skip to Main Content

وادیٔ صنوبر کی زیارت

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

ریل گاڑی میدانی علاقوں سے نکل کر اب پہاڑی علاقے میں داخل ہو چکی تھی۔ سبّی کا اسٹیشن پیچھے رہ گیا تھا۔ اب ریل گاڑی کی دونوں جانب اونچے نیچے پہاڑ تھے، جن کو دیکھ کر عثمان نے کہا:
”ابو، پہاڑ کیسے عجیب ہیں، ان کی چوٹیاں کتنی نوکیلی ہیں، اور بہت سی تو ایک ہی طرف مڑی ہوتی ہیں۔“
”ہاں بیٹے، یہ سب اللہ کی قدرت ہے۔ تم نے غور کیا کہ ان پہاڑوں کی چوٹیاں ایک طرف کو کیوں مڑی ہوئی ہیں۔ دراصل جب تیز ہوا چلتی ہے تو وہ ان پہاڑوں کو کاٹتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ ایک رُخ پر ہوا چلنے سے بہت سے پہاڑوں کی چوٹیاں ایک طرف مڑی ہوئی اور نوکیلی بن جاتی ہیں۔ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں پہاڑوں کا ذکر کئی جگہ فرمایا ہے اور ان کے پیدا کرنے کی وجہ بیان فرمائی ہے۔“ عثمان کے ابو سلیمان احمد صاحب نے کہا۔
”جی ہاں، ابو۔“ عثمان نے جواب دیا۔
”اچھا تو بتاؤ، پہاڑوں کو اللہ تعالیٰ نے کیوں تخلیق فرمایا؟ تم بتاؤ سلمان۔“ سلیمان احمد صاحب نے اپنے بڑے بیٹے سے کہا۔
سلیمان احمد صاحب اپنے دونوں بیٹوں، سلمان اور عثمان کے ساتھ زیارت جارہے تھے، جو بلوچستان کااہم تفریحی مقام ہے۔
”ابو، ایک بات تو آپ نے بتائی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو زمین کی میخیں یعنی کیلیں قرار دیا ہے۔“سلمان نے کہا۔
”شاباش۔ تم جانتے ہو کہ کسی چیز میں مضبوطی لانے کے لیے اس میں میخیں ٹھونک دی جاتی ہیں۔ قرآن مجید کے تیسویں پارے کی پہلی سورۃ النبا میں اللہ تعالیٰ نے زمین کو گہوارہ یعنی آرام سے رہنے بسنے کی جگہ اور پہاڑوں کو میخیں قرار دیا۔ مطلب یہ ہے کہ ان پہاڑوں کی جڑیں زمین کے اندر گہرائی تک پھیلی ہوئی ہوتی ہیں۔ یہ پہاڑ زمین کو سختی اور مضبوطی دیتے ہیں۔ سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نے زمین میں پہاڑ ڈال دیے تا کہ وہ تمہیں لے کر لرزتی نہ رہے۔ یہ بات سائنسی تحقیق کے نتیجے میں زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آتی ہے۔“
”کس طرح ابو؟“
”اس طرح کہ زمین کے اندر مختلف لہریں دوڑتی رہتی ہیں۔ اگر زمین کے اوپر پہاڑ مضبوطی سے جمے نہ ہوتے تو زمین پر ہر وقت زلزلے آ رہے ہوتے۔ زمین تھر تھرا رہی ہوتی۔ اس کے علاوہ چاند کی کشش سے سمندروں میں اتار چڑھاؤ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو زمین کی سطح پر بھی اتار چڑھاؤ کی کیفیت رہتی۔ زمین پر کوئی عمارت بنانا تو دور کی بات معمولی سی جھونپڑی ڈالنا تک ممکن نہ ہوتا۔“
سلیمان احمد صاحب کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی ریل گاڑی میں اندھیرا سا ہو گیا، ریل گاڑی ایک سرنگ میں داخل ہو گئی تھی۔ سلیمان احمد صاحب نے کہا۔
”دیکھو، اللہ نے انسان کو کتنی عقل دی ہے۔ یہ بولان کا پہاڑی سلسلہ ایسا ہے کہ اس میں ریل گاڑی گزر ہی نہ سکتی تھی اور سندھ یا پنجاب سے آنے والے، ان پہاڑوں کو عبور کر کے کوئٹہ نہ جا سکتے تھے۔ انسان نے پہاڑوں میں شگاف کر کے سرنگیں بنا دیں جن میں سے ریل گاڑی گزر کر دوسری طرف جا سکتی ہے۔ کوئٹہ تک کے سفر میں اسی طرح کی بیس سے زیادہ سرنگیں ہیں۔“
”ابو جی، بسیں بھی کوئٹہ جاتی ہیں؟“
”ہاں، بہت سی بسیں جاتی ہیں بلکہ کراچی سے کوئٹہ تک کا سفر، ان بسوں کی وجہ سے کم وقت میں طے ہونے لگا ہے۔ ہم لوگ چونکہ راولپنڈی سے آ رہے ہیں، طویل سفر ہے، اس لیے میں نے ریل گاڑی کے سفر کو بہتر محسوس کیا۔“
مختلف اسٹیشنوں پر رکتے ہوئے، ریل گاڑی کو ئٹہ پہنچ گئی۔
کوئٹہ میں ایک دن آرام کے بعد سلیمان احمد صاحب اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ کوچ کے ذریعے سے زیارت روانہ ہو گئے۔
صبح کا وقت تھا، کوچ کوئٹہ کی حدود سے نکل چکی تھی۔ سلمان نے پوچھا۔ ”ابو، زیارت، کوئٹہ سے کتنی دور ہے؟“
”بیٹے، کوئٹہ سے زیارت، تقریباً ایک سو بیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔“
”ابو، اسے زیارت کیوں کہتے ہیں؟“ عثمان نے سوال کیا۔
”وہاں ایک بزرگ تھے، ملا طاہر، جو خرواری بابا کے نام سے مشہور ہیں۔ خرواری بابا کو اس علاقے میں دفن کیا گیا، اسی وجہ سے پورے علاقے کا نام زیارت پڑ گیا۔ کسی بابرکت یا مقدس مقام کو دیکھنا زیارت کہلاتا ہے۔ ویسے اس علاقے کا پرانا نام ’غوسکی‘ تھا۔“
دو پہر تک، کوچ، زیارت پہنچ گئی۔ بچوں نے سفید پتھروں سے بنا ہواایک خوبصورت دروازہ دیکھا۔ کوچ اس دروازے سے گزر گئی۔
ابو نے بتایا کہ یہ ’باب زیارت‘ کہلاتا ہے۔ کوچ زیارت کے بسوں کے اسٹاپ پر پہنچ کر رک گئی۔ سب مسافر اتر آئے۔
”ہم پہلے تو احمد خان صاحب سے ملیں گے۔ وہ ہمارے پرانے دوست ہیں۔“ سلیمان احمد صاحب نے بتایا۔ پھر وہ سب احمد خان صاحب کے گھر پہنچے جو قریب ہی تھا۔ احمد خان صاحب اپنے پرانے دوست اور اُن کے بچوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ احمد خان صاحب کی بیگم، بیٹے اور بیٹی نے بھی مہمانوں کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔ انھوں نے شکایت کی کہ سلیمان احمد نے اپنے آنے کی پہلے سے اطلاع نہیں دی۔ احمد خان صاحب نے فوراً مہمانوں کا کمرہ کھلوا کر سامان رکھوا دیا۔ سلیمان صاحب، سلمان اور عثمان نے غسل کر کے نماز ظہر ادا کی۔ پھر کھاناکھایا گیا۔ بچے سفر کی وجہ سے تھکے ہوئے تھے، انھیں جلد ہی نیند آ گئی۔
احمد خان صاحب نے عصر کے وقت سب کو جگا دیا۔ سب نے وضو کر کے نماز عصر مسجد میں باجماعت ادا کی۔ سلیمان احمد صاحب نے بچوں کو بتا دیا تھا کہ سفر کی حالت میں نماز قصر یعنی مختصر پڑھی جاتی ہے، لیکن اگر امام صاحب مقامی ہوں، یعنی مسافر نہ ہوں تو پوری فرض نماز پڑھیں گے اور ان کے پیچھے نماز پڑھنے والا اگر مسافر ہو تو وہ بھی فرض کی پوری رکعتیں ادا کرے گا، البتہ مسافر سنتیں اور نوافل چھوڑ سکتا ہے۔
نماز عصر کے بعد احمد خان صاحب نے گرما گرم قہوے سے تواضع کی۔ سلیمان احمد صاحب نے احمد خان صاحب کو تحفے پیش کیے جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ سلمان نے کہا:
”خان چاچا، گرمی کا موسم ہونے کے باوجود یہاں تو خاصی ٹھنڈک ہے۔“
احمد خان صاحب مسکرائے اور بولے:
”ہاں، یہ بھی اللہ کی قدرت ہے، موسم گرما میں یہاں کا درجہ حرارت پچیس درجے سینٹی گریڈ سے زیادہ نہیں ہوتا، سردیوں میں شدید برف باری ہوتی ہے اور درجہ حرارت نقطہ انجماد سے پندرہ درجے نیچے گر جاتا ہے۔ اتنی سخت سردی میں یہاں کے بہت سے لوگ بھی دوسرے علاقوں میں منتقل ہو جاتے ہیں، جہاں ذرا کم سردی پڑتی ہے۔“
”خان چاچا، میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ یہاں صنوبر کے درخت بہت پائے جاتے ہیں۔“عثمان نے کہا۔
”ہاں بیٹے، یہاں صنوبر کے درختوں کے جنگلات ہیں جو چھبیس ہزارایکڑ سے زیادہ کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ صنوبر کے یہ درخت کتنے پرانے ہیں؟“ احمد خان نے پوچھا۔
”جی نہیں!“
”ان میں سے بعض درخت پانچ ہزار سال پرانے ہیں۔“ احمد خان صاحب نے اطمینان سے کہا۔”ان شاء اللہ ہم آپ کو کل یہ درخت دکھا ئیں گے۔اب تو شام ہو رہی ہے۔“
کچھ دیر میں مغرب کی اذان ہو گئی۔ نماز مغرب کے بعد کھانا کھایا گیا۔ بلوچستان میں موٹی اور لمبی چوڑی، تنور کی روٹیاں کھانے کا رواج ہے، وہی روٹیاں دسترخوان پر موجود تھیں۔
اگلے دن نماز فجر اور ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد احمد خان صاحب نے اپنی جیپ میں مہمانوں کو بٹھایا اور انہیں علاقے کی سیر کروانے لگے۔ ان کی جیپ مرکزی سڑک پر ہلکی رفتار سے چل رہی تھی۔ احمد خان صاحب نے بتایا کہ یہ سڑک لورالائی کو زیارت سے ملاتی ہے۔ زیارت میں یہی سڑک قصبے کے بڑے بازار کی حیثیت بھی رکھتی ہے۔
کچھ دیر بعد جیب آباد علاقے سے باہر نکل آئی۔ ایک جگہ جیپ روک کر احمد خان جیب سے اتر آئے۔
”یہ صنوبر کے درخت ہیں۔“ احمد خان صاحب نے اشارہ کر کے بتایا۔”اللہ نے ان میں یہ خصوصیت رکھی ہے کہ یہ بہت سست رفتار سے بڑھتے ہیں۔ ساٹھ سال میں صرف تین فٹ کے قریب بلند ہوتا ہے۔ ان کی وجہ سے یہ وادی، وادی صنوبر بھی کہلاتی ہے۔ صنوبر کے درخت سے ایک خاص مہک نکلتی ہے۔ اللہ نے ان درختوں کو یہ خوبی بھی بخشی ہے کہ ان پر برف اور کہر کا اثر نہیں ہوتا۔“
”ان کی لکڑی کس کام آتی ہے؟“ سلمان نے پوچھا۔
”یہ عمارتی لکڑی کے طور پر کام آتی ہے۔ اس درخت کی چھال سے، محفوظ اور پائیدار چھتیں تعمیر کی جاتی ہیں جو برف سے بچاتی ہیں۔ آپ جو پنسلیں استعمال کرتے ہیں، وہ بھی صنوبر کی لکڑی سے تیار کی جاتی ہیں۔ صنوبر کی ٹہنیوں سے باغات کی باڑ بناتے ہیں، ندی نالوں پر پل بنائے جاتے ہیں۔“
”یہاں کون سی فصلیں ہوتی ہیں؟“ سلمان نے سوال کیا۔
”سیب، خوبانی، آڑو اور چیری، یہاں کی خاص پیداوار ہیں۔ یہاں کے سیب تو پورے پاکستان میں مشہور ہیں۔ یہ بیرون ملک بھی بھیجے جاتے ہیں۔“
اگلے دن احمد خان صاحب نے جیب لورالائی جانے والے راستے پر ڈال دی جو مشرق کی طرف ہے۔ سڑک کی دونوں جانب پھلوں کے باغات اور صنوبر کی چھال سے بنے مخصوص مکانات بہت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔سب نے چو تیر تنگی اور پھر کچھ تنگی کی سیر کی۔
”زیارت کے لوگ نماز روزے کے بہت پابند ہیں۔“ احمد خان صاحب نے بتایا۔”یہاں کی خواتین پردہ کرتی ہیں۔ لوگ بہت پرامن ہیں۔ اسی لیے یہاں جرائم بہت کم ہوتے ہیں۔ یہاں پوری وادی میں بڑا سکون ہے۔ شہروں کی تیز رفتار زندگی سے پریشان ہو جانے والے لوگ اس وادی کے سکون کی وجہ سے یہاں چند دن کے لیے ضرور آتے ہیں۔ یہاں کے لوگ بہت محبت سے رہتے ہیں۔ ہمارا دین بھی ایک دوسرے کا خیال رکھنا اور محبت سے رہنا سکھاتا ہے۔ ایک قبیلے کے لوگ مل کر ایک گاؤں میں رہتے ہیں۔ خاندان کے تمام افراد مل کر بڑے گھروں میں رہتے ہیں۔“
یہ لوگ شام تک واپس لوٹ آئے۔ اگلے دن سلیمان احمد صاحب نے اپنے دوست سے واپسی کی اجازت طلب کی۔ احمد خان صاحب تو اصرار کر رہے تھے کہ چند دن اور رُک جائیں لیکن سلمان اور عثمان کے اسکول کی چھٹیاں ختم ہونے والی تھیں، اس لیے سلیمان احمد صاحب نے واپسی کا فیصلہ کیا۔ احمد خان صاحب اور ان کے گھر کے تمام افراد نے مہمانوں کو بہت محبت سے رخصت کیا، سنگ مرمر سے بنی اشیاء بھیڑ کے اُون سے بنا کوٹ، بھاری کشیدہ کاری والے لباس اور دوسرے تحفے پیش کیے۔ کچھ دیر بعد سلمان اور عثمان اپنے ابو کے ساتھ کوچ میں سوار ہو کر کوئٹہ روانہ ہو چکے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top