رومال کی ٹوپی
کہانی: The Handkerchief Cap
مصنفہ: Enid Blyton
مترجم: محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔
دُبلے پتلے اور چھوٹے سے قد والے مسٹر’اوہو‘دنیا کے سب سے بھلکڑ انسان تھے۔حتیٰ کہ بعض اوقات وہ اپنا نام پتا تک بھول جاتے تھے ۔یہی وجہ تھی کہ ان کی جیب میں ہمیشہ ایک نوٹ بک رہا کرتی تھی جس پر ان کا نام اور پتا لکھا ہوا ہوتا تھا۔انہیں خریداری کے لیے بازار بھیجنے کا تجربہ بھی کبھی اچھا نہیں رہا۔کبھی نہیں ہوا کہ وہ درست چیز لے کر واپس آئے ہوں۔ اگر کبھی ان کی بیوی نے انہیں مرغی کا گوشت لینے بھیجا تو وہ زندہ مرغی کے ساتھ واپس آئے۔تو آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان سے کتنی امید رکھی جا سکتی تھی۔
ایک دن انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ وہ رومال میں گرہیں لگا لیا کریں، اس طرح انہیں چیزیں یاد رکھنے میں آسانی ہوگی۔
’’مثال کے طور پر اگر آپ اپنی بیوی کی سال گرہ یاد رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ ان کے دوست نے کہا۔’’تو آپ اپنے رومال میں صرف ایک گرہ لگا لیجیے! پھر جب بھی آپ اسے جیب سے باہر نکالیں گے، فوراً کہہ اٹھیں گے۔’آہا ! مجھے اپنی بیوی کی سال گرہ اچھی طرح یاد ہے۔‘ کیا یہ اچھا مشورہ نہیں ہے؟‘‘
’اوہو‘ نے سوچا کہ یہ تو ایک شاندار مشورہ ہے۔اگلے ہی دن ان کی بیوی نے ان سے کہا۔’’جب دھوپ تیز ہوجائے تو ٹوپی پہننا نہ بھولیے گاورنہ آپ کو لُو لگ جائے گی۔اپنے رومال میں گرہ لگا لیجیے تاکہ آپ کو یاد رہے۔‘‘
چناں چہ ’اوہو‘ نے اپنی یاد داشت کے لیے رومال کے ایک کونے پر ایک بڑی سی گرہ لگادی۔مگر پھر انہیں یاد آیا کہ ان کی پرانی ٹوپی تو گزشتہ دنوں آنے والی آندھی اڑا لے گئی تھی۔پھر انہوںنے دوسرے کونے پر ایک اور گرہ لگادی تاکہ جب باہر نکلیں تو انہیں نئی ٹوپی لینا یاد رہے۔
’’ آپ کو اپنا ناپ یاد ہے؟‘‘ان کی بیوی نے ان سے پوچھا۔’’ساڑھے سات ہے، اب مت بھولیے گا۔اگر آپ ایسی ٹوپی پہنے گھر آتے دکھائی دیے جو آپ کی ناک تک آئی ہوئی، تو مجھے بڑا بُرا لگے گا۔‘‘
’’ساڑھے سات!‘‘ یہ کہتے ہوئے ’اوہو‘ نے اگلے کونے پر ایک تیسری گرہ لگادی تاکہ ناپ یاد رہ سکے۔’’لیکن فرض کرو کہ میں اپنے رومال کو نہیں دیکھتا؟‘‘اچانک انہوں نے سوچا۔’’اور مجھے کچھ یاد نہیں آتا۔ اس میں چوتھی گرہ لگا دیتا ہوں تاکہ پہلے والی گرہوں کو دیکھنا یاد رہے، اور جو کام کرنے ہیں وہ بھی یاد رہیں!‘‘ چنانچہ انہوں نے چوتھے کونے میں گرہ لگادی اور اپنا رومال واپس جیب میں ڈال لیا۔
اگلے دن شدید گرمی اور تیز دھوپ تھی۔’اوہو‘ سیر کے لیے نکلے اور دھوپ سے لطف اندوز ہونے لگے۔انہیں اس قدر گرمی لگی کہ ان کا ماتھا پسینے سے بھیگ گیا۔انہوں نے اپنا چہرہ پونچھنے کے لیے رومال نکالا اور اسے گرہوں سے بھرا دیکھ کر حیران ہوگئے۔
’’یہ ساری گرہیں کس لیے ہیں؟‘‘انہوں نے حیرت سے اپنے رومال کو دیکھا۔’’ ہر کونے پر ایک گرہ…کیسی عجیب بات ہے ، آخر میں نے یہ لگائی کس لیے ہیں؟‘‘
بے چارے بوڑھے ’اوہو‘ کو یاد ہی نہیں آرہا تھا کہ انہوں نے گرہیں کیوں لگائی تھیں۔ حالانکہ انہوں نے اپنے دماغ کو دس منٹ تک خوب جھنجھوڑا مگر ناکام رہے۔پھر جیسے ہی سورج عین ان کے ننگے سر پر آیا۔ انہیں یک دم خوف لاحق ہوا کہ کہیں لُو نہ لگ جائے۔
انہوںنے اپنے گرہوں لگے رومال کو دیکھا اور پھربھرپور مسکرائے۔’’ یقینا اب یہ ایک چھوٹی سی ٹوپی ہے۔ میرا خیال ہے کہ میری بیوی نے اسے چھوٹی سی ٹوپی کی شکل دینے کے لیے اس کے ہرکونے پر گرہ لگا دی ہے تاکہ آج جب سورج سر پر ہو تواسے پہن سکوں۔‘‘ چنانچہ انہوں رومال کی ٹوپی سر پر رکھی اور اطمینان کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑے۔اور ہاں بچو! آپ جان ہی گئے ہوں گے کہ پہلی باررومال کی ٹوپی کیسے بنی …اس کی وجہ صرف یہ بنی کہ مسٹر’اوہو‘ کو یاد ہی نہیں رہا کہ گرہیں کیوں لگائی تھیں۔