ست رنگی
ڈاکٹر عمران مشتاق
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مجھے اصل گھوڑا چاہیے وہ بھی سات رنگوں والا‘‘
سیٹھ بارود والا ہلکے سے مسکرائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’سیٹھ صاحب! میری مجبوری کو سمجھیں۔ اگر میں نے فیس نہ دی تو میں کالج نہیں جا سکوں گا۔‘‘ اس کی آواز میں ایک انوکھا درد تھا۔
’’کیوں بھئی ہم کیوں تمھاری مجبوری کو سمجھیں۔ہماری بھلا کیا مجبوری ہے؟‘‘سیٹھ امجد بارود والا نے اپنے مخصوص انداز میں کہا۔
’’سر! آپ کے لیے تو اس رقم کی کوئی اہمیت نہیں مگر میرے لیے یہ زندگی کا مسئلہ ہے۔‘‘وہ بڑی لجاجت سے بولا تھا۔
’’میاں! اگر ہم نے پیسے کو اہمیت نہ دی ہوتی تو ہم آج یہاں نہ بیٹھے ہوتے اور ویسے بھی زندگی کا مسئلہ ہے موت کا تو نہیں۔اس پر بھی اللہ کا شکر ادا کرو۔‘‘سیٹھ بارود والا نے اپنی اونچی مسند سے ٹیک لگاتے ہوئے کہا۔
’’ڈیڈی!بے چارہ اتنی تھوڑی سی رقم تو مانگ رہا ہے۔آپ دے کیوں نہیں دیتے۔‘‘ سیٹھ بارود والا کے بیٹے واجد نے اس کی سفارش کی۔
’’خبردار جو ہمیں ڈیڈی کہا۔کتنی دفعہ کہا ہے کہ سیدھا سادھا ابا کہا کرو۔‘‘
’’سیدھا سادھا ابا۔‘‘ واجد نے دھیرے سے دہرایا۔ ’’اصل میں سیدھا سادھا ابا کہنا عجیب سا لگتا ہے۔‘‘
’’ہماری زبان نہیں پکڑا کرو۔ خالی ابا کہا کرو۔‘‘سیٹھ بارود والا بُرا مان گئے۔
’’اب پھر وہی خالی اَبّا۔‘‘واجد نے اپنی انگلیوں سے ماتھے کو چھوا۔
’’اچھا بھئی!اب تم جاؤ۔‘‘سیٹھ بارود والا اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے جانے کے لیے کہا۔
’’ایسا نہ کریں۔اللہ کریم آپ کو مزید نوازے۔‘‘اس نے آہستہ سے آمین کہتے ہوئے ان کی طرف اُمید بھری نظروں سے دیکھا۔
’’وہ تو ضرور نوازے گا اگر ہم نے یوں ہی اس کی دی ہوئی دولت کو لٹانا نہیں شروع کر دیا۔‘‘ ان کا اشارہ واضح تھا۔
*۔۔۔*
نام ان کا سیٹھ بارود والا تھا۔اسلحے اور بارود کے کام سے ان کا دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ان کی ماچس بنانے کی فیکٹری تھی جس کی وجہ سے شاید وہ بارود والا کہلاتے تھے۔ اصل بات شاید انھیں خود بھی نہیں معلوم تھی۔اس کے علاوہ بھی ان کے متعدد کاروبار تھے۔سیٹھ بارود والا کو نت نئے مقابلوں کا شوق تھا۔خود بھی حصہ لیتے اور مقابلوں کا انعقاد بھی کرواتے تھے۔فطرتاً روپے پیسے کو دانت سے پکڑ کر رکھتے تھے۔ البتہ مقابلوں میں جی کھول کر خرچ کرتے تھے۔بڑے بڑے انعامات بھی دیتے تھے۔
وہ اس وقت ایک مزیدار کتاب پڑھ رہے تھے جو کہ انھیں دو دن پہلے ہی پوسٹ مین سے موصول ہوئی تھی۔ کتاب پڑھتے پڑھتے وہ زور سے چونکے تھے۔ انھیں ایک سنسنی خیز خیال آیا تھا۔خیال آنے کی دیر تھی کہ اُنھوں نے اپنے منیجر کو بلوا کر فوراً ہی ہدایت نامہ جاری کر دیا۔
منیجر اس طرح کے احکامات پہ عمل کرنے کا وسیع تجربہ رکھتا تھا۔اس نے ان کے کہنے کے مطابق عمل کیا۔
*۔۔۔*
وہ’’ اپنا گھر‘‘ اسکول کے سالانہ مقابلے اور انعامات کی تقریب میں موجود تھے۔’’اپنا گھر‘‘ ایک ایسا ادارہ تھا جہاں پر یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کا انتظام کیا جاتا تھا۔ ان کے اسکول کا معیار اتنا اعلا تھا کہ عام بچے بھی وہاں بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔ان سے مناسب فیس لی جاتی تھی جس کی بدولت اسکول کا مالی نظام اچھی طرح سے چلتا تھا۔سیٹھ بارود والا اس دن تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ اُنھوں نے انعامات تقسیم کیے اور پھر اُنھوں نے تقریر کی۔بہت سوچ سمجھ کر اُنھوں نے ’’اپنا گھر‘‘ اسکول کے لیے پچاس ہزار روپے کا اعلان کیا۔انھیں معلوم تھا کہ یہ موقع تو نہیں پھر بھی ان کا جی چاہا کہ وہ اپنے نئے مقابلے کا اعلان یہاں بھی کریں۔
ٓان کے اعلان نے تو جیسے سارے اسکول میں سنسنی سی دوڑا دی تھی۔ اُنھوں نے کہا تھا کہ’’ انھیں ایسا گھوڑا چاہیے جو ست رنگی ہو۔سفید بھی ہو،کالا رنگ بھی ہو،بھورا بھی ہو، لال بھی ہو،جامنی بھی ہو،پیلا بھی ہو اور ایک رنگ قوس و قزح کا بھی ہو۔جو بھی ایسا گھوڑا لائے گا اسے بڑے انعام سے نوازا جائے گا۔‘‘اُنھوں نے مزید کہا۔’’میں یہ اعلان دو ممتاز اخبارات میں شائع کروا چکا ہوں اور آج شام اس سلسلے میں میں لوگوں کو میں نے اپنے فارم پہ دعوت بھی دی ہے۔‘‘
ان کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ’’ان کے اس مقابلے میں کوئی بھی فتح یاب نہیں ہو سکتا۔‘‘اس یقین کی وجوہات بھی تھیں۔ زیادہ تر لوگ ان کے اس خیال سے متفق تھے کہ ایسا گھوڑا کوئی بھی نہیں لا سکتا۔‘‘
ابھی وہ اپنی تقریر اور اعلان ختم کر کے اپنی جگہ سے بیٹھے ہی تھے کہ ایک لڑکا اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔’’میں آپ کے لیے ایسا گھوڑا لا سکتا ہوں۔‘‘ وہ بچہ ارمان تھا۔ اسی اسکول کا ہونہار طالب علم۔اس کا دنیا میں کوئی بھی نہیں تھا۔اس نے آج سیٹھ بارود والا سے اپنی تعلیمی قابلیت پہ انعام بھی وصول کیا تھا۔
’’تم لاؤ گے۔یعنی کہ تم لاؤ گے؟‘‘سیٹھ بارود والا نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا تھا۔
’’آپ نے یہ اعلان یہاں پہ اس اسکول میں کیا اس کی کوئی تو وجہ ہو گی۔آپ یقیناًاس اعلان کے ذریعے ہمارا مذاق تو نہیں اُڑائیں گے ناں۔‘‘ارمان نے بڑے اعتماد سے جواب دیا۔
’’ہاں ہاں!تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔مجھے معلوم ہے کہ اس اسکول کے بچے بے حد ذہین ہیں۔اور ذہانت کے لیے عمر شرط نہیں ہوتی۔‘‘سیٹھ بارود والے پہلے تو گھبرا گئے تھے لیکن پھر سنبھلتے ہوئے اُنھوں نے جواب دیا۔
*۔۔۔*
یہ اسی دن کی شام کا ذکر ہے۔ ان کے فارم ہاؤس پہ رَش لگا ہوا تھا۔اس فارم پہ گھوڑوں کی پرورش کی جاتی تھی۔سیٹھ بارود والا خود تو کبھی بھی گھوڑے پر نہیں بیٹھے تھے مگر اچھی نسل کے گھوڑے ان کی کمزوری تھے۔
سیٹھ بارود والا اس وقت کسی خاص قسم کے موڈ میں تھے جو اعلان کر بیٹھے تھے کہ’’جو کوئی ان کا مطلوبہ گھوڑا لے کر آئے گا، وہ ان کے فارم کا مالک ہو گا۔‘‘پہلے اُنھوں نے ایک بڑے انعام کی بات کی تھی۔ان کے تازہ اعلان کا سن کر ان کا منیجر گھبرا گیا اور اس نے ان کے کانوں میں کھسر پھسر کی، البتہ سیٹھ بارود والا کے اطمینان میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔
ان کے مطلوبہ گھوڑے کے رنگوں کی شرائط سن کر سب میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ایسی شرط بھلا کون پوری کر سکتا تھا۔ آہستہ آہستہ لوگ فارم ہاؤس سے جانا شروع ہو گئے۔ اب وہاں تھوڑے سے لوگ باقی رہ گئے تھے۔ ان ہی تھوڑے لوگوں میں ارمان بھی تھا۔ ارمان ان کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔اس کے ہاتھ میں کچھ تھا۔
’’کہو!نوجوان کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ سیٹھ بارود والا نے شاہانہ انداز اختیار کیا۔
’’میں آپ کے لیے ست رنگی گھوڑا لے آیا ہوں۔‘‘ ارمان نے بے حد سنجیدگی سے کہا۔
’’اچھا۔کہاں ہے؟‘‘سیٹھ بارود والا نے آس پاس نظر دوڑائی۔
’’آپ کے سامنے ہے۔‘‘ ارمان نے اپنا ہاتھ آگے کیا۔اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا پوسٹر تھا۔اس نے پوسٹر سامنے کیا تو سیٹھ بارود والا آگے جھک گئے۔ پوسٹر پہ ایک گھوڑے کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ تصویر مختلف رنگوں سے سجی ہوئی تھی۔
’’دیکھ لیں۔آپ کا ست رنگی گھوڑا۔آپ کو یہی چاہئے تھا ناں؟‘‘ارمان نے پوچھا۔
’’نہیں۔مجھے اصل گھوڑا چاہیے وہ بھی سات رنگوں والا۔‘‘سیٹھ بارود والا ہلکے سے مسکراے۔ ان کی مسکراہٹ میں پھیکا پن تھا۔
’’آپ نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا تھا۔ آپ نے صرف ست رنگی گھوڑے کی بات کی تھی۔زندہ گھوڑے کی بات کی ہوتی تو شاید آپ جیت گئے ہوتے۔ البتہ ناممکن تو وہ بھی نہیں۔‘‘ ارمان کا جواب سن کر سیٹھ بارود والا مسکرا دئیے۔پھر بولے۔ ’’مجھے خوشی ہے کہ میں نے مقابلے کا اعلان اسکول میں کیا۔یہ ذہانت کا مقابلہ تھا اور تم نے اسے جیت لیا ہے۔‘‘
ان کی بات سن کر ارمان نے سکون کا سانس لیا۔
’’اس مقابلے کا ایک پہلو اور بھی ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر میں زندہ ست رنگی گھوڑا لانے کو کہتا تو پھر تم کیا کرتے؟‘‘ سیٹھ بارود والا نے پھر اس کی ذہانت جانچنے کی ٹھانی تھی۔
’’میں ایسا کر سکتا ہوں البتہ آپ کو میری ایک شرط ماننا پڑے گی۔‘‘ارمان کے پراعتماد جواب پر وہ حیران رہ گئے تھے۔
’’ہم تمھاری شرط مانتے ہیں۔اپنی شرط بتاؤ۔‘‘
’’میری شرط تو بے حد آسان ہے۔‘‘ارمان دھیرے سے مسکرایا۔’’میں آپ کے لیے ست رنگی گھوڑا ایسے دن لے کر آؤں گا جب نہ تو پیر ہو اور نہ ہی منگل ہو۔بدھ ہو نہ جمعرات ہو۔جمعہ ہو اور نہ ہی ہفتہ ہو یا اتوار۔‘‘
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے۔اگر ساتوں دن میں سے کوئی ایک دن بھی نہ ہو۔یہ تو ممکن ہی نہیں۔‘‘سیٹھ بارود والا نے نفی میں سر ہلایا۔
’’اگر ایسا ہونا ممکن نہیں تو پھر خود ہی بتائیے کہ ست رنگی گھوڑا کہاں سے آ سکتا ہے۔‘‘ارمان کا جواب سن کر وہ زور سے ہنس پڑے اور اسے بہت شاباش دی۔
’’تم خود کو ایک بڑے انعام کا مستحق ثابت کر چکے ہو۔مانگو کیا مانگتے ہو۔‘‘سیٹھ بارود والا نے شاہانہ انداز اختیار کیا۔
’’مجھے ذاتی انعام کی ضرورت نہیں۔اگر آپ کر سکیں تو۔۔۔‘‘ارمان نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’ہاں ہاں کہو۔‘‘
’’ ’’اپنا گھر‘‘اسکول کے پچاس لڑکوں نے اس سال کالج جانا ہے۔’’اپنا گھر‘‘ کی انتظامیہ کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ ان کے کالج کی فیس دے سکے۔اگر آپ چاہیں تو وہ کالج جا سکتے ہیں۔‘ ‘ارمان نے جھجھکتے ہوئے اپنا مدعا بیان کیا۔
کیوں نہیں۔یہ تو بہت ہی چھوٹی سی بات ہے۔میں ان کی فیس بھی دوں گا اور ان کے لیے وظائف کا نتظام بھی اپنے مخیر دوستوں کی مدد سے کر دوں گا۔‘‘ سیٹھ بارود والا نے ارمان سے وعدہ کیا۔وہ ارمان کو جاتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔انھیں یاد آ گیا تھا کہ ارمان ان کے گھر کالج کی فیس کے سلسلے میں آیا تھا اور اُنھوں نے اسے مایوس لوٹا دیاتھا۔
*۔۔۔*