کر قصبے میں جائے گا میں نے سب کچھ سوچ لیا ہے وہ جیسے کار میں بیٹھ کر جائے گا میں اس کی کشتی لے اڑوں گا اور اس کے آنے سے پہلے واپس آ جاﺅں گا اور اگر میں نہ آ سکا تو پھر …کیا کیا جا سکتا ہے لیکن تم کوشش کرنا کہ اس کی توجہ کسی اور طرف مبذول کروا لو جیسے اسے تہہ خانے میں قید کر دینا یا کچھ اور “سب ہنسنے لگے۔ صغیر کو قید کرنے کا خیال ہی انہیں گدگری کر رہا تھا معاذ نے کہا ”لیکن دیکھو کیا ہم تمہارے ساتھ نہیں جائیں گے کیونکہ تم اکیلے تو جا نہیں سکتے ”عنریق نے سختی سے کہا “لڑکیاں تو ہرگز نہیں جائیں گی میں خود خطرہ مول لے لوں گا لیکن لڑکیوں کو خطرے میں نہیں ڈالوں گا لیکن یقیناً معاذ تم میرے ساتھ آ سکتے ہیں ”نایاب فورا بولی“میں تو ضرور جاﺅں گی وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اس کا بھائی اتنی خطرنک مہم پر اکیلا جائے“ ۔
عنریق نے فیصلہ کن انداز میں کہا ”تم بالکل نہیں آ سکتی اور بے وقوفی والی باتیں مت کیا کرو نایاب۔ کیونکہ تم ساتھ جا کر کام بگاڑو گی ویسے بھی ہمیں بہت احتیاط کرنی ہو گی اگر تم اور تزئین ساتھ گئیں ہمیں بالکل احتیاط سے کام لینا چاہئے“ نایاب کی آنکھوں میں بے اختیار آنسو آ گئے وہ روہانسی ہو کر بولی ”میں تمہارے لئے بالکل خطرہ نہیں بننا چاہتی“ عنریق نے کہا نایاب ہر وقت بچی نہ بنا رہا کرو تم تزئین کی طرح کیوں نہیں رہتیں اور میرا فکر کرنا چھوڑ دیتیں۔ تزئین جب معاذ کو کوئی خطرہ مول لیتے دیکھتی ہے تو پرواہ نہیں کرتی۔ تم بے شک تزئین سے پوچھو لو”تو تزئین بولی“ واقعی یہ صحیح ہے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ معاذ اور عنریق اپنا خیال خود رکھ سکتے ہیں لیکن ان سب باتوں کے باوجود میرا دل کہتا ہے کہ ہمیں بھی تمہارے ساتھ آنا چاہئے“ نایاب نے آنکھیں جھپک کر آنسو بہنے سے روکے۔ وہ عنریق کے ارادے میں مخل نہیں ہونا چاہتی تھی لیکن اسے کوئی نقصان پہنچے یہ خیال ہی اس کے لئے سوہان روح تھا وہ دل میں پوری سچائی سے دعا مانگ رہی تھی کہ عظیم آک واقعی ناپید ہو گیا ہو۔ کاش وہ ناپید ہو گیا ہوتا تو یہ سارا مسئلہ درپیش نہ ہوتا۔ عنریق اس رات سو نہیں سکا وہ جزیرے اور اس پر پائے جانے والے پرندوں کے متعلق سوچتا رہا۔
اب اس کے لئے انتظار کرنا بہت مشکل تھا وہ فوراً جزیرے پر جا کر دیکھنا چاہتا تھا کہ واقعی جہاں عظیم آک ہے یا نہیں جو اسے سہ پہر کو عینک سے نظر آیا تھا وہ اگر عظیم آک کو پکڑے تو ہو سکتا ہے اسے بے شمار رقم ملے عظیم آک صرف تیر سکتا ہے اڑ نہیں سکتا ہو سکتا وہ اسے دیکھ کر نہ ہلے اور وہ آسانی سے اسے پکڑ لے ہو سکتا ہے وہاں تین چار عظیم آک ہوں اگر ایسا و تو واقعی مزا آ جائے گا۔ عنریق اٹھا اور کھڑکی کے پاس چلا گیا وہ مغرب کی جانب دیکھنے لگا جہاں جزیرہ اس کا انتظار کر رہا تھا وہ رات اندھیری تھی اور پہلے پہل وہ کچھ نہ دیکھ سکا لیکن جب اس نے بہت غور سے مغرب کی طرف دیکھا وہ ذہنی طور پر بھی جزیرے کی سیر کر رہا تھا لیکن وہ خلاف معمول وہاں کوئی چیز دیکھ کر حیران رہ گیا اس نے بار بار آنکھیں جھپکیں اور پھر ادھر دیکھا۔ اسے ایسا لگا جیسے وہاں کوئی روشنی جل رہی ہو وہیں مغرب کی جانب جہاں جزیرہ تھا وہ اسے دیکھ ہی رہا تھا کہ وہ آہستہ آہستہ بجھ گئی اور پھر دوبارہ روشن ہو گئی عنریق نے کہا ”یہ اصل روشنی نہیں ہو سکتی لیکن جیسی بھی ہے یہ روشنی جزیرے پر تو کسی صورت نہیں ہو سکتی۔ ضرور یہ کسی جہاز کی روشنی ہو گی جو وہاں سے گزر رہا ہو گا “مغرب میں روشنی پھر بجھ گئی اور پھر دوبارہ روشن نہیں ہوئی عنریق نے انگڑائی لی جس کا مطلب تھا کہ وہ سونے لگا ہے اسے یقین تھا کہ یہ روشنی کسی جہاز کی ہی و سکتی ہے لیکن اس سے پہلے کہ وہ سو پاتا کسی اور چیز نے اس کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی کمرہ کی تنگ کھڑکی جو چٹانوں کی طرف کھلتی تھی دھیمی دھیمی روشنی میں نہا رہی تھی عنریق دم بخود اسے گھورنے لگا۔وہ کھڑکی کی طرف دوڑا اور باہر دیکھنے لگا روشنی ایک چٹان کی چوٹی سے آ رہی تھی یا تو وہاں کوئی آگ جلا کر بیٹھا تھا یا پھر اس کے ہاتھ میں جلتی ہوئی روشن لالٹین تھی وہ کون ہو سکتا تھا؟ اور رات کو بتی جلائے کیوں پھر رہا تھا کیا وہ سمندر میں سے گزرنے والے کسی جہاز کو اشارہ کر رہا تھا عنریق کا کمرہ پورے ساحل سمندر پر سب سے اونچی جگہ پر تھا اور مینار سب سے اونچی چٹان پر آگے کو امڈا ہوا تھا اگرچہ اس نے پوری گردن موڑ کر جتنی دور تک دیکھ سکتا تھا دیکھنے کی کوشش کی لیکن پھر بھی وہ نہ پہچان سکا کہ وہ روشنی کس چیز کی تھی اور کس مقام پر تھی اس نے پتا چلانے کی ٹھان لی اس نے معاذ کو نہیں جگایا اس نے بوٹ اور کوٹ پہنے اور آہستگی سے سیڑھیاں نیچے اترنے لگا جلد ہی وہ چٹان پر جانے والا راستہ چڑھ رہا تھا لیکن جب وہ اندازے سے روشنی والی جگہ پر پہنچا تو وہاں روشنی اب نہیں تھی اور نہ ہی کچھ جلنے کی بو تھی وہ بہت پریشان تھا عنریق چٹان کے ساتھ لگا کھڑا تھا جب اس نے اپنی زندگی میں پیش آنے والا سب سے ڈراﺅنا لمحہ دیکھا کسی نے اسے چھوا اور پھر مضبوطی سے پکڑ لیا پھر صغیر کی آواز آئی”تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“ اور پھر عنریق کو نہایت بیدردی سے جھنجوڑ کر دوبارہ پوچھا مجھے جلدی بتاﺅ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟“۔
عنریق اتنا ڈر چکا تھا کہ وہ کوئی بات نہیں بنا سکا اور کہنے لگا“ میں نے مینار والے کمرے سے یہاں روشنی دیکھی تھی اور میں یہاں اسے دیکھنے کے لئے آیاگیا“ صغیر ڈراﺅنی آواز میں کہنے لگا میں نے تمہیں بتایا تھا کہ رات کو یہاں چیزیں پھرتی ہیں وہیں چیزیں رات کو روشنی لئے پھرتی ہیں اور کئی دفعہ وہ چیختی اور چلاتی بھی ہیں اور پتا نہیں کیا کیا کرتی ہیں کیا میں نے تمہیں منع نہیں کیا تھا کہ رات کو آوارہ گردی چھوڑ دو“اب عنریق کے اوسان بحال ہونے شروع ہو گئے تھے اس نے پوچھا ”اور تم اس وقت کیا کر رہے ہو“ صغیر نے یہ سوال سن کر پھر اسے جھنجوڑا وہ خوش تھا کہ آخر اس نے ایک بچے کو پکڑ ہی لیا ہے وہ غرایا اور کہنے لگا ”میں بھی یہی روشنی دیکھنے ہی آیا تھا یہ ہی وجہ تھی کہ میں اس وقت ادھر ہوں لیکن یہ وہ چیزیں ہی ہیں جو ہمیشہ مصیبت ڈالتی رہتی ہیں اب جلدی سے وعدہ کرو کہ رات کو تم کبھی اپنے بستر سے نہیں نکلو گے“ عنریق نے خود کو چھڑانے کی کوشش شروع کر دی تھی وہ کہنے لگا ”میں کوئی وعدہ نہیں کرتا اب مجھے چھوڑو جانور تم مجھے تکلیف پہنچا رہے ہو”صغیر کہنے لگا“ میں تمہیں اور تکلیف پہنچاﺅں گا جب تک تم وعدہ نہیں کرتے میرے پاس ایک رسی بھی ہے جو میں ہمیشہ تمہارے اور معاذ کے لئے اپنے پاس رکھتا ہوں“ عنریق خوفزدہ ہو گیا صغیر بہت طاقتور تھا اور ظالم بھی تھا اس نے دوبارہ آزاد ہونے کے لئے پورا زور لگایا کیونکہ وہ سمجھ گیا کہ اب صغیر اسے رسی سے باندھنے لگا ہے لیکن پھر وہ کی کی تھا جس نے اسے بچایا توتے نے جب اچانک عنریق کو مینار والے کرے سے غائب پایا جہاں وہ آرام سے پروں میں سر دے کر سو رہا تھا ۔اب وہ اپنے مالک کی تلاش میں آیا تھا وہ عنریق کے بغیر زیادہ دیر نہیں رہ سکتا تھا عنریق اس وقت سوچ رہا تھا کہ صغیر کو پورے زور سے کاٹے یا نہیں کی کی اڑتا ہوا خوشی کی چیخ مارتا اسے دکھائی دیا عنریق چلایا ”کی کی۔ کی کی ۔
اسے زور سے کاٹو“ توتے نے فوراً اپنی تیز دھار چونچ حملے کے لئے تیار کی اور صغیر کے جسم کے اس حصے پر جہاں گوشت زیادہ تھا پر زور سے کاٹا۔ صغیر نے زور سے چیخ ماری اور عنریق کو چھوڑ دیا۔ اس نے توتے کو مارنے کی کوشش کی لیکن وہ اس کی دسترس سے بہت باہر تھا اور دوبارہ حملے کرنے کے لئے موقعہ تاڑ رہا تھا اس دفعہ اس نے کاٹ کر صغیر کا کان کتر لیا اس کی دوبارہ چیخ نکل گئی وہ چلایا توتے کو روکو ورنہ میں اس کی گردن مروڑ دوں گا“ تب تک عنریق چٹان والے پتھریلے راستے پر غائب ہو چکا تھا جب وہ صغیر کی دسترس سے محفوظ ہو گیا تو اس نے کی کی کو آواز دی“ کی کی آ جاﺅ تم بہت بہادر پرندے ہو“ کی کی نے ایک دفعہ پھر صغیر کے دوسرے کان پر کاٹا پھر اڑ کر عنریق کے شانے پر بیٹھ گیا اور عنریق کے کانوں میں آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگا۔ عنریق نے اس کے سر کو سہلایا اور پھر وہ گھر کو لوٹے عنریق کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اس نے کہا ”کی کی۔ صغیر سے بچکے رہنا۔وہ واقعی تمہاری گردن مروڑ دے گا مجھے نہیں پتا تم نے اس کے ساتھ کیا ہے لیکن لگتا ہے کہ ضرور وہ بہت تکلیف میں تھا“ عنریق نے معاذ کو جگایا اور اسے تمام واقعہ سنایا اس نے کہا ”میں سمجھ رہا تھا کہ روشنی سمندر سے گزرنے والے جہاز کی تھی لیکن مجھے نہیں پتا دوسری روشنی کس چیز کی تھی صغیر بتا رہا تھا کہ وہ بھی روشنی دیکھنے کے لئے نکلا تھا لیکن وہ سمجھ رہا تھا کہ یہ روشنی وہ ”چیزیں“ پیدا کر رہی ہیں جن کے بارے وہ اکثر گفتگو کیا کرتا تھا یا خدا! میں تو اس کے ہاتھوں قتل ہی ہو چلا تھا اگر کی کی نہ ہوتا تو وہ میرا پتا نہیں کیا حشر کرتا”معاذ کہنے لگا“شاباش جانثار کی کی! تو یہی الفاظ خوش ہو کر کی کی نے کئی دفعہ دہرائے عنریق پھر اسے بستر میں گھس گیا وہ بڈبڈا رہا تھا میں تھکا ہوا ہوں اور جلد ہی سو جاﺅں گا لیکن میرا دھیان جزیرے ہی کی طرف سے ہٹتا ہی نہیں لیکن چند لمحوں میں ہی وہ خراٹے مار رہا تھا اس نے خواب میں دیکھا ایک بہت بڑا نقشہ بچھا ہوا ہے جس پر دکھ والا جزیرہ نام کندہ ہے پھر اس نے ایک کشتی اس کے ساحل سے لگتی دیکھی ،اسے یاد آ گیا تھا کہ پرویز صاحب نے ان کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ اکیلے کشتی سمندر میں سیر کے لئے لے جا سکتے ہیں وہ صبح سویرے اپنے کام ختم کر کے نکل پڑے اس دن صغیر کو بہت غصہ چڑھا ہوا تھا وہ آتے جاتے عنریق اور کی کی کو گھور رہا تھا جیسے دونوں کو کھا جائے گا۔ پہلی دفعہ اس نے ان کا تعاقب نہیں کیا چچی نے بھی تہیہ کیا ہوا تھا کہ وہ صغیر سے کام کرائیں گی لہذا انہوں نے اسے کام پر لگایا ہوا تھا صغیر کو پتا تھا کہ وہ انکار نہیں کر سکتا لہذا شرافت سے کام کر رہا تھا اسی لئے بچے آنکھ بچھا کر آرام سے نکل گئے پرویز صاحب کہنے لگے” آج میں قصبے میں جا رہا ہوں۔ میں نے لکڑی لینی ہے کیلیں لینی ہیں اور انہیں ٹھوکنے کے لئے ایک ہتھوڑا بھی تاکہ جھونپڑی مرمت کر سکوں دیوار کے کچھ اور حصے گر گئے ہیں ۔
میں نے رات پانی کی پھوار برداشت کرتے ہوئے گزاری ہے کیا تم میرے ساتھ قصبے میں جانا چاہو گے اگر تم نے کوئی چیز ویز خریدنی ہو “عنریق نے فوراً کہہ دیا نہیں جناب شکریہ۔اس کی بجائے ہم کشتی کی سیر کرنا چاہیں گے ویسے بھی پرویز صاحب آج بہت پرسکون دن ہے ہم بہت محتاط بھی رہیں گے”پرویز صاحب کہنے لگے“ اور تم اپنا وعدہ بھی نبھاﺅ گے “ اور پھر غور سے اسے دیکھنے لگے عنریق نے اثبات میں اپنا سر ہلا دیا وہ سب اکٹھے بولے ”ہم زیادہ دور نہیں جائیں گے“ پھر انہوں نے پرویز صاحب کو اپنی کار میں بیٹھ کر جاتے دیکھا وہ جلد ہی اس ناہموار سڑک پر گاڑی چلا رہے تھے جو قصبے کو جاتی تھی پھر وہ کشتی کے پاس گئے پرویز صاحب اسے چٹانوں میں ایک خفیہ جگہ پر چھپا کر گئے تھے بچے ابھی تک یہ سمجھ نہیں پائے تھے کہ وہ کشتی کو وہاں چھپا کر کیوں کھڑا کرتے ہیں پھر انہوں نے سوچا کہ شاید چوری سے بچانے کے لئے احتیاط کرتے ہیں۔ انہیں تیر کر کشتی تک جانا پڑا۔ معاذ نے خشک کپڑوں والا تھیلا اپنی پشت کے ساتھ باندھ رکھا تھا وہ چٹانوں کے پاس پہنچے پھر چٹانوں کے درمیان سے جگہ بناتے ہوئے وہاں پہنچے جہاں کشتی تھی اور تند لہروں سے محفوظ کھڑی تھی انہوں نے کپڑے تبدیل کئے اور گیلے تیراکی کے سوٹ کشتی میں پھینک دیئے اور پھر کشتی کو پانی میں اتارا تھوڑی سی مشکل سے وہ کشتی کو چلانے لگے اور چٹانوں سے دور لے گئے اور پھر کھلے سمندر میں پہنچ گئے اب بادبان باندھنے کا مسئلہ تھا اور وہ بھی پرویز صاحب کی عدم موجودگی میں۔ عنریق ہانپتے ہوئے بولا” ہمارے لئے یہ کافی آسان ہونا چاہئے ہم نے کل ہی پرویز صاحب کے بغیر یہ سب کر لیا تھا” وہ کشتی کی مختلف رسیوں سے دھینگا مشتی میں مصروف تھا لیکن کل پرویز صاحب ان کو ہدایات دیتے رہے تھے لیکن اب ان کی مدد کو کوئی نہیں تھا وہ مشکل میں پھنسے ہووے تھے پھر بھی وہ وقت پر ہی بادبان کھولنے میں کامیاب ہو گئے تزئین گرتے گرتے بچی وہ بہت ناراض تھی ”معاذ تم نے جان بوجھ کر مجھے دھکا دیا ہے فوراً مجھ سے معافی مانگو پرویز صاحب نے بھی کہا تھا کہ کشتی پر کوئی شرارت نہیں کرنی“ وہ اپنے بھائی سے پھر لڑ رہی تھی جو رسیوں سے الجھا ہوا تھا معاذ نے کہا ”خاموش رہو‘ عنریق میری مدد کرو“ وہ اچانک ایک رسی میں الجھ گیا تھا جس سے لگتا تھا کہ وہ الٹا لٹک جائے گا ۔
عنریق حکم دیتے ہوئے بولا ”تزئین مجھے بیلچہ پکڑاﺅ میں بودی والے بچے کی مدد کرتا ہوں تزئین کیا تم سن رہی ہو مجھے بیلچہ دو میں معاذ کی مدد کروں“ لیکن یہ تزئین تھی جس نے جب دیکھا کہ اس کا بھائی مصیبت میں ہے تو سب سے پہلے اس کی مدد کو پہنچی اور اسے آزاد کروایا معاذ نے کہا “ شکریہ ان رسیوں کو کھینچو۔ میں نے ضرورت سے زیادہ کھول دی ہیں کیا بادبان صحیح ہیں“ بادبان صحیح لگتے تھے ہوا ان میں بھر گئی تھی اور کشتی پانی میں آگے بڑھنے لگی بہت مزا آ رہا تھا بچے تنہا ہونے کی وجہ سے خود کو بہت اہم تصور کر رہے تھے کیونکہ وہ کشتی کا نظام خود سنبھالے ہوئے تھے بچوں کے حساب سے تو یہ واقعی بہت بڑی کشتی تھی عنریق نے پانیوں کے پار ادھر دیکھا جہاں دکھ والا جزیرہ تھا ایک دن وہ اس پر جائے گا تو پتا نہیں وہاں اسے کیا مل جائے گا اس کے ذہن میں عظیم آک کی تصویر گھوم رہی تھی اور اسی تصور میں اس نے کشتی کو بالکل پیچھے موڑ دیا جس سے باقی بے خبر بچوں کے سر ایک دوسرے سے ٹکرائے معاذ غصے سے بولا ”بے وقوف ذرا مجھے بیلچہ دینا۔ اگر تم نے بچوں کی سی حرکتیں نہ چھوڑیں تو ہم سب پانی میں ہوں گے”عنریق نے کہا “مجھے افسوس ہے میں کچھ سوچ رہا تھا کہ صغیر کی کشتی کو کیسے اڑاﺅں۔ معاذ تم کیا سمجھتے ہو ہمیں یہ کب کر لینا چاہئے؟ میرا خیال ہے دو یا تین دنوں میں ”معاذ نے کہا“میرا خیال ہے دو تین دنوں میں ہم صغیر کی کشتی چلا لیں گے مشق ہو گئی تو یہ بہت آسان کام ہو گا مجھے ہوا مانوس لگنے لگی ہے اور میں کشتی چلانے کا ماہر ہوتا جا رہا ہوں لیکن بیچاری نایاب یہ نہیں کر سکتی اب دیکھو سمندر کی آب و ہوا اس کی طبیعت پھر خراب کر رہی ہے“ نایاب حوصلے سے بولی“میں بالکل ٹھیک ہوں پھر وہ ایک بھنور کے قریب پہنچے اور نایاب کے معدے میں گڑ بڑ ہو گئی لیکن دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہ تھی جو اسے دوسروں سے جدا رکھ سکتی بے شک وہ بیمار ہو بھی جاتی نایاب خاصی حوصلہ مند لڑکی تھی کچھ دیر بعد بچوں نے بادبان لپیٹ دیئے اورچپو چلانے لگے انہیں اپنا وعدہ یاد تھا اس لئے وہ زیادہ دور نہیں گئے ان کا خیال تھا کہ یہ ان کے اپنے لئے بہت مناسب چیز تھی کہ وہ فی الحال کشتی چلانے میں مہارت حاصل کریں وہ کشتی کو بار بار موڑتے رہے جلد ہی وہ کشتی چلانے میں آسانی محسوس کرنے لگے وہ جس سمت میں چاہتے کشتی کو موڑ لیتے پھر انہوں نے ایک دفعہ پھر بادبان پھیلائے اور کشتی کو ساحل کی طرف موڑ دیا وہ بہت فخریہ انداز نے کشتی میں کھڑے تھے جب انہوں نے دیکھا پرویز صاحب ساحل پر کھڑے ان کی طرف ہاتھ ہلا رہے تھے وہ واپس بھی آ چکے تھے وہ کشتی کو ساحل پر لے گئے اور خشکی کو خشک پر کھینچ لیا پرویز صاحب نے کہا ”بہت اچھے میں سمندر میں تمہیں دیکھ رہا تھا تم نے بہت اچھی کشتی چلائی۔ کل دوبارہ سیر کرنا”عنریق نے کہا“شکریہ لیکن آج سہ پہر کیوں نہ ایک دفعہ پھر ہم مشق کریں۔
تزئین اور نایاب نہیں آ سکیں گی کیونکہ یہ چچی کے کاموں میں مدد کروائیں گی لیکن میں اور معاذ آ جائیں گے“ لڑکیاں اچھی طرح جانتی تھیں کہ عنریق دیکھنا چاہتا ہے کہ کیا وہ دونوں لڑکے اکیلے کشتی کو سنبھال سکتے ہیں اس سے پہلے کہ وہ صغیر کی کشتی میں بیٹھیں اس لئے وہ چپکی بیٹھی رہیں حالانکہ وہ بھی آنا چاہتی تھیں پرویز صاحب نے اجازت دیدی کہ اگر لڑکے چاہیں تو کشتی سہ پہر چلا سکتے ہیں انہوں نے بتایا ”وہ نہیں آ سکیں گے“ میں اپنے وائرلیس سیٹ کو ٹھیک کروانے جا رہا ہوں یہ خراب ہو گیا ہے پرویز صاحب کے پاس ایک شاندار وائرلیس سیٹ تھا لڑکوں نے اتنا اچھا سیٹ پہلے نہیں دیکھ رکھا تھا یہ جھونپڑی کے پچھواڑے میں نصب تھا اور وہاں سے کوئی اسٹیشن ایسا نہیں تھا جس کو پرویز صاحب سن نہ سکیں وہ بچوں کو کبھی اسے چھونے کی اجازت نہیں دیتے تھے عنریق خوشی سے بولا ہم سہ پہر کو آ جائیں گے پرویز صاحب کشتی دینے کے لئے بہت شکریہ” پرویز صاحب کہنے لگے “یہ میرے لئے خوشی کا باعث ہے“ کی کی کو یہ الفاظ پسند آئے اور وہ انہیں فوراً دُہرانے لگا“ یہ میرے لئے خوشی کا باعث ہے یہ میرے لئے خوشی کا باعث ہے……..“بیچارہ کی کی۔ اپنے پاﺅں صاف کرو۔ برا نہ مناﺅ۔ یہ میرے لئے خوشی کا باعث ہے۔ عنریق بولا اس کی باتوں نے مجھے یاد دلا دیا“ اسے رات کو ہونے والا برا تجربہ یاد آ گیا وہ کہنے لگا “ پرویز صاحب ذرا سنئے“ پھر اس نے سرانجام دیئے ہوئے رات کے کارنامے کے متعلق ساری تفصیلات پرویز صاحب کو سنائیں اور پرویز صاحب بڑے انہماک سے سنتے رہے۔ انہوں نے پوچھا”تو تم نے روشنیاں دیکھیں‘ سمندر میں اور چٹان پر۔ بہت دلچسپ بات ہے میں حیران نہیں ہوں کہ تم کیوں اس معاملے میں دلچسپی لے رہے تھے صغیر کو بھی شاید تم جیسا ہی تجسس تھا لیکن میں اگر تمہیں نصیحت کروں تو وہ یہ ہو گی تم اپنی بساط سے زیادہ صغیر سے دشمنی نہ بڑھاﺅ مجھے وہ کوئی اچھا آدمی نہیں لگتا وہ مجھے کوئی خطرناک آدمی لگتا ہے معاذ نے وضاحت کرتے ہوئے لب کشائی کی۔ وہ پاگل بھی ہے اور بچوں سے نفرت کرتا ہے وہ بے و قوف بھی ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ اس میں اتنی جرات ہے کہ ہمیں نقصان پہنچا سکے وہ بڑے سالوں سے ہمارا ملازم ہے“۔ پرویز صاحب حیرت سے بولے”کیا وہ تمہارا ملازم ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ تمہارے بڑے صغیر کے علاوہ کسی ملازم کو نہیں ڈھونڈ سکتے۔ اگر وہ نوکری چھوڑ دے پھر بھی تمہیں اس سے احتیاط کرنی چاہئے۔ لڑکے اور لڑکیاں پھر چل دیئے معاذ کا دل چا ہ رہا تھا کہ وہ صغیر کے بارے میں پرویز صاحب کی دھمکی پر ہنسے۔لیکن عنریق نے اس نصیحت کو دل پر لیا وہ ابھی بھی خوف کی اس لہر کو نہیں بھولا تھا جو اس کے جسم میں سرایت کر گئی تھی جب صغیر نے اسے پکڑا تھا عنریق نے سوچا“ لگتا ہے پرویز صاحب صحیح کہہ رہے ہیں صغیر واقعی بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے“ یہ سوچ کر اس نے ایک جھرجھری سی لی۔
باب نمبر16……..”حیرت انگیز دریافت
اگلے تین دن بچے بڑی محنت سے کشتی کھیلتے رہے حتی کہ وہ پرویز صاحب کی کشتی چلانے میں ماہر ہو گئے اور اسی مہارت سے کشتی کو سنبھالنے لگے جیسے وہ خود پرویز صاحب ہوں۔ پرویز صاحب بھی بہت خوش تھے وہ کہنے لگے مجھے ایسے بچے بہت اچھے لگتے ہیں جنہیں خواہ مشکل کام بھی دیا جائے تو وہ بخوبی اسے سنبھالیں اور تو اور کی کی بھی تمہاری مدد میں جتا ہوا ہے اگرچہ آدھا وقت وہ خود کو گرنے سے بچانے میں صرف کرتا ہے پھر بھی وہ تمہیں تنہا نہیں چھوڑتا اور نایاب سب سے بہادر ہے جو سمندر میں آ کر بیمار ہونے کے باوجود تمہارے ساتھ ہی وقت گزارتی ہے“ اس دن سہ پہر کو انہوں نے صغیر کو دیکھا وہ مکان کے پچھواڑے میں کنویں سے پانی نکال رہا تھا بچے چپکے سے اس کی کشتی کا جائزہ لینے گئے تاکہ اندازہ لگا سکیں کہ کیا وہ واقعی تنہا اس کشتی کو سنبھال سکتے ہیں یا نہیں وہ کھڑے کشتی کو پانی میں ہچکولے لیتے دیکھتے رہے اگرچہ وہ پرویز صاحب کی کشتی سے بڑی تھی لیکن اتنی بھی نہیں انہیں یقین ہو گیا کہ وہ کشتی سنبھا ل لیں گے عنریق کہنے لگا کیا ستم ظریفی ہے کہ کی کی کشتی نہیں سکتا ورنہ ہم اسے تیسرا چپو دیتے اور یہ بھی ہماری مدد کرتا”معاذ نے پیار سے ڈانٹتے ہوئے کہا“ بے وقوف “ وہ کی کی کو نایاب اور عنریق کی طرح ہی پیار کرتا تھا توتا اس کی آواز سنکر اس کے پاس چلا گیا معاذ بولا میرا خیال ہے صغیر آج قصبے کو جا رہا ہے اور میں یہ کشتی چلانے کے لئے بے چین ہو رہا ہوں کیا تم بھی اسی طرح سوچ رہے ہو عنریق “۔
عنریق نے کہا تو اور کیا میں تو ہر وقت یہی سوچتا رہتا ہوں اور عظیم آک کے بارے میں بھی جسے میںخود آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں اب مجھے دوبارہ خوشی تبھی ملے گی جب میں اسے قریب سے دیکھ لوں گا ”معاذ کہنے لگا“ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ تم اسے ڈھونڈ سکتے ہو لیکن بہت مزا آئے گا اگر واقعی تم اسے تلاش کر لو گے اور وہ تمہارا ہاتھ پکڑ کر تمہارے ساتھ آئے گا لیکن کیا اس پرندے سے کی کی حسد میں مبتلا نہیں ہو جائے گا لیکن پھر بچوں کو ان کی من چاہی خوشی مل ہی گئی جب چچی نے اعلان کیا کہ آج صغیر چیزیں خریدنے کے لئے قصبے کی طرف جائے گا لہذا اگر کسی بچے نے کوئی چیز منگوانی ہے تو اسے لکھوا دو ویسے تو اس کے پاس جو فہرست ہے وہ بہت لمبی ہے لیکن پھر بھی جو چیز لکھوانی ہے اس کے پیسے صغیر کو دے دے۔ انہوں نے صغیر کو ٹارچ میں ڈالنے کے لئے بیٹری لانے کو کہا۔ تزئین رات کو ٹارچ جلتا چھوڑ کر سو گئی تھی جس کی وجہ سے بیٹری ختم ہو گئی تھی لہذا اب اسے نئی بیٹری کی ضرورت تھی عنریق نے کیمرے کے لئے فلم منگوائی۔ وہ سمندری پرندوں کی تصاویر تواتر سے لیتا رہا تھا اس لئے جزیرے کے لئے وہ نئی فلم ساتھ رکھنا چاہتا تھا اگلے دن وہ دم سادھے صغیر کے جانے کا انتظار کرتے رہے لیکن صغیر شاید جان بوجھ کو آہستگی سے سارے کام کر رہا تھا آخر کار اس نے کار سٹارٹ کی اور ٹوٹے پھوٹے گیراج سے باہر نکالی جہاں وہ خود بھی رہتا تھا اب مہربانی فرما کر کوئی نئی شرارت نہ کرنا میں قصبے میں جا تو رہا ہوں“ یہ کہہ کر اس نے دانت پسیجے۔ شاید اسے بھی محسوس ہو گیا تھا کہ بچے اس کے جانے کا انتظار کر رہے ہیں معاذ بولا ”تم بھی خوش رہنا‘ ہم کوئی شرارت نہیں کرتے لیکن ذرا مہربانی کرنا اور جلدی واپس نہ آ جانا تاکہ ہمیں بھی کچھ وقت چین سے گزارنا نصیب ہو“۔
صغیر بڑبڑایا اور پھر گاڑی بڑھا دی اپنی اسی معمول کی رفتار سے جس سے وہ لوگوں کی گردنیں توڑنے کے قریب کر دیتا تھا معاذ کہنے لگا پتا نہیں ان کھڈوں سے یہ کار ٹوٹ کر بکھرتی کیوں نہیں وہ کار کو آنکھوں سے اوجھل ہوتا دیکھ رہا تھا پھر وہ کہنے لگا لو وہ تو دفعان ہو گیا ہے ہمارے ہاتھ موقع لگ گیا ہے اب کیا کرنا ہے ”انتہائی پرجوش بچے ساحل کی طرف دوڑے اور بڑی کشتی کے پاس پہنچے اور لڑکے اس میں سوار ہو گئے تزئین نے اس کی رسی کھولی اور اسے آگے کی جانب دھکا دیا۔ نایاب بے چاری نے پکارا ”اپنا خیال رکھنا“۔ اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ زبردستی چھلانگ لگا کر کشتی میں سوار ہو جائے۔ عنریق نے کہا ”ٹھیک ہے“ اور اس کے شانے پر بیٹھے کی کی نے ٹھیک ہے کی گردان شروع کر دی اور پھر بولا”اپنے پاﺅں صاف کرو۔ دروازہ بند کر دو“وغیرہ وغیرہ لڑکیاں لڑکوں کو زور زور سے چپو چلاتے دیکھتی رہیں اور پھر انہوں نے دیکھا کہ انہوں نے بادبان کھول لیا ہے جس سے وہ سمجھ گئیں کہ وہ کھلے سمندر میں پہنچ گئے ہیں ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور وہ بھی بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے نایاب نے دعا دیتے ہوئے کہا ”دکھ والے جزیرے سے اللہ کرے عنریق کو عظیم آک بھی مل جائے “۔ تزئین نے کہا “یہ نہیں ہو سکتا البتہ اللہ کرے انہیں جزیرے پر جانے کے لئے راستہ مل جائے ابھی تو وہ کشتی اچھی طرح سنبھال رہے ہیں “عظیم آک کے متعلق اسے پتا تھا کہ کوئی معجزہ ہی ایسے پرندے کو ڈھونڈ سکتا ہے نایاب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اس کی آنکھیں کشتی کا تعاقب کر رہی تھیں جو اب مشکل سے دکھائی دے رہی تھیں کیونکہ آہستہ آہستہ دھند غالب آ رہی تھی ادھر لڑکوں کو بہت مزا آ رہا تھا انہیں محسوس ہوا کہ اگرچہ صغیر کی کشتی بڑی ہے اور اسے سنبھالنا مشکل بھی ہے لیکن پھر بھی وہ اسے سنبھال سکتے ہیں ہوا خاصی تیز تھی اور وہ سمندر میں بھاگے جا رہے تھے کشتی کے اوپر نیچے ہونے سے لڑکے حظ اٹھا رہے تھے وہ ہوا کی سیٹیاں بھی سن رہے تھے اور پیچھے رہتی لہروں کو اپنا تعاقب کرتے بھی دیکھ رہے تھے عنریق بولا” کشتی کی سیر سے زیادہ مزا کسی چیز میں نہیں ملتا۔ میں بھی ایک دن اپنی کشتی خریدوں گا۔
معاذ کہنے لگا یہ تو بڑی مہنگی ملتی ہے عنریق بولا تب تک میں پیسے کمانے لگوں گا پھر میں اپنے لئے کشتی خریدوں گا اور ان جانے جزیروں کی سیر کو جاﺅں گا جہاں صرف پرندے رہتے ہوں اور پر لطف وقت گزاروں گا“ لیکن جیسے ہی وہ جزیرے کے پاس پہنچے انہیں لہروں کے چٹانوں سے ٹکرانے سے پیدا ہونے والا غضبناک شور سنائی دیا لیکن پھر اچانک جزیرہ ان کے سامنے آن کھڑا ہوا اور ہر طرف لڑکوں پر پانی کی پھوار پڑنے لگی اچانک معاذ چلایا دھیان کرو ہم سیدھے چٹانوں سے ٹکرانے جا رہے ہیں بادبان اتارو ہمیں چپو چلانے پڑیں گے ہم اتنی تیز ہوا میں کشتی نہیں سنبھال سکتے یہ بہت تیز ہوا ہے انہوں نے بادبان اتار لئے اور چپوﺅں سے کشتی کھینے لگے عنریق پہاڑی کو ڈھونڈ رہا تھا لیکن پہاڑی کو ڈھونڈنا بہت مشکل تھا کیونکہ یہ حقیقت تھی اور جو پہاڑی انہوں نے دیکھی تھی وہ کاغذ کے نقشے پر بنی ہوئی تھی تمام پہاڑیاں ایک ہی بلندی کی لگ رہی تھیں لڑکے کشتی کو چٹانوں کے بنے دائرے کے اردگرد کھیلتے رہے وہ لہروں کے اس زبردست بہاﺅ سے بچ رہے تھے جو انہیں زبردستی جزیرے کی طرف لے جا رہا تھا اچانک عنریق بولا وہ دیکھو اونچی پہاڑی۔ اپنے بائیں طرف دیکھو“ کشتی کو ادھر لے جانے کی کوشش کرو مجھے یقین ہے وہی ہماری مطلوبہ پہاڑی ہے“ ۔
وہ ہانپتے کاپتے پوری طاقت سے چپو چلاتے رہے اور پھر جب وہ بالکل پہاڑی کے سامنے آ گئے تو انہوں نے چٹانوں کے درمیان مطلوبہ راستہ بھی ڈھونڈ لیا وہ بہت تنگ راستہ تھا یہ ٹھیک تھا لیکن حقیقت میں جزیرے تک جانے کا بھی یہی راستہ تھا جہاں سے کشتی گزر سکتی تھی پھر معاذ نے متنبیٰ کرتے ہوئے کہا ”دھیان کرو عنریق یہ بہت مشکل جگہ ہے ہو سکتا ہے ہم راستے سے ہٹیں اور چٹانوں سے نہ ٹکرائیں اور اگرچہ راستے میں فی الحال کوئی رکاوٹ نظر نہیں آ رہی ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ پانی کے نیچے کوئی چھپی ہوئی چٹان ہو اور وہ ہماری کشتی کے پیندے میں چھید کر دے خیال کرو عنریق“ لیکن عنریق بہت خبردار تھا ہر چیز کا دارومدار ان کے جزیرے پر پہنچے سے تھا لڑکوں کے چہرے پریشان اور ستے ہوئے تھے، بہت ہی احتیاط سے کشتی چلاتے رہے کی کی بھی دم سادھے بیٹھا تھا کیونکہ اسے پتا تھا کہ لڑکے مشکل میں ہیں راستہ بہت تنگ لیکن طویل تھا جہاں سے کشتی کو گزارنا بہت مشکل کام تھا پانی کی لہروں کے بہاﺅ بالکل مختلف سمتوں میں تھے لیکن سب کی کوشش تھی کہ کشتی کو بہا کر لے جائیں پھر لڑکوں کو محسوس ہوا کہ کشتی کا پیندا نیچے پتھروں سے لگ رہا ہے لیکن اب وہ دراصل جزیرے کے راستے تک پہنچ گئے تھے معاذ کہنے لگا ”بہت مشکل سے بچے ہیں کیا تم نے پیندے کے نیچے گڑ گڑاہٹ سنی تھی ”عنریق نے کہا“ بالکل میں نے بھی محسوس کیا تھا لیکن اب سب ٹھیک ٹھاک ہے اور سب سے زبردست بات یہ ہے کہ ہم پرسکون سمندر کے پانیوں میں ہیں!
“ چٹانوں کے دائرے کے آگے راستے میں نیلا پانی بہت خاموشی سے بہہ رہا تھا اور سورج کی کرنیں اس میں چمک پیدا کر رہی تھیں یہ بہت حیران کن نظاہرہ تھا کہ لہروں اور سمندر کی متلاطم شوریدہ موجوں کے درمیان پانی اتنے سکون سے بہہ رہا تھا متلاطم موجوں کی گھن گھرج ابھی بھی ان کے کانوں میں گونج رہی تھی معاذ خوشی سے کہنے لگا “اب جزیرہ دور نہیں ہے میں بہت تھک گیا ہوں کم از کم میرے بازو تو شل ہو چکے ہیں لیکن اب جزیرے تک تو پہنچنا ہی ہے مجھ سے تو اب رہا نہیں جا رہا کہ میں جلدی سے جزیرے پر پہنچوں“پھر انہوں نے کشتی کھڑی کرنے کی اچھی سی جگہ ڈھونڈی۔ جزیرے پر جا بجا ان گنت چٹانیں تھیں لیکن ایک جگہ جہاں تھوڑا سا وقفہ تھا اور وہاں ریت چمک رہی تھی لڑکوں نے کشتی وہاں کھڑا کرنے کی ٹھانی۔ اگرچہ کشتی کو ساحل پر ریت والی جگہ پر کھڑا کرنا بہت آسان تھا پھر بھی انہوں نے اپنی پوری طاقت صرف کر دی تب کہیں جا کر وہ ریت پر کشتی کو چڑھا سکے لیکن وہ پرویز صاحب سے بہت کچھ سیکھ بھی چکے تھے لہذا جلد ہی وہ جزیرے پر گھوم پھر رہے تھے انہوں نے خالی جگہ کے پیچھے پہاڑی کے اوپر تک سفر کیا اور پھر جزیرے کے گردو نواح میں نظر دوڈائی سب سے پہلے ان کی نظر جن پر پڑی وہ ان گنت پرندے تھے جو جزیرے میں موجود تھے وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے ہر شکل کے۔ ہر قسم کے اور ہر لمبائی چوڑائی کے۔ وہ بے انتہا شور کر رہے تھے انہوں نے لڑکوں کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ صرف کھڑے ان کی طرف حیرت سے دیکھتے رہے لگتا تھا انہوں نے پہلے انسانوں کو نہیں دیکھا تھا اسی لئے وہ خوفزدہ بھی نہیں تھے لیکن جیسے لڑکے ان کے قریب پہنچے وہ انہیں دیکھ کر اڑنے لگے وہ اتنے ہی نامانوس دکھائی دے رہے تھے جتنا یہ سارا ساحل کا علاقہ تھا عنریق بہت مایوس تھا وہ کہنے لگا ہمیں ہمیشہ ایسی جگہ کے پرندوں کے بارے میں سوچا کرتا تھا جہاں کبھی کسی انسان کے قدم نہ پہنچے ہوں وہ انسانوں کو دیکھ کر خوفزدہ نہیں ہوتے لیکن یہ تو بہت جنگلی لگتے ہیں لگتا ہے یہ ہمیں نزدیک نہیں آنے دیں گے” وہاں کچھ درخت بھی نظر آ رہے تھے اور ان کے نیچے ہوا سے بچنے کے لئے پناہ گاہوں جیسی جگہیں بھی بنی ہوئی تھیں پیروں کے نیچے چبھتی ہوئی گھاس آ رہی تھی جو کہیں کہیں ادھر ادھر اگی ہوئی تھی حتی کہ یہ نوکیلی گھاس بھی ہر جگہ اگی ہوئی نہیں تھی اور ننگی بے رحم چٹانیں ہر جگہ بکھری ہوئی تھیں لڑکے چٹان سے اترے اور جزیرے پر چلنے لگے۔
ہزاروں پرندوں کے شور سے ان کے کان بہرے ہو رہے تھے وہ چٹان سے اتر کر جزیرے کے عین وسط میں پہنچ گئے تھے عنریق نے کہا ”میں دراصل وہ مضحکہ خیز عمارتیں بھی دیکھنا چاہتا ہوں جو میں نے عینک سے دیکھی تھیں لیکن سب سے پہلے میں عظیم آک کو دیکھنا چاہتا ہوں ابھی تک میں نے اس کے کوئی آثار نہیں دیکھے۔ حالانکہ دوسرے سارے پرندے جو ہم گھر سے بھی دیکھ سکتے ہیں وہ سب یہاں موجود ہیں عنریق ہر لمحے امید کر رہا تھا کہ وہ کسی بھی وقت عظیم آک کو دیکھ سکتا ہے اسے قطعی امید نہیں تھی کہ وہ عظیم آک کے جھنڈ کے جھنڈ دیکھے گا اسے تو آس تھی کہ کاش وہ کوئی ایک ہی دیکھ لے وہی عمر بھر کے لئے کافی ہو گا وہاں عظیم آک کے مشانہ بے تحاشہ پرندے تھے جن کی چونچیں عجیب و غریب تھیں یہ سمندری پرندوں کے لئے جنت کا ٹکڑا تھا اس کی بہت خواہش تھی کہ کاش وہ تین چار روز مسلسل جزیرے پر رہے، پرندوں کو دیکھے اور تصویریں کھینچے وہ چٹانوں کے قریب آئے اور ان کے درمیان ایک راستہ دیکھا یہاں گھاس زیادہ تھی اور پھول بھی کھلے ہوئے تھے ۔
گلابی اور کئی رنگوں کے‘ پہاڑیوں کے درمیان ایک وادی تھی جس میں ے ایک ندی بہہ رہی تھی جو سمندر میں جا گرتی تھی لڑکے اسے دیکھنے گئے کیونکہ ندی کا رنگ بہت حیران کن تھا عنریق حیرانی سے دیکھ رہا تھا۔وہ کہنے لگا” یہ تو تانبے کی طرح سرخی مائل ہے مجھے حیرت ہے کہ ایسا کیوں ہے اور کیا تم دیکھ رہے ہو چٹانوں کا رنگ کیسے تبدیل ہو گیا ہوا ہے؟ اب وہ سیاہی مائل نہیں بلکہ سرخی مائل ہو چکا ہے اور کئی فیروزوں کی طرح سبزی مائل بھی ہیں یہ بہت حیرت انگیز چیز ہے۔ ہے نا؟” معاذ کہنے لگا“ مجھے یہ جزیرہ ذرا اچھا نہیں لگا۔ یہاں تنہائی ہے اور فضا پر افسردگی چھائی ہوئی ہے”عنریق بولا“ دراصل تم صغیر کی گھڑی ہوئی خوفناک کہانیاں غور سے سنتے رہے ہو“ وہ ہنستا ہوا بولا حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ خود بھی اب اس جزیرے کے بارے میں اتنی محبت میں مبتلا نہیں تھا۔ یہ اتنا ویران تھا کہ سمندری پرندوں کی آوازوں کے علاوہ اور کوئی آواز کانوں میں نہیں پڑتی تھی پھر وہ ایک چٹان پر آدھی اونچائی پر چڑھا تاکہ عمارتیں دیکھ سکیں دور سے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل تھا کہ آخر وہ کس لئے بنائی گئی ہیں کیونکہ وہ بہت قدیم تھیں اور ٹوٹ پھوٹ چکی تھی اور اب صرف پتھروں کے ڈھیر کی صورت میں موجود تھی اب تو ایسا لگتا تھا کہ شاید کبھی یہاں کوئی ذی روح نہیں رہا اور پھر ان ”عمارات“ کے نزدیک ایک عمارت میں معاذ نے ایک حیرت انگیز چیز ڈھونڈی اس نے جوش کے عالم میں عنریق کو آواز دی ”عنریق بھاگ کر آﺅ دیکھو“ یہاں کتنا بڑا اور گہرا گڑھا ہے جو شاید زمین کی تہہ تک جا رہا ہے اتنا گہرا”عنریق دوڑ کر گڑھے کے قریب پہنچا اور یہ بہت بڑا گڑھا تھا جو گولائی میں تقریباً چھ فٹ تھا اور زمین میں اتنا گہرا جا رہا تھا کہ لڑکوں کے لئے ممکن نہیں تھا کہ اس کی تہہ تک دیکھ سکیں معاذ پوچھنے لگا۔
”یہ کس لئے ہو سکتا ہے؟ کیا یہ کنواں ہے؟ لڑکوں نے ایک پتھر اس کے اندر پھینکا کہ اگر یہ کنواں ہوا تو پتھر کے پانی میں گرنے سے کوئی آواز آئے گی یا لہر اٹھے گی لیکن کوئی آواز نہیں آئی یا تو وہ کنواں ہی نہیں تھا یا وہ اتنا گہرا تھا کہ پتھر کے گرنے کی آواز وہ سن کر نہیں سکے معاذ نے کہا ”میں اس کے اندر گرنا بالکل پسند نہیں کروں گا لیکن دیکھو یہاں تو دیوار کے ساتھ سیڑھی لگی ہوئی ہے جو پرانی اور ٹوٹی ہوئی ہے لیکن گہرائی تک جا رہی ہے لیکن آخر سیڑھی تو ہے”عنریق حیران ہو کر بولا“ یہ کوئی راز ہے آﺅ اور اسے نزدیک سے دیکھیں ہو سکتا ہے ہمیں کوئی ایسی چیز ملے جس سے اس راز کا عقدہ کھلے۔ اتنے ویران جزیرے میں اتنی گہرائی تک ایک سیڑھی جا رہی ہے تو آخر یہ کس لئے لگائی گئی ہے۔
باب نمبر 17…………صغیر کی ناراضگی
لڑکے حیرت سے ششدر پھر رہے تھے وہاں کتنے ہی ایسے سوراخوں والا تاریک کنوویں تھے اور وہ سب ان عجیب و غریب پرانی عمارتوں کے قریب تھے عنریق کہنے لگا”یہ کنوویں تو نہیں ہو سکتے“کیونکہ یہ ناممکن ہے کوئی بھی اتنے کنوویں کھود کر کیا کرے گا یہ ضرور پُلیاں ہیں جو زمین میں تہہ تک گہرائی تک کس خاص معقد تک پھینکی گئی ہیں اور جنہیں انگریزی میں Shaftکہتے ہیں معاذ نے پوچھا”کیا تم یہ سمجھ رہے ہو کہ یہاں کانیں ہوا کرتی تھیں؟ یہ سوال معاذ نے اس لئے کیا تھا کیونکہ اسے پتا تھا کہ کوئلے کی کانوں میں ہمیشہ اس طرح کی شافٹیں یا پائپ لگے ہوتے ہیں جنہیں زمین میں بڑی گہرائی تک کھودا گیا ہوتا ہے تاکہ انسان نیچے ان کانوں میں جا کر مشینوں کے ذریعے کوئلہ نکال سکیں اسی لئے اس نے دوبارہ پوچھا ”کیا تم سمجھتے ہو کہ یہاں پرانی کانیں موجود ہیں مثلاً کوئلے کی کانیں‘ عنریق کہنے لگا” نہیں کوئلے کی نہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی یہ کس کی ہو سکتی ہیں؟ ہمیں یہ گتھی سلجھانی ہو گی میرا خیال ہے چچا اس بارے میں جانتے ہیں لیکن کیا یہ معجزہ بھی ہو سکتا ہے کہ کانیں سونے کی ہوں ابھی کیا کہا جا سکتا ہے معاذ نے کہا ”اگر یہ کانیں ہیں تو ان میں سو سال پہلے ہی کام مکمل ہو چکا ہے اب یہاں سونا کہاں۔ اگر ہوتا تو ابھی بھی یہاں کام ہو رہا ہوتا۔ اب کیا ارادے ہیں کیا ہم نیچے اتر کر دیکھیں کہ نیچے کیا ہے؟ عنریق نے مشکوک لہجے میں کہا ”میں نہیں جانتا کیونکہ یہ سیڑھیاں بہت پرانی اور خستہ حال ہیں ہو کتا ہے یہ ٹوٹ جائیں اور ہم ہزاروں فٹ نیچے جا گری اور یہ ہماری زندگی کا آخری دن ہو۔
”کی کی نے تبصرہ فرمایا“ بہت افسوس کی بات ہے بہت افسوس کی بات ہے“ معاذ بولا واقعی یہ افسوس والی بات ہو گی لیکن بہتر یہی ہے کہ ہم یہ ارادہ ہی ترک کر دیں لیکن عنریق ذرا ادھر دیکھو یہ پہلی پُلی دوسری سے بڑی ہے لڑکوں نے اس بڑی پلی کے سوراخ میں جھانکا اس سوراخ میں سیڑھی بھی دوسری سیڑھیوں سے مضبوط تھی وہ سیڑھی سے تھوڑا نیچے اترے ان کا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا لیکن پھر وہ جلدی سے واپس اوپر آ گئے انہیں اتنی تاریکی اور گہرائی میں سانس بند ہوتی محسوس ہوئی پھر انہیں ایک اور ایسی چیز ملی جس سے انہیں جتنی حیرت ہوئی وہ پلیوں اور سیڑھیوں کو دیکھ کر بھی نہیں ہوئی تھی کچھ ہی دور ایک چٹان نما ٹیلے کے قریب انہوں نے استعمال شدہ چیزوں کا ڈھیر دیکھا۔اور وہ چیزیں تھیں چبائی ہوئی گوشت کی ہڈیاں اور کھائے ہوئے پھلوں کے چھلکے یہ ایک بہت ہی حیرت انگیز دریافت تھی اور لڑکوں کو اپنا بینائی پر شبہ ہو رہا تھا وہ آنکھیں مل مل کر دیکھ رہے تھے کی کی تو اڑ کر ان کے قریب پہنچ گیا کہ شاید کوئی کیلا یا سنگترہ بچ گیا ہو آخر عنریق بولا اب ذرا اندازہ کرو یہ چیزیں کہاں سے آئی ہیں ؟ ۔
کیا عجیب بات ہے کچھ کھانے کے دھاتی ڈبے تو بہت زنگ آلود ہیں لیکن باقی تو بالکل تازہ اور نئے ہیں یہ اس ویران جزیرے پر کیسے آ سکتے ہیں؟ اور جو بھی انہیں کے کر آیا ہے وہ کہاں رہتا ہے؟ ”معاذ نے کہا“ یہی تو راز کی بات ہے آﺅ ذرا وہاں جا کر غور سے دیکھیں اور پھر ادھر ادھر بھی شاید کوئی ہمیں چلتا پھرتا نظر آ جائے لیکن ذرا خفیہ طریقے سے کیونکہ اب یہ بالکل واضح حقیقت ہے کہ جو بھی ادھر رہتا ہے وہ نہیں چاہتا کہ کسی کو اس کا پتا چلے لہذا لڑکوں نے نہایت احتیاط سے جزیرے کا چکر لگایا لیکن انہیں نہ تو کوئی شخص نظر آیا اور نہ ہی کوئی ایسی چیز نظر آئی جس سے ان استعمال شدہ چیزوں کے راز کا کچھ معلوم ہوتا۔ وہ پہلے ہی سمندر کے قریب چٹانوں کے سرخ رنگ کے بارے میں حیران تھے اور اس سے بڑھ کر بھی اس ندی کے پانی کے سرخ رنگ کے بارے میں جو جزیرے کے بچوں بیچ گزرتی تھی سمندر کے قریب ہزاروں کی تعداد میں پرندے تھے اور عنریق ایک مشاق تجزیہ نگار کی طرح ان میں سے عظیم آک کو ڈھونڈتا رہا لیکن کسی ایک کو بھی نہیں ڈھونڈ سکا جو اس کے لئے بہت مایوسی کی بات تھی معاذ نے پوچھا ”کیا تم نے کوئی تصویریں نہیں کھینچیں جلدی کرو کیونکہ ہم زیادہ دیر اس جزیرے پر نہیں ٹھہر سکتے ”عنریق کہنے لگا“ میں نے تھوڑی سی تصویریں کھینچی ہیں“ یہ کہہ کر وہ ایک ٹیلے کے پیچھے چھپ کر ننھے ننھے پرندوں کے بچوں کی تصویریں کھینچنے لگا اور جب فلم تقریباً مکمل ہو گئی تو اس کے ذہن میں ایک خیال آیا وہ کہنے لگا “ میں ان استعمال شدہ چیزوں کی تصویریں بھی کھینچ لوں تاکہ لڑکیاں بھی اسے دیکھ کر ہماری باتوں کا یقین کر لیں وگرنہ ہو سکتا ہے وہ ان عجیب و غریب باتوں پر یقین ہی نہ کریں اس لئے بہتر ہے کہ انہیں دکھانے کے لئے تصویر ہی کھینچ لی جائے“ اس نے تصویر کھینچی اور آخری بار بڑی اور خاموش پلی کی طرف دیکھا اور پھر دونوں لڑکے کشتی کی طرف روانہ ہو گئے جو پانی کی دسترس سے تھوڑی ہی دور کھڑی تھی عنریق نے کہا کہ اب دعا کرو کہ ہم خیر خیریت سے گھر پہنچ جائیں پتا نہیں صغیر واپس آ گیا ہے یا نہیں۔ میں تو دعا ہی کر سکتا ہوں کہ اگر لڑکیوں کا اس سے پالا پڑ گیا تو وہ اس سے نمٹ لیں“انہوں نے کشتی کو پانی میں دھکیلا اور پھر پرسکون پانیوں سے چٹانوں سے نکلنے والے راستے پر لائے جہاں پانی کی لہروں کی بوچھاڑ دور دور تک بارش برسا رہی تھیں انہوں نے کسی نہ کسی طرح چٹانوں سے خود کو بچایا ایک دفعہ پھر کشتی کا پیندا پتھروں سے چھوتے ہوئے گذرا لیکن اس کے علاوہ وہ آسانی سے اس راستے سے نکل گئے پھر سمندر میں انہیں مشکل پیش آئی کیونکہ آج سمندر اتنا پرسکون نہیں تھا ہوا اپنا رخ بدل چکی تھی اور سمندر کی لہریں بے رحم ہو رہی تھیں انہوں نے بادبان کھول لئے اور نہایت مہارت سے کشتی کیتے ہوئے گھر پہنچے انہوں نے سمندری ہواﺅں کی درشتگی اپنے گالوں پر برداشت کی اور پانی کی ساری بوچھاڑ اپنے چہروں پر۔ کافی دیر بعد جب وہ گھر والے ساحل پر پہنچے انہوں نے دونوں لڑکیوں کو اپنا منتظر پایا وہ ان کی طرف دیکھ کر ہاتھ ہلا رہی تھیں عنریق اور معاذ نے بھی انہیں دیکھ کر جوابی ہاتھ ہلائے پھر انہوں نے کھینچ کر کشتی محفوظ جگہ پر کھڑی کی اور اسے باندھ دیا نایاب چلا کر بولی۔
” کیا تم عظیم آک تو تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے عنریق؟”معاذ نے پوچھا“ کیا صغیر واپس آ گیا ہے؟”تزئین نے بتایا“ کب کا آ چکا ہے وہ اب لڑکوں کی کہانی سننے کے لئے بے صبری ہو رہی تھی معاذ نے بتایا ہماری مہم بہت کامیاب رہی ہے کیا صغیر واپس آ گیا ہے؟” یہ سارے سوالات ایک ہی وقت میں پوچھے جا رہے تھے لیکن ان میں سے سب سے اہم سوال صغیر کے متعلق تھا تزئین ہنستے ہوئے بولی ”وہ کوئی ایک گھنٹہ پہلے آیا تھا اور ہم اسی کی راہ تک رہی تھیں خوش قسمتی سے وہ سیدھا تہہ خانے میں چلا گیا اس کے ہاتھ میں بازار سے لائے ہوئے کچھ ڈبے تھے ہم نے اس کا تعاقب کیا اس نے اندرونی تہہ خانے کا دروازہ کھولا اور تہہ خانے میں چلا گیا وہ تہہ خانہ میں جس میں دروازہ ہے ہمیں چابی رکھنے والی جگہ یاد تھی ہم نے وہ نکالی اور اسے قید کر کے باہر سے تالا لگا دیا اب وہاں وہ قید میں زور زور سے دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے لڑکے یہ خبر سنکر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے“ اس کا مطلب ہے کہ اسے معلوم نہیں ہو سکاکہ ہم اس کی کشتی اڑا کر لے گئے تھے لیکن اب نیا مسئلہ یہ ہے کہ اسے قید سے آزاد کیسے کروائیں کہ اسے علم بھی نہ ہو سکے کہ اسے کس نے قید کیا تھا اور آزاد کس نے کیا ہے؟” تزئین کہنے لگی“ اس کا کوئی تو حل سوچنا پڑے گا لڑکے پھر گھر کی طرف روانہ ہو گئے لیکن ان کے ذہن سوچنے میں مصروف تھے آخر معاذ بولا ”ہم میں سے کوئی چپ کر جائے گا اور دروازے کا قفل کھول دے گا لیکن یہ اس وقت ممکن ہے جب صغیر چپکا بیٹھا ہوا ہو آحر وہ ہمیشہ اور مسلسل دروازہ تو نہیں کھٹکھٹا سکتا نا جیسے ہی وہ دروازہ کھٹکھٹانا بند کرے میں تالے میں چپکے سے چابی ڈالوں گا اور دروازہ کھول دوں گا اور پھر دوڑ کر سیڑھیاں چڑھ جاﺅں گا جب صغیر اگلی دفعہ دروازہ کھولنے کی کوشش کرے گا تو وہ کھل جائے گا لیکن وہ سمجھ نہیں پائے گا کہ یہ کیسے کھل گیا؟ ۔
دوسروں نے یہ ترکیب خوشی سے سنی کیونکہ انہیں یقین تھا کہ صغیر کو رہا کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے جس سے اسے معلوم بھی نہ ہو سکے گا کہ چاروں بچوں کا اس معاملہ سے کوئی تعلق ہے بھی یا نہیں؟”معاذ نے چابی لی اور پھر دبے پاﺅں نیچے تہہ خانے میں گیا وہ نیچے پہنچا جہاں صغیر اپنے ہاتھوں کو ہتھوڑوں کی طرح استعمال کر کے دروازے کو کھٹکھٹا رہا تھا معاذ نے انتظار کیا آخر صغیر سانس لینے کے لئے رکا تو معاذ نے چابی تالے میں لگا دی اس نے صغیر کے کھانسنے کی آواز سنی تو اس نے آہستگی سے تالا کھول کر چابی نکال لی دروازہ کھل چکا تھا اور صغیر جب چاہتا باہر آ سکتا تھا معاذ تیزی سے سیڑھیوں کی طرف لپکا اور باورچی خانے میں دوڑ کر پہنچا اور پھر ساتھیوں سے آن ملا وہ ہانپتے ہوئے بولا ”وہ کچھ لمحوں میں ہی باہر آ جائے گا آﺅ چٹانوں کی طرف چلیں اور جب صغیر آتا دکھائی دے تو ہم گھر کی طرف چل پڑے اور ظاہر کریں گے کہ ہم سیر کرتے ہوئے واپس آ رہے ہیں ہمیں دیکھ کر وہ بالکل ہی پاگل ہو جائے گا پھر وہ سب دوڑتے ہوئے چٹانوں پر پہنچے کچھ دیر وہاں رُک کر انہو نے بتایا کہ دکھ والے جزیرے میں انہوں نے کیا کیا دیکھا لڑکیاں دم بخود سنتی رہیں کیا واقعی زمین میں اتنے گہرے گڑھے تھے؟ ایک ندی جس میں سرخ رنگ کا پانی بہتا ہے خوراک کے استعمال شدہ دھاتی ڈبے‘ کیا حیرت انگیز تھا عنریق کہنے لگا” سادہ بات یہ ہے کہ ہمیں ویران جزیرے میں دبارہ جانا پڑے گا کہ یہ پُلیاں زمین میں کہاں تک جاتی ہیں اور یہ بھی جانیںگے کہ کیا اب بھی وہاں کسی قسم کی کانیں بقایا ہیں تزئین !مجھے امید ہے کہ چچا آصف اس بارے میں ضرور جانتے ہوں گے“ تزئین بولی” ہاں ضرور جانتے ہوں گے کاش وہ جس نقشے کا ذکر اس دن کر رہے تھے وہ ہمیں مل جاتا تو اس میں سے ہمیں ہر قسم کی معلومات مل سکتی تھیں“ تبھی کی کی نے اپنی ریل گاڑی چلنے کی آواز نکالنی شروع کر دی جس کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے اور سب کے دشمن صغیر کو دیکھ لیا ہے بچوں نے اسے نیچے سے آتے دیکھا وہ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا ظاہر ہے وہ انہی کو دیکھ رہا تھا۔وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور گپیں ہانکتے ہوئے گھر کی جانب روانہ ہو گئے صغیر نے انہیں دیکھا اور پھر ان کی طرف آنے لگا اس کا چہرہ غصے سے تاریک ہو رہا تھا اس نے کہا ”تم لوگوں نے مجھے قید کیا تھا میں اس بارے میں چچی کو بتاتا ہوں تمہاری بہت اچھی طرح پٹائی ہونی چاہئے معاذ کہنے لگا “ ہم نے تمہیں قید کر دیا تھا اور ذرا خود ہی بتا دو کہ ہم نے تمہیں کہاں قید کیا تھا کیا تمہارے کمرے میں؟
تہہ خانے میں چلو اچھا ہوا چچی بھی آ ہی گئیں میں تمہاری حرکت انہیں بتاتا ہوں چچی جان! ان بچوں نے مجھے تہہ خانے میں قید کر دیا تھا چچی غصے سے بولیں تم تو ہو ہی بے وقوف! تمہیں خود بھی پتا ہے کہ تہہ خانے کے دروازے میں تالا نہیں لگتا۔ بچے سیر سے آ رہے ہیں تم اندھے ہو کیا دیکھو وہ کس سمت سے گھر کی طرف لوٹ رہے ہیں تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ انہوں نے تمہیں قید کیا تھا؟ میرا خیال ہے کہ تم پاگل ہو گئے ہو“ صغیر نے تو روہانسا ہو گیا اور بولا” انہوں نے ہی مجھے قید کیا تھا“ لیکن یہ کہتے ہوئے اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا کہ اندر والا تہہ خانہ تو اس نے ہمیشہ سب سے راز میں رکھا ہوا تھا لہذا یہ اس کے لئے بہتر ہے کہ وہ زیادہ وضاحتوں میں نہ جائے ورنہ چچی جان باورچی خانے سے نیچے جائیں گی اور بڑی آسانی سے خفیہ تہہ خانہ ڈھونڈ لیں گی جو اتنے سالوں سے اس نے سب سے چھپا کر رکھا ہوا ہے معاذ نے بڑی برجستگی سے کہا ” چچی میں نے اسے قید نہیں کیا میں تو صبح سے گھر کی طرف گیا ہی نہیں؟“ عنریق نے تو ویسے ہی سچ بولا چچی نے بھی نہیں گیا چچی نے ان کی بات کا یقین کیا اور پھر جب دیکھا کہ چاروں بچے اکٹھے ہیں تو انہوں نے لڑکیوں کے بارے میں خود بخود اخذ کر لیا کہ وہ بھی لڑکوں کے ساتھ ہی رہی ہیں تو پھر یہ بچے آحر صغیر کے ساتھ ایسی حرکت کیسے کر سکتے ہیں؟
ویسے بھی چچی کو پورا یقین تھا کہ تہہ خانے کے کمرے کو تالا تو لگا ہی نہیں ہوا ہے تو پھر صغیر کا قید کی بات کرنے کا کیا مطلب تھا؟ وہ سختی سے بولیں“ جاﺅ صغیر اور جا کر اپنا کام کرو تم ہمیشہ بچوں پر چاقو تانے رہتے ہو کبھی ان پر کوئی الزام دھرتے ہو تو کبھی کوئی ان کا پیچھا چھوڑ بھی دیا کرو وہ اچھے بچے ہیں میں جانتی ہوں“ مگر صغیر چچی کے خیالات سے قطعی متفق نہیں تھا صغیر نے اپنے مخصوص انداز سے غصے کا اظہار کیا اور ناراضگی سے بھرپور آواز نکالی جس کی بھرپور نقل کی کی نے فوراً کر دی۔ وہ اسی حالت میں باورچی خانے کی طرف چلا گیا چچی کہنے لگیں” تم اس کو زیادہ اہمیت نہ دیا کرو وہ ذرا کھسکا ہوا ہے اگرچہ وہ بہت غصیلا ہے لیکن اس سے نقصان کی توقع نہ کرنا“ بچے آنکھوں آنکھوں میں ایک دوسرے کو اشارے کرتے گھر لوٹے یہ بہت اچھا تھا کہ چچی ان کا ساتھ دیا کرتی تھیں لیکن صغیر کے ساتھ ان کی دشمنی بڑھتی جا رہی تھی جس کا انہیں مستقبل میں خیال رکھنا تھا عنریق بولا” بہت مزے کی بات ہے چچی کہتی ہیں کہ صغیر بے ضرر آدمی ہے اور پرویز صاحب کا خیال ہے کہ وہ بہت خطرناک آدمی ہے دونوں میں سے اللہ جانے اب کون صحیح کہہ رہا ہے؟
باب نمبر 18…………دوبارہ جزیرے پر
سب سوچ رہے تھے کہ اب آگے کیا کیا جائے؟ کیا انہیں پرویز صاحب کو اپنی تمام مہم کے بارے میں بتانا چاہئے کیا وہ بہت ناراض ہونگے جب انہیں پتا لگے گا کہ بے شک ہم نے وعدہ نہیں توڑا لیکن ان کا کہا بھی نہیں مانا۔ اور کسی اور کی کشتی میں سوار ہو کر جزیرے پر چلے گئے تھے بچوں کو یقین ہو گیا کہ وہ بہت ناراض ہونگے وہ اپنے وعدے اور وقت کے بہت پکے تھے عنریق کہنے لگا“ کیا واقعی میں نے وعدہ توڑا ہے میرا خیال ہے کہ میں نے وعدہ بالکل نہیں توڑا بلکہ ایک کام کو مختلف انداز میں کر لیا ہے تزئین بولی”تمہیں پتا ہے کہ بڑے ذرا مختلف انداز میں سوچتے ہیں وہ بچوں کی طرح نہیں سوچتے۔ میں سوچتی ہوں کہ جب میں بڑی ہوں گی تو انہی کی طرح سوچنے لگوں گی۔ لیکن امید ہی کی جا سکتی ہے کہ بڑے ہو کر ہمیں بچپن کی یہ سوچیں یاد رہ جائیں اور بچوں کی سوچوں کی بھی عزت کرنی چاہئے جب ہم بڑے ہو جائیں“
معاذ اس کی باتوں ے اکتا کر بولا” تم اب بھی بڑوں کی طرح ہی باتیں کر رہی ہو اب چپ کر جاﺅ“ تزئین کو غصہ چڑھ گیا وہ کہنے لگی“ میں کیوں کہ عقل مندی کی باتیں کر رہی ہوں تو ظاہر ہے تم نے بےوقوفی کی باتیں کرنی ہی تھیں ”معاذ نے اسے کہا“ بکواس بند کرو“ تو تزئین نے اس کے کان پر مکہ دے مارا۔ جواب میں معاذ نے تزئین کو چانٹا مارا جس کی آواز ایسے ائی جیسے پستول میں سے گولی نکلنے کی اور وہ چلائی” تم انسان نہیں ہو ‘ تم جانتے ہو کہ لڑکے لڑکیوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے“ معاذ بولا“ میں عام مہذب لڑکیوں جیسے نایاب پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ لیکن تم تو سوچ سے بھی زیادہ بدتمیز ہو میرا خیال کہ تمہیں سمجھ آ گئی ہو گی کہ اگر تم کسی کو مکہ مارو گی تو وہ تمہیں آگے سے تھپڑ ہی رسید کرے گا۔
”تزئین بولی“عنریق اسے تم بتاﺅ کہ یہ جانور ہے“ لیکن عنریق جس نے خود کبھی کسی لڑکی پر ہاتھ نہیں اٹھایا تھا سمجھتا تھا کہ تزئین اس سلوک کی مستحق ہے وہ تزئین کو کہنے لگا“ تمہیں ہاتھ نہیں اٹھانا چاہئے تزئین تم مکے برساتے وقت نہیں سوچتیں اور اب تمہیں سمجھ آ جانی چاہئے کہ معاذ اس بات کو برداشت نہیں کرتا“ معاذ کے کان میں سائیں سائیں ہو رہی تھی اور اس کا کان سرخ ہو رہا تھا وہ بولا” اب سمجھ آ گئی۔ اپنی بدمزاجی پر قابو پانے کی کوشش کرو“ نایاب کو اس صورتحال میں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھا کہ وہ کیا کروے۔ اسے ان بہن بھائیوں کی لڑائیوں سے سخت نفرت تھی معاذ نے تزئین کو کہا ”اب تم مہربانی فرما کر اپنا کوئی کام کرو لیکن یہاں سے جاﺅ“پھر اس نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک چھوٹی سی ڈبی نکالی جس میں اس نے کئی دنوں سے ایک جھینگر رکھا ہوا تھا۔ تزئین کو سمجھ آ گئی تھی کہ وہ ڈبی کھولنے لگا ہے اور پھر ظاہر ہے جھینگر کو پکڑ کر اس پر پھینکے گا اس نے ڈر کر چیخ ماری اور کمرے سے نکل گئی۔ معاذ نے ڈبی جیب میں ڈال لی لیکن جھینگر کو دوڑنے بھاگنے کے لئے میز پر چھوڑدیا پھر وہ جب بھی میز پر انگلی رکھتا سدھائے ہوئے جانور کی طرح جھینگر آ کر اس کی انگلی پر چڑھ جاتا یہ بہت حیران کن بات تھی کہ سارے جانور معاذ کو پسند کرتے تھے نایاب کہنے لگی ”تم اسے ڈبی میں نہ رکھا کرو مجھے لگتا ہے کہ قید اسے زہر لگتی ہو گی ۔
”معاذ نے کہا“ واقعی لو اب تماشہ دیکھو“ یہ کہہ کر اس نے ڈبی میز پر رکھ دی اس نے اسے کھول دیا اور میز کے ایک سرے پر رکھ دیا جھینگر پورے میز پر دوڑ رہا تھا کہ جب اس نے ڈبی کا منہ کھلا دیکھا تو فوراً آ کر ڈبی میں گھس گیا معاذ نے کہا دیکھ لیا اگر یہ قید ہوتی تو جھینگر خوشی سے ڈبی میں نہ جاتا“ اس نے یہ کہہ کر ڈبی کا منہ بند کر لیا اور اسے اپنی جیب میں رکھ لیا نایاب کہنے لگی ڈبی میں اس کے گھسنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ رہنا پسند کرتا ہے ورنہ دوسرے جھینگروں کو تو اس بات سے نفرت ہو گی ”عنریق ہنس کر کہنے لگا“ معاذ سب جانوروں کا دوست ہے معاذ چاہے تو مکھیوں کو سدھا کر ان کی ایک سرکس بنا لے“نایاب نے یہ سنکر نفرت سے ناک چڑھایا اور کہنے لگی“ مجھے یہ ذرا پسند نہیں آئے گا اب پتا نہیں تزئین کدھر چلی گئی ہے میری خواہش ہے کہ کاش تم آپس میں نہ لڑا کرو“ تمہاری کتنی اچھی گفتگو اس موضوع پر چل رہی تھی کہ مستقبل میں کیا کرنا چاہئے“ تزئین غصے میں کمرے سے باہر نکلی اس کا بازو چانٹے کی وجہ سے درد کر رہا تھا وہ اس برآمدے میں چہل قدمی کر رہی تھی جو چچا کے کمرے کی طرف جاتاتھا اس وقت وہ اپنے بھائی کے خلاف منصوبے بنا رہی تھی اچانک چچا کا کمرہ کھلا اور انہوں نے باہر جھانکا۔ وہ بولے”تزئین یہ تم ہو۔ میری سیاہی کی دوات خالی ہے کیا تم اسے بھر دو گی“
تزئین نے کہا ”میں آپ کو سیاہی کی بوتل یہیں لا دیتی ہوں“ پھر وہ چچی کے کمرے میں بنی الماری کے پاس گئی اور وہاں سے بوتل لیکر چچا کے کمرے میں ان کی پڑی ہوئی دوات بھری۔ پھر وہ جیسے ہی واپسی کے لئے مڑی اس نے قریب پڑی ہوئی کرسی پر ایک نقشہ پڑا ہوا دیکھا۔ یہ وہی نقشہ تھا وہ بچوں کو دکھانا چاہتے تھے لیکن انہیں نہیں ملا تھا۔ یہ دکھ کے والے جزےرے کا مفصل نقشہ تھا۔ تزئین نے اسے بڑی دلچسپی سے دیکھا وہ بولی ”چچا یہ تووبہی نقشہ ہے جس کا آپ نے ذکر کیا تھا۔ چچا یہ تو بتائیں کیا جزیرے پر کبھی کانیں ہوا کرتی تھیں؟ یہ سنتے ہی چچا حیرانی سے بولے“ تم نے کانوں کا دکر کس سے سنا ہے؟ یہ تو بہت پرانی تاریخ ہے ہاں یہ بالکل صحیح ہے کہ وہاں کئی سو سال پہلے تانبے کی کانیں ہوا کرتی تھیں جہاں سے تانبے کی بڑی م مقدار نکلتی تھی لیکن مدت ہوئی وہاں سے سارا تانبانکال لیا گیا تھا اب تانبے نام کی کوئی چیز ان کانوں میں موجود نہیں ہے“ تزئین نقشے کے اوپر پوری جھک گئی خوشی سے اس کی انتہا نہیں رہی جب اس نے دیکھا کہ نقشے میں پلیاں دکھائی گئی ہیں جو زمین میں گہرائی تک جا رہی تھیں وہ سوچ رہے تھے کہ لڑکے نقشہ دیکھ کر کتنے خوش ہونگے۔ چچا تزئین کی موجودگی بھول کر اپنے کام میں محو ہو چکے تھے اس نے نقشہ اٹھایا اور اسے لیکر جلدی سے کمرے سے باہر نکل آئی وہ سوچ رہی تھی کہ معاذ نقشے کو پا کر کتنا خوش ہو گا اب وہ اپنی تمام ناراضگی بھول چکی تھی ۔
یہ تزئین کی سب سے بڑی بڑائی تھی وہ دل میں کبھی بات نہیں رکھتی تھی اور اس کا عصہ جلدی ٹھنڈا ہو جاتا تھا لہذا وہ برآمدے سے دوڑتی ہوئی کمرے میں پہنچی جہاں اس نے اپنے ساتھیوں کو چھوڑا تھا اس نے زور سے دروازہ کھولا اور دھم سے اندر آ ٹپکی۔ سب اس کے ہنستے مسکراتے پرجوش چہرے کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ نایاب پوری کوشش کرنے کے باوجود آج تک تزئین کے بدلتے رویوں کو نہیں سمجھ سکی تھی معاذ ابھی نہیں مسکرایا تھا بلکہ مشکوک نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا تزئین کو بھی اپنی لڑائی یاد آ گئی۔ اس نے کہا ”معاذ مجھے افسوس ہے میں نے تمہارے کان پر مکہ مارا تھا میں اس کے لئے معافی مانگتی ہوں اب دیکھو میرے ہاتھ میں کیا ہے یہ ویران جزیرے کا نقشہ ہے اور چچا آصف نے مجھے بتایا ہے کہ جزیرے پر کبھی کانیں بھی ہوا کرتی تھیں وہ تانبے سے بھری ہوئی تھیں لیکن مدت پہلے بند ہو گئی تھیں لہذا یہ وہی پلیاں ہیں جو ان کانوں تک جاتی تھیں“ معاذ نے تزئین کے ہاتھ سے نقشہ لیا اور اسے پھیلاتے ہوئے بولا”شاباش میری بہن!کیا نقشہ ہے تزئین تم بہت ہی عقل مند لڑکی ہو“ اس نے بہن کو گلے لگا لیا۔ تزئین خوشی سے پھولے نہ سما رہی تھی وہ ہمہ وقت بھائی سے لڑتی رہتی تھی لیکن وہ بھائی کے منہ سے اپنے لئے تعریف کا ایک لفظ بھی اپنے لئے اعزاز سمجھتی تھی پھر چاروں بچے مکمل توجہ سے نقشے پر جھک گئے تزئین انہیں بتانے لگی ” یہ دیکھو اس میں جزیرے پر جانے کے لئے راستہ صاف صاف دکھایا گیا ہے۔ لڑکوں نے یہ سنکر اثبات میں سر کو ہلایا عنریق نے کہا ”یہ راستہ ہمیشہ سے ہی ہے میرا خیال ہے یہی وہ واحد راستہ تھا جہاں سے کانوں میں کام کرنے والے کان کن آیا جایا کرتے تھے وہ یہاں خوراک لیکر آتے ہوں گے اور تانبا لیکر جاتے ہوں گے۔
اب میرا بہت دل کر رہا ہے کہ میں نیچے جا کر دیکھوں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوتا ہے”معاذ کہنے لگا“ دیکھو ساری پلیوں پر نشان لگے ہوئے ہیں”وہ انگلیاں نشانوں پر رکھتے ہوئے بولا“ دیکھو عنریق یہ سرخ ندی بہہ رہی ہے اور اب مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ یہ سرخ کیوں ہے کیونکہ ابھی بھی وہاں پہاڑیوں میں تانبے کی اچھی بھلی مقدار موجود ہے”تزئین پورے جوش سے بولی“ میرا خیال ہے ابھی بھی اچھا خاصا تانبا وہاں موجود ہے اگر وہ تانبے کے بسکٹوں کی صورت میں ہوا اور مجھے مل گیا تو شاید میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہو گی ”معاذ نے کہا“ تانبا وہاں ہر جگہ موجود ہے لیکن میرا خیال ہے وہ اپنی اصلی ہیئت میں ہو گا ہو سکتا ہے ٹکڑوں میں بھی ہو اور ہو سکتا ہے قیمتی بھی ہو کیا ہمیں دوبارہ جزیرے پر جا کر ان کانوں کو نہیں دیکھنا چاہئے اور تانبے کی تلاش کرنی چاہئے کون جانتا ہے واقعی ہمیں تانبے کے بنے ہوئے بسکٹ مل جائیں”عنریق نے کہا“ وہاں کوئی بسکٹ پڑے تمہارا انتظار نہیں کر رہے کوئی کان کن کیا وہاں سے جاتا ہے اگر اب بھی تانبا وہاں موجود ہوتا کئی سو سال پہلے تانبا وہاں سے نکالا جا چکا ہے اچانک نایاب بولی”دیکھو نقشے کے پیچھے بھی کچھ جڑا ہوا ہے“ بچوں نے اسے الٹا کیا تو ایک اور چھوٹا نقشہ بڑے نقشے کے نیچے جڑا ہوا تھا انہوں نے بڑے آرام سے اسے کھولا پہلے تو وہ اس کی سمت کا تعین ہی نہیں کر سکے پھر معاذ نے اس کی وضاحت کی ”یہ جزیرے کا زیر زمین نقشہ ہے یعنی کانوں کا نقشہ‘ خدا کی پناہ ان میں سے تو کچھ کانیں بالکل سمندر کے نیچے ہیں“ ایسا نقشہ دیکھنا جس میں سرنگیں بنی ہوئی ہوں اور وہ بھی ایک ویران جزیرے کی تہہ میں۔ بہت اکتا دینے والا کام تھا لیکن یہ ظاہر تھا کہ کانوں کا یہ نظام بہت وسیع و عریض رقبے میں پھیلا ہوا تھا اور اس میں سے کچھ رقبہ عین سمندر کے نیچے بھی تھا۔ عنریق نے انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے انہیں بتایا”دیکھو کانوں کا یہ حصہ سمندر کے نیچے ہے یہاں کان کنی کرنا کتنا خوفناک تھا اور سارا وقت کان کنوں کے ذہن میں یہ بات ہو گی کہ وہ سمندر کے عین نیچے کام کر رہے ہیں نایاب خوف سے باقاعدہ کانپتے ہوئے بولی“میں تو کبھی ایسی جگہ کام نہ کروں کیونکہ سمندر کا کیا ہے کسی وقت بھی زور مارے اور سب کو بہا کر لے جائے لیکن معاذ یہ بات سن کر جوش سے بولا“ ہمیں ہر صورت جزیرے پر واپس جانا چاہئے تمہیں پتا ہے ہ میں کیا سوچ رہا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ لوگ ابھی بھی ان کانوں میں کام کر رہے ہیں تزئین بولی ”تمہیں یہ خیال کیسے آیا“ معاذ بولا وہ کھائے ہوئے کھانے کے ڈبے‘ کوئی تو ہے جس نے ان دھاتی ڈبوں میں محفوظ کیا ہوا کھانا کھایا تھا اور ہم پورے جزیرے میں کسی کو چلتا پھرتا نہیں دیکھ سکے تھے لہذا کاس مطلب صاف ہے کہ اگر وہ زمین کی سطح کے اوپر نظر نہیں آیا تو زیر زمین کام کر رہا ہو گا میں شرط لگا سکتا ہوں کہ یہی وہ راز ہے جو ہم جاننا چاہتے ہیں“۔
تزئین اس کے بات سے متاثر ہو کر بولی“آﺅ !پرویز صاحب کے پاس چلتے ہیں اور انہیں یہ نقشہ دکھاتے ہیں وہ ہمیں بتائیں گے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے ہمیں اکیلے ان کانوں میں چھان بین کے لئے نہیں جانا چاہئے میری چھٹی حس بتا رہی ہے کہ ہمیں پرویز صاحب کے ساتھ جانا چاہئے“ عنریق نے اچانک کہا ہرگز نہیں ہمیں یہ باتیں پرویز صاحب کو نہیں بتانی چاہئیں“ باقی بچے حیران سے منہ کھولے اسے دیکھنے لگے۔ تزئین نے کہا ”اس بات کا کیا مطلب ہے ہمیں پرویز صاحب کو کیوں نہیں بتانا چاہئے“ عنریق نے کہا کیونکہ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا ہے کہ یہ لوگ ان کے دوست بھی ہو سکتے ہیں جو کانوں میں کام کر رہے ہیں میں سمجھتا ہوں پرویز صاحب یہاں صرف ان کے نزدیک رہنے کے لئے آئے ہیں تاکہ ان تک کھانا اور ضرورت کی دوسری چیزیں پہنچاتے رہیں میں شرط لگا سکتا ہوں کہ اسی لئے وہ اپنی کشتی استعمال کرتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ یہ کوئی راز ہے وہ کبھی بھی خوش نہیں ہونگے اگر ان کا یہ راز ہمارے ہاتھ لگ گیا وہ دوبارہ ہمیں کبھی کشتی بھی نہیں دیں گے ”معاذ بولا“ لیکن عنریق تم شاید بات کو بڑھا کر پیش کر رہے ہو پرویز صاحب صرف چھٹی گزارنے کے لئے یہاں آئے ہیں وہ پرندوں سے محبت کرنے والے ہیں۔
’عنریق نے کہا“ لیکن وہ پرندوں کو دیکھنے یا بات کرنے میں اتنا وقت نہیں گزارتے اگرچہ پرندوں کے متعلق وہ میری باتیں سنتے ہیں لیکن خود کبھی ان کے متعلق بات نہیں کرتے اور ہم ان کے کاروبار کے متعلق بھی نہیں جانتے اور نہ کبھی وہ ہمیں اس کے متعلق بتاتے ہیں مجھے یقین ہے کہ وہ اور ان کے دوست ہی ہیں جو جزیرے میں تانبے کی کانوں میں کام کر رہے ہیںمجھے یہ تو نہیں پتا کہ کانیں کس کی ملکیت ہیں لیکن یہ بات یقینی ہے کہ کانوں میں ابھی تانبا باقی ہے اور جن لوگوں نے اس بات کا پتا لگایا ہے وہ اسے راز رکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ سارا تانبا خودہتھیاسکیں“ عنریق اتنی لمبی بات کر کے چپ ہوا تو اس کی جوش سے سانس پھولی ہوئی تھی ادھر کی کی کے ہاتھ ایک نیا لفظ لگ گیا تھا۔۔۔۔تانبا۔۔۔تانبا۔۔۔۔تانبا “نایاب کہنے لگی“ کتنا چالاک توتا ہے“ لیکن کسی نے توتے کی بات پر توجہ نہیں دی کیونکہ جس موضوع پر وہ گفتگو کر رہے تھے وہ اتنا اہم تھا کہ وہ کسی اور بات کے متعلق فی الحال سوچ بھی نہیں سکتے تھے تزئین نے پھر تجویز دی “آﺅ سیدھا جا کر پرویز صاحب سے پوچھتے ہیں “اسے راز داری پسند نہیں تھی اور وہ سیدھی بات کرنے کی عادی تھی معاذ کہنے لگا“ بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔عنریق آگے ہی اس بات کی وضاحت کر چکا ہے کہ ہمیں یہ راز پرویز صاحب کو کیوں نہیں بتانا چاہئے ہو سکتا ہے کبھی وہ خود ہی ان باتوں کو ہمارے سامنے کھول دیں تو پھر شاید حیران رہ جائیں کہ ہمیں بہت پہلے ان چیزوں کا علم تھا عنریق نے کہا ”ہم جلد ہی صغیر کی کشتی دوبارہ لیکر نکلیں گے ہم بڑی پلی کے قریب جائیں گے اور اسے نیچے جا کر دیکھیں گے ہمیں فوراً پتا چل جائے گا کہ نیچے کوئی کام کر رہا ہے یا نہیں۔
ہم یہ نقشہ ساتھ لے جائیں گے تاکہ راستہ نہ بھول جائیں اس نقشے میں رستوں اور راہداریوں کو بڑی وضاحت سے دکھایا گیا ہے”انہیں یہ راز داری کی باتیں کرتے ہوئے بڑا مزا آ رہا تھا وہ کب دوبارہ جزیرے پر جا سکیں گے؛ کیا اس دفعہ وہ لڑکیوں کو ساتھ لے جا سکتے ہیں یا نہیں؟ معاذ بولا“ میں سمجھتا ہوں اس دفعہ ہم کشتی کو بہتر طریقے سے سنبھال سکتے ہیں پچھلی دفعہ بھی جب ہم ایک دفعہ جزیرے کے راستے سے نکل گئے تھے تو پھر کوئی خطرہ بقایا نہیں رہا تھا مجھے پورا یقین ہے کہ ہم آسانی سے جزیرے پر پہنچ جائیں گے اور لڑکیوں کو ساتھ لے جانے میں بھی کوئی ہرج نہیں ہے“ یہ بات سنکر تزئین اور نایاب بہت خوش ہوئیں۔ وہ تو فوراً جانا چاہتی تھیں لیکن جب تک صغیر قصبے کو نہ جاتا وہ اس کی کشتی استعمال نہیں کر سکتے تھے یہ الگ بات ہے کہ وہ خود دو تین دفعہ کشتی میں سوار ہو کر سمندر میں گیا معاذ نے اسے پوچھا کہ اگر وہ مچھلیاں پکڑنے جا رہا ہے تو انہیں بھی ساتھ لے لے۔ وہ غصے سے بولا”تاکہ تم مجھے تنگ کرتے رہو اور میں بعد میں پچھتاتا رہوں“ اور پھر کشتی لئے سمندر میں چلا گیا۔ وہ کشتی کو لیکر اتنا دور نکل گیا کہ دھند میں دکھائی دینا بند ہو گیا جو اس علاقے میں ہر وقت چھائی رہتی تھی عنریق بولا” جہاں تک ہم دیکھ سکتے ہیں وہ ضرور جزیرے پر گیا وہ اچانک ہی غائب ہو گیا مجھے لگتا ہے کہ مچھلیاں پکڑنے کا بہانہ کرنے کے لئے وہ کھانے کے لئے مچھلیاں پکڑ کر لائے گا“۔
عنریق کی بات درست ثابت ہوئی۔ وہ کشتی لے کر چائے کے وقت واپس چلا آیا۔ بچوں نے کشتی سے مچھلیاں اتارنے میں اس کی مدد کی۔ تزئین نے اسے کہا ”تم اگر ہمیں بھی ساتھ لیتے تو ہم ڈوری پھینکنے میں تمہاری مدد کرتے“ اگلے دن بچوں کی خوشی کی انتہا نہیں رہی جب انہیں معلوم ہوا کہ صغیر قصبے جانے کے لئے روانہ ہو گیا ہے چچی بولیں” وہ ایک دن کی چھٹی لیکر گیا ہے تمہیں اس کے حصے کے کچھ کام کرنا ہونگے لڑکو تم کنوویں سے مجھے پانی بھر دو“لڑکے فوراً کنویں کے پاس چلے گئے اور کنویں میں زنجیر کے ساتھ بندھی ہوئی بھاری بھرکم پانی کی بالٹی پانی کی تہہ تک پہنچائی عنریق نے کنویں کی منڈیر سے جھانکا اور بولا ”یہ بالکل جزیرے کی پلیوں جیسا ہی کام ہے چلو معاذ زور لگاﺅ اور اسے اوپر کھینچو“ بچوں نے جلدی جلدی کام نمٹائے جو چچی نے ان کے ذمے لگائے تھے اور پھر اس یقین دہانی کے بعد کہ کار گیراج سے جا چکی ہے وہ چچی کی منت کرنے گئے کہ اب انہیں پکنک کی اجازت بھی دی جائے اور پکنک کے لئے کھانا بھی۔ اور پھر برق رفتاری سے وہ صغیر کی کشتی کے قریب پہنچے انہوں نے اس کی بندھی ہوئی رسی کھولی اور اسے دھکا دیا لڑکوں نے زور سے شور سے چپو چلانے شروع کئے جب وہ سمندر میں پہنچ گئے تو انہوں نے بادبان کھول دیئے تزئین خوشی سے بولی لو جی ہم آحر کار جزیرے پر جا رہے ہیں شکر ہے ہم تمہارے ساتھ جا رہی ہیں وہاں گھر رہ کر انتظار کرنا بہت مشکل کام تھا۔
”معاذ نے نایاب سے کہا“کیا ہمارے پاس ٹارچیں ہیں؟“ نایاب نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا ہاں وہ کھانے کے ساتھ پڑی ہوئی ہیں معاذ نے کہا ہمیں ان کی ضرورت کانوں میں پڑے گی “وہ خود بھی اس مہم سے متاثر تھے کہ وہ اتنی پرانی کانوں میں اتریں گے اور ہو سکتا ہے وہاں خفیہ طور پر لوگ کام کر رہے ہوں معاذ نے جوش سے ایک جھرجھری سی لی چاروں بچوں نے بڑی مہارت سے کشتی کو سنبھالا اور مزے سے سفر کیا جزیرہ بھی اردگرد پھیلی دھند کے درمیان سے انہیں صاف دکھائی دے رہا تھا عنریق نے بتایا ”لہریں ان چٹانوں سے زور سے ٹکراتی ہیں“لڑکیوں نے سر ہلا دیا یہ سفر کا سب سے خطرناک حصہ تھا لڑکیاں دعا کر رہی تھیں کہ لڑکوں کو راستہ آسانی سے مل جائے اور وہ خیر و عافیت سے پہنچ جائیں پھر عنریق اچانک بولا”وہ دیکھو۔ اونچی پہاڑی‘ لڑکیو اب بادبان اتار لو۔ نایاب تم رسی دیکھو نہیں وہ نہیں۔ ہاں یہ ٹھیک ہے”بادبان نیچے کر لئے گئے۔ اور لڑکوں نے چپو سنبھال لئے اور احتیاط سے انہیں جزیرے کی طرف چلانا شروع کر دیا جہاں چٹانوں کے درمیان راستہ جاتا تھا اب انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ راستہ کہاں ہے وہ راستے سے احتیاط کرتے ہوئے گزرے تاکہ اس جگہ سے بچ کر گزریں جہاں کشتی کا پیندا پتھروں سے ٹکراتا تھا اگرچہ پیندا اس دفعہ بھی تھوڑا سا ٹکرایا نایاب بڑی فکر مند دکھائی دے رہی تھی ۔
لیکن جلد ہی وہ راستے سے گزر کر پرسکون پانیوں میں پہنچ گئے جو ساحل اور چٹانوں کے دائرے کے درمیان بہتے تھے نایاب نے سکھ کا سانس لیا کچھ تو سمندر کا اثر اور کچھ خوف کا اس کی رنگت پیلی پڑ چکی تھی لیکن وہ جلد ہی ٹھیک ہو گئی جب اس نے دیکھا کہ وہ جزیرے کے بالکل قریب پنچ گئے ہیں پھر وہ صحیح سلامت جزیرے پر پہنچ گئے کشتی کو انہوں نے ساحل پر کھینچ لیا۔ عنریق کہنے لگا “آﺅ اب چٹانوں کی طرف چلتے ہیں۔ یا خدا! ذرا دیکھنا میرا خیال ہے لاکھوں پرندے تو ضرور ہوں گے۔ میں نے زندگی بھر اتنے پرندے اکٹھے نہیں دیکھے۔ لیکن کاش میں عظیم آک بھی دیکھ سکتا۔ نایاب نے دل سے بھائی کو کہا ہو سکتا ہے۔ بھیا! میں آپ کو عظیم آک تلاش کر کے دے دوں اور معاذ بھیا! وہ سرخ رنگ والی پانی کی ندی کہاں ہے؟ اور وہ کھانے کے خالی دھاتے ڈبے کدھر گئے؟ کیا وہ یہیں قریب ہی تھے”معاذ سیدھا آگے کو چلتا ہوا بولا“ تم جلد ہی دیکھ لو گی جب ہم چٹانوں کے درمیان ایک تنگ راستہ سے گزریں گے“جلد ہی وہ تانبے کے رنگ والے پانی کی ندی جو وادی سے گزرتی تھی کو دیکھ رہے تھے عنریق تھوڑی دیر چپ رہ کر بولا ذرا انتظار کرو۔ بھلا وہ سب سے بڑی پلی کدھر تھی؟ لڑکیاں پہلے ہی بڑے بڑے گہرے سوراخ اور دراڑیں دیکھ کر دم بخود ہو گئی تھیں۔ عنریق بولا”کہیں نہ کہیں تو ان پلیوں کا کوئی سرا بھی ہو گا اور وہ خوراک کے ڈبوں کا ڈھیر کدھر چلا گیا وہ یہیں کہیں تھا ارے وہ رہی پلی۔ لڑکیو دیکھو! “۔
سب بھاگ کر بڑے گول سوراخ کے قریب پہنچے اور اس میں جھانکنے لگے اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ اس پلی کے ساتھ لٹکنے والی سیڑھی بہت مضبوط اور اچھی حالت میں تھی معاذ کہنے لگا ”یہی وہ پلی ہے جسے مشینوں کے لئے لوگ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ صرف اس کے ساتھ سیڑھی بالکل صحیح حالت میں ہے “عنریق سرگوشی کے انداز میں معاذ کو کہنے لگا “اونچی آواز میں نہ بولو۔ ہمیں نہیں معلوم ہماری آواز کی گونج کہاں تک چلی جائے”نایاب نے پوچھا“ وہاں چٹان کے ساتھ۔تم خود وہاں جا کر دیکھ لو“ اس نے ٹارچ جلا کر پلی کے ساتھ گہرائی میں دیکھا لیکن اسے زیادہ کچھ نظر نہیں آیا بلکہ دور تک اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔وہاں نیچے اندھیرے کے علاوہ کیا تھا؟
واقعی اصل لوگ وہاں کام کر رہے تھے؟ بچے ان آدمیوں کی نظروں سے دور رہنے چاہئیں بڑوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بچوں سے ناراض ہو جاتے ہیں اگر وہ ان کے کاموں میں دخل اندازی کریں نایاب بولی” عنریق مجھے تو کھانے کے ڈبے کہیں نظر نہیں آ رہے۔ معاذ نے ایک افسوس بھری سانس لی وہ سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکیاں کتنی بے وقوف ہوتی ہیں۔ یہ کوئی چیز خود سے نہیں ڈھونڈ سکتیں۔ وہ آگے بڑھا تاکہ نایاب کو وہ ڈبے خود دکھائے۔ معاذ بولا” ذرا دیکھو عنریق!ٰ یہ خوراک کے ڈبے تو واقعی غائب ہو چکے ہیں۔ انہیں کون اٹھا کر لے گیا ہے؟ بس اس چیز سے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ واقعی اس جزیرے پر لوگ موجود ہیں لوگ تب ہی یہاں موجود ہیں جب ہم پہلی دفعہ جزیرے پر آئے تھے میرے تو روئیں روئیں میں سنسنی سی پھیل رہی ہے کیا یہ سب کچھ بہت مزے کا نہیں ہے؟“
باب نمبر19…………تانبے کی کانوں میں
نایاب کو اب اپنے قرب و جوار سے ڈر لگ رہا تھا اسے ہر چٹان کے پیچھے کان کن چھپے ہوئے لگ رہے تھے وہ بولی”مجھے تو ڈر لگ رہا ہے کہ کہیں ہماری مڈبھیڑ ایسے لوگوں سے نہ ہو جائے جنہیں ہم جانتے بھی نہیں”عنریق بولا“ بے وقوفی کی باتیں مت کرو وہ لوگ نیچے کانوں میں کام کر رہے ہیں اب سب مشورہ دو کہ ہمیں پلی کے ساتھ نیچے اتر کر دیکھنا چاہئے کہ نہیں کہ نیچے کیا ہو رہا ہے؟“لڑکیاں نیچے ہرگز نہیں اترنا چاہتی تھیں لیکن نایاب سوچ رہی تھی کہ تزئین کے ساتھ جزیرے پر تنہا کھڑا ہونا کہیں خطرناک ہو گا اس سے بہتر تو یہی ہے کہ لڑکوں کے ساتھ نیچے اترا جائے لہذا نیاب نے فیصلہ کیا کہ وہ بھائیوں کے ساتھ ہی نیچے جائے گی تزئین اب بالکل تنہا رہ گئی تھی لہذا اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا ہ وہ بھی خاموشی سے سب کے ساتھ نیچے اترے معاذ نے ایک دفعہ پھر کانوں کا نقشہ زمین پر بچھا دیا اور وہ جھک کر اسے پڑھنے لگے معاذ بولا”دیکھو یہ پلی کا راستہ سیدھا اس جگہ اترتا ہے جہاں سے نیچے راستے اور راہداریاں شروع ہوتی ہیں کیا ہمیں یہی راستہ اختیار نہیں کرنا چاہئے۔
یہ ایک مرکزی شاہراہ کی طرح ہے جو کانوں تک جاتا ہے جو زیر زمین بکھری ہوئی ہیں حتیٰ کہ کچھ تو سمندر کے عین نیچے بھی واقع ہے” نایاب ناراض ہوتے بولی“مہربانی فرما کر ان کانوں تک نہ جانا“ لیکن باقی سب جانا چاہئے تھے اس لئے فیصلہ زیادہ لوگوں کے حق میں ہوا عنریق نے کی کی کو خبردار کرتے ہوئے کہا“کی کی اگر تم ہمارے ساتھ آ رہے ہو تو شور بالکل نہ مچانا کیونکہ اگر ہم اس وقت کانوں کے قریب ہوئے تو وہ تمہاری آواز سن لیں گے اور ہم سب پکڑے جائیں گے“ کی کی نے یہ نصیحت سنکر یوں سر کھجایا جیسے اس درخواست پر غور کر رہا ہو عنریق پھر اس سے مخاطب ہوا“ تم ایک بےوقوف پرندے ہو اب یاد رکھنا میں نے تمہیں کیا نصیحت کی ہے اب شور مچانے اور چیخیں مارنے کی ضرورت نہیں ہے“ پھر وہ پلی کے سرے پر پہنچے۔ ڈرتے ڈرتے نیچے جھانکا۔ مہم بہت جان جوکھوں کی تھی کہیں نہ کہیں دل میں وہ خوفزدہ تھے کیونکہ آخر بچے تھے پھر معاذ سیڑھیاں اترتے ہوئے بولا “آﺅ خدا ہمارے حفاظت کرے گا اور ہمیں کچھ نہیں ہو گا۔ اگر ہم پکڑے بھی گئے تو۔
آخر ہم تو جزیرے پر صرف عنریق کے ناپید پرندے عظیم آک کو ہی دیکھنے آئے ہیں اگر ہم پکڑے بھی گئے تو اپنا منہ بند رکھیں گے اگر پرویز صاحب کے دوست ہوئے تو وہ ان کی طرح ہی مہذب ہونگے ہم سب کو بتا سکتے ہیں کہ ہم پرویز صاحب کے دوست ہیں“ پھر وہ سب سیڑھیوں سے نیچے کی طرف ایک طویل فاصلہ طے کرنے لگے لیکن ابھی آدھا راستہ ہی طے ہوا تھا کہ سب تھک کر خواہش کرنے لگے کہ بہتر تھا کہ وہ نیچے نہ ہی اترتے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ انہیں اتنی گہرائی تک نیچے اترنا پڑے گا یہ اتنی گہرائی تھی کہ انہیں لگنے لگا تھا کہ شاید وہ زمین کے عین وسط میں جا رہے ہیں نیچے ہی نیچے۔ اندھیرے ہی اندھیرے میں۔ ۔ معاذ نے فکر مند ہو کر پوچھا”لڑکیو! تم ٹھیک ہو؟“مجھے لگتاہے ہم زمین تک پہنچنے والے ہیں“۔بیچاری نایاب جو دوسروں کی طرح اتنی طاقتور نہیں تھی کہنے لگی “مجھے لگتا ہے میرے بازو شل ہو گئے ہیں“ تزئین لڑکوں جتنی ہی مضبوط تھی لیکن نایاب اس سے کہیں کمزور تھی۔ عنریق بولا”یہیں کھڑے ہو کر تھوڑا سا سستا لو۔ کیونکہ مجھے تو شانے پر بیٹھا ہوا کی کی بھی بھاری لگ رہا ہے کیونکہ میرے بازو بھی لوہے کی سیڑھیوں کے سہارے اتر کر شل ہو چکے ہیں وہ کچھ دیر ٹھہرے اور پھر نیچے اترنے لگے ۔
آخر معاذ نے آہستگی سے سب کو کہا”میں نیچے پہنچ گیا ہوں“ سکھ کا سانس لیتے ہوئے چند لمحوں میں وہ سب زمین کی تہہ میں اکٹھے ہو گئے نایاب تو پہنچ کر زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی کیونکہ اس کے گھٹنے بھی مدد کر رہے تھے معاذ نے ٹارچ جلا کر ادھر ادھر دیکھا۔ واقعی وہاں سے کئی راستے اور راہداریاںنکل رہی تھیں اور جہاں وہ کھڑے تھے وہ بھی خاصا وسیع راستہ تھا جس کی چھتیں چٹانوں سے بنی ہوئی تھیں ٹارچ کی روشنی جب چھت پر پڑی تو اس کا تانبے کا سرخ رنگ جگمگا اٹھا معاذ بولا” ہم نے جو فیصلہ کیا تھا کہ مرکزی راستے پر ہی چلیں گے اسی پر عمل کیا جائے گا ویسے بھی یہ سیدھا راستہ ہے“ عنریق نے ٹارچ جلا کر ایک چھوٹے راستے میں دیکھا۔ اس نے کہا ”دیکھو۔ اس راستے کی چھت گری ہوئی ہے ہم اس راستے سے نیچے نہیں جا سکتے“نایاب نے گھبرائے ہوئے چھت کی طرف دیکھا جہاں کئی جگہ لکڑی بھی لگی ہوئی تھی لیکن زیادہ تر چھت چٹانوں کو نیچے سے کاٹ کر بنائی گئی تھی۔ وہ بولی”اللہ نہ کرے یہ چھت ہمارے سروں پر آن گرے“عنریق بے صبری سے بولا”ادھر آ جاﺅ۔ ہم یہاں خاصے محفوظ ہیں کیا تمہیں حیرت نہیں ہو رہی کہ ہم زمین کی تہہ میں ہزاروں فٹ نیچے گھوم پھر رہے ہیں اور وہ بھی چٹانوں کے نیچے بنی ہوئی تانبے کی کانوں میں”تزئین بولی“مجھے تو اس بات پر حیرت ہو رہی ہے کہ یہاں تازہ ہوا اور آکسیجن کیسے موجود ہے“ اسے اس راستے کی یاد آ رہی تھی جو چٹانوں کے درمیان ان کا خفیہ راستہ تھا اور وہاں کتنی گھٹن تھی اور بو کے بھبھکے اڑتے تھے معاذ بولا”لازمی بات ہے ان کانوں میں ہوا کے گزرنے کا کوئی ذریعہ بنایا گیا ہو گا“ ویسے بھی وہ اس بارے میں پڑھ چکا تھا کہ کانوں میں کام کرنے کے لئے ہوا گزرنے کے لئے کیسے رستے اور ذرائع بنائے جاتے ہیں اس نے کہا۔
”لوگ جب بھی کانوں میں کام کرنے کا سوچتے ہیں تو سب سے پہلے تازہ ہوا کے حاصل کرنے کے طریقے ہی سوچتے ہیں ان زیر زمین سرنگوں میں سے ہوا کیسے گزرے گی اور اگر پانی کا اخراج کہیں سے ہو جاتا ہے تو اس کی نکاسی کے کیا طریقے ہونگے۔ ان سب چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے“ نایاب ڈر کے مارے بدستور کانپتے ہوئے بولی“ مجھے تو کانوں میں کام کرنے سے نفرت ہے۔ معاذ کیا ہم ابھی سمندر کے نیچے نیچے ہیں یا نہیں؟ معاذ نے بتایا”ابھی نہیں۔ ابھی ہم آدھے راستے میں ہیں۔ اچھا اب یہ دیکھو یہ غار کتنی صاف ستھری ہے“ راستہ اچانک ایک بہت بڑی اور صاف ستھری غار میں داخل ہو گیا تھا جس سے اندازہ ہو سکتا تھا کہ واقعی یہاں لوگ کام کر رہے ہیں۔ غار کی چٹانی دیواروں پر جا بجا کام کرنے کے نشانات تھے اور پھر عنریق ایک کونے میں گیا اور وہاں سے ایک کانسی سے بنا ہوا ہتھوڑے نما ہتھیار اٹھا لایا۔ اس نے فخریہ انداز سے دوسروں کو بتایا “دیکھو یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو پرانے زمانے میں کان کن استعمال کرتے ہوں گے اگرچہ اب یہ ٹوٹا ہوا ہے یہ کانسی سے بنا ہوا ۔
ہے یہ ایسی دھات ہوتی ہے جو تانبے اور جست سے ملا کر بنائی جاتی ہے کیا بات ہے میرے سکول کے ہم جماعت تو اسے دیکھ کر حیران رہ جائیں گے “ عنریق کے دیکھا دیکھی دوسرے بچے بھی سراغ رسانوں کی طرح ادھر ادھر چھان بین کرنے لگے اور پھر نایاب کے ہاتھ ایک ایسی چیز لگ گئی جس میں سبھی بہت دلچسپی رکھتے تھے اور وہ کوئی قدیم ہتھوڑا نہیں تھا بلکہ پنسل کا ایک ٹکڑا تھا جو چمکدار پیلے رنگ کا تھا۔ نایاب کی آنکھیں ٹارچ کی روشنی میں کسی بلی کے بچے کی طرح چمک رہی تھیں شوخی سے بولی“ پتا ہے یہ پنسل کس کی ہے؟ میں جانتی ہوں یہ پرویز صاحب کی ہے کیونکہ میں نے خود انہیں اس پنسل سے لکھتے ہوئے دیکھا ہے مجھے یقین ہے کہ یہ پرویز صاحب کی ہی ہے“ معاذ اس انکشاف سے متاثر ہو کر بولا اس کا بالکل واضح مطلب ہے کہ پرویز صاحب یہاں آئے تھے اور اچانک ان کے ہاتھ سے یہ پنسل چھوٹ کر یہاں گر گئی اس کا مطلب ہے ہمارا اندازہ بالکل درست تھا۔ وہ کوئی پرندوں میں دلچسپی لینے والے انسان نہیں ہیں۔ وہ سمندر کی چٹان کے نیچے ایک ٹوٹی ہوئی جھونپڑی میں رہ رہے ہیں۔
حالانکہ ان کے پاس ذاتی کشتی اور ایک نئی خوبصورت کار بھی ہے وہ صرف اس لئے یہاں رہتے ہیں کیونکہ ان کے دوست اور کارکن کان کنی میں مصروف ہیں اور یہ انہیں خوراک اور دوسری ضروری استعمال کی چیزیں پہنچاتے ہیں۔ پرویز صاحب کتنے چالاک ہیں انہوں نے ہمیں اس بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بتایا ”تزئین کہنے لگی“ کون ہے جو اپنے راز ملنے آنے والے بچوں کو بتاتا پھرتا ہے لیکن وہ کتنے حیران ہونگے جب انہیں معلوم ہوگا کہ ہم ان کے سارے راز جانتے ہیں ہو سکتا ہے وہ بھی یہیں نیچے ہی ہوں”معاذ کہنے لگا“ ہرگز نہیں بے وقوف! ان کی کشتی ساحل پر نہیں تھی جہاں سے ہم جزیرے میں داخل ہوئے ہیں اور ظاہر ہے اور تو کشتی کا جزیرے تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہے ہی نہیں” تزئین بولی“ہاں! میں بھول ہی گئی تھی لیکن اب میں کانوں میں کام کرنے والوں سے نہیں ڈروں گی کیونکہ اب میں جانتی ہوں کہ وہ سب پرویز صاحب کے دوست ہیں اور ہم پوری کوشش بھی کریں گے کہ انہیں پتا نہ لگے کہ ہم یہاں ہیں کیونکہ پھر وہ سمجھیں گے کہ بچوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے بلکہ وہ ہم سے ناراض بھی ہونگے“ انہوں نے بڑی غار کا بغور جائزہ لیا اس کی چھت لکڑی کے بہت بڑے ٹکڑوں سے بنی ہوئی تھی جن میں سے کچھ ٹوٹے ہوئے بھی تھے ۔
کیونکہ چھت آہستہ آہستہ منہدم ہو رہی تھی وہاں کچھ ٹوٹی ہوئی سیڑھیاں اس غار کے اوپر بنے ایک غار میں بھی جا رہی تھیں لیکن اوپری غار کی چھت گرنے سے وہ اس کو دیکھنے نہ جا سکے پھر عنریق اچانک چلتا ہوا رکا مڑا اور منہ پیچھے کر کے دوسروں کو کہنے لگا”آپ کا پتا ہے کہ میں کیا سوچ رہا ہوں؟ میں سوچ رہا ہوں کہ جو روشنی میں نے کچھ دن پہلے سمندر میں جلتی دیکھی تھی وہ کسی جہاز کی روشنی نہیں تھی بلکہ اس جزیرے پر سے جل رہی تھی کان کن یہاں سے روشنی جلا کر اشارہ کر رہے تھے کہ ان کی خوراک ختم ہو گئی ہے اور انہیں مزید خوراک پہنچائی جائے اور جو روشنی ساحل پر گھر کے نزدیک چٹانوں سے جل رہی تھی وہ پرویز صاحب جلا کر کانکنوں کو اشارہ دے رہے تھے کہ وہ مزید کھانا لے کر آ رہے ہیں”معاذ نے اعتراض کیا“ لیکن روشنی تو ہماری چٹان سے جل رہی تھی۔ پرویز صاحب کی چٹان سے تو نہیں۔
”عنریق نے وضاحت کی“ میں جانتا ہوں لیکن سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب روشنی سے اشارہ کرنا ہو تو وہ سب سے اونچے مقام سے کیا جاتا ہے تاکہ جزیرے تک وہ نظر بھی آ سکے۔ اگر کوئی جزیرے کے عین وسط میں پہاڑی پر کھڑا ہو جائے اور وہاں آگ جلائے یا کوئی طاقتور لالٹین جلائے۔ تو وہ صرف ہماری چٹان سے ہی دیکھا جا سکے گا۔ پرویز صاحب والی چٹان سے نہیں یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے پرویز صاحب کو اشارے کا جواب دینے کے لئے ہماری چٹان پر آنا پڑا ہو گا”معاذ کہنے لگا“ میں سمجھتا ہوں کہ تم بالکل صحیح کہہ رہے ہوں بے چارے بوڑھے ہوتے پرویزصاحب کو ہمارے گھر کے پیچھے چٹانوں پر خاصی آوارہ گردی کرنی پڑی ہو گی تم نے ان کا اشارہ دیکھ لیا اور ساتھ ہی صغیر نے بھی۔ اب مجھے صغیر کی ”چیزوں“ کے بارے میں بھی حیرت نہیں رہی۔ وہ صحیح ان چیزوں سے بھی ڈرتا رہا اور ہمیں بھی ڈراتا رہا۔ اس نے اکثر پرویز صاحب کو بولتے سنا ہو گا اور روشنیاں دیکھی ہوں گی اور ان کے متعلق جانتا نہیں ہو گا کہ آخر وہ ہیں کیا؟”عنریق کہنے لگا“ میرا خیال ہے پرویز صاحب جلد ہی جزیرے پر تازہ خوراک لیکر جائیں گے اور خوراک کے خالی ڈبے واپس بھی لے آئیں گے میرا خیال ہے اس بات سے ہماری وہ پریشانی بھی ختم ہو گئی ہے کہ خوراک کے خالی ڈبے کہاں چلے گئے ہیں۔ چالاک پرویز صاحب! کتنی ہوشیاری سے انہوں نے یہ راز چھپایا ہوا ہے اور ہم ہی ہیں جنہیں اس راز کا پتا ہے ”نایاب کہنے لگی“ میرا خیال ہے ہمیں انہیں بتا دینا چاہئے کہ ہم یہ سب جانتے ہیں میرا نہیں خیال ہمیں اب یہ بات چھپا کر رکھنی چاہئے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ پہلے ہی جانتے ہوں کہ ہم ساری حقیقت جان گئے ہیں“ معاذ کہنے لگا“۔
ہمیں بات گھما پھرا کر اس طرح کرنی چاہئے کہ وہ خود ہی سمجھ جائیں کہ ہمیں سب پتا ہے تو اگر انہیں اندازہ ہو گیا تو بات کھل جائے گی اور کانوں کے متعلق کھل کر گفتگو بھی ہو جائے گی اور پرویز صاحب ہمیں چھپائی ہوئی ساری حیرت انگیز باتیں بتا دیں گے” عنریق کہنے لگا“ بالکل ٹھیک ہے ہم ایسا ہی کرتے ہیں اب آﺅ ہم آگے بھی کچھ دیکھتے ہیں مجھے لگتا ہے جیسے میں اس غار کو اچھی طرح دیکھ چکا ہوں “پھر راستہ اچانک تھوڑا سا بائیں کو مڑ گیا اور معاذ کا دل دھک دھک کرنے لگا کیونکہ اسے یاد آ گیا تھا کہ جب مرکزی راستہ بائیں طرف کو مڑتا ہے تو وہ راستہ اس چٹان کی چھت کے نیچے جاتا ہے جس کے اوپر سمندر موجزن ہے لیکن اس سے بڑا تجربہ شاید انہیں زندگی میں ہونے والا نہیں تھا کہ وہ سمندر کے نیچے پھر رہے تھے تزئین بولی”یہ کیسی عجیب و غریب آواز ہے“ وہ سب سننے لگے دور سے بہت عجیب اور شوریدہ آواز ان کے کانوں میں آ رہی تھی جو مسلسل تھی اور اس میں کوئی وقفہ نہیں تھا معاذ کہنے لگا”کان کنوں کی مشینوں کی آواز!“ لیکن پھر اچانک وہ سمجھ گیا کہ یہ آواز کس کی ہے”وہ بولا“یہ سمندر ہے جو ہمارے سروں کے عین اوپر موجزن ہے اور یہ آواز اس کی ہے“ اور واقعی یہ ان کے سروں کے اوپر سمندر کی آواز ہی تھی بچے سہم کر کھڑے ہو گئے اور دور سے گھن گھرج جیسے آواز آتی سننے لگے یہ سمندر تھا جو مسلسل ان چٹانوں کے اوپر بہہ رہا تھا جن کے نیچے وہ کھڑے تھے اس آواز کے شور میں بھی ترتیب تھی جو صدیوں سے شاید تبدیل نہیں ہوئی تھی ڈری ہوئی۔نایاب کہنے لگی“ کتنی ڈراﺅنی بات ہے کہ ہم سمندر کے بالکل نیچے ہیں”وہ کانپ رہی تھی“ آواز بہت ڈرانے والی تھی اور وہاں انتہائی تاریکی تھی تزئین کہنے لگی” یہاں کتنے مزے کی گرم جگہ ہے“ اس بات سے سبھی بچوں نے مکمل اتفاق کیا واقعی تانبے کی ان پرانی کانوں میں گرمی تھی وہ راستے پر آگے بڑھتے رہے لیکن خیال رکھتے رہے کہ وہ مرکزی راستے سے نہ ہٹیں۔
وہ راہداریوں میں جانے سے گریز کرتے رہے جو ہر سمت بکھری ہوئی تھیں اور دوسرے راستوں میں کھلتی تھیں جو اور کانوں میں جاتے تھے معاذ کہنے لگا“ اگر ہم مرکزی راستے پر نہ چلتے تو اب تک کھو چکے ہوتے“نایاب نے یہ بات سنکر سکھ کا سانس لیا کہ وہ واقعی ابھی تک کھوئے نہیں ہیں وہ حیران تھے کہ اب تک وہ اتنا پیدل سفر کر چکے ہیں لیکن اب تک انہیں کوئی پلی یا پائپ ایسا نظر نہیں آیا جو اوپر کی طرف کچھ لیکر جاتا ہو۔ پھر وہ ایک ایسی جگہ پر پہنچے جہاں انہوں نے اچانک ایک بہت چمکدار روشنی دیکھی اس وقت تک وہ ایک موڑ مڑ چکے تھے اور وہ موڑ مڑ کر وہ ایک ایسی غار میں پہنچے جس میں ایک بہت طاقتور روشنی والا لیمپ جل رہا تھا۔ وہ حواس باختہ ہو کر وہیں رک گئے پھر ایک عجیب اور حیرت انگیز آواز ان کے کانوں سے ٹکرائی۔ یہ آواز ایسی نہیں تھی جیسی سمندر کی وہ سن چکے تھے بلکہ یہ کٹاکٹ طرز کی ایک آواز تھی۔ یہ ایسی آواز تھی جو وہ پہلے سن چکے تھے اور آسانی سے پہچان سکتے تھے۔ عنریق سرگوشی سے بولا لیکن اس سرگوشی میں بھی جوش تھا وہ کہنے لگا ”ہمیں علم ہو گیا ہے کان کن کہاں کام کر رہے ہیں تھوڑا سا پیچھے رہو۔ وہ ہمیں دیکھ نہ لیں۔ صرف ہم ہی انہیں دیکھ سکیں۔
باب نمبر20…………زیر زمین قید
سبھی بچے دیوار کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہو گئے اور جھانک کر اگلے غار میں دیکھنے لگے کہ اس میں کیا ہے روشنی اتنی تیز تھی کہ وہ بار بار آنکھیں جھپک رہے تھے۔ غار میں صرف ڈبے اور لکڑی کی پیٹیاں پڑی ہوئی تھیں اور وہاں کوئی کان کن موجود نہیں تھا لیکن کچھ فاصلے پر کوئی کام کر رہا تھا اور اس کے کام سے ہی وہ کٹا کٹ قسم کی آوازیں پیدا ہو رہی تھیں ڈرتے ڈرتے نایاب بولی”آﺅ واپس چلیں“ معاذ نے ٹارچ جلا کر قریب ہی ایک راستہ دیکھا جو غار سے باہر جا رہا تھا وہ سرگوشی کرتے ہوئے بولا” دیکھو۔ یہ ایک راستہ باہر کی طرف جا رہا ہے ہم رینگتے ہوئے اس میں چلے جاتے ہیں اور وہاں سے چھپ کر دیکھتے ہیں کہ کیا کہیں نزدیک کوئی کان کن بھی کام کر رہا ہے“یہ کہہ کر وہ رینگتے ہوئے سرنگ نما راستے میں چلے گئے اور چٹان کے ایک کونے میں ایک دوسرے میں ٹھس کر بیٹھ گئے لیکن تبھی چٹان کا کچھ حصہ ٹوٹ کر گرا جس سے بے چارہ کی کی اتنا خوفزدہ ہوا۔ کہ اس نے زور سے چیخ ماری اور عنریق کے کندھے سے اڑ گیا۔ عنریق بولا”کی کی واپس آﺅ“ ۔
عنریق صرف اس لئے بولا کیونکہ اسے ڈر تھا کہ وہ کہیں کی کی کو کھو نہ دے لیکن کی کی اس کے کندھے پر واپس نہیں آیا۔ عنریق کو اس کی تلاش میں اٹھ کر راستے پر جانا پڑا وہ آہستہ آہستہ سیٹی بجا رہا تھا جو وہ اس وقت بجایا کرتا تھا جب اس نے کی کی کو بلانا ہوتا تھا باقی بچوں کو ذرا بھی احساس نہیں ہوا کہ عنریق انکے ساتھ نہیں ہے وہ آہستہ آہستہ سرنگ میں تھکے ماندے آگے کو چلنے لگے اور پھر جلدی جلدی واقعات رونما ہونے لگے۔ کوئی تیزی سے سرنگ میں آیا اس کے ہاتھ میں جلتی ہوئی لالٹین تھی جس کی روشنی سے اسے تینوں بچے فوراً نظر آ گئے جو ایک چٹان کے پیچھے ہو کر خود کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے وہ لالٹین والا آدمی اُنہیں دیکھ کر دم بخود رہ گیا وہ اپنی کھردری آواز میں بولا” یہ میرے لئے سب سے حیرت انگیز بات ہے اس نے بچوں کو اور صاف دیکھنے کے لئے لالٹین اونچی کی اور پھر وہ کسی کو آواز دیتے ہوئے چلایا”اوئے ثناءاللہ! ادھر آ کر دیکھو ۔ تم حیران ہو جاﺅ گے میرے پاس ایک ایسا تماشا ہے جسے دیکھ کر تمہاری آنکھیں حلقوں سے باہر نکل آئیں گی“اس کی آواز سنکر ایک اور شخص جلدی سے وہاں آ گیا اور بوکھلا کر ہونقوں کی طرح تینوں بچوں کی طرف دیکھنے لگا۔ پہلا شخص بولا سناﺅ اس بارے میں تمہارا خیال ہے؟”ثناءاللہ بولا“بچے! یہ کہاں سے آٹپکے ہیں؟
کیا یہ اصلی بچے ہی ہیں یا میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں؟” پہلا شخص بولا“یقین کر لو۔ یہ اصل بچے ہی ہیں” پھر وہ تینوں بچوں سے پوچھنے لگا“ تم یہاں کیا کر رہے ہو اور تمہارے ساتھ اور کون ہے؟”اس کی آواز میں درشتگی نمایاں تھی۔ معاذ کہنے لگا”ہم خود ہی آئے ہیں“ یہ سنکر وہ شخص قہقہہ لگا کر ہنسا اور بولا ”نہیں یہ نہیں ہو سکتا کوئی کہانی بنانے کی ضرورت نہیں۔ خود ہی بتا دو۔ تمہیں یہاں کون لایا ہے اور کیوں؟”نایاب معصومیت سے بولی“ ہم خود ہی کشتی لیکرادھر آئے ہیں ہمیں پتا ہے کہ وہاں چٹانوں کے درمیان راستہ ہے ہم صرف جزیرے کو دیکھنے آئے ہیں” ثناءاللہ نزدیک آ کر پوچھنے لگا“ تمہارے یہاں آنے کا کیا مقصد تھا؟ جب وہ قریب آیا تو لڑکوں نے ثناءاللہ کو غور سے دیکھا اور انہیں وہ پہلی ہی نظرمیں کوئی شریف آدمی محسوس نہیں ہوا۔ اس کی دائیں آنکھ کے نیچے بڑا سا زخم کا نشان تھا اور وہ بڑی کمینگی سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا اس کا منہ اتنی سختی سے بھینچا ہوا تھا کہ اس کے ہونٹ نظر ہی نہیں آ رہے تھے۔ نایاب تو ڈر کر پیچھے ہو گئی۔
ثناءاللہ نے پھر اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے پوچھا” تم نیچے یہاں کیوں آئے ہو؟تومعاذ بولا”ہم نے سوراخوں میں لگی پلیاں دیکھی تھیں تو ہم نیچے اُتر آئے تاکہ پرانی کانیں دیکھ سکیں ہم تمہارا کوئی راز فاش نہیں کریں گے،تم فکر نہ کرو“۔یہ سن کر ثناءاللہ سختی سے بولا“ ہمارا راز۔ تم ہمارے کون سے راز جانتے ہو؟معاذ کچھ نہ بولا اب وہ نہیں جانتا تھا کہ کیا کہنا ہے ثناءاللہ نے پہلے شخص کی طرف دیکھ کر سر کو ہلا کر اشارہ کیا جو بچوں کے پیچھے چلا گیا تھا اب بچے نہ آگے جا سکتے تھے اور نہ ہی پیچھے۔ نایاب رونے لگی۔ معاذ نے اسے بازو بڑھا کر اپنے پاس کر لیا اور پہلی دفعہ حیرت سے ادھر ادھر دیکھنے لگا کہ آخر عنریق کدھر ہے؟نایاب بھی اسے ادھر ادھر ڈھونڈنے لگی۔ وہ اور زور سے رونے لگی جب وہ اسے کہیں دکھائی نہ دیا معاذ نے آہستہ سے اسے کہا”نایاب بھی انہیں عنریق کے متعلق نہ بتانا۔ عنریق بھاگنے میں کامیاب ہو جائے گا اور مدد لیکر آئے گا۔ لہذا اس کے متعلق بات نہ کرنا”ثناءاللہ نے کہا“ تم کیا کانا پھوسیاں کر رہے ہو لڑکے اب میری طرف دیکھو تم کبھی نہیں چاہو گے کہ ہم تمہاری بہنوں پر سختی کریں کیا تم چاہتے ہو؟ ورنہ جو بھی تم جانتے ہو ہمیں بتا دو۔ ہو سکتا ہے ہم تمہیں چھوڑ دیں۔ معاذ ثناءاللہ کی باتوں کے انداز سے ہی خطرہ بھانپ چکا تھا۔پہلی دفعہ اُسے احساس ہو رہا تھایہ بڑے ظالم لوگ لگ رہے تھے اور وہ تینوں کے پاس موجود راز ان تک کبھی نہیں رہنے دیں گے۔ ہو سکتا ہے وہ انہیں زیر زمین قیدی رکھیں‘ بھوکا رکھیں۔ انہیںماریں‘ کیا پتا وہ کیا کریں؟ معاذ نے فوراً اپنا ذہن تیار کیا کہ کونسی باتیں ہیں جو وہ انہیں بتا سکتا تھا۔ وہ ثناءاللہ سے بولا” ادھر دیکھو ہمیں پتا ہے کہ تم کس کے لئے کام کرتے ہو اور وہ ہمارا دوست ہے۔ اگر تم نے ہمیں کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو وہ تم سے بہت ناراض ہو گا”ثناءاللہ حیران ہو کر پوچھنے لگا“ تو پھر اب خود ہی بتا دو کہ ہم کس کے لئے کام کرتے ہیں؟ ”معاذ کہنے لگا“ ۔
پرویز صاحب!“اسے یقین تھا کہ وہ سو فیصد درست بات کر رہا ہے پہلے شخص نے کہا ”پرویز صاحب! اور یہ کس چڑیا کا نام ہے۔ میں نے تو زندگی میں کبھی اس شخص کا نام نہیں سنا“ معاذ بڑی بے صبری سے بولا“ تم نے ضرور سنا ہو گا وہ تمہارے لئے کھانا لیکر آتا ہے جب تم اسے روشنی سے اشارہ کرتے ہو تم بن رہے ہو ورنہ تم جانتے ہو کہ وہی تمہارے لئے یہ سب کچھ کرتا ہے تم ضرور پرویز صاحب کو بھی جانتے ہو اور ان کی کشتی کو بھی جس کا نام بحری عقاب ہے“وہ دونوں شخص حیرانی سے دونوں بچوں کو دیکھتے رہے۔ پھر انہوں نے آپس میں کسی ایسی زبان میں بات کی جسے کے نہیں جانتے تھے کچھ خاموشی کے بعد ثناءاللہ بولا”ہم کسی پرویز کو نہیں جانتے‘ تم بتاﺅ کیا کبھی اس نے ہمارا ذکر تمہارے سامنے کیا ہے؟”معاذ کہنے لگا“ نہیں نہیں۔ ہم نے صرف اندازہ ہی لگایا ہے ”پہلا آدمی کہنے لگا“ تمہاری اندازہ غلط ہے اب ہمارے ساتھ آﺅ ہم تمہیں کہیں آرام دہ جگہ پر رکھتے ہیں تب تک جب تک ہم فیصلہ نہ کر لیں کہ تم جیسے بچوں کو جو دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑاتے پھرتے ہیں کا کیا کرنا ہے“ معاذ تب تک اندازہ لگا چکا تھا کہ یہ لوگ انہیں کہیں زیر زمین قید میں رکھنا چاہتے ہیں اب وہ خطرے کی بو سونگھ چکا تھا اور اسے غصے بھی آ رہا تھا لڑکیاں تو ویسے ہی بہت خوفزدہ ہو چکی تھیں تزئین روئی تو نہیں لیکن پریشان تھی۔ البتہ نایاب مسلسل رو رہی تھی زیادہ اس لئے بھی کہ عنریق اس کے ساتھ نہیں تھا۔
ثناءاللہ جان بوجھ کر معاذ کے پیچھے چل رہا تھا اس نے بچوں کو مڑ کر ایک تنگ راستے کے شروع میں لگا ہوا تھا جیسے ثناءاللہ نے کھولا۔ اس نے بچوں کو دھکا دیکر ایک غار نما تنگ راستے میں پہنچا دیا۔ جس کے اندر کا ماحول بالکل ایک کمرے کی طرح تھا جس میں بیٹھنے کے لئے بنچ پڑے تھے اور ایک چھوٹا میز بھی بچھا ہوا تھا اس نے دانت پسیجتے ہوئے بڑے خوفناک انداز میں انہیں کہا ”تم یہاں بالکل محفوظ رہو گے۔ میں تمہیں بھوکا نہیں ماروں گا اس لئے ڈرنے کی ضرورت قطعی نہیں ہے“ پھر بچے تنہا رہ گئے انہوں نے دروازے کو باہر سے بند ہوتے ہوئے سنا اور پھر دور جاتے ہوئے قدموں کی آوازیں سنیں۔ نایاب ابھی تک رو رہی تھی معاذ کہنے لگا “کیا بدقسمتی ہے لیکن نایاب تم تو چپ کرو“ تزئین حیرانی سے پوچھنے لگی ”آحر یہ پرویز صاحب کو کیوں نہیں جانتے حالانکہ ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ وہ ان کے لئے کھانا لاتے ہیں اور شاید یہاں سے نکالا ہوا تانبا بھی لیکر جاتے ہیں“ معاذ افسردگی سے بولا“ اس کا اندازہ بہت آسانی سے لگایا جا سکتا ہے میرا خیال ہے کہ پرویز صاحب نے ان کو اپنا کوئی غلط نام بتایا ہوا ہے۔ ویسے بھی پرویز صاحب کا نام ان کی شخصیت کے مطابق بہت عام سا لگتا ہے“تزئین بولی“تم سمجھتے ہو کہ پرویز ان کا اصل نام نہیں ہے۔
کاش ہم ان کا اصل نام جانتے ہوتے تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں بنننا تھا”نایاب بولی“ اب کیا کرنے کا ارادہ ہے؟ مجھے تو ایک تانبے کی کان میں قیدی بن کر رہنا وہ بھی ایک اصلی سمندر کے نیچے ذرا اچھا نہیں لگ رہا۔ بلکہ بہت خوفناک لگ رہا ہے”معاذ اسے سمجھاتے ہوئے کہنے لگا” لیکن یہ اتنی دلچسپ مہم بھی تو ہے وہ اس طرح کی باتیں کر کے دراصل نایاب کو تسلی دینا چاہتا تھا لیکن نایاب روتے ہوئے بولی”مجھے اس قسم کی مہم جوئی بالکل پسند نہیں جہاں مجھے قید میں رہنا پڑے قید میں تو ان میں سے کوئی بھی نہیں رہنا چاہتا تھا معاذ عنریق کے بارے میں سوچنے لگا وہ بولا”پتا نہیں عنریق کا کیا بنا ہے؟ اللہ کرے وہ محفوظ ہو۔ وہ جلد ہی آ کر ہمیں آزادی دلوائے گا؟عین اسی وقت عنریق واقعی محفوظ ہی تھا وہ کی کی کو تلاش کرتا ہوا سرنگ میں کافی آگے نکل گیا تھا وہ سرنگ اب ایک اور راستے میں تبدیل ہو گئی تھی وہاں اسے کی کی تو مل گیا تھا لیکن اب وہ واپسی کا راستہ بھول گیا تھا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ دوسرے ساتھی پکڑے جا چکے ہیں کی کی البتہ دوبارہ اس کے کندھے پر بیٹھا اس سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہا تھا بچے قید میں بند ہونے کے کچھ دیر بعد ہی مکمل خاموش ہو کر بیٹھ گئے تھے وہاں کرنے کو کچھ نہیں تھا اور نہ کچھ کہنے کو نایاب گھٹوں میں سر دیئے بیٹھی تھی اور شاید اسی حالت میں تھک کر سو گئی تھی تزئین اور معاذ بنچوں پر لیٹ کر سستا رہے تھے لیکن انہیں نیند نہیں آ رہی تھی پھر تزئین بھائی سے فیصلہ کن انداز میں بولی”معاذ ہمیں ہر صورت میں یہاں سے فرار ہونا ہو گا”معاذ کہنے لگا“ اور ایک ویران جزیرے پر دنیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔ فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں سب سے پہلے تو ہمارے سامنے ایک مقفل لکڑی کا دروازہ ہے جسے کھولنا بھی شاید ممکن نہیں“ ۔
آخر تزئین بولی”معاذ میرے پاس ایک ترکیب ہے“ معاذ نے اس کے جواب میں طنزاًآواز نکالی۔ اس نے بہن کے خیالات کو کبھی اہمیت نہیں دی تھی وہ سمجھتا تھا کہ یہ زیادہ خیالی پلاﺅ جیسے ہوتے ہیں تزئین نے زبردستی معاذ سے دوبارہ بات کرتے ہوئے کہا “سن لو۔ معاذ یہ بہت اچھی ترکیب ہے ”تو معاذ نے پوچھا “بتاﺅ کیا ترکیب ہے“ وہ بولی جلد یا بدیر ثناءاللہ یا دوسری آدمی ہمیں کھانا دینے آئے گا تو ہم اپنے سر اور گلے پکڑ کر چیخنے چلانے لگ جائیں گے“ حیران ہو کر معاذ نے پوچھا”مگر وہ کس لئے“ تزئین بولی اسے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ یہاں ہوا بہت کثیف ہے اور ہمیں سانس لینے میں بہت مشکل ہو رہی ہے ہو سکتا ہے وہ ہماری بات مان کر ہمیں تازہ ہوا دلوانے کے لئے کھلے راستے تک لے جائیں تم اس پر ٹوٹ پڑنا۔ ٹانگ مار کر اس کی لالٹین گرا دینا اور ہم یہاں سے اتنی تیز بھاگیں گے جتنی تیز بھاگ سکتے ہیں معاذ اٹھ کر بیٹھ گیا اور معترف انداز میں اپنی بہن کی طرف دیکھنے لگا اور پھر بولا ”تزئین مجھے تمہاری یہ ترکیب بہت پسند آئی ہے تم بہت ذہین ہو“ تزئین تعریف سن کربہت خوش ہوئی معاذ بولا واقعی اچھی ترکیب ہے آﺅ اب نایاب کو جگائیں اور اسے یہ ترکیب بتائیں۔
اسے بھی تو اس ڈرامے میں اپنا کردار نبھانا ہو گا“ لہذا نایاب کو جگایا گیا اور اسے منصوبہ سمجھایا گیا اس کا بھی یہی خیال تھا کہ نہایت عمدہ منصوبہ ہے وہ فوراً سانس بند ہونے کی اداکاری کرنے لگی اور اس کی اداکاری اتنی حقیقی تھی کہ تزئین اور معاذ کو اس کی تعریف کرنی پڑی وہ بولا” بالکل ٹھیک ہے ہم سب اسی طرح کی اداکاری کریں گے جب ثناءاللہ یا کوئی اور شخص آئے گا پھر اُس نے زیر زمین کانوں کا نقشہ میز پر بچھا دیا اور اسے پڑھا پھر آخر وہ بولا ”ٹھیک ہے“ مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ ہم کہاں ہیں؟ یہاں ایک بہت بڑی غار ہے جس میں روشنی کی گئی تھی وہ نقشے میں یہاں ہے اور یہ وہ راستہ ہے جہاں ہمیں دھکیلا گیا ہے اور یہ وہ چھوٹی غار جس میں ہم بند ہیں اب غور سے دونوں سنو۔ میں جیسے ہی ٹانگ مار کر اس شخص کے ہاتھ میں پکڑی لالٹین بجھا دوں تم دونوں میرے ہاتھ پکڑ لینا اور میرے نزدیک رہنا میں تمہیں سیدھے راستے پر لے جاﺅں گا جو پلی والی سوراخ کو جاتا ہے پھر ہم اوپر چڑھیں گے راستے میں عنریق کو کہیں ملیں گے اور پھر کشتی پر سوار ہو جائیں گے” تزئین خوش ہو کر بولی“ بالکل ٹھیک ہے اور تبھی اسی لمحے انہوں نے کسی کے قدموں کی چاپ اپنے نزدیک آتے سنائی دی۔
باب نمبر21…………قید سے فرار
باہر سے کنڈی کھولی گئی۔ دروازہ کھلا اور ثناءاللہ اندر داخل ہوا۔ اجس کے ہاتھ میں ان کے لئے کھانا تھا پھر اس نے پانی سے بھرا ہوا جگ میز پر رکھا۔ پھر وہ حیرت سے تینوں بچوں کو دیکھنے لگا۔ معاذ ہچکیاں لے رہا تھا اور بنچ سے گر کر زمین پر لوٹنیاں لینے لگا تزئین اپنے حلق سے ایسی عجیب آوازیں نکال رہی تھی جو آج تک کسی نے نہیں سنی تھی اس کے ساتھ ساتھ وہ بڑے زور سے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو بھی دبا رہی تھی نایاب کے چہرے سے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ مدت سے بیمار ہو اور وہ بڑے زور سے کراہ بھی رہی تھی ثناءاللہ بولا”کیا ہوا ہے؛“ معاذ نے گہرے سانس لیتے ہوئے اسے بڑی مشکل سے بتایا ہوا! ہمیں ہوا چاہئے ہمارا سانس گھٹا جا رہا ہے۔ہوا۔آکسیجن“ پھر تزئین بھی فرش پر گر کر لوٹنیاں لینے لگی۔ ثناءاللہ نے اس کی مدد کرتے ہوئے اسے اٹھایا اور دوبارہ معاذکے پاس لے گیا اس نے دوسروں کی بھی مدد کی اور انہیں کھلے بڑے راستے میں لے گیا وہ واقعی اس بات پر یقین کر رہا تھا کہ بچے سانس لینے میں تکلیف محسوس کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے واقعی قید خانے میں آکسیجن کی کمی ہو گئی ہو۔
معاذ نے موقعہ تاڑا اور لڑکھڑاتا ہوا ثناءاللہ کی طرف بڑھا وہ ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے سیدھا کھڑا نہ ہو سکتا ہے پھر جیسے ہی وہ ثناءاللہ کے نزدیک پہنچا اس نے اپنی دائیں ٹانگ اٹھائی اور ثناءاللہ کے ہاتھ میں جلتی ہوئی لالٹین کا نشانہ لیتے ہوئے اسے دے ماری وہ گری اور گرتے ہی اس کا شیشہ چور چور ہو گیا اور اس کے ساتھ ہی لالٹین بجھ گئی شیشے کے ٹوٹنے اور ثناءاللہ کے چلانے کی آوازیں ایک ساتھ ہی آئیں تبھی معاذ نے ہاتھ بڑھا کر دونوں لڑکیوں کے ہاتھ تھامنے چاہے جو وہ کامیاب ہو گیا تو اس نے دھکا دیکر انہیں اپنے سے آگے کیا اور انہیں بائیں طرف کھلے رستے میں دھکیل دیا ثناءاللہ اب مکمل اندھیرے میں کھڑا تھا وہ ہاتھوں سے ادھر ادھر راستے ٹٹول رہا تھا پھر اس نے اپنے ساتھیوں کو آوازیں دینی شروع کر دیں عباس اوئے عباس! جلدی سے لالٹین لے کر آﺅ جلدی کرو۔
یہ کل کے بچے مجھے بے وقوف بنا گئے ہیں اوئے عباس‘ معاذ پوری کوشش کر رہا تھا کہ وہ کسی طرح لڑکیوں سمیت سیدھے راستے پر ہی رہے۔ ان کے دل زور زور سے دھڑک رہے تھے اور نایاب کو محسوس ہو رہا تھا جیسے واقعی اس کا سانس رک رہا ہو۔ جلد ہی ثناءللہ کی چیخ و پکار بہت پیچھے رہ گئی اور اب وہ چوڑے مرکزی راستے میں داخل ہو گئے تھے جہاں سے وہ کچھ ہی دیر پہلے ادھر آئے تھے معاذ اب ٹارچ کا استعمال کر رہا تھا اور اس کی ننھی لیکن تیز روشنی کی شعاع انہیں بہت بھلی لگ رہی تھی معاذ کہنے لگا شکر ہے ہم بالکل درست سرنگ میں ہیں پھر وہ کان لگا کر آوازیں سننے کی کوشش کرنے لگا لیکن انہیں اپنے سروں کے اوپر ماسوائے سمندر کے بہنے کی آواز کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دی۔ اس نے ٹارچ گھما کر ادھر ادھر دیکھا واقعی وہ بالکل صحیح راستے پر جا رہے تھے ہانپتی ہوئی نایاب بولی”کیا ہم تھوڑا آرام کر سکتے ہیں“ معاذ کہنے لگا بالکل نہیں۔ وہ لوگ فوراً ہمارے پیچھے لگ گئے ہوں گے صرف انہوں نے لالٹین کی روشنی آنے کا انتظار کیا ہو گا انہوں نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ ہم پلی کی طرف جا رہے ہیں آ جاﺅ ہمت کرو ہمارے پاس کھونے کو ذرا بھی وقت نہیں ہے“ بچے دوبارہ تیزی سے آگے بڑھنے لگے لیکن کچھ دیر میں ان کی مایوسی کی انتہا نہیں رہی۔
جب انہوں نے اپنے پیچھے آتے لوگوں کا شور سنا جس کا مطلب تھا کہ ان کا تعاقب جاری ہے اور پریشانی والی بات یہ تھی کہ وہ ان کے قریب آتے جا رہے تھے نایاب اس صورتحال سے اتنا گھبرائی کہ وہ قدم بھی نہیں اٹھا رہی تھی آخر کار وہ پلی والے سوراخ پر پہنچ گئے گہرائی اتنی تھی کہ انہیں اوپر سے کنوویں کا آغاز نظر نہیں آ رہا تھا معاذ نے سخت بے چینی سے کہا ”جلدی اوپر چڑھو۔ نایاب پہلے تم اوپر جاﺅ اور جتنی تیزی سے چڑھ سکتی ہو اور اوپر چڑھو“ نایاب اوپر چڑھنے لگی تزئین اس کے پیچھے تھی اور معاذ سب سے آخر میں تھا جو پیچھے آتے آدمیوں کی آوازیں آگے سے بھی صاف سنائی سن سکتا تھا اور پھر اچانک وہ رک گئے اور معاذ کو ان کی آوازیں آنی بند ہو گئیں پتا نہیں کیا ہوا تھا؟ واقعی بہت غیر معمولی چیز رونما ہوئی تھی کی کی فاصلے پر ہوتے ہوئے شور کو سن رہا تھا اچانک جوش میں آ گیا تھا اور چلانا شروع ہو گیا تھا۔ عنریق اور وہ ابھی تک راستے سے بھٹکے ہوئے تھے اور انہیں راستوں اور راہداریوں کی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ کی کی کے تیز کانوں نے آدمیوں کی موجودگی کو محسوس کر لیا تھا اور اس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا اپنے پاﺅں صاف کرو‘ دروازہ بند کر دو ارے چچی۔ چائے کی کیتلی چولہے پر رکھ دو“ آدمیوں نے یہ آواز سنیں تو وہ یہ سمجھے کہ شاید بچے بول رہے ہیں۔ ثناءاللہ کہنے لگا“وہ راستہ کھو بیٹھے ہیں اب انہیں پلی والی کنوویں کا راستہ نہیں مل رہا وہ گم ہو گئے ہیں اسی لئے مدد کے لئے شور مچا رہے ہیں“ عباس رُکھائی سے بولا“ اب وہ کبھی پلی والے کنوویں کا راستہ نہیں ڈھونڈ سکیں گے۔ اس لئے انہیں شور مچانے دو۔ اب خود ہی راستہ ڈھونڈتے بھوک سے مر جائیں گے”ثناءاللہ بولا“ ہرگز نہیں ہم ایسا نہیں کر سکتے کہ بھوکے مرتے بچوں کو ڈھونڈنے کے لئے لوگوں کو ادھر بلا لیں بہتر یہی ہے کہ ہم انہیں پکڑ لیں وہ اسی سمت میں ہو سکتے ہیں پھر وہ مرکزی راستے میں آ گئے تاکہ جدھر سے بچوں کی آوازیں انہیں آ رہی ہیں ادھر تیزی سے جا کر ان پر قابو پا لیں۔
کی کی کی آواز ایک دفعہ پھر ان کے کانوں سے ٹکرائی“ بے وقوف اپنے پیر صاف کرو‘ اپنے پیر صاف کرو“ دونوں آدمی یہ سنکر حیران رہ گئے وہ آواز کی طرف بڑھے۔ لیکن وہ آواز کی طرف بڑھ رہے تھے اور عنریق کی کی کے ساتھ پھر ایک نامعلوم راستے میں مڑ گیا تھا جس کا ان دونوں آدمیوں کو بھی علم نہیں ہو رہا تھا کی کی خاموش ہو گیا اور کچھ دیر کے لئے دونوں آدمی بھی۔ پھر ثناءاللہ بولا“ مجھے اب بچوں کی آوازیں نہیں آ رہی ہیں۔ بہتر ہے کنوویں کی طرف چلتے ہیں آخر کار آنا تو انہوں نے وہیں ہے ہم انہیں فرار نہیں ہونے دے سکتے۔ ایک دفعہ ان پر قابو پالیں پھر دیکھیں گے کہ ان کا کیا کرنا ہے“ لہذا انہوں نے ایک دفعہ پھر کوشش سے پلی کے ساتھ لگی سیڑھیاں تلاش کیں اور اوپر دیکھا تو اوپر سے چھوٹے چھوٹے پتھروں کی بارش ہونے لگی جن سے انہیں چوٹیں آئیں ۔
ثناءاللہ چلایا ”بہت برا ہوا۔ بچے اوپر ہیں“ یہ کہہ کر وہ جلدی جلدی سیڑھی پر چڑھنے لگا تب تک بچے تقریباً اوپر جزیرے تک پہنچ چکے ہیں نایاب کو محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے بازو اور ٹانگیں شل ہو چکی ہیں اور وہ مزید اوپر نہیں جا سکتی لیکن کسی نہ کسی طرح وہ اوپر پہنچ ہی گئی اور پھر زمین پر لمبی لمبی لیٹ گئی تزئین اس کے بعد پہنچی اور نایاب کے پاس بیٹھ کر سانس لینے لگی اور پھر آخر میں معاذ جو خود بھی بہت تھک چکا تھا پہنچا لیکن اس نے آرام نہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا تھا وہ بولا” مجھے یقین ہے ہمارا پیچھا کرنے والے بھی اسی راستے سے اوپر آ رہے ہیں ہمارے پاس ضائع کرنے کو ایک لمحہ بھی نہیں ہے اٹھ جاﺅ لڑکیو! ہمیں ہر صورت کشتی تک پہنچنا ہے اور جب تک کوئی ہمیں روکنے آئے ہمیں اس جزیرے سے نکلنا ہے”اب اندھیرا ہونے لگا تھا وہ زیر زمین کافی دیر تک رہے تھے معاذ لڑکیوں کو گھسیٹتے ہوئے احل کی طرف لے کر چلا۔ کشتی وہیں موجود تھی نایاب بڑے مصمم ارادے سے کہنے لگی” میں عنریق کے بغیر یہاں سے نہیں ہلوں گی“ اس کا دل اپنے بھائی کے بغیر بہت بے چین تھا لیکن معاذ اسے اٹھا کر کشتی میں لے گیا وہ بولا ہم وقت ضائع نہیں کر سکتے آﺅ ہم جیسے ہی گھر پہنچیں گے عنریق کی مدد کے لئے کسی کو بھیج سکیں گے میں بھی اس کے بغیر جانا نہیں چاہتا لیکن پہلے مجھے تمہیںمحفوظ جگہ پر پہنچانا ہے معاذ نے ایک چبو چلانا شروع کیا تو تزئین نے دوسرا سنبھال لیا جلد ہی وہ دونوں کشتی کو تیزی سے کتھے رہے تھے اب وہ پرسکون پانی سے گزر رہے تھے۔
جہاں سے کچھ دور ہی سمندر کی چٹانوں سے شور مچاتی لہریں پوری طاقت سے ٹکر رہی تھیں معاذ کو بے چینی سی لگی تھی دن کے اجالے میں اس راستے کو بہت احتیاط سے پار کیا جاتا تھا تو رات کے اندھیرے میں یہ کام بہت ہی خطرناک تھا اس نے لہروں کی گھن گرج سنی لیکن اب وہ ساحل سے اتنی دور تھے کہ وہاں سے آدمیوں کو دیکھنا بہت مشکل تھا ثناءاللہ اور عباس پلی کی سیڑھیوں سے اوپر چڑھے جزیرے کے ساحل پر بھاگم بھاگ پہنچا اور وہاں کشتی تلاش کی لیکن وہاں کوئی کشتی نہیں تھی لہریں آتے جاتے اس نشان کو بھی مٹا چکی تھیں جو شاید کشتی کے وہاں کھڑے رہنے سے پڑا ہو گا لیکن بچوں کی یہ خوش قسمتی تھی کہ جب وہ کشتی تک پہنچے تو وہ ہچکولے لے رہی تھی ذرا دیر ہوتی تو شاید کشتی پانی بہا کر لے جاتا عباس کہنے لگا یہاں تو کوئی کشتی نہیں ہے تو پھر وہ بچے یہاں تک کیسے پہنچے تھے؟ حیران کن بات ہے لیکن بچے ضرور کشتی پر سوار ہو کر ہی فرار ہوئے ہیں وہ ابھی تک زیر زمین نہیں ہو سکتے بہتر ہے ہم رات روشنی سے اشارہ کریں تاکہ کوئی یہاں آئے تاکہ ہم اسے خبردار کر سکیں کہ بچوں کو زیر زمین کارروائیوں کا معلوم ہو چکا ہے پھر وہ دوبارہ پلی والے کنوویں پر گئے اور نیچے اتر گئے انہیں اس بات کا قطعی اندازہ نہیں تھا کہ ایک بچہ اپنا توتا کندھے پر بٹھائے نیچے ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے بے چارہ عنریق ابھی بھی راہداریوں میں پھنسا راستہ تلاش کر رہا تھا ساری راہداریاں اور راستے اسے ایک ہی طرح کے لگ رہے تھے اسی اثناءمیں معاذ۔ تزئین اور نایاب خوش قسمتی سے چٹانوں میں سے راستہ ڈھونڈ ہو چکے تھے لیکن یہ نایاب کے تیز کانوں کی مرہون منت تھا۔ وہ دوسروں سے زیادہ لہروں کے سر پٹخنے کی آواز سن رہی تھی اور ایک جگہ پر شور تھوڑا کم تھا وہ بولی ”یہاں راستہ ہونا چاہئے یہاں آواز تھوڑی کم ہو جاتی ہے“ لہذا وہ ایک جگہ پر بیٹھ کر وہ ہدایات دینے لگیں اور کشتی کو ادھر لے جانے لگی جہاں اس کے خیال کے مطابق راستہ تھا اور اتفاق سے وہ کامیاب ہو گئی کشتی راستے سے نکل گئی ایک دفعہ پھر اس کا پیندا پتھروں سے ٹکرایا لیکن پھر اس کے بعد ان کے سامنے کھلا سمندر تھا جہاں لہریں اوپر تلے ہو رہی تھیں شام کے جھپٹنے میں معاذ نے بادبان چڑھائے اور کشتی کو بہاتا ہوا گھر لے آیا جس کا راستہ شاید وہ اندھیرے کی وجہ سے دیکھ بھی نہیں سکتا تھا۔
اس کے لئے یہ سب کچھ زندگی موت کا مسئلہ تھا لڑکیوں کو وہ ہر صورت محفوظ اسے گھر لانا تھا لہذا مشکل کے وقت اُس نے مکمل مردوں کی طرح ہمت سے کام لیا اور کامیاب ہو گیا وہ چٹان کے نیچے جب اس مقام پر پہنچ گیا جہاں کشتی کھڑی کی جاتی تھی تو وہ کشتی سے باہر نہیں نکل سکا۔ اچانک ہی اس کے گھٹنے گویا جواب دے گئے اور وہ چلنا جیسے بھول ہی گیا تھا وہ بولا ”مجھے ایک دو منٹ خود کو ٹھیک کرنے میں لگیں گے‘ میری ٹانگیں پھول گئی ہیں لیکن میں جلد ہی ٹھیک ہو جاﺅں گا“ تزئین کہنے لگی بھیا۔ تم بہت بہادر ہو“ وہ دل سے اپنے بھائی کی تعریف کر رہی تھی آخر کار انہوں نے کشتی باندھ دی اور اوپر گھر پہنچ گئے چچی انہیں دروازے پر ہی مل گئیں لیکن وہ بہت پریشان تھیں وہ سوال پر سوال کرنے لگیں“ تم اتنی دیر کہاں تھے؟ میں تمہارے بارے میں بہت فکر مند تھی میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے اور مجھے چکر آ رہے ہیں؟ “وہ بہت کمزور لگ رہی تھیں ان کا رنگ سفید پڑ چکا تھا وہ بول رہی تھیں لیکن سرعت کے ساتھ معاذ آگے بڑھا اور بڑھ کر چچی کو تھام لیا کہ مبادا وہ گر نہ پڑیں وہ بولا”چچی! ہمیں بہت افسوس ہے ہم نے آپ کو پریشان کیا میں آپ کے لئے پینے کے لئے پانی لاتا ہوں۔ نہیں تزئین تم لیکر آﺅ“ وہ چچی کو ایک نرم کرسی پر تب تک بٹھا چکا تھا کچھ دیر بعد چچی کی طبیعت کچھ بہتر ہو گئی لیکن صاف ظاہر تھا کہ وہ بیمار تھیں تزئین نایاب سے کہنے لگی “اب چچی کس طرح کا ذہنی بوجھ نہیں اٹھا سکتیں“۔
ایک دفعہ معاذ پہاڑی سے گرنے لگا تھا چچی اس غم سے بھی کئی دن بیمار ہو گئی تھیں میرا خیال ہے کہ وہ ہر بات دل پر لے لیتی ہیں میں انہیں بستر پر لٹاتی ہوں“ معاذ نے تزئین کو متنبیٰ کرتے ہوئے کہا”عنریق کے گم ہونے کے بارے میں انہیں ایک لفظ نہ کہنا یہ نہ ہو بیچاری چچی کو دل کا دورہ پڑ جائے“ تزئین اپنی چچی کے ہمراہ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر گئی وہ انہیں مضبوطی سے پکڑے ہوئی تھی معاذ صغیر کو دیکھنے چلا گیا جو ابھی بھی واپس نہیں آیا تھا معاذ کو خوشی ہوئی کہ صغیر کو اپنی کشتی کے بارے میں معلوم نہیں ہوا ہو گا پھر اس نے نایاب کے چہرے کا رنگ فق دیکھا۔ اس نے آنکھوں میں آنسو اور چہرے کے پریشان تاثرات دیکھے اسے بہت افسوس ہوا پھر نایاب گلہ کرتے ہوئے بولی”ہم عنریق کو ڈھونڈنے کب جا رہے ہیں؟ ہمیں ہرحال میں اسے آزاد کروانا چاہئے معاذ نے کہا میں جانتا ہوں۔ لیکن ہم چچی کو نہیں بتا سکتے اور چچا کو بتانے کا فائدہ نہیں اور ہم بہت بے وقوف ہوں گے اگر صغیر کو بتائیں گے تو اب ایک ہی شخص باقی بچتا ہے اور وہ ہیں پرویز صاحب ”نایاب نے کہا“تم نے خود ہی تو کہا تھا کہ ہم پرویز صاحب کو نہیں بتائیں گے معاذ کہنے لگا ”میں جانتا ہوں لیکن ہمیں ان سے بات کرنی ہی ہو گی کیونکہ عنریق دکھ والے جزیرے پر اکیلا ہے پرویز صاحب کو ہم مجبور کریں گے کہ وہ جزیرے پر جائیں اور اپنے تمام ظالم دوستوں سے بات کریں کہ عنریق ان کا دوست ہے اس طرح وہ عنریق کو تلاش کریں گے اور حفاظت سے گھر واپس پہنچائیں گے۔ اس لئے فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے نایاب“ لیکن نایاب روتے ہوئے پوچھنے لگی“۔
کیا تم ابھی پرویز صاحب کو ملنے جا رہے ہو تاکہ پورا ماجرہ بتا سکو”معاذ نے کہا“ میں ابھی نکل جاتا ہوں لیکن پہلے کچھ کھا لوں۔ میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں تم بھی نایاب کچھ تو کھا لو۔ تم کورے کاغذ کی طرح سفید ہوئی ہوئی ہو۔ اب فکر نہ کرو۔ عنریق وہاں محفوظ ہو گا اور اس کے آتے ہی ہم دوبارہ گپیں ہانکیں گے“ معاذ کو یکایک بھوک کا احساس ہوا تھا پھر تزئین نیچے سے آ گئی جو ان کے لئے کھانا لیکر آئی تھی۔ سب کو بھوک لگ رہی تھی۔ حتی کہ نایاب بھی بھوک محسوس کر رہی تھی تزئین اس بات پر معاذ کی تائید کر رہی تھی کہ واقعی انہیں پرویز صاحب کے پاس جانا چاہئے اور انہیں جزیرے پر عنریق کو لانے کے لئے بھیجنا چاہئے اس سے پہلے کہ وہ ان ظالم لوگوں کے ہاتھ لگ جائے”تزئین کہنے لگی“ویسے بھی وہ ہمارے فرارسے غصے میں پاگل ہورہے ہوں گے یہ نہ ہو وہ ہمارا سارا غصہ بے چارے عنریق پر نکالیں“ یہ کہہ کر وہ پچھتانے لگی کہ اسے نایاب کی موجودگی میں عنریق کے بارے میں ایسی بات منہ سے نہیں نکالنی چاہئے تھی کیونکہ اب نایاب انتہائی خوفزدہ لگ رہی تھی نایاب نے التجا کرتے ہوئے کہا “معاذ ضرور پرویز صاحب کے پاس جاﺅ‘ اب جاﺅ بھی اگر تم نہیں جاتے تو پھر میں جاتی ہوں” معاذ کہنے لگا “۔
بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔تم اتنی اندھیری رات میں چٹان والے راستے پر نہیں چل سکتیں تم کگرسے نیچے گر جاﺅ گی میں ابھی واپس آتا ہوں“ وہ اٹھا اور روانہ ہو گیا کچھ ی لمحوں میں وہ چٹانوں کا عمودی راستہ عبور کر رہا تھا پھر وہ پرویز صاحب کو ڈھونڈنے لگا۔ اس نے کچھ فاصلے پر صغیر کی گاڑی کی روشنیاں دیکھیں جو گھر واپس آ رہا تھا وہ اور تیز چلنے لگا تاکہ کوئی اسے دیکھ نہ لے۔ اس نے سوچا،پرویز صاحب مجھے دیکھ کر حیران ہوں گے۔ لیکن افسوس! پرویز صاحب وہاں موجود نہیں تھے معاذ آخر پرویز صاحب کی جھونپڑی میں پہنچ گیا تھا اور اب سوچ رہا تھا کہ کیا کرے؟
باب نمبر22…………….پرویز صاحب سے ملاقات
معاذ سخت اداس تھا اس کے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ پرویز صاحب اسے جھونپڑی میں نہ ملے ہوں بہت عجیب لمحے تھے۔معاذ ایک کرسی پر بیٹھ گیا وہ اتنا تھک چکا تھا کہ اس کا ذہن بھی کام نہیں کر رہا تھا وہ سوچ رہا تھا کہ وہ کیا کرے لیکن اسے کچھ سوجھ نہیں رہا تھا۔جھونپڑی میں بہت اندھیرا تھا اور اپنے دونوں بازو اپنی ٹانگوں میں دے لئے۔ پھر اسے یہ جانکاری ہوئی کہ جھونپڑی کے پیچھے بھی کچھ لگا ہوا ہے وہ واپس مڑ کر دیکھنے لگا کہ یہ کیا ہے یہ دیکھ کر وہ حیران رہ گیا کہ وہاں ایک سرخ بتی سی جل رہی ہے پھر وہ بجھ گئی۔ وہ کچھ لمحوں کے بعد پھر جل گئی اور پھر بجھ گئی۔ یہ تماشہ کئی منٹوں تک مسلسل ہوتا رہا اور معاذ سوچتا رہا کہ آحر یہ کیا چیز ہے اور یہ سگنل کیوں دے رہی ہے آخر وہ اٹھا اور بتی کے پاس چلا گیا یہ ایک وائرلیس سیٹ تھا جس پر وہ چھوٹا سا بلب لگا ہوا تھا۔ معاذ اسے بغور دیکھنے لگا اور پھر اس نے وائرلیس سیٹ پر لگے ہوئے ایک دو گول گول بٹن گھمائے اس نے ایک بٹن گھمایا تو وائرلیس سیٹ سے موسیقی بجنے لگی جب اس نے دوسرا بٹن گھمایا تو کوڈ ورڈ میں باتیں شروع ہو گئیں پھر اچانک اس کی نظر وائرلیس سیٹ کے پیچھے لگے ہوئے ٹیلیفون کے چونگے پر پڑی۔ وہ جیبی سائز کا تھا اس نے پہلے اتنا چھوٹا ٹیلی فون نہیں دیکھ رکھا تھا۔ اس نے ٹیلی فون کا چونگا اٹھایا تو فوراً اس نے برقی آواز اس میں نکلتے ہوئے سنی۔
پھر کوئی بولا ”وائی ٹو بول رہا ہوں“ معاذ نے حیرانی سے یہ الفاظ سنے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ جواب دے گا وہ بولا ”ہیلو! آپ کون ہیں“ دوسری طرف سے ایک لمحے کی خاموشی رہی لازمی امر تھا کہ وائی ٹو جو بھی تھا پریشان ہو گیا تھا پھر ایک بہت محتاط پیغام دیا گیا”تم کون ہو؟“ معاذ کہنے گا“ میں ایک لڑکا ہوں اور میرا نام معاذ ہے میں پرویز صاحب کو ملنے آیا تھا لیکن وہ یہاں نہیں ہیں ”آواز آئی“ دوبارہ بتاﺅ تم کس سے ملنے آئے تھے“ تو معاذ نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا “ پرویز صاحب کو ۔ لیکن وہ یہاں نہیں ہیں لیکن آپ کون ہیں؟ کیا آپ پرویز صاحب کے لئے کوئی پیغام چھوڑنا چاہتے ہیں میرا خیال ہے وہ تھوڑی دیر میں آ جائیں گے ”وائی ٹو نے پوچھا“ انہیں گئے ہوئے کتنی دیر ہو گئی ہے؟ معاذ نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ لیکن ذرا انتظار کریں۔ مجھے لگتا ہے وہ آ گئے ہیں“خوشی خوشی اس نے چونگا ٹیلی فون سیٹ کے نزدیک رکھ دیا۔
اس نے باہر کسی کے سیٹی بجانے کی آواز سنی تھی اور قدموں کی چاپ بھی۔ اسے یقین تھا کہ وہ پرویز صاحب ہی ہونگے اور واقعی وہ پرویز صاحب ہی تھے وہ جھونپڑی میں داخل ہوئے اُن کی ٹارچ چل رہی تھی۔ وہ معاذ کو دیکھ کر سخت حیران ہوئے کہ کئی لمحے ان کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔ معاذ خوشی سے بولا” شکر ہے پرویز صاحب! آپ مل گئے۔ آپ سوچ نہیں سکتے مجھے آپ کو دیکھ کر کتنی خوشی ہوئی ہے اچھا جلدی سے ٹیلی فون پر جواب دیں کوئی وائی ٹو آپ سے بات کرنا چاہتا ہے پرویز صاحب حیران ہو کر پوچھنے لگے “کیا تم نے اس سے بات کی ہے؟ پھر انہوں نے چونگا اٹھایا اور بات کی“ کیا وائی ٹو بول رہے ہیں ایل فور بول رہا ہوں“ وائی ٹو نے ظاہر ہے پرویز صاحب سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا ”معاذ یہاں نزدیک ہی رہتا ہے کیا خبر ہے ؟بتائیے“ اس کے بعد پرویز صاحب کی مزید جو بھی گفتگو ہوئی اس میں پرویز صاحب ”جی ہاں“ میں آپ کو بتاﺅں گا ”شکریہ“ نہیں ابھی نہیں”خدا حافظ“ جیسے الفاظ میں دہراتے رہے جب ان کی گفتگو ختم ہوئی تو وہ معاذ کی طرف متوجہ ہوئے انہوں نے کہا بیٹا دیکھو ذرا سمجھ اگر میں موجود نہ ہوں تو کسی صورت میں میری کسی چیز یا میرے معاملات کے بارے میں کسی سے بات نہیں کرنی۔
”پرویز صاحب نے پہلے کبھی ان سے اتنے سخت لہجے میں بات نہیں کی تھی معاذ کا تو جیسے دل ہی بیٹھ گیا پرویز صاحب کیا کہیں گے اگر انہیں یہ معلوم ہوا کہ بچے ان کا راز جانتے ہیں ظاہر ہے وہ سوچیں گے کہ ہم ان کی توقع سے بھی زیادہ ان کے معاملات میں دخل دیتے رہے ہیں“ اس نے شرمندگی سے پرویز صاحب کو کہا پرویز صاحب! مجھے افسوس ہے لیکن میں کسی معاملے میں دخل نہیں دینا چاہتا تھا” پرویز صاحب نے پوچھا“ تم آخر اتنی رات گئے یہاں کیوں آئے ہو؟”معاذ نے پوچھا“ پرویز صاحب! کیا یہ آپ کی پنسل ہے؟ اس نے جیب سے پنسل نکال کر دکھائی اسے امید تھی کہ پرویز صاحب جب پنسل دیکھیں گے تو انہیں یاد آ جائے گا کہ وہ ان سے تانبے کی کانوں میں گری تھی اور پھر اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ اندازہ لگا لیں گے کہ بچے انکا راز جانتے ہیں پرویز صاحب نے پیلی پنسل کو گھور کر دیکھا اور کہنے لگے“ہاں! یہ میری پنسل ہے لیکن کیا تم اتنی رات گئے میری پنسل واپس کرنے آئے ہو؟ ظاہر ہے تم کسی اور کام سے آئے ہو بتاﺅ“ بیچارہ معاذ بولا“ پرویز صاحب ! ناراض مت ہوئیے گا ہمیں معلوم ہے کہ آپ یہاں کیاکر رہے ہیں ہمیں معلوم ہے کہ آپ جزیرے پر کیا کرنے جاتے ہیں ہم سب جانتے ہیں“ پرویز صاحب اس کی باتیں یوں سن رہے تھے جیسے انہیں اپنے کانوں کی سماعت پر یقین نہ آ رہا ہو۔ وہ حیرانی سے معاذ کو بس گھورتے جا رہے تھے انہوں نے تقریباً اپنی آنکھیں سکیڑ رکھی تھیں اور ہونٹ اتنے زور سے بھینچے ہوئے تھے کہ نظر نہیں آ رہے تھے اس لمحے وہ بہت خوفناک لگ رہے تھے ۔
پرویز صاحب نے بڑے سخت لہجے میں اس سے پوچھا“ اب تم مجھے ان باتوں کی تفصیل بتاﺅ گے اور ان باتوں کا مطلب بھی میرا کونسا راز ہے؟ اور تم میری ساری باتیں جانتے ہو۔ وہ ساری باتیں کیا ہیں؟ “مجبور ہو کر معاذ بولا ”ہم جانتے ہیں کہ آپ اور آپ کے ساتھی تانبے کی کانوں میں کام کرنے کی کوشش کر ہے ہیں ہم یہ جانتے ہیں کہ آپ اپنی کشتی اور کار کے ساتھ یہاں اس لئے ہیں کہ ان کو خوراک پہنچا سکیں ہمیں پتا ہے کہ آپ کانوں میں کام کرنے والوں سے ملنے جزیرے پر جاتے ہیں ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے یہاں سب کو غلط نام بتا رکھا ہے لیکن پرویز صاحب ہم آپ کے خلاف نہیں ہیں ہماری خواہش ہے کہ آپ یہاں سے زیادہ سے زیادہ تانبا نکال کر لے جائیں“پرویز صاحب دستور آنکھیں سکیڑ کر ہنستے رہے لیکن گفتگو کے دوران اب وہ آنکھیں جھپک رہے تھے اور ان کا چہرہ بھی پرانے پرویز صاحب کی طرح کا نکل آیا تھا پرویز صاحب بولے ۔
”اچھا تو تم یہ سب باتیں جانتے ہو اور اس کے علاوہ تم اور کیا جانتے ہو؟ تم جزیرے پر کیسے پہنچ گئے تم نے میری کشتی تو استعمال ہی نہیں کی“ معاذ نے جب پرویز صاحب کو دوست کے روپ میں دیکھا تو اس کی جان میں جان آئی وہ بولا“نہیں نہیں ہم صغیر کی کشتی پر گئے تھے جب وہ قصبے کو گیا ہوا تھا ہم زیر زمین تانبے کی کانوں تک پہنچ گئے تھے وہیں سے ہمیں آپ کی پنسل ملی تھی لیکن ہمیں آپ کے دوست بہت ہی برے لگے تھے انہوں نے ہمیں قیدی بنا لیا تھا اور جب ہم نے انہیں آپ کا نام بتایا اور کہا کہ ہم آپ کے دوست ہیں تو وہ بولے کہ وہ آپ کو نہیں جانتے اور ہمیں پھر بھی آزاد نہیں کیا”پرویز صاحب نے پوچھا“ کیا تم نے انہیں بتایا تھا کہ تم پرویز کو جانتے ہو“ تو معاذ نے اثبات میں سر ہلایا پرویز صاحب نے پوچھا“ تم نے وہاں کس آدمی کو دیکھا تھا؟“ یہ پوچھتے ہوئے ان کی آواز میں دوبارہ سختی آ گئی اور ایک طرح سے بڑے خوفناک انداز سے انہوں نے یہ سوال پوچھا تھا معاذ نے حیران ہوتے ہوئے جواب دیا ”آپ انہیں ضرور جانتے ہوں گے۔
پھر بھی میں انہیں بڑے غور سے نہیں دیکھ سکا کبھی وہاں بہت اندھیرا تھا اور کبھی اتنی روشنی کی میری آنکھیں چندھیائی رہیں۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ ثناءاللہ سیاہ رنگ کا اور لمبا تھا اور اس کی آنکھ کے نیچے زخم کا نشان تھا میں اتنا ہی جانتا ہوں لیکن آپ تو انہیں اچھی طرح جانتے ہوں گے” پرویز صاحب نے پوچھا“ تم نے کسی اور شخص یا کسی چیز کو تو نہیں دیکھا؟” معاذ نے انکار کرتے ہوئے سر کو ہلایا اور کہا “نہیں لیکن ہم نے دوسرے کان کنوں کے کام کرتے ہوئے آوازیں ضرور سنی تھیں ایک بہت تیز ٹکاٹک قسم کی آواز آ رہی تھی میرا خیال ہے آپ نے کانوں کا وہ حصہ تلاش کر لیا ہے جو ابھی بھی تانبے سے بھرا ہوا ہے پرویز صاحب! کیا آپ کو وہاں سے بہت تانبا مل رہا ہے“ اچانک پرویز صاحب اُس کی بات ٹوک کر بولے “ دیکھو تم مجھے یہ سب بتانے کے لئے اتنی رات گئے یہاں نہیں آئے۔ صحیح بتاﺅ تم یہاں کس لئے آئے ہو؟ ۔
”معاذ بولا“ میں بتانے آیا ہوں کہ کسی نہ کسی طرح میں تزئین اور نایاب ثناءاللہ کو بے قوف بنا کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن عنریق وہیں جزیرے پر رہ گیا ہم اسے ساتھ نہیں لا سکے اور کی کی بھی اس کے ساتھ ہے اب ہمیں اس کی فکر لگی ہوئی ہے آپ جانتے ہیں ہو سکتا ہے وہ کبھی واپس نہ آ سکے اور ہمیشہ سمندر کے نیچے بھول بھلیوں میں گم ہو جائے ہو سکتا ہے آپ کے دوست اسے پکڑ لیں اور اس پر تشدد کریں کیونکہ وہ ہمارے فرار سے غصے میں ہوں گے“ اب پرویز صاحب بے چین اور ناراض دکھائی دے رہے تھے وہ فوراً اپنے وائرلیس سیٹ کے قریب گئے کچھ بٹنوں کو گھمایا اور پھر معاذ حیران رہ گیا انہوں نے ایسی زبان میں بات شروع کر دی جو معاذ نہیں سمجھتا تھا معاذ سوچ رہا تھا ”یہ پیغام وصول کرنے اور پیغام بھجوانے جیسے دونوں کام کر سکتا ہے”ادھر پرویز صاحب بڑ بڑا رہے تھے عنریق ابھی بھی جزیرے پر ہے اور کانوں میں ہے۔ خدا خیر کرے یہ بہت اہم ہے تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا مجھے لگتا ہے کہ تم بچے ہر شے کو تباہ کر دو گے ادھر معاذ سوچ رہا تھا کہ سب کچھ کتنا عجیب و غریب ہے پرویز صاحب آخر کس سے بات کرنا چاہ رہے ہیں کیا سب کا ایک ہی باس ہے جو تانبے والی کانوں سے متعلق لوگوں کو ہدایت دیتا ہے لگتا ہے بہت پیسوں کا معاملہ ہے اور پرویزصاحب نے جو یہ بات کی کہ بچے سب کچھ تباہ کر دیں گے تو اس بات سے آخر ان کا کیا مطلب ہے آخر ہم سب کچھ کیسے تباہ کر سکتے ہیں؟
انہیں تو صرف یہ کرنا چاہئے کہ وہ جزیرے پر جائیں اپنے دوستوں سے بات کریں کہ وہ عنریق کوآزاد کر دیں۔ بس اتنا ہی تو ہے اس سے ہر چیر ٹھیک ہو جائے گی۔ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کسی بھی طور ان کا راز افشا نہیں کریں گے پرویز صاحب مڑے اور کہنے لگے “‘ ہمیں ابھی کشتی پر چلنا چاہئے آﺅ چلیں“پھر اپنی اپنی جلتی ہوئی ٹارچیں لئے ہوئے وہ وہاں پہنچے جہاں ان کی کشتی کھڑی ہوتی تھی پرویز صاحب نے کشتی کو دھکا لگانا چاہا لیکن پھر وہ اچانک اس انداز سے چیخے کہ معاذ کو لگا کہ شاید اس کا دل حرکت کرنا بند کر دے گا وہ کہہ رہے تھے ”یہ کس نے کیا ہے“ پرویز صاحب نے ٹارچ کی روشنی کشتی پر ڈالی تو معاذ نے دیکھا کہ کوئی پرویز صاحب کی کشتی کے پیندے کو بری طرح ٹکڑے ٹکڑے کر گیا ہے۔
کشتی کے پیندے میں سوراخ اتنے بڑے تھے کہ کھڑی کشتی میں ابھی سے پانی آ رہا تھا پرویز صاحب اسے کھینچ کر ساحل پر لے کر آئے انہوں نے معاذ سے پوچھا کیا تمہیں اس بارے میں کچھ علم ہے؟” معاذ بولا“ ہرگز نہیں۔ پرویز صاحب یہ کون کر سکتا ہے؟ یہ تو بہت بری حرکت ہے”پرویز صاحب بولے“ جب تک اس کشتی کی مکمل مرمت نہ ہو جائے یہ تو استعمال کے قابل نہیں رہی لیکن پھر بھی ہمیں دکھ والے جزیرے پر تو پہنچنا ہی ہے ہمیں صغیر کی کشتی لے کر جانا چاہئے آﺅ لیکن اسے ان باتوں کی خبر نہیں ہونی چاہئے آگے ہی ساری باتیں سب کو معلوم ہو چکی ہیں اور کئی لوگ اس میں ٹانگیں اڑا رہے ہیں“ وہ چٹانوں کے اوپر سے چلنے لگے معاذ بے چارہ آگے ہی اتنا تھکا ہوا تھا وہ بمشکل پرویز صاحب کا ساتھ نبھا رہا تھا وہ اپنے گھر کے قریب پہنچ گئے تھے وہاں سے وہ چٹانی راستے سے نیچے اترنے لگے اور اس جگہ پر پہنچے جہاں صغیر اپنی کشتی کھڑی کرتا تھا لیکن وہ حیرت سے دنگ رہ گئے جب انہوں نے دیکھا کہ وہاں صغیر کی کشتی موجود نہیں ہے کشتی غائب تھی۔
باب نمبر23…………ایک اور خفیہ راستہ
پھر جیسے معاذ رخصت ہوا تزئین اور نایاب ادھر ادھر کے کام میں لگ گئیں۔ جو ایک دکھاوا تھا نایاب کا دل جزیرے پر کہیں بھٹک رہا تھا۔ تزئین کہنے لگی”بہتر ہے کہ میں جا کر چچا آصف کو بتاﺅں کہ چچی کی طبیعت ناساز ہے آﺅ نایاب تم میرے ساتھ چلو“ دونوں لڑکیاں چچا کے کمرے میں گئیں اور باہر سے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹایا پھر وہ اندر گئیں اور تزئین نے اپنے چچا کو چچی کی طبیعت کے بارے میں بتایا انہوں نے سر ہلایا لیکن ایسا لگتا تھا کہ انہوں نے کچھ نہیں سنا۔ تزئین بولی”چچا جان! کیا آپ کے پاس دکھ کے ستون والے جزیرے کے اور بھی نقشے ہیں یا ان کے متعلق کوئی کتابیں وغیرہ؟”چچا نے کہا “ نہیں۔ لیکن ذرا صبر کرو ہمارے گھر کے متعلق ایک کتاب موجود ہے تم جانتی ہو کہ یہ غیر قانونی کاموں کی جنت رہا ہے اور دو تین سو سال پہلے یہاں چھپائے جانے والے سارے کام کئے جاتے تھے اور میرا خیال ہے یہاں سے ساحل سمندر تک پہنچنے کا کوئی خفیہ راستہ بھی ہوتا تھا“ تزئین کہنے لگی وہ تو اب بھی ہے اور ہم اسے جانتے ہیں“ یہ سن کر چچا بہت حیران اور خوش ہوئے۔
انہوں نے تزئین سے کہا کہ وہ خفیہ راستے کے بارے میں جو بھی جانتی ہے وہ انہیں بتائے پھر وہ بولے”میرے خدا! میں سمجھتا رہا کہ وہ راستہ مدتوں پہلے تباہ ہو چکا ہے لیکن یہ خفیہ راستے چٹانوں کو کاٹ کر بڑی محنت سے بنائے گئے تھے تاکہ صدیوں تک استعمال ہوتے رہیں اور ابھی بھی میں سمجھتا ہوں کہ ایک ایسا خفیہ راستہ بھی تھا جو سمندر کے نیچے سے گزرتا ہوا ویران جزیرے تک جاتا تھا لیکن میں نے سنا ہے کہ وہ مدتوں پہلے سمندر کے پانی کے بھر جانے سے ڈوب گیا تھا“ دونوں لڑکیاں حیرت سے منہ کھولے بوڑھے چچا کی باتیں سن رہی تھیں آخر تزئین نے زبان کھولی ”کیا آپ یہ بتا رہے ہیں کہ یہاں ایک خفیہ راستہ بھی تھا جو سمندر کے نیچے سے جزیرے پر جاتا تھا لیکن یہ کیسے ممکن ہے جزیرہ تو بہت دور ہے”تو چچا بولے“ سمجھا یہی جاتا ہے لیکن اس کے متعلق اس کتاب میں لکھا ہوا ہے اب پتا نہیں یہ کتاب کہاں چلی گئی“۔
لڑکیاں بے صبری سے کھڑی انتظار کرتی رہےں“تاکہ کتاب چچا کو مل جائے آخر وہ ان کے ہاتھ لگ ہی گئی اور تزئین نے کتاب لینے کی بجائے تقریباً ان سے چھین ہی لی وہ بولی ”چچا جان بہت شکریہ“ اور اس سے پہلے کہ وہ کہتے کہ کتاب کو کمرے سے باہر لے کرنہیں جانا۔ وہ دونوں وہاں سے کتاب لیکر بھاگ نکلیں وہ سوچ رہی تھیں ایک اور خفیہ راستہ۔ اور وہ بھی سمندر کے نیچے سے جزیرے تک کیا حیرت انگیز بات ہے لیکن ایسا ہو نہیں سکتا ضرور چچا کو کوئی غلطی لگی ہے۔ پھر تزئین جوش سے بولی ”لیکن ہو سکتا ہے یہ صحیح ہو۔ میں جانتی ہوں یہ سارا ساحل شہد کی مکھیوں کے چھتے کی طرح ہے اور غاروں اور خفیہ راستوں سے اٹا ہوا ہے میرا خیال ہے نایاب یہ راستہ کانوں میں جانے کے لئے بنایا گیا ہو گا جو چٹانوں کے نیچے سے بنا ہو گا اور یہ چٹانیں عین سمندر کے نیچے قدرتی طور پر ہوں گی ہمیں پتا ہے کہ یہ کانیں میلوں دور تک پھیلی ہوئی ہیں“۔
پھر لڑکیوں نے وہ عجیب سی کتاب کھولی لیکن وہ اس میں موجود تحریر نہیں پڑھ سکیں اس کی ایک وجہ تو تحریر کا پرانا ہونا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ کسی ایسی زبان میں تھی جسے لڑکیاں نہیں جانتی تھیں وہ ورق پر ورق الٹتی رہیں تاکہ نقشے اور تصویریں دیکھتی رہیں کتاب ظاہری طور پر تو ان کے گھر اور قرب و جوار کی تاریخ کے متعلق تھی جو کئی سو سال پرانی تھی ان دنوں میں ان کا یہ گھر ضرور ایک قلعہ رہا ہو گا اور حفاظت کی غرض سے چٹانوں پر بنایا گیا ہو گا سامنے سے سمندر کی وجہ سے کوئی حملہ آور یہاں تک نہیں آ سکتا ہو گا اور پیچھے سے اس کی حفاظت چٹانیں کرتی ہوں گی اور اب کیوں کہ یہ آدھا تو ویسے ہی تباہ ہو چکا ہے اور جو خاندان یہاں رہتا ہے وہ صرف چند کمرے استعمال کرتا تھا اس لئے ان کے لئے اب بھی رہائش کے قابل تھا تزئین بولی”دیکھو“ اس نے ایک پرانے نقشے کی طرف اشارہ کیا اور بولی۔
ٍ”پرانے زمانے میں یہ گھر اس طرح دکھائی دیتا ہو گا کیا شاندار جگہ تھی اور ذرا یہ مینار دیکھو کیا شان اور کروفر سے سر اٹھائے کھڑے ہیں پھر انہوں نے ورق الٹے۔ تو ایک صفحے پر آڑھی ترچھی لکیروں سے ایک خاکہ بنا ہوا تھا لڑکیوں نے اس کا بغور مطالعہ کیا پھر نایاب چلائی”میں جانتی ہوں یہ کیا ہے یہ وہ خفیہ راستہ ہے جو تہہ خانوں سے ساحل تک جاتا ہے یہ وہی ہے نا“ اور واقعی یہ وہی خفیہ راستہ تھا اس میں شک کی کوئی گنجائش ہی نہیں تھی ”ہو سکتا ہے ہم کوشش کریں تو دوسرے خفیہ راستے کو بھی ڈھونڈ نکالیں وہ بولی نقشوں سے ملتے جلتے دو تین خاکے اور بھی تھے ان میں کئی تو وقت گزرنے سے مٹ چکے تھے اور ان سے یہ نتیجہ اخذ کرنا تقریباً ناممکن تھا کہ یہ کس چیز کے نقشے تھے اور کیا ظاہر کرتے تھے؟ تزئین ٹھنڈی سانس لے کر بولی کاش ہم اس لکھی ہوئی زبان کو پڑھ سکتے۔ اگر میں پڑھ سکتی تو باآسانی ہمیں اس بات کا علم ہو جاتا کہ یہ آڑھے ترچھے خاکے کیا خفیہ راستے کو تو ظاہر نہیں کرتے جو جزیرے کو جاتا ہے اگر ہم اسے دریافت کر لیں تو کتنی بڑی خوشی کی بات ہو گی اور لڑکے تو دم بخود ہی رہ جائیں گے جب ہم انہیں بتائیں گی کہ ساحل سے لیکر جزیرے تک سمندر کے نیچے سے کوئی خفیہ راستہ بھی موجود ہے “۔
ان باتوں سے نایاب کو پھر عنریق یاد آ گیا اور وہ منہ بسورنے لگی۔ عنریق کہاں ہو گا؟ کیا معاذ اور پرویز صاحب کشتی لیکر جزیرے پر گئے ہیں تاکہ عنریق کو چھڑوائیں؟ اور وہ کب حفاظت سے عنریق کو واپس لا رہے ہیں ابھی وہ اس بارے میں سوچ رہی تھیں کہ اس نے باہر برآمدے میں سے معاذ کے بولنے کی آواز سنی۔ وہ خوشی سے چھلانگ لگا کر اٹھی کیا واقعی معاذ اور پرویز صاحب عنریق کو واپس لے بھی آئے ہیں؟ کیا زبردست کام ہے اور ان لوگوں نے اتنی جلدی کر بھی لیا ہے وہ خوشی سے دروازے کی طرف دوڑی لیکن باہر صرف پرویز صاحب اور معاذ کھڑے تھے عنریق ان کے ساتھ نہیں تھا اس نے پوچھا ”عنریق کدھر ہے؟ کیا آپ اسے چھڑا کر نہیں لائے؟ ”معاذ بولا“ پرویز صاحب کی کشتی کسی نے تباہ کر دی ہے وہ کمرے میں آتے ہوئے بولا “لہذا ہم صغیر کی کشتی لینے کے لئے گئے لیکن وہ بھی موجود نہیں تھی میرا خیال ہے صغیر اپنے معمول کے مطابق سمندر میں مچھلیاں پکڑنے گیا ہوا ہے لہذا ہم مجبور تھے کیونکہ کچھ کر نہیں سکتے تھے“۔
وہ دونوں لڑکیاں مایوسی سے آنے والوں کا منہ دیکھ رہی تھیں“ کیا بے چارے عنریق تک پہنچا نہیں جا سکتا“ نایاب کی آنکھیں آنسوﺅں سے لبریز ہو گئیں وہ سوچ رہی تھی کہ اتنی اندھیری اور گہرے غاروں میں اس کا بھائی تنہا کیا کر رہا ہو گا جہاں اتنے ظالم لوگ اسے پکڑنے کے در پے ہیں تاکہ اسے قید کر سکیں صرف اسے اس بات کی تھوڑی تسلی تھی کہ کی کی اس کے ساتھ تھا۔ تزئین کو اچانک کچھ یاد آیا اور وہ بولی“ کیا تمہیں پتا ہے کہ چچا آصف نے ہمیں کیا بتایا ہے؟ انہوں نے بتایا ہے کہ سمندر کے نیچے سے ساحل سے جزیرے ایک خفیہ راستہ جاتا ہے وہ اگرچہ اس خفیہ راستے کو جانتے ہیں لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اب وہ راستہ استعمال کے قابل نہیں رہا معاذ کیا تم سمجھتے ہو کہ جزیرے تک جانے والا خفیہ راستہ ابھی بھی استعمال ہو سکتا ہے یا تم بھی سمجھتے ہو کہ اس میں سمندر کے پانی سے سیلاب آ گیا ہو گا اور وہ ڈوب گیا ہو گا ؟ کیا ہم اسے ڈھونڈ نہیں سکتے؟” پرویز صاحب یہ باتیں سن کر اچانک چوکس ہو گئے انہوں نے وہ کتاب اٹھا لی جو تزئین کے پاس تھی “انہوں نے پوچھا“ ۔
کیا یہی وہ کتاب ہے“ تو تزئین نے اثبات میں سر ہلا دیا وہ بولی ”ہمارا پہلا خفیہ راستہ بھی نقشے کی صورت میں اس میں ہے جسے ہم نے خود ہی تلاش کر لیا تھا لازمی بات ہے کہ اس میں دوسرا راستہ بھی ہو گا لیکن ہم پرانے نقشوں اور اس تحریر کو نہیں پڑھ سکے پرویز صاحب کہنے لگے ”لیکن میں پڑھ سکتا ہوں“ اور پھر کتاب پڑھنے میں گم ہو گئے وہ آہستہ آہستہ صفحے رہے تھے اور ادھر ادھر کر رہے تھے اور جزیرے تک راستے کا سراغ لگا رہے تھے پھر وہ اچانک پرجوش نظر انے لگے اور دو تین صفجے بڑی تیزی سے الٹ پلٹ گئے وہ بڑے غور سے ایک عجیب و غریب بنے ہوئے نقشے کو دیکھتے رہے۔ اور پھر دوسرے کو۔ اور پھر انہوں نے ایک عجیب سوال پوچھا”آپ کے گھر کا کنواں کتنا گہرا ہے؟“ معاذ بولا“ کنواں۔ یہ تو بہت گہرا ہے وہ اتنا ہی گہرا ہو گا جتنا جزیرے پر پلی والا کوئی کنواں۔ یہ تو سطح سمندر کے نیچے جاتا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس پانی میں کبھی نمک کی آمیزش نہیں ہوتی“ پرویز صاحب نے کچھ الفاظ کا مطلب بچوں کو سمجھایا اور پھر نقشے کو پلٹا۔ نقشے میں ایک بہت لمبی پلی کو زمین کے اندر تک جاتے ہوئے دکھایا گیا۔ وہ بولے۔
”دیکھو! جزیرے تک جانے کا راستہ تمہارے گھر کے کنویں سے شروع ہوتا ہے اب یہ بالکل واضح ہے کہ وہاں ہی کوئی جگہ ہو گی لیکن پھر بھی میں نے خاصی سوچ بچار کی ہے راستے کا سمندر کے نیچے سے گزرنا ظاہر کرتا ہے کہ اس کا آغاز بھی کسی ایسی جگہ سے ہو گا جو سمندر کی سطح سے نیچے ہو گی“بچے حیران رہ گئے کنواں ان کے گھر کا کنواں۔ انہوں نے اس بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کیا حیران کن بات تھی معاذ کہنے لگا”لیکن کنویں کی تہہ میں تو پانی ہو گا ہم پانی کے راستے تو نہیں جا سکتے “پرویز صاحب بولے ”دیکھو“ انہوں نے نقشے پر ایک نقطے کی طرف اشارہ کیا اوربولے “اس راستے کے داخلے کا مقام پانی کی سطح کے اوپر نقشے میں بنا ہوا ہے یہ ضرور سیڑھیاں ہیں مجھے سوچنے دو یہ پلی کو ادھر سے کاٹا ہوا ہے پھر یہ پلی والا پائپ تھوڑا سا اوپر جا رہا ہے اور پھر یہ راستہ جو چٹان میں سے گزرتا ہے اور ایک قدرتی دواڑ سے بنا ہوا ہے۔ جیسی دراڑیں اس پورے ساحل میں کئی جگہ ہیں جن میں سے کئی تو دریافت ہو چکی ہیں اور کئی جگہ میں ان دراڑوں کو وسیع کرنے کے لئے ہتھوڑے چلا کر اور کئی جگہ پر بارود پھوڑ کر ان میں سے راستے نکالے گئے ہیں۔
”معاذ جوش سے بولا“ کیا بات ہے ہوا یہ ہو گا کہ جب کنوویں کے لئے پلی والا سوراخ بنایا جا رہا ہو گا تو کسی نے بہت گہرائی میں دراڑ والا سوراخ ڈھونڈ لیا ہو گا اور جانا ہو گا کہ یہ راستہ استعمال کرنے کا فائدہ ہو سکتا ہے تو پھر یہ راستہ بنا ہو گا پرویز صاحب کیا ہمیں نیچے جا کر اسے ڈھونڈنے کی کوشش کرنی چاہئے؟ پرویز صاحب فوراً بولے“ نہیں ابھی نہیں رات کے اس پہر نہیں۔ تم ویسے بھی سارا دن خاصی مہم جوئی کر چکے ہو۔ اب تمہیں آرام کے لئے سونا چاہئے”نایاب بولی“ تو عنریق کا کیا بنے گا؟“ پرویز صاحب بہت نرمی سے لیکن فیصلہ کن انداز میں بولے” ہم آج رات اس کے لئے کچھ نہیں کر سکتے ویسے بھی اگر وہ پکڑا گیا ہے تو پھر پکڑا گیا ہے اور اگر نہیں پکڑا گیا تو پھر ہم کل ہر صورت اس کے لئے کچھ کر سکتے ہیں ہم ویسے بھی رات کے اس پہر کنویں میں بالٹیوں کے ذریعے نیچے نہیں اتر سکتے اور معاذ آج رات میں تمہارے مینار والے کمرے میں سوﺅں گا “م
معاذ یہ سن کر خوش ہو گیا وہ آج رات اکیلا سونا نہیں چاہتا تھا لڑکیوں کو بھی ان کے کمرے میں سونے کے لئے بھیج دیا گیا حالانکہ وہ احتجاج کرتی رہیں کہ وہ تھکی ہوئی نہیں ہیں اور پھر پرویز صاحب اور معاذ مینار والے کمرے تک جانے کے لئے گھومتی ہوئی سیڑھیاں چڑھنے لگے معاذ نے پرویز صاحب کو وہ کھڑکی دکھائی جہاں سے وہ دکھ والے جزیرے کو دیکھ سکتے تھے وہ بستر پر بیٹھ کر جوتے اتارنے لگا لیکن وہ اتنا تھکا ہوا تھا کہ جوتے کے تسمے بھی نہیں کھول سکا اور بستر پر لیٹ گیا اس کی آنکھیں نیند سے بند ہو گئیں اور وہ پہنے ہوئے کپڑوں میں ہی گہری نیند سو گیا پرویز صاحب اس کی طرف دیکھ کر مسکرائے انہوں نے اس کے اوپر کمبل اوڑھا دیا اور کھڑکی کے کنارے بیٹھ کر سوچنے لگے۔ انہوں نے سگریٹ سلگا لیا اور بڑی دیر تک وہیں بیٹھے رہے کل صبح کا سورج ہی یہ نوید سنائے گا کہ کوئی راستہ سمندر کے نیچے سے جزیرے تک جاتا ہے یا نہیں۔
یہ صحیح تھا کہ بچوں کا دریافت کردہ راستہ ابھی بھی قابل استعمال تھا لیکن وہ جس راستے کے بارے میں سوچ رہے تھے وہ اس سے کہیں چھوٹا تھا اور دوسرے راستے کی چھت پر تو مدتوں سے سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اس میں چھوٹی سی دراڑ یا کہیں سے پانی کا ٹپکنا۔ یہی کافی تھا اس راستے کو ڈبونے کے لئے پھر تو وہاں سے گزرنا ناممکن ہی ہو گا آخر پرویز صاحب بھی بستر پر دراز ہو گئے اور خود بھی نیند کی وادی میں پہنچ گئے انہیں صبح معاذ نے جگایا جو انہیں ہلا رہا تھا ”پرویز صاحب! اٹھیے صبح ہو گئی ہے آئیں ناشتہ کریں اور پھر کنوویں کا راستہ ڈھونڈیں“ وہ جلدی ہی سیڑھیوں سے نیچے آ گئے وہاں لڑکیاں پہلے ہی ناشتہ تیار کر رہی تھیں معاذ نے پوچھا”صغیر کہاں ہے؟“ تزئین نے انڈہ پلیٹ میں رکھتے ہوئے کہا ”ابھی وہ مچھلیوں کے شکار سے واپس نہیں آیا اور پرویز صاحب یہ آپ کا ناشتہ۔ میں معاذ تمہارے لئے بھی انڈہ بناتی ہوں شکر ہے صغیر ابھی واپس نہیں آیا ورنہ وہ یہ پوچھ کر جان کھا لیتا کہ پرویز صاحب یہاں کیا کر رہے ہیں اور پرویز صاحب کو بڑی مشکوک نظروں سے دیکھتا” نایاب بولی“۔
لیکن صغیر کبھی بھی واپس آ سکتا ہے اس لئے اس کے آنے سے پہلے جلدی کر لینا چاہئے مجھے اس خیال سے ہی نفرت ہے کہ جب ہم کنوویں میں نیچے اتر رہے ہوں تو وہ اوپر کھڑا ہمیں دیکھ کر کوس رہا ہو“ انہوں نے جلدی جلدی ناشتہ ختم کیا تزئین پہلے ہی ناشتہ بنا کر چچی کو ان کے کمرے میں دے آئی تھی اور چچا کو ان کے مطالعے کے کمرے میں‘ اس نے بتایا کہ چچی کی طبیعت آگے سے بہتر ہے لیکن وہ ٹھہر کر نیچے اتریں گی۔ اور تزئین کا خیال تھا کہ چچا شاید ساری رات نہیں سوئے۔ تزئین بولی ”مجھے یقین ہے کہ چچا ساری رات کام کرتے رہتے ہیں۔ اب ہم نے ناشتہ کر لیا ہے چلیں میں برتن آ کر دھو لوں گی“ وہ تمام پچھواڑے والے برآمدے میں گئے جو واقعی ایک چٹان کے اوپر بنا ہوا تھا پرویز صاحب کنوویں پر جھک گئے جو واقعی بہت زیادہ گہرا تھا معاذ پوچھنے لگا تو کیا ہمیں بالٹی کے ذریعے ہی نیچے جانا پڑے گا ”تزئین کہنے لگی“اگر بالٹی بہت بڑی ہے تو کیا مضائقہ ہے ؟
لیکن اس بالٹی میں تومَیںبالکل نیچے نہیں جا سکتا اس میں تو نایاب بھی پوری نہیں آ سکتی پرویز صاحب نے اپنی ٹارچ جیب سے نکالی اور کہنے لگے ”تم جانتے ہو“ کہ اگر یہ پلی جو کنویں میں لٹکی ہوئی ہے واحد راستہ ہے جو ہمیں خفیہ راستہ کے آغاز تک لے جائے گا تو پھر یہاں پلی کے ساتھ دوسرے کنوﺅں کی طرح سیڑھی بھی لگی ہوئی ہو گی میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ پرانے دور میں بھی لوگ بالٹیوں کے ذریعے کنویں میں اوپر نیچے اس راستے کو استعمال کرنے کے لئے آتے جاتے ہوں گے “معاذ نے کہا یہاں تو سیڑھی نہیں ہے ورنہ ہمیں نظر آ جاتی ہے“ ۔
پرویز صاحب نے دوبارہ ٹارچ کی روشنی کنوویں میں پھینکی اور بڑے غور سے اس کا جائزہ لیا پھر وہ معاذ سے بولے ”دیکھو۔ یہ سچ ہے کہ یہاں کوئی سیڑھی نہیں ہے لیکن تم ان لوہے کے نعلوں کو دیکھ رہے ہو۔ جوکنوویں کی دیوار کے ساتھ ساتھ باہر نکلے ہوئے ہیں یہ ہی وہ سہارے ہیں جن پر پاﺅں رکھ کر انہیں پکڑ کر لوگ کنوویں میں اترتے ہوں گے وہ انہیں پاﺅں رکھنے کے لئے استعمال کرتے ہوں گے ”معاذ جوش سے بولا“بالکل ٹھیک ہے واقعی یہی وہ طریقہ ہو گا جس کو استعمال کر کے پرانے زمانے میں لوگ نیچے اترتے ہوں گے مجھے یقین ہے کہ جب یہاں جنگیں ہوتی ہوں گی تو کئی لوگ اپنی جانیں بچانے کے لئے یہی راستہ استعمال کرتے ہوں گے۔جن کو راستے کا علم نہیں بھی ہو گا وہ کنوویں میں چھپ جاتے ہوں گے آئیں پرویز صاحب اب نیچے چلیں۔ میں مزید انتظار نہیں کر سکتا“پرویز صاحب نے کہا“ میں پہلے جاﺅں گا تزئین تم صغیر کا خیال رکھنا“
باب نمبر24……..سمندر کے نیچے سفر
پرویز صاحب پہلے لوہے کے نعل تک نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ لہذا معاذ کو رسی لانی پڑی۔ اسے مضبوطی سے کنویں کی منڈھیر پر لگے ایک لوہے کے نعل سے باندھنا پڑا اور اس کے سہارے پرویز صاحب نیچے لٹک کر کنویں کی دیوار کے ساتھ لگے ہوئے لوہے کے پہلے نعل تک پیر پہنچا سکے۔ انہوں نے بتایا ”میں بالکل ٹھیک ہوں“ معاذ جتنی جلدی ہو سکتا ہے نیچے آ جاﺅ لیکن پہلے مجھے تھوڑا اور نیچے جانے دو اور خدا کا واسطہ پھسل نہ جانا“ لڑکیاں ساتھ نہیں جا رہی تھیں اور ویسے بھی یہ ناممکن تھا کہ وہ اتنے غیر محفوظ لوہے کے سہاروں کو پکڑ کر اتنے گہرے اور تاریک کنویں میں اتر سکتیں وہ ان دونوں کو تاریک کنویں کے اندھیرے میں گم ہوتا دیکھ رہی تھیں اور باہر کھڑی کھڑی خوف سے کانپ رہی تھیں۔ تزئین کہنے لگی ”ان دونوں کے ساتھ نہ جانا بہت خود غرضی والی بات تھی لیکن ان دونوں کے ساتھ جانا خودکشی کرنا تھا“۔
اب ہمیں معاذ اور پرویز صاحب دکھائی بھی نہیں دے رہے ہیں بہتر یہی ہے کہ باورچی خانے میں واپس چلیں اور کچھ کام کر لیں۔ تمہارا کیا خیال ہے صغیر نے کچھ زیادہ ہی دیر نہیں کر دی“ ادھر وہ دونوں آہستگی سے نیچے اتر رہے تھے لیکن انہیں زیادہ مشکل نہیں ہو رہی تھی کیونکہ دیوار میں گڑھے ہوئے آہنی نعل آج بھی اتنی مضبوطی سے قائم دائم تھے جتنے تب تھے جب انہیں کبھی گاڑھا گیا تھا یہ بہت تھکا دینے والا کام تھا اور یہ بالکل ناممکن ہوتا اگر یہ آہنی نعل پیروں کو رکھنے کے لئے کنویں کی دیوار میں نہ لگے ہوتے ایک جگہ پر ویز صاحب ٹھٹھکے اور اندازہ لگانے لگے کہ یہ کیا ہے یہاں ایک طرح سے دیوار میں کھلی جگہ تھی۔ جو دیوار میں کئی فٹ پیچھے تک تھی۔
پہلے پرویز صاحب سمجھے کہ شاید وہ خفیہ راستے تک پہنچ گئے ہیں لیکن وہ حیران تھے کہ یہ اتنی جلدی کیسے ہو سکتا ہے لیکن جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ یہ جگہ سانس لینے کے لئے ہے معاذ نے کچھ لمحوں کے لئے وہاں آرام کیا جبکہ پرویز صاحب آہستہ آہستہ ایک نعل کو محسوس کرتے ہوئے نیچے اترتے اترتے تقریباً ایک گھنٹہ گذر گیا تھا اگرچہ انہوں نے ہر آرام کرنے والی جگہ پر تھوڑی دیر قیام کیا لیکن پھر بھی وہ بری طرح تھک چکے تھے پھر یکا یک پرویز صاحب کی ٹارچ جو انہوں نے پتلون کی بیلٹ میں اٹکائی ہوئی تھی تاریک پانی میں گر گئی لیکن اس نے انہیں اندازہ ہو گیا کہ وہ کنویں کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں پرویز صاحب نے خوشی سے معاذ کو بتایا ” ہم پہنچ گئے ہیں۔ میں اب خفیہ راستے کو تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں“ راستہ تلاش کرنا اتنا مشکل کام نہیں تھا کیونکہ کنویں کے گول ہونے کی وجہ سے راستے کا کھلا منہ ایسے دکھائی دے رہا تھا جیسے کسی سرنگ کا منہ ہو۔ پرویز صاحب اس میں داخل ہو گئے وہاں بہت پھسلن تھی اندھیرا تھا اور بدبو تھی پرویز صاحب سوچ رہے تھے کہ حیرت ہے ایسی جگہ پر بھی تازہ ہوا موجود ہے لیکن کنویں میں اتنا نیچے اترنے کے باوجود دیواروں کے پاں ہوا کا بہاﺅ محسوس ہو رہا تھا ضرور یہاں ہوا کو صاف رکھنے کا بندوبست کیا گیا ہے۔
انہوں نے معاذ کے آنے کا انتظار کیا۔ پھر وہ شاید روئے زمین پر پائے جانے والی سب سے حیرت انگیز سڑک پر روانہ ہو گئے سڑک بھی ایسی جو سمندر کے بالکل نیچے بنی ہوئی تھی پہلے پہل تو سرنگ بہت تنگ تھی اور بتدریج اوپر کی طرف جا رہی تھی اور وہ تقریباً گھٹنوں کے بل چل رہے تھے لیکن پھر وہ سرنگ کھلی بھی ہو گئی اور اس کی چھت بھی اونچی ہو گئی لیکن ابھی بھی وہاں بہت بو اور پھسلن تھی لیکن اب وہ اس کے عادی ہو چکے تھے پھر وہ راستہ نیچے کو جانے لگا کئی جگہ پر تو وہ پھسل رہے تھے پھسلن والی جگہ پر کھردری سیڑھیاں بنائی گئی تھیں تاکہ مسافر پھسلنے سے بچ سکیں لیکن پھر بھی پھسلن اتنی تھی کہ ایک بکری بھی اپنے پاﺅں وہاں ٹکا نہیں سکتی تھی پھر پرویز صاحب پھسلتے ہوئے آ کر کچھ آگے گرے اور ان کے بالکل پیچھے معاذ بھی“ پرویز صاحب کہنے لگے “اپنے پاﺅں میری گردن سے پرے کرو“ وہ اٹھنے کی کوشش کر رہے تھے انہوں نے کہا کہ میں تو کسی پرانی کچرا کنڈی میں پھنس گیا ہوں“
پھر وہ آگے ہی آگے بڑھتے رہے کچھ دیر بعد راستہ نیچے جانے کی بجائے سیدھا ہو گیا وہاں کوئی عام زمین نہیں تھی نہ ریت تھی بلکہ ہر طرف چٹان ہی چٹان تھی جس کا رنگ سیاہ تھا اور جس پر کبھی کبھی روشنی کی کوئی جھلک امڈ رہی تھی۔ ایک دو دفعہ تو راستہ اتنا تنگ ہو گیا کہ اس میں سے گزرنا تک مشکل ہو گیا معاذ کہنے لگا “شکر ہے ہم زیادہ موٹے نہیں“ وہ پیٹ پوری قوت سے اندر کھینچتے ہوئے راستے سے گزرا وہ بولا“ یہاں تو جگہ بہت ہی تنگ تھی پرویز صاحب کیا اتنے سال گزرنے کے بعد چٹانیں نزدیک تو نہیں آ گئیں یا ہمیشہ سے ہی یہ راستہ اتنا ہی تنگ تھا ”پرویز صاحب کہنے لگے“میرا خیال ہے ہمیشہ ہی سے یہ راستہ تنگ ہی تھا یہ ایک مکمل طور پر سمندر کے اندر شاید کسی آتش فشاں کی حرکات و سکنات کی وجہ سے بننے والے راستے ہیں اور بہت ہی محیر العقول ہیں اگرچہ میں دنیا میں کئی اور مقامات پر ایسی جگہوں اور راستوں کے بارے میں پڑھ چکا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ اس ساحل پر اس طرح کی اور جگہیں بھی ہوں گی“ راستے میں خاصی گرمی تھی اور کہیں کہیں ہوا بھی صاف نہیں تھی اور وہ دونوں ہانپنے لگے۔
کئی ایسی جگہیں اور مقام ایسے تھے جہاں شاید ہوا کا گزر نہیں تھا لیکن وہ دونوں آگے بڑھتے ہی رہے ان کی ٹارچوں کی روشنی سیاہ دیواروں پر پڑتی رہی۔ اور کئی جگہوں پر ان دیواروں سے قدرتی روشنی بھی منعکس ہو رہی تھی معاذ کو محسوس ہونے لگا کہ وہ خواب کی حالت میں ہے اس نے یہ بات پرویز صاحب کو بتائی تو پرویز صاحب کی اس کی ہمت بندھاتی ہوئی آواز سنائی دی”نہیں تم خواب کی حالت میں نہیں ہو“ ہم ایک عجیب و غریب جگہ پر ضرور ہیں لیکن یہ حقیقت ہے خواب نہیں ہے اگر چاہو تو میں تمہیں چٹکی کاٹ کر یقین دلا سکتا ہوں”معاذ بولا“ لیکن مجھے تو ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے“ وہ واقعی اتنی تنگ و تاریک جگہ میں رہ کر ایسا ہی محسوس کر رہا تھا لہذا پرویز صاحب کو اسے چٹکی کاٹنی پڑی۔ یہ چٹکی اتنی تکلیف دہ تھی کہ معاذ کی چیخ نکل گئی اس نے کہا ”ٹھیک ہے میں جا گ گیاہوں اور خواب نہیں دیکھ رہا ہوں۔
کوئی پاگل ہی ہو گا جو خواب میں اس چٹکی کی تکلیف برداشت کرے گا“ اچانک پرویز صاحب کو ایسا لگا جیسے ان کے پاﺅں کے قریب کوئی چیز دوڑ رہی ہے اس نے حیرت سے ٹارچ نیچے کر کے دیکھا کہ نیچے کیا ہے وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ایک چھوٹا سا چوہا مونچھوں کو تاﺅ دے کر انہیں گھو رہا ہے پرویز صاحب رک گئے وہ بولے ”ادھر دیکھو‘ ایک چوہا۔ یہ کس چیز کے بل پر جیتا ہے؟ میں حیران ہوں کہ کس طرح ایک جاندار چیز اتنے تنگ و تاریک راستہ جو سمندر کے نیچے بنا ہوا ہے ”زندہ ہے“ معاذ کی ہنسی نکل گئی اس نے بتایا ”یہ کوئی حیرت ناک بات نہیں ہے کیونکہ یہ میرا پالتو چوہا نیمو ہے یہ میری آستین سے نکل کر فرش پر پھدک رہا ہے کیونکہ آپ صحیح کہتے ہیں یہاں واقعی کوئی جاندار نہیں رہ سکتا”پرویز صاحب کہنے لگے“ اگر یہ زندہ رہنا چاہتا ہے تو بہتر ہے کہ واپس تمہاری آستین ہی رہے“ راستہ اتنا تھکا دینے والا اور مشکل تھا کہ انہیں دو تین دفعہ رک کر سانس لینا پڑا۔
کئی دفعہ تو ناقابل یقین حد تک یہ راستہ سیدھا چلتا رہا اور کبھی کبھی خم کھا جاتا۔ کچھ فٹ دائیں بائیں مڑتا اور پھر سیدھا ہو جاتا۔ معاذ اب فکر مند تھا کہ اس کی ٹارچ اور کتنی دیر جلتی رہے گی۔ اچانک ہی وہ خوفزدہ ہو گیا کہ کہیں وہ تنہااندھیرے میں نہ رہ جائے۔ یہ نہ ہو کہ پرویز صاحب کی ٹارچ بھی بجھ جائے تو ؟ لیکن پرویز صاحب نے اس کی ہمت بڑھائی انہوں نے ”فکر نہ کرو۔ میرے پاس جیب میں ٹارچ کے لئے ایک اور بیٹری موجود ہے اس کے علاوہ مجھے یاد آیا کہ میں نے سفر میں استعمال کرنے کے لئے ابلی ہوئی مٹھائی کی گولیاں رکھ لی تھیں تاکہ اگر ہم وہ چوستے رہیں گے تو ہمارا سفر آسانی سے گزر جائے گا ”پھر خاموشی ہوئی۔ پرویز صاحب اپنی جیبوں میں مٹھائی کی گولیاں ڈھونڈ رہے تھے انہیں وہ مل گئیں جلد ہی وہ دونوں انہیں چوس رہے تھے ”اس سے مشکل آسان ہو گی“۔
معاذ نے سوچا جو منہ میں ایک بڑی ابلی ہوئی مٹھائی کی گولی چوس رہا تھا معاذ نے پوچھا ہم بھلا کتنی دور آ چکے ہیں یا آدھا راستہ طے کر لیا ہے؟“پرویز صاحب بولے“ میں بتا نہیں سکتا لیکن یہ کیا ہے؟ وہ خاموش ہو گئے اور اپنی ٹارچ جلا کر آگے دیکھا وہ بولے ایسا لگتا ہے کہ چھت گری ہوئی ہے راستہ لگتا ہے کہ بند ہو گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم آگے نہیں جا سکتے ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس سے ہم اس ڈھیر کو ہلا سکیں اب صرف دیکھتے ہیں کہ کیا ہم یہاں سے گزر سکتے ہیں“لیکن انہوں نے اطمینان کا سانس لیا کیونکہ چھت کے گرنے سے جو پتھروں کا ڈھیر لگا تھا وہ دونوں کی مشترکہ کاوش اور مشترکہ زور لگانے سے کچھ جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ معاذ بولا جو بڑے غور سے ادھر ادھر دیکھ رہا تھا پرویز صاحب آپ نے دیکھا کہ چٹانیں رنگ بدل رہی ہیں اب یہ سیاہ نہیں رہی ہیں اب یہ سرخی مائل ہو گئی ہیں کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم نزدیک پہنچ گئے ہیں ”پرویز صاحب کہنے لگے “میرا خیال ہے کہ پہنچ گئے ہیں مجھے تو اب یاد نہیں ہمی چلتے ہوئے کتنے گھنٹے ہو گئے ہیں اب تو ہمیں ہر صورت میں اس منحوس جزیرے تک پہنچ جانا چاہئے تھا ”معاذ بولا“ شکر ہے ہم نے پیٹ بھر کر ناشتہ کر لیا تھا مجھے تو اب دوبارہ بہت بھوک لگ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ہمیں کھانے کا کچھ سامان ساتھ لیکر آنا چاہئے تھا”پرویز صاحب بولے“ میرے پاس خاصی تعداد میں چاکلیٹ ہیں۔ میں ابھی تمہیں کچھ کھانے کو دیتا ہوں اگر وہ پگھل نہ گئے ہوں تو۔ یہاں اتنی گرمی ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ وہ پگھل ہی نہ گئے ہوں“ چاکلیٹ پگھلے تو نہیں تھے البتہ نرم ہو گئے تھے۔ بہت مزے کے چاکلیٹ تھے۔ تھوڑے سے کڑوے تھے لیکن بھوکے معاذ کے لئے وہ اس وقت بہت مزے کے تھے۔
وہ پھر اس گیلے سے راستے پر بڑھنے لگے۔ دیواروں میں تانبے کا رنگ جھلکنے لگا تھا۔ اچانک پرویز صاحب بولے“ کیا تم اتفاقاً نقشہ تو ساتھ نہیں لائے ہو ہمیں جلد ہی اس کی ضرورت پڑھنے والی ہے”معاذ نے کہا“ جی ہاں۔ نقشہ میری جیب میں ہے دیکھیں یہ راستہ یہاں سے کتنا وسیع ہو گیا “ واقعی یہ حقیقت تھی راستہ واقعی ختم ہو گیا تھا اور ایک کھلی جگہ میں تبدیل ہو گیا تھا معاذ نے سوچا یقیناً یہاں کانوں کا کام ختم ہو گیا ہے اور یہ وہ جگہ ہو گی جہاں تانبا نہیں ہو گا۔ یہ کتنی بڑی اور وسیع و عریض کا نیں تھیں اور ایک وقت ہو گا جب یہ تانبے سے بھری پڑی ہو ں گی۔ پرویز صاحب آہستگی سے بولے”آخر کار ہم پہنچ ہی گئے اور یاد رکھو، اب آگے بڑھتے ہوئے ہمیں اپنی آواز پر قابو رکھنا ہو گا ہمیں عنریق کو تلاش کرنا ہے لیکن اس بات سے بچنا بھی ہے کہ دوسروں کو ہماری موجودگی کا علم نہ ہو“ معاذ یہ سنکر حیران رہ گیا وہ بولا“۔
لیکن پرویز صاحب! آپ سیدھا اس کان میں کیوں نہیں جاتے جہاں اپ کے دوست کام کر رہے ہیں اور ان سے پوچھتے کہ عنریق کہاں ہے؟ یہ راز داری اور خاموشی کیسی؟ میں سمجھا نہیں“ پرویز صاحب کہنے لگے ”میری اپنی کچھ مجبوریاں ہیں لہذا مہربانی فرما کر انہیں ملحوظ خاطر رکھو۔ معاذ اگر تم نہیں بھی جانتے کہ وہ مجبوریاں کیا ہیں؟ اب مجھے بتاﺅ کہ وہ نقشہ کہاں ہے؟ معاذ نے جیب سے نکال کر انہیں دیا۔ انہوں نے ایک ہموار چٹان کی سطح پر وہ پھیلا دیا اور اس پر ٹارچ کی روشنی کی اور پھر اسے احتیاط سے پڑھنا شروع کیا آخر کار انہوں نے اپنی انگلی ایک مخصوص جگہ پر رکھی۔ وہ بولا”دیکھو یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم کھڑے ہیں۔ یہیں کانوں کا کام ختم ہوتا ہے میرا خیال ہے یہ جگہ وہ ہے جہاں سے سمندر کے نیچے راستہ شروع ہوتا ہے لیکن میں پورے یقین سے نہیں کہہ سکتا اب ان تمام راستوں میں سے تم مجھے بتاﺅ کہ آتے وقت تم نے کونسا اختیار کیا تھا؟”معاذ بولا“ یہاں یہی وہ راستہ ہے جس پر ہم چلتے رہے تھے یہ وہ چندھا دینے والی روشنی والی غار ہے اور غالباً یہ وہ جگہ ہے جہاں ٹکاٹک کی آوازیں آتی تھیں اور لوگ کام کر رہے تھے“پرویز صاحب خوش ہو کر بولے “شاباش! اب مجھے صحیح اندازہ ہو گیا ہے کہ ہمیں کہاں جانا ہے اب جلدی سے آﺅ چلیں۔
ہم مرکزی راستے کی طرف جا رہے ہیں وہاں ہم عنریق کو تلاش کریں گے کہ وہ کہاں ہے؟ یا اس کی کوئی آواز سننے کی کوشش کریں گے“ وہ بڑے محتاط طریقے سے چلتے ہوئے مرکزی راستے پر پہنچے جہاں سے بہت سی راہداریاں نکلتی تھیں پرویز صاحب ٹارچ کی روشنی کے آگے ہاتھ کر لیا تاکہ اس میں سے زیادہ روشنی خارج نہ ہو۔ ابھی وہ غار کے بہت نزدیک نہیں پہنچے تھے معاذ یہ بات جانتا تھا اچانک پرویز صاحب شش کی آواز نکال کر جلدی سے رک گئے معاذ ان سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ وہ بولے ”میں کوئی آواز سن رہا ہوں۔کسی کے قدموں کی آواز آ رہی ہے ”وہ کھڑے ہو کر غور سے سننے لگے اندھیرے میں یہ سب کچھ بہت ڈراﺅنا تھا اور اوپر ہمیشہ کی طرح بہتا سمندر اس ماحول کی وحشت کو بڑھا رہا تھا معاذ کو بھی ایسا لگا کہ وہ کوئی آواز سن سکتا ہے کوئی نرم پتھروں کو دوسری جانب سے ٹھوکریں ما رہا تھا پھر مکمل خاموشی چھا گئی لہذا وہ پھر آگے بڑھ گئے انہیں دوبارہ ایسا لگتا جیسے انہوں نے وہ آواز سنی ہے یہ آواز اس وقت بالکل نزدیک سے آئی تھی پرویز صاحب کو یقین تھا کہ وہ کسی انسان کی آواز نزدیک سے سن سکتے ہیں یہ بہت خوفناک تھا وہ بالکل خاموشی سے معاذ کے ساتھ آگے بڑھے۔ پھر وہ ایک موڑ پر پہنچے۔ پرویز صاحب نے موڑ مڑا۔ انہوں نے اور معاذ نے اپنی ٹارچیں بجھا دی تھیں۔ جیسے ہی ان کے کانوں میں آوازیں آئی تھیں پھر جیسے پرویز صاحب دیوار کے موڑ پر پہنچے وہاں کوئی اور بھی اس موڑ پر پہنچ چکا تھا اور پھر اس سے پہلے کہ معاذ سمجھ پائے کہ کیا ہو رہا ہے ایک اونچا نعرہ سا کسی کے منہ سے نکلا۔ معاذ کو لگا جیسے پرویز صاحب کسی کے ساتھ اس کے سامنے الجھ رہے ہیں۔ پتا نہیں کیا ہو رہا تھا؟
باب نمبر25…………حیرت انگیز دریافت
آئیے اب ہم چلتے ہیں عنریق اور کی کی کی طرف اور دیکھتے ہیں کہ ان پر کیا بیتی؟ ان کی آپ بیتی بھی حیران کر دینے والی تھی۔ عنریق کو معلوم نہیں تھا کہ اس کے باقی ساتھی فرار ہو چکے ہیں۔ اس بے چارے کو تو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ اس کے باقی ساتھیوں کو قید بھی رکھا گیا تھا۔ وہ تو توتے کو ڈھونڈتے ہوئے راستہ بھول گیا تھا کچھ گھنٹے پہلے ان لوگوں نے کی کی کے بولنے اور چیخنے کی آوازیں سنی تھیں۔ یہ وقت وہ تھا جب وہ آدمی معاذ اور لڑکیوں کا پیچھا کر رہے تھے لیکن غلط راستے میں چلے جانے کی وجہ سے انہیں ڈھونڈ نہیں سکے تھے۔ اب بے چارہ عنریق سخت ڈرا ہوا تھا اور ادھر ادھر بھٹک رہا تھا اور اس سے بھی زیادہ خوفزدہ ایک توتا اپنے پنجے اس کے کندھے پر گاڑھے بیٹھا تھا عنریق بھٹکنے کی وجہ سے ابھی تک کئی راہداریوں میں داخل ہو چکا تھا۔ اب اس کی ٹارچ بھی بجھ گئی تھی اسے یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں کوئی کمزور چھت اس کے سر پر نہ آن گرے۔
وہ کئی ان دیکھی چیزوں سے خوفزدہ تھا۔ اس نے سوچا”میں راستہ ضرور بھول گیا ہوں لیکن اس سے مجھے لگتا ہے کہ میں مرکزی راستے سے بھی میلوں پرے جا چکا ہوں“ اچانک اسے اپنے سر پر چھت میں ایک بہت بڑا سوراخ نظر آیا۔ اس نے سوچا کہ وہ ایک اور پلی والے سوراخ کے قریب آن پہنچا ہے۔ عنریق نے سوچا یہ پلی والے راستے یہاں کتنے ہی ہیں۔ شکر ہے میں اس پر چڑھ کر باہر جزیرے کی کھلی فضا میں جا سکتا ہوں لیکن عنریق کی مایوسی بڑھ گئی جب اس نے دیکھا کہ اوپر چڑھنے والی سیڑھی بوسیدہ ہو چکی تھی۔ اب اوپر چڑھنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس کے لئے بڑی سوہان روح بات تھی کہ آزادی کی کھلی فضا اس کے سر پر سوراخ کے ذریعے تھی جس تک پہنچنے کا اس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ عنریق کی آنکھوں میں بے بسی سے آنسو جھلک پڑے وہ زور سے بولا”اگر میں لڑکی ہوتا تو کھل کر رو تو لیتا“ لیکن پھر اس نے اپنی ہمت جتانے کے لئے کچھ الفاظ بڑ بڑائے۔ کی کی نے بڑے غور سے یہ الفاظ سنے پھر وہ عنریق کی ہمدردی میں بولا”کیتلی چولہے پر چڑھا دو“۔
ان الفاظ سے عنریق کے چہرے پر دوبارہ مسکراہٹ کھیلنے لگی۔ وہ پیار سے بولا”تم بڑے بے وقوف ہو“ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں آگے کس سمت میں جانا چاہئے۔ مجھے لگتا ہے میں بار بار ایک سی راہداریوں میں آ جا رہا ہوں لیکن ایک منٹ انتظار کرو۔ کیونکہ تمام پلیوں والے راستے جزیرے کے اوپر سے نیچے آتے ہیں میں ذرا یاد کر لوں کہ میں کدھر سے ایا ہوں۔ لیکن مجھے یاد رہے کہ ہم سبھی ایک وقت میں سمندر کے نیچے بھی تھے۔ یہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے کہ تمام پلیوں والے راستے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ایک سیدھی سرنگ میں کھلتے ہیں اب میں ادھر ہی جاتا ہوں، ہو سکتا ہے خوش قسمتی سے میں مرکزی راستے میں پہنچ جاﺅں۔ اگر میں وہاں تک پہنچ گیا تو اوپر بھی چلا جاﺅں گا“ پھر عنریق چلا تو ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جو بند تھی اور وہاں سے آگے جانا ناممکن تھا لہذا ایک دفعہ پھر اسے واپس جانا پڑا اور نئے سرے سے آغاز کرنا پڑا۔ لیکن ایک دفعہ پھر وہ ایسی ہی جگہ پر دوبارہ پہنچا جہاں کی چھت بھی گری ہوئی تھی۔ عنریق کا دل ٹوٹ گیا کی کی بھی ان اندھیرے راستوں کے سفر سے تنگ آ چکا تھا اس بار اس نے اصلی جمائی لی۔ وہ خود سے بولا”اپنے منہ کے آگے ہاتھ رکھو۔ میں نے تمہیں کتنی بار کہا ہے کہ دروازہ بند کر دو۔ خدا ہماری حفاظت کرے“۔
عنریق بیٹھ گیا اور کی کی سے کہنے لگا “تمہاری جمائی سے مجھے بھی جمائیاں آنے لگی ہیں۔ کچھ دیر آرام کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے کی کی۔ میں تو بہت تھک گیا ہوں“ وہ چٹان کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں پھر وہ غنودگی میں چلا گیا اور اسی حالت میں ایک دو گھنٹے گزر گئے۔ جب وہ جاگا تو بالکل بھول چکا تھا کہ وہ کس جگہ پر ہے۔ لیکن جب اسے یاد آیا تو خوف پھر اس کے اندر عود آیا۔ وہ کھڑا ہوا کی کی بدستور اس کے کندھے پر براجمان تھا وہ سختی سے اپنے آپ سے بولا“گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے صرف چلتے رہنا ہے۔ دیر بدیر میں کہیں نہ کہیں تو پہنچ ہی جاﺅں گا“ وہ ابھی انہی راہداریوں میں بھٹک ہی رہے تھے کہ کی کی نے ان آدمیوں کی آوازیں سنیں جو بچوں کا پیچھا کر رہے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ بھی زور سے چلایا لیکن عنریق کے کانوں نے کوئی آواز نہیں سنی اسی لئے وہ ایک اور راستے پر مڑ گیا اس سے پہلے کہ وہ آدمی اس تک پہنچ جاتے۔ اسے بالکل علم نہیں تھا کہ وہ مرکزی پلی کے سوراخ کے بالکل نزدیک تھا لیکن اب وہ مرکزی راستے میں مڑ گیا تھا اور وہاں وہ رک گیا اس نے سوچا ”کیا یہی وہ مرکزی راستہ ہے جو ہم نے نقشے میں دیکھا تھا یہ ہو سکتا ہے لیکن کاش ٹارچ کی روشنی میں میں اسے دیکھ سکتا”پھر وہ راستے میں آ گیا“ اس نے کچھ کھردری سے سیڑھیاں چٹان سے بنی ہوئی دیکھیں جو اوپر کی طرف جا رہی تھیں تجسس سے مجبور ہو کر عنریق اوپر چڑھا جہاں سے اس نے دیکھا کہ ایک اور راستہ نکل رہا ہے اسے معلوم تھا کہ یہ راستہ کسی اور کان میں جاتا ہو گا جہاں کبھی لوگ کام کرتے ہوں گے وہ دیوار سے ٹکرایا اور گر پڑا جس سے دیوار میں سے ایک پتھر علیحدہ ہو کر گرا۔
جس کے گرنے سے اچھی بھلی آواز آئی۔ عنریق ڈر گیا کہ شاید چھت اس کے سر پر گر رہی ہے کوشش کر کے اس نے ٹارچ دوبارہ جلائی تو اس کی بچی کھچی روشنی میں اس نے دیکھا تو وہ تانبے کا ایک سرخ پتھر تھا پھر اس کے ذہن میں ایک خیال کوندا کہ یہ پتھر نہیں بلکہ خالص تانبے کا ٹکڑا ہے وہ سوچ رہا تھا کہ کیا خوبصورت پتھر ہے کیا وہ آسانی سے اٹھا کر لے جا سکتا ہے؟ عنریق نے بہت احتیاط سے تانبے کا ٹکڑا اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیا۔ وہ ٹکڑا ایسا لگتا تھا جیسے کسی نے خود چٹان میں جگہ بنا کر چھپا کر رکھ دیا ہو۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کیا اس نے خود چھپایا تھا یا واقعی یہ قدرتی انداز میں زمین کی اتنی گہرائی میں لگا ہوا تھا عنریق کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی یہ بہت وزنی تھا لیکن عنریق اسے اٹھا کر لے جا سکتا تھا خالص تانبے کا ٹکڑا‘ عنریق خوشی سے بار بار یہ الفاظ دہرا رہا تھا اسے اس کے ملنے کی اتنی خوشی تھی جیسے اسے عظیم آک مل گیا ہو وہ سوچ رہا تھا کہ جب دوسرے ساتھی دیکھیں گے تو کتنے خوش ہونگے ۔
عنریق اب چاہتا تھا کہ وہ مرکزی راستے سے ہٹ کر ہی چلے تاکہ کانوں میں کام کرنے والے اسے دیکھ نہ لیں ہو سکتا ہے وہ اس سے یہ تانبا چھین لیں۔ ہو سکتا ہے قانونی طور پر وہ اس کے مالک ہوں لیکن اسے جو خوشی اسے اپنے دوستوں کو دکھا کر ہونے والی تھی وہ اس سے محروم ہونا نہیں چاہتا تھا۔ عنریق واپس مرکزی راستے پر لوٹا تو تانبے کا یہ ٹکڑا اس کے ہاتھوں میں تھا اب اسے اپنی ٹارچ بھی اپنی پتلون کی جیب میں رکھنی پڑی۔ کیونکہ وہ اس کی موجودگی میں ٹکڑا نہیں اٹھا سکتا تھا لیکن ٹارچ کی روشنی کے بغیر وہ راستہ بھی تلاش نہیں کر سکتا تھا۔ عنریق نے اچانک دور سے ایک آواز سنی تو وہ وہیں کھڑا ہو گیا اس نے سوچا کہ ہو نہ ہو یہ وہی ٹکاٹک والی آواز ہے جسے وہ پہلے بھی سن چکے ہیں اور جہاں لوگ کام کرتے ہیں میرا خیال ہے کہ اب اپنے ساتھیوں کے بھی نزدیک پہنچ گیا ہوں عنریق آہستہ آہستہ آگے بڑھا وہ ایک ایسے راستے پر چل رہا تھا جو اچانک آگے سے مڑ گیا تھا اور اب اس کے سامنے پھر چندھیا دینے والی روشنی والی غار تھی جب وہ پہلے ادھر آیا تھا تو وہ خالی تھی لیکن اس دفعہ اس میں لوگ کام کر رہے تھے وہ لکڑی کی پیٹیاں اور گتے کے ڈبے خالی کر رہے تھے ۔
عنریق حیرانی سے دیکھنے لگا کہ ان ڈبوں میں آخر کیا ہے وہ سوچ رہا تھا کہ یہی وہ راستہ ہے جہاں کی کی اڑ گیا تھا اور مجھے اس کے پیچھے اسے ڈھونڈنے جانا پڑا تھا پتا نہیں باقی بچوں کا کیا بنا ہے لیکن شکر ہے میں اندھیرے میں رہ کر دوبارہ اتنی تیز روشنی دیکھ رہا ہوں۔ اگر میں اس امڈی ہوئی چٹان کے پیچھے چھپ جاﺅں تو شاید مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا کی کی بالکل خاموش بیٹھا تھا وہ چندھیائی ہوئی روشنی سے ڈرا ہوا تھا کیونکہ اتنا عرصہ وہ مکمل اندھیرے میں رہا تھا وہ عنریق کے کندھے پر اپنے پنجے جمائے سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ ان ڈبوں اور پیٹیوں میں دھات کے چھوٹے ڈبے تھے جن میں گوشت اور پھل محفوظ کئے گئے تھے۔ عنریق کو یہ کھانے کے ڈبے دیکھ کر شدید بھوک کا احساس ہونے لگا تھا کیونکہ خاصی دیر سے اس نے کچھ نہیں کھایا تھا۔ آدمیوں نے کچھ ڈبے کھولے ان میں سے کھانا پلیٹوں میں ڈالا اور کھانا کھانے لگے وہ ایک دوسرے سے باتیں بھی کر رہے تھے عنریق ان کی گفتگو نہیں سن سکا۔ لیکن وہ اچھے لوگ نہیں لگ رہے تھے۔
اُس نے سوچا کہ سامنے جا کر درخواست کرے کہ اسے بھی کچھ کھانے کو دے دیں لیکن وہ اچھے لوگ نہیں لگ رہے تھے انہوں نے صرف پتلونیں پہن رکھی تھیں اور وہ قمیض اتارے ہوئے تھے کانوں میں اتنی گرمی تھی کہ پورے کپڑے پہننا انسان کے بس کی بات نہیں تھی عنریق کا دل کر رہا تھا کہ کاش و بھی صرف نیکر پہنے ہوتا۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ ننگے کندھے پر کی کی کے پنجے اسے کیسے محسوس ہوتے۔ ان لوگوں نے کھانا کھا لیا تو پھر اس غار کے آخری کونے میں بنی ایک اور غار میں چلے گئے اب وہاں کوئی نہیں تھا ٹکاٹک والی آواز دوبارہ آنا شروع ہو گئی جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ لوگ دوبارہ کام میں جت گئے ہیں۔ وہ رینگتا ہوا گیا اور اس غار میں جھانکنے لگا وہ حیران ہو گیا جب اس نے غار میں جھانکا وہاں کوئی درجن بھر آدمی ہوں گے جو مختلف مشینوں پر کام کر رہے تھے آوازوں کی ٹکا ٹک سے جو گونج پیدا ہو رہی تھی وہ انسان کو بہرا کرنے کے لئے کافی تھی ہاں ایک انجن بھی تھا جس سے شور میں اضافہ ہو رہا تھا عنریق گھورتے ہوئے سوچ رہا تھا“ کیا عجیب مشینیں ہیں یہ اتنی مشینیں آخر اتنی گہرائی تک نیچے کیسے لائے ہوں گے لازمی بات ہے وہ ان مشینوں کو حصوں اور ٹکڑوں میں لائے ہوں گے اور پھر نیچے لا کر انہیں جوڑا ہو گا یا خدا یہ کتنے مصروف ہیں اور کتنی زیادہ آواز ہے۔
”عنریق حیرت سے انہیں دیکھتا رہا۔ کیا یہ لوگ مشینوں سے تانبا اکٹھا کر رہے ہیں وہ پڑھ چکا تھا کہ کئی دھاتوں کو پگھلانا پڑتا ہے یا ان پر کیمیائی طور پر کام کر کے انہیں حاصل کیا جاتا ہے اسے لگا وہ لوگ اسی طرح کا کوئی کام کر رہے ہیں یہ تو وہ جانتا تھا کہ تانبا ان کانوں میں اس طرح ٹکڑوں میں نہیں ملتا تھا۔ عنریق رینگ کر ایک اور تنگ کونے میں سرک گیا تاکہ وہ شخص گزر جائے واپسی پر وہ شخص پانی کا جگ بھر کر لایا۔ عنریق نے وہیں چھپ کر کچھ سیکنڈز گزارے اسی چھپنے والی چیز کے پیچھے جسے وہ کسی چٹان کا حصہ سمجھ رہا تھا لیکن اچانک وہ چٹان کا حصہ نما چیز سرک گئی اور عنریق پیچھے کی طرف پھسل گیا تب اس نے ٹارچ کی بچھی کھچی روشنی سے دیکھا وہ چٹان نہیں تھی بلکہ ایک مضبوط لکڑی کا دروازہ تھا جو ایک قید خانے جیسے کمرے کا تھا۔
ویسا ہی کمرہ جس میں معاذ اور دوسرے بچے قید رہے تھے پھر قدموں کی آہٹ سنکر وہ جلدی سے کمرے میں چلا گیا اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ قدموں کی چاپ آگے گزر گئی عنریق نے ٹارچ دوبارہ جلائی تاکہ دیکھے کہ غار میں کیا ہے وہ غار کاغذوں کی کراری گڈیوں جو ایک دوسرے کے اوپر پڑی تھیں سے بھرا پڑا تھا وہ کاغذ ایک ہی سائز کے تھے اور ایک ہی رنگ کے۔ اور ایک دوسرے سے مضبوطی سے اور ترتیب سے جڑے ہوئے تھے عنریق نے انہیں بغور دیکھا اور پھر بار بار دیکھا اور ہر بار اسے اپنی سانس بند ہوتے ہوئے محسوس ہوئی۔
اس کمرے میں ملکی کرنسی کے بڑے نوٹوں کی گڈیوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے وہاں سو روپے کے نوٹوں کی گڈیاں تھیں پانچ سو روپے ہزار روپے اور حتی کہ پانچ ہزار روپے کے نوٹوں کی گڈیوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ وہ اِسی طرح ترتیب سے رکھے ہوئے تھے۔ جیسے ابھی اسٹیٹ بینک سے نئے نکلوا کر لائے گئے ہوں اور اتنے تھے کہ کی بھی شخص کو راتوں رات ارب پتی بنا سکتے تھے عنریق اپنی آنکھیں ملتے ہوئے کہنے لگا” اب میں ضرور خواب دیکھ رہا ہوں اس میں کوئی شبہ نہیں میں ایک غیر معمولی خواب دیکھ رہا ہوں میں تھوڑی دیر میں جاگوں گا تو خود پر ہنسوں گا۔ لوگوں کو کبھی اس طرح کے تجربے نہیں ہوتے ایک اندھیری غار میں خزانہ ملنے جیسے !!شاید میں پریوں کی کسی جادوئی کہانی کا حصہ ہوں۔ یہ ناممکن ہے بہتر ہے میں جلدی سے جاگ جاﺅں۔
باب نمبر26…………….حیرت انگیز ملاقات
لیکن کوشش کے باوجود عنریق جاگ نہیں سکا۔ اس کے نہ جاگنے کی سب سے بڑی یہ تھی کہ وہ سویا ہی نہیں تھا وہ بالکل جاگ رہا تھا اور کھلی آنکھوں سے نوٹوں کے اس انبار کو دیکھ رہا تھا نوٹوں کو اکٹھا کرنے کی یہاں کوئی وجہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اتنی زیادہ رقم کو زیر زمین اس غار میں جمع کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ رقم کس کی ملکیت ہے؟ اور کیا یہ رقم یہاں رکھنے کی بجائے عمومی طریقے سے کسی بنک میں رکھی نہیں جا سکتی تھی؟ عنریق نے سوچا کہ ہو سکتا ہے یہاں کام کرنے والے یہاں سے ڈھیروں تانبا نکال رہے ہوں اور پھر خفیہ طور پر اسے بازار میں بیچ رہے ہوں۔ تبھی تو یہ نوٹوں کا انبار انہوں نے ادھر لگا رکھا ہے وہ حیرانی کے سمندر میں غوطے کھا رہا تھا وہاں دولت اس طرح بکھری پڑی تھی اور غار میں کوئی موجود نہیں تھا لیکن پھر اس نے کسی کے قدموں کی چاپ غار کے دروازے کی طرف آتے سنی جس غار میں عنریق چھپا ہوا تھا وہ آدمی جس نے غار کا دروازہ کھولا اور عنریق کو غار میں دیکھا وہ عنریق سے بھی زیادہ حیران ہو گیا وہ عنریق کو کھڑے کھڑے گھورنے لگا۔ اس کا منہ اور آنکھیں حیرت سے کھلے ہوئے تھے پھر اس نے بڑی سختی سے لڑکے کو غار سے باہر گھسیٹ لیا اور کھینچتا ہوا اس کمرے میں لے گیا جہاں مشینیں کام کر رہی تھیں آدمی وہاں جا کر چلاتے ہوئے بولا۔
”ذرا اسے دیکھو میں نے اسے اسٹور سے پکڑا ہے“ فوراً مشینیں بند کر دی گئیں آدمی عنریق کے گرد اکٹھے ہو گئے ان میں سے ایک آدمی آگے بڑھا وہ ثناءاللہ تھا وہ بہت ہی ڈراﺅنا لگ رہا تھا اور اس کی آنکھ کے نیچے زخم کا نشان اسے مزید خوفناک بنا رہا تھا اس نے عنریق کو بری طرح جھنجوڑا کہ عنریق کا سانس بند ہونے لگا وہ بے حال ہو کر زمین پر گر گیا تو ثناءاللہ نے اس کا بازو چھوڑ دیا۔ ثناءاللہ نے پوچھا”باقی بچے کدھر ہیں؟مجھے فوراً بتاﺅ اور تمہیں کون ادھر لے کر آیا ہے ؟ تم سارے ان کانوں میں کیا کر رہے ہوِ ؟ اور تم کیا کیا جانتے ہو؟”عنریق نے اپنا تانبے کا ٹکڑا اٹھایا اور دیکھا کہ کی کی کدھر ہے جو خوفزدہ ہو کر غار کی چھت کے ساتھ ساتھ اڑ رہا تھا اور کیا بولے یہ بھی سوچ رہا تھا۔ آدمیوں نے تانبے کے ٹکڑے کی طرف ذرا بھی دھیان نہیں دیا جس نے عنریق کو بہت حیرانی ہوئی وہ تو بہت ہی ڈر رہا تھا کہ وہ کہیں اس سے یہ چھین نہ لیں آخر وہ بولا مجھے معلوم نہیں کہ باقی کدھر ہیں ہم سب مل کر جزیرے پر آئے تھے۔
ہم دو بہنیں اور دو بھائی ہیں اور میں ان سے بچھڑ گیا ہوں”ثناءاللہ نے پھر اسے پوچھا“ مجھے بتاﺅ تمہارے ساتھ کون ہے؟ تم صرف بچے تنہا اس جزیرے پر نہیں آ سکتے“ عنریق نے دوبارہ اسے بتایا ”ہم اکیلے ہی آئے تھے لیکن غار میں جو اتنی رقم پڑی ہے وہ کس کی ہے؟ سننے والے شخص نے آہستہ آواز میں دھمکیاں اور گالیاں بکنی شروع کر دیں عنریق نے بے تابی سے ادھر ادھر دیکھا۔ ثناءاللہ کا رنگ اور بھی تاریک ہو گیا تھا اس نے قریب کھڑے دوسرے ساتھیوں کی طرف دیکھا اور کہنے لگا ”کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے“ مجھے لگتا ہے کہ یہ لڑکا کچھ ضرورت سے زیادہ ہی جانتا ہے ہاں بھئی اب سارا کچھ بتا دو جو تم جانتے ہو ورنہ آئندہ تم سورج کی روشنی نہیں دیکھ سکو گے کیا تم نے میری بات غور سے سنی ہے؟ عنریق نے واقعی بڑے غور سے اس کی بات سن لی تھی عنریق خوف سے کانپنے لگا کی کی نے یہ باتیں سن کر اتنے زور سے چیخ ماری کہ سبھی لوگ حیرت سے اچھل پڑے عنریق بے چارے نے انہیں صدق دل سے بتایا مجھے نہیں معلوم آپ کیا باتیں کر رہے ہوں ۔
ہم سب کو صرف اتنا پتا تھا کہ کوئی تانبے کی کانوں میں کام کر رہا ہے اور پرویز صاحب ان کے لئے کھانا وغیرہ فراہم کرتے ہیں میں ایمانداری سے بتا رہا ہوں کہ مجھے صرف اتنا ہی پتا ہے“ثناءاللہ نے نام دھرایا “پرویز صاحب! یہی نام دوسرے بچوں نے بھی بتایا تھا لیکن آخر یہ پرویز صاحب کون ہیں؟ عنریق نے بوکھلا کر پوچھا تو کیا یہ ان کا اصل نام نہیں ہے؟”اچانک ثناءاللہ نے پوچھا یہ کیا تم نے اصلی اور نقلی ناموں کی رٹ لگائی ہوئی ہے“ اس کے لہجے میں اس دفعہ اتنی سفاکی تھی کہ عنریق کے ہاتھ سے قیمتی دھات کا ٹکڑا زمین پر گر پڑا اسے یہ گمان ہوا تھا کہ شاید یہ ظالم اسے مارنے لگا ہے وہ ٹکڑا ثناءاللہ کے پیروں کے نزدیک گرا تھا اس نے ٹکڑا زمین سے اٹھا لیا اور اسے دیکھنے لگا اس نے بڑے اشتیاق سے پوچھا یہ تم پتھر کیوں اٹھا کر پھر رہے ہوں کیا تم سارے شیطان پاگل ہو گئے ہو۔ کوئی توتا لئے پھر رہا ہے اور کوئی اتنا بھاری پتھر۔ پھر یہ پرویز صاحب اور تانبے کی کانیں۔ واقعی تم لوگ پاگل ہو“ عباس ثناءاللہ کے ساتھ آ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا میرا خیال ہے ثناءاللہ یہ لڑکا جو بتا رہا ہے یہ اس سے زیادہ ہی جانتا ہے کیا خیال ایک آدھ دن اسے بھوکا قید میں رکھا جائے اس سے یہ اپنے توتے کی طرح بولنا شروع ہو جائے گا یہ کیا خیال ہے اس کی تھوڑی سی دھنائی کر دی جائے“عنریق کا رنگ زرد ہو گیا لیکن اس نے چہرے کے تاثرات سے ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ خوفزدہ ہو گیا ہے اس نے کہا ”میں نے آپ کو پہلے ہی جو بتا دیا ہے اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتا اور آپ کیا جاننا چاہتے ہیں؟ آحر کون سا راز ہے جس کے متعلق آپ جاننا چاہتے ہیں؟
ثناءاللہ نے درشتگی سے پوچھا“اسے لے جاﺅ اور بھوکا رکھو یہ خود ہی بولنے لگے گا“ عباس نے لڑکے کو کندھے سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا غار میں لے گیا اس کا رویہ عنریق سے بہت غیر انسانی نیچے آیا اور عباس کے منہ پر دونوں پنجوں سے جھپٹا مارا اور اپنی چونچ کا بھی بڑی بیدردی سے استعمال کیا۔ عباس نے چہرہ بچانے کے لئے دونوں ہاتھ آگے کر لئے۔ اس کی ٹارچ ہاتھوں سے زمین پر گر پڑی اور فوراً بجھ گئی عنریق جلدی سے ایک طرف ہو گیا اور چپکے سے اس غار سے باہر نکل گیا کی کی کو اب اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کہاں ہے وہ اندھیرے میں اڑتا ہوا ایک میز سے ٹکرایا۔ وہ چیختے ہوئے بولابہت افسوس ہے اب یہ کیا مصیبت ہے؟”پھر غار کا دروازہ زور سے بند ہو گیا عباس نے یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ باتیں توتا نہیں عنریق کر رہا ہے غار کا دروازہ بند کر دیا تھا اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک توتا اس طرح گفتگو بھی کر سکتا ہے اس نے چابی تالے میں گھمائی۔ کی کی ابھی بھی دھیمے لہجے میں باتیں کر رہا تھا حالانکہ نہ عنریق اور نہ ہی عباس اس کی باتیں سن سکتا تھا جیسے ہی عباس مڑا۔ ثناءاللہ نے پوچھا کیا تم نے اسے بند کر دیا ہے؟ اور پھر ٹارچ جلا کر بند غار کو دیکھا۔ عباس نے کہا ”ہاں کر دیا ہے۔
وہ اپنے آپ کو بیٹھا اندر کوس رہا ہے تم اس کی آواز سن سکتے ہو مجھے لگتا ہے کہ وہ پاگل ہو گیا ہے”ثناءاللہ نے کہا میرا خیال ہے وہ پچھتا رہا ہے یہ کہہ کر اس نے بہت بھیانک قہقہہ لگایا جس سے اندھیرے میں چھپے عنریق کی روح ہوا ہو گئی۔ وہ کہہ رہا تھا ابھی یہ اور بھی پچھتائے گا ” پھر دونوں آدمی مشینوں والی غار میں چلے گئے اور وہاں سے دوبارہ ٹکا ٹک۔ ٹکاٹک پورے زور و شور سے شروع ہو گئی عنریق وہیں کھڑا تھا کی کی نے اسے بہت بڑی مصیبت سے بچا لیا تھا۔ بے چارہ کی کی۔ اسے معلوم بھی نہیں تھا کہ اس نے عنریق کو کتنی بڑی مصیبت سے بچایا ہے عنریق دروازے کے قریب پہنچا تاکہ اس میں لگا ہوا تالہ کھولے اور توتے کو باہر نکالے لیکن تالے میں چابی نہیں تھی وہ اسے ساتھ ہی لے گئے تھے اب کی کی قیدی تھا اور اتنی دیر تک اس نے قیدی ہی رہنا تھا جب تک کوئی اسے باہر سے تالا کھول کر نہ نکالے لیکن پھر بھی عنریق اب آزاد تھا وہ سوچ رہا تھا ضرور اس کاروبار میں کچھ نہ کچھ غلط ہے اتنی بڑی رقم کا یہاں ہونا غلط ہے اور پھر یہ عجیب و غریب مشینیں۔ لوگ جو ان کو چلا رہے ہیں۔
شریف آدمی نہیں لگتے اور کسی صورت میں پرویز صاحب کے دوست نہیں لگتے ہمیں ہی غلطی لگ رہی تھی۔ وہ احتیاط سے راستے میں گیا لیکن اس نے ٹارچ کو نہیں جلایا اب وہ صرف یہ سوچ رہا تھا کہ اسے پلی والا راستہ مل جائے اور وہ اوپر جزیرے پر چلا جائے ہو سکتا ہے اس کے ساتھی اسے اوپر مل جائیں وہ اس کا انتظار کر رہے ہونگے؟“عنریق راستوں کی خاک چھانتا رہا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کاش کی کی اس کے ساتھ ہوتا اب وہ اکیلا تھا اور ڈر رہا تھا وہ کسی سے بات کرنا چاہتا تھا وہ دوسروں کو دیکھنا چاہتا تھا آخر وہ چلتا ہوا اتنا تھک گیا کہ اب وہ مزید نہیں چل سکتا تھا۔ وہ ایک چھوٹی سی غار کے کونے میں اکٹھا ہو کر بیٹھ گیا اپنی آنکھیں بند کر لیں اور ایک تھکے ماندے لڑکے کی نیند سو گیا۔ کئی گھنٹے تک وہ سوتا رہا اس کے جسم کا ہر حصہ تھکن سے چور ہو رہا تھا کہ کی کی بھی غار میں سویا ہوا تھا وہ حیران بھی تھا اور ناراض بھی۔ وہ عنریق کو اسی طرح یاد کر رہا تھا جسے عنریق اسے۔ جب عنریق نیند سے بیدار ہوا تو اس نے اپنے کندھے پر ہاتھ مار کر کی کی کو ڈھونڈا۔
لیکن کی کی اس کے کندھے پر نہیں تھا پھر اسے یاد آیا کہ کی کی تو قیدی ہے اور اس کی محنت اور بولنے کی صلاحیت کی وجہ سے ہی عنریق اب آزاد تھا اے اب بہت کچھ معلوم تھا اسے چھپائے ہوئے خزانے کا پتا تھا اسے عجیب و غریب مشینوں کا پتا تھا جنہیں زیر زمین کسی خاص مقصد کے لئے لے جا کر نصب کیا گیا تھا اسے معلوم تھا کہ مشینوں کو چلانے والے شریف آدمی نہیں تھے، جنہیں اگر معلوم ہو جاتا کہ وہ ان کا ان جانا راز جو کچھ بھی تھا جانتا ہے تو وہ کوئی بھی انتہائی قدم اٹھا سکتے تھے عنریق نے سوچا“ اسے جو کام فوراً کرنا چاہئے وہ فرار ہو کر دوسروں کوسب کچھ بتانا چاہئے میرا خیال ہے ہمیں پولیس کے پاس جانا چاہئے یا مجھے جا کر پرویز صاحب کو بتانا چاہئے کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ پرویز صاحب ان لوگوں کے ساتھی نہیں ہو سکتے۔ لیکن یہ میرا اندازہ ہے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ پھر بھی اب مجھے ہر بات سب کو بتا دینا چاہئے“ یہ سوچ کر تھکا ماندہ عنریق دوبارہ کانوں میں چل کر راستہ تلاش کرنے لگا وہ سیلن سے بھرے ہوئے اوپر نیچے راستوں میں گیا اب اس کی ٹارچ بہت معمولی سی روشنی دے رہی تھی آخر پھر وہ بجھ گئی عنریق نے بہتیرا اسے تھپکیاں دیں اس نے اس کے تلے کو دو تین دفعہ کھولا اور بند کیا لیکن اس کی کی بیٹری ختم ہو چکی تھی اب اس ٹارچ میں روشنی تبھی ہو سکتی تھی جب اس میں نئی بیٹری ڈالی جاتی اور یہ اس لمحے ممکن نہیں تھا۔
عنریق اب بہت خوفزدہ تھا اب فرار کی صرف ایک ہی صورت تھی کہ خوش قسمتی سے اسے وہ راستہ مل جاتا۔ وہی پلی والا راستہ جو اسے جزیرے پر لے جاتا لیکن اس کا امکان بہت ہی کم تھا اب وہ ہاتھوں میں تانبے کا ٹکڑا بہت مشکل سے تھامے ہوئے تھا اور وہ راستہ ڈھونڈنے کے لئے اِدھراُدھر پھر رہا تھا۔ پھر اسے لگا۔جیسے اس کے کانوں میں کوئی آواز پڑی ہو۔ وہ رک کر اسے سننے لگا لیکن اُسے کچھ سنائی نہیں دیا۔ وہ پھر چلا لیکن پھر اس کے قدم رک گئے اسے لگ رہا تھا جیسے کئی لوگ اس کے نزدیک ہیں۔ اسے لگتا تھا جیسے وہ ان کی سانسیں سن رہا ہے وہ اندھیرے میں اپنی سانسیس روکے کھڑا رہا اور سننے کی کوشش کرنے لگا لیکن پھر بھی وہ کچھ نہیں سن سکا اس نے سوچا ہو سکتا ہے کہ اس کی طرح کسی اور آدمی نے بھی سانسیں روک رکھی ہوں اور سننے کی کوشش کر رہا ہو۔ وہ چلنے لگا اور اچانک کسی چیز سے ٹکرایا کیا ثناءاللہ اور عباس میں سے کوئی تھا؟ وہ خود کو چھڑانے کی بھرپور کوشش کرنے لگا لیکن اسے کسی نے بازو سے سختی سے پکڑا ہوا تھا اس کے بازو میں درد ہونے لگا تانبے کا ٹکڑا زمین پر گر گیا اور عنریق کے پاﺅں سے ٹکرایا تو اس کی چیخیں نکل گئیں وہ ایک دم شور مچانے لگا۔ اوہ میرا پیر۔اوہ میرا پیر“پھر اچانک ایک حیران کن خاموشی چھا گئی پھر جس نے اسے پکڑا تھا اس نے ٹارچ کی تیز روشنی اس کے چہرے پر ماری اور ایک حیرت سے ڈوبی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ۔
”ارے یہ تو عنریق ہے“ اسے معاذ کی آواز آئی ”ارے عنریق تم ہو“پھر وہ دوڑ کر اس کے پاس پہنچا اور اسے گلے سے لگا لیا”عنریق شکر ہے خدا کا تم بحفاظت مل گئے ہو“ عنریق نے کہا کہ بودی والے لڑکے تم اور پرویز صاحب آپ! اس کی آواز میں عجیب سی طمانیت تھی۔ اس نے بڑے عرصے کے بعد کوئی شناسا آواز سنی تھی۔ ورنہ اندھیرے میں نہ وہ دیکھ سکتا تھا اور نہ کسی سے بات کر سکتا تھا معاذ کو دیکھنے کی خوشی جس کے ماتھے پر اس کی ہمیشہ کھڑی رہنے والی بالوں کی بودی اب بھی کھڑی تھی اور پرویز صاحب کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح مسکراہٹ تھی اور چمکتی آنکھیں تھیں اور بڑے ہونے کی وجہ سے ان کی ذات کی خود اعتمادی‘ ہر چیز وہی تھی بچے بہت سے اچھے کام خود کر سکتے ہیں لیکن ایک وقت آتا ہے جب انہیں بڑوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس نے پرویز صاحب کو بھی جپھی ڈالی اور جواب میں انہوں نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی”تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوئی عنریق‘ مجھے علم ہے کہ تمہارے پاس ہمیں بتانے کو بہت کچھ ہے ”عنریق بولا“ واقعی میرے پاس بتانے کو بہت کچھ ہے اس نے جیب سے رومال نکالا اور زور سے اپنا ناک صاف کیا۔ اس کو اب کچھ اطمینان ہو گیا تھا وہ بولا ”لڑکیاں کدھر ہیں؟“
معاذ نے کہا وہ گھر محفوظ ہیں ہم نے کل کانوں میں تمہیں بہت یاد کیا۔ عنریق ہمیں انہوں نے قیدی بنا لیا تھا لیکن ہم فرار ہو گئے پھر پلی والے راستے پر پہنچ کر جزیرے پر پہنچے۔ وہاں سے کشتی لی اور اندھیرے میں گھر واپس پہنچے پھر میں نے پرویز صاحب کو تلاش کیا اور اب وہ میرے ساتھ ہیں ہم پرویز صاحب کی کشتی پر نہیں آ سکے کیونکہ ان کی کشتی میں کسی نے بڑے بڑے شگاف کر دیئے تھے اور صغیر کی کشتی بھی وہاں موجود نہیں تھی۔ تو عنریق حیرانی سے پوچھنے لگا تو پھر آخر تم یہاں تک کیسے پہنچے؟ معاذ بولا”ہمارے گھر والے ساحل اور جزیرے تک سمندر کے نیچے نیچے بھی ایک خفیہ راستہ ہے تمہیں سن کر حیرانی تو ہوئی ہو گی ہمیں یہاں آنے کے لئے بہت وقت اور بہت محنت کی ضرورت پڑی ہے بہت ہی خوفناک راستہ ہے مجھے بالکل پسند نہیں آیا لیکن پھر بھی ہم پہنچ ہی گئے ہیں“ عنریق سنکر حیران رہ گیا کہ وہ کیسے یہاں پہنچے ہیں وہ ان سے سوال پر سوال کرتا رہا لیکن پرویز صاحب بھی کئی سوال عنریق سے بھی کرنا چاہتے تھے۔ وہ بولے”عنریق میرے سوالوں کے جوابات دینا تمہاری سوچ سے بھی ضروری ہیں“ آﺅ اب بیٹھیں۔ میرے پاس ایک ترکیب ہے تم ایک بہت بڑا معمہ میرے لئے حل کر سکتے ہو؟
باب نمبر 27……..انکشافات
عنریق بڑی بے تابی سے بولا”میرے پاس آپ کو بتانے کے لئے انتہائی حیرت انگیز معلومات ہیں۔ پہلے یہ بوجھیں کہ میں نے وہاں کیا ڈھونڈا؟ ایک غار جو نوٹوں کی گڈیوں سے بھری ہوئی تھی میرا خیال ہے میں نے وہاں کروڑوں کے نوٹ دیکھے ہوں گے میں نے اتنے روپے دیکھے ہیں کہ میں ان کی مالیت کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ پرویز صاحب نے نوٹوں کی خبر سنکر جیسے اطمینان کاسانس لیا اور وہ کہنے لگے ”عنریق یہ واقعی بہت بڑی خبر ہے“ عنریق نے جب یہ دیکھا کہ اس کی دی ہوئی خبر پرویز صاحب کے لئے اہمیت کی حامل ہے تو اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا”پھر میں نے وہاں بہت سی مشینیں بھی دیکھی ہیں اور ایک انجن بھی جس کے بارے میں میرا خیال تھا کہ شاید یہ تانبے کو گرم کرنے یا پگھلانے کے کام آتا ہو گا۔ لیکن پھر مجھے ایک مشین دکھائی دی جو اخبار چھاپنے والی مشین کی طرح تھی پرویز صاحب نے یہ سنا تو بے اختیار ان کے منہ سے نکالا “واہ یہ تو بڑی زبردست خبر ہے عنریق تم نے ایک پانچ سال پرانا معمہ میرے لئے حل کر دیا ہے ایک ایسا معمہ جس نے حکومت کو پاگل کر رکھا تھا اور پوری پولیس اس کے پیچھے تھے”عنریق بولا “کیسا معمہ؟ تو معاذ جوش سے بولا ”میں سمجھ گیا ہوں۔
پرویز صاحب میرا خیال ہے کہ وہ ان مشینوں سے جعلی نوٹ چھاپ رہے ہیں اور ان جعلی نوٹوں کے ڈھیر عنریق نے اس غار میں لگے ہوئے دیکھے ہیں۔ یہ نوٹ جزیرے سے لائے جاتے ہوں گے اور یہ چور یا ان کا سرغنہ انہیں چلاتا ہو گا”پرویز صاحب بولے “معاذ تم نے قریب قریب صحیح اندازہ لگا لیا ہے ہم چوروں کے اس گروہ کے پیچھے سالوں سے تھے لیکن ہم اس جگہ کو ڈھونڈنے میں ناکام رہے جہاں یہ لوگ نوٹ چھاپتے تھے اور ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی کہ بازاروں میں یہ نقلی نوٹ کہاں سے آ رہے ہیں۔ بیٹا تم نے بڑا زبردست کارنامہ سرانجام دیا ہے کیونکہ صرف بنک میں کام کرنے والے ماہرین ہی ان نوٹوں کا جائزہ لیکر بتا سکتے ہیں کہ اصلی نوٹ کونسے ہیں اور جعلی کونسے؟”عنریق حیرانی سے چلا کر بولا“تو یہ لوگ تانبے کی کانوں میں کام نہیں کرتے ہم سب اس بارے میں غلط اندازہ لگا رہے تھے انہوں نے جان بوجھ کر یہ کانیںچنیں ہیں لیکن تانبا نکالنے کے لئے نہیں بلکہ چھپائی کی مشینیں چھپانے کے لئے۔ اور یہ سارا غیر قانونی کام چھپانے کے لئے۔ یہ لوگ کتنے چالاک ہیں“ پرویز صاحب نفرت سے کہنے لگے“ بہت ہی چالاک۔ اور انہیں ایک درمیان والا آدمی بھی چاہئے تھا جو کشتی سے جزیرے تک آ جا سکے۔
ان کے لئے خوراک جزیرے پر پہنچائے اور دوسری ضروریات زندگی بھی۔ اور پھر ان بدمعاشوں کے سرغنہ کو واپسی پر جعلی نوٹ پہنچا سکے۔ اصل تو یہ درمیان والا آدمی ہی ہے جو سارا تماشہ چلا رہا ہے”عنریق نے گہری دلچسپی سے پوچھا“ اور یہ درمیان والا آدمی کون ہے؟کیا ہم میں سے کوئی اسے جانتا ہے؟”پرویز صاحب بولے“ کیوں نہیں؟ میرا تو خیال تھا کہ تم فوراًاس تک پہنچ جاﺅ گے اس کا نام ہے صغیر“دونوں بچے چلائے”صغیر“ لیکن پھر چشم زون میں پوری کہانی ان کے لاشعور سے فلم کی مانند گذری اور صغیر انگوٹھی میں نگینے کی طرح اس میں فٹ ہو گیا معاذ بولا”بالکل ٹھیک ہے۔ اس کے پاس کشتی ہے اور جب بھی وہ جزیرے پر جانا چاہئے اسے گھر میں صرف یہی بہانہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ مچھلیاں پکڑنے جا رہا ہے وہ رات کو بھی جا سکتا ہے اگر اس کی خواہش ہو تو ۔ وہ روشنی کے اشارے جو صغیر نے دیکھے تھے وہ اس کے آدمی اسے جزیرے سے کر رہے تھے اور وہ صغیر ہی تھا جو چٹان سے انہیں جوابی اشارے کر رہا تھا کہ اچانک اسے عنریق وہاں مل گیا “عنریق نے یاد کرتے ہوئے کہا ہاں۔
یہی ہوا تھا اور جب وہ کار پر خرید وفروخت کے لئے گیا تھا وہ اپنے ساتھ یہ جعلی کرنسی بھی لے کر گیا ہو گا۔ اپنے سرغنہ اور دوسرے ساتھیوں کے حوالے کرنے کے لئے یہی وہ وجہ تھی جو وہ ہمیں کبھی اپنی کار یا کشتی پر اپنے ساتھ لیکر نہیں گیا اسے ڈر تھا کہ کہیں ہمیں کسی بات پر شک نہ گزرے معاذ کہنے لگا“ تمہیں یاد ہے باورچی خانے کے ساتھ بنے دوسرے تہہ خانے کے دروازے کو کس طرح اس نے لکڑی کی پیٹیوں اور گنے کے ڈبوں سے چھپایا ہوتا تھا مجھے اب پورا یقین ہے کہ وہ ڈبے چچی کے نہیں ہوتے تھے۔ وہ اس کی کم بخت صغیر کے ہی ہوتے تھے وہ انہیں کشتی میں لاد کر جزیرے میں لے کر جاتا تھا اور اس کی کہانیاں جس میں ”چیزیں“جو رات کو چٹانوں پر سیریں کرتی تھیں۔ وہ صرف ہمیں ڈرانے کی بھونڈی کوشش تھی۔ تاکہ ہم رات کو باہر نکل کر اس کی کارروائیوں کے بارے میں نہ جان سکیں۔ اس ساری کہانی میں صغیر کیا فٹ ہوتا ہے میں سوچ کر حیران ہوں“ پرویز صاحب معاذ کی باتوں کو مزا لیتے ہوئے بولا“ بالکل تم صحیح کہہ رہے ہوں“ وہ اس گفتگوکو بڑے شوق سے سن رہے تھے۔ اچانک عنریق بولا”اور پرویز صاحب آپ اس تنہا ساحل سمندر پر ایک ٹوٹی پھوٹی جھونپڑی میں رہنے کیوں آئے تھے؟
کیا واقعی آپ پرندوں کو دیکھنے کے شوقین ہیں؟“تو پرویز صاحب ہنستے ہوئے بولے بالکل بھی نہیں۔ کیونکہ مجھے ایک حقیقی پرندوں کے شوقین کو ملنا تھا تو ظاہر ہے میں نے خود کو پرندوں کا شوقین تو کہنا ہی تھا۔تم نے بار بار مجھ سے پرندوں کے بارے میں چبھتے ہوئے سوال کرتے رہے۔ مجھے تم سے پرندوں کے بارے میں بات کرنے کے لئے پرندوں کے بارے میں کئی کتابیں پڑھنی پڑیں۔ میرے لئے یہ بہت مشکل کام تھا لیکن میں تم سب کو اپنی حقیقت نہیں بتا سکا۔ میں ایک پولیس افسر ہوں اور میری ڈیوٹی لگائی گئی تھی کہ میں صغیر کا پیچھا کروں اور اس کی سرگرمیوں کے متعلق جان سکوں۔ معاذ نے پوچھا“ لیکن آپ کو صغیر کے بارے میں کیسے شک ہوا کہ وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے؟”پرویز صاحب نے بتایا “پولیس کے لئے وہ اجنبی نہیں ہے کیونکہ وہ آگے بھی بینکوں کو جعلی نوٹ دینے میں ملوث رہا ہے اور اسی لئے ہم اس کے پیچھے تھی کہ کیا اتنے بڑے پیمانے پر تیار ہونے والے نوٹوں میں اس کا ہاتھ تو نہیں اور نوٹ کہاں چھپ رہے ہیں اور کیسے آگے پہنچائے جا رہے ہیں؟ ہم نے سوچا کہ اس شخص کی نگرانی کرنا بہت ضروری ہے پھر جب ہمیں معلوم ہو گیا کہ آج کل وہ کہاں رہ رہا ہے؟ تو ہم نے اس کی نگرانی شروع کر دی دراصل یہ بہت کامیابی سے پیچھے ماضی میں خود کو چھپانے میں کامیاب ہوتا رہا ہے۔ وہ تمہاری چچا اور چچی کی ملازمت پچھلے پانچ سال سے کر رہا ہے وہ جان بوجھ کر اس الگ تھلگ جگہ میں نوکری کر رہا تھا تاکہ لوگ جان نہ سکیں کہ ماضی میں اس کا ریکارڈ مجرمانہ رہا ہے۔
پھر پولیس کے ایک جوان نے اس کو بازار میں دیکھ کر اس کی نشاندہی کی اور پھر پتا لگایا کہ آخر وہ کہاں کام کرتا ہے پھر میں اس کی نگرانی کے لئے یہاں آیا”عنریق کہنے لگا“ پرویز صاحب آپ نے کیسے ایک مکڑے کا جال بچھایا لیکن اس کام میں ہم نے بھی آپ کی کوئی مدد کی“ پرویز صاحب کہنے لگے ”بہت زیادہ۔ اگرچہ یہ مدد تم نے نادانستگی میں کی۔ تم نے مجھے یقین دلا دیا کہ صغیر ہی درمیان والا آدمی ہے تم نے ہی مجھے بتایا کہ وہ دکھ والے جزیرے پر بار بار جاتا ہے لہذا اسی لئے ایک دن میں بھی جزیرے پر گیا اور تھوڑی بہت تانبے کی کانوں میں تاک جھانک کی یہ اس دن کی بات ہے جب میری پنسل وہاں گر گئی تھی لیکن میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے وہاں کچھ نہیں ملا جس سے مجھے شک ہوتا کہ کچھ لوگ تانبے کی کانوں میں کام کر رہے ہیں اور چھپائی گئی مشینوں سے دھڑا دھڑ جعلی نوٹ چھاپ رہے ہیں”عنریق بولا“ لیکن ہم نے یہ معمہ حل کر ہی لیا۔ اب پرویز صاحب! آپ اس بارے میں کیا کرنے والے ہیں؟ پرویز صاحب بولے“ کل رات میں نے وائرلیس پر اپنے افسران کو پیغام بھوایا ہے میں نے انہیں بتایا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ یہاں کیا ہو رہا ہے اور میں جزیرے کی کانوں میں کسی کو بچانے جا رہا ہوں وہ تیاری کر لیں اور اس معاملے کے مجرمان کو کیفر کردار تک پہنچائیں“عنریق نے پر جوش انداز میں پوچھا“وہ کیا کرنے والے ہیں”پرویز صاحب بولے“
مجھے اس بات کا علم نہیں ہو سکتا جب تک میں واپس جا کر ان سے مل نہیں لیتا میرا خیال ہے کہ اب ہمیں چلنا چاہئے ہم سمندر کے نیچے والے راستے سے ہی واپس چلیں گے جس راستے سے مَیں اور معاذ آئے ہیں“ معاذ کہنے لگا ”اب تو مجھے یقین ہے کہ صغیر نے ہی پرویز صاحب کی کشتی تباہ کی تھی اسے کسی بات پر شک ہو گیا ہو گا میرا خیال ہے کہ اسے معلوم ہو گیا ہے کہ آپ ہی ہمارے دوست ہیں”پرویز صاحب بولے“ صغیر ایک بہت ہی کایاں مجرم ہے“ وہ اب اٹھنے سے پہلے ٹانگیں سیدھی کر رہے تھے کہنے لگے “اس کی چالاکی یہی تھی کہ وہ خود کو بے وقوف ظاہر کرتا رہے۔ آﺅ اب چلیں اچانک عنریق بولا ”پرویز صاحب میں کی کی کو آزاد کروانا چاہتا ہوں میں اسے قید میں چھوڑ کر نہیں جا سکتا یہ لوگ اس کی گردن مروڑ دیں گے یا وہ خود ہی بھوک یا خوف سے مر جائے گا کیا ہم وہاں جا کر اسے آزاد نہیں کروا سکتے؟“ پرویز صاحب کہنے لگے“ہرگز نہیں ابھی اس سے زیادہ اہم کام سرانجام دینے والے رہتے ہیں معاذ بولا ہمیں صرف نقشے کو نکالنے کی ضرورت ہے وہاں سے ہم مرکزی راستے کو تلاش کریں گے اور پھر غاروں میں جا سکیں گے عنریق کو پتا ہو گا کہ کی کی کو کہاں نظر بند کیا گیا ہے؟ عنریق نے جو معلومات دی ہیں اس سے یہی لگتا ہے کہ یہ وہی غار ہے جہاں ہمیں قید کیا گیا تھا“ پرویز صاحب جھجھکتے ہوئے بولے “تو پھر جلدی کرو اور خیال رہے کہ کسی قسم کی آواز پیدا نہ ہو تاکہ کسی کو پتا نہ لگ سکے انہوں نے نقشہ نکالا اور اسے پھیلایا وہ جگہ ڈھونڈی جہاں وہ اب موجود تھے وہ جگہ جہاں مرکزی راستہ تھا اور پھر ادھر چل پڑے۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ وہ مرکزی راستے پر رواں دواں تھے وہ محتاط تھے اور بہت خاموش تھے پھر پرویز صاحب نے مشینوں کی ٹکا ٹک سنی۔ مشینیں حسب معمول چل رہی تھیں۔
وہ بہت غور سے آواز سن رہے تھے ہاں واقعی یہ آوازیں چھاپنے والی مشینوں کی آوازیں تھیں۔ پھر وہ اس غار کی طرف آ رہے تھے جہاں کی کی قید تھا۔ انہوں نے بولنے کی آوازیں سنیں۔ وہ دیوار کے ساتھ چھپ کر کھڑے ہو گئے اور سانس بھی بند کر لیا معاذ نے بہت آہستگی سے منہ پرویز صاحب کے کان کے قریب لا کر بتایا ”یہی ثناءاللہ ہے“وہ تین تھے اور وہ غار کے منہ والے دروازے کے سامنے کھڑے تھے جہاں قیدی توتا تھا وہ انگلیاں منہ میں دبائے حیرت سے سن رہے تھے۔ ایک آواز غار سے آ رہی تھی۔ جو اتنی اونچی تھی کہ باآسانی سنی جا سکتی تھی ”چھینکومت، کتنی بار میں نے تمہیں کہا ہے کہ اپنے پاﺅں صاف کر لو ”بیچارہ غریب کی کی“کیتلی میں پانی ڈال کر گرم کر لو ثناءاللہ بولا ”یہ لڑکا تو واقعی پاگل ہو گیا ہے“ وہ ابھی بھی سمجھ رہے تھے کہ ان کی قید میں عنریق ہی ہے تبھی کی کی نے ریل گاڑی کے انجن کی سیٹی کی آواز نکالنی شروع کر دی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے غاروں میں واقعی ریل گاڑی کا انجن گھس آیا ہو اور سیٹی بجاتا پھر رہا ہو۔ عباس حیرانی سے بولا ”اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے“ پھر ایک زور دار چیخ کی آواز آئی اور تیسرا شخص بولا” یہ ضرور توتا ہے‘ یہ توتا ہی ہو سکتا ہے‘لڑکے کے ساتھ اس کا توتا بھی اندر ہے۔
عباس نے کہا ”آﺅ دروازہ کھول کر دیکھیں“ ثناءاللہ نے قفل میں چابی ڈال کر اسے کھولا‘ دروازہ اندر کی طرف کھل گیا کی کی ایک چیخ مارتا ہوا فوراً اڑ گیا۔ اس چیخ سے تینوں گرتے گرتے بچے۔ تینوں آدمیوں نے لالٹین اوپر کر کے غار میں دیکھا۔ غار بالکل خالی تھا۔ ثناءاللہ غصے سے عباس کی طرف مڑا اور کہنے گا بےوقوف‘ تم نے ایک توتا قید میں ڈال دیا اور لڑکے کو فرار کروا دیا۔تمہیں گولی مار دینی چاہئے۔ عباس خالی غار کو گھور رہا تھا۔ یہ حقیقت تھی کہ صرف توتا ہی غار میں موجود تھا۔ عباس بولا”اچھا تو اب میرا یہ خیال ہے کہ وہ لڑکاکانوں میں سر ٹکرا کر مر جائے گا اور اس کا ذکر بھی نہیں کرے گا اسے ایسی ہی سزا ملنی چاہئے تھی”ثناءاللہ انتہائی تلخی سے بولا“ہم بےوقوف ہیں عباس‘ پہلے ہمیں ان تین بچوں نے دھوکہ دیا اور پھر یہ لڑکا فرار ہو گیا “انہوں نے دروازہ کھلا رہنے دیا اور چندھیائی روشنی والی غار کی طرف بڑھ گئے۔ عنریق نے اطمینان کا سانس لیا کی کی اب اس کے کندھے پر موجود تھا اور پیارسے آہستہ آہستہ آوازیں نکال رہا تھا اس نے جھوٹی موٹی اس کا کان کاٹا۔وہ اپنی خوشی کا بھرپور اظہار کر رہا تھا عنریق نے اس کا سر تھپتھپایا۔ وہ بھی کی کی کو پا کر کی کی جتنا ہی خوش تھا پرویزصا حب آہستگی سے بولے ”خدا کا واسطہ اب یہاں سے چلو“انہوں نے مرکزی راستہ چھوڑا اور تیزی سے چلنے لگے ان کی ٹارچوں سے بھرپور روشنی نکل رہی تھی وہ وہاں سے خاصی دور نکل گئے تھے جب انہیں کسی اور کے آنے کی آواز محسوس ہوئی انہوں نے ٹارچوں کو بجھایا اور اس کا انتظار کرنے لگے۔ معاذ نے آہستگی سے کہا ”یہ شخص مرکزی پلی والی راستے سے آ رہا ہے“ وہ شخص ان کے نزدیک آ گیا۔ اس کی ٹارچ سے بہت زیادہ روشنی ہو رہی تھی وہ اسے دیکھ نہیں سکے۔ انہوں نے کوشش کی کہ وہ کسی تاریک راستے میں داخل ہو جائیں لیکن عنریق لڑکھڑایا اور گر گیا جس سے آواز بلند ہوئی تو کی کی نے بھی چیخ مار دی۔ ٹارچ کی روشنی کا رخ ان کی جانب ہو گیا اور اندھےرے میں سے آواز بلند ہوئی”وہیں کھڑے رہو ورنہ گولی مار دوں گا“ پرویز صاحب نے ہاتھ نکالا لیکن لڑکے ساکت کھڑے رہے۔ اس آواز میں کچھ ایسا تھا کہ وہ اے ماننے پر مجبور تھے کیونکہ انہیں محسوس ہو گیا تھا کہ اگر انہوں نے کہنا نہ مانا تو واقعی وہ گولی مارنے سے گریز نہیں کرے گا۔ وہ تینوں کھڑے راستے میں آنکھیں جھپک رہے تھے پھر عنریق نے وہ آواز پہچان لی۔ معاذ کو بھی سمجھ آ گئی کہ یہ کس کی آواز ہے؟ وہ کون تھا ؟عنریق چیخا“یہ صغیر ہے‘ صغیر تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ صغیر نے بڑے سفاکانہ‘لہجے میں جواب دیا میں یہی بات تم تینوں سے پوچھنے والا تھا۔ اس کی ٹارچ کی پوری روشنی پرویز صاحب کے چہرے پر پڑی۔ صغیر بولا” تو تم بھی یہاں موجود ہو۔ میں نے تمہاری کشتی تباہ کر دی تھی لیکن لگتا ہے تم نے سمندر کے نیچے والا قدیم راستہ ڈھونڈ لیا ہے۔ میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟ تم تینوں اپنے آپ کو بڑا چالاک سمجھتے ہو لیکن تم ضرورت سے زیادہ چالاک ہو اب تمہارے آگے مشکل وقت ہے۔ بہت ہی مشکل وقت۔
باب نمبر28……..پھنس گئے
ٹارچ کی روشنی میں وہ آسانی سے صعیر کے ہاتھوں میں چمکتا پستول دیکھ سکتے تھے۔ پرویز صاحب دل ہی دل میں خود کو کوس رہے تھے کہ اگر وہ اس توتے کی رہائی کے لئے واپس نہ آتے تو انہیں یہ مصیبت نہ پڑتی۔ صغیر بہت چالاک آدمی تھا۔ اسے دھوکہ دینا اتنا آسان نہیں تھا جتنا ثناءاللہ اور اس کے ساتھیوں کو‘ صغیر نے انہیں حکم دیتے ہوئے کہا ”منہ پیچھے کر لو۔ اور اپنے ہاتھ سر سے بلند کر لو اور میرے آگے آگے چلو۔ ارے یہاں تو یہ کم بخت توتا بھی موجود ہے اس کے کئی احسان مجھ پر قرض ہیں اور میں نے ان کا حساب بھی چکانا ہے“عنریق کو پتا تھا کہ صغیر ہرقیمت پر کی کی کو مار دے گا۔ اس نے کندھے پر بیٹھے کی کی کو زور سے ٹہوکہ دیا۔ کی کی تیزی سے ہوا میں بلند ہو گیا وہ اندھیرے کی وجہ سے چیخ رہا تھا”جان بچا کر بھاگو کی کی“ یہاں سے بھگو کی کی“ کی کی اندھیرے میں نظر نہیں آ رہا تھا اسے سمجھ آ گئی تھی کہ ضرور کوئی خطرہ ہے تبھی تو اس کا مالک نہیں چاہتا کہ وہ اں کے پاس رہے۔ وہ خطرے کی بو سونگھ چکا تھا وہ ان سب سے پیچھے اڑنے لگا۔ وہ صغیر سے کافی پیچھے تھا اور اب ادھر ادھر پوزیشن بدلتا اتنی خاموشی سے اڑ رہا تھا جیسے وہ کوئی چمگادڑ ہو۔ جلد ہی وہ تینوں پھر اپنی جانی پہچانی غار میں بند کر دیئے گئے صغیر جو ایک دو دفعہ ثناءاللہ پر چلایا ضرور مگر اس کی غار کے دروازے کو خود تالہ لگایا پھر قیدیوں نے ان کے قدموں کی چاپ دور جاتی ہوئی سنی پرویز صاحب کہنے لگے۔
”میرا خیال ہے ہم خاصی بڑی مصیبت میں پھنس چکے ہیں بھلا مجھے کیا ضرورت تھی کہ بچوں کا کہا مان کر توتے کو چھڑانے واپس چلا آیا۔ ہو سکتا ہے ہم سب کی زندگیاں چلی جائیں صرف اتنی سی بات کے لئے اور یہ تمام مجرم اپنی کروڑوں اربوں کی جعلی کرنسی لیکر یہاں سے فرار ہو جائیں اور پھر ان نوٹوں کو سارے ملک میں خرچ کرتے رہیں اب واقعی ہم بڑی مشکل میں ہیں”عنریق بے چارگی سے کہنے لگا“ مجھے بہت افسوس ہے کہ میں نے آپ کو واپس آنے کے لئے مجبور کیا“پرویز صاحب سگریٹ سلگاتے ہوئے بولے“ میرا بھی اتنا ہی قصور ہے جتنا تمہارا‘ اف! یہاں کتنی گرمی ہے وقت بہت سست رفتاری سے گزر رہا تھا تبھی دروازہ دوبارہ کھلا اور صغیر اندر آیا اس کے ساتھ ثناءاللہ‘ عباس اور دو تین ساتھی اور تھے صغیر کا سیاہ چہرہ لیمپ کی روشنی سے تمتما رہا تھا بولا” ہم صرف تمہیں خدا حافظ کہنے آئے ہیں۔ ہم نے اپنی ہر چیز یہاں مکمل کر لی ہے تم بہت دیر سے یہاں پہنچے ہو۔ پرویز تم پولیس والے ضرور ہو لیکن بہت دیر کر دی یہاں تک پہنچنے میں۔اب تم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہمارے پاس اتنے نوٹ ہیں جو ہم ساری زندگی بھی خرچ کرتے رہیں تو ختم نہیں ہو سکتے“ پرویز صاحب جلدی سے بولے تو تم یہاں سے جا رہے ہو۔ لیکن کیا تم اپنی تمام مشینیں تباہ کر کے جا رہے ہو یا ساتھ لیکر جا رہے ہو یا سارے راستے بند کر کے جا رہے ہو۔ تم سارے جعلی نوٹوں کی گڈیاں تو ساتھ لے جاﺅ گے لیکن جہاں تم نے یہ سب جمع کررکھا تھا وہ جگہیں تو ساتھ لیکر نہیں جا سکتے۔ تم اتنی آسانی سے جان نہیں چھڑوا سکتے تمہاری مشینیں ثبوت کے طور پر پولیس قبضے میں لے گی بے شک وہ تباہ کر دو یا نہیں صحیح سلامت مل جائیں اور پھر ………”صغیر بولا“ پرویز صاحب پولیس کو کبھی کچھ نہیں ملے گا۔
اگر پورے صوبے کی پولیس بھی جزیرے پر چلی آئی لیکن انہیں کچھ نہیں ملے گا کوئی ایسا ثبوت نہیں ملے گا جس سے وہ ہم تک پہنچ سکیں”پرویز صاحب اپنی حیرت اپنے لہجے میں نہ چھپا سکے وہ بولے“آخر کیسے“تو صغیر عیاری سے مسکراتا ہوا بولا” کیونکہ ہم ان مشینوں کو ڈبو رہے ہیں جی پرویز صاحب ان کانوں میں جلد ہی پانی بھر جائے گا پانی ہر سرنگ میں گھس جائے گا ہر راستے اور ہر غار میں پانی ہی پانی ہو گا جس سے سارے ثبوت مٹ جائیں گے مجھے بہت افسوس ہے کہ اس پانی میں تم سب کا نام و نشان بھی مٹ جائے گا پرویز صاحب کہنے لگے ”مجھے یقین ہے تم ہمیں یہاں چھوڑ کر نہیں جا سکتے تم مجھے چھوڑ جاﺅ لیکن لڑکوں کو اپنے ساتھ لے جاﺅ”صغیر اپنی کمینگی بھری آواز میں بولا“ہمیں تم میں سے کسی کی بھی ضرورت نہیں ہے تم پانی کی زد میں ہی آﺅ گے پرویز صاحب چلائے تم اتنے ظالم نہیں ہو سکتے یہ صرف بچے ہیں ”صغیر بولا“ میں نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے وہ ان لوگوں جیسا آدھا پاگل بے وقوف شخص نہیں تھا جنہیں وہ پہلے دھوکہ دے چکے تھے یہ بالکل مختلف صغیر تھا یہ وہ صغیر نہیں تھا جو چچی کا ملازم تھا پرویز صاحب نے پوچھا “تم اس ساری جگہ میں سیلاب کیسے لاﺅ گے؟صغیر بولا”بہت آسانی سے‘ تم جس راستے سے اب جزیرے پر آئے ہو وہ تمام کانوں کا ہی راستہ ہے جو سمندر کے نیچے سے گزرنے والے راستے کی چھت اڑا دے گا اور سمندر سب کچھ بہا کر لے جائے گا جیسا تم خود اندازہ کر سکتے ہو پانی تمام کانوں میں دوڑے گا اور اس جگہ کو سطح سمندر تک پانی میں تبدیل کر دے گا۔ میرا خیال ہے چیزیں ایسی نہیں رہیں گی جنہیں دیکھ کر تمہیں کوئی خوشی ہو عنریق نے اٹھنے کی کوشش کی تاکہ صغیر کو باور کرا سکے کہ وہ نہیں ڈرتا لیکن اس کے گھٹنوں نے اس کا ساتھ نہیں دیا۔
وہ اندر سے ڈرا ہوا تھا بہت زیادہ ڈرا ہوا تھا یہی حال معاذ کا بھی تھا۔ صرف پرویز صاحب ہمت دکھا رہے تھے۔ وہ ہنسنے لگے’تم اپنا ارمان پورا کر لو‘ تم اتنی آسانی سے فرار نہیں ہو سکتے جتنا تم سمجھے بیٹھے ہو۔ تمہارے متعلق تمام اطلاعات پہنچائی جا سکتی ہیں اور تمہارے گروہ کے بارے میں بھی اب سبھی پولیس والے جانتے ہیں اور تمہارے سرغنہ کے بارے میں بھی “صغیر کے ساتھیوں میں سے ایک نے صغیر کے کان میں کچھ کہا تو اس نے سر ہلایا لڑکے سمجھ گئے کہ وقت قریب آ گیا ہے اب یہ چھت پھوڑنے والے ہیں جس سے سیلاب آئے گا اور ان کانوں کے ہر کونے کھردرے میں پانی ہی پانی ہو گا صغیر نے اپنے سفید دانت کوستے ہوئے انہیں کہا”اچھا خدا حافظ“ پرویز صاحب نے اسی کے لہجے میں جواب دیا”جلد ملیں گے“لڑکوں نے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکالا‘ کی کی جو مرکزی راستے میں تھا اس نے البتہ ایک قہقہہ ضرور لگایا صغیر بولا” میں اس پرندے کو اپنے ہاتھ سے گولی مارنا چاہتا تھا“ پھر وہ اپنے ساتھیوں سمیت غار سے باہر چلا گیا۔ اس نے دروازہ زور سے بند کیا اور باہر سے تالا لگا دیا پھر کچھ دور تک ان کے قدموں کی چاپ جاتے سنائی دیتی رہی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ پرویز صاحب نے لڑکوں کی طرف دیکھا اور بولے“
ہم ابھی مرے نہیں ہیں۔ ذرا خود کو سنبھالو۔ ان لوگوں کو ذرا اپنے سے دور چلے جانے دو پھر میں دروازہ کھول دوں گا اور ہم سب آزاد ہونگے“ عنریق بولا” آپ دروازہ کیسے کھول لیں گے پرویز صاحب؟“پرویز صاحب مسکرائے اور کہنے لگے“ ارے بھائی پولیس والوں کے پاس سو راستے ہوتے ہیں“ پھر انہوں نے جیب سے کچھ ہدایات والے کاغذات نکالے اور مختلف چابیوں کا ایک گچھا بھی۔ اور پھر ہدایات پڑھنے اور کام کرنے میں جت گئے کچھ ہی دیر میں وہ دروازہ کھول چکے تھے پرویز صاحب بولے”جلدی کرو پُلی والے راستے کی طرف چلو اس سے پہلے کہ زیادہ دیر ہو جائے “وہ جلدی سے مرکزی راستے پر پہنچے وہ چل رہے تھے لیکن بھاگنے والی رفتار سے انہیں وہاں تک پہنچنے میں کچھ وقفہ لگا۔ وہ جیسے ہی وہاں پہنچے انہوں نے اوپر دیکھا تو انہیں بہت اوپر معمولی سی دن کی روشنی نظر آ رہی تھی۔ پھر اپنوں نے ایک عجیب سی آواز سنی۔ یہ ایک دبی ہوئی آواز تھی جو کانوں میں سے آئی تھی اور جس کی گونج عجیب انداز میں کانوں میں پھرتی رہی۔ پرویز صاحب بولے”صغیر نے سچ ہی بولا تھا یہ واقعی بارود کی آواز تھی اگر واقعی انہوں نے سمندر کے نیچے راستے میں داخل ہونے والا سوراخ اڑا دیا ہے تو پانی اب ٹھاٹھیں مارتا ہوا آ رہا ہو گا
”معاذ بولا“ تو پھر جلدی کریں جلدی سے سورج کی روشنی میں چلیں عنریق بولا مجھے اپنے تانبے کا ٹکڑا جسم کے ساتھ کہیں باندھنے دیں پرویز صاحب اب کیا ہوا ہے عنریق اب بھی بڑی بہادری سے تانبے کا ٹکڑا اٹھائے پھر رہا تھا پرویز صاحب اچانک بڑی سختی سے بولے جس سے لڑکے ہل کر رہ گئے”وہ دیکھو“ وہ ٹارچ سے پلی کو دیکھ رہے تھے کہنے لگے “جو آدمی اس سیڑھی سے اوپر گئے ہیں انہوں نے بڑی ہوشیاری سے کچھ سیڑھی اوپر اٹھا لی ہے کہ کسی طرح بھی ہم اوپر نہ چڑھ سکیں اگر کسی طرح ہم غار سے نکل بھی آئیں تو ۔ وہ ہمارےقدیم لئے بچنے کا کوئی طریقہ چھوڑنا نہیں چاھتے تھے ہم پھنس گئے ہیں اب ہم فرار نہیں ہو سکتے۔ سیڑھی کے بغیر اوپر چڑھنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ عنریق یہ سنکر بے بسی سے بولا“ لیکن پرویز صاحب میرا خیال ہے کہ ہم کھلی غار میں اگر ڈھونڈیں تو شاید ہمیں وہاں سے کوئی سیڑھی مل جائے جہاں خوراک کی پیٹیاں اور ڈبے پڑے ہوئے تھے میرا خیال ہے میں نے وہاں ایک سیڑھی دیکھی تھی کیا ہم واپس جا کر اسے تلاش کریں۔ میرا خیال ہے کہ ان مجرموں نے سیڑھی کے پہلے کچھ قدم ہی ہماری دسترس سے دور کئے ہیں انہیں معلوم تھا کہ ہم اتنا اوپر چڑھ کر باقی سیڑھی استعمال نہیں کر سکتے کیونکہ نیچے سے اوپر چڑھنے کے لئے ہمارے پاس اضافی سیڑھی نہیں ہوگی”معاذ بولا“ کیا تمہیں یقین ہے کہ غار میں سیڑھی موجود ہے؟مجھے تو یاد نہیں ہے” پرویز صاحب کہنے لگے“لیکن یہ ہمارے پاس آخری موقعہ بھی ہے آﺅ واپس جا کر اسے ڈھونڈیں“ لیکن وہ غار تک نہیں پہنچ سکے ابھی وہ مرکزی راستے میں تھے کہ وہ خوف کے مارے ساکت کھڑے ہو گئے کوئی چیز بڑے زور و شور سے ان کی طرف جیسے بہتے ہوئے آ رہی تھی جس کا رنگ سیاہ تھا اور وہ بہت طاقتور تھی پرویز صاحب چلائے ”پانی پہلے ہی اندر آ چکا ہے واپس آ جاﺅ تاکہ ہم کوئی اونچی جگہ ڈھونڈیں۔ اوہ خدا یہ تو پورا سمندر کانوں میں امڈ آ رہا ہے پانی پوری گھن گھرج سے راستے میں آنے والے راستے مٹا رہا تھا اور غاریں بالکل زمین کی سطح سے مل رہی تھیں یہ اتنی خوفناک آواز تھی جس سے پرویز صاحب بھی ہل کر رہ گئے وہ تینوں پلی والے راستے کی طرف بھاگے۔ جو باقی ساری جگہوں سے اونچی جگہ تھی لیکن جلد ہی پانی ان تک پہنچ گیا پرویز صاحب کہنے لگے ”پانی اپنی سطح خود بنا لے گا۔ یہ ساری پلیاں اس پانی کی سطح میں چلی جائیں گی اور کانیں بھی سمندر کا حصہ بن جائیں گی۔ میرا خیال ہے پانی سے آدھی اونچائی تک یہ پلیوں والے راستے بھر جائیں گے عنریق سہمی آواز میں بولا”پرویز صاحب کیا ہم سب ڈوب جائیں گے “پرویز صاحب نے پوچھا”کیا تم تیر سکتے ہو؟ہاں مجھے پتا ہے تم دونوں تیر سکتے ہو۔
سنو! اب ہماری صرف ایک ہی امید بچی ہے۔ وہ یہ کہ جب پانی اس پلی کو بھر دے ہمیں تیرتے ہوئے اس کی سطح تک بلند ہونا ہو گا اس لئے ہم نے کوئی کوشش نہیں کرنی ماسوائے اس کے کہ پانی ہمیں اوپر لے جائے اور جب ہم سیڑھی کے اس حصے تک پہنچ جائیں جہاں سے سیڑھی۔ صحیح ہے تو ہم سیڑھی کی مدد سے اوپر چڑھ سکتے ہیں اب تم بتاﺅ کہ کیا تم پانی سے باہر اپنا سر رکھ لو گے تاکہ جب پانی آئے تو ہم اس راستے سے جزیرے تک پہنچ سکیں”لڑکوں نے پرامید‘ لہجے سے کہا ”جی ہاں۔انشاءاللہ“ عنریق نے مڑ کر ڈرتے ڈرتے رستے کی طرف دیکھا اسے کالا پانی تھوڑے وقفے پر صاف نظر آ رہا تھا جس میں پرویز صاحب کی روشنی اس کی لہروں کو واضع کر رہی تھی بہرکیف یہ بہت ہی خوفناک مظاہرہ تھا۔ معاذ کہنے لگا ”پرویز صاحب ان تانبے کی کانوں کا تو آج خاتمہ ہو گیا ہے اب کوئی یہاں نیچے اتر کر انہیں نہیں دیکھ سکے گا ”پرویز صاحب کہنے لگے“ ان کا خاتمہ تو تبھی ہو گیا تھا جب ان سے سارا تانبا نکال لیا گیا تھا عنریق خوش قسمت ہے کہ اس کے پاس تانبے کا ایک ٹکڑا ہے جو یہ سب کو دکھا سکتا ہے۔
یہ ٹکڑا شاید مدتوں پہلے کسی کان کن نے چھپا کر رکھا ہو گا جو بعد میں بھول گیا ہو گا کہ اس نے اسے کہاں چھپایا تھا؟ اور پھر مدتوں کے بعد یہ عنریق کو اچانک مل گیا ”عنریق کہنے لگا“ میں ہر صورت اس ٹکڑے کو واپس لیکر جاﺅں گا ہر صورت لیکن مجھے احساس ہے کہ میں اسے پکڑ کر تیر نہیں سکتا۔ یہ بہت بھاری ہے۔ پرویز صاحب نے اپنا سویٹر اتارا اور قمیض بھی۔ انہوں نے تانبے کے ٹکڑے کو قمیض میں لپیٹ لیا پھر اسے گانٹھیں دے دیں اور پھر ایک موٹی رسی اس کے گرد گھما کر باندھ دی۔ پھر سویٹر پہن کر تانبے کے ٹکڑے کو رسی کی مدد سے گلے میں لٹکا لیا وہ ہنس کر بولے بھاری ہے لیکن اب محفوظ ہو گیا ہے۔ تم کی کی کو کندھے پر اٹھاﺅ اور میں تانبے کے ٹکڑے کو اٹھاتا ہوں”عنریق بولا“ پرویز صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ۔ اللہ کرے اس کا بوجھ آپ کو بھی پانی میں نہ گھسیٹ لے”معاذ مضطرب ہوتے ہوئے بولا“ پانی قریب آ رہا ہے وہ دیکھو ”وہ سب دیکھنے لگے وہ آہستہ آہستہ پلی کے راستے کو جانے والی جگہ جو دوسری جگہ سے اونچی تھی کو چھورہا تھا جہاں وہ کھڑے تھے عنریق بولا“کیا یہ پانی بہت کالا نہیں ہے میرا خیال ہے اندھیرے کی وجہ سے یہ اتنا سیاہ لگ رہا ہے بہت خوفناک لگ رہا ہے پرویز صاحب کہنے لگے ”ہماری پلی تک آتے آتے اسے تھوڑا وقت لگے گا۔ آﺅ بیٹھ کر تھوڑا سستا لیں ۔ کیونکہ ہمیں پھر محنت کرنی ہو گی“ وہ بیٹھ گئے معاذ کا چوہا اس کی آستین سے نکل کر بھاگ گیا اور اس کی ٹانگ کے پیچھے ٹخنے پر چڑھ کر بیٹھ گیا کی کی نے اسے دیکھا تو اس کی چیخ نکل گئی وہ بولا”اپنے پاﺅں صاف کرو میں تمہیں بار بار کہہ رہا ہوں“ معاذ نے کہا ”کی کی میرے چوہے کو مت ڈراﺅ“۔
وہ تینوں چوہے کی حرکات دیکھنے لگے پانی نزدیک آتا گیا وہ سب راستوں اور راہداریوں کو صفحہ ہستی سے مٹاتا چلا آ رہا تھا ”معاذ کہنے لگا“ پانی تو طوفان کی طرح سمندر کے نیچے راستے میں داخل ہو رہا ہو گا“ میرا خیال ہے پرویز صاحب! کیا پانی ہمارے گھر کی طرف بھی جا رہا ہو گااور اس سے کنویں کا پانی ہمیشہ کے لئے نمکین ہو جائے گا ”پرویز صاحب کہنے لگے“یہ بالکل ممکن ہے کنواں سطح سمندر سے کہیں نیچے ہے لہذا سمندر کا پانی لازمی طور پر ادھر جائے گا معاذ یہ تو بہت برا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں رہنے والا تمہارا خاندان کبھی کنویں کا پانی استعمال نہیں کر سکے گا۔ مجھے پتا نہیں اب تم اس کا متبادل کیسے ڈھونڈو گے؟“ عنریق نے پانی کی ایک لہر اپنے پاس اٹھتی دیکھی تو بولا ”لو پانی اب ہمارے پیروں سے اونچا ہو گیا ہے کی کی اب مضبوطی سے میرے کندھے پر بیٹھے رہو اور بودی والے لڑکے تمہارا چوہا کدھر ہے؟معاذ کہنے لگا “میری گردن کے نیچے ہے اوہ! یہ کتنا ٹھنڈا پانی ہے؟لیکن کیونکہ کانیں بہت گرم تھیں اسی لئے پانی بہت ٹھنڈا لگ رہا ہے“اب پرویز صاحب ۔معاذ اور عنریق کھڑے ہو گئے اور پانی کو اپنے ٹخنوں کے گرد چکر لگاتا دیکھ رہے تھے اب وہ ان کے گھٹنوں تک پہنچ گیا تھا اور مزید بلند ہو رہا تھا وہ تینوں پلی والے راستے کے عین نیچے کھڑے تھے وہ اس لمحے کے منتظر تھے جب پانی ان کو اوپر اٹھاتا تاکہ وہ پانی میں تیر سکتے معاذ کہنے لگا ”میں تو جم رہا ہوں۔ میں کبھی اتنے ٹھنڈے پانی میں کھڑا نہیں ہوا۔
”پرویز بولے“ یہ اتنا ٹھنڈا نہیں ہے جتنا ہمیں لگ رہا ہے لیکن ہم کیونکہ اتنی گرم جگہ میں کھڑے تھے کہ اچانک آنے والا ٹھنڈا پانی ہمیں بہت ٹھنڈا لگنے لگا ہے ”پانی اب ان کی کمروں تک پہنچ گیا تھا اور پھر بڑی تیزی سے ان کے کندھوں تک بھی۔ کی کی بڑی عجیب آواز میں بڑبڑایا ”اللہ ہمیں بچائے“وہ عنریق کے کندھے پر بیٹھا ہوا نیچے تاریک پانی میں جھانک رہا تھا جلد ہی دونوں لڑکے اور پرویز صاحب کے پاﺅں زمین سے اُٹھ گئے وہ بڑی مشکل سے پانی کی سطح پر پہنچے لیکن ابھی وہ پلی والے راستے کے نیچے ہی تھے عنریق ہانپتے ہوئے بولا بہت تنگ جگہ ہے اور ہم سبھی ایک دوسرے کے اوپر نیچے ہیں ”وہ واقعی بہت پھنسے ہوئے تھے“ اور تیرنے کی کوشش کر رہے تھے جہاں تیرنے کے لئے بالکل جگہ نہیں تھی پانی اوپر تک ایک ہی رفتار سے جا رہا تھا پرویز صاحب نے معاذ سے اس کی چھوٹی ٹارچ لے لی تھی اور اپنے دانتوں سے اسے منہ میںبھینچ لیا تھا تاکہ روشنی سے انہیں پلی والا راستہ دکھائی دیتا رہے۔ وہ سیڑھی کو بھی دیکھ رہے تھے کہ کہاں تک وہ ان کی پیچ سے باہر ہے اور کیا سیڑھی کو مجرموں نے نقصان بھی پہنچایا ہے اور اگر ایسا ہے تو یہ کہاں تک ہے آخر انہوں نے منہ سے ٹارچ نکالی اور بولے۔
”سیڑھی یہاں سے ٹوٹی ہوئی نہیں ہے ہم پانی سے خاصا اوپر پلی والے راستے پر آ گئے ہیں اور اب سیڑھی پر چڑھ سکتے ہیں میں تمہیں اوپر چڑھنے میں مدد کرتا ہوں عنریق تم کی کی کو لیکر پہلے سیڑھی پر چڑھو۔ وہ بہت خوفزدہ ہو گیا ہے“عنریق ہاتھ پاﺅں مارتا ہوا پلی والے راستے پر سیڑھی کے پاس پہنچا پرویز صاحب نے ٹارچ سے ادھر روشنی کی عنریق سیڑھی کو پکڑ کر اس کے زینوں پر چڑھنے لگا جو اب خاصا اوپر پہنچ گیا تو معاذ بھی اوپر چڑھنے لگا پھر پرویز صاحب کی باری آئی ان کے لئے مشکل یہ تھا کہ وہ تانبے کے ٹکڑے کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے تھے ان کے لئے سیڑھی کے پہلے زینے پر چڑھنا بہت مشکل تھا لیکن کسی نہ کسی طرح وہ چڑھنے میں کامیاب ہو ہی گئے وہ اوپر چڑھتے گئے۔ چڑھتے گئے۔ انہیں چڑھتے ہوئے ایسا لگنے لگا جیسے مدت گزر گئی ہو۔ تب کہیں جا کر وہ کہیں منزل کے قریب پہنچے وہ جلد ہی کانپنا بند ہو گئے بلکہ مسلسل محنت سے دوبارہ انہیں گرمی لگ رہی تھی ان کے کپڑے گیلے ہو کر ان کے لئے وبال جان بنے ہوئی تھے کی کی عنریق کے کان میں کھسر پھسر کر رہا تھا وہ اپنی حالت پر کڑھ رہا تھا اسے مہم کا یہ حصہ بالکل پسند نہیں آیا تھا۔ معاذ کے چوہے کو بھی یہ سب کچھ پسند نہیں تھا وہ معاذ کے کان پر چڑھ رہا تھا جب پانی میں سے صرف معاذ کا سر ہی باہر تھا اور اب معاذ کے سب کپڑے گیلے تھے آستین بھی جہاں وہ آرام سے چھپا بیٹھا رہتا تھا ۔ آخر عنریق نے نعرہ مار کر نیچے والوں کو بتایا۔
”ہم تقریباً اوپر پہنچ گئے ہیں“ یہ اس وقت ان لوگوں کے لئے سب سے بڑی خوشی کی خبر تھی وہ اور تیزی سے چڑھنے لگے ان کے بازوﺅں اور ٹانگوں میں اس خبر نے نئی طاقت بھر دی تھی اور انہیں معلوم تھا کہ اب یہ جان لیوا اور دشوار چڑھائی بس ختم ہونے کو ہے عنریق سب سے پہلے اوپر پہنچا تو کی کی نے کھلی فضا میں پہنچ کر خوشی سے ایک چیخ ماری لیکن پھر وہ وہیں رک گیا اور حیرانی سے ششدر رہ گیا ایک آدمی پلی والے راستے کے اوپر خاموشی سے کھڑا ان کا انتظار کر رہا تھا اور اس کے ہاتھ میں پستول تھا اس آدمی نے سخت لہجے میں کہا ”اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لو“ اور نیچے سے اوپر آنے والوں کو خبردار کرنے کی کوشش نہ کرنا یہاں کھڑے ہو جاﺅ اور میں نے تمہیں کہا ہے اپنے ہاتھ اوپر اٹھا لو“
آخری باب……..انت بھلا سو بھلا
عنریق اپنے ہاتھ سر سے بلند کر کے کھڑا تھا اور اس کا منہ خوف سے کھلا ہوا تھا۔ کیا فرار ہونے میں اتنی محنت انہوں نے اس لئے کی تھی کہ دوبارہ پکڑے جائیں۔ اسے چلانے کی جرات نہیں ہوئی معاذ اوپر آیا تو اس کا بھی وہی حال ہوا وہ بھی بے حال اور دل شکستہ کھڑا تھا۔ جس آدمی کے ہاتھ میں پستول تھا وہ خاموشی سے کھڑا تھا اس نے پستول کی نوک پر لڑکوں کو قیدی بنا رکھا تھا وہ انتظار کر رہا تھا کہ اب کنویں سے باہر کون نکلتا ہے پھر پرویز صاحب اوپر آئے ان کی کمر آدمی کی طرف تھی انہں بھی وہی پرانے مخصوص حکم کا سامنا کرنا پڑا”ہاتھ اوپر کر لو‘ اور جو پیچھے آ رہا ہے اس کو خبردار نہیں کرنا۔ وہاں کھڑے ہو جاﺅ“ پرویز صاحب پیچھے مڑے۔ انہوں نے ہاتھ فوراً اوپر کر لئے تھے لیکن پھر فوراً ہی نیچے کر لئے اور مسکرا کر بولے اب سب ٹھیک ہے جاوید‘ پستول نیچے کر لو”جاوید نے افسوس کا اظہار کیا اور پستول نیچے کر کے کور میں رکھ لیا اور ملانے کے لئے ہاتھ پرویز صاحب کی طرف بڑھا دیا۔ وہ بولا“ پرویز صاحب آپ ہیں میری ڈیوٹی ادھر لگائی گئی تھی کہ میں انتظار کروں تاکہ اس گروہ کا کوئی رکن اوپر آئے تو میں اسے گرفتار کر لوں مجھے اس بات کی قطعی امید نہیں تھی کہ کنویں سے آپ اوپر آ جائیں گے “لڑکوں کے منہ ابھی بھی حیرت سے کھلے تھے اور وہ ان دونوں کو گھور رہے تھے۔ یہ کیا ہو رہا تھا؟
پرویز صاحب ان کو حیران دیکھتے ہوئے بولے “کیا تمہیں حیرت ہوئی ہے؟یہ جاوید صاحب ہیں ہمارے سراغ رساں ہیں اور میرے دوست ہیں۔ جاوید تمہیں یہاں دیکھ کر میرا سیروں خون بڑھ گیا ہے۔ کیا ہوا ہے؟” جاوید صاحب مسکراتے ہوئے بولے“ آﺅ اور دیکھو اور پھر انہیں لے کر ایک سمت کو بڑھے۔ وہ پہاڑیوں کے درمیان ایک راستے سے گزرے پھر وہ ایک کھلے میدان میں پہنچے اور ساحل کی طرف چلے پھر انہیں ایک بہت ہی مزے کا منظر دکھائی دیا وہاں ایک قطار میں کانوں میں کام کرنے والے سارے لوگ کھڑے تھے صغیر بھی ان میں شامل تھا اور اس کے چہرے پر شدید غصے کے تاثرات تھے اس کے قریب دو اشخاص پستول تانے کھڑے تھے اور ان قیدیوں سے ان کے ہتھیار چھین لئے گئے تھے معاذ چلایا ”وہ دیکھو صغیر“ صعیر نے اس کی طرف نفرت سے دیکھا۔ یہ نفرت بعد میں حیرت میں تبدیل ہو گئی وہ سوچ رہا تھا کہ لڑکے اور ان کا ساتھی کیسے بچ گئے۔ صغیر بہت حیران و پریشان تھا کیونکہ وہ تو انہیں غار میں قید کر کے آیا تھا پھر غاروں میں سمندر کا پانی بھر گیا۔ اور پلی والے راستے سے سیڑھی اوپر کھینچ لی گئی تھی تو پھر یہ لوگ یہاں تک کیسے پہنچ گئے۔
عنریق نے حیران ہو کر پوچھا ”یہ کیسے گرفتار ہو گئے؟“ کی کی نے اپنے دشمن صغیر کو دیکھا تو اڑ کر اس کے قریب پہنچا اور پھر اس کے سر پر اڑتے ہوئے چیخیں مارنی شروع کر دیں جیسے اس کا مذاق اڑا رہا ہو۔ کی کی اب بہت بااعتماد تھا کیونکہ اسے معلوم ہو گیا تھا کہ اب صغیر اس کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
جاوید صاحب عنریق کے چہرے کی حیرت کو دیکھ کر مسکرائے اور بولے ”پرویز صاحب ادھر موجود ہیں“ انہوں نے پرویز صاحب کی تعریف میں سر تھوڑا سا جھکایا اور بات جاری رکھی“ انہوں نے وائرلیس پر رات ہمیں اس گروہ کے بارے میں کافی معلومات دے دی تھیں اور ان معلومات سے ہمیں صورتحال کا خاصا اندازہ ہو گیا تھا اور فیصلہ کیا تھا کہ ہمیں جزیرے پر چلا جانا چاہئے اس فیصلے کے بعد ہم جتنی جلدی ہو سکتا تھا جزیرے پر پہنچ گئے یہاں ہم نے صغیر کو دیکھا جو فرار ہونے کی تیزی میں تھا اور اس کے ساتھ ہمیں ملیں۔ نوٹوں سے بھری پیٹیاں اور ڈبے اور ان کے متعلق اہم دستاویزات بھی۔ معاذ پوچھنے لگا لیکن آپ جزیرے پر اتنی جلد کیسے پہنچ گئے جبکہ ساحل پر کشتی بھی موجود نہیں تھی جاوید صاحب کہنے لگے”پولیس کے پاس کچھ اپنی بھی موٹر بوٹ ہوتی ہیں۔ جو کشتیوں سے بہت تیز ہوتی ہے ہم نے ان میں سے دو موٹر بوٹ میں اور پوری رفتار سے یہاں پہنچے جو وہ کھڑی ہیں۔
”لڑکوں نے مڑ کر دیکھا تو انہیں ساحل پر خالی جگہ میں دو بہت خوبصورت موٹر بوٹ پانی میں ہچکولے کھاتی کھڑی ہوئی نظر آئیں جن کے اوپر ان کو چلانے والے بھی کھڑے تھے قریب ہی صغیر کی کشتی بھی کھڑی تھی۔ جاوید صاحب دوبارہ بتانے لگے“جیسے ہی ہمیں معلوم ہوا کہ سارا گروہ اپنا گھناﺅنا کاروبار سمیٹ کر فرار ہونے کے چکر میں ہے تو ہمیں سمجھ آ گئی اب ان پر وار کرنے کا وقت آ گیا ہے لہذا ہم نے سارے پلیوں والے راستوں پر اپنے آدمی مقرر کر دیئے۔ ہمیں یہ معلوم تھا کہ یہ کون سا راستہ استعمال کریں گے پھر یہ ایک ایک کر کے اوپر آتے گئے اور ہم آرام سے ان پر قابو پاتے گئے”عنریق بولا“ جیسے آپ نے ہمیں قابو کر لیا تھا اب ہم نے کیا کرنا ہے؟”جاوید صاحب بولے“ اس سارے تماشے کے دولہا پرویز صاحب ہیں“ پھر وہ سوالیہ انداز میں پرویز صاحب کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔ پرویز صاحب کہنے لگے اب ان خوبصورت شریف آدمیوں کو حفاظت سے موٹر بوٹ پر پہنچانا ہے“گروہ کے سارے خطرناک ارکان کو دونوں موٹر بوٹ میں دھکیل دیا گیا۔ ثناءاللہ اب بھی سب سے زیادہ نفرت سے کی کی کو گھور رہا تھا اور اگر نظروں سے قتل ہو سکتے تو ان مجرموں کی نظر سے کی کی اب تک کئی دفعہ قتل ہو چکاہوتا۔
ثناءاللہ کو یاد آ رہا تھا کہ کس طرح اس نے عنریق کو قید کرنے کی بجائے اس توتے کو قید کر دیا تھا۔ اسی ایک غلطی کی وجہ سے شاید اب وہ اس حال کو پہنچے تھے۔ پرویز صاحب لڑکوں سے کہنے لگے ”میرا خیال ہم تینوں ”صغیر صاحب“ کی کشتی کو لیکر گھر جائیں گے ۔ ٹھیک ہے ان موٹر بوٹوں کو جانے دو۔ ان کے بعد ہم چلیں گے“ موٹر بوٹیں بچوں کے گھر کے قریب ساحل سے لگیں تو دونوں لڑکیاں بھاگیں اور وہ تمام لوگوں میں صغیر کو بھی شامل دیکھ کر حیران رہ گئیں پھر وہ گھور کر انہیں دیکھنے لگیں۔ ان کی نگاہیں بھائیوں کو ڈھونڈ رہی تھیں۔ جاوید صاحب نے انہیں مخاطب کیا”کیا آ دونوں پرویز صاحب کو ڈھونڈ رہی ہیں اور بھائیوں کو بھی۔ وہ کشتی میں ہمارے پیچھے آ رہے ہیں۔ کیا آپ کے گھر میں ٹیلی فون ہے؟”تزئین بولی“جی ہاں۔ ہے۔ لیکن یہ سارے لوگ کون ہیں؟ اور صغیر ان کے ساتھ کیوں ہے؟“ جاوید صاحب بولے “۔
آپ کو سب کچھ بہت جلدی ہی معلوم ہو جائے گا میں سب سے پہلے ٹیلی فون کرنا چاہتا ہوں پھر کچھ اور کروں گا ذرا مجھے ٹیلی فون تک لے جاﺅ آپ بہت اچھی بچی ہو۔ جاوید صاحب نے ٹیلی فون پر پیغام دیا کہ چار پانچ موٹر بوٹ ساحل پر بھجوا دی جائیں جو ان مجرموں کو آ کر لے جائیں چچی جن کا دل بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا انہوں نے بڑی حیرت سے ساری باتیں سنیں لیکن وہ سوچ رہی تھیں کہ ان سب باتوں کا آخر مطلب کیا ہے؟“ لیکن وہ جلد ہی سمجھ گئیں جب لڑکے پرویز صاحب کو لیکر گھر آئے۔ انہوں نے چچی کو ساری کہانی سنائی اور وہ خوف سے ایک کرسی میں سکڑ کر بیٹھ گئیں جب انہیں معلوم ہوا کہ صغیر کتنا ظالم اور خطرناک ہے؟ پرویز صاحب بولے بہت ہی چالاک آدمی ہے لیکن اس دفعہ قابو میں آ ہی گیا ہے لیکن یہ صرف ان چار ذہین بچوں کی وجہ سے ممکن ہو سکا ہے”عنریق بولا“ یہ بہت مزے دار کہانی ہے ہم ویران جزیرے پر عظیم آک کو ڈھونڈنے گئے تھے لیکن ہمیں ملا کیا؟ کانوں میں نوٹ چھانے والی مشینوں پر جعلی نوٹ چھاپنے والا مجرموں کا گروہ”چچی سختی سے بولیں“ اگر مجھے پتا ہوتا کہ سونے کی بجائے اس طرح کی سرگرمیوں مصروف رہتے ہو تو میں تمہیں تمہارے کمروں میں بند کر دیتی“ کی کی جو چچی کے اردگرد اڑ رہا تھا بولا ”شرارتی لڑکی۔ چچی شرارتی لڑکی“ جب کاریں آئیں تو پرویز صاحب اور لڑکے بہت مزیدار کھانا کھا رہے تھے مجرموں کو ان کاروں میں سوار کروا کر تیزی سے بھجوا دیا گیا۔ پھر جاوید صاحب بھی سب کو خدا حافظ کہہ کر روانہ ہو گئے۔ وہ جاتے وقت کہنے لگے۔
”پرویز صاحب بہت اچھا کام کیا آپ نے اور ان بچوں کا تو کیا ہی کہنا۔ انہیں شاباش ملنی ہی چاہئے“ اور واقعی انہیں ہر طرف سے شاباش ملی۔ اگلے دو دن اتنے مزے کے اور مصروف تھے کہ ان بچوں میں سے کوئی بھی نیند پوری نہیں کر سکا لیکن ایک چیز انہیں کرنی پڑی۔ انہیں قریب کے بڑے شہر میں دو تین دفعہ جانا پڑا اور ان مجرمان کے بارے میں بتانا پڑا پرویز صاحب نے عنریق سے بڑی رازداری سے پوچھا کیا تمہارے پاس دھات کے ان خالی کھانے کے ڈبوں کی تصویر ہے جو تم نے جزیرے پر کھینچی تھی۔ صغیر انکار کر رہا ہے کہ وہ کھانا جزیرے تک نہیں پہنچاتا رہا۔ہمیں اس کے تہہ خانے سے کچھ اسی طرح کے خالی ڈبے مل ہیں اب تمہاری تصویر سے ان ڈبوں کو پہنچان سکیں گے“ ایک معمولی عام سی کھینچی ہوئی تصویر بھی اہم ہو گئی تھی۔پرویز صاحب اس تصویر کو مجرمان کے خلاف شہادت کی حیثیت دیتے تھے ایک اور معمولی لیکن اہم چیز عنریق کا تانبے کا ٹکڑا تھا لڑکے کو بہت مایوسی ہوئی جب اسے معلوم ہوا کہ وہ ٹکڑا زیادہ قیمتی نہیں ہے لیکن وہ اس ساری مہم کی یادگار کے طور پر بہت اہم تھا۔
عنریق بولا”میں اسے اپنے سکول میں لے جاﺅں گا اور اپنے سکول کے عجائب گھر میں محفوظ کروں گا۔”سبھی لڑکے اسے دیکھنا چاہیں گے اسے چھو کر دیکھیں گے اور اس کی کہانی پوچھیں گے وہ سن کر بہت حیران ہوں گے ہر کوئی اتنا خوش نصیب نہیں ہوتا کہ اسے تانبے کی کانوں میں گم شدہ کئی سو سالوں سے ایک تانبے کا ٹکڑا مل جائے پس مجھے افسوس ہے کہ یہ زیادہ قیمتی نہیں ہے کیونکہ میں اسے بیچنا چاہتا تھا تاکہ بیچ کر میں رقم سب میں تقسیم کروں گا”نایاب بولی“ پھر تو بہت مزا آتا۔ تزئین اور معاذ کے حصے میں جو رقم آتی وہ ان کے سکول کے اخراجات دینے کے کام آتی تاکہ ان کی امی اور چچی کچھ دیر تو پیسے پر دھیان دینے کی بجائے آرام کر لیتیں۔ کاش ہمیں اس کے بدلے بہت سی رقم مل جاتی لیکن ان کا یہ مسئلہ زیادہ دیر تک نہیں رہا بلکہ جلد ہی حل ہو گیا کیونکہ ان چاروں کو بہت سے روپے ایک اور ذریعے سے مل گئے۔ اس بات کے لئے پہلے ہی بہت بڑے انعام کا اعلان حکومت کی طرف سے ہو چکا تھا اگر کوئی اس خطرناک گروہ کے بارے میں اطلاع دے تو ۔اور اس اطلاع سے یہ گروہ گرفتار ہو جائے لامحالہ یہ رقم چاروں بچوں کو دی گئی لیکن پرویز صاحب کو بھی ان کا حصہ ملا۔ معاذ کی امی یہ حیران کن مہم کا سن کر گھر واپس آئیں۔
نایاب اور عنریق کو وہ بہت پسند آئیں ان میں وہ سب خوبیاں تھیں جو بچے اچھی ماﺅں میں ڈھونڈتے ہیں۔ عنریق معاذ سے کہنے لگا”وہ صرف ماں ہیں۔ یہ پیسے کمانے والی بات ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ انہیں گھر میں رہ کر ماں کی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں اور ان کا ایک چھوٹا سا اپنا خوبصورت سا گھر ہو جہاں وہ تمہارے اور تزئین کے ساتھ خوش رہ سکیں”تزئین کی آنکھوں میں چمک تھی وہ بولی“ہم جا رہے ہیں۔ ہم ضرور جا رہے ہیں۔ ہم دونوں کے حصے میں اتنی رقم آئی ہے جس سے ہم اپنا گھر بھی لے سکتے ہیں اور امی محنت طلب کام کرنا بھی ختم کر سکتی ہیں ہم نے سارا پروگرام بنا لیا ہے اور تم بہن بھائی کیا ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ تم ہرگز اپنے بوڑھے تایا کے پاس جانا نہیں چاہتے اور ایک بوڑھے ملازم کے پاس بھی“ نایاب جس کی آنکھیں ستاروں کی طرح چمک رہی تھیں فوراً منہ بولے بھائی معاذ کے پاس پہنچی اور اس کے گلے میں محبت سے باہیں حمائل کر دیں۔ تزئین نے کبھی ایسا نہیں کیا تھا لیکن معاذ کو محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس محبت کے جذبے کو پسند کرتا ہے۔
نایاب بولی“ اس سے اچھی بات تو ہو ہی نہیں سکتی۔ ہم تمہارے اور تمہاری امی کے ساتھ بہت خوش رہیں گے لیکن کیا تمہاری امی ہمیں اپنے پاس رکھ لیں گی؟“ تزئین بولی“کیوں نہیں۔ ہم نے خاص طور پر ان سے پوچھا تھا تو وہ بولیں کہ میں دو بچوں کی ماں نہیں ہوں بلکہ چاروں کی ہوں“عنریق کے ذہن میں ایک شبہ تھا وہ اس نے دور کرنے کے لئے پوچھا“ کی کی بھی ہمارے ساتھ رہے گا“ تو معاذ اور تزئین یک زبان ہو کر بولے ”بالکل۔ کیوں نہیں“یہ تو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جہاں وہ رہیں گے کی کی ان کے ساتھ نہیں ہو گا۔ عنریق بولا”تو پھر تمہارے چچا آصف اور چچی کا کیا بنے گا“ میں تمہاری بیچاری چچی کے بارے میں سوچتا ہوں۔ ان کو اس تباہ حال مکان میں نہیں رہنا چاہئے اکیلی چچا کو وہ کیسے سنبھالیں گی وہ خود بھی بیمار اور کمزور ہیں”تزئین بولی“ اب انہیں یہ مکان چھوڑنا ہو گا کیونکہ کنویں کا پانی نمکین ہو گیا ہے۔
سمندر کا پانی اس میں مل گیا ہے اور اس کا پانی اسی پرانے خفیہ راستے سے سمندری سیلاب آنے کی وجہ سے نمکین ہوا ہے اب کنویں کے پانی کو پینے کے قابل کرنے کے لئے بہت زیادہ رقم کی ضرورت ہے۔ اب چچا اور چچی کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ کہیں اور رہیں گے یا یہاں نمکین پانی کی وجہ سے پیاسا مرنا ہے”سب مسکرائے۔ معاذ کہنے لگا“ چلو صغیر نے جانے سے پہلے کچھ تو اچھا کام کیا اس نے چچا کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ کہیں اور جا کر بس جائیں اور اس بہانے سے چچی کو بھی ان کی مرضی کا چھوٹا سا گھر مل جائے گا جہاں صغیر جیسا چالاک آدمی بھی ان کے ساتھ نہیں ہو گا”نایاب جھرجھری لیکر بولی“ توبہ صغیر کتنا خوفناک آدمی تھا۔ مجھے اس سے نفرت ہے اور مجھے خوشی ہے کہ اب وہ کئی سالوں تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہے گا میں بڑی ہو چکی ہوں گی جب وہ جیل سے باہر آئے گا اور پھر میں اس سے نہیں ڈروں گی۔
پھر پرویز صاحب اپنی کار میں آئے ان کی کار میں صاف پانی کی بہت سی بوتلیں تھیں کیونکہ کوئی بھی کنوئیں کا پانی اب نہیں پی سکتا تھا۔ بچے بہت خوش تھے۔ پرویز صاحب ایک تھرموس میں گرم گرم چائے بھی لیکر آئے تھا۔ جو انہوں نے گھر کے بڑوں کو دی۔ پرویز صاحب کھانے تک رکے۔ معاذ کی آستین سے سے اسکا چوہا بھی شاید ان کے کھانے کا انتظار کر رہا تھا۔ تزئین کی حالت اسے دیکھ کر خراب ہو گئی۔ وہ غصے میں آ گئی اور باقی سب ہنسنے لگے۔ نایاب نے اپنے اردگرد ہنستے مسکراتے لوگوں کو دیکھا تو خود بھی خوش ہو گئی اب وہ ایک ایسے بڑے کے ساتھ رہنے جا رہی تھی جو سب کو پسند تھیں۔ سب معاملات ٹھیک ہو گئے تھے۔ کیا مزے کی بات تھی کہ وہ اور عنریق کچھ ہفتے قبل رائے صاحب سے فرار ہو کر یہاں پنچے تھے۔ نایاب اونچی آواز میں بولی ”بہت شاندار مہم تھی“
شکر ے یہ بخیر انجام کو پہنچی” معاذ فوراً بولا” مہم ختم ہونے تک جو حیرت انگیز واقعات رونما ہوتے ہیں وہی سب سے مزے کی بات ہوتی ہے۔ مجھے تو افسوس ہو رہا ہے کہ یہ اتنی جلدی ختم ہو گئی“ کی کی کے بولنے کی باری آخر میں ہی آتی تھی بولا ”کیا مصیبت ہے۔اب پاﺅں صاف کرو۔ دروازہ بند کر دو۔ کیتلی چولہے پر چڑھا دو اور اللہ ہی خیر کرے“
٭٭٭٭٭