وادی صفراء کی خوشبو
فریال یاور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کی شہادت وادی صفراء کے قریب ہوگئی اور وادی صفراء میں ہی انہیں دفن کر دیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام گہری ہو رہی ہے اور ایسے میں مزید سفر جاری رکھنا مشکل نظر آرہا ہے۔ پہاڑی علاقہ ہے۔ دن بھر سفر کی وجہ سے جسم بھی آرام کی ضرورت محسوس کررہا ہے۔ ایسے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اپنے صحابہ کرام کے ساتھ وادی صفرا کی طرف سفر کررہے تھے۔ اپنے صحابہ کو وادی صفراء میں رات گزارنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل کی اور رات گزارنے کے انتظامات ہونے لگے۔ موسم خوشگوار تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں لیکن اس ہوا میں مشک کی تیز خوشبو آرہی تھی۔ صحابہ کرام نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھا۔ ’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کہیں سے مشک کی تیز خوشبو آرہی ہے جس سے ہمارا دل و دماغ خوشبو سے بھر گیا ہے (معطر ہے)۔‘‘
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابو معاویہ کی قبر کے یہاں ہوتے ہوئے تمہیں حیرت کیوں ہے؟‘‘
ابو معاویہ جن کی قبر وادی صفرا میں ہونے کی وجہ سے مشک کی تیز خوشبو آرہی تھی، سیدنا حضرت عبیدہ بن حارث مطلبی تھے جنہوں نے غزوہ بدر میں شہادت پائی۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ بن حارث کی کنیت ابو معاویہ بھی تھی اور ابو الحارث بھی ۔ آپ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا ہاشم بن عبدمناف کے بھائی مطلب کے پوتے تھے۔ اس لحاظ سے آپ رضی اللہ عنہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہوتے تھے اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں دس سال بڑے تھے۔ جس وقت نبوت کا آغاز ہوا۔ آپ جوانی سے بڑھاپے میں داخل ہو رہے تھے لیکن آپ نے جوانوں کے سے جوش کے ساتھ اس وقت اسلام قبول کیا جب اسلام کا نام لینا اپنے آپ کو آگ میں ڈالنے کے برابر تھا۔
اسلام لانے پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت جہاں دوسرے مسلمانوں کو تکالیف پہنچائی گئیں۔ وہاں آپ پر بھی بہت ظلم و ستم ڈھائے گئے۔ مگر آپ پوری ہمت سے اسلام پر قائم رہے۔ جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے مظالم سے بچنے کے لیے اپنے صحابہ کے ساتھ حضرت ارقم رضی اللہ عنہ بن ابی الارقم کے مکان (دارالارقم) میں پناہ لی تو ان ساتھیوں میں حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد مزید ظلم و ستم بڑھنے کی وجہ سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوطالب کے خاندان کے تمام لوگوں کے ساتھ پہاڑ کی ایک گھاٹی میں چلے گئے۔ یہ وقت مسلمانوں کی شدید تکلیف کاوقت تھا۔ ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔ ان کے بچے بھوک پیاس سے تڑپ کر روتے تھے۔ جن کی آوازیں سن کر کفار خوش ہوتے تھے۔ یہ مشکل وقت مسلمانوں نے اس گھاٹی میں جسے ’’شعب ابی طالب‘‘ کہا جاتا ہے، تین سال گزارا اور اس مشکل وقت میں حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ بن حارث بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ پورے حوصلے و ہمت سے ڈٹے رہے۔ تین سال بعد جب قریش کے چند سرداروں کو رحم آیا تو مسلمان گھاٹی سے باہر آئے ۔ کچھ عرصہ بعد پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف مسلمانوں کو ہجرت کا حکم دیا اور خود بھی ہجرت کی تو حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ بن حارث بھی اپنے بھائیوں طفیل رضی اللہ عنہ حصین رضی اللہ عنہ اور بھتیجے مسطع رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہجرت کرکے مدینہ پہنچے۔
ہجرت کے وقت حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کی عمر ساٹھ سال تھی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اس لیے ’’شیخ المہاجرین‘‘ کے لقب سے مشہور ہوئے۔ ہجرت کے بعد بہت سے غزوات اور سرایہ (سریہ کی جمع) بھی پیش آئے۔ انہی میں سے ایک سریہ کی قیادت حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ نے کی۔ یہ شوال ۱ھ میں پیش آیا اور سریہ عبیدہ رضی اللہ عنہ بن حارث کے نام سے مشہور ہے۔
آپ کی شہادت غزوہ بدر میں ہوئی۔ جو کہ ۱۷ رمضان المبارک ۲ ہجری میں پیش آیا۔ جس کا واقعہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے پہلے تین بہادراورکفار سے عتبہ، شیبہ اور ولید سامنے آئے۔ مسلمانوں کے تین بہادروں کو مقابلے کی دعوت دی جس پر حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اور حضرت معوذرضی اللہ عنہ (ان کی والدہ حضرت عفراء رضی اللہ عنہا بھی ایک نیک صحابیہ تھیں)اور حضرت عبداﷲ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے۔
عتبہ نے ان سے ان کا نام اور خاندان پوچھا۔ ان لوگوں نے اپنا نام بتایا اور بتایا کہ وہ انصار ہیں جس پر عتبہ نے کہا: ’’محمدؐ اپنے خاندان والوں کو بچانا چاہتا ہے اور ہم تم کو بے وجہ قتل نہیں کرنا چاہتے۔ جاؤ اور محمدؐ سے کہو کہ اپنے خاندان کے لوگوں کو ہم سے مقابلے کے لیے بھیجے جو ہمارے جوڑ کے ہوں۔‘‘
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کے لوگوں میں سے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ بن حارث، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نام لے کر کہا: ’’حمزہ رضی اللہ عنہ، علی رضی اللہ عنہ، عبیدہ رضی اللہ عنہ جاؤ اور دین حق کی خاطر ان سے لڑو۔‘‘
مقابلہ شروع ہوا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے مقابل کو تو جلد ہی ختم کر دیا لیکن حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ اور شیبہ دیر تک ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے رہے۔ ایسے میں شیبہ نے ایک وار حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ پر اس طرح کیا کہ وہ بری طرح زخمی ہوئے۔ ان کی ایک ٹانگ شہید ہوگئی۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے جو کہ اپنے دشمنوں سے فارغ ہو چکے تھے۔ شیبہ کو قتل کر دیا اور حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو میدان جنگ سے لے کر آئے۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کو اٹھا کر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ زخموں سے چور تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تسلی دی اور ان کا سر اپنی گود میں رکھنا چاہا مگر حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروں پر اپنا گال رکھ دیا اور فرمایا:’’ کیا مجھے شہادت کی موت نصیب نہیں ہوگی؟‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلاشبہ تم شہید ہو اور نیک لوگوں کے پیروکار ہو۔‘‘ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سن کر حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور انہوں نے کہا: ’’اگر آج ابوطالب زندہ ہوتے اور مجھے اس حالت میں دیکھتے تو ان کو یقین ہوجاتا کہ میں ان کے قول کا کس قدر حقدار ہوں کہ
’’ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کریں گے یہاں تک کہ ان کے اردگرد جانیں دے دیں۔‘‘
اس کے بعد مدینہ جاتے ہوئے حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کی شہادت وادی صفراء کے قریب ہوگئی اور وادی صفراء میں ہی انہیں دفن کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے پوری وادی مشک کی تیز خوشبو سے معطر رہتی تھی۔ شہادت کے وقت آپ کی عمر ۶۳ سال تھی۔ آپ درمیانے قد کے نہایت خوب صورت شخص تھے۔ آپ کے دس بچے تھے۔ جن میں چار لڑکیاں اور چھ لڑکے تھے۔
*۔۔۔*۔۔۔*