skip to Main Content

صحرا کا جہاز

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

ساحل سمندر پر بڑی رونق تھی۔ بچے ساحل کی گیلی گیلی ریت پر دوڑ تے پھر رہے تھے۔ خوانچے والے کھانے پینے کی چیزیں فروخت کر رہے تھے۔ ذرا بڑے لڑکے سمندر کی لہروں سے کھیل رہے تھے۔ بہت سے لوگ ساحل پر بنی چھتریوں کے نیچے بیٹھے باتیں کر رہے تھے اور کچھ اونٹ والے، بچوں کو اونٹ کی سواری کروا ر ہے تھے۔
ماہ رخ اپنے بھائی شاہ رخ کے ساتھ ابھی ابھی اونٹ کی سواری کر کے آئی تھی۔ ماموں جان نے اس سے کہا تھا کہ جب اونٹ پر بیٹھو تو یہ سوچ کر بیٹھو کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اونٹ پر سواری کی ہے، لہٰذا یہ عمل سنت ہے۔ اس کے علاوہ بسم اللہ الرحمن الرحیم اور سواری کی دعا پڑھنا نہ بھولنا۔
”اتنا مزہ آیا ماموں جان، اونٹ کی سواری کر کے۔“ ماہ رخ خوشی سے بولی۔”میرا تو جی چاہ رہا ہے، ایک بار پھر اونٹ پر بیٹھ جاؤں۔“
”بس بیٹے، اب خاصی دیر ہو گئی ہے، واپس چلتے ہیں۔“ ماموں جان بولے اور ممانی جان، ذیشان بھائی اور سعدیہ باجی نے بھی ان کی تائید کی۔ کچھ دیر بعد سب لوگ ماموں جان کی گاڑی میں بیٹھے گھر جارہے تھے۔

٭……٭……٭

رات کے کھانے کے بعد ماموں جان بیٹھے کوئی کتاب پڑھ رہے تھے کہ ماہ رخ آکر ان کے قریب خاموشی سے بیٹھ گئی۔ ماموں جان مسکرائے اور کتاب پر سے نظریں ہٹائے بغیر بولے:
”اونٹ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بھی کیا ہے۔“
”مامون جان، آپ کتنے اچھے ہیں۔ بس اب کتاب ایک طرف رکھیے اور مجھے اس جانور کے بارے میں بتائیے جس کا ذکر اللہ نے قرآن مجید میں کیا ہے۔“
”اللہ نے تو قرآن مجید میں بہت سے جانوروں کا ذکر کیا ہے۔“
”آپ جانتے ہیں پھر بھی ایسا ظاہر کر رہے ہیں کہ جانتے نہیں۔ میں اونٹ کی بات کر رہی ہوں۔“ ماہ رُخ نے کہا۔
”اچھا بھئی، بتاتے ہیں ورنہ تم یہیں بیٹھی رات بھر انتظار کرتی رہو گی۔ اونٹ وہ اہم اور خوش نصیب جانور ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا اور جس پر اللہ کے سب سے محبوب بندے محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری فرمائی۔ سورۃ الغاشیہ میں اللہ نے فرمایا: ’کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ یہ اونٹ کس طرح تخلیق کیے گئے۔۔۔‘
اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ کی نشانیاں تو ہمارے ہر طرف پھیلی ہوئی ہیں، مثلاً یہ اونٹ جسے اللہ نے ٹھیک ان خصوصیات کے ساتھ پیدا فرمایا جن کی صحرائی علاقوں میں ضرورت ہوتی ہے۔ اس طرح اللہ نے پہاڑوں کی مثال دی کہ وہ کس طرح زمیں پر جما دیے گئے، آسمان کس طرح بلند کیا گیا اور زمین کس طرح پھیلا دی گئی۔ دراصل یہ پوری کائنات اللہ کی بے پناہ قدرت کے بے شمار شاہکاروں سے بھری ہوئی ہے۔ زمین پر اور پانی میں بے شمار مخلوقات ہیں، ان میں ہر ایک کا جسم اور اُس کا جسمانی نظام اس علاقے کی جغرافیائی اور موسمی ضروریات کے مطابق بنایا گیا ہے، جہاں وہ پایا جاتا ہے۔ اونٹ بھی ایک حیرت انگیز مخلوق ہے۔ انتہائی صابر، بے حد محنتی اور جفاکش مخلوق۔“
”ماموں جان، اونٹ کیا صرف عرب میں پائے جاتے ہیں؟“
”نہیں، اونٹ تو کئی ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ دراصل اونٹ بھی کئی طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہی اونٹ ہے، جس پر آپ نے آج سواری کی۔ اسے عربی اونٹ کہتے ہیں۔ سائنس کی زبان میں اسے ’ڈرومیڈری‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا صرف ایک کو ہان ہوتا ہے۔ ہزاروں سال پہلے اس اونٹ کے آباؤ اجداد شمالی افریقہ اور عرب کے ریگستانوں میں تھے۔ اس وقت یہ جنگلی اونٹ تھے۔ بعد میں انسان نے انھیں پالتو بنا لیا۔ اب یہ جنوب مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ میں بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔“
”اس کے علاوہ اونٹ کی کون سی قسمیں ہیں؟“
”ایک اور قسم کے اونٹ کے دو کوہان ہوتے ہیں۔ یہ ’بیکٹیرین‘کہلاتا ہے۔ اس قسم کے اونٹ سب سے پہلے ساڑھے چار ہزار سال قبل اس علاقے میں پالے گئے جہاں آج شمالی ایران واقع ہے۔ اب ان کی تعداد کم رہ گئی ہے۔ اونٹ کی کچھ جنگلی قسمیں بھی ہیں جو جنوبی امریکہ میں ملتی ہیں۔“
”اونٹ کی اونچائی کتنی ہوتی ہے ماموں جان؟“
”ایک کوہان والا اونٹ عام طور پر دو میٹر یعنی سات فٹ اونچا ہوتا ہے۔ یہ اس کی پیٹھ تک کی اونچائی ہے۔ مزید ایک فٹ اونچا اس کا کو ہان ہوتا ہے۔ اللہ نے اس جانور کے پیر کے جوڑ اور سینے کی کھال بہت سخت بنائی ہے۔ اس لیے یہ زمین پر بیٹھتے یا لیٹتے ہوئے اپنے جسم کا سارا زور اپنے پیروں کے جوڑ اور سینے پر ڈالتا ہے۔ سخت کھال کی وجہ سے صحرا کی گرم ریت اس کو نقصان نہیں پہنچاتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی پلکیں بھی لمبی لمبی بنائی ہیں تا کہ آنکھیں گردو غبار سے محفوظ رہیں۔“
”ماموں جان، اونٹ صحرا کی گرم ریت پر کیسے چل لیتا ہے اور ایک دن میں کتنا فاصلہ طے کر لیتا ہے؟“
”بیٹے، اللہ نے اونٹ کے پیر خاص طرح کے بنائے ہیں۔ ہر پیر میں صرف دو انگلیاں ہوتی ہیں۔ نیچے سپاٹ اور چوڑے گدے ہوتے ہیں۔ خاص قسم کے پیروں کی وجہ سے اونٹ صحرا میں آسانی سے چلتا ہے۔ عربی اونٹ کی رفتار چھ کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور یہ چوبیس گھنٹے میں تقریباً ایک سو ساٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیتا ہے۔ دو کوہان والے اونٹ کی رفتار چار کلومیٹر فی گھنٹہ ہے اور وہ ایک دن میں سینتالیس کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے۔“
”ماموں جان، کیا اونٹ کے کو ہان میں پانی کا ذخیرہ ہوتا ہے؟“
”نہیں نہیں!“ ماموں جان نے مسکرا کر کہا۔”کو ہان میں تو چربی کا ذخیرہ ہوتا ہے۔ اگر اونٹ کو خوراک نہ ملے تو یہ فالتو چربی اس کی غذائی ضرورت پوری کرتی رہتی ہے۔ کئی دن خوراک نہ ملے تو کو ہان چھوٹے ہو کر غائب بھی ہو سکتے ہیں۔“
”ماموں جان، اونٹ تو بڑا ز بر دست جانو رہے۔“
”اس میں کیا شک ہے۔ دیکھنے میں تو یہ عجیب سا جانور لگتا ہے مگر یہ انسان کے بہت کام آتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ سے ہجرت فرمائی تو اونٹنی پر سفرفرمایا۔ پھر فتح مکہ کے وقت بھی آپؐ اونٹنی پر سوار تھے۔ آپؐ نے جہاں عام جانوروں کا خیال رکھنے کی ہدایت کی ہے وہاں اونٹوں کا بھی خیال رکھنے کا حکم دیا۔ ایک بار آپؐ ایک صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے، وہاں ایک اونٹ تھا، اُس نے آپؐ کو دیکھا تو اس نے ایسی درد بھری آواز نکالی جیسی آواز، بچے سے جدا ہو جانے پر اونٹنی کی ہوتی ہے اور اُس کی آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہو گئے۔ آپؐ اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس پر شفقت سے اپنا دست مبارک پھیرا۔ وہ اونٹ خاموش ہو گیا، پھر آپؐ نے دریافت فرمایا کہ یہ اونٹ کس کا ہے؟ ایک انصاری نوجوان آئے، عرض کیا یہ اونٹ میرا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اس بے زبان جانور کے بارے میں تم اللہ سے ڈرتے نہیں، جس نے تمہیں اس کا مالک بنایا ہے۔ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور زیادہ کام لے کر اسے دکھ پہنچاتے ہو۔“(ابوداؤد)
ماموں جان نے گھڑی دیکھی۔ ماہ رخ سمجھ گئی کہ ماموں جان اب سونا چاہتے ہیں۔ اس نے ماموں جان کو پیار سے دیکھا اور بولی:
”ماموں جان، آج اونٹ کی سواری میں اتنا مزہ نہیں آیا جتنا مزہ آپ کے ساتھ اونٹ کے بارے میں حیرت انگیز باتیں سن کر آیا ہے۔ اب میں چلتی ہوں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔ السلام علیکم۔“
ماہ رخ نے اپنے کمرے کی طرف جاتے ہوئے کہا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top