سچی ہمدردی
ڈپٹی نذیر احمد دہلوی
۔۔۔۔۔
ایک مرتبہ عید کو ایک بڑی بھاری ٹوپی مجھ کو اماں جان نے بنادی تھی۔ وہی ٹوپی اوڑھے میں خالہ جان کے یہاں جاتا تھا۔ میاں مسکین کے کوچے میں پہنچا تو بہت سے چپراسی پیادے ایک گھر کو گھیرے ہوئے تھے اور بہت سے تماشائی بھی وہاں موجود تھے۔ یہ دیکھ کر میں بھی لوگوں میں جا گھسا تو معلوم ہوا کہ ایک نہایت غریب بوڑھی سی عورت ہے، چھوٹے چھوٹے کئی بچے ہیں، سرکاری پیادے اس کے میاں کو پکڑ کر لیے جا رہے ہیں، اس واسطے کہ اس نے کسی بنیے کے یہاں سے اُدھار کھایا تھا اور بنیے نے اس پر ڈگری جاری کرائی تھی۔ وہ مرد مانتا تھا کہ قرضہ واجب ہے، مگر میں کیا کروں ،اس وقت بالکل تہی دست ہوں۔ ہر چند اس بے چارے نے بنیے کی اور سرکاری پیادوں کی بہت خوشامدکی مگر بنیا مانتا تھا نہ پیادے باز آتے تھے۔ لوگ جو وہاں کھڑے تھے انہوں نے بھی کہا ۔’’لالہ جہاں تم نے اتنے دنوں تک صبر کیا ،دس پانچ روز اور صبر کر جاؤ ۔‘‘تو بنیا بولا ۔’’اچھی کہی میاں جی اچھی کہی !برسوں کا نانواں اورروج (روز) کی ٹال مٹول ،بھگوان جانے ابھی تو خاں صاحب کی اجّت (عزت) اتروائے لیتا ہوں ۔‘‘
وہ شخص جس پر ڈگری جاری تھی غریب تو تھا لیکن غیرت مند بھی تھا۔ بنیے نے جو عزت اتروانے کا نام لیاتوسرخ ہو گیا اور گھر میں گھسا، تلوار میان سے نکالی، چاہتا تھا کہ بنیے کا سر الگ کر دے کہ اس کی بیوی اس کے پیروں میں لپٹ گئی اور رو کر کہنے لگی۔’’ خدا کے لیے کیا غضب کرتے ہو! یہی تمہارا غصہ ہے تو پہلے مجھے اور بچوں پر ہاتھ صاف کرو۔ کیوں کہ تمہارے بعد ہمارا تو کہیں ٹھکانہ نہیں۔‘‘
ماں کو روتا دیکھ کر سب بچے اس طرح دھاڑیں مار کر روئے کہ میرا دل ہل گیا اور دوڑ کر سب باپ سے لپٹ گئے۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر خان صاحب بھی ٹھنڈے ہوئے اور تلو ارکومیان میں ڈال کر کھونٹی سے لٹکا دیا اور بیوی سے کہا ۔’’اچھا تو نیک بخت پھر مجھ کو اس بے عزتی سے بچنے کی کوئی تدبیر بتا۔‘‘
بیوی نے کہا: ’’بلا سے جو چیز گھر میں ہے اس کو دے کر اس سے اپنی جان چھڑاؤ ۔تم کسی طرح رہ جاؤ تو پھر جیسی ہو گی دیکھی جائے گی۔ تو ا، چکی، پانی پینے کا کٹورا ۔نہیں معلوم کن وقتوں کی ہلکی ہلکی بے قلعی دو پتیلیاں، بس یہی اس گھر کی کل کائنات تھی۔ چاندی کی دو چوڑیاں لیکن ایسی بتلی جیسے تار، اس نیک بخت عورت کے ہاتھوں میں تھیں۔ یہ سب سامان خان صاحب نے باہر لا کر اس بنیے کے روبر ولا کر رکھ دیا ۔
اول تو بنیا ان چیزوں کو ہاتھ نہیں لگارہا تھا لوگوں نے بہت کچھ کہا سنا یہاں تک کہ ان سرکاری پیادوں کو بھی رحم آیا، انہوںنے پینے کو سمجھایا۔ خدا خدا کر کے وہ اس بات پر رضا مند ہوا کہ پانچ روپے اصل اور دو روپے سود،ساتوں کے ساتوں دے دیں تو فارغ کر دیں گے لیکن خاں صاحب کا کل اثاثہ چار ساڑھے چار روپے سے زیادہ کا نہ تھا۔ تب پھر گھر میں گئے اور بیوی سے کہا ۔’’ڈھائی روپے کی کسر رہ گئی ہے ۔‘‘تو بیوی نے کہا۔ ’’اب کوئی چیز میرے پاس نہیں، ہاں لڑکی کے کانوں میں چاندی کی بالیاں ہیں، دیکھو جوان کو ملا کر پوری پڑے۔‘‘
وہ لڑکی کوئی چھ برس کی تھی۔ ماں جو لگی اس کی بالیاں اتار نے تو وہ لڑکی اس حسرت کے ساتھ روئی کہ مجھ سے ضبط نہ ہو سکا اور میں نے دل میں کہا کہ’’ الٰہی! اس وقت مجھ سے کچھ بھی اس کی مدد نہیں ہو سکتی۔‘‘
فوراً خیال آیا کہ ایک روپیہ اور کوئی دو آنے کے پیسے تو نقد میرے پاس ہیں۔ دیکھوں ٹوپی بک جائے تو شاید خاں صاحب کا سارا قرضہ چک جائے۔ بازار تو قریب تھا ہی فوراً میں گلی کے باہر نکل آیا۔ رو مال تو سر سے لپیٹ لیا اور ٹوپی ہاتھ میں لیے ایک گوٹے والے کو دکھائی۔ اس نے چھ کی بتائی۔ میں نے بھی چھوٹتے ہی کہا۔ ’’لا بلا سے چھ ہی دے۔‘‘
غرض چھ وہ اور ایک میرے پاس نقد تھا ہی ،ساتوں روپے لیے میں نے چپکے سے اس عورت کے ہاتھ پر رکھ دیے ۔تب پیادے خاں صاحب کو گرفتار کر کے لے جاچکے تھے اور گھر میں رونا پیٹنا مچ رہا تھا۔ دفعتہ پورے سات روپے ہاتھ میں دیکھ کر اس عورت پر ایک شادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہوگئی اور اس خوشی میں اس نے کچھ نہ سوچا کہ یہ روپیہ کیسا ہے اور کس نے دیا ہے۔ فوراً اپنے ہمسائے کو روپے دے کر دوڑایا اور خود بچوں سمیت دروازے میں آکھڑی ہوئی۔ بات کی بات میں خاں صاحب چھوٹ آئے تو بچوں کو ایسی خوشی ہوئی کہ کو دیں اور اچھلیں، کبھی باپ کے کندھے پر اور کبھی ماں کی گود میں، کبھی ایک پر ایک۔ اب اس عورت کو میرا خیال آیا اور بچوں سے بولی:
’’کم بختو! کیا اودھم مچائی ہے (اور میری طرف اشارہ کر کے کہا) دعا دو اس اللہ تعالیٰ کے بندے کی جان و مال کو جس نے آج باپ کی اور تم سب کی جانیں رکھ لیں ،نہیں تو ٹکابھی مانگے نہ ملتا۔ کوئی چچایا ماموں بیٹھا تھا کہ اس کو تمہارا درد ہوتا اور اس مصیبت کے وقت تمہاری دست گیری کرتا؟ صرف ایک باپ کے دم کا سہارا ہے کہ اللہ رکھے اس کے ہاتھ پاؤں چلتے ہیں تو محنت سے مزدوری سے خدا کا شکر ہے روکھی سوکھی روز کے روز دو وقت نہیں تو ایک ہی وقت مل تو جاتی ہے۔ ہمارے حق میں تو یہ لڑکا کیا ہے رحمت کا فرشتہ ہے۔ نہ جان نہ پہچان نہ رشتہ نہ نا تا اور اس اللہ کے بندے نے مٹھی بھر روپے دے کر آج ہم سب کو نئے سرے سے زندہ کیا ۔‘‘
وہ بچے جس شکر گزاری کی نظر سے مجھ کو دیکھتے تھے اس کی مسرت اب تک میں اپنے دل میں پاتا ہوں۔ روپیہ خرچ کرنے کے بعد مجھ کو عمر بھر ایسی خوشی نہیں ہوئی جیسی کہ اس دن تھی مگر دونوں میاں بیوی کے ذہن میں اس وقت تک یہ بات نہیں آئی تھی کہ میں نے روپیہ ان کو دے دیا۔ وہ سمجھتے تھے کہ قرض کے طور پر دیا ہے۔ میں تو کھسکنے کو تھا مگر عورت زبر دستی مجھ کو اپنے گھر میں لے گئی اور ٹوٹی سی ایک چوکی پڑی تھی ،میں ہر چند منع کرتا رہا، جلدی سے اس کواپنے دوپٹے سے جھاڑمجھ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور میاں سے بولی:
’’کوئی تم جیسا بے خبر ہو! کھڑے کیا ہو۔ جاؤ ایک گلوری بازار سے میاں کے لیے بنوالا ؤ۔‘‘
میں بولا۔ نہیں میں پان نہیں کھاتا تکلیف مت کرو۔‘‘
عورت بولی: ’’بیٹا تمہاری خدمت میں اور ہم کو تکلیف! جی چاہتا ہے کہ آنکھیں تمہارے تلوؤں میں بچھا دوں۔ قربان اس پیاری پیاری صورت کے، نثار اس بھولی بھالی شکل کے، بیٹا تم یہ تو بتاؤ کہ تم ہو کون؟‘‘
میں نے جواب دیا: ’’میری خالہ میاں صابر بخش کی سرائے میں رہتی ہیں۔‘‘
عورت نے کہا: ’’پھر بیٹا یہ اپنا روپیہ تم ہم سے کب لوگے؟ اپنا اور بچوں کا پیٹ کاٹیں گے اور تمہارا قرضہ سب سے پہلے ادا کریں گے۔ مگر کام ان دنوں مندا ہے، دیں گے تو ہم جس طرح بن پڑے گا دو ہی مہینے میں مگر جہاں تم نے اتنی مہربانی کی ہے، للہ اتنا سلوک اور کرو کہ دور و پے مہینہ قسط کا لے لیا کرو ۔‘‘
میں بولا: ’’آپ روپے ادا کرنے کا کچھ فکر نہ کیجئے، میں نے لینے کی نیت سے نہیں دیا ۔‘‘
یہ سن کر تمام خاندان کا خاندان اتنا خوش ہوا کہ میں بیان نہیں کر سکتا اور میں ان میں اس قوت کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جیسے خوش دل اور شکر گزار رعایا میں کوئی بادشاہ یا حلقہ مریدان ارادتمند میں کوئی پیر و مرشد۔ اس عورت کے منہ سے مارے خوشی اور شکر گزاری کے بات نہیں نکلتی تھی۔ بار بار میری بلائیں لیتی تھی اور میرے ہاتھوں کو چومتی اور آنکھوں کو لگاتی تھی۔ اس کی بلاؤں میں رومال سر پر سے کھسک گیا تو اس نے دیکھا کہ میرے سر پر ٹوپی نہیں۔ پوچھا تو مجھ کو کہنا پڑا کہ وہی ٹوپی بیچ کر میں نے رو پیہ دیا۔ پھر تو اس کا یہ حال تھا کہ بچھی جاتی تھی۔ سات روپے کی بھی کچھ حقیقت تھی مگر اس نے مجھ کو سینکڑوں ہزاروں ہی دُعائیں دیں ہوں گی۔ اس نے جو اتنی احسان مندی ظاہر کی تو میں الٹا اس کا ممنون ہوا۔ جس قدر وہ خوشامد کرتی میں شرمندہ ہوتا تھا اور جتناوہ عاجزی سے پیش آتی میں زمین میں گرا جاتا تھا۔