skip to Main Content

مورا سے فرار

رفیع الزماں زبیری 
۔۔۔۔۔
سمندر کا سفر
بہت دنوں سے میں سوچ رہا تھا کہ اپنی زندگی کا وہ عجیب و غریب واقعہ لکھوں جس نے مجھے آج اس مقام پر پہنچایا جہاں میں ہوں۔ میں ایک بڑے کاروبار کا مالک ہوں۔ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں میں میرے مال کے خریدار ہیں۔ میرے اپنے جہاز ہیں جو میرا مال لے کر ان ملکوں کو جاتے ہیں۔ میری زندگی کا ایک اصول ہے’ دیانت داری‘ اور اس اصول پر میں سختی سے قائم ہوں۔ مجھے چاہے فائدہ ہو یا نقصان، میں کبھی اپنے اس اصول کو نہیں توڑتا۔ میرے ملازم بھی اس اصول پر سختی سے قائم رہتے ہیں کیوں کہ ان کی ملازمت کی پہلی شرط ہی یہ ہوتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میرے کاروبار میں اللہ نے برکت دی ہے اور آج بہت عزت کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہا ہوں۔ مجھ پر لوگ بھروسا کرتے ہیں اور میں نے آج تک کسی کے ساتھ کبھی کوئی دھوکا نہیں کیا۔
اپنی ابتدائی زندگی ہی میں مجھے ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا جس نے میرے دل میں ایمان داری اور شرافت کی روشنی پیدا کر دی۔ مجھے یاد نہیں کہ میرے والدین کون تھے۔ میں ابھی بچہ ہی تھا کہ میرے باپ کا انتقال ہو گیا۔ ان کے مرنے کے چند ماہ بعد ہی میری والدہ بھی اس دنیا سے سدھار گئیں اور میں اکیلارہ گیا۔ میرے ایک چچا تھے۔ ان کے کوئی اولاد نہ تھی، انھوں نے مجھے پال لیا اور میں ان کے ساتھ رہنے لگا۔ وہ غریب آدمی تھے۔ چھوٹا موٹا کار وبار کرتے تھے۔ ان کی عمر بھی زیادہ تھی۔ جب میں ذرا بڑا ہوا تو انہوں نے مجھے پڑھنے بٹھا دیا۔ پہلے مکتب میں قرآن پاک پڑھا اور پھر مدر سے جانے لگا۔
میں بچپن سے خاموش رہتا تھا۔ زیادہ لوگوں سے ملتا جلتا نہیں تھا۔ میرے دوست بھی بس دو ایک تھے۔ مدرسے سے آکر چچا کا ان کے کام میں ہاتھ بٹاتا تھا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے اور میں بھی ان کا بڑا خیال رکھتا تھا۔ اس طرح دن گزرتے چلے گئے۔ میں ہوشیار تو تھا ہی، پڑھنے میں دل بھی لگتا تھا، اس لیے اپنے سب ساتھیوں سے آگے تھا۔ ایک دن اچانک میرے بوڑھے چچا کا انتقال ہو گیا اور میں ایک بار پھر اس دنیا میں اکیلا رہ گیا۔ چند دنوں تک تو میری سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کروں۔ دن رات روتا رہتا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ رونے دھونے سے کیا فائدہ۔ ہمت اور حوصلے سے کام لینا چاہیے۔ انسان پر مشکل وقت آتا ہے تو ہمت ہی سے اس کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ میں نے اپنے چچا سے بھی یہی سبق سیکھا تھا۔ چنانچہ میں اپنے چچا کے ایک دوست کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ وہ چچا کی دکان خرید لیں۔ میرا دل اب اس جگہ نہیں لگتا تھا اور میں یہاں سے کہیں اور چلا جانا چاہتا تھا۔ میرے چچا کے دوست نے پہلے تو مجھے یہی مشورہ دیا کہ میں اب دکان پر بیٹھنے لگوں اور وہ جو کچھ مدد ہو گی کر دیا کریں گے لیکن جب انہوں نے یہ دیکھ لیا کہ میں نے اپنی زندگی خود بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے تو انہوں نے دکان مجھ سے خرید لی۔
میری عمر اس وقت شاید پندرہ برس ہوگی۔ اب میرے پاس تھوڑا سا سرمایہ بھی تھا۔ میں اپنے قصبے سے نکل کر شہر کی طرف چلا جو ساحل سمندر پر ایک کار وباری منڈی تھا۔ شام کے وقت میں وہاں پہنچا۔ ایک چھوٹا سا ہوٹل دیکھ کر ٹھہر گیا۔ تھکا ہوا تھا، کھانا کھاتے ہی سو گیا۔ صبح اٹھا تو میرا بکس کھلا پڑا تھا۔کپڑے بکھرے پڑے تھے اور میری پونجی غائب تھی۔ اس وقت میری جو حالت ہوئی ،اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں۔ ایک اجنبی شہر اور میں بے یار و مددگار۔ میرے پاس ان چندرپوں کے سوا اور کچھ نہ تھا جو اس وقت میری جیب میں تھے۔ مجھے رونا آگیا لیکن پھر مجھے یاد آیا کہ ہمت اور حوصلے سے ساری مشکلیں آسان ہو جاتی ہیں۔ میں نے آنسو پونچھ ڈالے، اللہ سے مدد مانگی اور ہوٹل سے نکل کر بندرگاہ کا رخ کیا۔
مجھے جہازوں کے سفر سے کچھ دلچسپی نہ تھی۔ میں نے کبھی جہاز دیکھا بھی نہ تھا۔ مگر اب مجھے نوکری کی تلاش تھی اور مجھے یہیں کام ملنے کی امید تھی۔ میں نے ایک جہاز کو دیکھا جو سفر کے لیے تیار تھا۔ میں ہمت کر کے اس کے کپتان کے پاس گیا اور اس سے ملازمت مانگی۔ کپتان ایک رحم دل انسان تھا۔ میرے حالات سنے تو ہمدردی پیدا ہوئی، پھر میری ہمت دیکھی تو مجھے جہاز پر ملازم رکھ لیا۔دوسرے دن صبح جہاز نے لنگر اٹھایا اور اپنے سفر پر روانہ ہو گیا۔ میں نے آخری بار اپنے وطن کی سرزمین پر نظر ڈالی اور جدائی کے خیال سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔
کپتان راجرز دبلا پتلا چھوٹے قد کا مضبوط آدمی تھا۔ وہ اپنی عمر کا بڑا حصہ سمندر میں گزار چکا تھا۔ اس کے چہرے کی جھریاں اس کی عمر اور تجربے کا پتا دیتی تھیں۔ اس کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی۔ وہ دل کا بہت اچھا تھا۔ سب ہی کے ساتھ اس کا برتائو محبت اور شفقت کا تھا۔ اس کے اس برتا ئوہی کی وجہ سے جہاز پر ہر شخص اس کی عزت کرتا تھا۔
جہاز پر میری پہلی ملاقات ایک خلاصی سے ہوئی جس کا نام مارٹن تھا۔ وہ عمر میں مجھ سے بہت بڑا تھا لیکن بہت جلد وہ میرا دوست بن گیا۔ وہ میرا بڑا خیال رکھتا تھا۔ جہاز پر میری زندگی کے پہلے دن سونے میں گزرے۔ سمندر کا سفر میں نے کبھی نہ کیا تھا۔ میں بیمار پڑ گیا اور کئی دن تک اپنے کیبن میں پڑا رہا۔ بڑی مشکل سے کبھی کبھار اپنے کیبن سے باہر آتا۔ مجھ سے جہاز پر ٹھیک طرح چلا بھی نہ جاتا۔ پھر آہستہ آہستہ میری صحت ٹھیک ہو گئی اور میں دوسرے ملاحوں اور خلاصیوں کی طرح جہاز پر کام کرنے لگا۔
مارٹن میرا حوصلہ بڑھایا کرتا۔’’ دیکھو بھئی! سمندر کے سفر میں شروع شروع میں تو تکلیف ہوتی ہی ہے۔ پھر جب ایک دفعہ عادت پڑ جاتی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے ساری عمر سمندر ہی میں سفر کرتے گزری ہے ۔‘‘
  مارٹن بڑے مضبوط اور طاقتور جسم کا مالک تھا، دوسرے ملاحوں پر اس کا کافی رعب تھا۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ اس نے مجھے اپنا دوست بنالیا تھا۔ اسے میری کم عمری اور میرے حالات کی وجہ سے میرے ساتھ ہمدردی پیدا ہو گئی تھی۔ اور وہ مجھے کام سکھاتے ہوئے خوشی محسوس کرتا تھا۔ میں مسلمان تھا اور وہ عیسائی مگر وہ میرے ساتھ ایسا ہی برتاؤ کرتا تھا جیسے میں اس کا بیٹا ہوں۔ وہ مجھے ہر بات بتاتا کہ کیسے کرنا چاہیے اور میں بھی بڑے شوق میں سیکھتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میں بہت جلد سمندر کے سفر اور جہاز پر کام سے متعلق تمام باتوں سے آگاہ ہو گیا۔ یہ معلومات بعد میں میرے بہت کام آئی۔
جہاز کی زندگی بڑی سخت اور مشقت کی تھی۔ کھانے کو بھی موٹا جھوٹا ملتا تھا۔ اس کے باوجود میں اپنے کام میں مگن تھا اور اپنی پرانی زندگی کو قریب قریب بھول چکا تھا۔ لیکن مجھے اپنی پڑھائی چھوٹ جانے کا افسوس تھا اور چچا کی شفقت بھی یاد آتی تھی۔
جہاز ’’سٹی ہاک ‘‘جس پر میں کام کر رہا تھا، اچھا جہاز تھا۔ موسم بھی اب تک اچھار ہا تھا اور سمندر بھی بڑی حد تک پر سکون تھا۔ یہ بھی میری خوش قسمتی تھی ورنہ شاید میں پہلے ہی بد دل ہو جاتا۔ ہم مشرق کی سمت جارہے تھے اور جہاز پر اچھے موسم کی وجہ سے سب خوش تھے۔ اس دوران میں ہم کئی علاقوں کے ساحل سے گزرے۔ چند بندر گاہوں میں ہمارا جہاز لنگر انداز بھی ہوا لیکن مجھے ان جگہوں کی سیر کا لطف اٹھانے کا موقع نہیں مل سکا۔ کپتان کا حکم تھا کہ میں جہاز پر ہی رہوں۔ شاید وہ نہیں چاہتا ہو گا کہ میں نئی جگہ پر کسی مصیبت میں پھنس جاؤں ۔
مگر وہ جو کہتے ہیں کہ خوشی کے دن تھوڑے ہوتے ہیں تو ہماری خوشی کے دن بھی بہت جلد بیت گئے اور ہم اچانک ایک طوفان میں گھر گئے۔ ایک رات میں گہری نیند سویا ہوا تھا کہ شور کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ کوئی چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔ ’’عرشے پر چلو ،عرشے پر چلو۔ ‘‘
میں چونک پڑا اور جلدی جلدی کپڑے بدل کر دوسرے خلاصیوں اور ملاحوں کے ساتھ عرشے پر آگیا۔ چوں کہ مجھے جہاز رانی کا زیادہ علم نہیں تھا، اس لیے اس سیاہ اندھیری رات میں مجھے کچھ اندازہ نہیں ہوا کہ ہمارا جہاز کہاں ہے مگر مجھے یہ پتا تھا کہ ہم نیو گنی کے ساحل کے قریب سفر کر رہے تھے۔
میں لڑکھڑاتا ہوا جب عرشے پر پہنچا تو عجیب وحشت ناک منظر نظر آیا۔ میں جب رات کو سونے لیٹا تھا تو موسم ٹھیک تھا لیکن اب ہم ایک طوفان میں گھرے ہوئے تھے۔ ہوا کے شور سے کانوں کے پردے پھٹے جاتے تھے اور اس کی تیزی سے بادبانوں کے ٹکڑے ہوئے جاتے تھے۔ سمندر کی موجیں ایسا لگتا تھا جیسے جہاز کو نگل جائیں گی۔ اس طوفان میں ہمارا جہاز کاغذ کی ناؤ کی طرح ہچکولے کھا رہا تھا۔ کپتان راجرز عرشے پر کھڑا ہدایات دے رہا تھا۔ اس مصیبت کے وقت اس کی ہمت دیکھنے کے قابل تھی۔ میں تو طوفان کو دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا۔ میں نے ایسا طوفان کہاں دیکھا تھا لیکن کپتان راجرز کے چہرے پر ایسا اطمینان تھا کہ میرا حوصلہ بھی بڑھ گیا۔ میرے دل میں اس کی عزت اور زیادہ ہو گئی۔
وقت کے ساتھ ساتھ طوفان بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ ہوا بادبانوں میں سے سیٹیاں بجاتی ہوئی گزر رہی تھی۔ موجیں اتنی زور سے جہاز سے ٹکرا رہی تھیں کہ جیسے اسے توڑ کر دم لیں گی۔ یوں لگتا تھا کہ جہاز اب تھوڑی دیر میں ڈوب جائے گا اور ہم سب اس کے ساتھ سمندر کی تہ میں چلے جائیں گے۔ کپتان راجر ز طوفان کی شدت سے ذرا بھی پریشان نظر نہ آتا تھا۔ وہ ایک نڈر اور بہادر انسان کی طرح جہاز کے ملاحوں کو ضروری ہدایتیں دے رہا تھا۔
اگر چہ کپتان اور ملاح سب ہی ہمت سے کام لے رہے تھے اور جہاز کو اپنے راستے پر رکھنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن طوفان کے آگے بے بس نظر آرہے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے ’’سٹی ہاک ‘‘کی تباہی مقدر ہو چکی ہے۔ موجیں اوپر اٹھ رہی تھیں اور جہاز کبھی ان کے ساتھ اوپر اٹھتا اور کبھی نیچے جاتا۔ طوفانی ہوا کا شور پریشان کیے دیتا تھا۔ اچانک ایک زور کی آواز آئی کوئی چیخا:
’’ ارے بچاؤ! ڈوب گئے۔‘‘
  ایک طاقتور لہر اچھل کر اوپر آئی اور ہمارے دو ساتھیوں کو عرشے پر سے اٹھا کر سمندر میں لے گئی۔ پھر ان کا کچھ پتا نہ چلا۔ ہم سب بے بس کھڑے دیکھتے رہ گئے۔ کوئی ان بیچاروں کی مدد نہ کر سکا۔ اپنے ساتھیوں کو سمندر میں گم ہوتے دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ طوفانی ہوا اور بپھری ہوئی موجیں جہاز کو اس سیاہ اندھیری رات میں تنکے کی طرح بہائے لیے چلی جارہی تھیں۔ ہر لمحہ ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اب جہاز الٹ جائے گا۔ موجوں کے زور سے جہاز کبھی اٹھ کر آسمان سے باتیں کرنے لگتا اور کبھی گر کر نیچے گہرائیوں میں چلا جاتا۔ غرض کہ دو گھنٹے یہی حالت رہی اور ہم موت اور زندگی کے درمیان لٹکتے رہے۔ پھر ہوا کا زور کم ہونا شروع ہوا اور اس کے ساتھ ہی امید کی ایک کرن ہمارے دلوں میں چمکنے لگی۔
مارٹن نے چلا کر کہا۔ ’’بس اب ہم بچ جائیں گے ۔‘‘
  کپتان راجرز نے بھی اطمینان کا سانس لیا۔ یہ اس کی ہمت اور قابلیت تھی جس نے جہاز کو اس طوفان میں بے قابو نہیں ہونے دیا ورنہ شاید ہمارا بھی وہی حشر ہو تا جو ہمارے دو بدقسمت ساتھیوں کا ہوا۔ میرے کانوں میں ابھی تک ان کی خوفناک چیخیں گونج رہی تھیں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا جسے میں دل ہی دل میں یاد کر رہا تھا۔
مارٹن میرے پاس آیا اور محبت سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا:
’’عبدل (وہ مجھے عبدل ہی کہتا تھا) موت کا فرشتہ جہاز کے عرشے پر اکثر آتا جاتا ہے مگر بیٹے گھبراؤ نہیں۔ ہماری زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر دل صاف ہے تو موت سے کیا گھبرانا ۔‘‘
طوفان رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا۔ سمندر بھی خاموش ہونا شروع ہو گیا۔ لیکن آسمان پر گہرے بادلوں کی وجہ سے اند ھیرا اسی طرح چھایا ہوا تھا۔ کپتان راجرز اور اس کے نائب کے علاوہ کسی کو بھی یہ اندازہ نہ تھا کہ جہاز کس سمت کو جا رہا ہے۔ تھوڑی دیر میں ہم میں کچھ اپنے کپڑے بدلنے کے لیے جو موجوں کے تھپیڑوں سے گیلے ہو گئے تھے نیچے چلے گئے۔ باورچی نے کافی بنادی تھی، وہ پی کر تازہ دم ہوئے اور پھر اوپر عرشے پر چلے گئے۔ جو ملاح وہاں رہ گئے تھے، وہ نیچے آ گئے۔ مگر میرے لیے اب کوئی کام کرنے کو نہ تھا۔ اگلے دن دوپہر کو ایک نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ میں مارٹن کے پاس کھڑا رات کے طوفان کے بارے میں باتیں کر رہا تھا کہ جہاز کا بڑھئی بڑی گھبراہٹ کے ساتھ ادھر سے گزرا اور اس کے بعد ہی کپتان راجر ز ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے، ’’جہاز میں پانی آرہا ہے۔ جاؤا سے نکالو ۔‘‘
مارٹن بولا، ’’یہ بہت برا ہوا۔ معلوم ہوتا ہے جہاز میں سوراخ ہو گیا ہے۔ چلو پانی نکالیں۔ محنت سے ذرا گر می بھی آجائے گی ۔‘‘
یہ بڑی اچھی بات تھی کہ ’’سٹی ہاک ‘‘پر کوئی محنت سے جی نہیں چراتا تھا۔ ہر شخص پوری مستعدی سے جہاز میں سے پانی نکالنے میں لگ گیا مگر مسلسل کوشش کے باوجود جہاز میں پانی آتا ہی گیا۔ ذراسی دیر ہی میں معلوم ہو گیا کہ جہاز میں کوئی اتنا بڑا چھید ہو گیا ہے کہ ہم اسے بند نہیں کر سکتے۔ اس وقت ایک خرابی یہ اور تھی کہ فضا میں دھند چھائی ہوئی تھی اور چند گزسے آگے کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ ایک ملاح نے جس کا نام والٹن تھا ،بڑی بے چینی سے مارٹن سے پوچھا۔ ’’تمھیں کچھ اندازہ ہے بھلا اس وقت ہم کہاں ہیں؟ ‘‘
مارٹن نے بڑے اطمینان سے جواب دیا، ’’کچھ خبر نہیں۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ ہمارا جہاز ایک لائق کپتان کے ہاتھ میں ہے۔ جب تک وہ زندہ ہے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ وہ بچائو کی کوئی نہ کوئی صورت نکال لے گا۔ کیوں بھئی میں ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟‘‘اس نے اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرف دیکھ کر کہا۔ سب ایک ساتھ بول اٹھے۔
’’ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو تم مارٹن !‘‘
  جہاز میں سے پانی نکالنا بڑی محنت کا کام تھا اور اگر چہ میرا جوڑ جوڑ دکھنے لگا تھا مگر میں دوسرے خلاصیوں کے ساتھ برابر اس کام میں لگا رہا۔ آہستہ آہستہ دو پہر شام میں ڈھل گئی اور دھند اور گہری ہو گئی۔ میں دل میں بہت پریشان تھا۔ چپکے چپکے اللہ سے دعا مانگ رہا تھا کہ وہ ہمیں اس مشکل سے نکالے۔ دوسرے خلاصی اور ملاح بھی پریشان تھے مگر مارٹن کی خوش مذاقی اور اپنے کپتان پر ان کا بھروسا انھیں حوصلہ دیتار ہاور نہ شاید وہ بالکل ہی ہمت ہار دیتے۔ اپنے بچاؤ کی ہم سر توڑ کوشش کر رہے تھے اور ایک دوسرے کو یقین بھی دلا ر ہے تھے کہ ہم جلد ہی اس مشکل سے نکل جائیں گے لیکن دل ہی دل میں ڈر رہے تھے۔ میرا تو کم از کم یہی حال تھا۔
مارٹن نے میری کیفیت بھانپ لی تھی۔ وہ مجھے لے کر اوپر آگیا تا کہ میں کچھ سستالوں۔ وہ مجھ سے کہنے لگا ،’’بیٹے ہمت نہ ہارنا۔ دل مضبوط رکھنا۔ اگر صبح تک جہاز تیر تارہا تو شاید ہمیں کنارہ نظر آجائے۔‘‘
’’اور اگر نظر نہ آیا؟‘‘میں نے پوچھا ۔
’’تو بیٹا پھر اللہ حافظ ہے۔ ’’سٹی ہاک‘‘ ایک دن سے زیادہ عرصے تک سلامت نہیں رہ سکتا ۔‘‘ اس نے بڑی متانت سے جواب دیا۔
طوفان میں
میں نے نیچے آکر چند  بسکٹ کھا کر گرم گرم کافی پی اور کرسی سے ٹیک لگا کر چاہا کہ کچھ دیر آرام کرلوں کہ ایک خلاصی لڑکھڑاتا ہوا آیا۔ یہ ایڈ مز تھا۔ بڑا تن درست اور توانا، لیکن اب اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ وہ بڑی دیر سے پانی نکال رہا تھا اور صاف لگ رہا تھا کہ تھک گیا ہے۔ مارٹن نے جلدی سے اٹھ کر اسے سہارا دے کر کرسی پر بٹھایا اور کافی کا پیالہ اس کے سامنے میز پر رکھ کر کہنے لگا:
’’تھک گئے میرے دوست، لو کافی پیو۔ تازہ دم ہو جاؤ گے۔ نیچے کیا حال ہے؟‘‘
ایڈ مزنے کافی کا ایک گھونٹ لیا، پھر بولا، ’’بُرا حال ہے۔ جہاز میں کئی سوراخ ہو گئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے جہاز کسی چٹان سے ٹکرا گیا ہے ۔‘‘
’’ صبح تک بچ سکتا ہے؟ ‘‘
ایڈ مزنے میری طرف دیکھا جیسے میری موجودگی میں وہ اس سوال کا جواب دینا نہیں چاہتا ہو، پھر کہہ اٹھا:
  ’’بس زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے اور۔ اگر طوفان پھر آگیا تو اتنی دیر بھی نہیں ۔‘‘
’’آس پاس کوئی اور جہاز نہیں ہے؟ ‘‘میں نے پوچھا۔
ایڈ مز نے سر ہلا کر کہا :’’کپتان کے سوا کسی کو پتا نہیں کہ ہم کہاں ہیں۔ بلکہ میرا تو خیال ہے خود کپتان کو بھی اب صحیح اندازہ نہیں ۔‘‘ پھر وہ مجھ سے پوچھنے لگا کہ کیا میرے پاس تیرنے کی پیٹی ہے؟
میں نے اسے بتایا کہ نہیں۔ اس پر اس نے مارٹن سے کہا، ’’فائدہ تو اس سے کیا ہو گا مگر مارٹن تم عبداللہ کو تیرنے کی پیٹی لاہی دو تو اچھا ہے۔ ‘‘
مارٹن بولا :’’کیسی باتیں کرتے ہو۔ ہم کون سے موت کے منہ میں جار ہے ہیں۔ جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا۔ چلو عبدل! اب پانی نکالنے کی ہماری باری ہے۔ ‘‘
امید کے خلاف جہاز تیر تا رہا اور صبح ہو گئی۔ جب ذرا روشنی پھیلی تو جہاز پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جہاز برابر آگے بڑھتا چلا جارہا تھا لیکن دھند اب بھی اتنی زیادہ تھی کہ یہ اندازہ ہی نہیں ہو رہا تھا کہ ہم کہاں ہیں۔ ہمارا جہاز ہوا اور سمندر کی لہروں کے رحم و کرم پر تھا، وہ جدھر چاہ رہی تھیں اسے بہائے لیے جارہی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر میں کپتان راجرز آکر ہمیں تسلی دے جاتے کہ ہم بحر جنوبی کے جزیروں کے بہت قریب ہیں اور انھیں یقین ہے کہ بہت جلد ہمارا جہاز ان میں سے کسی جزیرے کی بندرگاہ میں صحیح و سلامت پہنچ جائے گا۔ اللہ ہی جانے انہیں خود بھی اس بات پر یقین تھا یا نہیں تاہم ان کی باتوں سے ہم ضرور مطمئن ہو جاتے تھے اور شاید ان کا مقصد بھی یہی تھا۔
اب دو پہر ہو گئی تھی اور جہاز کے بڑھئی نے آکر یہ خوش خبری سنائی کہ جہاز میں پانی کم ہوتا جارہا ہے۔ اس سے ہماری ہمتیں اور بڑھ گئیں اور ہم نے زیادہ محنت سے پانی نکالنے کا کام شروع کر دیا۔ دھند ابھی تک تھی۔ اگر دھند چھٹ جاتی تو ہمیں زیادہ اطمینان ہو جاتا۔ جب رات ہو گئی تو مارٹن نے مجھ سے کہا کہ میں جاکر آرام کروں۔ وہ کہنے لگا:
’’تم نے بہت محنت کی ہے۔ تم میں اتنادم نہیں ہے کہ برابر محنت کرتے رہو ۔اگر تم نے اچھی طرح آرام نہ کیا تو بے کار ہو جاؤ گے۔ پھر اب زیادہ خطرہ بھی نہیں رہا ہے۔ گھنٹے دو گھنٹے میں سارا پانی نکل جائے گا اور چھید لکڑی کے تختوں سے بند کر دیئے جائیں گے ۔‘‘
میں واقعی بہت تھک گیا تھا اسی لیے مارٹن کی بات سنتے ہی اپنے کیبن میں چلا گیا۔ خطروں میں گھرے ہونے کے باوجود لیٹتے ہی میری آنکھیں بند ہونے لگیں اور میں بہت جلد گہری نیند سو گیا۔ جہاز کے تمام خلاصی دل کے اچھے تھے اور میری کم عمری کی وجہ سے میرا بڑا لحاظ کرتے تھے، چنانچہ میں چار پانچ گھنٹے آرام سے سوتا رہا اور کسی نے مجھے نہیں جگایا۔ میں اسی طرح غافل سو رہا تھا کہ ایک دھماکے کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی اور میں گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ نیند میں میری کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔ سوچنے لگا کہ الٰہی! کیا معاملہ ہے؟ عرشے پر شور ساہور ہا تھا اور لوگوں کے ادھر ادھر دوڑنے کی آواز یں آرہی تھیں۔ میں ابھی نیند کے اثر سے پوری طرح جا گا بھی نہ تھا کہ مارٹن دوڑتا ہوا آیا اور چلا کر بولا :
’’عبدل جلدی کرو۔ جہاز ایک چٹان سے ٹکرا گیا ہے اور بس ڈوبنے ہی والا ہے۔ یہاں سے نکلو۔ کشتیاں نیچے اتار دی گئی ہیں۔‘‘
میں نے تیرنے کی پیٹی پہلے ہی لے لی تھی۔ جلدی جلدی پہنی اور مارٹن کے پیچھے ہو لیا۔ میری نیند اب غائب ہو چکی تھی۔ عرشے پر قیامت کا سماں تھا۔ ہر شخص گھبرایا ہوا تھا۔ دو کشتیاں تو پہلے ہی طوفان کی نذر ہو چکی تھیں، تیسری جو سمندر میں اتاری گئی تھی وہ بھی لوگوں سے بھر چکی تھی۔ مارٹن تیزی سے آگے بڑھا اور چیخ کر بولا:’’ لڑکے کو ساتھ لے لو ۔‘‘
مگر ہم دیر سے پہنچے تھے اور کشتی آگے جاچکی تھی۔ گہری دھند میں وہ چند لمحوں ہی میں نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ کپتان را جر ز مایوسی کے عالم عرشے پر کھڑا تھا۔ باقی ملاح اور خلاصی اس کے ارد گرد جمع تھے۔ جہاز کے بچنے کی اب کوئی امید نہ تھی اور ہر ایک یہ سمجھ رہا تھا کہ اپنی جان بچانے کی اب اسے خود فکر کرنا ہو گی۔ جہاز کے کپتان نے ایک نظر اپنے ساتھیوں پر ڈالی اور بولا:
’’ ساتھیو!اللہ تم پر رحم کرے۔ تم نے اپنا فرض خوب ادا کیا۔ اس سے زیادہ کسی انسان کے بس میں نہ تھا۔ اب ہم ایک دوسرے سے رخصت ہوتے ہیں ۔اگر تم میں سے کوئی زندہ سلامت بچ جائے تو وہ جہاز کے مالک کو بتادے کہ ہم نے جہاز کو بچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ۔‘‘
مارٹن بولا :’’بہت بہتر جناب ایسا ہی ہو گا۔‘‘
  کپتان راجرز کے الفاظ سن کر میں خوف زدہ ہو گیا۔ پہلی بار مجھے موت کا احساس ہوا۔ میں بزدل نہیں ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ چند لمحوں تک میری یہ کیفیت رہی جیسے میرے ہوش و حواس گم ہو گئے ہوں۔ پھر میں نے اللہ کو یاد کیا اور سوچا کہ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مارٹن نے جو میرے پاس کھڑا تھا محبت سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اس سے اچانک مجھ میں ایک حوصلہ سا پیدا ہوا۔ پھر وہ کہنے لگا:
’’اللہ حافظ عبدل! تمھاری زندگی کا یہ پہلا سفر اس قدر مختصر رہا۔ خیر اللہ کی مرضی۔ ہو سکتا ہے اسی میں کچھ بہتری ہو۔‘‘
  جان بچانے والی ایک اور کشتی جو پانی میں اتاری گئی تھی، جلد ہی لوگوں سے بھر گئی۔ کسی نے مجھے آواز بھی دی مگر میں گم صم کھڑا رہا اور یہ کشتی بھی آگے بڑھ گئی۔ اگر وہ جہاز کے پاس رہ بھی جاتی تو ہماری کیا مدد کرتی، اس میں گنجائش سے زیادہ آدمی بھرے ہوئے تھے اور وہ بھی جہاز کے ساتھ ڈوب جاتی۔
’’ سٹی ہاک ‘‘کچھ دیر کا مہمان تھا مگر اب تک ڈوبانہ تھا۔ چنانچہ کپتان نے حکم دیا کہ جلدی سے تیرنے کا ایک تختہ تیار کیا جائے تا کہ جو لوگ باقی رہ گئے ہیں وہ اس پر جان بچانے کی کوشش کریں۔ خطرے اور مایوسی کے عالم میں ایک ذرا سی امید بھی بڑا کام کر جاتی ہے۔ تختے کا نام سنتے ہی ہم میں ایک تیزی سی پیدا ہو گئی۔ حالانکہ اتنی جلدی میں تیار کیا ہوا تختہ کچھ زیادہ مفید ثابت نہیں ہو سکتا تھا۔ ہم فوراً کام میں لگ گئے لیکن ابھی پوری طرح فارغ نہ ہوئے تھے کہ جہاز زور سے لڑکھڑایا اور میں دو ملاحوں کے ساتھ سمندر میں جا پڑا۔
’’ سٹی ہاک‘‘ اور اپنے جہاز کے ساتھیوں کو میں نے پھر کبھی نہیں دیکھا۔ سمندر کی لمبی لمبی اور بلند لہریں مجھے اوپر نیچے اچھال رہی تھیں اور میں نیم بے ہوش اور بے بس تھا۔ جہاز اسی وقت ڈوب گیا یا کچھ دیر بعد مجھے کچھ معلوم نہیں۔ موجوں نے مجھے اس مقام سے دور کر دیا تھا اور گہری دھند کی وجہ سے مجھے یوں بھی کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ تیرنے کی پیٹی جو میرے مہربان دوست مارٹن نے دی تھی بڑی کار آمد ثابت ہوئی اور اس نے مجھے سمندر میں ڈوبنے سے بچالیا۔ میں ڈوبا تو نہیں مگر میری حالت یہ تھی میں سمندر کے ہاتھوں ایک کھلونا بنا ہوا تھا جو مجھے کبھی ادھر پھینکتا تھا اور کبھی ادھر۔ میں اس حالت میں نہ چیخا اور نہ چلا یا کیوں کہ یہ سب بے کار تھا۔ میں جانتا تھا کہ میری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ بس اللہ کو یاد کرتا رہا اور اسی کے بھروسے پر میں نے اس اندھیرے میں اپنے آپ کو سمندر کے رحم و کرم پر ڈال دیا۔ اس وقت ہوا کی چیخوں اور موجوں کے تھپیڑوں کے سوا اور کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ میرے ساتھی شاید سب ڈوب چکے تھے اور مجھے کچھ اندازہ نہیں تھا کہ میں کتنی دیر اور سمندر کی طوفانی لہروں کا مقابلہ کر سکوں گا۔
یہ کیفیت نہ جانے کب تک جاری رہی۔ میں آہستہ آہستہ اپنے ہوش و حواس کھوتا جا رہا تھا۔ مجھے اب یہ احساس بھی نہ رہا تھا کہ میں کس حال میں ہوں۔ مجھ میں نہ ہاتھ پائوں ہلانے کی قوت رہی تھی اور نہ خواہش۔
اچانک ہوا میں تیزی آگئی اور موجوں کا شور بڑھ گیا۔ پھر ایک زور کی موج آئی اور اس نے مجھے اٹھا کر اوپر پھینک دیا۔ میرا سر کسی چیز سے ٹکرایا۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھ آگے بڑھائے تو وہ ایک چٹان پر پڑے۔ سمندر کی لہریں بار بار اس چٹان سے ٹکرا رہی تھیں۔ پہلے تو میں یونہی بے حس پڑا رہاپھر ایک دم مجھے یہ احساس ہوا کہ میں ساحل کے قریب ہوں۔ میں نے بڑی ہمت کر کے اس چٹان کو پکڑ لیا اور اوپر اٹھنے کی کوشش کی۔ تھوڑی سی محنت کے بعد میں نے اپنے آپ کو پانی سے نکال لیا۔ اب میں چٹان کے سرے پر تھا جسے میں نے مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ سمندر کی طوفانی لہریں بار بار چٹان سے ٹکرا کر مجھے پانی میں کھینچنے کی کوشش کر رہی تھیں لیکن میں چٹان پر دونوں ہاتھ جمائے اوپر کی طرف کھسکتا رہا۔ جب زور کی موج آتی تو میں چٹان سے چمٹ جاتا اور پھر آگے بڑھنے کی کوشش کرتا۔ میری ہمت جواب دینے لگی تھی اور میرے ہاتھ پائوں بھی زخمی ہو گئے تھے لیکن میں آگے بڑھتا ہی گیا، یہاں تک کہ میں سمندر کی طوفانی موجوں کی زد سے نکل آیا۔ اب چٹان ہموار محسوس ہو رہی تھی گویا میں ساحل پر آگیا تھا۔ میں ہمت کر کے اٹھ کھڑا ہوا اور اندھیرے میں آگے کی طرف بھاگنا شروع کر دیا۔ تھوڑی ہی دور گیا ہوں گا کہ میرے قدم لڑکھڑائے اور میں زمین پر بے دم ہو کر گر پڑا۔ پھر مجھے خبر نہیں کہ کیا ہوا۔
نئی مصیبت
اس چٹان پر میں کتنی دیر پڑارہا اس کا مجھے کوئی اندازہ نہیں۔ میری حالت یہ تھی کہ میں نہ جاگ رہا تھا اور نہ سورہا تھا۔ تھکن اور کمزوری نے میرے جسم کی ساری طاقت چھین لی تھی۔ میں اسی طرح بے دم پڑا تھا کہ آہستہ آہستہ دھند چھٹنی شروع ہوئی اور مشرق سے روشنی کی ایک لکیر اٹھ کر آسمان پر چھا گئی۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ صبح ہو رہی تھی، سمندر کا شور کم ہو چکا تھا اور ہوا بھی تھم گئی تھی۔ اچانک مجھے یہ احساس ہوا کہ میں زندہ ہوں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ جوں جوں دن کی روشنی بڑھتی گئی چاروں طرف کا منظر روشن ہوتا گیا۔ میں نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ مشرق کی طرف دور تک سمندر ہی سمندر تھا۔ شمال اور جنوب کی طرف بھی سمندر تھا، مگر مغرب کی طرف خشکی تھی۔ جس چٹان پر میں پڑا تھا اس کے اور خشکی کے درمیان بھی پانی تھا مگر تھوڑا سا۔ یہ چٹان بھی دراصل ساحل ہی کا حصہ تھی مگر اس کا مغربی سرا پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں نے دور تک سمندر میں نگاہ ڈالی۔ ’’سٹی ہاک‘‘کا کہیں پتا نہ تھا۔ ظالم سمندر جہاز کو اور میرے ساتھیوں کو پوری طرح نکل چکا تھا۔
  میں نے چٹان اور خشکی کے درمیان پانی کا جائزہ لیا۔ یہ تھوڑا سا فاصلہ تھا لیکن میں یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ درمیان میں پانی کتنا گہرا ہو گا۔ مجھے ہر حال میں اس کو پار کرنا تھا کیونکہ میں اس چٹان پر کب تک رہ سکتا تھا۔ چنانچہ میں لڑکھڑاتا ہوا آہستہ آہستہ چٹان کے اس کنارے تک پہنچا جہاں پانی بظاہر کم نظر آرہا تھا۔ عام حالات میں، شاید ایک لمحے کو بھی نہ رکتا لیکن میری حالت یہ تھی کہ تھکن اور کمزوری نے مجھے نڈھال کر رکھا تھا اور سر چکرا رہا تھا۔ بار بار خیال آتا کہ اتنے خوف ناک سمندری طوفان سے بچ جانے کے بعد اگر پانی کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں جو بظاہر ایک جھیل کی طرح پر سکون نظر آ رہا ہے ڈوب گیا تو کتنی بد قسمتی کی بات ہوگی۔ یوں تو پانی کم نظر آرہا تھا لیکن ہو سکتا تھا کہ گہرا ہو۔ میں بار بار سوچتا کہ اس خطرے میں پڑوں یا نہ پڑوں۔ پھر سوچتا کہ اس چٹان پر بھی تو نہیں رہ سکتا آخر کار ہمت کی اور اللہ کا نام لے کر پانی میں اتر گیا۔ میں نے پہلا قدم رکھا ہی تھا کہ مجھے معلوم ہو گیا کہ پانی زیادہ گہرا نہیں اور میں اسے آسانی سے پار کر لوں گا۔ پھر بھی میں ایک ایسے بچے کی طرح جس نے ابھی چلنا سیکھا ہوا احتیاط سے آہستہ آہستہ پا ئوں رکھتا ہوا دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔ کنارے پر پہنچ کر میں نے اپنے آپ پر نگاہ ڈالی۔ میرے کپڑے پانی میں بھیگے ہوئے اور ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پائوں کے تلوے چٹان پر چڑھنے کی کوشش میں جگہ جگہ سے چھل گئے تھے اور خون نکل آیا تھا۔ میں نے چاروں طرف نگاہ ڈالی۔ سامنے کچھ دور مجھے درختوں کا ایک جھنڈ نظر آیا۔ میں اسی طرف چل دیا۔ کمزوری سے میرے قدم مشکل سے اٹھ رہے تھے۔ درختوں کے قریب پہنچا تو کیا دیکھا کہ دو بچے کھیل رہے ہیں۔ ایک لڑکا ہے اور ایک لڑکی۔ اگر چہ جنوبی علاقے کی گرم آب و ہوا کی وجہ سے ان کی رنگت بدل گئی تھی لیکن صاف لگ رہا تھا کہ وہ یورپی ہیں۔ میں ان کو وہاں دیکھ کر حیران رہ گیا۔ پھر جب ان دونوں کی نظر مجھ پر پڑی تو ان کی حیرانی مجھ سے بھی زیادہ تھی۔ پہلے تو وہ کچھ ٹھنکے پھر آپس میں میں کچھ سرگوشیاں کیں اور بھاگنے کے لیے مڑے لیکن لڑکا کچھ سوچ کر رک گیا۔ پھر وہ میری طرف بڑھا۔ اس کی عمر دیکھنے میں چودہ برس کی لگتی تھی لیکن وہ اپنی عمر سے کچھ زیادہ ہی لمبا تھا۔ دبلا پتلا، کمزور جسم کا۔ اس کے بال گھنگھریالے تھے اور آنکھیں بھوری۔ لڑکی جو اس کی بہن لگ رہی تھی ایک سال بڑی ہوگی ۔وہی رنگ اور نقشہ لیکن آنکھیں اور بال اس سے کہیں زیادہ خوبصورت۔ میں نے اتنی خوبصورت لڑکی اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ لڑکا میرے قریب آیا اور مجھ سے انگریزی میں پوچھا کہ میں کون ہوں اور یہاں کیسے آیا۔ میں بہت اچھی انگریزی تو نہیں جانتا تھا لیکن اتنی انگریزی پڑھی تھی کہ اس کے سوالوں کا جواب آسانی سے دے سکوں۔ میں نے اس کو بتایا کہ میرا نام عبداللہ ہے۔ میرا جہاز ’’سٹی ہاک ‘‘طوفان میں ڈوب گیا اور موجوں نے مجھے اس چٹان پر لا کر ڈال دیا جو ساحل سے آگے سمندر میں چلی گئی ہے۔ میری بات سن کر اس نے اپنی بہن کو آواز دی۔ وہ بھی میرے قریب آگئی اور میرے زخمی ہاتھوں اور پائوں کو دیکھ کر افسوس کے لہجے میں کہنے لگی:
’’ ارے! اس بچارے کو تو چوٹیں بھی آئی ہیں۔‘‘
پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولی:
’’تم بھوکے بھی لگ رہے ہو۔ تھک بھی گئے ہو۔ ہمارے ساتھ آؤ۔ تمھیں کھانے کی بھی ضرورت ہے اور آرام کی بھی۔ میرے پاس دوائیں ہیں،مرہم پٹی کر دوں گی۔ ‘‘
مجھے مرہم پٹی سے زیادہ کھانے اور آرام کی ضرورت تھی۔ میں نے اس کی ہمدردی کا شکریہ ادا کیا اور جب دونوں بہن بھائی وہاں سے چلنے کے لیے مڑے تو میں ان کے پیچھے ہولیا۔ درختوں کے جھنڈ سے گزر کر ہم ذراسی دیر میں کھلے میدان میں آگئے۔سامنے ایک چھوٹی سی بستی تھی۔ یہاں کچھ عورتیں اور بچے آدھے ننگے اپنی جھونپڑیوں کے سامنے بیٹھے تھے۔ مجھے کہیں کوئی مرد نظر نہیں آیا۔ لڑکی شاید میری نگاہوں سے سمجھ گئی تھی کہ مجھے اس پر تعجب ہو رہا ہے اس لیے وہ بولی:
’’مرد سب باہر ہیں۔ ‘‘
ہمیں آتا دیکھ کر عورتیں اور بچے ہمارے گرد جمع ہو گئے۔ وہ مجھے گھور رہے تھے جیسے میں کوئی انوکھی چیز ہوں۔ انہوں نے لڑکی سے بڑی میٹھی سی زبان میں کچھ پوچھا۔ شاید میرے بارے ہی میں پوچھ رہی ہوں گی۔ لڑکی نے انہیں اسی زبان میں کچھ جواب دیا۔ یہ زبان میری سمجھ میں نہ آئی۔ دونوں بہن بھائی انہیں جواب دیتے ہوئے جلدی سے مجھے ایک صاف ستھری جھونپڑی میں لے گئے اور اندر جاتے ہی دروازہ بند کر دیا۔ پھر انہوں نے مجھے کھانے کو کچھ پھل اور دودھ دیا جسے میں نے خوشی سے لیا کیوں کہ میں بہت بھو کا ہو رہا تھا۔ پھر انہوں نے ایک طرف میرے لیے ایک نرم چٹائی بچھادی اور مجھ سے کہا کہ میں اس پر لیٹ کر آرام کروں۔ لڑکی نے ایک مرہم سالے کر میرے زخمی ہاتھوں اور پائوں پر ملنے کے لیے مجھے دیا جس کے ملنے سے مجھے بڑا سکون ملا ۔میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور چٹائی پر لیٹ گیا۔ پانچ منٹ بعد میں گہری نیند سورہا تھا۔
شام کے قریب باتوں کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دیکھا کہ ایک لمباتڑ نگا سیاہ فام آدمی میرے دوستوں سے کھڑا باتیں کر رہا ہے۔ وہ شاید میرے ہی بارے میں کچھ کہہ رہا تھا کیونکہ بار بار میری طرف اشارے کر رہا تھا اور میری موجودگی سے ناخوش نظر آرہا تھا۔ لڑکا تو خاموش تھا لیکن لڑکی اس کے سوالوں کا سختی سے جواب دے رہی تھی اور یوں لگتا تھا جیسے میری حمایت کر رہی ہو۔ میں نے آنکھیں کھول کر اسے دیکھا تو وہ مجھ سے مخاطب ہو کر ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں بولا:
’’تم جاگ گئے۔ اٹھو تم کہاں سے آئے ہو؟ ‘‘
میں اٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا:
’’میں ایک انگریزی جہاز میں تھا۔ میرا جہاز ڈوب گیا اور میں بہتا ہوا یہاں آگیا۔‘‘
’’تمہارے باقی لوگ کہاں ہیں کیا تم اکیلے ہو؟ ‘‘اس نے پوچھا ۔
’’ہاں، میں اکیلا ہوں۔ میرے ساتھی شاید سب ڈوب گئے۔ ‘‘میں نے جواب دیا اور اپنے ساتھیوں اور خاص طور پر مارٹن کی جدائی کے خیال سے میں افسردہ ہو گیا۔
میں نے ایسا محسوس کیا جیسے میرے جواب سے اس کی تسلی ہو گئی۔ اس نے اپنی زبان میں لڑکی سے کچھ باتیں کیں اور پھر جھونپڑی سے باہر چلا گیا۔ جب دروازہ بند ہو گیا تو میں نے کہا:
’’یہ تو کوئی عجیب آدمی ہے۔ یہ کون ہے؟ ‘‘
لڑکی نے کہا، ’’یہ اس جزیرے کا سردار ہے۔ ہر ایک کو اس کا حکم ماننا پڑتا ہے۔ یہ بڑا غصہ ور ہے۔ دیکھو عبداللہ!تم اس سے کبھی نہیں الجھنا۔ اسے تمہارا یہاں آنا اچھا نہیں لگا ہے۔ ‘‘
’’یہ بالکل وحشی درندہ ہے۔ کسی کی جان لینے سے بھی باز نہیں آتا۔‘‘ لڑ کا غصے سے بولا۔
لڑکی نے بھائی کو اشارہ کیا کہ آہستہ بولے اور کہنے لگی،’’ ہیری، آہستہ بولو۔ دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں۔ پھر دیکھو ہم پر اس کے احسان بھی توہیں ۔‘‘
میری سمجھ میں یہ سب کچھ نہ آیا۔ بہن بھائی انگریز ہیں اور باقی سب یہاں کے مقامی باشندے ہیں۔ بظاہر یہ دونوں اکیلے ہیں۔ پھر یہاں یہ کیسے آئے اور ان لوگوں سے ان کا کیا تعلق ہے۔ یہ سوال ایسے تھے جن کا جواب ان ہی سے مل سکتا تھا لیکن میں نے ابھی پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ میں نے کہا:
’’آپ دونوں مطمئن رہیں۔ میں سردار کو ناراض نہیں کروں گا۔ میں تو آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ مجھے یہاں لے آئے۔ ورنہ میں بھوک اور پیاس سے مرجاتا۔ ‘‘
’’نہیں۔‘‘ لڑکے نے میری بات کاٹ دی۔ ’’اس میں شکریے کی کیا بات ہے۔ یہ تو ہمارا انسانی فرض تھا۔ اب تم ہمارے دوست ہو۔ ‘‘
میں ابھی تک کمزوری محسوس کر رہا تھا۔ اس لیے پھر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیر میں انہوں نے مجھے پھر اٹھایا اور میں نے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھا نا کھایا۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد انھوں نے مجھے پھر آرام کرنے کو کہا اور میں پھر لیٹ کر سو گیا۔
اگلے دو دن تک انہوں نے مجھے جھونپڑی سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ اس دوران وہ اکثر میرے پاس بیٹھ کر باتیں کرتے۔ مجھ سے انہوں نے میرے وطن کے بارے میں سوال کیے۔ وہ اسلام کے بارے میں کچھ بھی نہ جانتے تھے۔ میری باتیں وہ دلچسپی سے سنتے رہے۔ انہیں افسوس تھا کہ میرے ماں باپ نہیں اور کم عمری ہی میں مجھے پریشانیوں نے گھیر لیا۔ لیکن ان کی داستان بھی مجھ سے زیادہ مختلف نہ تھی۔ انہوں نے مجھے اپنے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔لڑکے کا نام ہیری تھا اور لڑکی کا ایوا۔ وہ دونوں اسی جزیرے پر پیدا ہوئے تھے۔ انہیں اپنی والدہ بالکل یاد نہیں کیوں کہ ان کا بچپن ہی میں انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے والد مسٹر ہینڈرسن کو مرے ہوئے چند ہفتے ہی ہوئے تھے۔ وہ اس جزیرے میں جس کا نام موراتھا، اکیلے سفید فام آدمی تھے۔ اپنی جوانی میں بیوی کو لے کر یہاں آئے تھے۔ وہ اس جزیرے کے بادشاہ کی طرح تھے۔ ان کا حکم چلتا تھا۔ انھوں نے یہاں کے مقامی باشندوں کے لیے بہت کچھ کیا تھا اور وہ ان کو بہت مانتے تھے۔ مسٹر ہینڈرسن نے مقامی باشندوں میں سے ایک قبائلی سردار ٹانگا کو اپنا نائب بنا یا تھا اور اس سے مشورہ بھی کیا کرتے تھے۔ جب اچانک ایک بیماری سے مسٹر ہینڈرسن کا انتقال ہو گیا تو ٹا نگا ان کی جگہ یہاں کا سردار بن گیا۔
ہیری کہنے لگا، ’’میرے باپ بڑے بہادر تھے۔ جب تک وہ زندہ رہے سب لوگ خوش تھے۔ مگر اب ٹانگا یہاں کا سردار بن گیا ہے تو حالات بالکل بدل گئے ہیں ۔‘‘
’’تم کو ٹا نگا پسند نہیں ہے؟ ‘‘میں نے پوچھا۔
’’ نہیں، یہ بہت برا آدمی ہے۔ اس کا بس چلے تو ہمیں مار ڈالے۔ وہ صرف ایک وجہ سے مجبور ہے۔ ‘‘ہیری نے کہا۔
’’وہ کیا؟ ‘‘میں نے پوچھا۔
  ’’وہ میرے والد کی دولت ہے۔ ‘‘ہیری نے کہا اور پھر گھبرا کر ادھر ادھر دیکھنے لگا جیسے ڈر رہا ہو۔ میں نے اس کی کیفیت دیکھ کر اس سے کچھ اور پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔ مگر دو ایک روز بعد پھر اسی موضوع پر گفتگو شروع ہو گئی۔ ہیری اور میں جھونپڑی میں اکیلے تھے۔ ایوا گائوں کی لڑکیوں کے ساتھ پھل توڑنے گئی ہوئی تھی۔ ہیری نے اچانک مجھ سے پوچھا۔ ’’عبداللہ! تمہیں ٹانگا سے ڈر نہیں لگتا؟‘‘
’’نہیں، مجھے کس بات کا ڈر ہے۔‘‘
’’ تم میری اور ایوا کی مدد کرو گے؟ ‘‘
’’ہاں کیوں نہیں۔ تمہارے تو مجھ پر بڑے احسان ہیں۔‘‘
  ہیری کو میرے اس جواب سے بڑا اطمینان ہوا۔ وہ کہنے لگا:
’’بات یہ ہے عبداللہ کہ ٹا نگا میرے باپ کی دولت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ وہ مجھے اور ایوا کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ مجھے اپنی تو فکر نہیں مگر میں ایوا کی طرف سے بہت پریشان ہوں۔ ‘‘
’’کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ڈر رہا ہو مقامی باشندے تمھیں تمھارے باپ کی جگہ بادشاہ بنالیں گے۔ ‘‘میں نے کیا۔
’’ نہیں، اسے اس کا ڈر نہیں۔ وہ تو دولت کے پیچھے ہے۔ میرے باپ کو اس شخص پر بالکل اعتماد نہ تھا۔ چناں چہ اپنی بیماری سے کچھ دن پہلے انہوں نے اپنی ساری دولت ایک جگہ چھپادی۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ یہ کتنی ہے لیکن مرنے سے پہلے انہوں نے مجھے اور ایوا کو وہ جگہ بتادی تھی جہاں یہ دولت دفن ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں سختی سے منع کر دیا تھا کہ ٹانگا کو ہر گز نہ بتائیں اور اس جگہ کو بالکل خفیہ رکھیں۔ ٹانگا کو یہ پتا چل گیا تھا کہ میرے والد نے اپنی دولت کہیں چھپا دی ہے اس لیے ان کے مرتے ہی اس نے مجھ سے اس کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا۔ مجھے اب اس سے ڈر لگنے لگا ہے۔ ‘‘
میں نے اٹھ کر ہیری کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور کہنے لگا:
’’ہیری!تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ اب تمھیں ایک ایسا دوست مل گیا ہے جو ہر موقع پر تمھارا ساتھ دے گا۔ ‘‘
میں نے اس سے پوچھا کہ کیا یہاں جہاز نہیں آتے۔ اس نے بتایا کہ بہت کم کوئی جہاز ادھر آتا ہے۔ دو تین ہفتے پہلے جب ایک جہاز آیا تو ٹا نگانے ہمیں جھونپڑی سے باہر نکلنے نہیں دیا تھا۔ ہیری نے کہا۔’’ عبداللہ مجھے اپنا کوئی خیال نہیں لیکن میں ایوا کی طرف سے بہت پریشان ہوں۔ کبھی ٹانگا غصے میں آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور مجھے ڈر لگتا ہے کہ نہ جانے وہ کیا کر بیٹھے۔‘‘
’’تم نے اسے بتایا تو نہیں کہ تمہارے باپ کی دولت کہاں چھپی ہوئی ہے۔‘‘
’’نہیں۔ میں اسے ہر گز نہیں بتاؤں گا۔ میں نے اپنے باپ سے مرتے وقت وعدہ کیا تھا۔‘‘
’’ اس جزیرے پر تمہارا اور کوئی مدد گار نہیں ہے؟ ‘‘میں نے پوچھا ۔
’’ہیں تو سہی لیکن وہ سب سردار سے ڈرتے ہیں۔ وہ جو چاہتا ہے ان سے کراتا ہے۔ ‘‘
’’اچھا اگر تمھارا اس سے کھلم کھلا جھگڑا ہو تو کیاوہ تمہارا ساتھ دیں گے؟‘‘
ہیری نے کچھ دیر سوچا پھر بولا، ’’مشکل ہے۔ اگر وہ چاہیں گے بھی تو ایسا نہیں کر سکیں گے۔ ایک تو وہ سب ٹانگا سے ڈرتے ہیں، پھر یہاں سردار کے خلاف کوئی نہیں بولتا۔ ‘‘
اس وقت ایوا جھونپڑی میں داخل ہوئی اور ہیری چپ ہو گیا۔ اسے اپنی بہن سے بہت محبت تھی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان باتوں کو سن کر وہ پریشان ہو۔ اس نے فورا ًموضوع بدل دیا اور دوسری باتیں کرنے لگا۔
ٹانگا کی دھمکی
ٹانگا کے بارے میں ہیری نے مجھے جو کچھ بتا یا، اس سے مجھے کوئی تعجب نہیں ہوا۔ یہ شخص صورت سے بھی ایسا ہی لگتا تھا، لالچی اور بد باطن۔ میں اسے پہلے ہی دن سے ناپسند کرتا تھا اور اس سے دور ہی رہتا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اسے مورا جزیرے پر میرا آنانا گوار ہوا ہے۔ لیکن ہیری جتنا اس سے ڈر رہا تھا میرے خیال میں وہ کچھ زیادہ ہی تھا۔ میں نے سوچا کہ ہیری کا باپ اس جزیرے کا حاکم تھا اور یہ سارے سیاہ فام لوگ اس کے تابعدار تھے۔ اب اس کے مرنے کے بعد یہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ اس کے بچوں کا خیال نہ رکھیں اور وقت پڑنے پر ساتھ نہ دیں۔ ہیری کی باتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ مسٹر ہینڈرسن ایک اچھے آدمی تھے اور انہیں یہ لوگ سب پسند بھی کرتے تھے۔ بہر حال میں نے سوچا کہ میں ٹانگا پر نظر رکھوں گا اور موقع ملنے پر ایوا سے بات کروں گا۔
ایوا سے بات کرنے کا موقع مجھے جلد ہی مل گیا۔ میں صبح کے وقت سیر کرنے کے لیے اکثر ساحل کی طرف چلا جاتا تھا، وہاں خاموشی اور سکون کے ساتھ کچھ دیر اپنے گزشتہ حالات کو یاد کرتا اور آئندہ کے بارے میں سوچتا۔ ہیری سے گفتگو کے دوسرے دن میں حسب معمول ساحل کے قریب ایک چٹان پر بیٹھا اپنے خیالات میں گم تھا کہ مجھے ایک آہٹ محسوس ہوئی۔ مڑ کر دیکھا تو ایوا تھی۔ اس کے چہرے پر شرافت اور معصومیت تھی۔ وہ میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔ ادھر ادھر کی دو ایک باتوں کے بعد میں نے ٹانگا کے بارے میں اس سے سوال کیا۔ میں نے سوچا کہ یہ موقع اس گفتگو کا بہت اچھا ہے۔ درختوں کے جھنڈ کی وجہ سے ساحل کا یہ حصہ بستی سے چھپارہتا تھا اور کوئی ادھر آتا بھی نہیں تھا۔ میرا سوال سن کر اس نے اطمینان سے کہا :
’’معلوم ہوتا ہے ہیری نے تم سے باتیں کی ہیں۔ کیا کہا ہے اس نے؟ ‘‘
’’کچھ زیادہ نہیں۔ اس کا خیال ہے کہ ٹانگا تمھارے والد کی دولت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے وہ شاید سب کچھ کر گزرے۔ میرا تو خیال ہے ہیری ضرورت سے زیادہ ہی پریشان ہو گیا ہے۔ ‘‘میں نے کہا۔
ایوا ایک لمحے خاموش رہی پھر بولی، ’’نہیں۔ ہیری کی بات صحیح ہے۔ جب تک ہمارے ابا زندہ تھے، ٹا نگا ہمارا بہت خیال رکھتا تھا اور ہم یہی سمجھتے تھے کہ وہ ہمارا دوست ہے۔ لیکن ابا کے انتقال کے بعد سے اس کا رویہ بدل گیا ہے۔ مجھے بھی اس کے ارادے اچھے نہیں معلوم ہوتے۔‘‘
’’اگر تم خزانہ اس کو دے دو تو؟‘‘
’’ اس سے کچھ نہیں ہو گا۔ ہم پھر بھی اس کے راستے میں حائل ہوں گے۔‘‘
ایوانے کو بغیر کسی گھبراہٹ کے یہ بات کہی لیکن میں اس کے لیے سے سمجھ گیا کہ وہ بھی ڈری ہوئی ہے اور وہ جس اطمینان کا اظہار کر رہی ہے وہ بناوٹی ہے۔ میں نے غور سے اس کے چہرے کی طرف دیکھا اور میرا یہ خیال یقین میںبدل گیا۔ میں نے آہستہ سے کہا :
’’تمہارا کیا خیال ہے، یہ آدمی تمہیں نقصان پہنچائے گا؟‘‘
  ’’ہاں مجھے یہی اندیشہ ہے۔ دیکھو عبداللہ! تمہیں بھی ہو شیار رہنا چاہیے۔ تم تو ہم سے بھی زیادہ خطرے میں ہو۔ تمھاری موجودگی سے اس کے منصوبوں میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے۔ وہ جانتا ہے کہ تم ہمارے دوست ہو اور ہمیں بچانے کی کوشش کرو گے۔‘‘
’’ہاں!‘‘ میں نے بڑے جوش سے کہا۔ ’’میں آخر دم تک تمھاری مدد کروں گا۔ اگر چہ میں لڑکا ہوں مگر دم خم رکھتا ہوں۔ میں ٹانگا کا ڈٹ کر مقابلہ کروں گا اور تم پر اور ہیری پر آنچ نہیں آنے دوں گا، چاہے اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ ‘‘
ایوا مسکرادی۔ اس کی مسکراہٹ اتنی دل فریب تھی کہ میں اسے دیکھتا رہ گیا۔ پھر وہ آہستہ سے بولی:
’’عبداللہ مجھے تم سے یہی امید ہے۔ ‘‘
سچ بات یہ ہے کہ ہیری اور ایوا کے اچھے سلوک اور محبت کے برتائو نے میرے دل میں گھر کر لیا تھا اور میں ان دونوں کی خاطر بڑے سے بڑا خطرہ بھی مول لینے کو تیار تھا۔ میں ان دونوں کا احسان مند تو تھا ہی مگر ان کو بے سہارا دیکھ کر میرے دل میں ان کے لیے اور بھی ہمدردی اور محبت کے جذبات پیدا ہو گئے اور میں نے یہ تہیہ کر لیاکہ اگر ضرورت پڑی تو ان کو بچانے کے لیے اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کروں گا۔
ایوا سے اس گفتگو کے بعد میں نے ٹانگا کی نگرانی کرنے کا فیصلہ کر لیا اور اس کی حرکتوں پر نظر رکھنے لگا۔ جلد ہی میں نے محسوس کر لیا کہ میرے دوستوں کا خوف غلط نہیں۔ اگر اس معاملے میں مجھے پہلے کوئی شبہ بھی تھا تو وہ ٹانگا کی حرکتوں سے دور ہو گیا۔
  جیسا کہ بتا چکا ہوں ٹانگا کو میرا آنا نا گوار ہوا تھا اور اس نے اپنی باتوں سے اس کا کھل کر اظہار بھی کر دیا تھا۔ وہ ہیری اور ایوا کے ساتھ میرا ہر وقت رہنا بھی پسند نہ کرتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ اس کا رویہ تبدیل ہونے لگا اور اس نے مجھ سے دوستی کا اظہار شروع کر دیا۔ وہ مجھے طرح طرح کے تحفے دیتا ،پھل اور گوشت لاتا۔ کئی بار اس نے مجھے اپنی جھونپڑی میں بلایا اور میری خاطر کی۔ مجھے اپنے ساتھ جزیرے میں گھومنے کے لیے بھی لے گیا۔ اس کے رویے میں اس تبدیلی کی وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی۔ وہ میرے ساتھ دوستی کا کیوں اظہار کر رہا ہے۔ کیا وہ واقعی مجھے پسند کرنے لگا ہے یا اس کا کوئی اور مقصد ہے۔ بہر حال چونکہ اس کے ساتھ رہنا میرے مقصد کے لیے مفید تھا اور میں اس طرح اس کی زیادہ اچھی طرح نگرانی کر سکتا تھا لہٰذا میں خاموش رہا۔ 
اس طرح کئی ہفتے گزر گئے۔ میں اب جزیرے کے روز و شب سے زیادہ مانوس ہوتا جا رہا تھا اور مقامی لوگوں کی زبان بھی سیکھتا جارہا تھا۔ ایوا اور ہیری کے ساتھ میری دوستی اب ایسی تھی جیسے میں اسی خاندان کا ایک فرد ہوں۔ میں ہیری کے اندیشوں کی طرف سے بھی کچھ بے پروا ہو چلا تھا کہ ایک دن شام کو ٹانگا کے رویئے میں تبدیلی کی وجہ میری سمجھ میں آگئی۔ وہ مجھے لے کر سیر کو نکلا اور راستے میں مجھ سے کہنے لگا کہ وہ اور مسٹر ہینڈرسن اس جزیرے کی دولت میں برابر کے حصہ دار تھے لیکن ان کے مرنے کے بعد یہ دولت غائب ہو گئی ہے۔ مسٹر ہینڈرسن کے لڑکے اور لڑکی کو معلوم ہے کہ خزانہ کہاں ہے۔ مجھے اس میں سے آدھا حصہ ملنا چاہیے لیکن یہ دونوں خزانے کا پتا نہیں بتاتے۔
وہ کچھ ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں اور کچھ اپنی زبان میں یہ بات بڑی دیر میں مجھے سمجھا سکا۔ میں صبر سے سنتا رہا اور سوچتا رہا کہ وہ مجھے یہ سب کچھ کیوں بتا رہا ہے۔ اس بد باطن آدمی نے مجھے زیادہ دیر شبہے میں نہ رکھا۔ اس نے جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ میں ہیری سے یہ معلوم کرلوں کہ وہ خزانہ کہاں ہے، وہ میرا دوست ہے مجھے یہ راز بتادے گا پھر ہم دونوں یعنی ٹانگا اور میں اس دولت کو آپس میں بانٹ لیں گے۔ اپنی بات ختم کرتے ہوئے اس مکار سردار نے مسکرا کر مجھ سے کہا: 
’’تم اور ہم دونوں امیر ہو جائیں گے، تم جہاز پر واپس چلے جانا۔ میں ادھر رہوں گا۔‘‘
میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر بولا:
’’ تجویز تو تمھاری اچھی ہے لیکن اگر میں اس میں شریک نہ ہوں تو؟ ‘‘
میری زبان سے یہ لفظ سن کر ٹانگا کی مسکراہٹ غائب ہو گئی اور اس کا چہرہ خوفناک ہو گیا۔ اس نے اپنی بندوق پر ہاتھ رکھ دیا اور غرا کر بولا کہ اگر میں نے اس کے کہنے پر عمل نہ کیا اور خزانے کار از معلوم کر کے اسے بہت جلد نہ بتایا تو وہ مجھے اور ہیری کو گولی مار دے گا اور ساری دولت خود لے لے گا۔ میں نے سوچا کہ اس سے ابھی جھگڑا مول لینا مناسب نہیں۔ اس کو جب تک ٹالا جا سکے ٹالا جائے۔ چنانچہ میں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ میں خزانے کا راز معلوم کرنے کی کوشش کروں گا لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں جتناوہ سمجھ رہا ہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے ہیری مجھے نہ بتائے۔ اس کے جواب میں اس نے بڑے اطمینان سے کہا کہ تو پھر یہ ہیری کے لیے اچھا نہ ہو گا۔ یہ محض دھمکی نہ تھی اس کے انداز سے لگتا تھا کہ وہ خزانہ حاصل کرنے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ خزانے کے پوشیدہ مقام کا پتا لگانے کے لیے مجھے کتنی مہلت دے گا۔ اس نے کہا ،’’صرف دو ہفتے اس سے زیادہ ایک دن بھی نہیں ۔‘‘
  یقین جانیے وہ رات میں نے جاگ کر گزاری۔ مجھے طرح طرح کے خیالات آتے رہے۔ ہیری اور ایوا کو دھوکا دینے کا تو کوئی سوال ہی نہ تھا۔ میں یہ بات سوچ بھی نہ سکتا تھا۔ اگر میں اپنی جان بچانے کی خاطر ایسا کرتا بھی تو اس سے بڑی اور کیا حماقت ہوتی۔ خزانے پر قبضہ کرنے کے بعد بھلاٹانگا جیسا وحشی اور لالچی انسان مجھے زندہ چھوڑتا۔ وہ تو سب سے پہلے مجھے ٹھکانے لگانے کی ترکیب سوچتا۔ اگر خزانے کا راز میں اسے نہیں بتاتا ہوں تو میری جان تو خیر خطرے میں ہوگی ہی ہیری کی جان کو اور زیادہ خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ پھر ایوا کا کیا ہو گا۔ ٹانگا کے ارادے اس کی طرف سے بھی خطرناک تھے۔ یہ ساری صورت حال بڑی پریشان کر دینے والی تھی اور میں اس پر جتنا بھی غور کرتا مجھے اس سے نکلنے کی صورت نظر نہ آتی۔ سمندری طوفان سے بچ کر اب میں ایک نئی مصیبت میں پھنس گیا تھا۔ میری اور میرے دوستوں کی زندگی اب سردار کے رحم و کرم پر تھی۔
جزیرے کے مقامی باشندے ٹانگا سے اتنا ڈرتے تھے کہ ان سے ہمیں کسی مدد کی امید نہ تھی۔ ہیری کی باتوں سے مجھے یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ کسی آتے جاتے غیر ملکی جہاز سے بھی مدد کی کوئی توقع نہیں۔ ٹانگا ہمیں ان تک پہنچنے کا کبھی موقع ہی نہیں دے گا۔
ٹانگا سے بچنے کی ایک صورت جو مجھے نظر آتی تھی وہ یہ تھی کہ کسی ترکیب سے ہم تینوں جزیرہ مورا سے نکل بھاگیں۔ میں اس پر غور کرتا رہا۔ میں نے ہیری اور اس کی بہن سے اس گفتگو کا جو ٹا نگا سے ہوئی تھی، کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ کئی دنوں تک میں جزیرے میں ادھر ادھر گھومتا رہا اور یہاں سے بھاگ نکلنے کی مختلف ترکیبیں سوچتا رہا۔ لیکن جب ان تجویزوں کو عملی شکل دینے پر غور کرتا تو ان میں کوئی نہ کوئی خامی نظر آجاتی اور پھر اسے خود ہی رد کر دیتا۔ ان میں سے ایک ترکیب جو مجھے کچھ کامیاب ہوتی نظر آئی وہ یہ تھی کہ مقامی قبائلیوں میں ایک بوڑھا آدمی تھا جس کی یہ لوگ عزت کرتے تھے اور اس کا ان پر کچھ اثر بھی تھا۔ یہ ان کا علاج بھی کرتا تھا اور ان کی مذہبی رسومات بھی ادا کر تا تھا۔ اس کا دا دا کسی زمانے میں اس جزیرے کا بادشاہ بھی رہ چکا تھا۔ یہ شاید کچھ رشوت لے کر ہماری مدد پر تیار ہو جائے۔ چنانچہ میں نے ایک دن بڑی احتیاط اور ہوشیاری سے اس سے اس کا ذکر کیا۔ اس نے کچھ اس طرح ڈر کر میری طرف دیکھا کہ میں گھبرا گیا اور میں نے فورا ًاسے ایک مذاق کہہ کر ٹال دیا۔
اب میرے ذہن میں ایک ہی تجویز آرہی تھی اور وہ یہ کہ ہم کسی طرح ٹانگا پر قابو پالیں اور اس سے پہلے کہ وہ ہم پر وار کرے ہم اس کو ختم کر دیں۔ چونکہ اصل میں تو وہی ہمارے خلاف تھا، دوسروں کو ہم سے کوئی دشمنی نہ تھی۔ اس لیے میں نے سوچا کہ جب وہ ختم ہو جائے گا تو جزیرے کے لوگوں کو ہم ساری صورت حال سمجھا دیں گے اور وہ یقیناہمارے ساتھ انصاف کریں گے۔ میں جتنا سوچتا اتنی ہی مجھے یہ تجویز معقول نظر آتی لیکن اس میں خطرہ بہت تھا اور اس پر عمل کرنے کے لیے بڑی بہادری ،ہمت اور احتیاط کی ضرورت تھی۔ وقت تھوڑا تھا اور ٹانگا کسی وقت بھی غصے میں آکر ہیری کو اور مجھے ٹھکانے لگا سکتا تھا۔ مقامی لوگوں کو ان بہن بھائی کے ساتھ جو ہمدردی تھی اس کی وجہ سے شاید وہ رکا ہوا تھا ورنہ وہ ان پر تشدد کر کے شاید اب تک ان سے خزانے کار از معلوم کر چکا ہوتا۔ خطرہ بہر حال قریب تھا اور مجھے جلد ہی کچھ کرنا تھا۔ چنانچہ میں نے طے کر لیا کہ کہ ایوا سے مشورہ کروں گا۔
ٹانگا سے گفتگو کے کوئی ایک ہفتے بعد میں ایک رات ساحل پر کھڑا دور تک پھیلے ہوئے خاموش سمندر کو خواب آلود نگاہوں سے تک رہا تھا۔ ہر چیز پر سکون تھی، ہر طرف خاموشی تھی۔ موجوں کی روانی کی دھیمی دھیمی آوازوں کے سوا کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ رات بڑی خوبصورت تھی اور موسم بہت خوش گوار تھا۔ آسمان پر تارے چمک رہے تھے، روئی کے گالوں جیسے بادل کے چند ٹکڑے آسمان پر تیرتے پھر رہے تھے۔ میں قدرت کے اس حسن کا نظارہ کر رہا تھا اور ایک عجیب سی کیفیت مجھ پر طاری تھی لیکن میرا ذہن! وہ مستقل ہیری اور ایوا کے خیال میں الجھا ہوا تھا۔ میں نے ایوا سے وعدہ کیا تھا کہ میں بہر حال ان کا ساتھ دوں گا۔ یہ میرا عہد تھا اور ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنا عہد پورا کرنا میرا فرض تھا۔ یوں بھی مصیبت میں گھرے ہوؤں کی مدد کرنا انسانی فرض ہے۔ میں نے اسی وقت طے کر لیا کہ میں ابھی جا کر ایوا سے مشورہ کروں گا اور اپنی یہ تجویز کہ ہم ٹانگا کا پہلے ہی خاتمہ کر دیں، اسے بتاؤں گا۔ وہ سمجھ دار لڑکی ہے اور یہاں کے حالات کو جانتی ہے۔ وہ بتادے گی کہ یہ تجویز عمل کے قابل ہے یا نہیں۔ 
میں آہستہ آہستہ اپنی جھونپڑی کی طرف جارہا تھا کہ بستی کے ایک طرف جھونپڑیوں کی قطار کے آخری سرے پر کسی نے بہت آہستہ سے مجھے آواز دی۔ میں فورا ًرک گیا۔ ایک سیاہ آدمی ایک گڑھے میں چھپا بیٹھا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا مگر ستاروں کی مدھم روشنی میں اسے پہچان نہ سکا۔ اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور پھر میرے قریب آکر آہستہ سے کہنے لگا:
’’لڑکے، میری بات سُن۔ جب جال بچھا ہوتا ہے تو ہوشیار پرندہ اپنے پر پھیلاتا ہے اور اُڑ جاتا ہے ۔‘‘ پھر وہ ایک لمحہ خاموش رہ کر بولا، ’’کیا میری بات اس لڑکے نے سمجھ لی ہے جسے سمندر کی لہریں اس زمین پر چھوڑ گئی ہیں۔‘‘
  میں نے جواب میں گردن ہلائی اور آہستہ سے بولا:
  ’’ہاں میں تمھاری بات سمجھ گیا ہوں۔ تمھاری تجویز اچھی ہے لیکن اس پر عمل کیسے ہو سکتا ہے۔ مضبوط بازوؤں والا پرندہ تو اڑ کر سمندر پار کر سکتا ہے لیکن کمزور پرندہ جس کے پرہی نہ ہوں وہ اس کے سوا اور کیا کر سکتا ہے کہ زمین پر ہی رہے اور جال میں پھنس جائے۔ ‘‘
اس پر اس نے کہا۔ ’’تین سورج غروب ہو لیں تو یہ لڑکا جسے سمندر اس زمین پر چھوڑ گیا ہے اسی راستے سے اُسی وقت یہاں آئے اور اپنے ساتھ مالک کے بیٹے کو بھی لائے اور اس عرصے میں اپنی زبان بند رکھے۔ ‘‘
ان مقامی لوگوں کی گفتگو کا یہی انداز تھا۔ میں نے اسے یقین دلایا کہ جو کچھ اس نے کہا ہے ویسا ہی کیا جائے گا۔ اس پر وہ اچانک گڑھے میں سے نکلا اور ایک طرف غائب ہو گیا۔ 
میں اس شخص کی بات پر غور کرتا ہوا اور یہ سوچتا ہوا کہ یہ کون ہے؟ اپنی جھونپڑی کی طرف چل دیا۔ اگرچہ اس شخص کی باتوں نے خطرے کو کچھ اور نمایاں کر دیا تھا تا ہم میں خوش تھا کہ یہاں اس جزیرے میں ایک وفادار آدمی تو ہے جو اپنے پرانے سردار کے بچوں سے ہمدردی رکھتا ہے اور ان کی خاطر خطرہ مول لینے کو تیار ہے۔ مجھے یہ بھی امید پیدا ہوئی کہ شاید یہاں سے بھاگ نکلنے کا کوئی راستہ مل جائے۔ اس شخص کی باتوں سے میں یہی سمجھا تھا کہ وہ ہمیں مورا سے فرار کا مشورہ دے رہا ہے اور شاید کوئی ترکیب یہاں سے بھاگ نکلنے کی بھی اس کے ذہن میں ہوگی۔ بہر حال میں نے سوچا کہ ٹانگا کو قابو میں کرنے کی تجویز کے بارے میں مجھے ایوا سے ضرور مشورہ کر لینا چاہیے۔ 
چنانچہ اسی خیال سے میں نے دوسرے دن صبح کچھ بہانہ بنایا اور ایوا کو اشارہ کیا کہ وہ میرے ساتھ سیر کو چلے۔ ہم جھونپڑی سے نکل کر چُپ چاپ چلتے رہے اور درختوں کے اس جھنڈ کی طرف گئے جو ساحل اور بستی کے درمیان واقع تھا۔ جب ہم ساحل کے قریب تقریباً اسی جگہ پہنچے جہاں اس نے پہلی بار مجھے دیکھا تھا تو وہ اچانک رک گئی اور میری طرف غور سے دیکھتے ہوئی بولی :
’’کیا بات ہے عبداللہ! ایسا لگتا ہے جیسے تم مجھے کوئی بری خبر سنانے والے ہو ۔‘‘
’’جو کچھ تمھیں پہلے ہی سے معلوم ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مگر میں تم سے ایک مشورہ کرنا چاہتا ہوں۔ تم ڈرو گی تو نہیں؟ ‘‘میں نے کہا۔
بُری خبر
اس صبح کو گزرے اب کئی برس ہوچکے ہیں لیکن میں اسے اب تک نہیں بھول سکاہوں۔ کیوں کہ اسی وقت سے ایوانے میرے دل میں ایسی جگہ پیدا کر لی جو آج تک باقی ہے۔ میری بات سُن کر اس نے بڑی ہمت اور حوصلے سے میری طرف دیکھا اور بولی:
’’عبداللہ !میں نہیں ڈروں گی۔ جو بات ہے وہ سچ سچ بتا دو۔ بد ترین بات کا معلوم ہو جانا بھی ہمیشہ اچھا ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے وہی پرانا قصہ ہو گا۔‘‘
’’ ہاں وہی ہے۔ مگر اب ایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی ہے۔ ٹانگا اب کچھ کر گزرنے پر تیار نظر آتا ہے ۔‘‘میں نے کہا۔
’’یہ کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو ہمیں معلوم ہے ۔‘‘ اس نے جواب دیا ۔میں نے سنجیدگی سے کہنا شروع کیا:
’’ ایوا !میری بات سنو۔ اب وہ زیادہ دیر انتظار نہیں کرے گا۔ اس کے ارادے خطرناک ہیں اور ہمارے چُپ چاپ بیٹھے رہنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ لڑائی ہوگی اور۔۔۔‘‘
اس نے میری بات کاٹ دی اور بولی ،’’ تمہار ا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمیں مار ڈالے گا۔ مجھے تو یہ افسوس ہے کہ ہمارے ساتھ تم بھی بلاوجہ اس مصیبت میں پھنس گئے۔‘‘
میں نے کہا، ’’ایوا!مجھے اپنا قطعی خیال نہیں۔ مجھے تو تمھاری اور ہیری کی فکر ہے۔ ہمیں اب کچھ کرنا پڑے گا۔ اس طرح خاموش بیٹھے رہنے سے کام نہیں چلے گا۔‘‘
  پھر میں نے اس کو تفصیل سے بتایا کہ ٹانگا نے مجھ سے کیا کہا ہے اور کیا دھمکی دی ہے۔ میں نے کہا:
’’ایک ہفتہ تو گزر چکا ہے اب صرف چھے سات دن باقی رہ گئے ہیں۔ وہ ظالم لالچی تمھارے ابا کی دولت تم سے چھین لینے پر تلا ہوا ہے۔ ہمیں اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے۔ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ جو جی چاہے کرتا رہے اور میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ر ہوں ۔‘‘
’’ مگر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہم تو بالکل بے بس ہیں ۔‘‘ اس نے کہا ۔
’’میرے ذہن میں ایک تجویز ہے اور میں اسی کے بارے میں تم سے مشورہ کرنے تمہیں یہاں لے کر آیا ہوں۔ تم نے بتایا تھا کہ جزیرے کے لوگ ٹا نگا کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔‘‘ 
’’ہاں مگر وہ اس سے بہت ڈرتے ہیں۔ پھر اُن میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اس کے پکے حامی ہیں۔‘‘
’’لیکن اگر ان کا کوئی سردار نہ رہے تو؟ ‘‘
  ایوا نے میری طرف اس طرح دیکھا جیسے میں نے کوئی بڑی عجیب بات کہہ دی ہو۔ اس کا چہرہ فق ہو گیا اور اس کی آنکھیں میرے چہرے کو ٹٹولنے لگیں۔
  ’’تم کہنا کیا چاہ رہے ہوعبداللہ! ایسا لگتا ہے تم نے کوئی نہایت خطرناک تجویز سوچی ہے ۔‘‘ اس نے کہا ۔
’’ہاں، میں نے جو تجویز سوچی ہے، وہ واقعی خطرناک ہے۔ مگر جب مرض بڑھ جاتا ہے تو علاج بھی سخت کرنا پڑتا ہے۔ جو کچھ میں نے سوچا ہے اس میں بڑے خطرے ہیں اور ہمیں بڑے حوصلے اور جرات سے کام لینا ہو گا۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
پھر میں نے اسے اپنی تجویز بتائی کہ میں چاہتا ہوں سردار کو کسی ترکیب سے پکڑ لیا جائے اور پھر یہاں کے لوگوں سے اس کی رہائی کا معاملہ طے کیا جائے۔ یا پھر کسی طرح اس کا خاتمہ ہی کر ڈالا جائے۔ وہ بڑے غور سے میری بات سنتی رہی۔ اس کے چہرے کے انداز سے میں سمجھ رہا تھا کہ اسے میری تجویز پسند نہیں آئی ہے۔ 
’’کیوں، تمھیں اس تجویز سے اتفاق نہیں؟ ‘‘میں نے پوچھا ۔
’’نہیں۔‘‘ ایوا نے جواب دیا۔ ’’ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ سردار کو قابو میں کر لینا آسان نہیں۔ اس میں بڑا خطرہ ہے۔ سب سے بڑا خطرہ تو یہی ہے کہ شاید اس کوشش میں تم مارے جاؤ اور میں زندگی بھر اس بات پر افسوس کرتی رہوں کہ میں نے تمھیں ایسا کیوں کرنے دیا۔ اگر تم کامیاب ہو جاؤ تو ڈر یہ ہے کہ یہاں کے باشندے دو گروہوں میں بٹ جائیں گے۔ کچھ اس کا ساتھ دیں گے کچھ ہمارا اور پھر ان میں آپس میں ایسی خوفناک جنگ شروع ہو جائے گی کہ جب تک ایک دوسرے کو ختم نہ کر لیں گے چین نہ لیں گے۔ تمھیں معلوم نہیں جب یہ ایک دفعہ بھڑک اٹھتے ہیں تو ان میں اور جنگلی جانوروں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ میرے باپ کو ان لوگوں سے بڑی محبت تھی، انہوں نے ان کی بہت تربیت کی ہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ان کی اپنی اولاد ان کی تباہی کا سامان پیدا کرے۔ ‘‘
ایوا نے مقامی لوگوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور جس طرح اپنے باپ کا ذکر کیا اس سے میرے دل میں اس کی قدر اور بڑھ گئی۔
’’ مگر ہمیں اپنی جان بچانے کا بھی تو حق ہے۔‘‘
’’یقینا! مگر اس کا یہ طریقہ نہیں کہ دوسروں کو مصیبت میں ڈال دیا جائے اور اس جزیرے پر تباہی لائی جائے۔ میں سمجھتی ہوں اس کا حل یہ ہے کہ ٹانگا کو خزانہ دے دیا جائے۔ ‘‘
میں نے بگڑ کر اس کی مخالفت شروع کر دی۔ لیکن ایوا یہی کہتی رہی کہ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ ابا کا خزانہ سردار کے حوالے کر دیا جائے۔ 
’’ دیکھو عبداللہ !‘‘ وہ کہنے لگی۔ ’’جذباتی ہونے اور جوش میں آنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ ہم نے اگر اب بھی اسے خزانہ دینے سے انکار کیا تو اس کا نتیجہ لازمی طور یہ ہو گا کہ پہلے وہ تمھیں مار ڈالے گا اور پھر ہمارا کام تمام کر دے گا۔ لیکن اگر ہم نے اسے خزانہ دے دیا تو شاید وہ ہمیں کسی غیر ملکی جہاز سے یہاں سے چلے جانے کی اجازت دے دے۔ ‘‘
میں نے کہا، ’’کیسی باتیں کر رہی ہوا یوا! کیا وہ ہمیں اس لیے یہاں سے نکل جانے کی اجازت دے دے گا کہ ہم اپنی کہانی دنیا کو سناتے پھریں۔ ہر گز نہیں، تم اتنی بات نہیں سمجھتیں کہ ایک مرتبہ خزانے پر قبضہ کرنے کے بعد وہ ہمیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔ ہم تو اب تک بچے ہی اس وجہ سے ہیں کہ خزانے کے چھپے ہونے کی جگہ اسے معلوم نہیں ہے اور یہ راز تم دونوں ہی کو معلوم ہے۔ بس اب تو اس کے سوا چارہ نہیں کہ ہم اس کو مار ڈالیں ورنہ وہ ہم کو مار ڈالے گا۔‘‘
مجھے اس بات پر زیادہ زور دینے کی ضرورت نہ تھی۔ ایوا بھی سمجھ رہی تھی کہ کیا ہونا ہے۔ خزانہ ٹانگا کے حوالے کرنے کا بھی وہی نتیجہ نکلنا ہے جو اسے نہ دینے کا ہو گا۔ مگر وہ یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی وجہ سے خون خرابہ ہو۔ اس کا دل بہت نرم تھا۔ آخر کار وہ مجھ سے وعدہ کر کے کہ وہ مجھ سے مشورہ کیے بغیر کچھ نہیں کرے گی ۔اپنی جھونپڑی کی طرف چلی گئی۔ میں کچھ دیر اور وہیں ٹہلتا رہا اور سوچتا رہا کہ جن حالتوں سے ہم دو چار ہیں ان سے کیسے نمٹا جائے۔ اب تک میری ہر تجویز بے کار ثابت ہوئی تھی اور اس کے سوا اور کوئی راستہ نہ تھا کہ میں سر ہینڈرسن کے پرانے ملازم سے اس کی تجویز سننے تک خاموش رہوں۔ مگر میں یہ نہیں سمجھ پارہا تھا کہ اس کی تجویز کیا ہو سکتی ہے اور وہ کس طرح ہمیں اس جزیرے سے فرار ہونے میں مدد دے سکتا ہے۔ بہر حال ان ہی خیالات میں الجھا ہوا میں بستی کی طرف واپس چل دیا۔ سردار ٹا نگا اپنی جھونپڑی کے باہر بیٹھا تھا۔ مجھے آتا دیکھ کر اس نے اشارے سے اپنی طرف بلایا اور جب میں اس کے پاس گیا تو ہیبت ناک طریقے سے دانت نکال کر بولا:
’’یاد ہے۔ کتنے دن باقی ہیں؟ ‘‘
میں نے بے زاری سے جواب دیا ،’’ہاں۔ یاد ہے ۔‘‘
وہ بولا، ’’کوئی خبر؟ ‘‘
’’نہیں کوئی خبر نہیں ۔‘‘ میں نے اسی طرح جواب دیا ۔اس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور بولا:
’’جلدی پتا لگاؤ۔ ورنہ بُرا ہو گا۔ ‘‘
میں نے اس کو کوئی جواب نہ دیا اور اس کے پاس سے چلا آیا۔ مگر دل میں بہت ڈرا۔ اس کی خوف ناک صورت اور اس کے وحشی پن سے میں پہلے ہی خوف زدہ تھا۔ اب اس کی روز روز کی دھمکیوں نے مجھے اور بھی پریشان کر دیا تھا۔ اس نے مجھے یہ اچھی طرح جتا دیا تھا کہ اگر میں نے اس کے کہنے کے مطابق ہیری اور ایوا سے خزانے کا پوشیدہ مقام معلوم کر کے اسے نہ بتایا تو وہ مجھے زندہ نہ چھوڑے گا۔ گویا میں اب چند دن کا مہمان تھا۔ اب بچنے کی لے دے کر ایک ہی صورت رہ گئی تھی اور وہ یہ کہ کسی طرح اس جزیرے سے بھاگ لیا جائے۔ جانے کا ایک ہی راستا تھا اور وہ سمندر تھا۔
جب اس شخص سے ملاقات کو تین دن گزر گئے تو شام کو میں نے ہیری سے اس کا ذکر کیا۔ ہیری بولا، ’’وہ ضرور مانولو ہو گا ابا کا پرانا خدمت گار۔ اس کو کسی طرح ٹانگا کے ارادوں کا پتا چل گیا ہو گا۔ مگر وہ ہماری کیا مدد کرے گا۔ ‘‘
میں نے کہا، ’’یہی تو ہمیں معلوم کرنا ہے اور اسی لیے اس نے مجھے تمھیں ساتھ لے کر آنے کے لیے کہا ہے۔ مگر یہ کام ہمیں بہت احتیاط سے کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے ٹانگا ہماری نگرانی کر رہا ہو۔ یہ اچھا ہے کہ رات ہوگی اور وہ جگہ جہاں وہ مجھے اس رات ملا تھا بستی کے آخری کنارے پر ہے۔ مگر یہ تو بتاؤ کیا اس شخص پر بھروسا کیا جا سکتا ہے ۔‘‘
’’ہاں۔ مانولو میرے باپ کا وفادار ملازم تھا۔ وہ ان سے بہت محبت کرتا تھا۔ وہ میرے اور ایوا کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار ہو گا ۔‘‘ ہیری نے جواب دیا اور پھر ٹھنڈی سانس لے کر بولا، ’’مگر وہ بچارا ہماری کیا مدد کر سکتا ہے۔‘‘
’’ہیری اس نے ضرور کچھ سوچا ہو گا جب ہی تو ہمیں بلایا ہے۔ اس نے مجھے سے اس رات جو کچھ کہا اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم اس جزیرے سے چلے جائیں۔‘‘میں نے کہا۔
  مانولو سے میری ملاقات سورج چھپنے کے کوئی تین گھنٹے بعد ہوئی تھی اور اس نے اسی وقت مجھے دوبارہ آنے کو کہا تھا۔ چنانچہ میں اور ہیری اپنی جھونپڑی میں بیٹھے وقت گزرنے کا انتظار کرتے رہے۔ میں نے ہیری سے کہا کہ میں کچھ دیر پہلے نکل جاؤں گا اور وہ میرے بعد اس جگہ پہنچے۔ اس دوران وہ ایوا کو پوری بات بتادے تاکہ وہ ہم دونوں کے غائب ہو جانے سے پریشان نہ ہو۔ اس سے بھی یہی کہا کہ وہ بڑی احتیاط اور خاموشی سے آئے اور یہ دیکھتا ر ہے کہ کوئی اس کا پیچھا تو نہیں کر رہا۔ اس موقع پر ہمیں ذرا سا بھی خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔
ہیری کو بھی یہ احساس تھا کہ یہ کھیل خطرناک ہے۔ وہ کہنے لگا:
’’ عبداللہ مجھے افسوس ہے کہ میری وجہ سے تم بھی مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہو۔ میں تو کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ٹانگا جو کچھ جاننا چاہتا ہے وہ اس کو بتادوں تاکہ تم تو اس مصیبت سے نکل جاؤ۔ میں اپنے لیے نہیں تمھاری خاطر پوری احتیاط سے کام لوں گا۔ ‘‘
میں نے کہا۔ ’’کیا فضول باتیں کرتے ہو۔ یہ خیال اپنے دل سے نکال ڈالو کہ میں تمہاری وجہ سے کسی پریشانی میں پھنس گیا ہوں۔ ٹانگا کو خزا نے کار از بتانے کی حماقت نہ کرنا۔ ایک مرتبہ خزانہ اس کو مل گیا تو پھر وہ تمھیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔ اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے سب سے پہلے تو وہ تمھاری جان لے گا۔ ہیری! اب تو ہم تینوں ایک ہی کشتی پر سوار ہیں۔ میرا مرنا اور جینا سب تمھارے ساتھ ہے۔ تم نے اور ایوانے میری جان بچائی ہے اور میں اس احسان کو کبھی نہیں بھول سکتا۔‘‘
ہیری نے محبت سے میرا ہاتھ تھام لیا اور بولا، ’’عبداللہ تم واقعی بہت نیک اور بہادر ہو۔ اب ہمارا کچھ بھی انجام ہو، تمہیں زندہ سلامت رہنا ہے۔‘‘
میں اسے جھونپڑی میں چھوڑ کر باہر آگیا اور بظاہر بے مقصد ٹہلتا ہوا دور نکل گیا۔ پھر درختوں کے جھنڈ کے پاس پہنچ کر چھپ کر بیٹھ گیا اور انتظار کرنے لگا کہ مقررہ وقت ہو تو مانولو کی جھونپڑی کے قریب اس مقام پر جاؤں جہاں اس سے ملاقات طے ہوئی تھی۔ خوش قسمتی سے رات اندھیری تھی پھر بھی میں بڑی احتیاط سے چکر کا ٹتا ہو ا،چھپتا چھپاتا اس مقام کی طرف روانہ ہوا۔ کئی بار راستے میں، میں نے رک کر ادھرادھر دیکھا کہ کوئی میرا پیچھا تو نہیں کر رہا ہے۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ میں بغیر کسی پریشانی کے وہاں پہنچ گیا۔ میرے پہنچنے کے چند ہی منٹ بعد ہیری بھی وہاں آپہنچا۔ اس نے مجھے نگرانی کے لیے وہاں کھڑا کیا اور خود گھٹنوں کے بل اس گڑھے کی طرف بڑھا جہاں مانولو ہمارے انتظار میں چھپا بیٹھا تھا۔
اندھیرے میں مانولو مجھے نظر نہیں آیا لیکن ہیری کی آواز مجھے سنائی دے رہی تھی جو مقامی زبان میں مانولو سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہا تھا۔ ان دونوں کی گفتگو خاصی دیر تک جاری رہی۔ اس دوران میں آنکھیں پھاڑے اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ ہر آہٹ پر چونک پڑتا اور ڈر کر ادھر ادھر دیکھنے لگتا۔ اللہ کا شکر ہے کہ کوئی ادھر سے نہیں گزرا اور ہیری اطمینان سے مانولو سے باتیں کر سکا۔
آخر کار ان دونوں کی باتیں ختم ہوئیں اور میری جان میں جان آئی۔ ہیری اسی طرح گھٹنوں کے بل گھسٹتا ہوا واپس آیا اور میری ٹانگ کو چھو کر چل دینے کا اشارہ کیا۔ 
’’آؤ چلیں۔ مانولو نے مجھے سب کچھ بتادیا ہے۔ وقت بہت تھوڑا ہے۔ اپنی جھونپڑی میں چل کر بات کریں گے۔ ‘‘اس نے کہا۔
 میں نے محسوس کیا کہ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ پریشان ہے۔ اس لیے میں نے اس سے کوئی سوال نہ کیا اور خاموشی سے اس کے ساتھ اپنی جھونپڑی کی طرف چل دیا جہاں ایوا ہمارے انتظار میں بیٹھی تھی۔
فرار کا منصوبہ 
ہم بڑی تیزی اور احتیاط سے قدم اٹھاتے ہوئے اپنی جھونپڑی میں آئے تو ایوا کو فکر مندی کے ساتھ ٹہلتے ہوئے پایا۔ مدھم چراغ کی روشنی میں اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار صاف نظر آرہے تھے۔ ہیری کا چہرہ بھی پیلا پڑا تھا۔ مانولو کی گفتگو نے اسے بہت ہی زیادہ گھبرا دیا تھا۔ ہماری واپسی پر ایوا نے اطمینان کا اظہار کیا تو بھی اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی خاموشی نے مجھے بھی فکر میں ڈال دیا۔ ایوا نے پوچھا، ’’ہیری! مانولو سے تمھاری بات ہو گئی؟ ‘‘
’’ہاں!‘‘ اس نے آہستہ سے جواب دیا۔ 
’’کیا بات ہے ہیری، تم اتنے پریشان کیوں ہو؟ کیا بتایا ہے اس نے جس نے تمھیں اتنا ڈرا دیا ہے؟ ‘‘میں نے پوچھا۔ 
ہیری کی آنکھوں میں آنسو آگئے مگر اس نے فورا ًہی اپنے آپ کو سنبھال لیا اور کہنے لگا:
  ’’ٹانگا کے ارادے بہت بُرے ہیں۔ مانولو نے سب کچھ سن لیا ہے۔ مجھ میں حوصلہ نہیں کہ میں ایوا کو بتاؤں۔ ‘‘
’’ہیری، مرد بنو۔ مجھے بتاؤ کیا ارادہ ہے اس کا۔ یہی نا کہ وہ ہمیں مار ڈالے گا۔ کیا ہم یہ نہیں جانتے؟ بتاؤ کب وہ ہمیں مارنا چاہتا ہے؟ ‘‘ایوانے غیر معمولی ہمت سے کہا۔
’’آج سے تین دن بعد وہ ہم تینوں کو اپنی جھونپڑی میں بند کر دے گا۔ اور پھر اگر ہم نے اسے یہ نہ بتایا کہ ابا نے خزانہ کہاں چھپایا ہے تو وہ عبداللہ کو مار ڈالے گا۔ پھر اس کا ارادہ ہے کہ تم سے پوچھے گا، اگر تم نے بھی نہ بتایا تو وہ مجھے ہلاک کر دے گا۔ ‘‘
ایوا کا چہرہ سرخ ہو گیا، پھر ایک دم خوف سے پیلا پڑ گیا اور وہ کانپنے لگی تا ہم جلدی ہی اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا اور آہستہ سے بولی:
’’ مگر مانولو کو یہ کیسے معلوم ہو گیا۔ میرا تو خیال ہے ہمیں ڈرانے کے لیے ٹا نگا جو باتیں کر رہا ہے وہ اس نے سن لی ہوں گی۔ ‘‘
میں نے ایوا کو بیچ میں ٹوک دیا اور کہا، ’’نہیں!میرا خیال ہے، مانولو نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہے۔ ٹانگا بے رحم، وحشی انسان ہے۔ وہ یہی کرے گابلکہ مجھے تو اس بات پر تعجب ہے کہ وہ اب تک کیوں چپ ہے۔ لیکن ہیری! کیا مانولو نے تمہیں صرف اسی خطرناک منصوبے سے آگاہ کرنے کے لیے بلایا تھا یا اس سے بچنے کا بھی کوئی طریقہ بتایا؟ ‘‘
ہیری نے جواب دیا، ’’ہاں! جب تم اس کی تجویز سُن لو گے تو تمھیں یقین آجائے گا کہ واقعی ٹانگا اپنے منصوبے پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔‘‘ پھر وہ آہستہ سے بولا، ’’تم دونوں ذرا قریب قریب آجاؤ۔ ابا جان کہا کرتے تھے کہ دیوار کے بھی کان ہوتے ہیں۔ ‘‘
ہم دونوں فرش پر ہیری کے دونوں طرف بالکل اس سے مل کر بیٹھ گئے اور وہ بہت ہی دھیمی آواز میں مانولو سے اپنی گفتگو کی تفصیل بتانے لگا۔ وہ بولا:
’’ پہلی بات تو یہ اچھی طرح سمجھ لو کہ مانولو خود بھی بہت ڈرا ہوا ہے اور ہمیں جو کچھ کرنا ہے، فوراً ہی کر ڈالنا چاہیے کیوں ایک دو روز بعد سب کچھ بے کار ہو جائے گا۔ ‘‘
’’پہلے یہ تو معلوم ہو اس کی تجویز کیا ہے۔ پھر فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ‘‘میں نے کہا۔
  اس نے کہا، ’’سنو۔ مورا کے جنوب مشرق میں پچاس میل دور ایک جزیرہ ہے، وہاں میرے ابا کے ایک دوست سنٹن فلپ رہتے ہیں۔ یہ بڑے نیک آدمی ہیں۔ ان کا بڑا کار وبار ہے اور جزیرے کے لوگ ان کی بڑی عزت کرتے ہیں اور ان کا وہاں بڑا اثر ہے۔ اگر ہم کسی طرح ان کے پاس پہنچ جائیں تو ٹا نگا ہمارا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے گا۔‘‘
’’اچھا تو مانولو نے مجھ سے جو یہ کہا تھا کہ جال پھیلا دیکھ کر پرندہ پر پھیلاتا ہے اور اڑ جاتا ہے تو اس کا مطلب یہی تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پرندہ بغیر پروں کے کیسے اڑ سکتا ہے۔ ہم اس جزیرے تک پہنچیں گے کیسے؟ ‘‘میں نے کہا۔
’’ مانولو اس کا انتظام کرے گا۔ اس کے پاس ایک چھوٹی سی کشتی ہے جس میں ہم آسانی سے آسکتے ہیں۔ وہ خود بھی ہمارے ساتھ چلے گا ۔اسے راستہ معلوم ہے وہ کئی بار وہاں آجاچکا ہے۔ ‘‘ہیری نے بتایا۔
’’ پر سکون سمندر میں پچاس میل کا سفر تو کوئی بڑی بات نہیں، ایک چھوٹی سی کشتی میں بھی یہ سفر کیا جا سکتا ہے۔ مانولو کی تجویز بہت اچھی ہے۔ اس پر ہمیں فوراً عمل کرنا چاہیے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہی ایک راستہ ہے جس سے ہم اپنی جانیں بچا سکتے ہیں ۔‘‘
  ’’مگر مانولو کو تو ٹا نگا زندہ نہیں چھوڑے گا؟ اس کا کیا بنے گا؟ ‘‘ایوانے پریشان ہو کر پوچھا۔
’’اس کا انتظام ہم کر لیں گے۔ مسٹر سنٹن فلپ اسے کسی طرح کا نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ دیکھو ایوا !ان باتوں کے سوچنے کا یہ وقت نہیں۔ ہمارے سامنے بس ایک ہی راستہ ہے یا تو ہم یہاں سے کسی طرح نکل جائیں یا یہیں رہیں اور ٹانگا کے ہاتھوں مارے جائیں۔‘‘ ہیری نے جواب دیا۔ پھر وہ میری طرف مخاطب ہو کر بولا، ’’کیوں عبداللہ !کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟ ‘‘
’’ نہیں ہیری! تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ ہمیں یہاں سے نکل بھاگنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ ورنہ ٹا نگا ہمیں مار ڈالے گا۔ اپنی جان بچانے کا یہی ایک طریقہ ہے ۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
  ایوا نے پوچھا، ’’تو پھر یہاں سے کب چلنا ہے؟ ‘‘
’’ کل رات۔ ہم ایک دن اور رک سکتے ہیں لیکن مانولو کہتا ہے کہ جس معاملے میں ٹانگا کا دخل ہو وہاں ایک لمحے کی دیر کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں اور میری بھی یہی رائے ہے۔‘‘ہیری نے جواب دیا۔
  مجھے اپنا جہاز کا سفر یاد آگیا۔ میں نے اس سفر سے بہت کچھ سبق سیکھا تھا۔ چنانچہ میں نے ہیری سے کہا کہ ہمیں سفر کے دوران کسی بھی آفت کا سامنا ہو سکتا ہے اس لیے کشتی میں پانی اور دوسری ضروری چیزوں کا انتظام کرنا ہو گا۔
’’ اس کا انتظام مانولو کر لے گا۔ اس نے مجھ سے کہہ دیا ہے کہ میں اس کی فکر نہ کروں۔ ہمارا کام تو صرف اتنا ہو گا کہ ابا جان کا خزانہ نکال کر کشتی میں لے جائیں۔ میں نے مانولو کو بتایا ہے کہ ہم کس وقت خزانہ لے کر ساحل پر پہنچ جائیں گے تاکہ وہ اس وقت اپنی کشتی تیار رکھے۔ ‘‘ہیری نے کہا۔ پھر وہ ایوا سے بولا ،’’خوش ہو جاؤ۔ چوبیس گھنٹے سے بھی کم میں ہم ٹا نگا کے چنگل سے نکل جائیں گے۔ ‘‘
خطرے سے نکل جانے کی امید نے ہیری میں اعتماد پیدا کر دیا تھا۔ اس کے چہرے پر خوشی تھی اور آواز میں بھی مسرت کی لہر تھی۔ میں نے بھی اس کے حوصلے کو بڑھانے کی پوری کوشش کی لیکن میں اس کی طرح پر امید نہیں تھا اور یہ نہیں سمجھ رہا تھا کہ بس اب خطرے ٹل گئے ہیں۔ ٹانگا بڑا خطرناک آدمی تھا اور اگر اسے ذراسی بھی بھنک مل گئی کہ ہم مورا سے بھاگنے کا منصوبہ بنارہے ہیں تو وہ ہمیں زندہ نہ چھوڑے گا۔ اس میں شک نہیں تھا کہ مانولو ہوشیار آدمی تھا اور اس نے بڑی سوجھ بوجھ سے ہمارے فرار کا منصوبہ بنایا تھا لیکن یہ مہم بڑی نازک اور خطر ناک تھی۔ ذراسی غلطی ساری تدبیر پر پانی پھیر سکتی تھی۔ مانولو کو بھی اور ہمیں بھی بڑی راز داری سے سارا کام کرنا تھا۔ ٹانگا کی نظریں ہر وقت ہم پر رہتی تھیں۔ ایوا کو بھی میری طرح شبہات تھے۔ وہ بھائی کی طرح پر امید نہیں تھی۔
اتنا زمانہ گزر جانے کے بعد بھی جب میں اس رات کو یاد کرتا ہوں جب ہم ہیری کے ساتھ نیم تاریک جھونپڑی میں بیٹھے سر گوشیوں میں مانولو کے منصوبے پر باتیں کر رہے تھے تو میں چونک اٹھتا ہوں۔ ہیری جزیرے سے نکل بھاگنے کی امید میں خوشی سے بے تاب ہو رہا تھا اور میں نئے نئے اندیشوں سے گھبرا رہا تھا۔ مجھے یہ ڈر ہوا کہ کہیں ہیری بے تابی میں کوئی بات ایسی نہ کر گزرے جس سے ٹانگا کو شبہ ہو جائے اور ہماری ساری تدبیریں خاک میں مل جائیں۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ وہ دن میں طبیعت کی خرابی کا بہانہ کر کے جھونپڑی ہی میں رہے اور ہر گز باہر نہ نکلے۔ ایوا کا مزاج بھائی سے مختلف تھا۔ اس پر بھروسا کیا جاسکتا تھا کہ وہ اپنے جذبات قابو میں رکھے گی اور واقعی وہ اسی طرح اپنے روز مرہ کے کام کرتی رہی جیسے کوئی خاص بات نہ ہو۔ میری کیفیت اگر پوچھیے تو ایسی تھی جیسے کوئی انگاروں پر بیٹھا ہو۔
دوسرے دن صبح صبح سردار ٹانگا نے مجھے بلا بھیجا اور سارا دن اپنے ساتھ رکھا۔ یہ محض اتفاق تھا یا اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ پہلے تو میں یہ سمجھا کہ اسے ہمارے منصوبے کا پتا چل گیا ہے اور ڈر سے میں اندر ہی اندر کانپنے لگا۔ لیکن جب رفتہ رفتہ اس کی باتوں نے مجھے یہ یقین دلا دیا کہ میرا شبہ غلط ہے تو میری جان میں جان آئی۔ لیکن یہ بات صاف تھی کہ وہ مجھ سے کوئی خاص بات کہنا چاہ رہا ہے۔ شام کے وقت اس نے مجھ سے مسٹر ہینڈرسن کے خزانے کا ذکر چھیڑا اور مجھ سے پوچھا کہ میں نے اس کا کچھ پتا چلایا۔
  جب میں نے اس کے جواب میں کہا :’’نہیں ‘‘تو اس نے ایسا خوف ناک منہ بنایا کہ میں ڈر گیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ خزانے کا پتا چلانے کے لیے مجھے جو مہلت دی گئی ہے اس کے ختم ہونے میں اب صرف دو دن باقی رہ گئے ہیں۔ میں نے کہا کہ ہاں مجھے یاد ہے۔ میں اس کو کیسے بھول سکتا ہوں لیکن یہ کام آسان نہیں۔ میں کوشش کر رہا ہوں اور مجھے پورا بھروسا ہے کہ میں مہلت کا وقت ختم ہونے تک اس خفیہ جگہ کا پتا چلالوں گا جہاں مسٹر ہینڈرسن کا خزانہ چھپایا گیا ہے۔ ٹانگا اس پر خوش ہو گیا اور اسے یقین ہو گیا کہ میں واقعی خزانے کی خفیہ جگہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مگر اس نے فورا ًخوف ناک منہ بنایا اور دھمکی آمیز لہجے میں مجھ سے کہا:
’’ یا درکھ لڑکے! اب مہلت نہیں ملے گی۔ دودن میں خزانے کا پتا نہ لگایا تو تیری خیر نہیں۔ ‘‘
میں جانتا تھا کہ یہ خالی خولی دھمکی نہیں ہے۔ ٹانگا اب ایک دن بھی رکنے کو تیار نہیں ہے۔ بہر حال شام کو سورج چھپنے کے بعد میں نے بہ مشکل اس سے پیچھا چھڑایا اور سیدھا ایوا کی جھونپڑی کی طرف روانہ ہو گیا کیوں کہ ہم نے مانولو سے ساحل پر ملنے کے لیے رات دس بجے کا ٹائم طے کر رکھا تھا۔ ایوا میرے تمام دن غائب رہنے کی وجہ سے پریشان تھی اور ہیری کا تو گھبراہٹ کے مارے یہ حال تھا کہ جوں ہی میں جھونپڑی میں داخل ہوا اس نے اٹھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا:
’’عبداللہ خیریت تو ہے۔ کہیں اسے پتا تو نہیں چل گیا؟ ‘‘
میں نے اسے تسلی دی اور کہا، ’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ تم بالکل پریشان نہ ہو۔ وہ سمجھے بیٹھا ہے کہ ہم اس کے پوری طرح قابو میں ہیں اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اس نے مجھے پھر دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے دو دن کے اندر اندر خزانے کا پتا نہ لگایا تو وہ مجھے زندہ نہ چھوڑے گا۔‘‘
’’میں تو بہت پریشان ہوں۔ نہ جانے کیا ہونے والا ہے۔ ‘‘ایوانے کہا۔اس کے لہجے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کافی خوف زدہ ہے۔
’’ایوا! ‘‘میں نے کہا، ’’تم اب کیوں اتنی پریشان ہو؟ اب تو صرف چند گھنٹوں کی بات ہے۔ پھر ہم ٹانگا کے چنگل سے آزاد ہو جائیں گے۔ تمھیں تو خوش ہونا چاہیے کہ اللہ نے ہمارے یہاں سے نکلنے کی ایک صورت پیدا کردی۔‘‘
  ’’میرا تو دل چاہتا ہے جانے سے پہلے ٹانگا کو گولی مار دوں۔ ‘‘ہیری نے جوش سے کہا۔
’’جی تو میرا بھی یہی چاہتا ہے۔ ‘‘میں نے کہا۔
  ہم نے آپس میں یہ طے کیا تھا کہ جاتے وقت مسٹر ہینڈرسن کے خزانے اور ایک تلوار کے سوا جو ان کے مرنے کے بعد ہیری نے چھپا دی تھی، سب کچھ یہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ میں تو تلوار کے لے جانے کا بھی مخالف تھا لیکن ہیری اسے اپنے باپ کی نشانی سمجھ کر اسے ساتھ لے جانے پر مصر تھا۔ تلوار در حقیقت اس جزیرے میں مسٹر ہینڈرسن کی سرداری کی علامت بھی تھی۔ ہیری نے مجھے بتایا تھا کہ مانولو کے پاس اس کے باپ کی دی ہوئی ایک بندوق اور کچھ کارتوس ہیں جو وہ لے آئے گا۔
اب ہمیں کچھ کرنانہ تھا۔ دس بجنے میں دیر تھی اور وقت تھا کہ کاٹے نہیں کٹ رہا تھا۔ طرح طرح کے وسوسے الگ پیدا ہورہے تھے۔ میں ایوا کو اور ہیری کو ہمت دلار ہا تھا لیکن میرا خود یہ حال تھا کہ گھبراہٹ اور خوف سے دل بیٹھا جارہا تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد میں اب سوچتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ اتنی کم عمری میں ہم تینوں میں اتنا حوصلہ کیسے پیدا ہو گیا تھا کہ ہم نے ایک طاقتور اور جنگجو وحشی سردار سے مقابلے کی ٹھان لی۔ اصل بات یہ ہے کہ جب انسان اللہ پر بھروسا کر لیتا ہے اور اس کے بھروسے پر اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو اس میں خود بخود ہمت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس وقت بھی جب ہم اس بات سے ڈرے ہوئے تھے کہ کہیں ٹانگا کو ہمارے ارادوں کی خبر نہ ہو جائے اور اس کے آدمی ہماری جھونپڑی کو چاروں طرف سے گھیر نہ لیں، اور ہیری بار بار اٹھ کر جھونپڑی کے باہر جاکر احتیاط سے جھانک لیتا، میں خاموش بیٹھا اللہ ہی کو یاد کر رہا تھا۔
آخر کار انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔ ہیری نے اشارہ کیا کہ جھونپڑی سے چل نکلنے کا وقت ہو گیا۔ میں نے احتیاط سے باہر نکل کر پہلے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کوئی ہمیں دیکھ تو نہیں رہا، پھر جب دیکھا کہ ہر طرف سناٹا ہے تو ایوااور ہیری کو آنے کا اشارہ کیا۔ ہم نے یہ طے کیا تھا کہ ایوا جھونپڑی سے نکل کر سیدھی ساحل پر جائے گی جہاں مانولو کشتی لیے ہمارا انتظار کر رہا تھا اور ہیری اور میں اس جگہ جائیں گے جہاں مسٹر ہینڈرسن کا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ وہاں سے خزانہ نکال کر ہم دونوں بھی کشتی پر پہنچ جائیں گے۔ وہ جگہ جہاں خزانہ چھپا ہوا تھا ساحل کے قریب ہی تھی۔ چنانچہ ایوا تو چپکے سے ساحل کی طرف روانہ ہو گئی اور ہم دونوں چھپتے چھپاتے اس طرف چل دیے جہاں خزانہ چھپا ہوا تھا۔ 
ہم اسی طرح احتیاط سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے تیزی کے ساتھ ساحل کے قریب پہنچ گے۔ وہیں چٹانوں کے درمیان ایک خفیہ غار میں مسٹر ہینڈرسن کا خزانہ چھپا ہوا تھا۔ ان چٹانوں کی طرف مڑنے سے پہلے میں نے پلٹ کر دیکھا تو درختوں کے درمیان مجھے دو آنکھیں چمکتی ہوئی نظر آئیں۔ کوئی ہمیں دیکھ رہا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ یہ یقینا سردار ٹانگا کا آدمی ہو گا جس کو اس نے ہماری نگرانی کے لیے مقرر کیا ہو گا۔ اور اب جب کہ اس نے ہمیں دیکھ لیا ہے وہ جاکر سردار کو اس کی اطلاع دے گا اور پھر ہم پر مصیبت آجائے گی۔ اس خیال سے میری جان نکل گئی۔ لیکن میں نے ہیری کو یہ نہیں بتایا کہ ہمارا بھید کھل گیا ہے بس اس سے یہی کہا، ’’ہیری، جلدی کرو ہم خطرے میں ہیں۔ ‘‘
پھر سمندر میں
یہ بھی ہماری خوش قسمتی ہی تھی کہ ہیری کو چٹانوں کے درمیان وہ چھوٹا سا غار اچھی طرح یاد تھا جہاں مسٹرہینڈرسن نے اپنا خزانہ چھپایا تھا۔ ہیری نے وہاں پہنچ کر جلدی سے زین کے دو تھیلے اندر سے نکال لیے اور تھوڑی ہی دیر میں ہم دونوں وہاں سے نکل کر ساحل کی طرف چل پڑے۔ ایک تھیلا ہیری کے ہاتھ میں تھا اور دوسرا میرے۔ ایوا پہلے ہی کشتی میں پہنچ چکی تھی اور ہمارا انتظار کر رہی تھی۔ اب ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ مجھے معلوم تھا کہ اب تک سردار کو ہمارے فرار کی خبر مل چکی ہو گی اور وہ ہمارا پیچھا کرنے آرہا ہو گا۔ میں نے کہا، ’’ہیری جلدی چلو۔ ہم سخت خطرے میں ہیں۔ جب تک ہم سمندر میں دور تک نہیں نکل جائیں گے ہماری جانیں محفوظ نہیں ہیں‘‘۔
ہیری نے میری طرف دیکھا اور بولا:
’’ کیا بات ہے عبداللہ؟ تم ڈر کیوں رہے ہو؟ ‘‘
مجھے ہیری کو جواب دینے کی ضرورت نہ تھی۔ درختوں کے اس طرف پتوں کی سرسراہٹ اور دور سے وحشیوں کی ملی جلی آوازوں نے ظاہر کر دیا تھا کہ ہمارا راز فاش ہو گیا ہے اور ہم شدید خطرے میں پھنس گئے ہیں۔ 
’’یہ تو بہت برا ہوا۔ اب کیا ہو گا؟ ‘‘ہیری نے پریشان ہو کر کہا۔
’’اب جو کچھ بھی ہو۔ یہاں سے بھا گو اور جتنی جلدی ہو سکے ساحل پر پہنچ کر کشتی میں سوار ہو جاؤ۔ تاکہ ان وحشیوں کے ساحل پر پہنچنے سے پہلے ہم سمندر میں نکل جائیں ۔‘‘
  یہ کہہ کر میں نے ہیری کا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے ساحل کی طرف دوڑنا شروع کر دیا۔ اسی لمحے ایک بھیانک آواز میں کسی کے نعرہ لگانے کی آواز آئی اور کوئی بیس پچیس سیاہ فام وحشی درختوں کے جھنڈ سے باہر نکل آئے۔ ٹانگا ان کے ساتھ تھا اور وہ چیختے چلاتے ہماری طرف دوڑتے چلے آ رہے تھے۔
  ہیری نے ایک نظر مجھے دیکھا اور میں نے اسے۔ پھر ہم نے بے تحاشا بھاگنا شروع کر دیا۔ یہ دوڑ ایسی تھی جس میں ہارنے کا مطلب موت کے سوا کچھ نہ تھا اور ہم ان وحشیوں کے ہاتھوں مرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ہم تیز دوڑ رہے تھے لیکن ہمارے اور وحشیوں کے درمیان فاصلہ برابر کم ہوتا جارہا تھا۔ ایک تو وہ ہم سے زیادہ تن درست اور توانا تھے، پھر ٹانگا ان کو برابر تیزی سے دوڑ کر ہمیں پکڑنے پر ابھار رہا تھا۔ ٹانگا کی آواز صاف تو سنائی نہیں دے رہی تھی لیکن صاف لگ رہا تھا جیسے وہ ہمیں دھمکیاں بھی دیتا جا رہا ہے۔
ہمارا یہ حال تھا کہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کا بھی موقع نہ تھا۔ ہم بے تحاشا دوڑ رہے تھے۔ میرا گلا خشک ہو چکا تھا اور ٹانگیں شل ہوئی جارہی تھیں۔ ہیری کا بھی یہی حال تھا لیکن ہم دونوں برابر ایک دوسرے کو اور تیز دوڑنے پر اکسائے جارہے تھے۔ مجھے تو بد حواسی میں کچھ نظر نہیں آرہا تھا لیکن ہیری اچانک خوشی سے چیخ اٹھا: 
’’وہ رہی کشتی۔ ایوا ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ بس دو تین منٹ کی اور بات ہے، عبداللہ پھر ہم خطرے سے باہر ہوں گے ۔‘‘ وہ ہانپ رہا تھا۔
میں نے سر اٹھا کر دیکھا واقعی کشتی تھوڑے ہی فاصلے پر تھی مگر ہمارا پیچھا کرنے والے بھی ہم سے کچھ زیادہ دور نہ تھے۔ کیا ہم یہ فاصلہ طے کر سکیں گے؟ کیا اس سے پہلے کہ یہ ہمیں پکڑ لیں ہم کشتی میں سوار ہو جائیں گے؟ جو کچھ بھی ہو، میں نے سوچا، ہمیں ہر حال میں کشتی تک پہنچتا ہے۔ مانولو کشتی کے بادبان ٹھیک کر رہا تھا اور ایوا بے قراری سے ہمیں اشارے کر رہی تھی اور چیخ چیخ کر آواز دے رہی تھی۔ ’’ہیری جلدی کرو عبد اللہ جلدی کرو۔ ذرا اور تیز دوڑو ۔‘‘
ایوا کو اشارے کرتے دیکھ کر میری ہمت بڑھ گئی اور گو میری ٹانگیں جواب دے گئی تھیں اور تھیلے کا بوجھ الگ پریشان کر رہا تھا ۔میں نے ایک بار اور زور لگایا اور زیادہ تیزی سے دوڑنے لگا۔ اچانک ایک دھماکا ہوا اور ایک گولی سن سے میرے سر پر سے گزر گئی۔ قریب تھا کہ میں لڑکھڑا کر گر جاتا کہ ہیری نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ گولی ٹانگا نے چلائی تھی اور اب وہ زندہ یا مردہ ہمیں ہر حال میں پکڑنا چاہتا تھا۔ لیکن اتنی دیر میں ہم ساحل تک پہنچ چکے تھے۔ ہم فوراً پانی میں کود پڑے اور تھیلے کشتی میں ڈال کر اسے آگے دھکیل کر اس میں سوار ہو گئے۔
ہیری نے ساحل کی طرف دیکھا جہاں ٹانگا اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہنچ چکا تھا اور ہاتھ ہلا کر زور سے کہا، ’’اللہ حافظ ٹا نگا! ‘‘
ٹانگا غصے سے لال پیلا ہورہاتھا اور اپنی زبان میں وحشیوں کو کچھ ہدایتیں دے رہا تھا۔ چنانچہ کچھ وحشی تو اپنی کشتیاں لینے دوڑ پڑے جو وہاں سے دو تین میل دور تھیں اور کچھ اپنے سردار کے ساتھ رہ گئے۔ ہماری کشتی چل پڑی تھی۔ مانولو نے بادبان ٹھیک کر دیئے تھے اور ہیری نے چپو سنبھال لیا تھا۔ یکایک پھر بندوق چلنے کی آواز آئی اور اس کے ساتھ ہی ایک چیخ سنائی دی۔ میں نے گھبرا کر پیچھے دیکھا مانولو نے بازو او پر اٹھائے اور دھڑام سے کشتی میں گر پڑا۔
وحشیوں نے خوشی سے نعرے لگانے شروع کر دیئے اور پانی میں گھس کر ہماری طرف بڑھنے لگے۔ ایسا محسوس ہونے لگا جیسے ہماری ساری محنت برباد ہو جائے گی اور عین اس وقت جب کہ ہم مورا سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہو رہے تھے دشمن ہمیں گھیر لے گا۔
اس مشکل وقت پر ہیری نے بڑے حوصلے سے کام لیا، مجھ سے کہا کہ میں بادبانوں کا خیال رکھوں اور خود مانولو کی بندوق اٹھالی۔ اس نے تاک کر ٹانگا کا نشانہ باندھا اور گولی چلا دی لیکن نشانہ چوک گیا۔ یہ وقت ہم پر بڑا نازک تھا۔ ہمارا مددگار اور رہبر کشتی میں زخمی پڑا تھا۔ ایوا اس کی دیکھ بھال میں لگی تھی۔ وحشی ہماری کشتی کی طرف بڑھتے چلے آرہے تھے۔ میں نے جلدی سے چپو سنبھالا اور کشتی کے اگلے حصے میں آکر اس وحشی پر بھر پور وار کیا جو کشتی کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا۔ وہ تیورا کر پانی میں گرا اور اس کا ایک ساتھی اسے گھسیٹ کر کنارے پر لے گیا۔ اپنے ساتھی کا حشر دیکھ کر وحشی کچھ دیر ٹھٹکے لیکن پھر شور مچاتے ہوئے کشتی کی طرف بڑھے۔ ان کے ہاتھوں میں موٹے موٹے ڈنڈے تھے۔ مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے اب کچھ دیر میں ساری جدوجہد ختم ہو جائے گی اور ہم ان وحشیوں کے ہاتھ یا تو مر جائیں گے یا گر فتار ہو جائیں گے۔
ہیری نے بندوق پھر بھرنے کی کوشش کی اور جب اس میں کامیاب نہ ہوا تو خیال چھوڑ دیا اور اس کو نالی کی طرف سے پکڑ کر اس کے کندے سے وحشیوں پر وار کرنے لگا۔ اس نے تین چار وحشیوں کے سرپھاڑ دیئے اور وہ خون میں ڈوبے ساحل کی طرف لوٹ گئے۔ لیکن ہمارا اصل دشمن جو وحشیوں کا سردار بھی تھا یہ کیسے گوارا کرتا کہ پندرہ برس کے دو لڑکوں سے ہار مان لے۔ وہ اپنے ایک زخمی ساتھی کو ہٹا کر بندوق سنبھالے آگے بڑھا۔ ہیری نے اس پر بھی بندوق کے کندے سے وار کیا لیکن اس کا وار خالی گیا۔ یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ جیسے ہی وہ اس وار سے بچنے کے لیے مڑا میری زد میں آگیا۔ میں نے پوری طاقت سے ایک چپو اس کی کنپٹی پر ایسا مارا کہ وہ بے ہوش ہو کر پانی میں گر پڑا۔ اس کے گرنے سے وحشیوں میں افرا تفری مچ گئی اور انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ پھر وہ ٹا نگا کو اٹھا کر ساحل پر لے گئے۔
ہیری نے چلا کر کہا، ’’جلدی کرو۔ عبداللہ جلدی۔ یہاں سے بھاگ نکلنے کا یہی وقت ہے ۔‘‘
  ہم نے پوری تن دہی سے اپنی کشتی چلانی شروع کر دی اور اس سے پہلے کہ وحشی دوبارہ جمع ہو کر ہم پر حملہ کرتے ہم کشتی کو دور سمندر میں لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ بادبان پرانا تھا اور اس کی وجہ سے کشتی کی رفتار سست تھی۔ ہم مسلسل چپو چلارہے تھے۔ کشتی آہستہ آہستہ آگے بڑھتی جارہی تھی۔ ہمارے ہاتھ شل ہوئے جارہے تھے اور بدن ٹوٹ رہا تھا۔ پسینا چوٹی سے بہ کر ایڑی تک آرہا تھا لیکن ہم رک جانے کی جرات نہیں کر سکتے تھے۔ ہمیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ اب تک کئی کشتیاں ہماری تلاش میں جزیرے سے روانہ ہو چکی ہوں گی۔ اگر ٹانگاہوش میں آگیا ہو گا تو وہ خود ہمارا پیچھا کر رہا ہو گا۔ رات اندھیری تھی اس سے بھی ہمیں فائدہ پہنچا۔ جب ہم بالکل تھک گئے اور ہم میں دم نہیں رہا تو ہم نے چپو ہاتھ سے رکھ دیئے اور سننے لگے۔ پانی میں ہماری کشتی کے چلنے کی آواز کے سوا اور کوئی آواز نہ تھی۔ ہر طرف سناٹا تھا۔ چنانچہ اب پہلی بار ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہم ٹا نگا کے چنگل سے نکل آئے ہیں۔
اپنی سلامتی کا احساس ہوا تو مانولو کی طرف توجہ دی۔ وہ بچارہ بے حس و حرکت پڑا تھا۔ میں نے اس کی جو کچھ مرہم پٹی ہو سکتی تھی کرنے کی کوشش کی۔
گولی اس کے سینے میں لگی تھی اور خون نکل جانے کی وجہ سے اس میں کچھ باقی نہ رہا تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ غریب چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔ ایوانے بڑی ہمت کا اظہار کیا تھا۔ ہم چپو چلا رہے تھے تو وہ بادبان ٹھیک کرنے میں لگی تھی۔ اب وہ بھی مانولو کے پاس آگئی اور اس کا سر اس نے اپنی گود میں رکھ لیا۔ میں اس کے خشک منہ میں بار بار پانی ٹپکاتا اور ہیری اس کے تپتے ہوئے ماتھے پر اپنا رومال بھگو بھگو کر رکھتا۔ ایوا بڑی رحم دل تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہ اندھیرے میں بیٹھی چپکے چپکے رو رہی ہے اور اس کے آنسو ڈھلک ڈھلک کر مانولو کے چہرے پر گر رہے ہیں۔ اسے مانولو سے واقعی انس تھا۔ اس نے بچپن سے اس لڑکی کی خدمت کی تھی اور اس کے ساتھ رہا تھا۔
رات آہستہ آہستہ گزرتی گئی اور کشتی آگے بڑھتی گئی، یہاں تک کہ افق پر روشنی کی ایک لکیر نے پھیل کر صبح ہونے کی خبر دی۔ ایوا اسی طرح مانولو کا سر اپنی گود میں لیے بیٹھی تھی۔ صبح کی پہلی کرن کے ساتھ مانولو نے آنکھیں کھولیں۔ ایوا کو دیکھا اور اپنی زبان میں آہستہ سے کچھ کہا۔ اس کی آواز اس قدر دھیمی تھی کہ ایوا اس کے منہ کے قریب اپنا کان لا کر بھی نہ سمجھ سکی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ مانولو نے بڑی مشکل سے اپنا ہاتھ اٹھایا اور بڑے پیار سے ایوا کا ہاتھ دبایا۔ ایک مسکراہٹ سی اس کے چہرے پر آئی اور پھر اسی لمحے اس نے ایک ہچکی لی اور ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گیا۔ عین اس وقت جب کہ سورج دور سمندر کے آخری کنارے سے ابھر رہا تھا مانولو آخری نیند سو چکا تھا۔ وہ ایک شریف انسان اور وفادار دوست تھا جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر اپنے مالک کے بچوں کی جان بچانے کی کوشش کی اور پھر اسی کوشش میں اپنی جان دے دی۔
مانولو کی موت نے ایوا اور ہیری کو ہی نہیں مجھے بھی اُداس کر دیا۔ میں نے ایک کپڑے سے اس کا چہرہ ڈھانپ دیا اور ایوا سے کہا کہ آؤ اس نیک انسان کی مغفرت کے لیے دعا کریں۔ ایوا رونے لگی اور ہماری آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے۔ پھر میں نے اور ہیری نے مل کر اس کی لاش کو سمندر کے حوالے کر دیا۔ مانولو کی موت نے کچھ دیر کے لیے ہماری توجہ ان خطرات کی طرف سے ہٹالی تھی جن میں اب ہم مبتلا تھے۔ وسیع سمندر چھوٹی سی کشتی اور راستہ بتانے والامر چکا تھا۔ مانولو نے بتایا تھا کہ جزیرہ لائیکا جہاں ہمیں جانا تھا مورا کے جنوب مشرق میں ہے۔ اسی سمت ہماری کشتی روانہ ہوئی تھی۔ ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ لائیکا مورا سے پچاس میل دور ہے۔ لیکن صرف کھلے سمندر میں سفر کے لیے اتنی معلومات کافی نہ تھی۔ میں نے ایک جہاز پر سفر کیا تھا اور اس ایک سفر سے بہت کچھ سیکھا بھی تھا۔ اسی تجربے نے مجھے ان خطرات کا احساس دلایا تھا جو اب ہمیں در پیش تھے۔ ہیری اور ایوا کو ان کا کوئی احساس نہ تھا اور میں نے بھی ان کو نہ بتانا بہتر سمجھا۔ میں نے اپنے خوف کو ان سے چھپائے رکھا۔
ہماری چھوٹی سی کشتی ایک ایسے وسیع سمندر میں جس کا کوئی کنارہ نہ تھا ہچکولے کھاتی چلی جارہی تھی۔ اللہ کا شکر تھا کہ سمندر پر سکون تھا اور ہوا موافق تھی۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر افق کو تک رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر ہم راستہ بھٹک گئے اور منزل نہ ملی تو ہمارے پاس کھانے پینے کی جو چیزیں ہیں وہ کتنے دن ہمار ا ساتھ دیں گی۔ مجھے سب سے زیادہ فکر پانی کی تھی کیوں کہ سورج چمک رہا تھا اور گرمی سے حلق خشک ہوا جارہا تھا۔ دن بھر تو میں نے ہیری یا ایوا سے کچھ نہیں کہا اور پانی پینے سے ان کو نہیں رو کا لیکن جب سورج غروب ہونے لگا اور دور دور تک مجھے نہ زمین نظر آئی اور نہ کوئی جہاز تو میں نے ان سے کہا کہ پانی احتیاط سے خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنا تھوڑا ہو سکے اتنا پیو۔ میری بات سن کر دونوں حیرانی سے مجھے دیکھنے لگے۔ ہیری بولا:’’ کیوں؟ پانی تو ابھی بہت سا موجود ہے؟ ‘‘
’’پھر بھی ہمیں احتیاط کرنا چاہیے۔‘‘ میں نے اس انداز سے جواب دیا جیسے اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔ لیکن ہیری ہوشیار تھا۔ فوراً سمجھ گیا کہ میں اس سے کیا بات چھپانا چاہ رہا ہوں۔ ایوا کچھ نہ سمجھی۔
منزل سے دور
جب سورج غروب ہو گیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا تو ایوا کو نیند نے آگھیرا اور وہ سوگئی۔ مورا سے بھاگنے کے بعد سے ہمیں جن واقعات کا سامنا کرنا پڑا تھا انھوں نے ہم سب کی نیندیں اڑا دی تھیں۔ ایوالڑ کی تھی اس کے لیے یہ ایک بڑا ہی خوف ناک تجربہ تھا۔ پھر مانولو کی موت نے اس پر بہت اثر کیا تھا۔ یہ اچھا تھا کہ اسے ابھی اس صورت حال کا احساس نہیں تھا جس میں ہم اب پھنس گئے تھے۔ وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ ہم لوگ ٹانگا کے چنگل سے بچ کر نکل آئے ہیں اور اب کچھ ہی وقت میں ایک محفوظ جگہ پہنچ جائیں گے۔ میں نے ہیری سے کہا کہ ہمیں بادبان اتار دینے چاہییں۔ وہ حیران ہو کر پوچھنے لگا:
’’مگر عبداللہ کیوں؟ ‘‘
’’ اس لیے کہ کہیں ہم منزل مقصود سے آگے نہ نکل جائیں۔ ‘‘میں نے جواب دیا۔
’’کیا مطلب ہے تمہارا؟ ‘‘
  میں نے کہا، ’’دیکھو ہیری، تم ایک بہادر لڑکے ہو۔ تم نے مصیبت میں ہمت نہیں ہاری ہے۔ اس لیے میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اس سے پریشان نہ ہو جانا۔ ہم اس وقت بحر جنوبی میں بہے چلے جارہے ہیں۔ ہمیں راستے کا کچھ پتا نہیں۔ اگر جلد ہی ہمیں کنارہ نظر نہ آیا تو ہم اسی سمندر میں بہتے بہتے ختم ہو جائیں گے۔ مانولو کو تو راستے کا علم تھا اور یہ بھی اندازہ تھا کہ ہم کتنی دیر میں اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے۔ اسی لیے اس نے کھانے پینے کا تھوڑا سامان اپنے ساتھ لیا۔ ہم کتنی ہی احتیاط کیوں نہ کریں، پانی اور کھانے کا ذخیرہ جلد ہی ختم ہو جائے گا۔ اس لیے ہمیں بادبان اتار دینا چاہییں۔ ‘‘
’’ایوا تو بچاری بھوک سے مر جائے گی۔ ‘‘ وہ پریشان ہو کر بولا۔
’’ یا پیاس سے اور یہ اس سے بھی برا ہو گا۔ خیر ہمیں اتنا گھبرانے کی ضروت نہیں یہ تو ایک اندیشہ ہے جس کا میں نے تم سے ذکر کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کل صبح تک ہمیں کوئی نہ کوئی جزیرہ نظر آجائے یا کوئی گزرتا ہوا جہاز ہمیں دیکھ لے اور ہمارے بھوکا رہنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ ‘‘میں نے کہا۔
’’لیکن ہمیں ہر صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ‘‘ہیری نے کہا پھر کچھ دیر رک کر بولا ،’’ہمیں ایوا کو کچھ نہیں بتانا چاہے۔ وہ گھبرا جائے گی۔ میں اپنے حصے کا کھانا اور پانی اس کو دے دوں گا۔ مجھ میں اس سے زیادہ برداشت کی قوت ہے۔‘‘
ہیری کی یہ بات سن کر میرے دل پر بڑا اثر ہوا۔ یہ حقیقت تھی کہ اسے اپنی بہن سے بہت محبت تھی اور وہ یہ تصور بھی نہ کر سکتا تھا کہ اس کی بہن بھوکی پیاسی مرجائے۔
میں نے کہا، ’’ہیری تم بڑے نیک لڑکے ہو اور میں تمہارا دوست ہونے پر ناز کرتا ہوں لیکن اللہ نے چاہا تو اس کی ضرورت ہی پیش نہ آئے گی۔ اور اگر خدا نخواستہ ایسا وقت آگیا تو ہم دونوں مل کر اپنا کھانا اور پانی ایوا کو دے دیں گے۔ جب تک ذرا سا پانی ہے اور تھوڑی سی بھی غذا ہے ہم ایوا کو بھوک اور پیاس سے مرنے نہیں دیں گے۔ اگر اپنی بہن کا خیال رکھنا تمہارا فرض ہے تو میرا بھی فرض ہے۔ ‘‘
ہم نے بادبان نیچا کر دیا اور باقی سامان کو محفوظ کر کے برابر برابر بیٹھ گئے۔ لہروں کی ہلکی ہلکی آواز نے لوری کا کام کیا اور ہیری سو گیا۔ میں جاگتا رہا۔ نیند مجھ سے کوسوں دور تھی۔ ہیری کے سوجانے سے مجھے خوشی ہوئی۔ کچھ دیر کے لیے تو وہ ساری فکروں سے آزاد ہو گیا۔ حد نظر تک پھیلے ہوئے سمندر کی اس تاریکی میں ستاروں کی چمک بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ میرا دل پریشان تھا لیکن امید نے میرا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ امید بھی خوب چیز ہے جو انسان کو مشکل سے مشکل اور کٹھن سے کٹھن وقت میں بھی حوصلہ دیتی رہتی ہے۔ میں نے چپکے چپکے اللہ سے دعامانگنا شروع کر دی کہ وہی اس مشکل سے نکال سکتا تھا۔
صبح کا اجالا ہوتے ہی میں نے کشتی میں کھڑے ہو کر بے چینی سے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ مجھے نہ کوئی ساحل نظر آیا اور نہ کسی جہاز کے بادبان۔ اس وسیع سمندر میں سوائے ہماری چھوٹی سی کشتی کے اور کچھ نہ تھا۔ میرے ہلنے جلنے سے ایوا کی آنکھ کھل گئی اور اس نے مجھ سے پوچھا۔ـ’’ کیا بات ہے عبداللہ !کیا ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے؟ ‘‘
’’نہیں ابھی نہیں۔ ‘‘میں نے اپنی پریشانی چھپاتے ہوئے کہا۔ ’’کیا تم اچھی طرح سولیں؟ ‘‘
  ’’ہاں۔ میں تو خوب سوئی۔ مجھے تو ایسی نیند آئی کہ کچھ یاد ہی نہ رہا۔ ہیری بھی سورہا ہے، لیکن تم؟ کیا تم ساری رات جاگتے رہے ہو؟ ‘‘
’’ہاں جاگتا رہا ہوں۔ مجھے نیند نہیں آئی۔ ہیری تھوڑی دیر اور سولے تو پھر میں آرام کروں گا۔ تم ذرا اچھی طرح خیال رکھنا چاروں طرف نظر دوڑاتی رہنا اور جیسے ہی کنارہ نظر آئے مجھے فوراً جگا دینا۔ ‘‘
وہ ہنس پڑی۔ اس کے ہنسنے سے مجھے بڑا اطمینان ہوا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کو ان خطرات کا اب تک کوئی علم نہ تھا جن میں ہم گھرے ہوئے تھے۔ یہ بہت اچھا تھا جتنی دیر بھی اسے ان کا علم نہ ہوا اتنا اچھا تھا۔ میں نے ہیری کو بھی یہ بات اچھی طرح سمجھادی تھی۔ 
سورج اچھا خاصا چڑھ گیا تھا کہ میں تھکن سے چور ہو کر سو گیا۔ پانچ چھے گھنٹے تک سوتا رہا لیکن میرا دماغ شاید جاگتا رہا کیوں کہ طرح طرح کے خواب مجھے نظر آ تے رہے۔ ایک خواب یہ نظر آیا کہ ٹانگا سمندر میں غوطے لگاتا ہوا ہماری کشتی تک پہنچ گیا ہے اور کشتی کے اندر آنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہیری نے اسے مارنے کی کوشش کی ہے تو اس نے ہیری کو پانی میں کھینچ لیا ہے۔ میں اس کو بچانے کے لیے سمندر میں کود پڑا ہوں اور ڈوبنے لگا ہوں۔ ایوا مجھے ڈوبتادیکھ کر شور مچارہی ہے۔
میں ایسے ہی نجانے کیا کیا خواب دیکھتا رہا پھر میری آنکھ کھلی۔ اب سورج افق کے قریب تھا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ مجھے جاگتا دیکھ کر ایوانے پوچھا:
’’تم جاگ اٹھے عبداللہ! اب تک تو ہمیں کوئی کنارہ نظر نہیں آیا۔ وہ جزیرہ اتنا دور تو نہیں تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ ہم رات میں اسے کہیں پیچھے چھوڑ آئے ہوں؟‘‘
ہیری کہنے لگا، ’’تمھارے سوتے، میں نے کشتی کا رخ جنوب مشرق کی طرف رکھا ہے۔ کشتی کی رفتار میں بھی کمی نہیں ہوئی ہے۔‘‘
میں نے کھڑے ہو کر چاروں طرف نگاہ دوڑائی اور کہنے لگا، ’’ہو سکتا ہے ہم رات میں آگے نکل آئے ہوں۔ اندھیرے میں کیا پتا چلا ہو گا لیکن فکر کی کوئی بات نہیں۔ لائیکا کے علاوہ بحر جنوبی میں اور بھی بہت سے جزیرے ہیں۔ ہم کسی اور جگہ چلے جائیں گے۔ ٹانگا کے چنگل سے تو اب ہم نکل آئے ہیں۔ جہاں بھی جائیں گے لوگ ہمارے ساتھ اچھا ہی سلوک کریں گے۔ ‘‘
یہ بات میں نے بظاہر بڑی بے پروائی سے کہی، لیکن میرے چہرے پر جو پریشانی تھی وہ میں ایوا سے نہ چھپا سکا۔ اس نے میری طرف غور سے دیکھا اور کہنے لگی: 
’’عبد اللہ!تم مجھے دھوکا دے رہے ہو۔ ہم راستہ بھٹک گئے ہیں اور اب ہمیں کبھی ساحل پر پہنچنا نصیب نہیں ہو گا۔ ہم مرجائیں گے۔ بھوکے پیا سے۔ اسی سمندر میں ہمارا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ رو پڑی۔ 
اب حقیقت کو چھپانے سے کوئی فائدہ نہ تھا۔ چنانچہ میں نے کہا:
’’ ایوا! حوصلے سے کام لو۔سچی بات یہی ہے کہ اس وسیع سمندر میں ہم راستہ بھٹک گئے ہیں، ہماری جانیں خطرے میں ہیں، لیکن ہمیں ہمت نہیں ہارنا چاہیے۔ یہاں آس پاس بہت سے جزیرے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کسی جزیرے تک ہماری کشتی پہنچ جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کوئی جہاز ادھر سے گزر رہا ہو اور ہمیں اس سے مدد مل جائے۔‘‘
  میں نہیں کہہ سکتا کہ میری اس تسلی کا اس پر کوئی اثر ہوا یا نہیں لیکن وہ خاموش ہو گئی اور اس کے بعد اس نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ مجھے اب خیال آتا ہے تو میں حیران ہو جاتا ہوں کہ اس نے کتنے صبر سے اس صورت حال کا سامنا کیا۔ صرف وہ لوگ جو کبھی ایک چھوٹی سی کھلی کشتی میں ایک ایسے سمندر میں جس کا کہیں کنارہ نہ ہو، بھٹک گئے ہوں، ہماری حالت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ وقت گزرتا چلا جا رہا تھا۔ ہماری نگاہیں بار بار کنارے کی تلاش میں چاروں طرف اٹھتیں اور پھر مایوس ہو کر واپس آجاتیں۔ ہمارے ہونٹ خشک تھے۔ حلق میں کانٹے پڑرہے تھے اور بھوک سے برا حال تھا۔ میں نے کھانے اور پانی کو شروع ہی سے احتیاط سے استعمال کرنے پر زور دیا تھا تا کہ یہ زیادہ سے زیادہ چل سکے مگر آخر کہاں تک۔ مختلف تدبیروں سے کام لے کر میں ایوا کو پانی اور کھانے میں سب سے زیادہ حصہ دیتا تھا لیکن وہ بھی بہت تھوڑا ہوتا تھا۔ ہیری کا ایثار بھی دیکھنے کے قابل تھا۔ وہ شدید بھوک اور پیاس کے باوجود اپنے حصے کا تھوڑا سا پانی بھی ایوا کو دینے کو تیار رہتا تھا۔
تین دن اس طرح گزر گئے۔ کشتی جنوب مشرق کی سمت بہتی چلی جارہی تھی۔ کنارے کا کہیں پتا نہ تھا۔ چوتھے دن ہمارے پاس پانی کے چند قطرے رہ گئے۔ ایوا تو اب اس قدر کمزور ہو گئی تھی کہ کھڑی بھی نہ ہو سکتی تھی میرا اور ہیری کا بھی حال خراب تھا۔ آسمان پر کہیں بادل کا ایک چھوٹا سا بھی ٹکڑا نہیں تھا۔ بارش کا کوئی امکان نظر نہیں آتا تھا کہ جس سے پانی مل سکے۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ زیادہ سے زیادہ ایک دن اور ہم اس طرح گزار سکیں گے، پھر ہماری قوت برداشت ہمار ا ساتھ چھوڑ جائے گی۔ دو پہر کے قریب ہیری نے میرا ہاتھ تھام کر بڑی کمزور آواز میں کہا :
’’عبداللہ مجھے معاف کر دینا۔ میں نے تمھیں بے وجہ اس مصیبت میں ڈالا۔ مجھے ابا جان کا خزانہ ٹا نگا کو دے دینا چاہیے تھا۔ اس طرح شاید وہ تمہاری جان بخش دیتا۔ ‘‘
میں نے کہا ،’’کیسی باتیں کرتے ہو۔ یہ کیسے ممکن تھا۔ خزانہ مل جانے کے بعد وہ نہ مجھے چھوڑتا اور نہ تمہیں۔ وہ ہمیں مار ڈالتا۔ اب ہمیں بچنے کی امید تو ہے۔ ‘‘
وہ بچارا بے حد کمزور ہو چکا تھا کہ میری بات کا جواب تک نہ دے سکا۔ میں نے اسے لٹادیا اور خود آنکھیں کھولے افق کی طرف دیکھتار ہا شاید کہیں زمین نظر آجائے۔ دن آہستہ آہستہ ڈھلنے لگا اور میں سوچنے لگا کہ اگر رات سے پہلے پہلے ہمیں کوئی مدد نہ ملی تو ہمارا بچنا ممکن نہیں ہو گا۔ اس مایوسی کی حالت میں میرا سہارا اللہ تھا۔ میں دل ہی دل میں اس کو یاد کرتا رہا اور دعائیں مانگتا رہا کہ وہ ہمیں اس مصیبت سے نکالے۔
وقت آہستہ آہستہ گزرتا جارہا تھا۔ شام ہونے لگی تھی، تھوڑی ہی دیر میں اندھیرا چھا جانے والا تھا۔ ایوا اور ہیری کشتی میں بے حال پڑے تھے۔ ان کی حالت دیکھ کر میرا دل بھر آیا۔ یہ رات شاید ان کے لیے زندگی کی آخری رات ہو۔ ان کے سوا میرا بھی اس دنیا میں کوئی نہ تھا۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے اللہ کو پکارا کہ مصیبت میں تو ہی مدد کرنے والا ہے۔ اسی لمحے مجھے دور پانی پر ایک سیاہ دھبا نظر آیا۔ میں آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے لگا۔ کیا یہ کوئی جہاز ہے؟ یا میرا وہم۔ پھر وہ دھبا بڑا ہوتا گیا یہاں تک کہ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ ایک جہاز ہے جو ہماری طرف بڑھتا چلا آرہا ہے۔ میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو آگئے اور میں اللہ کا شکر ادا کرنے لگا جس نے عین اس وقت جب میں بالکل مایوس ہو چکا تھا ہماری مدد کی۔
پھر یکا یک میرے دل میں ایک خوف پیدا ہوا۔ اگر اس جہاز کے لوگوں نے ہمیں نہ دیکھا اور وہ راستہ بدل کر کہیں دور نکل گیا تو کیا ہو گا۔ میں کانپ اٹھا۔ میں نے جلدی سے اپنی قمیص اتاری اور بادبان کے ڈنڈے پر اس طرح لگا دی کہ جھنڈے کی طرح نظر آئے۔ پھر میں نے جہاز والوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے پوری تیزی سے ہاتھ ہلانے شروع کر دیئے میں نے ہیری اور ایوا کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ وہ دونوں خاموش آنکھیں بند کیے بے ہوشی کے سے عالم میںپڑے تھے۔
  جہاز جوں جوں قریب آتا جا رہا تھا، میری بے چینی اور بے قراری بڑھتی جارہی تھی۔ دل ڈوبا جا رہا تھا۔ کبھی سخت مایوسی طاری ہو جاتی۔ میں اپنی اس کیفیت کو صحیح طرح بیان نہیں کر سکتا۔ اس کو وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جو خود کبھی امید اور یاس کی اس کیفیت سے گزرے ہوں۔ بالاخر مجھ سے ضبط نہ ہو سکا اور میں نے بھرائی ہوئی آواز میں چیخ چیخ کر مدد کے لیے پکارنا شروع کر دیا۔ میرے چیخنے کی آواز سن کر ہیری اور ایوا نے آنکھیں کھولیں، سر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ جہاز والوں نے بھی ہمیں دیکھ لیا تھا۔ جہاز کی رفتار کم ہو رہی تھی۔ پھر اس میں سے ایک کشتی اتاری گئی اور کچھ لوگ اس میں بیٹھ کر ہماری طرف بڑھے۔
میں خوشی کے مارے دیوانہ ہو گیا اور ایوا اور ہیری کو آوازیں دینے لگا ۔’’ہیری! ایوا !خوش ہو جاؤ۔ مدد آپہنچی۔ وہ دیکھو جہاز سے ایک کشتی آرہی ہے۔ ہم بچ گئے ۔‘‘
کشتی تیزی کے ساتھ ہماری طرف آرہی تھی اور اس میں بیٹھے ہوئے ملاح ہمیں ہاتھوں کے اشارے سے اور آوازیں دے کر اطمینان دلار ہے تھے کہ ہم حوصلہ رکھیں وہ پہنچنے ہی والے ہیں۔ ذراسی دیر میں کشتی ہمارے پاس پہنچ گئی۔ ملاحوں نے جلدی جلدی ایوا اور ہیری کو اپنی کشتی میں پہنچایا اور ہمار ا سامان اٹھا کر رکھا۔ میں نے جہاں تک مجھ میں قوت تھی ان کی اس کام میں مدد کی اور پھر جب انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی کشتی میں پہنچایا تو میں بھی بے ہوش ہو کر گر پڑا۔
نئی زندگی
مجھے جب ہوش آیا تو میں جہاز کے ایک صاف بستر پر لیٹا ہوا تھا۔ ایوا اور ہیری بھی ہوش میں آچکے تھے۔ ہمیں اس جہاز پر آئے چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے۔ کپتان کی ہدایت پر ہماری پوری توجہ سے دیکھ بھال کی جارہی تھی۔ یہ جہاز ملبورن جار ہا تھا۔ جہاز کے عملے کا برتائو بہت اچھا تھا۔ وہ ہمارا بڑا خیال رکھتے تھے چنانچہ بہت جلد ہماری صحت بحال ہو گئی۔ ہم خدا کا شکر ادا کرتے تھے جس نے ہمیں دوبارہ زندگی بخشی۔ میں تو دوسری بار موت کے منہ سے نکلا تھا۔
چند ہفتوں کے سفر کے بعد ہمارا جہاز ملبورن پہنچ گیا۔ یہاں پہنچ کر کپتان نے ہمیں بلایا اور ہیری سے پوچھا کہ اس کا اب کیا ارادہ ہے۔ ہیری نے اس کو اپنی داستان پہلے ہی سنادی تھی اور اس کو ہمارے ساتھ بڑی ہمدردی ہو گئی تھی۔ ہیری نے کپتان کو بتایا کہ اس کے والد کے ایک دوست یہاں ملبورن میں رہتے ہیں جن کا وہ اکثر ذکر کیا کرتے تھے لیکن ہیری کو صرف اتنا ہی معلوم تھا کہ ان کا نام جان اسکائی لین ہے اور وہ تاجر ہیں۔ کپتان نے وعدہ کیا کہ وہ ان کا پتا لگا کر ہمیں ان کے پاس پہنچا دے گا اور اگر ہم نے انگلستان واپس جانے کا ارادہ کیا تو یہ جہاز آسٹریلیا سے مال لے کر جب واپس جائے گا تو ہم بھی اس میں سفر کر سکتے ہیں۔
کپتان نے چند ہی دن میں مسٹر اسکائی لین کا پتا چلا لیا اور ہمیں ان کے ہاں پہنچا دیا۔ اسکائی لین ایک نیک اور شریف آدمی تھے۔ انھوں نے ہماری کہانی سنی تو انہیں بہت افسوس ہوا لیکن ہماری بہادری کی انھوں نے بہت تعریف کی۔ میں گوان کے لیے اجنبی تھا لیکن انھوں نے میرا بھی بہت خیال رکھا۔ چند ہفتے تک انہوں نے ہمیں کہیں آنے جانے نہ دیا تا کہ گذشتہ واقعات کا جو اثر ہم پر تھاوہ دور ہو جائے۔ ہیری کے والد نے جو خزانہ چھوڑا تھا اس میں سونے اور چاندی کے سکوں کے علاوہ بہت سے قیمتی موتی بھی تھے۔ مسٹر اسکائی لین کا خیال تھا کہ ہیری اپنا کارو بار شروع کرے جس میں وہ اس کی مدد کریں گے۔ چنانچہ ہیری نے پہلا کام یہ کیا اپنے باپ کی دولت کے تین حصے کیے۔ ایک اپنا، دوسرا ایوا کا اور تیسرا میرا۔ میں نے اس میں سے کوئی حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ میں نے کہا کہ مسٹر ہینڈرسن یہ دولت اپنے بچوں کے لیے چھوڑ گئے ہیں اور یہ انھی کا حق ہے۔ میرا اس میں کوئی حصہ نہیں ہو سکتا۔ ہیری یہ سب کچھ سننے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے صاف کہہ دیا کہ اپنے باپ کی دولت کا وہ مالک ہے اور اب وہ جس کو جو چاہے اس میں دے۔ ایوا نے بھی اس کی بھر پور حمایت کی لیکن میں برابر ا نکار کرتا رہا۔ مسٹر اسکائی لین نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں اپنے وطن واپس جانا چاہوں گا۔ میں سوچنے لگا، میرا وہاں کون ہے جس کے لیے میں جاؤں۔ ہیری اور ایوا سے مجھے اب ایسی انسیت ہو گئی تھی جیسے وہ اپنے ہوں۔ وہ دونوں بھی مجھے اپنے آپ سے جدا کرنے کو تیار نہ تھے۔
ایک دن موسم بڑا خوش گوار تھا۔ میں صبح ٹہلنے کو جانے لگا تو ایوا بھی باہر نکل آئی اور میرے ساتھ چل پڑی۔ راستے میں وہ کہنے لگی:
’’عبداللہ تم کہیں نہ جاؤ گے۔ ہمارے ساتھ رہو گے۔ ہیری کو کار بار میں تمہاری مدد کی ضرورت ہوگی۔ ہم نے مصیبت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا ہے، اب بھی ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ ‘‘
’’ایوا !میرا جی بھی جانے کو نہیں چاہتا۔ میرا اس دنیا میں تم دونوں کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ مگر میں تمہارے ساتھ اب کیسے رہ سکتا ہوں ۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’کیوں نہیں رہ سکتے۔ چچا اسکائی لین ہمارے سرمائے سے ایک کمپنی قائم کر رہے ہیں۔ اس میں ہم تینوں حصے دار ہوں گے اور مل کر کام کریں گے۔ تمھیں اب نہیں جانے دوں گی مجھ سے وعدہ کرو کہ تم نہیں جاؤ گے۔ ‘‘
ایوا نے اس طرح اصرار کر کے مجھ سے وعدہ لے لیا اور میں ان کے ساتھ کار وبار میں شریک ہو گیا۔ مسٹر اسکائی لین نے ہماری ہر طرح مدد کی۔
وقت گزرتا گیا، ہمارے کار وبار نے بڑی ترقی کی اور چند سال میں ہم بہت دولت مند ہو گئے۔
٭٭٭
Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top