skip to Main Content

تھیلے کا معمہ

ترجمہ: فصیح اللہ حسینی

……..
اس کے لیے پیسوں کا تھیلا تلاش کرنا ایک مسئلہ بنتا جا رہا تھا

……..

یہ ایک اتفاق تھا کہ انسپکٹر ریحان سب سے پہلے فرد تھے جو اس ہفتہ کی صبح ”فن لینڈ پارک“ میں تفتیش کے لیے پہنچے تھے۔ وہ اپنی ذاتی گاڑی پر پولیس تھانے سے واپس آرہے تھے کہ انہوں نے پولیس ریڈیو پر خبر سنی کہ فن لینڈ پارک میں ڈکیتی کی واردات ہوئی ہے۔ وہ پارک پہنچے اور گاڑی پارک کے دروازے پر روکی اور تقریباً بھاگتے ہوئے پارک کی طرف دوڑے۔ ان کا ایک ہاتھ جسم پر لگی پستول پر تھا۔وہ اندر جا رہے تھے کہ چوکیدار نے انہیں روکنے کی کوشش کی۔
”پولیس!! ڈکیتی کی تفتیش کے لیے!“ انہوں نے جواب دیا۔
”سب ٹھیک ہے! لڑکا بھاگنے کی کوشش کررہا تھا تو منیر نے اسے مار دیا۔“چوکیدار انسپکٹر ریحان کو آگاہ کررہا تھا۔انسپکٹر ریحان نے اب پستول اپنی جیب میں چھپا لی تھی۔ بچوں کے گول جھولے کی طرف پہلے ہی ایک مجمع لگا تھا۔
ایک مضبوط جسم کا آدمی دھاری دار قمیص پہنے ہجوم کے بیچ میں کھڑا تھا جبکہ ایک دراز بالوں والے نوجوان کی لاش اس کے قدموں میں پڑی تھی۔
انسپکٹر ریحان نے ہتھیار منیر سے لیا اور صاف رومال میں لپیٹ کر کندھے پر لٹکے بستہ میں ڈال لیا۔اتنے میں دو پولیس والے تماشائیوں کا دائرہ توڑتے ہوئے وہاں پہنچے۔
”آپ نے اس لڑکے کو گرفتار کر لیا ہے؟“ ان میں سے ایک نے جو انسپکٹر ریحان کو جانتا تھا، ان سے پوچھا۔
”نہیں یہ مجرم نہیں ہیں۔ آپ بس اس مجمع کو یہاں سے منتشر کریں۔“پولیس والا مڑا اور ہاتھ بلند کرتے ہوئے بولا۔
”بھائیو! تماشا ختم…… آپ سب یہاں سے چلے جائیے اور میلے کے مزے لوٹیے۔“
انسپکٹر ریحان منیر کو کونے پر لے گئے اور اس سے ڈکیتی کی تفصیلات معلوم کرنے لگے۔
”میں گزشتہ رات کو اپنے پیسے گننے کے بعد بنک میں جمع کروانے کے لیے نکل رہا تھا۔ جمعہ کو یہاں رش ہونے کی وجہ سے اچھی کمائی ہوجاتی ہے۔ میرے پاس ایک تھیلے میں پچیس ہزار روپے تھے۔ میں نکل رہا تھا کہ یہ کمبخت پستول لہراتا ہوا میرے کمرے میں آدھمکا۔ میں نے میز کے نیچے ہاتھ ڈال کر خاموشی سے خطرے کی گھنٹی بجا دی اور پیسوں کا تھیلا اسے دے دیا۔ وہ وہاں سے بھاگا اور میں بھی اپنی پستول پر جھپٹا اور اس کے پیچھے بھاگا۔ مگر یہ اس کی غلطی تھی کہ وہ منیر کو بیوقوف سمجھ رہا تھا۔“
٭……٭
وہ سب گول جھولے کے پاس کھڑے تھے جب انسپکٹر ریحان نے کشتی والے جھولے کی طرف جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس، لڑکے کو دیکھا جس کی شرٹ پر ”فن لینڈ پارک“ چھپا ہوا تھا۔ اس کے سیاہ گھنے بال کندھوں تک آرہے تھے اور اس کی عمر بیس کے اندر اندر معلوم ہوتی تھی۔ آرٹس کالج کے اکثر طلباء چھٹیوں میں اس پارک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے۔
”کیا تم اس زیبرے پر رنگ کررہے ہو؟“
انسپکٹر ریحان کے پوچھنے پر وہ ان کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔ وہ مسکرایا اور بولا
”جی بالکل! زیبرے کی پٹیوں کو رنگ کررہا ہوں۔ پھر مجھے گھوڑے کی گردن کے بالوں کو رنگنا ہے اور اس کے بعد سینگوں کو رنگوں گا۔
انسپکٹر ریحان اب قطار سے لگے رنگ کے ڈبوں کو دیکھ رہے تھے۔ کالے، سفید، نارنجی، کتھئی، چھوٹے، بڑے، کچھ کھلے ہوئے اور کچھ ابھی تک بند۔ یہ سب کافی دلچسپ لگ رہا تھا۔ انہوں نے محسوس کیا۔وہ اب اپنے مقصد کی طرف پلٹ آئے تھے۔
”تم تو یہاں کام کررہے تھے۔ تم نے لازماً گولی چلتے ہوئے دیکھا ہوگا؟“لڑکے کا سر اثبات میں ہلا تھا۔
”میں نے سب دیکھا ہے۔ یہ آدمی بھاگتے ہوئے آرہا تھا اور منیر اس کا پیچھا کررہا تھا۔ پھر اچانک گولی چلی اور آدمی نیچے گر گیا۔ منیر اپنی پستول سمیت اس کے پاس آیا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ دوبارہ اس پر گولی چلائے گا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔“
انسپکٹر ریحان منیر کی طرف مڑے۔”کیا ایسا ہی ہوا تھا؟“
منیر نے لڑکے کی بات کی تصدیق کی۔ ”میں اسے روکنے کے لیے اس کا پیچھا کررہا تھا مگر وہ مسلسل بھاگتا رہا۔ بالآخر میں نے اس پر گولی چلا دی۔ وہ کشتی والے جھولے کی دائیں طرف گرا اور اس نے دوچار بار قلابازیاں کھائیں۔ میں خوفزدہ تھا کہ وہ پلٹ کر مجھ پر حملہ کرے گا مگر پھر میں نے دیکھا کہ وہ مر چکا تھا۔“
انسپکٹر ریحان نے توقف کیا اور پھر بولے ”اس کی پستول اور پیسوں کا تھیلا کہاں ہے؟“
”اس کے پاس کوئی تھیلا نہیں تھا اور جو پستول آپ کو اس کشتی والے جھولے کے پاس لکڑی کی سیڑھیوں سے ملی ہے، ممکن ہے اس مردہ آدمی نے ہی اسے وہاں چھپایا ہو۔“ ٹی شرٹ میں ملبوس نوجوان نے جواب دیا۔
”میں جب اس کا پیچھا کررہا تھا تو اس نے پہلے ہی پیسے کہیں دبا دیئے ہوں گے اور ویسے بھی آپ کے دو پولیس والے پہلے ہی کباڑ کی جگہ تلاشی لے چکے ہیں۔“ منیر نے بودے پن سے شکوہ کیا۔
”ٹھیک ہے دیکھتے ہیں۔“ یہ کہتے ہوئے انسپکٹر ریحان پلٹے اور لڑکے کی طرف متوجہ ہو گئے۔
”تمہارا نام کیا ہے؟“
”شان!! میں گرمیوں میں یہاں کام کرتا ہوں۔“ لڑکے نے جواب دیا۔
”ٹھیک ہے تم اپنا کام کرو۔ میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں۔“ انسپکٹر نے کہا اور پلٹ گئے۔

٭……٭

انسپکٹر ریحان ایک پولیس والے کو کباڑ کی جگہ اور ایسی جگہوں کی کہ جہاں پیسوں کا تھیلا چھپایا جا سکتا تھا، تلاش کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ یہ تھیلا منیر کے دفتر اور کشتی والے جھولے کے درمیان کسی جگہ ہونا چاہیے تھا۔ پولیس کے فوٹو گرافر، لاش کا معائنہ کرنے والے اور ایمبولینس سب جائے وقوعہ پر پہنچ چکے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ دو تفتیش کار بھی پہنچ چکے تھے۔
انسپکٹر ریحان نے ساری تفصیلات انہیں بتائیں اور منیر سے لی گئی پستول ان کے حوالے کر دی۔ پارک میں ایک اجنبی سی خاموشی طاری تھی۔ اکثر جھولے بند ہو چکے تھے اور لوگ جوکروں کے کرتب دیکھنے کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ انسپکٹر ریحان نے اس چوکیدار کو تلاش کیا جس سے اندر آتے ہوئے ان کا آمنا سامنا ہوا تھا۔ اس کا نام دلاور تھا۔
انسپکٹر ریحان اس سے مخاطب ہوئے۔
”مجھے یہ بتا ؤ دلاور کہ جب میں یہاں آیا تھا تو تم نے مجھے بتایا تھا کہ منیر نے ڈاکو کو مار دیا ہے۔ تم کیسے جانتے تھے جبکہ یہ واقعہ پہلے ہو چکا تھا۔“
”میں نے اسے دیکھا تھا۔ جب منیر نے اپنے دفتر سے گھنٹی بجائی تو خطرے کی گھنٹی میرے دروازے پر ہی بجی تھی۔ میں نے پولیس کو فون کیا اور بتایا کہ یہاں ڈکیتی پڑی ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک آدمی بھاگ رہا ہے۔ باہر کے دروازے کی طرف نہیں بلکہ کشتی والے جھولے کی طرف۔“ اس نے وضاحت کی۔
”کشتی والے جھولے کی طرف؟یہاں سے باہر نکلنے کا کوئی اور راستہ بھی ہے کیا؟“
”نہیں! کوئی دوسرا نہیں۔“
”جب تم نے اس کو دیکھا تو کیا اس نے کوئی چیز پکڑی ہوئی تھی۔ کوئی تھیلا کوئی پستول؟“
اس کے ہاتھ میں کچھ تھا مگر میں اتنے فاصلے پر تھا کہ صحیح سے دیکھ نہ سکا۔
”کیا اس آدمی کو تم نے پہلے کبھی یہاں دیکھا تھا؟آتا جاتا رہتا تھا یہاں ……؟“
”میں نے صرف اس کی لاش دیکھی ہے۔ پہلے کبھی نہیں دیکھا اسے۔“دلاور نے نفی میں سر ہلا دیا۔
”شکریہ دلاور…… پھر ملوں گا تم سے۔“ انسپکٹر مسکرائے اور چل دیئے۔
وہ دوبارہ کشتی والے جھولے کی طرف آئے اور بغور کالے، سفید، کتھی، بھورے اور گرے اور مختلف رنگ کے لکڑی کے جانوروں کا معائنہ کررہے تھے جو کہ کشتی والے جھولے پر لگائے جانے تھے۔
لاش اٹھائی جا چکی تھی اور اکا دکا لوگ بھی چلے گئے تھے۔ اتنے میں پولیس والا آیا اور انسپکٹر ریحان سے مخاطب ہوا۔
”کباڑ کی جگہ سے کچھ نہ مل سکا۔ مگر ہمیں مردہ آدمی کا لائسنس ملا ہے۔ اس کا نام شیراز ہے۔ چوبیس سال عمر ہے اور پتہ محشر روڈ کا لکھا ہوا ہے۔ ہم تلاش کررہے ہیں۔ اس کا اگر کوئی ریکارڈ مل جائے تو……“
”بہت اچھا!“ انسپکٹر نے بس اتنا ہی کہا۔
”اس معمے نے آپ کو پریشان کر دیا ہے۔ ایسا ہی ہے ناں سر؟“ پولیس والا انسپکٹر ریحان سے ہمدردی کررہا تھا۔
”ہاں! یہ غلط راستے پر بھاگ رہا تھا۔ باہر نکلنے والے راستے پر نہیں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیوں؟“
وہ دوبارہ شان کی طرف بڑھے۔ وہ لکڑی کے زیبرے پر آخری ہاتھ مار چکا تھا اور اب پیچھے ہٹ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر اس کا معائنہ کررہا تھا۔
انسپکٹر ریحان کو اپنے قریب کھڑے دیکھتے ہوئے وہ مسکرایا اور بولا۔
”منیر چاہتا ہے کہ میں آج اسے مکمل کرلوں تاکہ وہ کل کشتی والے جھولے کو دوبارہ کھول سکے، پہیے ملے آپ کو؟“
انسپکٹر نے نفی میں سر ہلایا اور بولے۔ ”سراغ نہ مل سکا اور مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ مردہ آدمی باہر نکلنے والے راستے کی طرف نہیں بھاگ رہا تھا۔ کیا تم نے اس پر غور کیا؟“
”کیا مطلب ہے؟ اگر وہ بھاگنا نہیں چاہ رہا تھا تو ممکن ہے کہ اس نے ڈکیتی ہی نہ کی ہو۔ ممکن ہے منیر نے خود یہ پوری کہانی بنائی ہو؟“ اپنے ہاتھوں پر لگے رنگ کو صاف کرتے ہوئے شان نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”وہ اپنے پیسے چرانے کے لیے جعلی ڈکیتی کیوں پڑوائے گا؟“ انسپکٹر نے کہا۔
”یہ اس کے پیسے نہیں تھے۔ وہ یہاں کاروبار میں شراکت دار ہے اور میں نے سنا ہے کہ وہ مقروض بھی ہے۔“
”تم سمجھتے ہو کہ اس نے ایک بے گناہ کو مارا ہے؟“
”پولیس میں آپ ہیں میں نہیں۔“ شان نے کندھے اچکا دیئے۔
انسپکٹر ریحان دیکھ رہے تھے کہ پولیس کی ٹیم منیر کو پکڑ کر گاڑی کی طرف لے جارہی تھی۔
”ہم اسے تھانے لے جارہے ہیں۔ وہاں اس کا بیان لیں گے۔ یہ کیس بڑی عدالت میں جائے گا۔ گاڑی کی طرف بڑھتے ہوئے پولیس والے نے انسپکٹر ریحان سے کہا۔
”ابھی رکو! معاملہ ختم نہیں ہوا ہے۔“ انسپکٹر نے انہیں روکنا چاہا۔
”ہمیں پیسے نہیں ملے اور ہمارے پاس اس کے بیان کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں ہے۔ پولیس والے نے کہا اور گاڑی کو اسٹارٹ کرنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہ گاڑی کو جاتا دیکھ رہے تھے۔

٭……٭

پارک کے ایک طرف بچوں کی چھوٹی ریل گاڑی چلنے کی آواز آرہی تھی۔ انسپکٹر ریحان نے ایک نظر مرکزی دروازے پر کھڑے چوکیدار دلاور پر ڈالی اور پھر انہوں نے فیصلہ کر لیا۔
شان زیبرے کا کام مکمل کر چکا تھا اور اب وہ گھوڑے کی گردن کے بالوں پر دوسرا ہاتھ مارنے کے لیے کتھی رنگ کا ڈبہ کھول رہا تھا کہ انسپکٹر ریحان نے اس سے پوچھا۔
”ایک آخری بات شان!! جس پر گولی چلائی گئی وہ یہاں اجنبی تھا اور پھر وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کب اور کہاں منیر پیسے لے کر بنک میں جمع کروانے جائے گا۔ اس کو یہ اندر کی معلومات فراہم کرنے والا ضرور کوئی نہ کوئی ہوگا۔
میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ جس طرح بھاگا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ پیسوں کا تھیلا تمہارے پاس چھپائے اور جب وہ مہلک زخم کھا کر مر گیا تو تم نے کشتی والے جھولے کی سیڑھیوں سے اس تھیلے کو پار کر لیا۔
”میں نے نہیں کیا……“ شان کچھ کہنا چاہتا تھا کہ انسپکٹر ریحان نے اس کی بات کاٹی اور بولے۔
”ان جانوروں پر بہت سے رنگ کیے گئے ہیں شان…… مگر ان میں سے کوئی بھی نارنجی رنگ نہیں اور میرے خیال سے یہ نارنجی رنگ کا ڈبہ خالی ہے اور اگر تم اس کا ڈھکن اٹھاؤ تو مجھے یقین ہے کہ پیسوں سے بھرا گمشدہ تھیلا اس ڈبے سے نکلے گا۔“

٭……٭……٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top