skip to Main Content
توبہ

توبہ

فریال یاور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر انصاری ہیں۔ جو تاریخ میں اپنی کنیت ابولبابہ سے مشہور ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ظہر کی نماز پڑھ کر لوگ فارغ ہوئے اور اپنے اپنے گھروں کو جانے کے لیے مسجد سے نکلنے لگے۔ لیکن مسجد کے صحن میں ایک آدمی کو زنجیروں سے بندھا دیکھ کر رک گئے۔ چہرے سے تو یہ آدمی ہر گز قیدی نہیں لگ رہا۔ چہرہ تو بہت نورانی ہے۔ گندمی رنگ ہے۔ مگر یہ شخص اگر قیدی نہیں تو پھر بندھا ہوا کیوں ہے؟ اور کس نے اسے یہاں مسجد کے صحن میں باندھا ہے؟ آدمی موٹی زنجیروں سے بندھا ہوا ہے اور مسلسل روئے جا رہا ہے۔ آنسو اس کی آنکھوں سے بہہ بہہ کر اس کی داڑھی کو بھگو رہے ہیں۔ اسی طرح روتے روتے اسے تمام دن گزر گیا اور رات سر پر آگئی۔ 
عشاء کی نماز کے وقت بھی لوگوں نے یہی کچھ دیکھا۔ دوسرے دن پھر یہی ماجرا رہا کہ لوگ مسجد میں آئے اور اس شخص کو مسجد کے ستون کے ساتھ بندھا ہوا دیکھا مگر یہ شخص اگر کوئی قیدی ہوتا تو کوئی اس کا نگران ہوتا جو اسے یہاں باندھ کر رکھتا اور نگرانی کرتا۔ یہ تو عجیب ہی شخص ہے کہ خود ہی اپنے آپ کو بندھواتا ہے اور صرف نماز یا رفع حاجت کے وقت خود کو کھلواتا ہے اور فارغ ہو کر پھر بندھوالیتا ہے۔ نہ کچھ کھاتا ہے نہ کچھ پیتا ہے اور نہ ہی کسی سے کچھ بات کرتا ہے۔ اس کا بس ایک ہی کام ہے اور وہ ہے رونا اور رو رو کرﷲ سے اپنی غلطی کی معافی مانگنا۔ اس شخص کی ایک بیٹی ہے۔ جو کبھی کبھار آکر اس کے منھ میں ایک خرما اور پانی کے چند گھونٹ ڈال دیتی ہے اور وہی اس کی زنجیریں بھی کستی ہے۔ 
آج اس شخص کو سزا کاٹتے ہوئے کئی دن گزر گئے ہیں اور اس دوران اس کا یہ حال ہو گیا ہے کہ روتے روتے آنکھیں سوج گئی ہیں۔ نظر کمزور ہو گئی ہے اور کان بھی بہرے ہو گئے ہیں مگر وہ شخص اپنے حال سے بے خبر بس رو رو کر ﷲ سے دعا کیے جا رہا ہے۔ معافی مانگے جا رہا ہے۔ کھانا نہ کھانے کی وجہ سے جسم میں بہت کمزوری بھی ہو گئی ہے مگر اسے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ پرواہ اگر ہے تو وہ اس بات کی کہ ﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی غلطی معاف کریں گے یا نہیں۔
شام ڈھل چکی ہے۔ لوگ مغرب کے بعد گھروں کوبند کرچکے ہیں اور دکان دار اپنی دکانوں کو بند کرکے جا چکے ہیں۔ کچھ دیر بعد عشاء کی اذان لوگوں کو مسجد کی طرف بلاتی ہے اور لوگ مسجد میں جمع ہونا شروع ہوتے ہیں۔ یہ شخص بھی اپنی زنجیریں کھلواتا ہے اور وضو کرکے صف میں کھڑا ہوجاتا ہے۔ امام صاحب نے تکبیر کہی اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت شروع کی اس کے ساتھ ہی اس شخص کے آنسو ایک بار پھر موتیوں کی طرح زمین پر ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگتے ہیں۔ بس اسی حال میں تمام نماز ادا ہوتی ہے اور یہ شخص واپس اپنی جگہ پر آکر خود کو بندھواتا ہے۔ آج دل میں بہت بے چینی ہے اور اسی وجہ سے صبح سے کچھ نہ کھایا ہے اور نہ پیا ہے۔ لوگ تو اپنے گھروں میں سکون کی نیند سو رہے ہیں مگر اس شخص کی آنکھوں سے نیند غائب ہے اور نیند آئے بھی کیسے؟ رات کا خاصا وقت گزر گیا، تہجد کی نماز ادا کرچکے اور فجر ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی ہے۔ جب ایک عجیب واقعہ ہوا اور اس شخص کی غیر معمولی شہرت کا سبب بن گیا۔ وہ یہ کہ فجر کی اذان سے کچھ دیر پہلے مسجد نبوی کے ساتھ والے حجرے میں سے آواز آتی ہے۔
’’ابولبابہ مبارک ہو تمہاری توبہ قبول ہو گئی۔‘‘ مگر ابولبابہ ہوش میں ہوں تو یہ آواز سنیں۔ وہ تو کمزوری کی وجہ سے بے ہوش ہو چکے ہیں۔ سنا تو ان لوگوں نے جو یا تو تہجد ادا کررہے تھے یا نماز فجر کی تیاری کر رہے تھے اور اس کے ساتھ ہی یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی اور لوگوں کا ہجوم ابولبابہ کو مبارکباد دینے مسجد میں پہنچ گیا۔ اس وقت تک ابولبابہ کو بھی ہوش آچکا ہے۔ لوگوں نے چاہا کہ ابولبابہ کو زنجیروں سے آزاد کریں مگر یہ کیا ہوا کہ ابولبابہ نے کچھ کہہ کر لوگوں کو اپنی زنجیریں کھولنے سے منع کردیا۔ اب لوگ بے قراری سے مسجد کے دروازے کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ غالباً انہیں کسی شخص کا انتظار ہے۔ کچھ ہی دیر بعد ان لوگوں کا انتظار ختم ہوجاتا ہے۔ بے قراری کی جگہ ان کے چہرے خوشی سے دمکنے لگتے ہیں۔ جب سامنے مسجد کے دروازے سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کی ادائیگی کے لیے داخل ہوتے ہیں اور آگے بڑھ کر ابولبابہ رضی اللہ عنہ کی زنجیریں اپنے مبارک ہاتھوں سے کھولتے ہیں اور ابولبابہ رضی اللہ عنہ خوشی سے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدموں سے لپٹ جاتے ہیں۔
یہ نیک سیرت صحابی رسول جنہوں نے اپنی غلطی کی یہ سزا خود ہی تجویز کی اور خود ہی یہ سزا کاٹی اور جنہیں ﷲ تعالیٰ نے سورہ توبہ میں معافی کی خوشخبری دی اور جنہیں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھوں سے آزاد کیا۔ حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر انصاری ہیں۔ جو تاریخ میں اپنی کنیت ابولبابہ سے مشہور ہیں۔ جب پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ کو زنجیروں سے آزاد کیا تو آپ رضی اللہ عنہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں سے لپٹ کر رونے لگے اور فرمایا: 
’’یارسول اﷲ! میں اپنا گھر بار سب اﷲ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں، بس مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خدمت میں رہنے کی اجازت دے دیں۔‘‘ حضورؐ نے یہ سنا تو فرمایا۔
’’صرف مال کا تہائی حصہ صدقہ کرو۔‘‘ تو آپ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق عمل کیا۔ یہ واقعہ اس طرح ہے کہ غزوہ خندق کے فوراً بعد غزوہ قریظہ پیش آیا جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے ساتھ یہودیوں کے قلعے کا محاصرہ کیا اور جب یہودیوں کی ہمت ختم ہوگئی تو انہوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہتھیار ڈالنے سے پہلے ہمیں حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمنذر سے مشورہ کرنے کی اجازت دیں کیونکہ ان کے قبیلے کے حضرت رفاعہ بن عبدالمنذر کے قبیلے سے تعلقات تھے۔ ان یہودیوں نے حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ سے یہ مشورہ کیا۔ ہمیں بغیر ہتھیار کے باہر نکلنا چاہیے یا نہیں؟ حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ تو کہا کہ بغیر ہتھیار باہر آئیں لیکن ساتھ ہی ہاتھ کے اشارے سے انہیں یہ بھی بتا دیا کہ باہر نکلو گے تو قتل کر دیے جاؤگے۔ اس کے فوراً بعد ہی انہیں یہ احساس بھی ہو گیا کہ انہوں نے یہ راز بتا کرﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت میں خیانت کی ہے۔ اس لیے یہودیوں کے پاس سے آنے کے بعد آپ کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کی ہمت نہیں ہوئی اور سیدھے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پہنچ کر اپنے آپ کو ایک ستون سے باندھ لیا۔
حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ اس وقت حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ جب سارا عرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے مسلمانوں کے خون کا پیاسا بنا ہوا تھا۔ اس زمانے میں اپنا مال و اسباب حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ نے مکہ کے مسلمانوں کی خدمت میں دیا۔ جب ہجرت کے بعد پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم قبا تشریف لائے تو حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمنذر نے دوسرے لوگوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرجوش استقبال کیا۔ اتنے خلوص اور ایثار کے ساتھ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مہاجرین کی مدد کی کہ جلد ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص لوگوں میں شامل ہوگئے۔ غزوہ بدر کے موقع پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مدینہ میں اپنی جگہ فرائض ادا کرنے کے لیے منتخب کیا اور غزوہ بدر کے مجاہدین میں آپ کو شامل کیا۔ اسی طرح غزوہ احد، غزوہ احزاب خیبر اور دوسرے غزوات میں بھی حضرت رفاعہ رضی اللہ عنہ بن عبدالمنذر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ تھے۔ حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کو بیت رضوان میں بھی شریک ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ 
پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد کافی عرصہ حیات رہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں وفات پائی۔ مگر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اپنا سارا وقت خاموشی کے ساتھ ذکر الٰہی میں گزارا۔ احادیث بیان کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے کہ کہیں کوئی لفظ زبان سے غلط نہ نکل جائے۔ اس لیے ان کی بیان کی ہوئی احادیث کی تعداد بہت کم ہے مگر آپ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل پر عمل کرنے کی دل و جان سے کوشش کرتے اس لیے آپؓ اعلی اخلاق کے مالک تھے۔

*۔۔۔*۔۔۔*

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top