skip to Main Content

وعد

کلیم چغتانی
۔۔۔۔۔
ایک واقعے نے رشی میاں کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔
۔۔۔۔۔

رشی میاں اگر اپنی امی اور ابو کے لاڈلے نہ ہوتے تو روزانہ اچھی طرح پٹتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بڑے ہی لا پروا قسم کے لڑکے تھے۔ نہ انہیں اپنی کا پیوں کا ہوش رہتا تھا نہ پینسل کا۔ ربر کہیں تو کتا بیں کہیں۔ ان کی چیزیں ضرورت کے وقت ہمیشہ ادھر ادھر غائب ہو جاتیں۔ پھر تلاش شروع ہوتی تو جوتے کیاری میں ملتے، بستہ پرانے جوتوں میں دھرا ہوتا اور ٹوپی میز کے نیچے سجی ہوئی دکھائی دیتی۔ ان کی امی نے انہیں کئی بارسمجھایا کہ دیکھو بیٹے اچھے بچے اپنی چیزیں سنبھال کے رکھتے ہیں لیکن رشی میاں کو اچھا بچہ بننے سے شاید کوئی دلچسپی نہ تھی۔
کئی بار ایسا بھی ہوا کہ رشی میاں کی امی نے ان کو انعام کا لالچ دیا اور وعدہ کیا کہ اگر رشی میاں سارا دن اپنی چیزیں سنبھال کر رکھیں گے توامی انہیں دس روپے دیں گی، اور وہ ان دس روپوں سے اپنی مرضی کی چیزیں خرید سکیں گے۔ آئس کریم، کوئی کھلونا یا کوئی کتاب، لیکن وہ رشی میاں ہی کیا جو مان جائیں۔ وہ جان چھڑانے کے لیے توامی سے وعدہ کر لیتے کہ امی اب آئندہ سے تمام چیزیں سنبھال کر رکھوں گا لیکن تھوڑی دیر بعد وہ اپنا وعدہ بھی دوسری چیزوں کی طرح کہیں رکھ کر بھول جاتے اور پہلے کی طرح ان کی چیزیں زمین پر، میزکے نیچے اور کیاریوں میں گھومتی نظر آنے لگتیں۔
رشی میاں کا اصل نام تو ’رشید انور‘ تھا لیکن امی اور ابو انہیں پیار سے رشی رشی کہتے تھے۔ ان کے ابو دواؤں کی ایک بڑی کمپنی میں بہت بڑے افسر تھے، اس لیے گھر میں پیسے کی کوئی کمی نہ تھی۔ دو دو کار یں کھڑی رہتیں۔ فریج مزے مزے کی چیزوں سے بھرا رہتا۔ کپڑوں کی الماریوں میں کپڑوں کے ڈھیر لگے رہتے اور کھلونوں کی الماری میں قسم قسم کے کھلونے نظر آتے۔ رشی میاں جب چاہتے،کوئی ساکھلونا نکال لیتے۔تھوڑی دیر کھیلنے کے بعد ان کا جی اکتا جاتا تو وہ کھلونے کو اس کی صحیح جگہ یعنی کھلونوں کی الماری میں رکھنے کے بجائے ادھر ادھر پھینک دیتے اور کسی کے پیروں کے نیچے آکر وہ کھلونا ٹوٹ جاتا۔ ان دنوں رشی میاں پانچویں جماعت میں تھے لیکن ان کا دل پڑھائی سے زیادہ کھیل کودمیں لگتا تھا۔
ہر چند دنوں کے بعد رشی میاں کی امی نوکر کو بازار بھیج کر در جن بھر پینسلیں، قلم، ربر، اسکیل اور کاپیاں منگواتیں لیکن ایسا لگتا تھا جیسے رشی میاں پینسلیں،ربر، اسکیل اور کاپیاں کھا جاتے ہوں۔ ہر چند دن بعد امی ان کے بستے کی تلاشی لیتیں، تو پتا چلتا کہ پینسل نہیں ہے یار بر غائب ہے یا اسکیل ٹوٹا ہوا ہے۔ در اصل رشی میاں ایک تو تھے ہی بڑے لا پروا، پھر گھر میں پیسے کی کوئی کمی نہ تھی، اس لیے وہ اور بھی زیادہ لا پروا ہو گئے تھے۔ ان کو اطمینان رہتا تھا کہ کوئی بھی چیز اگر کھو گئی تو امی اور منگوا دیں گی اور یہی ہوتا کہ امی اور منگوا دیتیں لیکن ہر بار انہیں ڈانٹ ضرور پڑتی۔ رشی میاں ابو کے ذرا زیادہ لاڈے تھے، اس لیے ابو ہمیشہ ان کی طرف داری کرتے۔ امی البتہ ابو سے ہمیشہ کہتیں۔”آپ کے لاڈ پیار نے رشی کو بگاڑ دیا ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ پیسہ کتنی مشکل سے کمایا جاتا ہے۔ نوٹ کوئی درختوں پر تو نہیں لگے ہوتے۔“ لیکن ابو ہر بار یہ کہہ کر ٹال دیتے کہ ”بچہ ہے، بڑا ہوگا تو خود ہی سمجھ آجائے گی۔“
ایک دن رشی میاں اپنا فٹ بال لے کر گھر کے سامنے والے میدان میں دوستوں کے ساتھ کھیلنے کے لیے نکل گئے۔ واپسی پر انہوں نے ایک چھوٹے سے لڑکے کو دیکھا جو میدان کے کونے میں پڑے ہوئے کوڑے کے ڈھیر پر جھکا ہوا کچھ تلاش کر رہا تھا۔ وہ یوں ہی دیکھنے کے لیے رک گئے کہ لڑکا آخر کیا ڈھونڈ رہا ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ لڑکے کے گھر والوں کی کوئی قیمتی چیز کھو گئی ہے جسے تلاش کرنے کے لیے گھر والوں نے اسے بھیجا ہے، لیکن رشی میاں نے غور سے دیکھا تو لڑکے کا لباس پرانا سا تھا۔ انھوں نے سوچا کہ شاید یہ لڑکا کسی گھر میں نوکر ہے اور ممکن ہے کہ کوڑے کے ساتھ گھر کا کوئی چمچہ یا کوئی اور چیز غلطی سے پھینک دی گئی ہو جسے تلاش کرنے کے لیے گھر والوں نے اس لڑکے کو بھیجا ہو۔
تھوڑا سا آگے بڑھنے پر رشی میاں نے دیکھا کہ لڑکے کے کپڑوں میں ایک دو پیوند بھی لگے ہوئے ہیں اور اس کے پیروں میں ٹوٹی ہوئی چپل ہے۔ اب انہیں یقین ہو گیا کہ یہ لڑکا ضرور کوڑے میں سے کاغذ، ٹین کے ڈبے اور بوتلیں جمع کرکے کباڑیوں کے ہاتھ بیچتا ہو گا۔ لیکن جب وہ اس لڑکے کے قریب پہنچے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لڑکے کے ہاتھ میں پینسلوں کے دو تین ٹکڑے اور ربر کا ایک ٹکڑا ہے اور وہ کوڑے کے ڈھیر پر جھکا ہوا ایک لکڑی سے کوڑے کو کرید رہا تھا۔ شاید اسے امید تھی کہ کوڑے میں اُسے اور پینسلیں مل جائیں گی۔
رشی میاں سے رہا نہ گیا، وہ زور سے بولے۔”کیا ڈھونڈ رہے ہو بھئی۔“
لڑکا جو کوڑے کے ڈھیر کو کریدنے میں مصروف تھا۔،اچانک رشی میاں کی آواز سنتے ہی گھبرا گیا اور اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے پینسلوں کے ٹکڑے چھوٹ کر واپس کوڑے کے ڈھیر میں جاگرے۔ وہ ڈری ڈری سی آواز میں بولا:
”جی، کچھ نہیں۔ اس کوڑے میں سے پینسلیں اٹھائی تھیں۔ آپ کی ہیں تو آپ لے لیں۔“
”ہو نہہ۔“ رشی میاں منہ بگاڑ کر بولے۔”کوڑے میں پڑی ہوئی پینسلیں اُٹھانے کی مجھے کیا ضرورت ہے لیکن تم کیوں پینسلیں اٹھارہے ہو۔ کیا انہیں بیچو گے؟“
”نہیں… نہیں تو… میں تو…پینسل سے لکھتا ہوں۔میری امی کے پاس پیسے نہیں ہیں، پینسل خریدنے کے لیے۔ اس لیے میں یہاں کوڑے میں پینسل کے ٹکڑے تلاش کر لیتا ہوں۔ کوڑے کے اس ڈھیر میں مجھے بہت سی پینسلیں، ربر اور دوسری بہت سی چیز یں مل جاتی ہیں۔ ایک بستہ بھی ملا تھا۔“
رشی میاں حیرت سے منہ کھولے ہوئے اس چھوٹے سے لڑکے کی باتیں سن رہے تھے جس کی امی کے پاس اسے پڑھانے لکھانے کے لیے پیسے نہیں تھے لیکن وہ کوڑے کے ڈھیر میں سے پینسلیں چن کر پڑھتا لکھتا تھا اور ایک وہ خود تھے۔ انہیں خود پر بڑی شرم آئی، انہوں نے سوچا۔”میں تو روز اپنی چیزیں ادھر ادھر پھینک کر برباد کر تا رہتا ہوں جیسے یہ چیزیں مفت کی آتی ہوں اور پھر بھی مجھے پڑھنے لکھنے کا کوئی شوق نہیں ……“
”اچھا صاحب میں چلتا ہوں۔“ لڑکے کی آواز سے وہ چونک پڑے۔
”ہاں، ہاں ٹھیک ہے، میں بھی جارہا ہوں۔ ہاں۔ تمہارا نام کیا ہے؟“
”جی،ہارون۔“
”رہتے کہاں ہو تم؟“
”ادھر…پہلی کو ٹھی کے پیچھے چھو نپڑی ہے نا۔ اس میں۔“
”تمہارے ابا کہاں کام کرتے ہیں؟“
”ابا؟ امی کہتی ہیں وہ اللہ میاں کے پاس چلے گئے۔ اچھا اب میں چلتا ہوں، نہیں تو امی ناراض ہوں گی۔“
”ہاں، ہاں جاؤ۔“
رشی میاں وہاں سے تیر کی طرح گھر پہنچے۔ جاتے ہی انہوں نے اپنی امی کے گلے میں با ہیں ڈال دیں۔ امی نے اس اچانک پیار پر عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے انہیں ایک طرف کیا اور اطمینان سے بولیں۔”کیا چاہیے تمہیں، بہانے نہیں چلیں گے۔“
”امی امی!“ رشی میاں پھر سے امی کے گلے میں جھول گئے۔”امی میں اب اپنی چیزوں کو کبھی ادھر اُدھر نہیں پھینکوں گا۔ ہمیشہ اپنی چیزوں کا خیال رکھوں گا، لیکن ایک وعدہ کیجیے۔“
”ما شاء اللہ!“ امی مسکرائیں۔”وعدہ مجھ سے لے رہے ہو۔ خیر بتاؤ تو، کیسا وعدہ ہے۔“
”امی وہ پہلی کو ٹھی ہے نا۔اس کے پیچھے ایک جھونپڑی میں ایک لڑکا رہتا ہے۔ ہارون۔ بے چارہ بہت غریب ہے۔ میں جو پینسلیں، ربر، اسکیل، ادھر اُدھر پھینک دیتا تھا نا، تو ہمارا نوکر اسے کوڑے میں پھینک آتا تھا۔ وہ لڑکا کوڑے میں سے پینسلیں، ربر وغیرہ جمع کر کے لکھتا پڑھتا ہے۔ امی اُسے پڑھنے لکھنے کے لیے ہر مہینے پیسے دے دیا کریں نا۔ اچھی امی!“
امی، رشی میاں کو بڑی دیر تک غور سے دیکھتی رہیں۔ پھر بولیں:
”بیٹے آج تم نے میرا جی خوش کر دیا۔ اللہ تمہیں اور اچھا بنائے۔ میرا تم سے پکا وعدہ۔ تم ہارون کو یہاں لانا، میں اسے کتا بیں، پینسل، کاپی، ر بر سب کچھ دوں گی اور پیسے بھی۔“
”سچ امی؟ میں اُسے ابھی لے کر آتا ہوں۔“رشی میاں کا چہرہ خوشی سے چمک اُٹھا اور وہ چھلانگیں لگاتے ہوئے باہر نکل گئے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top