skip to Main Content

شہد کی مکھی

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

بچے دوڑتے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔ سب نے مل کر زور سے’السلام علیکم‘ کہا۔ اس کے بعد اُن کی آواز یں گڈمڈ ہو گئیں۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ گھر کے تمام افراد تک ایک اطلاع سب سے پہلے وہی دے۔ سب چونکہ ایک ساتھ بول رہے تھے، اس لیے گھر میں موجود امی، ماہ رخ اور ماموں جان کو کچھ اس قسم کی آوازیں سنائی دیں:
”باہر۔۔۔ آم کے درخت پر۔۔۔ میں نے سب سے پہلے۔۔۔ شہد۔۔۔۔ بڑا سا۔۔۔۔مکھیاں۔۔۔۔ چھتا۔۔۔۔ اتنی ساری۔۔۔۔!“
امی نے ذرا سخت لہجے میں کہا:
”وعلیکم السلام۔۔۔ بچو یہ کیا بدتمیزی ہے۔۔۔ اس طرح بات کی جاتی ہے۔ ہمیشہ ادب اور تمیز سے بات کرنی چاہیے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ بات اس طرح فرماتے تھے کہ آپ کے الفاظ ساتھ ساتھ گنے جا سکتے تھے، یعنی اس طرح کہ سننے والا آسانی سے سمجھ جائے۔ آپ کو شور، ہنگامہ، ہڑبونگ پسند نہ تھی، ہر کام میں سکون و وقار پسند فرماتے تھے۔“
بچے شرمندہ ہو کر خاموش ہو گئے۔امی نے ذیشان سے پوچھا:
”آپ بتائیے ذیشان، آپ سب بچوں میں بڑے ہیں، آپ نے کیا دیکھا؟“
”امی۔۔۔ باہر۔۔۔ آم۔۔۔ کے۔۔۔ درخت۔۔۔ پر۔۔۔ شہد۔۔۔ کی۔۔۔ مکھیوں۔۔۔ نے۔۔۔ بڑا۔۔۔ سا۔۔۔ چھتا۔۔۔ بنا۔۔۔ لیا۔۔۔ ہے۔“ ذیشان نے ایک ایک لفظ الگ الگ کر کے ادا کرتے ہوئے جواب دیا۔
امی، ماہ رخ اور ماموں جان ہنس پڑے، ماموں جان کہنے لگے:
”بیٹے ذیشان، آپ کی امی کی بات کا مقصد یہ ہے کہ بات کرتے ہوئے جلدی نہ کی جائے۔ عام فطری انداز سے بات کریں۔ ایک ایک لفظ پر وقفہ دے کر بولنا بھی عجیب لگتا ہے۔ خیر یہ بتائیے کہ آپ بچوں نے شہد کی مکھیوں کے چھتے کو چھیڑا تو نہیں؟“
”بالکل نہیں!“ سب بچے مل کر بولے۔
”الحمد للہ۔ یہ ٹھیک کیا۔ اگر آپ شہد کی مکھیوں کو ستائیں گے تو وہ بھی اپنی حفاظت کے لیے آپ پر حملہ کر دیں گی۔ شہد کی مکھی کا ڈنک خطر ناک ہوتا ہے۔ آپ کو کاٹ لے گی تو سوجن اور جلن ہو جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ شہد کی مکھی آپ کو کاٹنے کے بعد خود بھی جلد ہی مر جائے گی۔“
”یہ کیوں ماموں جان؟“ ماہ رخ نے حیرانی سے پوچھا۔
”اوہو! میں تو بھول ہی گیا تھا کہ آپ بھی یہاں موجود ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ آج شہد کی مکھی کی باری ہے!“ ماموں جان مسکرا کر بولے اور ماہ رخ جھینپ کر بولی:
”ماموں جان، علم حاصل کرنا تو اچھی بات ہے۔“
”بے شک، میں نے کب کہا کہ بُری بات ہے۔ علم سے تمہاری دلچسپی بہت اچھی لگتی ہے۔ میں تو مذاق کر رہا تھا۔“
”پھر، کب بتائیں گے ماموں جان، شہد کی مکھی کے بارے میں؟“ ماہ رخ نے پوچھا۔
”وہی،عشا اور رات کے کھانے کے بعد۔“
رات میں، عشا کی نماز کے بعد سب لوگ جوں ہی کھانے سے فارغ ہوئے۔ ماہ رخ نے جلدی جلدی برتن سمیٹے، انہیں دھو کر سلیقے سے رکھا اور ماموں جان کے پاس پہنچ گئی۔ ماموں جان شفقت سے مسکرائے اور انھوں نے کہنا شروع کیا:
”بیٹے، اس پوری دنیا بلکہ پوری کائنات میں قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہر چیز اللہ کی بے مثال قدرت اور حکمت کا شاہکار ہے۔ اللہ کے ان بے شمار شاہکاروں میں سے ایک نہایت حیرت انگیز شاہکار شہد کی مکھی ہے۔“
”وہ کیسے ماموں جان؟“
”ابھی سمجھ میں آجائے گا۔ بیٹے، شہد کی مکھی، وہ خوش قسمت مخلوق ہے، جس کا ذکر، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن مجید میں فرمایا اور ایک سورۃ کا نام ہی’النحل‘ یعنی شہد کی مکھی رکھ دیا۔ اس سورۃ کی آیت اڑسٹھ اور انہتر (68,69) میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
ماموں جان نے ترجمہ قرآن مجید اُٹھایا اور اس میں سے آیت کا ترجمہ پڑھنے لگے:
’اور دیکھو، تمہارے رب نے شہد کی مکھی پر یہ بات وحی کر دی کہ پہاڑوں اور درختوں میں، چڑھائی ہوئی بیلوں میں اپنے چھتے بنا اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ۔ اس مکھی کے پیٹ سے ایک شربت نکلتا ہے جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں، جس میں لوگوں کے لیے شفا ہے۔ یقینااس میں بھی اُن لوگوں کے لیے ایک نشانی ہے، جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘
یہ بات تو اللہ تعالیٰ نے چودہ سو سال پہلے نازل ہونے والے قرآن مجید میں ارشاد فرما دی تھی۔ انسان نے اللہ کی بخشی ہوئی عقل کو استعمال کرتے ہوئے جدید آلات کی مدد سے تحقیق کی تو بہت سی اور حیرت ناک باتیں اُسے معلوم ہوئیں۔“
”وہ کیا ماموں جان؟“
”شہد کی مکھیوں کا چھتا، ایک مکمل مملکت ہوتی ہے۔ اس کی سربراہ ملکہ مکھی ہوتی ہے۔ ایک چھتے میں پچاس ہزار سے اسی ہزار اور کبھی کبھی اس سے بھی زیادہ کارکن مکھیاں ہوتی ہیں۔ ان کے علاوہ سینکڑوں نرمکھیاں ہوتی ہیں۔ ان سب کے ذمے الگ الگ کام ہیں۔ مکھیاں اپنے اپنے حصے کے کام بڑے منظم انداز میں اور بہت محنت سے انجام دیتی ہیں۔ ان تینوں قسم کی مکھیوں کی جسمانی ساخت بھی مختلف ہوتی ہے۔“
”وہ کس طرح؟“
”ملکہ مکھی بڑی ہوتی ہے۔ اُس کا پیٹ بھی بڑا ہوتا ہے۔ اس کے جبڑوں میں تیز دانت ہوتے ہیں۔ اس کا ڈنک بھی بڑا اور مڑا ہوا ہوتا ہے۔ نرمکھیاں ذرا چھوٹی ہوتی ہیں ان کے ڈنک بھی نہیں ہوتے۔ کارکن مکھیاں چھوٹی ہوتی ہیں۔ ان کے جسم میں ایسے اعضاء ہوتے ہیں جو ملکہ مکھی اور نر مکھی میں نہیں ہوتے، مثلاً کارکن مکھیوں کے جسم میں پھولوں کا رس جمع کرنے کے لیے الگ تھیلی ہوتی ہے، ان میں، چھتے کا موم بنانے والے غدود ہوتے ہیں۔
اچھا اب سنو کہ کارکن مکھیاں پھولوں کے رس کے علاوہ اور کیا جمع کرتی ہیں۔ پھولوں کا رس تو یہ اپنے جسم میں موجود مخصوص تھیلی میں جمع کر لیتی ہیں۔ پھولوں کا زیرہ ان کی ٹانگوں پر ننھی ٹوکریوں میں اٹک جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ درختوں کی چھال، پتوں اور شگوفوں سے گوند نما ایک مادہ جمع کر کے لاتی ہیں جو ’پروپولِس‘ کہلاتا ہے۔ پروپولس کی مدد سے مکھیاں، چھتے کو مضبوط بناتی ہیں، پالش کرتی ہیں، حرارت سے بچاتی ہیں اور سوراخوں کو بند کرتی ہیں۔ اب تحقیق ہوئی ہے کہ اس مادے میں جراثیم کو مارنے کی زبر دست صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کارکن مکھیاں پھولوں کا زیرہ بھی لاتی ہیں جس میں لحمیات، چکنائی، معد نیات اور حیاتین ہوتے ہیں۔ یہ اجزا شہد کی مکھی کے بچوں کی نشوونما کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔ کارکن مکھیاں ایک خاص قسم کی غذا بھی تیار کرتی ہیں جو’شاہی جیلی‘کہلاتی ہے۔ یہ جیلی کارکن مکھی کے لاروے کو دو دن تک اور ملکہ مکھی کے لا روے کو پوری مکھی بن جانے تک ملتی ہے۔“
”شہد کیسے بنتا ہے ماموں جان؟“ ماہ رخ نے پوچھا۔
”ہاں، کارکن مکھیاں پھولوں کا رس چوس کر چھتے میں آتی ہیں، یہ بھی دیکھو کہ دور دور کا سفر کر کے بھی وہ اپنا چھتا نہیں بھولتیں، یہ مکھیاں پھولوں کا چوسا ہوا رس، چھتے میں موجود کارکن مکھیوں کے منہ میں انڈیل دیتی ہیں۔ یہ مکھیاں، رس کو خانوں میں جمع کر دیتی ہیں۔ ان کے سر میں موجود مخصوص غدود سے کچھ کیمیائی مادے نکلتے ہیں جو پھولوں کے رس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ پھولوں کے رس سے پانی بخارات بن کر اڑتا رہتا ہے اور وہ شہد کی طرح گاڑھا ہو جاتا ہے۔ جس خانے میں شہد تیار ہو جاتا ہے، کارکن مکھیاں اس خانے کو موم کے ڈھکن سے اچھی طرح بند کر دیتی ہیں۔“
”مامون جان آج تو آپ بہت دلچسپ باتیں بتا رہے ہیں۔ یہ تو بتائیے کہ شہد کی مکھیاں آپس میں باتیں کرتی ہیں؟“
”یہ بھی ایک حیرت انگیز بات ہے کہ شہد کی مکھیاں اپنی جسمانی حرکات کے ذریعے سے پیغام پہنچاتی ہیں۔ جب کوئی مکھی پھولوں کا نیا ذخیرہ دریافت کرتی ہے تو وہ پھولوں کا رس لے کر واپس چھتے پر پہنچتی ہے اور رقص شروع کر دیتی ہے۔ اس رقص کے انداز کو دیکھ کر باقی مکھیاں سمجھ جاتی ہیں کہ پھولوں کا ذخیرہ کتنے فاصلے پر ہے اور کس سمت میں ہے، کیونکہ ہر صورت میں رقص کا انداز اس کے مطابق مخصوص ہو گا۔ ایک مخصوص وقت میں مکھی دائرے کی شکل میں کتنی بار گھومتی ہے یا درمیان سے رک کر کس طرف کو گھوم جاتی ہے، اس سے دوسری مکھیاں جان جاتی ہیں کہ پھول، سورج کی مخالف سمت میں ہیں یا دائیں طرف ہیں یا بائیں طرف۔“
”ماموں جان، میں تو آج شہد کی مکھی کے بارے میں حیرت انگیز باتیں سن کر دنگ رہ گئی ہوں۔ اتنا سا کیڑا اور اتنا سمجھ دار اور اتنا محنتی۔“
”ہاں بیٹے، اس میں اللہ کی کئی نشانیاں ہیں اور ہم انسانوں کے لیے بڑا سبق ہے کہ مل کر منظم طریقے سے کام کریں تو ہم کتنی بڑی طاقت بن سکتے ہیں اورپوری دنیا پر ہمارے دین کی حکمرانی ہو سکتی ہے۔
اچھا بیٹے، آج تو بہت دیر ہو گئی۔ اب آپ جائیں اور سو جائیں۔اللہ حافظ!“
”ماموں جان، جزاک اللہ، السلام علیکم۔“
”وعلیکم السلام۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top