skip to Main Content

۴ ۔ تجارت کے دلچسپ ابتدائی سفر

ڈاکٹر عبدالرؤف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دادا کی طرح آ پﷺ کے چچا ابو طالب بھی آپ ﷺ پر جان چھڑکتے تھے ۔وہ آپ ﷺ کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ عزیز رکھتے تھے ۔چچا بھتیجے کے پیار کا یہ عالم تھا کہ حضور ﷺ کافی عرصہ ابُو طالب کے ساتھ ہی سُوتے رہے ۔دونوں کو ایک دُوسرے سے جُدائی گوارا نہ تھی ۔ابو طالب جہاں بھی جاتے حضور ﷺ کو ساتھ لے جاتے ۔
شام کا پہلا تجارتی سفر
قریش اصلاًکاروباری لوگ تھے ۔وہ کسی نہ کسی طور تجارت کی طرف ہی مائل رہتے تھے ۔چنانچہ جب آپ ﷺ بارہ سال کی عمر کو پہنچے تو چچا نے تجارت کی غرض سے شام روانہ ہُونے کی تیاری شروع کی ۔اُن دنوں سفر انتہائی کٹھن اور پُر خطر ہُوا کرتے تھے ۔اِس لیے ابو طالب حضورﷺ کو ساتھ لے جانے سے کتراتے تھے ۔مگر چہیتے بھتیجے ﷺنے بُہت ضد کی اور آپ سے لپٹ گئے تو آپ نے آخر اُن کی بات مان لی ۔چنانچہ آپ ﷺ چچا کے ہمراہ تجارتی قافلے میں شامل ہو گئے اور سفر کرتے کرتے شام کے جنوب میں واقع شہر بصریٰ تک جا پہنچے ۔
بصریٰ میں یہ قافلہ ایک گرجا کے قریب ٹھہرا ۔اس گرجے کے راہب کا نام بحیرا تھا ۔اُس نے جب آپ ﷺ کو دیکھا تو ابو طالب کو بتایا کہ عیسائیوں کی مذہبی کتابوں میں پیغمبر کی پہچان کی جو معیاری نشانیاں درج ہیں وہ تمام کی تما م اُس کے بارہ سا لہ بھتیجے کے روشن چہرے پر نمایاں ہیں ۔بحیرا کو اندیشہ تھا کہ شام کے فتنہ پر داز یہودی نبوّت کی ان واضح نشانیوں کو فوراًبھانپ لیں گے اور آپ ﷺ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے ۔اِس لیے اُس نے اہلِ قافلہ کو مشورہ دیا کہ محمّد ﷺ کو آگے نہ لے جایاجائے ۔ابو طالب نے صورتِ حال کی نزاکت کے پیشِ نظر راہب بحیرا کا مشورہ تسلیم کر لیا۔چنانچہ اُنھوں نے شام میں اپنا تجارتی سامان جلدی جلدی فروخت کر دیا اورآپ ﷺ کو لے کر مکّہ لوٹ آئے ۔اِس سفر میں حضور ﷺ نے مناظرِقدرت کا جی بھر کے مشاہدہ کیا۔اِنسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر سوچ بچار کیا اور اپنی کم عمری کے باوجود مختلف مذاہب کے اکابر سے تبادلۂ افکار بھی کیا ۔وہ سب لوگ آپ ﷺ کی فہم وفراست سے بے حد متاثّر ہُوئے ۔
ابو طالب کو ا س سفرمیں کوئی نفع نہ ہُوا ۔اِس لیے اُنھوں نے اِس کے بعد پھر کبھی تجارتی سفر کا اِرادہ تک نہ کیا۔اُن کے پا س تھوڑا بہت سرمایہ موجُود تھا ۔بس اُسی کے سہارے مکّہ کی چار دیواری کے اندر رہ کر ہی گزر بسر کرتے رہے ۔یہ سارا عرصہ حضور ﷺ چچا کے ساتھ رہے ۔آپ ﷺ اُن کی بکریاں چراتے اور گھریلو کام کاج میں اُن کا ہاتھ بٹاتے تھے ۔فارغ اوقات میںآپ ﷺ گلی بازار میں نکل جاتے اور مشہُور عرب شاعروں کے کلام سُنتے ۔مختلف مذاہب کے خطیبوں کی تقریروں کا تجزیہ کرتے اور اپنا بیشتر وقت سوچ وبچار میں صرف فرماتے ۔
شام کا دُوسرا کامیاب سفر
ابو طالب کی گھریلو زندگی مالی پریشانیوں کا شکار رہتی تھی ۔حضور ﷺ اِس وقت پچیس برس کی عمر کو پُہنچ چکے تھے ۔شام کے تجارتی سفر میں ناکامی کے باوجود آپ ﷺ کے چچا چاہتے تھے کہ اپنے چہیتے بھتیجےﷺ کے لیے گلّہ بانی کی بجائے تجارت کی سہولتوں کا اہتمام کریں ۔اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے آپ مناسب موقعوں کی تلاش میں رہتے تھے ۔
انہی دنوں ایک دولت مند اور بلند اخلاق بیوہ خاتون ،خدیجہؓ ،مکّہ میں رہتی تھیں ۔رشتہ میں وہ آپ ﷺ کی چچا زاد بہن تھی ۔اِن کے اِنتہائی پاکیزہ کردار کی وجہ سے لوگ انھیں ’’طاہرہ ‘‘کے لقب سے یاد کرتے تھے ۔خدیجہ اپنے تجارتی کاروبار کے سلسلہ میں جفا کش اور شریف لوگوں سے اُجرت پر خدمت لیا کرتی تھیں ۔اُنھوں نے حضور ﷺ کے اخلاق اور دیانت کے بُہت چرچے سُن رکھے تھے ۔چنانچہ اُنھوں نے آپ ﷺ کی دیانت اور خدمت سے فائدہ اُٹھانے کا سوچا ۔اُنھوں نے آپ ﷺ کو بلا بھیجا اور کہا کہ ’’اگر آپ ﷺ میرا تجارتی مال لے کر شام جائیں تو میں آپ ﷺ کو اَوروں سے کہیں زیادہ معاوضہ دوں گی ۔‘‘آپ ﷺ نے اس اچھی کاروباری پیش کش کو قبول کر لیا تو خدیجہ نے اپنے مال کے ساتھ اپنا غلام میسرہ بھی آپ ﷺ کے ہمراہ روانہ کر دیا ۔
شام کے علاوہ حضور ﷺ کو تجارت کے لیے متعدد اور مشہُور مقامات پر جانے کا بھی خاصا تجربہ تھا ۔خدیجہؓ نے جہاں جہاں آپ ﷺ کو تجارت کی غرض سے بھیجا اُن میں یمن بھی شامل ہے ۔یمن آپ ﷺ دو مرتبہ تشریف لے گئے اور ہر بار واپسی پر خدیجہ نے آپ ﷺکو معاوضہ میں ایک اُونٹ دیا۔مگر حضور ﷺ نے جتنے بھی غیر ملکی تجارتی دورے کیے اُن سب میں شام کا دُوسرا تجارتی سفر ہر اعتبار سے اہم تر ہے ۔
اِس تجارتی سفر میں حضور ﷺ کو دُوسروں کی نسبت بُہت زیادہ منافع ہُوا ۔مگر کاروباری لین دین کے ساتھ ساتھ حضور ﷺ نے زندگی پر بھی جی بھر کے غوروخوض کیا اور مختلف مذاہب کے اکابر سے بحث و تمحیص میں بھی حصّہ لیا۔سفر کے دوران خدیجہ کا غلام میسرہ بھی آپ ﷺ کی فہم وفراست اور محنت ودیانت کا گرویدہ ہو چکا تھا ۔واپسی پر آپ ﷺ نے سفر کی روئیداد اور تجارتی منافع کا سارا حساب کتاب خدیجہ کو پیش کر دیا ۔
محبت اور عقیدت کی اِبتداء
خدیجہؓ آپ ﷺ کی دیانت اور فراست سے بے حد متا ثّر ہوئیں ۔بعد میں میسرہ نے بھی اُن سے حضور ﷺ کے بلند اخلاق او رنیک عادات کی تعریف کے پُل باندھ دیے۔میسرہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ’’سیر ت وکرداراور لیاقت وذہانت کے اعتبار سے مکّہ کاکوئی بھی نوجوان آپ ﷺ کا ہم پلّہ نہیں ہے ۔‘‘ان تمام باتوں سے خدیجہؓ کے دل میں حضور ﷺ سے محبت اور عقیدت کی راہ ہموار ہو گئی ۔
کاروبار میں صحیح لین دین اور تجارتی معاملوں کو فہم و تدبّر سے چلانے سے حضور ﷺ کو بھی مسرت اور گوناگوں اطمینان نصیب ہوا ۔چرواہی سے تجارت کے سفر نے آپ ﷺ کے تخلیقی فِکر وعمل میں نِت نئے تجربوں کا اضافہ کردیا ۔اور ےُوں انجام کار اُس عظیم چرواہے تاجرمیں دنیا کے تمام لوگوں کو ایک ایسی معنی خیز ’’تجارت ‘‘کے رموز و نکات سمجھانے کی بصیرت پیدا ہو گئی جو زندگی کے سب شعبوں میں ہر قسم کے منافع کا باعث تھی ۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top