سلیمانی ٹوپی
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”یار واقعی سچ بتانا، اس ٹوپی کو پہن کرآدمی غائب ہو جاتا ہے؟“ نسیم نے حیرت سے آنکھیں پھاڑتے ہوئے امجد سے پو چھا جو ابھی ابھی کسی حیرت انگیزٹوپی کی خبر لے کر آیا تھا۔
”ہاں! نہیں تواور کیا……“امجد نے بڑے یقین کے ساتھ کہا۔”شرفو بابا کی بات کبھی غلط نہیں ہوتی۔“
”پر یہ شرفو بابا ہے کون؟“ نسیم نے بڑے اشتیاق سے پوچھا۔
”اوہ، تمیز سے نام لو، وہ تم سے بڑے ہیں اور پہنچے ہوئے بزرگ ہیں، شرفو باباہے کون۔ بھلایہ کیا ہوا؟ شرفو بابا کون ہیں، کہنا چاہیے۔“ امجد نے اسے ٹوک دیا۔”خیر شرفو بابا، اگلی گلی کا نکڑ ہے نا،وہاں ایک مسجد ہے۔ اس مسجد کے برابر میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس بڑی عجیب عجیب کرا مات والی چیزیں ہیں۔“
”اچھا۔!!“ نسیم کے منہ سے نکلا۔
”ہاں بھئی! ایک تو جادوئی انگوٹھی ہے ان کے پاس، اسے پہنے تو آدمی دن بھر میں ایک گھنٹے کے لیے غائب ہو سکتا ہے۔دوسرے ’اڑن جوتے‘ہیں۔ انہیں پہن لو اور جہاں مرضی آئے اُڑتے پھرو۔ ایک اور جادو کا دسترخوان ہے، اس کو بچھا دیں اور جو کھاناچاہیں اس پر منگوالیں۔“امجدنے شرفو بابا کے عجائب پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
”واقعی!“ نسیم کا منہ مارے حیرت کے کھل گیا۔ ”یہ تم نے ساری چیزیں خود دیکھیں؟“
”نہیں میں نے تو نہیں دیکھیں، شرفو با با نے خود ان چیزوں کے بارے میں بتایا تھا، ان کے ہاں ایک اور آدمی بھی آتا ہے، وہ بھی ان کی تائید کررہا تھا۔“امجد نے بتایا۔
”یاران سے وہ والی ٹوپی توحاصل کی جائے، کسی طرح۔“ نسیم کا چہرہ جوش کے مارے سرخ ہوا جارہا تھا۔
”ایسے نہیں،بابا جی کو خوش کرنا پڑے گا،موڈ میں آئیں گے تو ٹوپی بخش دیں گے، ورنہ نہیں۔“امجد نے مایوسی سے کہا۔
”کوشش کر لیتے ہیں، ان شاء اللہ کامیابی ہوگی۔“
”کب چلو گے بابا جی کے پاس؟ابھی؟“نسیم اسی وقت چلنے کے لیے تیار تھا۔
”ابھی نہیں شام میں، میں اکیلا ہی چلا جاؤں گا۔“
”چلو ٹھیک ہے۔“
دونوں اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
۔۔۔۔۔
”کہوملی ٹوپی؟“ نسیم نے پوچھا۔
”نہیں!“امجد نے ذرا اداس لہجے میں جواب دیا۔”بابا جی کہتے ہیں ٹوپی یہاں نہیں ہے، اس کے لیے ہزاروں میل دور جانا پڑے گا، وہ صرف ہماری خاطریہ کام کرنے کے لیے تیار ہو ئے ہیں لیکن اس کے لیے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تین سو ر و پے لاکر دینے ہوں گے۔ جوصرف ٹوپی کا ایک ہفتے کا کرا یہ ہے، یہ بھی صرف ہمارے لیے رعایت ہے۔“
”پھر تو بڑی مشکل ہے۔“ نسیم بھی ادا س ہو گیا۔ ”تین سو روپے کہاں سے لائیں گے؟“
دونوں کچھ دیر خاموش رہے، پھر نسیم نے خاموشی کو توڑا۔”کیا خیال ہے، اپنے گھر سے نہ پیسے اڑا لائیں۔“
”گھرسے۔“ امجد ڈرساگیا۔”اور جوکسی نے دیکھ لیا تو؟“
”بھئی اول توکوئی دیکھے گانہیں اوراگرکسی کو خبر بھی ہوگئی تو اسے ہم کہہ دیں گے کہ تھوڑے دنوں بعد ہی ہم تمہیں اس سے زیادہ پیسے لا دیں گے۔“ نسیم نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
”وہ کس طرح؟“
”وہ اس طرح کہ ٹوپی ملنے کے بعد کسی بھی دکان میں ہم میں سے کو ئی ایک ٹوپی پہن کر چلا جائے گا اور دکان دار کا کیش بکس کھول کرپیسے نکال لائے گا، اُسے کیا پتہ چلے گا؟“
”واہ میرے یار کیا ترکیب سوچی ہے۔“امجد بھی خوش ہو گیا۔
۔۔۔۔۔
رات میں جب گھر کے تمام لوگ سورہے تھے، نسیم چپکے سے اٹھا اور اپنے ابا جان کی الماری کا تالا کھول کر اس میں سے سو کے دو نوٹ نکال لیے۔ اس کا دل بڑے زور سے دھڑک رہا تھا۔
کپکپاتے ہاتھوں سے اس نے نوٹ جیب میں رکھے، تالا بند کیااور بستر پر آکر لیٹ گیا۔ ادھر امجد نے بھی اپنی امی کے صندوق سے ڈیڑھ سوروپے اڑالیے۔
امجددوسرے دن شام کو مسجدمیں جا کر بابا جی کو تین سوروپے دے آیا۔ بقیہ پچاس رو پوں میں دونوں نے کامیاب کوشش میں مٹھائی، آئس کریم اور نہ جانے کیا الا بلا خریدااور ہضم کر گئے۔
۔۔۔۔۔
بابا جی نے امجد کو بتایا کہ اب وہ جادوئی ٹوپی لینے کے لیے جارہے ہیں اور وہ چلے گئے۔ نسیم اور امجد دونوں بڑی بے تابی سے باباجی کا، ایک ایک دن گن کر انتظار کرتے رہے، آخر باباجی آہی گئے، لیکن جب امجدان سے ٹوپی لینے کے لیے پہنچا تو انہوں نے بتا یاکہ ٹوپی جمعرات کو ملے گی۔ دونوں کے ارمانوں پراوس پڑ گئی۔ اس لیے کہ جمعرات ہی سے ان کے ششماہی امتحان شروع ہو رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ٹوپی ملے تو جلدی سے گھر سے اڑائے گئے پیسوں کا حساب پہلے برابر کریں۔ابھی گھروالوں کو چوری کی خبر نہ ہوئی تھی، پھر یہ کہ ٹوپی پہن کر کئی ایک کھانے کی چیزیں اڑائی جا سکتی تھیں مگر ٹوپی تو جمعرات کو ملے گی۔
جمعرات آگئی، دونوں گھر سے تیار ہو کر امتحان دینے کے لیے نکلے، نکڑ پر مسجد کے ساتھ ہی بابا جی کا مکان تھا۔ امجد نے دروازے پر دستک دی۔اندر سے آواز آئی۔”آجاؤ۔“
دونوں اندر چلے گئے۔ بابا جی بیٹھے آنکھیں بند کیے جھوم رہے تھے۔ دونوں ادب سے کھڑے رہے۔
کھڑے کھڑے دس منٹ ہو گئے۔ پرچہ شروع ہونے کا وقت قریب آرہا تھا، آخر امجد نے ہمت کرکے بابا جی کو آواز دی۔
”ہوں۔“ بابا نے گونج دار آوازمیں ”ہوں“ کہہ کر آنکھیں کھول دیں، دونوں کو دیکھ کر پھر آنکھیں بند کرلیں اور بولے:
”بچو! ٹوپی یہ رکھی ہے، لیکن خبرداراسے ساڑھے نو بجے سے پہلے مت پہننا۔“
امجد نے گھڑی دیکھی، نو بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے۔ پرچہ نو بجے شروع ہونے والا تھا۔ بابا جی کی بات پر اسے حیرت تو ہوئی لیکن اس نے سوچا،بھئی پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ اس میں کوئی بات ہوگی۔
”بہت اچھا بابا جی۔“ اس نے ادب سے کہا۔
”اب تم دونوں جاؤ، یاد رکھو، سلیمانی ٹوپی ساڑھے نوبجے ……ایک ہفتہ۔“ بابا جی یہ کہتے ہوئے پھر سے جھومنے لگے۔
دونوں با ہر نکل آئے۔ اسکول پہنچے۔پرچہ شروع ہوا ہی چاہتا تھا۔ دونوں جلدی سے کلاس روم میں جا کر بیٹھ گئے، ذرا دیر میں ماسٹر صاحب آگئے۔
”اپنی اپنی کتابیں۔’کارتوس۔‘ سب کچھ وہاں کونے میں رکھ دو۔“وہ سخت لہجے میں ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے۔
لڑکوں نے ان کے حکم کی تعمیل کی۔ صرف نسیم اور امجد اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔
ماسٹر صاحب نے کا پیاں اور پرچہ تقسیم کیا۔ انگریزی کا پرچہ تھا جس سے امجد اور نسیم کی جان نکلتی تھی۔ لیکن اب کیا ڈر تھا۔ سلیمانی ٹوپی امجد کی جیب میں موجود تھی۔ ٹوپی کا پتہ چونکہ اسی نے لگایا تھا اس لیے پہلا حق اس کا بنتا تھا۔ طے یہ ہوا تھا کہ پہلے گھنٹے میں ٹوپی امجد کے پاس رہے گی۔
تھوڑی دیر یوں ہی بیٹھے رہے، پھر ماسٹر صاحب جوں ہی ذرا باہر گئے۔ نسیم نے امجد کو اشارہ کیا، اس نے جلدی سے کتاب نکال کے نقل شروع کردی، عین اسی وقت ماسٹر صاحب آگئے۔
”ارے اتنی ڈھٹائی سے سامنے نقل کر رہے ہو۔“ ماسٹر صاحب غصے سے امجد کی طرف لپکے۔ امجد کو احساس ہوا کہ وہ سلیمانی ٹوپی پہننا بھول گیا تھا۔ اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور ٹوپی نکال کر پہن لی۔ اس کا خیال یہ تھا کہ ماسٹر صاحب مارے حیرت کے کھڑے کے کھڑے رہ جائیں گے لیکن ماسٹر صاحب تیر کی طرح اس کے قریب پہنچ گئے اور اس کا بازو پکڑ کر قریب کر دیا۔
امجد نے سو چا،میری ڈیسک کے پاس پہنچ کر انہوں نے اندازاً میرا بازو پکڑ لیا ہوگا۔اس نے جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایااور ذرا ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔اس کا خیال تھا کہ اب ماسٹر صاحب مارے خوف کے بھاگ کھڑے ہوں گے، مگر وہ تو دانت پیستے ہوئے آگے بڑھے اور تڑ سے اس کے چانٹا رسید کر دیا۔ تو کیامیں ماسٹر صاحب کو نظر آرہا ہوں۔ اس نے پریشان ہو کر پوچھا۔ پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری۔ ذرا پیچھے ہٹ کر اس نے ماسٹر صاحب کو اپنی دو انگلیاں دکھاتے ہوئے زور سے کہا:
”سر دیکھیے، کچھ نظر آرہا ہے آپ کو، نہیں نظر آرہا نا آپ کو۔“
تمام لڑکے لکھنا بھول کر حیرانی سے منہ پھاڑے اسے تک رہے تھے اور نسیم کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا، ایک رنگ جا رہا تھا۔ ماسٹر صاحب کا غصہ اب حیرت میں بدل چکاتھا، وہ پریشانی اور تعجب کے ملے جلے لہجے میں بولے:
”امجد کیا ہوگیا ہے تمہیں!: پیپر دینے آئے ہو یا تماشہ دکھانے……؟ ایک تو بھری کلاس میں کھلے عام نقل کر رہے ہو، منع کرتا ہوں تو یہ بوسیدہ سی ٹوپی پہن کر مکالمے بول رہے ہو،تمہارا ذہنی توازن تو درست ہے۔“
”سر آپ سمجھ نہیں سکتے۔“ امجد اب بھی پر امید تھا۔”میں آپ کو نظر آ رہا ہوں؟ نہیں نظر آ سکتا،یہ صرف سلیمانی ٹوپی کی برکت ہے۔“
ماسٹر صاحب آگے بڑھے اور انھوں امجد نے دونوں کندھے پکڑ کر زورسے دو تین جھٹکے دیے اور کہا:
”بے وقوف تم ہوش میں ہو یا نہیں؟“
اورساتھ ہی انہوں نے امجد کے سر سے ’سلیمانی ٹوپی‘ اتار کر پھینک دی۔
امجد کو ایک دم جیسے ہوش آگیا۔اسے احساس ہو گیا تھا کہ ٹوپی تو بس فراڈ نکلی……بالکل عام سی ٹوپی تھی۔بد معاش بابا نے تین سو روپے اینٹھ لیے تھے۔
وہ ٹوپی اٹھائے ہوئے سرجھکائے شر مندگی سے اپنی ڈیسک پر آکربیٹھ گیا۔ ماسٹر صاحب نے اس سے ساری تفصیل پوچھی۔ا س کے بجائے نسیم نے سارا حال کہہ سنایا۔ پورا واقعہ سننے کے بعد ماسٹر صاحب بولے:
”تم دونوں بالکل احمق ہو۔ خود ہی سوچو،اگروہ بابا ایسی ٹوپی یادیگر جادوئی اشیاء کا مالک ہوتا تو سب سے پہلے خودان سے فائدہ نہ اٹھاتا؟ خیر! اب تم دونوں پڑھائی میں دل لگاؤ، ٹوپیوں کا خیال چھوڑ دو، ٹوپی صرف نماز اور قرآن مجید پڑھتے وقت پہنا کرو، سادہ ٹوپی سلیمانی نہیں۔
چلو بچو!تم اپنا پرچہ حل کرو۔خواہ مخواہ پندرہ منٹ ضائع ہوگئے۔ خیر تمہیں پندرہ منٹ زائد مل جائیں گے۔“
پرچہ ختم ہواتو د ونوں، افسردہ دلوں کے ساتھ سر جھکائے اسکول سے نکلے، نکڑ پر بابا کا مکان تھا۔ دروازے پر موٹاساتالا جھوم رہا تھا۔
امجد نے برابر والی پان کی دکان پر بیٹھے شخص سے پو چھا۔”شرفو بابا نہیں ہے؟“
”ارے کون شرفو، وہ تو کب کا چلا گیا یہاں سے بوریا بستر سمیٹ کر، ساڑھے نو کی ٹرین سے، کہہ رہا تھا کہ پشاور جا رہا ہوں۔“ پان والے نے بتایا۔
نسیم اور امجدنے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر بے بسی سے نظریں جھکالیں۔ اور امجد نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی’سلیمانی ٹوپی‘ پاس کے گندے نالے میں پھینک دی۔