صبح کا ستارہ
فریال یاور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اس سرخ رنگت والے جرنیل نے اپنے سپاہیوں کا عزم و حوصلہ دیکھا تو حکم دیا کہ وہ سب جہاز جن میں سوار ہوکر ہم یہاں پہنچے ہیں،انہیں آگ لگا دی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اونچے اونچے پہاڑوں کے درمیان گزرتی سمندری پٹی (آبناے) کے گہرے نیلے پانی کو چار دیو ہیکل جہاز چیرتے ہوئے آگے پیچھے رواں دواں ہیں۔ اردگرد سرسبز و شاداب ساحل۔ چمکتا نیلا آسمان۔ خوشگوار آب وہوا۔ قدرت کا بے حد حسین نظارہ ہے۔ مگر ان چار دیوہیکل جہازوں میں سفر کرنے والے تمام لوگ ان مناظر سے لاتعلق اپنے مقصد کی جانب رواں دواں ہیں۔
وہ مقصد جوہر مسلمان کا مقصد حیات ہے۔ ﷲ کے دین کی سربلندی اور مظلوم و بے بس لوگوں کی مدد۔ انہی چار جہازوں میں سے ایک سمندری جہاز میں ایک سرخ رنگت اور گہرے سرخ بالوں والا ایک نوجوان۔ جس کا چہرہ اس کے عزم و ہمت کی گواہی دے رہا ہے ،محو سفر ہے۔
کئی دنوں کے سفر کے بعد یہ جہاز ساحل پر لنگر انداز ہوئے اور تمام فوجی ساحل پر اترگئے۔ سرخ رنگت والے اس سپہ سالار نے اپنی فوج سے خطاب کیا اور کہا: ’’ابھی وقت ہے تم میں سے ہر ایک شخص اچھی طرح غور و فکر کرلے اور فیصلہ کرلے۔ میں تم پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ کوئی معمولی مہم نہیں ہے۔ ہم یہاں اجنبی ہیں۔ یہ سرزمین ہمارے لیے اجنبی ہے۔ ہم راستوں تک سے واقف نہیں۔ ہر طرح کی مشکلات ہمارے راستے میں موجود ہیں۔ ہماری تعداد کم ہے جبکہ عیسائی ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ ہمارے ساز و سامان بھی کم ہیں۔ میں تم میں سے کسی پر حکم چلانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ اچھی طرح سوچ لو اور فیصلہ کر لو۔ تم میں سے جو واپس جانا چاہے وہ جا سکتا ہے۔‘‘
مگر جس عزم و ہمت کا مالک سپہ سالار تھا۔ فوج کے سپاہی بھی ویسے ہی مضبوط ارادے کے مالک تھے۔ ان میں سے ایک شخص بھی واپس جانے پر آمادہ نہ ہوا۔ ہر شخص اسلام کے نام پر اپنی جان قربان کرنے کو تیار تھا۔ جب اس سرخ رنگت والے جرنیل نے اپنے سپاہیوں کا عزم و حوصلہ دیکھا تو حکم دیا کہ وہ سب جہاز جن میں سوار ہوکر ہم یہاں پہنچے ہیں،انہیں آگ لگا دی جائے۔ حکم کی فوراً تعمیل کی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ دیوہیکل جہاز جل کر سمندر میں غرق ہوگئے۔ بظاہر سپہ سالار کی یہ حرکت بہت ہی عجیب و غریب معلوم ہوتی ہے لیکن اگر تھوڑا بھی غور کیا جائے تو انتہائی بہادری اور سپہ سالار کی قابلیت کا پتا دیتی ہے۔ اس کے بعد اس سپہ سالار نے اپنے سپاہیوں کو مخاطب کرکے کہا: ’’آگے دشمن ہے اور تمہارے پیچھے سمندر ہے۔ پیچھے ہٹنے کی صورت میں رسوائی ہے اور سمندر کی خوراک بننا ہے اور پیٹھ موڑنے کی صورت میں آئندہ مسلمان بھی برے لفظوں سے یاد کریں گے۔ لہٰذا آگے بڑھ کر دشمن سے پوری جرات سے مقابلہ کریں اور فتح یا شہادت حاصل کر لیں۔‘‘
سرخ چہرے، سرخ بالوں اور پہاڑوں جیسے بلند حوصلے و ہمت کا پیکر امت مسلمہ کا یہ عظیم جرنیل ’’فاتح اندلس‘‘ طارق بن زیاد ہے۔ ’’طارق‘‘ صبح کے ستارے کو کہتے ہیں۔ جو صبح کی سب سے پہلی علامت کے طور پر طلوع ہوتا ہے۔ اس کے بعد سحر کا اجالا ہر طرف پھیل جاتا ہے۔ طارق بن زیاد بھی اپنے نام کے مثل صبح کے ستارے کی طرح اندلس کی تاریکی میں نمودار ہوئے اور پورے اندلس میں اسلام کی روشنی صدیوں کے لیے منور کردی۔
طارق بن زیاد کے ابتدائی حالات کے بارے میں تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ دیندار نسل سے تعلق رکھتے تھے اور کئی پشتوں سے شمالی افریقہ کے اس علاقے میں آباد چلے آرہے تھے۔ جو بربر کہلاتا ہے۔ بربر نسل کے افراد بہت سرکش، ضدی اور خوں خوار تھے۔ وہ کسی پیشے سے وابستہ نہ تھے۔ ان کی زندگیاں لوٹ مار کرتے بسر ہوتیں۔ بربری قوم کا مزاج بہت حد تک عربوں سے ملتا جلتا تھا۔ وہ خاص خاص علاقوں میں خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے۔ عربوں کی طرح انہیں بھی کبھی غلامی کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں پہلی مرتبہ افریقہ میں اسلام کی تبلیغ کا آغاز ہوا اور آگے بڑھتا گیا۔ جب شمالی افریقہ میں مسلمان اسلام کی دعوت لے کر آئے تو دیگر اقوام کی طرح بربروں نے بھی اسلام کی مخالفت کی۔ بربر کے لوگوں اور مسلمانوں کے درمیان کئی لڑائیاں ہوئیں۔ کئی معرکے ہوئے۔ جن میں طارق بن زیاد نے بھی مسلمانوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا۔
مگر مسلمانوں کے جذبہ جہاد کے آگے بربر فوجیں شکست کھاتی چلی گئیں اور ایسے ہی ایک معرکے میں طارق بن زیاد قیدی بنالیے گئے۔ اس دور کے دستور کے مطابق طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیر کی غلامی میں آئے جو اس وقت افریقہ کے گورنر تھے۔ وہ خود بھی ایک بہت بڑے فاتح، جرنیل اور بہادر انسان تھے۔ ساتھ ہی نہایت عقل مند بھی۔ طارق بن زیاد نے فاتح لوگوں کے مظالم کی داستانیں سنی تھیں لیکن موسیٰ بن نصیر نے اسلام کی تعلیمات کے مطابق نہ صرف ان کے ساتھ حسن سلوک کیا بلکہ ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کیا۔ ان کو اچھے اساتذہ کے سپرد کیا۔ چونکہ موسیٰ بن نصیر بہت دانش مند تھے۔ اس لیے انہوں نے جلد ہی طارق بن زیاد کی عادات سے اندازہ لگا لیا کہ وہ نہ صرف شکل و صورت بلکہ عزم و ہمت میں بھی دوسروں سے بالکل الگ ہیں۔ طارق بن زیاد کا ظاہری حلیہ عام بربروں سے بالکل مختلف تھا۔ رنگت سرخ اور سر کے بال گہرے سرخ رنگ کے تھے۔ طارق بن زیاد کی بہادری کو دیکھتے ہوئے موسیٰ بن نصیر نے انہیں جنگی فنون سکھانے کے لیے بھی ماہر اساتذہ کے حوالے کیا اور خود بھی بطور خاص توجہ دی۔
طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیر کے اعلا اخلاق سے بے حد متاثر ہوئے۔ ساتھ ہی مسلمانوں کی عادات و اطوار اوراخلاق کو سیکھا اور غور وفکر کیا۔ پھر ایک دن سچے دل سے اسلام قبول کرلیا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد ﷲ تعالیٰ نے ان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ وہ اسلامی فوج میں ایک معمولی درجے سے ترقی کرتے کرتے بلند مرتبے تک پہنچے۔ اﷲتعالیٰ نے بہادری کے ساتھ ساتھ ان میں انتظامی صلاحیت اور حکمرانی کرنے کی خوبی بھی رکھی تھی۔
شمالی افریقہ میں اسلامی حکومت قائم ہوجانے کے بعد موسیٰ بن نصیر کی خواہش تھی کہ یورپ میں بھی اسلام کی روشنی پھیلائی جائے اور یورپ میں داخل ہونے کے لیے قریب ترین راستہ اندلس (اسپین) سے تھا۔ جس کی حالت ان دنوں بہت شرمناک اور بری تھی۔ یہاں کا بادشاہ راڈرک بہت ظالم اور بدکردار تھا۔ چند لوگ صاحب ثروت تھے اور عوام کی اکثریت غریب اور نادار تھی۔ امیروں کا سارا بوجھ غریبوں پر ڈال دیا گیا تھا۔ لوٹ مار عام تھی، کسی کی عزت محفوظ نہ تھی۔ اس وقت کے بادشاہ راڈرک کا بھی ایسا ہی حال تھا۔وہ لڑکوں، لڑکیوں کو ملکہ کے زیرتربیت رکھ کر ان پر ظلم کرتا تھا۔
بیاسی ۸۲ برس کے اس بوڑھے بادشاہ نے ایک یونانی سردار جولین کی بیٹی فلورنڈاکو اپنے محل میں قید کرکے اس پر ظلم کیا۔ فلورنڈا نے خفیہ طور پر اس ظلم کی داستان اپنے والد تک پہنچا دی۔ جولین اپنی بیٹی فلورنڈا کی بیماری کا بہانہ کرکے اس سے ملنے محل آیا اور اپنی بیٹی کو بھگا کر لے گیا۔ جولین اپنی بیٹی کو بچا کر تو لے گیا تھا مگر وہ اب راڈرک کو سبق سکھانا چاہتا تھا۔ ایسے میں اسے موسیٰ بن نصیر کا خیال آیا جو افریقہ کے گورنر تھے۔
جولین نے بادشاہ کے مظالم اور اپنی بیٹی کے ساتھ ہونے والا تمام ماجرا موسیٰ بن نصیر کو سنا کر مدد چاہی اور ساتھ ہی اپنے بحری جہاز دینے اور ہر قسم کی حمایت کا یقین دلایا۔ موسیٰ بن نصیر نے جولین کی مدد کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد موسیٰ بن نصیر نے اس وقت کے خلیفہ ولید بن عبدالملک سے اسپین پر حملہ کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر موسیٰ بن نصیر نے سات ہزار انتہائی بہادر اور دلیر سپاہی منتخب کیے جو کہ تمام بربر تھے اور طارق بن زیاد کو ان کا سپہ سالار منتخب کیا۔ مگر اس دستے کو روانہ کرنے سے پہلے اپنے اطمینان اور جولین کے قول کی سچائی جاننے کے لیے موسی ٰ بن نصیر نے ایک مختصر دستہ اسپین روانہ کیا جو معمولی سی چھیڑ چھاڑ کے بعد واپس آگیا۔ جب موسیٰ بن نصیر کو اطمینان ہوگیا تو انہوں نے طارق بن زیاد کو مہم پر روانہ کیا جو اس وقت ایک بہترین جرنیل اور سپاہی تھے۔ طارق بن زیاد نے جس پہاڑ پر پڑاؤ ڈالا اس کا نام لائنز راک (Lions Rock) تھا جس کا نام بعد میں طارق بن زیاد کے نام پر جبل طارق ہوا اور پھر بگڑ کر جبرالٹر کہلایا۔
جس وقت طارق بن زیاد نے اپنا لشکر اسپین کے ساحل پر اتارا۔ اتفاق سے راڈرک کا ایک بہترین سپہ سالار تھیوڈومیر وہاں موجود تھا۔ اس نے فوری طور پر طارق بن زیاد کی فوج پر حملہ کر دیا۔ جو اس وقت پوری طرح سنبھلنے بھی نہ پائی تھی مگر اس کے باوجود سپاہی بالکل نہیں گھبرائے اور بھرپور مقابلہ کرکے تھیوڈومیر کو بھاگنے پر مجبور کردیا۔ اس کے سپاہیوں کا دور تک مقابلہ کیا۔ بیشتر ساتھیوں کا کام تمام کردیا۔ تھیوڈو میر جو مسلمانوں سے قطعی ناواقف تھا۔ بادشاہ راڈرک کو جا کر خبر دی: ’’ہمارے ملک پر ایسے آدمیوں نے حملہ کر دیا ہے کہ نہ ان کا وطن معلوم ہے نہ اصلیت۔ یہ کہاں سے آئے ہیں۔ زمین سے نکلے ہیں یا آسمان سے اترے ہیں۔‘‘
راڈرک کو خبر ملی تو خزانے کے منھ کھول دیے اور پوری شان و شوکت کے ساتھ عالی شان تخت پر سوار ہو کر جنگ کے لیے نکلا اور بیس دن سفر کے بعد طارق بن زیاد اور راڈرک کا آمنا سامنا ہوا۔ ادھر طارق بن زیاد نے تھیوڈمیر سے فارغ ہونے کے بعد دیگر شہروں کی فتوحات کرنی شروع کیں اور الجزائر تک پہنچ گیا۔ ساتھ ہی تیز رفتارقاصد کو موسیٰ بن نصیر کی طرف روانہ کیا اور مزید کمک طلب کی۔ موسیٰ بن نصیر نے فوری طور پر پانچ ہزار فوجی روانہ کیے جو راڈرک کی آمد سے پہلے طارق کی فوج میں شامل ہوگئے ۔اس طرح طارق بن زیاد کی فوج اب سات ہزار ہوگئی مگر یہ اب بھی ایک لاکھ کے مقابلہ میں بہت کم تھی۔ راڈرک کی فوج ہر قسم کے جنگی ساز و سامان سے لیس تھی۔ ان کے ہر سپاہی کے پاس لوہے کی ’’خود‘‘ تھی۔ جبکہ طارق بن زیاد کے سپاہیوں کے پاس ہتھیار بھی مکمل نہ تھے۔ راڈرک کی فوج میں گھوڑے بھی کا فی تعداد میں تھے۔
9جولائی 711ء تاریخ کا اہم دن، جھیل لاجنڈا کے سامنے دونوں فوجیں آمنے سامنے تھیں۔ لڑائی کے آغاز سے قبل طارق نے ﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور مسلمانوں کی فتح کے لیے گڑگڑا کر دعا کی۔ پھر مسلمانوں کو اپنے اس خواب کی یاد دلائی جس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فتح کی نوید سنائی تھی۔
لڑائی کا آغاز ہوا اور میدان جنگ نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا۔ سارا دن لڑائی ہوتی رہی۔ شام ہونے پر رواج کے مطابق جنگ روک دی گئی۔ اس طرح مسلسل ساتویں دن تک لڑائی جاری رہی مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ آٹھویں دن سورج طلوع ہوا توطارق بن زیاد نے بے اختیار کہا: ’’آج ہم جیتیں گے۔ ساتھیو! آج ان شاء اﷲ ہماری فتح کا دن ہے۔‘‘
لڑائی شروع ہوئی اور میدان جنگ نعرہ تکبیر سے گونج اٹھا۔ طارق بن زیاد نے فوجی چال چلی اور اپنے خاص دستے کو لے کر مرکزی میدان میں پہنچا۔ جہاں راڈرک اپنی شان بان سے بیٹھا تھا۔ اسپینی فوج دیوار کی طرح حائل ہوئی مگر طارق بن زیاد اپنے ساتھیوں کی مدد سے انسانوں کی اس دیوار کو گراکے راڈرک کے قریب جا پہنچے اور اپنا نیزہ ہوا میں لہرا کر راڈرک کے جسم کے پار کردیا۔ ریشمی زر و جواہر سے چمکتا لباس راڈرک کے خون سے سرخ ہو گیا اور اس کی لاش زمین پر آگری۔
اسپینی فوج نے اپنے بادشاہ کا انجام دیکھ کر بے تحاشا بھاگنا شروع کردیا۔ مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا اور ان کا بھی کام تمام کیا۔ اس جنگ میں اندازاً پچاس ہزار عیسائی سپاہی ہلاک ہوئے اور تیس ہزار کو مسلمانوں نے قیدی بنایا۔ باقی بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ بے تحاشہ مال و غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔ ہزاروں کی تعداد میں ایسی تلواریں تھیں۔ جن کے دستے سونے کے تھے۔ اس کے علاوہ بے شمار اشیاء اور زر و جواہر تھے۔ اسلامی لشکر کو خوراک کا مسئلہ درپیش تھا تو اناج کی صورت میں وہ بھی پورا ہوگیا۔
اس لڑائی کے بعد مسلمانوں کے لیے راستہ صاف ہو گیا۔ وہ بڑھتے گئے اور علاقے فتح کرتے گئے۔ اسی دوران طارق کو موسیٰ بن نصیر کا پیغام موصول ہوا کہ جنگ روک دو، آگے نہ بڑھو۔ طارق کے لیے ایسا کرنا ناممکن تھا کیونکہ اسلامی فوج میں موجود دیگر افسران فوج اور خود طارق بن زیاد کا خیال تھا کہ مسلمانوں کی جو دھاک عیسائیوں پر بیٹھی ہے۔ جنگ روکنے سے وہ یہ خیال کریں گے کہ مسلمان اب تھک گئے ہیں اس کے ساتھ ہی وہ متحد ہو کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذا فوج کے مشورے اور کچھ حد تک دباؤ کے باعث طارق بن زیاد نے فوج کے تین حصے کیے۔ ایک قرطبہ دوسرا ملاگا اور تیسرا اپنے ساتھ اسپین کے دارالحکومت تولیدو (طلیطلہ) کی طرف روانہ ہوئے۔ ملاگا میں مسلمانوں کو فتح ہوئی۔
فوج کا دوسرا حصہ جو قرطبہ کی طرف گیا تھا۔ وہاں کے عیسائیوں نے قلعہ بند ہو کر اپنی حفاظت کرنی چاہی مسلمانوں نے انہیں جزیہ دینے پر معاف کرنے کا وعدہ کیا مگر انہوں نے پیشکش رد کر دی تو چند دن انتظار کے بعد قلعے پر حملہ کر دیا اور انتہائی مضبوط قلعے کو باآسانی فتح کر لیا۔ طارق بن زیاد اسپین کے دارالخلافہ طلیطلہ کی جانب بڑھے تو ہر راستہ ویران تھا۔ مقامی عیسائی مسلمانوں کے خوف کے باعث بھاگ چکے تھے۔ جب طارق بن زیاد طلیطلہ پہنچے تو زید اور مغیث مالاگا اور قرطبہ فتح کرکے وہاں پہنچ چکے تھے۔
یہاں ایک زبردست خونریز جنگ کے بعد مسلمانوں نے قبضہ کر لیا اور ہزاروں عیسائی مارے گئے۔ اسپین کا وسیع علاقہ اب مسلمانو ں کے پاس تھا۔ اس عرصہ میں موسیٰ بن نصیر بھی اسپین پہنچ گئے۔ انہوں نے مغرب کی جانب سے یلغار کی اور اشبیلہ اور کئی دوسرے شہر فتح کرلیے۔ ایک طرف سے موسیٰ بن نصیر اور دوسری طرف سے طارق بن زیاد علاقے فتح کرتے ہوئے اس کوہستانی سلسلے تک پہنچ گئے۔ جو فرانس کی جانب پھیلا ہوا ہے۔ طارق بن زیاد نے اس کوہستانی علاقے کو بھی فتح کرلیا۔ اسپین کے شہر طلاور میں طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر کی ملاقات ہوئی۔
موسیٰ بن نصیر، طارق بن زیاد سے حکم عدولی کے سبب ناراض تھے اور وجہ صحیح بھی تھی کہ امیر کی اطاعت اور تنظیم پر اسلام میں بہت زور دیا گیا ہے۔ اسلام میں چھوٹے بڑے کا امتیاز بھی نہیں ہے۔ لہٰذا ایک سپہ سالار کو بھی معاف نہیں کیا گیا اور طارق بن زیاد کو موسیٰ بن نصیر نے سپہ سالاری سے ہٹا دیا اور حراست میں لے لیا لیکن طارق بن زیاد نے اس سزا کو بخوشی قبول کیا اور اپنی غلطی تسلیم کی۔
موسیٰ بن نصیر نے طارق بن زیاد کو چند دن قید میں رکھنے کے بعد سخت تنبیہہ کر کے چھوڑ دیا۔ بعد میں موسیٰ بن نصیر نے طارق کو ایک زبردست فوج دے کر روانہ کیا کہ اسپین کی فتح کے بعد اب یورپ کو فتح کرنے کی اجازت دی جائے مگر فتوحات کا یہ سلسلہ خلیفہ کے جواب سے رک گیا۔ خلیفہ ولید بن عبدالملک کی طرف سے پیغام آیا کہ موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد دونوں رہنما جلد از جلد دارالخلافہ دمشق پہنچ جائیں۔ دمشق واپس پہنچ کر موسیٰ اور طارق بن زیاد کی عسکری زندگی کا خاتمہ ہوگیا۔ اگر طارق و موسیٰ دربار دمشق کی ’’غیر دانش مندانہ‘‘ مداخلت سے آزاد رہتے تو نہ صرف اندلس کی تاریخ مختلف ہوتی بلکہ یورپ آج اسلامی دنیا کا حصہ ہوتا۔ تاریخ میں ان کا ذکر ان کی شجاعت اور فتوحات کے لیے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔
*۔۔۔*