رنج و غم کے آداب
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔
سعید اور منیر کے بابا نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھا لیا۔
”السلام علیکم۔“ وہ بولے اور پھر دوسری طرف سے کوئی بات سنتے ہی گھبرا کر بولے:
”انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔۔ کب۔۔۔ کیسے؟ اچھا تو شہر لے گئے ہیں، کس ہسپتال میں؟ اچھا میں سب کو اطلاع دیتا ہوں۔۔۔ اللہ حافظ۔“
ریسیور رکھ کر انھوں نے سعید کو آواز دی۔ سعید کمرے میں داخل ہوا تو بابا نے پریشانی کے ساتھ کہا:
”گاؤں سے شہر جانے والی بس راستے میں گہرے کھڈ میں گر گئی ہے، کئی افراد فوت ہو گئے ہیں، بہت سے زخمی ہیں۔“
ذراسی دیر میں گاؤں بھر کے لوگ اس جگہ جمع ہو گئے تھے۔ جہاں شہر سے آنے والی سڑک گاؤں میں داخل ہوتی تھی۔ ہر چہرہ اداس تھا۔ جاوید اور خالد کا تو رو رو کر برا حال تھا۔ ان کے چچا جان اسی بس سے شہر گئے تھے۔
”بھائیو، گاؤں کے کئی لڑکے شہر بھیج دیے گئے ہیں۔“مسجد کے پیش امام مولانا رحمت اللہ نے اعلان کیا۔”اللہ سے دعا کریں کہ خیریت رہے۔ سب لوگوں کو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھنا چاہیے۔ یہ قرآنی دعا ہر قسم کی مصیبت، رنج و غم کے موقع پر پڑھی جاسکتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جب کوئی بندہ، مصیبت پڑنے پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہے تو اللہ اس کی مصیبت کو اس سے دور فرما دیتا ہے، اس کو اچھا انجام عطا فرماتا ہے اور اس کی پسندیدہ چیز اس کے بدلے عطا کرتا ہے۔ ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا ہے کہ جو آدمی کسی مصیبت کے موقع پر انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا ہے، اس کے لیے تین اجر ہوتے ہیں، ایک یہ کہ اس پر اللہ کی طرف سے رحمت اور سلامتی اترتی ہے، دوسرے، اس کو حق کی تلاش کا اجر ملتا ہے، تیسرے، اس کے نقصان کے بدلے، اس سے اچھی چیز دی جاتی ہے۔“
آخر ایک ایمبولینس سڑک پر نمودار ہوئی۔ ہجوم کے قریب پہنچ کر وہ رک گئی۔ اس میں سے گاؤں کے دو نو جوان اصغر اور اکرم اترے۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
”رب کی مرضی یہی تھی۔“ اکرم نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ”چاچا رشید اللہ کو پیارے ہو گئے۔ تین آدمی دوسرے گاؤں کے فوت ہوئے ہیں، پانچ زخمی بھی دوسرے گاؤں کے ہیں۔ ہم میت لے آئے ہیں۔“
یہ سنتے ہی جاوید اور خالد دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ ان کے چچا جان انہیں چھوڑ گئے تھے۔ مولانا رحمت اللہ، اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب اور دوسرے بہت سے لوگ ان دونوں بچوں کو بار بار گلے لگا کر تسلیاں دے رہے تھے۔ بہت سے افراد ہچکیاں لے کر رو رہے تھے۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے فوراً چند نو جوانوں کو قبرستان میں قبر کا انتظام کرنے کے لیے بھیج دیا اور مولانا رحمت اللہ سے درخواست کی کہ میت کے غسل کا انتظام فرما ئیں۔ کچھ لوگ کہنے لگے:
”اتنی جلدی کیا ہے۔ میت کو پہلے گھر لے جائیں، گھر والے دیدار توکرلیں۔“
”دیکھیے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت یہ ہے کہ جنازے میں جلدی کرو، ویسے بھی لاش حادثہ سے متاثر ہوئی ہو گی، اس کے خراب ہونے کا خطرہ ہے۔ گرمی بہت ہے۔“ مولانا رحمت اللہ نے سمجھایا اور میت کے غسل کا انتظام کرنے چلے گئے۔ میت غسل کے لیے مسجد پہنچادی گئی۔
چچا رشید کے گھر میں تو جیسے قیامت گزرگئی تھی۔ بیوہ بین کر کے رو رہی تھی۔ اپنا منہ پیٹ رہی تھی۔ مولانا رحمت اللہ کی بیگم گھر میں داخل ہوئیں تو عورتوں نے احترام کے ساتھ ادھر اُدھر سمٹ کر مولانا کی بیگم کو جگہ دی۔ مولانا کی بیگم نے بیوہ عورت کو گلے لگایا۔ بیوہ مولانا کی بیگم کے کندھوں پر سر رکھ کر رونے لگیں۔ مولانا کی بیگم نے ان کی پشت کو تھپکتے ہوئے کہا:
”پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مومن کا معاملہ بھی خوب ہے وہ جس حال میں ہوتا ہے، خیر ہی سمیٹتا ہے۔ اگر وہ دکھ، بیماری اور تنگ دستی سے دوچار ہوتا ہے تو سکون سے برداشت کرتا ہے اور یہ آزمائش اس کے حق میں خیر ثابت ہوتی ہے اور اگر اس کو خوشی اور خوش حالی نصیب ہوتی ہے تو شکر کرتا ہے اور یہ خوش حالی اس کے لیے خیر کا سبب بنتی ہے۔“
سب عورتیں توجہ سے سن رہی تھیں۔ مولانا کی بیگم بولیں:
”اس آزمائش میں آپ سب کے لیے ثواب ہے۔ آپؐ نے فرمایا ہے کہ جس نے کسی مصیبت میں پڑے ہوئے کو پُر سا دیا، اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا، جتنا کہ خود مصیبت میں مبتلا ہونے والے کو ملے گا۔“
”سبحان اللہ!“ بہت سی عورتیں بولیں۔ مولانا کی بیگم نے بات جاری رکھی:
آپﷺ نے فرمایا ہے:”اللہ جب کسی گروہ سے محبت کرتا ہے تو اس کو آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے، چنانچہ جو لوگ اللہ کی رضا پر راضی ہوں، اللہ بھی ان سے راضی ہوتا ہے اور جو اس آزمائش میں اللہ سے ناراض ہوں، اللہ بھی ان سے ناراض ہو جاتا ہے۔“
کمرے میں خاموشی چھا گئی،صرف ہلکی ہلکی سسکیاں ابھرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ مولانا کی بیگم نے کہا:
”غم فطری بات ہے، آنکھوں سے آنسو جاری ہو جانا بھی فطری ہے لیکن پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، جو شخص گریبان پھاڑتا ہے، گالوں پر طمانچے مارتا ہے اور جاہلوں کی طرح چیختا چلاتا اور بین کرتا ہے، وہ میری اُمت میں نہیں۔“
یہ سن کر کمرے میں مکمل سناٹا چھا گیا۔ اتنے میں اطلاع آئی کہ میت کو غسل دے کر اور کفن پہنا کر لے آیا گیا ہے۔ لوگ آخری دیدار کر لیں۔ ایک بار پھر رونے کی آوازیں بلند ہوئیں لیکن فوراً ہی سب کو یاد آ گیا کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہے۔ بہت سی عورتیں دوپٹے منہ پر رکھ کر سسکیاں لینے لگیں، کچھ دیر بعد لوگ جنازہ، نماز جنازہ کے لیے لے گئے۔
مولانا رحمت اللہ نے نماز جنازہ پڑھانے کے بعد اعلان کیا:
”مسلمان کا مسلمان پر حق ہے کہ وہ جنازے کے ساتھ جائے۔ جس نے جنازے کی نماز پڑھی، آپؐ کے ارشاد کے مطابق اس کو ایک قیراط کے برابر ثواب ملتا ہے اور جو میت کو دفن کرنے میں بھی شریک ہو، اس کو دو قیراط کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ کسی نے پوچھا کہ دو قیراط کتنے بڑے ہوں گے، فرمایا: دو پہاڑوں کے برابر۔“
اس کے بعد مولانا رحمت اللہ نے کہا:”اب ہم قبرستان جائیں گے لیکن اس دوران میں کچھ لوگ ایک کام کریں کہ مرحوم رشید صاحب کے گھر والوں کے لیے کھانا بھجوا دیں۔ وہ لوگ آج غمگین ہوں گے۔ آپؐ نے بھی ایسے گھروں میں کھانا بھیجنے کی ہدایت فرمائی ہے جہاں کسی کی وفات ہو گئی ہو۔ اس کا بڑا ثواب ہے، بلکہ ساتھ والے گاؤں میں جو لوگ اس حادثہ میں فوت ہوئے ہیں، ان کے گھر والوں کے لیے بھی کھانا بھیجنا چاہیے۔“
چچا رشید کے گھر پر خواتین کے لیے قرآن خوانی کا اہتمام کر دیا گیا تھا۔ مسجد میں بھی مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کی گئی۔ اس موقع پر مولانا رحمت اللہ نے کہا:
”آپ لوگ ایک ضروری بات سن لیں۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میت کا سوگ تین دن تک ہے،البتہ بیوہ کے سوگ کی مدت چار مہینے دس دن ہے۔ اس مدت میں وہ نہ تو کوئی رنگین کپڑا پہنے، نہ خوشبو لگائے، نہ کوئی بناؤ سنگھار کرے لیکن میت کے دوسرے رشتہ داروں اور دوستوں کو تین دن سے زیادہ سوگ نہیں کرنا چاہیے۔“
یہ کہہ کر مولانا رحمت اللہ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے۔