skip to Main Content

سفید گیند

سید بلال پاشا

۔۔۔۔۔

وسیع و عریض لان میںبچھی گھاس اتنی سبز تھی کہ پہلی نظر میں مصنوعی لگتی تھی۔۔۔ اور نرم و گداز اتنی کہ پاؤں اندر دھنستے محسوس ہوتے۔۔۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈک یوں فرحت بخش رہی تھی کہ چندلمحوں کے لیے دل و دماغ پر بے خودی سی طاری ہونے لگتی تھی۔۔۔گل بوٹوں سے آراستہ یہ لان شجاعت صاحب کے بنگلے کا تھا۔
بڑے سے لان میں گھاس پر نہایت سلیقے سے بیس گول میزیں رکھی ہوئی تھیں۔ ہر میز کے گرد پانچ خوبصورت کرسیاں تھیں۔ کرسیوں اور میزوں کوسنہرے رنگ کے صاف ستھرے پوشوں سے ڈھانپا گیا تھا۔ میزوں کے نیچے لگے بلب میز پوشوں کو مزید سنہرا کررہے تھے۔
شجاعت صاحب کا لخت جگر علی دودن قبل ہی ڈاکٹر علی بن کر برطانیہ سے لوٹا تھا۔آج اِسی خوشی میں ایک شاندار دعوت کا اہتمام تھا۔ شجاعت صاحب بہت دین دار شخص تھے۔۔۔ مال و دولت کی فراوانی نے ان میں اکڑ پیدا کرنے کی بجائے عجزو انکسار پیدا کر دیا تھا۔۔۔ ان کی شرافت کی مثالیں دی جاتی تھیں۔۔۔ان کے کاروباری تعلقات ملک بھر کے اونچے اونچے طبقے کے لوگوں سے تھے۔۔۔ سو کچھ دیر بعد ہی کرسیاں ملک کے مایہ ناز سیاستدانوںاور تاجر وں سے پُر ہونے لگیں۔
علی میاں بھی اپنے دوستوں کے ساتھ ایک کرسی پر بڑے شاہانہ انداز میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آج کی محفل کے دولہا وہی تو تھے۔ تمام حاضرین تک آواز پہنچانے کے لیے زبردست ساؤنڈ سسٹم کا انتظام کیا گیا تھا۔چند لمحوں بعد شجاعت صاحب پر وقار انداز میں چلتے ہوئے لان میں آئے۔محفل شروع ہو چکی تھی۔ شجاعت صاحب کرسی پر بیٹھنے کی بجائے مائک کی جانب بڑھ گئے۔
ایک ملازم نے مستعدی سے مائک اسٹینڈ سے نکال کر انہیں پیش کر دیا۔۔۔وہ مائک ہاتھ میں تھامے لوگوں کے سامنے آگئے۔

٭…٭

دروازہ دھڑام کی آواز سے کھلا اور زوردار انداز میں دیوار سے ٹکرایا۔ساتھ ہی علی میاں دھواں دھار انداز میں روتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔
’’ارے کک کیا ہوہوا میرے بچے کو۔۔۔ایسے۔۔۔ ایسے کیوں رورہے ہو؟‘‘
بیگم شجاعت بری طرح پریشان ہوگئیں۔
’’مم۔۔۔مجھے وہ گیند چاہیے۔۔۔سفید گیند۔۔۔باہر لڑکے جس سے کھیل رہے ہیں۔۔۔‘‘
علی میاں نے بڑی مشکل سے آنسوؤں کا بند باندھ کر سسکتے ہوئے کہا۔۔۔اور پھر سے دھاڑیں مار کررونا شروع کر دیا۔
’’افوہ۔۔۔بیٹا اِس میں رونے کی کیا بات ہے۔۔۔ابھی منگوا دیتی ہوں۔۔۔بھلاکیا مشکل ہے…‘‘
بیگم شجاعت رونے کی وجہ نہ سمجھ سکیں۔یہ سنتے ہی علی میاں یوں خاموش ہو گئے جیسے رونا جانتے ہی نہ ہوں۔۔۔ منھ ہونقوں کی طرح کھلا ہوا تھا۔۔۔شاید وہ بھی یہ سوچ رہے تھے کہ بھلا اَس میں رونے کی بات ہی کیا تھی۔ گھر میں پیسے کی کمی تھی نہ ہی محبت کی کہ انہیں اپنی خواہش کے ٹھکرائے جانے کا خدشہ ہوتا۔
بیگم شجاعت نے فورا ًہی خان بابا کو بازار بھگایااور حکم دیا کہ جاتے جاتے باہر کھیلتے بچوں کی گیند ضرور دیکھتے جائیں۔۔۔بالکل ویسی ہی گیند آنی چاہیے ہمارے شہزادے کے لیے۔
خان بابا نے گیند دیکھی تو وہ واقعی بہت خوبصورت تھی۔۔۔ سفید رنگ اور اُس کے اوپر بہتی آبشار کے نقش و نگار۔
خان بابا نے بازار چھان مارا۔۔۔لیکن علی میاں کی قسمت۔۔۔ گیند کو ملنا تھا، نہ ملی۔۔۔ جب خان بابا گیند کی بجائے یہ خبر لے کر گھر آئے تو بس۔۔۔علی میاں کی بھاںبھاں اب کسی کے قابو میں نہیں آتی تھی۔۔۔ حالاں کہ وہ ضدی بچہ نہیں تھا۔۔۔ لیکن آج اسے کیا ہوگیا تھا؟
بیگم شجاعت کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔۔۔ انھوں نے شجاعت صاحب کو فون کر دیا۔۔۔ وہ بھاگے بھاگے آئے تو علی میاں کا رونا دھونا دیکھ کروہ بھی گھبرا گئے۔
علی میاں کسی چیز سے بہل ہی نہیں رہے تھے۔۔ ۔اگر کچھ دیر کے لیے چپ ہوتے توگیند کا خیال آ جاتا بس پھر سے بھاں بھاں کی آواز کے ساتھ آنسوؤں کا سیلاب امڈ آتا۔
شجاعت صاحب سے علی میاں کی یہ حالت دیکھی نہیں جارہی تھی لہٰذا انھوں نے اپنی تکان کو پسِ پشت ڈالا اوراپنے شہزادے کو لیے بازار نکل پڑے۔۔۔اور پھریہ ہوتا رہا کہ ہر دکاندار کا سرنفی میں ہلتا اور علی میاں کا باجا بجنے لگتا۔۔۔یوں ساری دکانیں چھان مارنے کے بعد علی میاں بس اپنی سریلی آوازیں لے کر ہی واپس آئے۔۔۔انہیں کچھ کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا۔۔۔بس سفید گیند کا نام ہوتا۔۔۔اور پھر ایک لمبے دورانیے کا رونا۔۔۔ دودن یونہی گزر گئے۔۔۔روتے دھوتے اور بھوک ہڑتال کرتے۔۔۔آخر کار لاکھ منت سماجت اور کھلونوں کے ذریعے ان کے دل سے سفید گیند کے خیال کو بھٹکایا گیا۔

٭…٭

’’میں کچھ زیادہ نہیں کہنا چاہتا۔۔۔بس اپنے بیٹے کوآج ایک تحفہ دینا چاہوں گا۔‘‘
شجاعت صاحب بڑے ٹھہرے ٹھہرے انداز میں بولے۔ ان کے یہ کہتے ہی ایک خادم مؤدبانہ انداز میں آگے بڑھااور ایک چھوٹا سا خوبصورت بیگ کھول کر اُن کے سامنے کر دیا۔ شجاعت صاحب نے اپنا ہاتھ اس میں ڈال کر نکالا۔ ان کے ہاتھ میں ایک گیند تھی۔۔۔سفید گیند۔۔۔جس کے اوپر بہتی آبشار کے نقش و نگار تھے۔
’’ لوبیٹا!۔۔۔تمھاری دِل پسند گیند۔۔۔تمھیں کِس قدر پسند تھی نایہ؟‘‘
شجاعت صاحب کا لہجہ محبت سے بھرپور تھا۔ اِدھر علی میاں کے چہرے پر ایک رنگ آتا تھا تو دوسرا جاتا تھا۔۔۔ شرم کے مارے ان کا چہرہ سرخ ہونے لگا۔
’’بابا!۔۔۔آپ مجھے سب کے سامنے شرمندہ کیوں کر رہے ہیں؟ بھلا یہ گیند میرے کِس کام کی۔۔۔وہ تو بچپن کی ایک ضد تھی۔۔۔اب تو مجھے اِ س کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
آخر علی میاں بول ہی پڑے۔ ان کے لہجے میں شکوہ بھرا تھا۔
’’بیٹا! میرا مقصد تمھیں شرمندہ کرنا نہیں تھا۔۔۔بس ایک بات سمجھانا چاہتا تھا۔۔۔ کہ کبھی بھی دل میں ایسی چیز کی محبت نہ پالنا کہ اگر کچھ عرصہ بعد وہ تمھیں مل جائے تو شرمندہ ہونا پڑے۔۔۔ کچھ ہی عرصہ پہلے جیسے یہ گیند تمھارے لیے دو جہاں کے خزانے سے بڑھ کر تھی۔۔۔لیکن آج تم اس کے ملنے پر شرمندہ ہو رہے ہو۔۔۔ ایسے ہی اگر آج دنیا میں دل کے اندرمال و دولت اور شہرت کی محبت رکھو گے۔۔۔تو سوچ لو کہیںروزِ محشر اِس محبت کے کھلنے پررسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑ جائے۔۔۔ اس روگ اور محبت کو دِل میں جگہ دینا جو آیندہ کبھی بھی شرمندہ نہ کرے۔۔۔اور وہ محبت صرف اللہ کی محبت ہی ہے۔‘‘
شجاعت صاحب خاموش ہوئے تو علی میاں ان کو تشکر آمیز نگاہوںسے دیکھنے لگے۔۔۔یعنی وہ اِن باتوں سے متفق تھے۔۔۔ سامنے بیٹھے سب لوگوں کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں۔۔۔شاید وہ اپنے دلوں میں رچی محبتوں کوٹٹول رہے تھے۔
نوٹ: یہ غالبا ہندوستان کے کسی بزرگ کا،جن کا نام میں بھول رہا ہوں، حقیقی واقعہ ہے ، جسے کہانی میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

٭…٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top