skip to Main Content

مجرم کے بال

کہانی: The Great Idea of MR Budd
مصنفہ:Dorothy L.Sayers
مترجمہ: گل رعنا صدیقی
۔۔۔۔۔

”پانچ ہزار پاؤنڈ ز کا انعام!“
”یہ اعلان حکومت کی جانب سے جیک بولٹن نامی مجرم کی گرفتاری کے بارے میں ہے جو قتل کی کئی وارداتوں میں مطلوب ہے۔ مذکورہ بالا انعام اُس شخص کو دیا جائے گا جو جیک کی گرفتاری سے متعلق کارآمد معلومات فراہم کر سکے گا۔ جیک بولٹن کا سرکاری خاکہ درج ذیل ہے:
عمر 45 سال، قد تقریباً 6 فٹ، گھنے سرمئی بال جور نگے بھی جاسکتے ہیں، سرمئی داڑھی لیکن اب وہ کلین شیو بھی ہو سکتا ہے، سرمئی آنکھیں، لمبی ناک، سفید دانت جن میں سے کچھ دانتوں میں سونے سے بھرائی ہوئی ہے، بائیں انگوٹھے کا ناخن ایک حالیہ ضرب کی وجہ سے اندر تک ٹوٹا ہوا ہے اور بہت تیز آواز میں بولتا ہے۔“
مسٹر بڈ نے ایک دفعہ پھر مجرم کا خاکہ پڑھا اور اُداسی سے اخبار کو تہ کر کے ایک طرف رکھ دیا۔ لندن میں سینکڑوں بار بر کی دُکانیں تھیں۔ یہ بالکل ناممکن تھا کہ جیک بولٹن اس کی چھوٹی سی دُکان میں بال کٹوانے، شیو کرانے یا بال رنگوانے کے لیے آجائے۔ مسٹر بڈ آج کل زبر دست مالی مشکلات کا شکار تھے۔ کئی کئی دن گزر جاتے تھے لیکن اُن کی دُکان پر کوئی گاہک نہیں آتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب مسٹر بڈ اخبار میں ہر روز پیسہ کمانے کے مواقع تلاش کرتے تھے۔
”ویسے بھی اگر ایک چھ فٹ لمبا، ہٹا کٹا شخص جو کئی لوگوں کا قاتل ہو، میری دُکان میں آبھی گیا تو کیا مجھ جیسا دبلا پتلا ادھیڑ عمر آدمی اُس پرا کیلے قابو پاسکتا ہے؟“ انھوں نے زیر لب خود سے سوال کیا اور خود ہی نفی میں سر ہلا دیا۔ رات کے آٹھ بجنے والے تھے۔ وہ دکان بند کرنے کے لیے کھڑے ہی ہوئے تھے کہ اچانک ایک لمبا چوڑا شخص دُکان میں داخل ہوا۔ مسٹر ہڈ نے دُکان بند کرنے کا خیال فوراً ترک کردیا۔ یہ آج کی تاریخ میں اُن کا پہلا اور آخری گاہک تھا۔
”جی جناب! آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“ انھوں نے ادب سے کہا۔
”مجھے شیو کرانی ہے اور بال رنگوانے ہیں۔“گاہک نے کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
یہ سن کر مسٹر بڈ خوش ہو گئے۔ بال رنگنے کے وہ دس پاؤنڈ لیتے تھے۔
”آپ کس رنگ کے بال پسند کریں گے جناب؟“ انھوں نے پوچھا۔
”مجھے اپنے سنہری بال پسند نہیں، میں انھیں بھورے رنگ کا رنگوانا چاہتا ہوں۔“ اُس نے کہا۔”بھورے بال مجھ پر اچھے لگیں گے۔“
مسٹر بڈنے دل میں سوچا کہ اُس کی سرمئی آنکھوں کے ساتھ بھورے بال بالکل اچھے نہیں لگیں گے لیکن اپنے کاروبار کی بہتری کے لیے انھوں نے اپنے گاہک سے مکمل اتفاق کیا۔
شیو کرنے کے دوران اپنے گاہک سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے دیکھا کہ گاہک کے سامنے کے دو دانتوں میں سونے سے بھرائی کی گئی ہے۔
”ضرور بہت امیر آدمی ہے!“ انھوں نے سوچا۔
وہ اپنی مشاق انگلیوں اور آنکھوں سے آدمی کے بالوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ انھیں فوراً ہی پتہ چل گیا کہ ان بالوں کو پہلے بھی رنگا جاچکا ہے۔ سنہری رنگ بالوں کا قدرتی رنگ ہرگز نہیں تھا۔
”جناب! کیا آپ پہلے بھی بال رنگوا چکے ہیں؟“ مسٹر بڈ نے دریافت کیا۔
”ہاں!میرے بال بہت کم عمری میں سفید ہو گئے تھے۔ بس اسی لیے مجھے اکثر بال رنگوانے پڑتے ہیں۔“ گاہک نے جواب دیا۔
مسٹر بڈ اپنے کام میں مشغول تھے لیکن ساتھ ساتھ اپنے گاہک سے باتیں بھی کرتے جا رہے تھے۔ موسم اور سیاست پر بات کرتے کرتے اُنھوں نے مفرور قاتل کا قصہ چھیڑ دیا۔
”پولیس اُسے پکڑنے میں ناکام ہو چکی ہے۔“ گاہک نے کہا۔
”جی ہاں! لیکن شاید اب انعام رکھنے سے انھیں کوئی مددل سکے۔“ مسٹر بڈ نے کہا۔
”اوہ! تو کیا اب اُس کی تلاش پر کوئی انعام بھی رکھا گیا ہے؟ مجھے یہ معلوم نہیں تھا۔“ گاہک نے کہا۔
”یہ اخبار میں اشتہار چھپا ہے۔ دیکھیے!“ مسٹر بڈ نے اخبار اُٹھا کر گاہک کو دیا۔ گاہک اشتہار پڑھنے لگا۔ مسٹر بڈ نے دیکھا کہ اُس نے اچانک اپنا بایاں ہاتھ کرسی کے ہتھے سے کھینچ کر پیچھے کر لیا لیکن وہ تو پہلے ہی اُس کے بائیں ہاتھ کا بد وضع ناخن دیکھ چکے تھے۔ گاہک نے شیشے میں تیز نظروں سے اپنے عقب میں کھڑے مسٹر بڈ کو دیکھا۔
”مجھے پورا یقین ہے کہ اب تک تو وہ قاتل ملک سے باہر بھی جا چکا ہو گا۔ ان لوگوں نے انعام کا اعلان کرنے میں بہت دیر کر دی۔“ مسٹر بڈ نے جلدی سے کہا۔ اُن کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں چمک رہی تھیں۔
”ہوں!“گاہک نے ہنکارا بھر کے اخبار ایک طرف ڈال دیا۔
مسٹربڈ نے ایک نظر دکان کے دروازے سے باہر ڈالی۔ رات کے ساڑھے آٹھ بج چکے تھے اور تمام د کا نیں بند ہو چکی تھیں۔ سڑک پر اکاد کا لوگ آجارہے تھے۔
”ذرا جلدی کرو مجھے دیر ہورہی ہے۔“ گاہک نے بے صبری سے کہا۔
”جی جناب!“انھوں نے کہا اور دل میں سوچا:
”اگر میں دروازے کی طرف بھاگا تو یہ خوف ناک آدمی مجھ پر چھلانگ لگا کر واپس گھسیٹ لے گا۔“
اُنھوں نے تصور کی آنکھ سے دیکھا کہ وہ پائیدان پر گرے ہوئے ہیں اور وہ ہول ناک آدمی اُن کا گلا دبا رہا ہے۔ وہ پچھتار ہے تھے کہ اُنھوں نے جیک بولٹن کو پہچاننے میں اتنی دیر کیوں کر دی؟ کیا وہ اُس پرا کیلے قابو پاسکتے ہیں؟ اگر وہ اپنا ریز راس آدمی کے گلے پر رکھ کر کہتے کہ اپنے ہاتھ اوپر اٹھا دو تو وہ یقینا اُن کا ریزر چھین لیتا۔ وہ اُن سے بہت زیادہ طاقت ور تھا۔ مارکیٹ بالکل سنسان ہو چکی تھی۔ وہ اپنی مدد کے لیے کسی کو آواز بھی نہیں دے سکتے تھے۔ مسٹر بڈ نے خود کو بتایا کہ وہ اُس آدمی کو گرفتار نہیں کرا سکتے۔ ہاں! لیکن وہ پولیس کو یہ ضرور بتا سکتے تھے کہ جیک بولٹن اُن کی دُکان میں آیا تھا اور یہ بھی کہ اب اُس کی داڑھی نہیں رہی اور اُس کے بال اب بھورے ہو چکے ہیں۔
دُکان کے پچھلے حصے سے بال رنگنے کا سامان اُٹھاتے ہوئے اُن کی نظر اُس کاغذ کاٹنے کے چاقو پر پڑی جو ان کو کسی نے تحفے میں دیا تھا۔ چاقو کے دستے پر یہ الفاظ کندہ تھے:
”علم طاقت ہے۔“
اور اچانک ہی اُن کے دماغ میں ایک زبر دست خیال آ گیا۔ اب وہ خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہے تھے۔ چند ہی لمحے بعد وہ اپنے گاہک کے بال گہرے بھورے رنگ میں رنگ رہے تھے۔ گاہک کو رخصت کرنے کے فوراً بعد مسٹر بڈ نے اپنی دُکان بند کی اور بس میں سوار ہو گئے۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ایک اہم آفیسر نے بہت توجہ سے اُن کا بیان سنا۔ گاہک کا حلیہ سن کر انھیں یقین ہو گیا کہ وہ سو فیصد جیک بولٹن ہی تھا اور جب اُنھوں نے مسٹر بڈ سے وہ زبر دست خیال سنا جو مسٹر بڈ کو اپنی دُکان میں آیا تھا تو وہ داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
تھوڑی دیر بعد برطانیہ کے تمام بحری جہازوں پر اسکاٹ لینڈ یارڈ کی طرف سے ایک پیغام نشر کیا گیا۔ یہی پیغام یورپ کی تمام بندرگاہوں اور پولیس مراکز میں بھی بھیجا گیا۔ صبح سات بجے کے قریب مرنڈا نامی جہاز سے اسکاٹ لینڈ یارڈ کو یہ پیغام موصول ہوا:
”یہ پیغام پیرس کی حدود میں موجود برطانوی جہاز مرنڈا کی طرف سے نشر کیا جا رہا ہے۔ پولیس کا بتایا ہوا آدمی اس وقت ہمارے جہاز پر موجود ہے۔ ٹکٹ مسٹر واٹسن کے نام سے خریدا گیا ہے۔ اُس نے خود کو کیبن میں بند کرلیا ہے اور باہر نکلنے سے انکار کر دیا ہے۔ اُس کا مطالبہ ہے کہ اُس کے پاس فوراً ایک بار بر بھیجا جائے۔ ہم پیرس کی پولیس سے رابطے میں ہیں اور مزیدہدایات کا انتظار کر رہے ہیں۔“
جہاز کے کیبن نمبر 26 کے باہر کافی لوگ جمع تھے جب پولیس کے چھ اہل کاروہاں پہنچے۔ اُنھوں نے مسافروں کو وہاں سے جانے کو کہا اور کپتان کو دستک دینے کا اشارہ کیا۔
”کون ہے؟“ اندر سے کسی نے اونچی آواز میں پوچھا۔
”بار بر جناب!“ کپتان نے کہا۔
”اُسے جلدی سے اندر بھیجو لیکن اُس کے ساتھ کوئی اور اندر نہ آئے۔“
”جی جناب!“
کیبن کا دروازہ تھوڑا سا کھلا اور پھر تیزی سے بند ہونے لگا لیکن کپتان نے اپنا جوتا دروازے میں اڑا دیا۔ پولیس کے اہل کار تیزی سے آگے بڑھے اور اگلے چند لمحوں میں مسافر پر قابو پالیا گیا۔ جب وہ باہر آیا تو کپتان حیرت سے چلا اٹھا:
”اُف خدا! یہ تو ایک رات میں ہرا ہو گیا!“
”ہرا!“
”جی ہاں!“مسٹر بڈ نے وہ سال ضائع نہیں کیے تھے جب وہ مختلف رنگوں کے پیچیدہ رویوں کے بارے میں علم حاصل کر رہے تھے۔
”علم طاقت ہے۔“
مسٹربڈ نے قاتل کے بال ایسے کیمیکل کے ساتھ رنگے تھے جو چوبیس گھنٹے کے بعد بالوں کو سبز کر دیتا تھا اور سبز رنگ کے بالوں کے ساتھ کوئی بھی قاتل ہزاروں میں پہچانا جا سکتا تھا۔ مسٹر بڈکے علم کی طاقت نے اُن کو پانچ ہزار پاؤنڈز کا حق دار بنادیا تھا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top