skip to Main Content

جناب عمر ؓ بن خطاب کاعجیب سفر نامہ

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق ؓ کو اسلام کی تاریخ میں بہت بلند مقام اور مرتبہ حاصل ہے۔اسلام قبول کرنے سے پہلے وہ قبیلہ قریش کے معزز اور بہادر نوجوانوں میں شمار ہوتے تھے۔اسلام قبول کرنے کے بعد انہوں نے اسے چھپایا نہیں بلکہ کھلے بندوں اپنے اسلام کا اعلان کیا اور سب مسلمانوں کو ساتھ لے کر حرم شریف (کعبہ)میں جاکر نماز پڑھی ۔ان کی جرات اور بے خوفی ہی تھی کہ رسولِ پاکﷺ نے ان کو فاروق کا لقب عطا فرمایا۔ فاروق کا مطلب ہو تاہے کہ حق اور باطل یا سچ و جھوٹ میں فرق (تمیز)کر نے والا۔تاریخ میں انہوںنے فاروقِ اعظم کے لقب سے شہرت پائی۔یہ لقب ملنے سے پہلے انہیں عمر بن خطاب ہی کہا جا تا تھااور قریش کے دوسرے لوگوں کی طرح ان کا پیشہ بھی تجارت تھا اور وہ کبھی کبھی اس سلسلے میں دوسرے ملکوں کے سفر کرتے رہتے تھے۔
اسلام قبول کر نے سے کئی سال پہلے حضرت عمرؓ بن خطاب ایک دفعہ تجارتی قافلے کے ساتھ مال لے کر مکہ سے شام گئے قافلے میں قرش کے کئی اور بڑے سردار بھی شامل تھے۔یہ قافلہ شام کے سب سے بڑے شہر دمشق گیا اور وہاں اپنا مال بیچ کر واپس مکہ کی طرف روانہ ہوا ۔تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد حضرت عمرؓ کو یاد آیا کہ ان کی ایک رشتہ دار خاتون نے انہیں کچھ سونا دیا تھاکہ اسے بیچ کر اسکے لئے کچھ کپڑے وغیرہ لیتے آئیں ۔انہوں نے اپنے قافلے کے ساتھیوں سے کہا کہ فلاں عورت کا کام کرنے واپس دمشق جا رہا ہوں،کوشش کروں گا کہ یہ کام کر کے جلد واپس آجاﺅںحضرت عمر دمش واپس گئے تو بازار بند ہو چکے تھے ۔مجبوراً وہ ایک سرائے میں ٹھہر گئے اور سو گئے تھوڑی دی کے بعد اللہ کا ایک بندہ سرائے میں آیا۔اس نے حضرت عمر ؓ کو جگایا اور اپنے ساتھ اپنے گھر لے گیا۔معلوم نہیں یہ نیک آدمی حضرت عمر کو پہلے سے جانتا تھا۔(حضرت عمر پہلے بھی کئی بار دمشق آچلے تھے۔)یا ان کے والد خطاب سے ان کی واقفیت تھی،اس نے حضرت عمر کی بڑی خاطر مدارت کی ۔کھانا کھا کر وہ تو سو گئے اور ان کامیزبان رات بھر عبادت کر تا رہا۔
صبح کو حضرت عمر ؓبیدار ہوئے تو ان کے میزبان نے کہا کہ اکیلے بازر نہ جانا ،بازار میں لٹیرے اکثر مسافروں کو لوٹ لیتے ہیں،میرے ساتھ چلنا۔یہ کہہ کر وہ سو گیا(کیونکہ رات بھر جاگتا رہا تھا۔)حضرت عمر ؓ نے اسے جگانا مناسب نہ سمجھا اوراکیلے بازار چلے گئے۔ابھی بازار کھلا نہ تھا۔وہ بازار کھلنے کا انتظار کرنے لگے۔کچھ دیر بعد ایک عیسائی پادری اپنے نوکر و ں کے ساتھ آیا اور حضرت عمرؓ کی طرف اشارہ کرکے اپنے نوکروں کو حکم دیا:
”اس شخص کوپکڑ لو،یہ گرجے کا کا م بہت اچھی طرح کر لے گا۔“
اس زمانے میں حضرت عمر ؓبڑے تنو مند پہلوان تھے۔پادری کے نوکروں نے ان کو پکڑ لیا اور ایک پرانے گرجے میں لے گئے ۔پادری نے ان کو ایک ہتھوڑا دیا اور ان کو گرجے کی ایک دیوار توڑنے پر لگا دیا۔(ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کی جگہ نیا گرجا بنوانا چاہتا ہے۔)حضرت عمر ؓ دن بھر کام کرتے رہے۔کہیں شام کو جاکر چھٹی ملی اور وہ تھکے ہارے سرائے میں آکر بیٹھ گئے۔پہلے دن والا نیک آدمی آیا اوراس نے پوچھا ،آپ کدھر چلے گئے تھے؟حضرت عمر ؓ نے اسے سارا قصہ سنایا اور وہ پھر انہیں اپنے گھر لے گیا اور ان کی بڑی خاطرمدارت کی اور انہیں تاکید کی کہ کل بازار جاتے وقت مجھے ساتھ لے جانا اسکے بعد وہ عبادت میں مشغول ہو گیااور حضرت عمر ؓ سو گئے۔
دوسرے دن حضرت عمر ؓ بیدر ہوئے تو اپنے نیک میزبان کو سوتے پایا ۔انہوں نے اب کی بار بھی اسکو جگانا مناسب نہ سمجھا اور اکیلے بازار چلے گئے ۔اتفاق سے پھر وہی پادری اپنے نوکرو ں کے ساتھ آیا اور اپنے حضرت عمرؓکوپکڑ کر ساتھ لے گیا۔ان کو غصہ تو بہت آیا لیکن کیا کرتے ،غیر ملک میں وہ اکیلے تھے اور کوئی ہتھیار بھی پاس نہ تھا اور دوسری طرف پادری کے ساتھ سات آٹھ نوکر تھے اور سب ہتھیار بند تھے ۔پہلے دن کی طرح حضرت عمر ؓ ہتھوڑے کے ساتھ گرجے کی دیوار توڑتے رہے۔جب دھوپ تیز ہوئی تو پادری اور اسکے نوکر انہیں کام میں مشغول دیکھ کر چلے گئے اور حضرت عمر ؓ دیوار کے سائے میں دم لینے کے لئے بیٹھ گئے اتنے میں وہ پادری گھوڑے پر سوار چپکے سے آیا اور حضرت عمرؓ کے سر پر کوڑا مارا اور کہا :
”ہم سب گھر گئے اور تو نے کام چھوڑ دیا۔“
اب حضرت عمرؓ کو صبر کی تاب نہ رہی۔انہوں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی ۔ہر طرف سناٹا تھا انہوں پا دری کو گھوڑے سے کھینچ کر نیچے گرا لیا اور اسکے سر پر ہتھوڑے پر ہتھوڑا مارنا شرو ع کر دیا ۔وہ بہتیرا چینخا چلایا لیکن کوئی اس کی مدد کے لئے نہ پہنچا ۔حضرت عمر ؓ نے ٹوٹی ہوئی دیوار کا ایک بھاری ٹکڑا اٹھا کر اس کے سر پر دے مارا ۔وہ پہلے ہی زخمی تھا۔اب اس نے دم دے دیا ۔اس کو مرتے دیکھ کر حضرت عمرؓ تیزی سے بھاگ کھڑے ہوئے اور جس راستے سے دمشق آئے تھے وہ راستہ چھوڑ کرایک دوسرے راستے پر چل پڑے۔شہر سے کافی دو رانہیں ایک خچر پر سواررومی ملا اور ان کے ساتھ چلنے لگا۔وہ کچھ باتیں کرنے لگا لیکن نہ حضرت عمر ؓ اس کی زبان سمجھتے تھے اور نہ وہ ان کیزبان سمجھتا تھا۔اس نے یکا یک اپنی تلوار پر ہاتھ ڈالا ۔حضرت عمرؓ سمجھ گئے کہ وہ ان پر وار کرنا چاہتا ہے۔انہوں نے فوراً اسے خچر سے کھینچ لیا اور اس سے تلوار چھین کر اس کے ایک ہی وار سے اس کس کام تمام کر دیا۔
پھر اس کے خچر پر سوار ہو کر آگے چلے۔
اس کے بعد کیا ہوا؟اس کا حال خود حضرت عمرؓ نے اس طرح بیان کیا ہے:
“اس جگہ سے روانہ ہو کر میں ایک گرجے (عیسائیوں کے عبادت کرنے کی جگہ) پہنچا۔یہاں عیسائیوں کی ایک جماعت رہتی تھی۔میں گرجے کے اندر داخل ہوا تو گرجے میں رہنے والے سب لوگ میرے ارد گرد جمع ہو گئےاور مجھ سے میرے حالات کے بارے میں پوچھنے لگے۔پھر وہ اپنے اسقف(کاٹ پادری)کے پاس گئے اور سے م یرے گرجے میں آنے کی اطلاع دی۔اسقف میرے پاس آیا اور مجھے نہایت غور سے دیکھنے کے بعد کہا ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں کسی چیز کا خو فہے۔
میں نے کہا ،تم نے کیسے اندازہ کیا کہ مجھے کسی چیز کا خوف ہے؟اس نے میرے سوال کو ٹال دیااور کہا،آپ جب تک چاہیں،یہاں ٹھہر یں،آپ کو یہاں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ آپ ہماری حفاظت میں ہیں۔“
پھر اسقف نے مجھے اپنے گھر میں مہمان کی طرح رکھا اور میری نہایت خاطر ومدارت کی پھر پوچھا:
”آپ کون ہیں؟“
میں نے اسے بتایا کی میں مکہ کا رہنے والا ہوں،قبیلہ قریش سے تعلق ہے،تجارتی قافلے کے ساتھ شام آیا تھا۔تجارت کا مال بیچنے کے بعد اپنے ایک ضروری کام کے لئے مجھے اپنے قافلے سے جدا ہو کر واپس دمشق جانا پڑا۔اب میں اپنے وطن واپس جا رہا ہوں۔راستہ بھٹک کر یہاں آنکلا ہوں۔اسقف مجھے غور سے دیکھتا رہا اور باربار طرح طرح کے سوالات کرتارہا۔میں نے اس کے یہاں نہایت آرام سے رات بسر کی ۔صبح کو اس نے پوچھا ،آپ ارادہ ابھی یہاں ٹھہرنے کا ہے یا آگے جانے کا؟
میں نے کہا،میں اب آپ سے رخصت ہونا چاہتا ہوں۔
یہ سن کر اسقف اپناشاندارگدھا جو بڑا خوبصورت اور نہایت تیزرفتا رتھا،لے آیا۔اس پر پالان کسی اور خرجیاں لادیںجن میں کھانے کی مزیدار چیزیں اور قیمتی تحفے بھرے ہوئے تھے۔(خرجیاں ان تھیلیوں کو کہتے ہیں جو گدھے کی پیٹھ پر سامان کے لئے باندھ دیتے ہیں۔)پھر اس نے کہا:
آپ اس گدھے پر سوار ہو جائیںاور چل پڑیں۔راستے میں آپ کا گزر کسی عیسائی کے مکان کے پاس سے ہو گا تو وہ آپ کو اس گدھے پر سوار دیکھ کر آپ کی بے حد تعظیم کرے گا اور آپ کی خاطر مدارت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے گا۔
یہ کہہ کر اسقف نے میرا ہاتھ پکڑا اور تنہائی میں لے کا کر کہنے لگا۔
”اے عمر ؓ!آپ پر میرا حق واجب ہو گیا۔“
میں نے کہا :”بے شک“
اس نے کہا :آپ کا تعلق ایک معزز قوم سے ہے،میری آپ سے ایک غرض ہے۔
میں نے کہا :آپ بیان کریںلیکن حیرت کی بات ہے کہ آپ جیسا بڑا آدمی مجھ جیسے پریشان حال مسافر سے کوئی غرض رکھتاہو۔
اس نے بڑے یقین بھرے لہجے میں کہا:
”سنیں !میں ایک ایسا آدمی ہوں جسے اللہ نے آسمانی کتابوں کا علم عطا کیاہے۔میں نے آپ کی ذات میں بہت سی ایسی نشانیاں دیکھی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ جب ایک مقررہ مدت پوری ہو جائے گی تو حالات میں زبردست تبدیلی آئے گی۔اس وقت آپ ہمارے ملک کے حاکم بن جائیں گے اور یہاں کے سب شہروں میں آپ ہی کا حکم چلے گا۔“
پھر اسقف نے اپنی جیب سے دوات ،قلم اور کاغذ نکالے اور کہا: 
”میری غرض یہ ہے کہ آپ اس کاغذ پر لکھ دیں کہ اس گرجے اور اس کی جائیداد پر جزیہ اور کسی قسم کا حکومتی محصول معاف ہوگا۔“
میں نے حیران ہو کر اسقف سے کہا:
”آپ مجھ سے مذاق تو نہیں کر رہے۔“
اس نے کہا ،قسم ہے اس ذات کی جس نے عیسیٰ علیہ السلام پر انجیل نازل فرمائی،میںجو کچھ کہہ رہا ہوں وہ بالکل سچ ہے۔آپ مہربانی کریں اور میری درخواست قبول فرمائیں۔
میں نے اسقف کی باتوں کو اس کا وہم سمجھا اور جس طرح اس نے کہا، اسی طرح لکھ کر کاغذ اسے دے دیااور گدھے پر سوار ہو کر چل پڑا۔راستے میں مجھے کئی جگہ عیسائیوں کی جماعتیں ملیں۔انہیں نے اسقف کے گدھے پر مجھے سوار دیکھ کر میری بڑی خاطر مدارت کی ۔میں اسی طرح جگہ جگہ عیسائیوں کامہمان بنتا تبوک پہنچ گیا۔(تبوک شام اور عرب کی سرحدکے قریب ایک قصبہ ہے۔)اللہ کی شان جس تجارتی قافلے کے ساتھ میں گیا تھا وہ کافی دیر میرا انتظار کرنے کے بعد اسی جگہ سے چل پڑا تھا جہاں میں نے اسے چھوڑا تھا اور اب تبوک میں ایک کنویں کے قریب ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے۔قافلے والے میرے ساتھی مجھے دیکھتے ہی میری طرف دوڑ پڑے ۔وہ مجھ سے مل کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے :
”ابنِ خطاب !ہم لوگ تمہارا انتظار کرتے کرتے بالکل مایوس ہو گئے تو ہم نے اس مقام سے کوچ کر دیاجہاں سے تم واپس دمشق گئے تھے مگر تمہارے بارے میں ہم سخت پریشان تھے،یہ تو بتاﺅ اتنے تم کہاں رہے؟“
میں نے وہ تمام حالات بیان کئے جو مجھے پیش آئے تھے لیکن اسقف سے میری جو گفتگو ہوئی تھی وہ بالکل ظاہر نہ کی کیونکہ میں اسقف کی باتوں کو اس کا وہم اور اس کے عقیدے کی کمزوری سمجھتا تھا۔
قریش کے ایک سردار ابو سفیان بھی اس قافلے میں شامل تھے۔انہوں نے مجھے اس شاندار گدھے پر سوار دیکھ کر کہا:
”ارے تم لوگ اس نو جوان کی اقبال مندی تو دیکھو ،اسے کس ایسے میدان میں چھوڑ دیا جائے جہاں نہ پانی ہو نہ سبزہ پھر بھی اسے رزق مل جائے گا ۔
اسقف نے رخصت کرتے وقت مجھے سے کہا تھا کہ جب میں اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچ جاﺅں اور گدھے کی ضرورت نہ رہے تو اس کی رسی کو خرجیوں پر رکھ کر اور خرجیوں کو مضبوطی سے باندھ کر گدھے کو اسی جگہ چھوڑ دوں۔میں نے ایسا ہی کیا۔یہ دیکھ کر ابوسفیان نے کہا :”ارے یہ تم نے کیا کر دیا؟گدھے کو ایسی جگہ چھوڑ دیا جہاں سے چور اور درندے اکثر گزرتے رہتے ہیں۔“
میں نے کہا ،”اس کے مالک نے مجھے ایسا ہی کرنے کی ہدایت کی تھی،وہ اس کی عادتوں سے زیادہ واقف ہے۔“
اب وہ جگہ گدھے والا کنوں کے نام سے مشہور ہے۔وہاں سے روانہ ہو کر ہمارا قافلہ مکہ پہنچا ۔میرے اور اسقف کے درمیان جو گفتگو ہوئی تھی ۔وہ مجھے بھلائے نہ بھولتی تھی پہلے تو کئی دن تک میں نے اسے دل میں ہی رکھا لیکن پھر مجھ سے ضبط نہ ہو سکا اور میں نے یہ راز اپنی اس رشتہ دار خاتون کے سامنے ظاہر کر دیا جس نے مجھے سونا دیا تھا۔وہ بڑی عقل مند خاتون تھی۔اس نے مجھ سے کہا:
”اے ابنِ خطاب !میں تمہارے بچپن ہی سے تم میں اچھی نشانیں دیکھ رہی ہوں۔تم جب بہت چھوٹے بچے تھے تو میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ تم لمبے ہوتے جارہے ہواور تمہارا قد اتنا لمبا ہو گیا ہے کہ اس نے آسمان کو چھو لیا۔یہ دیکھ کر میں نے خواب میں کہا ،ارے !یہ میرے بچے کی کیا حالت ہے؟کسی نے کہا،یہ لڑکا دنیا اور آخرت میں بھلائی پانے والا بنے گا۔“
جاہکیت کے زمانے میں اس قسم کی باتوں کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آتا تھا۔
مکہ میں ایک شخص اہلِ کتاب (یہود اور نصاریٰ)میں سے تھا جو بہت گمنام تھا ۔عام لوگ تو اس سے واقف بھی نہیں تھے لیکن قریش کے سردار اسے پہچانتے تھے اور اس کی بہت عزت کرتے تھے۔ایک دن دوپر کے وقت اسکے یہں گیا اور اس کے مکان پر پہنچ کر اسے آواز دی۔
”ذرا دروازہ کھولئے،مجھے آپ سے ضروری کام ہے۔اس نے دروازہ کھول دیا۔میں نے اس سے کہا :
”میں آپ سے چند باتیں کرنا چاہتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ ان کو آپ اپنے دل میں راز بنا کر رکھیں اور کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں۔اس نے ایسا کرنے کا وعدہ کیا تو میں نے اپنے اپنے سفر کے تمام واقعات اس کے کے سامنے بیان کر دئے اور اپنے رشتہ دار خاتون کے خواب کا بھی ذکر کر دیا۔جب میں اپنی گفتگو ختم کر چکا تو اس نے کہا :
”اے ابنِ خطاب !جس کو تم نے معافی کا وعدہ لکھ کر دیا ،وہ اس زمانے میں عیسائیوں کا سب سے بڑا عالم ہے جو کچھ اس نے کہا وہ سب کچھ سچ ہے اور جلدہی وہ تمہارے سامنے آجائے گا ۔۔۔۔۔۔جہاں تک تمہاری رشتہ دار خاتون کے خواب کا تعلق ہے تو اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مکہ میں ایک بہت بڑا انقلاب آئے گا،زمانہ ایک نئی صورت اختیار رکرے گااور آنے والے زمانے کے آسمان و زمین بدل جائیں گے۔
میں وہاں سے گھر چلا آیا اور اسکی ساری باتیںاپنے دل میں لئے رہا۔تھوڑے ہی عرصے کے بعد قریش کی مجلسوں میں رسول اللہﷺ کا ذکر ہونے لگا ۔یہ لوگ اس بات پہ ناک بھوں چڑھاتے تھے کہ محمد (ﷺ)اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہتے ہیں،لوگوں کو بتوں کی پوجا سے منع کرتے ہیں اور ایک اللہ کو ماننے پر زور دیتے ہیں۔جلد ہی اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ظاہر کر دیا اور مجھے یقین ہو گیا کہ حالات وہی صورت اختیار کر رہے ہیں جن کی طرف آسمانی کتابوں کے عالم شام کے اسقف نے اشارہ کیا تھا۔
یہاں حضرت عمرؓ کا بیان ختم ہو جاتاہے۔نبت کے چھٹے سال حضرت عمرؓ نے اسلام قبول کر لیا اور رسول اللہﷺ کے جاں نثار ساتھی بن گئے۔
۱۱ہجری میں رسول اللہﷺ نے اس دنیا سے پردہ فرمایا تو حضرت ابو بکرؓ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ بنے ۔۳۱ہمری میں انہوں نے وفات پائی تو حضرت عمرؓ خلیفہ بنے ۔ان کے سفرنامے کی روایت کرنے والے (راوی)کا بیان ہے کہ حضرت عمرفاروقؓ اپنے خلافت کے زمانے میں شام تشریف لے گئے تھے تو ایک بہت بوڑھا آدمی جس کے بال برف کی طرح سفید ہو چکے تھے،عیسائیوں کی ایک جماعت کے ساتھ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا :
”اے امیر المﺅمنین !کیا آپ مجھے نہیں جانتے ؟“
حضرت عمرؓ نے فرمایا :
”اگر آپ شام کے فلا ںگرجے والے اسقف ہیں تو میں آپ کو پہچانتا ہوں ۔
اس نے کہا :
”جی ہاں ،میں وہی اسقف ہوں ۔“
حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا :
”میں نے آپ سے (لکھ کر )جو عہد کیا تھا وہ ابھی تک قائم ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول محمدﷺ کے ذریعے ہمیں عزت بخشی۔انہوں نے ہمیں اللہ تالیٰ کے پسندیدہ دین اسلام کی طرف دعوت دی ہم نے یہ قبول کی۔آپ ہی نے مجھے ان باتوں سے آگاہ کیا تھا۔اب آپ کو کون سی چیز اسلام سے قبول کرنے سے روکتی ہے؟“ 
بوڑے اسقف نے حضرت عمرؓ کی باتیں سن کر اسی وقت اپنے ساتھیوں سمیت کلمہ پڑھ کر اسلام کی دولت حاصل کرلی۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top