skip to Main Content

صبح کا بھولا

ڈاکٹر یونس جاوید
۔۔۔۔۔

گھر سے اسکول جاتے جاتے اچانک حامد کے دل میں خیال آیا کہ آج چھٹی ہی کیوں نہ کی جائے۔ تمام دن سڑکوں پر گھوما پھرا جائے۔ باغ کی سیر کی جائے۔ تتلیاں پکڑی جائیں اور درختوں کے نیچے بیٹھ کر ٹھنڈی چھاؤں اور مزے دار کہانیوں کا لطف اٹھایا جائے۔ شاید یہ بات اس لئے اس کے دل میں آگئی تھی کہ آسمان پر اُجلے اُجلے بادل چھائے ہوئے تھے۔ شروع گرمیوں کا موسم تھا اور گھر سے نکلتے ہی جو ٹھنڈی خوشگوار ہوا حامد کے سینے میں بھری تو اس نے اسکول جانے کا پروگرام ملتوی کر دیا۔
’’گھر والوں کو پتا نہ چل جائے۔ ‘‘اس کے دل میں خیال آیا۔
’’لو… بھلا گھر والوں کو کس طرح علم ہو سکتا ہے۔ میں گھر عین وقت پر جاؤں گا جس طرح ہر روز اسکول سے واپس جاتا ہوں۔‘‘ حامد نے اپنے دل میں آئے ہوئے خیال کو جھٹک دیا اور اسکول جانے والے راستے سے ہٹ کر دوسری سڑک پر ہولیا۔
یہ سڑک ایک باغ میں جانکلتی تھی۔ باغ کے بالکل ساتھ چڑیا گھر بھی تھا، جس میں مور، راج ہنس، شیر، چیتا، ریچھ، ہرن وغیر ہ تھے مگر حامد کا خیال تھا کہ پہلے باغ کی سیر کی جائے۔ سو وہ تیز تیز چلتا ہوا باغ میں آگیا۔ اسے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ باغ میں اس وقت رونق یا بھیڑ نہیں ہے۔ اس کا خیال تھا کہ میری طرح بہت سے اور لڑکے بھی اسکول سے بھاگ کر آئے ہوں گے۔ مگر یہاں تو باغ کے مالیوں کے سوا اور کوئی تھا ہی نہیں ۔وہ کچھ سوچتا ہوا ایک پہاڑی پر چڑھ گیا اور ایک کونے میں رکھے ہوئے خوبصورت بینچ پر آ بیٹھا۔ یہاں تک آتے ہوئے وہ تھک سا گیا اور ابھی تک خاک بھی لطف نہ آیا تھا۔ بستہ زمین پر رکھ کر وہ بینچ پر لیٹ جانا چاہتا تھا کہ اسے دو تین رنگ برنگی تتلیاں نظر آئیں۔ اس کا دل باغ باغ ہو گیا۔ کتنی خوبصورت ہیں یہ تتلیاں، ادھر سے ادھر اڑ رہی تھیں۔ جب حامد ان کے قریب پہنچتا تو وہ پھر سے اُڑ کر دُور جا بیٹھتیں۔ اس بھاگ دوڑ میں وہ پہاڑی کے دوسرے کنارے تک چلا گیا۔ یہاں تین چار تتلیاں ایک ساتھ بیٹھی تھیں۔ اس نے رومال پھینک کر دو پکڑ لیں۔ انہیں رومال میں باندھ لیا۔ باقی اُڑ کر نیچے کی طرف جارہی تھیں اور وہ ان کے پیچھے پیچھے دُور تک چلا گیا اور بڑی تگ و دو کے بعد ایک تتلی اور پکڑ سکا۔ وہ اس وقت تھکن محسوس کر رہا تھا۔ وہ تتلی کو جیب میں ڈال کر رومال میں بندھی تتلیوں کو تلاش کرنے لگا، جنہیں وہ ایک درخت کے نیچے رکھ گیا تھا۔ مگر اسے سخت افسوس ہوا۔ دو تتلیوں میں سے ایک اُڑ چکی تھی۔ نا چار اس نے دونوں کو رومال میں باندھ لیا اور بستے کو تلاش کرنے لگا۔ سامنے ہی بینچ تھا ،وہ دوڑ کر قریب آیا تو اس کے نیچے بستہ نہیں تھا۔ وہ بڑا حیران ہوا۔ جس طرف نگاہ اُٹھا کر دیکھتا اسے کوئی نہ کوئی بینچ دکھائی دیتا۔ لیکن ان کے نیچے بستہ نظر نہ آتا تھا۔ شاید وہ بھول چکا تھا کہ اس نے کسی بینچ کے نیچے رکھا ہے۔ ایک گھنٹے تک وہ مارا مارا پھرتا رہا۔ اسے پیاس بھی لگ رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا پہاڑی سے نیچے اُترنے لگا۔ سامنے ایک بینچ تھا۔ اس کے نیچے اس کا زرد بستہ رکھا تھا۔ وہ بھاگ کر قریب پہنچا اور بستے کو اُٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس کی چیخ نکل گئی۔ وہ جنگلی بلا تھا جو سورہا تھا۔ وہ پہلے تو غرایا اور پھر اس نے زور سے چھلانگ لگائی کہ حامد پہاڑی پر سے پھسلتے پھسلتے بچا۔ اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔
وہ مایوس ہو کر سہما ہو امڑ اتو اس کے پاؤں کے بالکل قریب سے ایک مینڈک اچھل پڑا۔ وہ مینڈک سے ڈرتا تو نہیں تھا۔ مگر اچانک اس کے اچھلنے سے ڈر گیا تھا۔
اسے یاد آیا کہ اس جگہ سانپ سے بھی سامنا ہو سکتا ہے۔ اس خیال کا آنا تھا کہ اس کے سامنے کالے سیاہ اورزرد زرد سانپ رینگنے لگے۔ اس نے ایک منٹ تک آنکھیں بند رکھیں اور پھر براسامنہ بنا کر پہاڑی سے اتر نے لگا۔ سڑک پر آکر اس کے دل سے ایک بوجھ اترتا ہوا محسوس ہوا۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا اور چلنے ہی والا تھا کہ خیال آیا کہ بستہ پہاڑی پر رہ گیا ہے۔ وہ اس خیال سے اُداس ہو گیا۔ دوبارہ پہاڑی پر چڑھنے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔ وہ بغیر سوچے سمجھے سڑک پر چلنے لگا۔ جوں جوں آگے بڑھ رہا تھا، اُس کے پاؤں من من کے ہو گئے تھے۔ وہ بستہ لئے بغیر گھر کیوں کر جا سکتا ہے۔ یوں تو سارا بھانڈا پھوٹ جائے گا اور شاید پھر اس پر اعتماد نہ کیا جائے اور اسکول کے لڑکے بھی اسے آوارہ سمجھیں اور ماسٹر صاحب بھی اسے نالائق لڑکوں کی فہرست میں جگہ دیں۔ہائے! وہ کیوں اسکول نہ چلا گیا۔
اب چڑیا گھر کی دیوار شروع ہوگئی تھی۔ دیوار کیا تھی۔ جنگلہ تھا جس میں سے اکثر جانور دکھائی دے رہے تھے۔ وہ جنگلے کے پاس کھڑا ہو کر ہرن کو دیکھنے لگا جو گھاس کھا رہا تھا۔ اس کے دائیں طرف پانی کے چھوٹے سے جوہر میں راج ہنس تیر رہے تھے اور دُور سے شیر کے دھاڑنے کی آواز بھی آرہی تھی۔ وہ ایک منٹ کے لئے بستے کو بھول گیا اور جانور دیکھنے لگا۔ کچھ اور لوگ بھی پنجروں سے کچھ دور کھڑے جانور دیکھ رہے تھے اور انہیں چنے وغیرہ بھی کھلا رہے تھے۔ یکا یک اسے طاہر نظر آیا۔
طاہر اس کا خالہ زاد بھائی تھا اور اس سے دو برس بڑا تھا۔ اُس نے سوچا اگر طاہر مان جائے تو بستہ تلاش کیا جا سکتا ہے اور یہی کچھ سوچ کر اُس نے فورا ًطاہر کو آواز دی مگر طاہر تک یہ آواز نہ پہنچ سکی۔ طاہر وہاں سے ہٹ کر بندر دیکھنے آگے نکل گیا۔
حامد اس وقت بڑا بے چین تھا۔ اُسے بستہ تلاش کر لینے کا ایک راستہ دکھائی دیا تو تھا مگر اب چڑیا گھر کے ٹکٹ کی مجبوری تھی اور جیب میں صرف دس پیسے تھے۔
اچانک اُسے ایک ترکیب سو جھی۔ اس کے سامنے ایک جگہ سے جنگلہ ٹوٹا ہوا تھا۔ ادھر اُدھر دیکھ کر اس نے قدم آگے بڑھائے اور چاہتا تھا کہ اندر کود جائے مگر سڑک پر دوراہگیروں کے آگے جانے سے وہ رک گیا۔ وہ لوگ گزر گئے تو اس نے دوبارہ ہمت باندھی اور ٹوٹے ہوئے جنگلے سے اندر قدم رکھ دیا۔ ایک لمحے میں وہ چڑیا گھر کے اندر تھا۔
وہ خود تو اندر پہنچ گیا تھا مگر ٹوٹے ہوئے جنگلے کی ایک کیل میں اس کی قمیض بُری طرح پھنس گئی تھی جسے چھڑانے کے لئے اُسے دو منٹ رکناپڑا۔ کوشش کے باوجود قمیض تار میں اٹکی رہی۔ اس نے ایک جھٹکے سے قمیض علیحدہ کی تو وہ اوپر تک پھٹ گئی۔
وہ ابھی اپنی پھٹی ہوئی قمیض دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک خاکی وردی والے چڑیا گھر کے نگران نے اُسے گردن سے دبوچا۔ اس کی چیخ تک نہ نکل سکی۔ اُس نے ہاتھ پاؤں مار کر اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ناچار وہ ہانپ کر رہ گیا۔
’’مجھے چھوڑ دو۔ ‘‘اس نے ممیا کر کہا۔
’’کیوں چھوڑ دو؟ تم بغیر ٹکٹ اور غلط راستے سے اندر آئے…تمہیں اب پولیس کے حوالے کیا جائے گا۔ ‘‘پولیس کا نام سن کر تو حامد کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ آنکھوں میں آنسو آ گئے اور حلق سوکھنے لگا۔ وہ آدمی حامد کو اپنے دفتر کی طرف گھسیٹنے لگا۔ حامد پھس پھس کر کے رونے لگا تھا۔ اس نے لاکھ منتیں کیں مگر اس آدمی نے اُسے نہ چھوڑا اور اپنے افسر کے پاس لے گیا۔
یہ ایک بڑی بڑی مونچھوں والا سیاہ رنگ کا موٹا سا آدمی تھا۔ حامد اُسے دیکھ کر ہی ڈر گیا۔ مگر وہ آدمی قدرے رحم دل نکلا۔ اُس نے حامد سے سب حالات پوچھے۔ حامد نے اُسے سب کچھ بتایا اور پھر رونے لگا۔ اس بڑے افسر نے اسے تسلی دی اور کہا تمہیں بہت تھوڑی سزا ملے گی۔ صرف اتنی کہ آج شام تک تمہیں اس چھوٹے سے کمرے میں بند رہنا پڑے گا۔ اس نے یہ کہہ کر چپڑاسی کو اشارہ کیا تو واقعی چپڑاسی نے اسے چھوٹے سے تاریک کمرے میں بند کر دیا۔
اس کمرے میں حامد کا دم گھٹ رہا تھا۔ اُس کا دل پھوٹ پھوٹ کر رونے کو چاہ رہا تھا۔ کاش، وہ اسکول سے چھٹی نہ کرتا۔ وہ گھٹنوں میں سر دے کر سسکنے لگا اور دیر تک سسکتار ہا حتیٰ کہ اس افسر نے خود دروازہ کھولا اور اس شرط پر رہا کر دیا کہ آئندہ کبھی وہ اسکول سے نہیں بھاگے گا۔ حامد نے وعدہ کیا اور کمرے سے باہر نکل آیا۔ چپڑاسی اُسے چڑیا گھر کے دروازے تک چھوڑنے آیا تھا۔
وہ اس وقت بے حد غمگین تھا۔ اتنا غمگین کہ اُسے بہت دیر تک چلنے کے بعد یہ بات معلوم ہوئی کہ اس کاایک جوتا غائب ہے۔ ایک جوتا ایک پاؤں میں تھا، دوسرا جانے اس افراتفری میں کہاں گم ہو گیا تھا۔ اس کے دکھ میں اور بھی اضافہ ہو گیا۔
وہ پھٹی ہوئی قمیض، ایک جوتا ہاتھ میں پکڑے بغیر بستے کے روتا بسور تا جب گھر میں داخل ہوا تو شام ہو چکی تھی۔ اس کے ابا جان برآمدے میں کرسی پر بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے حامد کو اس حالت میںدیکھا تو انہیں بہت غصہ آیا۔
حامد کچھ کہنے کے بجائے رونے لگا۔ رونے کی آواز سن کرامی دوڑتی آئیں اور بیٹے کی بلائیں لینے لگیں۔حال پوچھا تو حامد نے شروع سے آخر تک سچ سچ بتا دیا۔ اس پر اس کے ابا جان کو اور بھی غصہ آیا مگر حامد نے فوراًکہا ۔’’ان سب چیزوں کے باوجود میں نے آج کا سبق اچھی طرح یاد کیا ہے ابا جان۔‘‘
’’وہ کیا؟ ‘‘اس کے ابا ذرا نرم ہو کر بولے۔
’’ یہ کہ اسکول سے نہیں بھاگنا چاہئے۔ تتلیوں کو یا کسی بھی پرندے یا جانور کو قید نہیں کرنا چاہیے۔ بغیر ٹکٹ کے چڑیا گھرمیں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے حامد نے رومال سے دونوں تتلیوں کو نکالا اور اچھال دیا۔ وہ ہوا میں اُڑنے لگیں اور سامنے درخت پر جا بیٹھیں۔
’’خوب…‘‘ اس کے ابو بولے۔’’ اگر واقعی تم نے ان تکلیفوں کے بعد یہ سبق سیکھا ہے تو پھر تم بڑے خوش قسمت ہو،لہٰذا تمہارا قصور معاف۔‘‘
حامد مارے خوشی کے ماں سے لپٹ گیا۔ اس کے ابا بھی پاس کھڑے مسکرار ہے تھے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top