راستہ
کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔
”رضیہ بیٹی، یہ سامان اٹھا کر رکھ دو۔“ عالیہ بیگم نے آواز دی۔ ان کے سامنے، دھاگے، موتی اور آرائش کی اشیاء بکھری ہوئی تھیں۔ وہ کئی گھنٹے سے سجاوٹی اشیاء تیار کرنے میں مصروف تھیں۔
”اچھا امی جی آتی ہوں۔“ رضیہ کی آواز پیچھے والے کمرے سے آئی۔
”جلدی کرو، تمہارے ابا جی آتے ہی ہوں گے۔ خبر نہیں کہاں کہاں مارے مارے پھر رہے ہوں گے۔ دوپہر میں کچھ کھایا بھی ہوگا یا نہیں۔“ آخری جملہ کہتے ہوئے عالیہ بیگم کی آواز بھر ا گئی اور وہ سوچنے لگیں کہ ان کے شوہر صابر علی اس وقت رات کے گیارہ بجے کہاں ہوں گے۔“
٭……٭……٭
صابر علی صاحب اس وقت ایک ویران سے پل کے اوپر سے گزر رہے تھے۔ گزشتہ کئی دنوں سے وہ بے روزگار تھے۔ کبھی کبھار ہول سیل مارکیٹ کے شیخ امداد علی کو ترس آ جاتا تو وہ انہیں بلا کر لکھنے پڑھنے کا کوئی کام دے دیتے تھے۔ آج بھی شیخ صاحب کا منشی نہیں آیا تھا تو شیخ صاحب نے صابر علی کو بلا لیا تھا۔
شیخ صاحب، دال، چاول اور مسالوں کا تھوک بیو پار کرتے تھے۔ صابر علی صاحب ان کی دکان کے حسابات دیکھتے تو ان کی سمجھ میں بہت سی باتیں نہیں آتی تھیں۔ بس شیخ صاحب ان سے جتنی رقوم میں جمع تفریق کرواتے، وہ چپ چاپ کرتے چلے جاتے۔
صابر علی صاحب کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ رات کتنی گزرگئی ہے۔ وہ بھی شیخ صاحب کی دکان سے چلے تھے تو دکان میں لگی گھڑی ساڑھے دس بجا رہی تھی۔ ان کی جیب میں بس کے کرائے کے پیسے تک نہ تھے، اس لیے وہ پیدل ہی گھر جا رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پیدل چلتے ہوئے انہیں بیس پچیس منٹ ہو چکے ہیں۔ آج دکان میں حساب کتاب کا کام زیادہ تھا اس لیے دیر تک رکنا پڑا تھا۔ شیخ صاحب اتنے مصروف تھے کہ انہیں یہ پوچھنے کی فرصت تک نہ ملی کہ صابر علی صاحب نے کھانا کھایا ہے یا نہیں۔ شیخ صاحب نے انہیں کچھ رقم بھی نہ دی۔ شاید وہ دے بھی دیتے، مگر وہ تو ایک فون سنتے ہی فوراً کہیں چلے گئے تھے۔
اچانک ٹارچ کی تیز روشنی صابر علی صاحب کے چہرے پر پڑی۔ ان کی آنکھیں چندھیا گئیں۔
”کون ہو تم؟“ ایک کرخت آواز آئی۔
”میں۔۔۔ ص۔۔۔ صابر علی۔“
”کہاں سے آ رہے ہو؟“
”شیخ امداد علی کی دکان سے۔“
”آؤ میرے ساتھ، تمہیں نوکری دینا ہے۔“
”نوکری!“ صابر علی صاحب خوش ہو گئے۔ پھر وہ کچھ پریشان، کچھ پر امید ہو کر اس سائے کے پیچھے پیچھے چل پڑے، جس نے ان پر ٹارچ کی روشنی ڈالی تھی۔ ان کو خبر ی نہ تھی کہ ایک اور سایہ نگرانی کے لیے ان کے پیچھے آرہا ہے۔ صابر علی، سائے کے پیچھے چلتے ہوئے ایک ویران کھنڈر نما مکان میں داخل ہو گئے۔ آگے چلنے والے سائے نے ایک دروازے پر مخصوص انداز سے دستک دی اور اندر داخل ہو گیا۔ اس نے صابر علی صاحب کو بھی اندر آنے کا اشارہ کیا تھا۔
اندر مدھم روشنی تھی۔ صابر علی صاحب نے دیکھا کہ ایک تنومند شخص گاؤ تکیے سے ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا ہے۔ اس شخص کی بڑی بڑی مونچھیں ہیں، دود بلے پتلے نو جوان، اس شخص کے ہاتھ پاؤں دبا رہے ہیں۔
اب صابر علی صاحب نے اپنے ساتھ آنے والے شخص پر نظر ڈالی۔ وہ نوکیلی مونچھوں اور تیز نگاہوں والا ایک شخص تھا۔ سر پر چھوٹے چھوٹے بال تھے۔ جب وہ بڑی مونچھوں والے شخص سے مخاطب ہوا تو صابر علی کو بڑی حیرت ہوئی، کیونکہ ابھی تھوڑی دیر پہلے ویرانے میں اس نے بڑی کرخت آواز میں ان سے بات کی تھی اور اب وہ بڑی دھیمی آواز میں ادب سے کہہ رہا تھا۔
”سردار، یہ صوفی صاحب آگئے ہیں۔“
”صوفی صاحب، آپ شیخ امداد علی کی دکان پر کام کرتے ہو؟“ سردارنے ان کی طرف دیکھتے ہوئے حیران ہو کر پوچھا۔
”اس کو چھوڑیں جی، کیسے معلوم ہوا، یہ بتا ئیں، آپ کو معلوم ہے، شیخ امداد کتنا بے ایمان آدمی ہے؟“سردار نے ابھی تک ان کی طرف نہیں دیکھا تھا۔
”مجھے نہیں معلوم!“
”ہمیں معلوم ہے! یہ آدمی گھٹیا چالوں میں تھوڑے سے اچھے چاول ملاکر مہنگے داموں بیچتا ہے۔ مسالوں میں، اینٹوں کا برادہ ملاتا ہے۔ ناپ تول میں بے ایمانی کرتا ہے اور اپنے کھاتوں میں بھی گڑ بڑ کرتا ہے۔“ سردار نے پہلی باران کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”ممکن ہے کرتا ہو، مگر میں کیا کر سکتا ہوں؟“ صابر علی نے اکتا کر پوچھا۔
”آپ بہت کچھ کر سکتے ہو۔ آپ صرف اتنا کرو کہ اس بار آپ شیخ امداد کی دکان پر جاؤ تو موقع پا کر دکان کی چابیاں اٹھا لینا۔ ہمیں معلوم ہے، شیخ امداد کے ملازم دکان کی چابیاں دکان کے پچھلے حصے میں ڈال کے رکھتے ہیں۔ ہم آپ کو بالکل اس جیسی دوسری چابیوں کا گچھا دیں گے، وہ وہاں ڈال دینا۔ شیخ امداد کو شک بھی نہیں ہو گا۔ گھر جاتے ہوئے وہ چابیاں اپنی جیب میں ڈال لے گا، کبھی کبھی تو اس کے نوکرہی دکان کی چابیاں اس کے گھر پہنچاتے ہیں۔ تالے اس کے کھٹکے والے ہیں،’کڑچ‘ سے بند ہوتے ہیں۔ بس آپ وہ چابیاں دکان سے نکلنے کے بعد، ہمارے اس آدمی کو دے دینا۔“ سردار نے اس آدمی کی طرف اشارہ کیا جو صابر علی صاحب کو اس مکان تک لے کر آیا تھا۔”بس ہم جانیں اور ہمارا کام۔“
صابر علی صاحب کو ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کا دل اچھل کر حلق میں آ گیا ہے۔ دل کی دھڑکن انہیں سر میں محسوس ہو رہی تھی۔ ان کی یہ حالت دیکھ کرسردار بولا:
”ارے! اس بدمعاش کا مال کھانا تو ثواب کی بات ہے۔ پھر بھی آپ سوچو، آپ خود تو اس کا مال نہیں کھا رہے، آپ پر کوئی بات نہیں آئے گی۔ آپ کو کوئی دیکھے گا بھی نہیں، آپ باتھ روم کے بہانے دکان کے پیچھے والے حصے میں جانا اور چابیاں بدل دینا۔“
”مگر۔۔۔!“
”اگر مگر کچھ نہیں۔ ہم آپ کو اس معمولی سی محنت کے بدلے پورے پانچ ہزار روپے دیں گے۔“
”لیکن!“
”پھر لیکن؟ صوفی صاحب، آپ یہ بھی تو دیکھو کہ آپ کن لوگوں سے ٹکرائے ہو۔ ہم وہ لوگ ہیں کہ ہمارے لیے بندہ او پر بھیجنا کوئی مشکل نہیں۔“ سردارنے ’اوپر‘ کہتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی گردن پر چھری پھیرنے کا اشارہ کیا۔
صابر علی صاحب کے بدن میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔ اس بارے میں توانہوں نے سوچا ہی نہ تھا۔
”ڈریں مت صوفی جی، ہاتھ آئی روزی ٹھکرانا اچھا نہیں۔۔۔ لاؤ بھئی چابیوں کا گچھا۔۔۔“ سردار نے کہا۔ فوراً ایک آدمی چابیوں کا گچھا لے کر آ گیا۔
”ہم نے پوری چیکنگ کر لی ہے۔ ایسا ہی گچھا شیخ امداد اللہ کے پاس ہے۔ ہم یہ کام کسی اور سے بھی کروا سکتے تھے مگر کسی وجہ سے آپ سے کروا رہے ہیں۔ لیں، ہمت کریں۔“ سردار نے چابیوں کا گچھا بڑھایا جسے ایک آدمی نے لے کر صابر علی کی جیب میں ڈال دیا، وہ کمزور سا احتجاج کر کے رہ گئے۔
”چل بھئی،صوفی صاحب کو موٹر سائیکل پر گھر چھوڑ آ۔ ان کے گھرسے ذرا دور اتارنا۔“ سردار نے حکم دیا۔
صابر علی صاحب جیسے نیند میں چل رہے تھے۔ کسی نے ان کی جیب میں کچھ نوٹ ڈل دیے۔
”یہ ایڈوانس ہے!“ ایک آواز آئی۔
صابر علی کو کچھ خبر نہ تھی، وہ کس طرح گھر پہنچے۔ دروازے پر دستک کیسے دی۔ دروازہ کھلتے ہی وہ گھر میں داخل ہوئے اور چکرا کر گر پڑے۔
عالیہ بیگم کے ہوش اُڑ گئے۔ بچوں کی مدد سے صابر علی صاحب کو اٹھا کر بستر پر ڈالا۔ جب صابر صاحب ذرا ہوش میں آئے تو انہوں نے بچوں کو کمرے سے باہر بھیج کر سارا واقعہ بیگم کو سنایا۔
عالیہ بیگم سر جھکائے سنتی رہیں۔ پھر وہ آنسو بہاتی ہوئی اٹھی اور ترجمے والا قرآن مجید لاکر صابر علی صاحب کے سامنے کھول کر رکھ دیا۔
”یہ آیت اور اس کا ترجمہ میں نے آج ہی پڑھا تھا۔“ وہ گھٹی ہوئی آواز میں بولیں۔
صابر علی صاحب نے ترجمہ پر نظر ڈالی۔ سورۃ الطلاق کی دوسری آیت کاترجمہ ان کے سامنے تھا:
”جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا، اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا، جدھر اس کا گمان بھی نہ جاتا ہو، جو اللہ پر بھروسا کرے، اس کے لیے وہ کافی ہے۔“
صابر صاحب کو یوں محسوس ہوا جیسے وہ یک دم ہلکے پھلکے ہو گئے ہوں۔ ان کا دل پر پڑا ہوا بھاری بوجھ ہٹ گیا ہو۔ ان کی آنکھوں سے اشکوں کے سیلاب امڈ نے لگا۔ اب انہیں فکر نہ تھی کہ گھر کا خرچ کیسے چلے گا اور خطرناک ڈاکو ان کا کیا حشر کریں گے۔
وہ اٹھے، وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر اپنے رب کے حضور سجدہ میں گر پڑے۔
٭……٭……٭
اگلے دن صبح سویرے کسی نے ان کے دروازے پر دستک دی۔ ان کے ایک دور کے عزیز کھڑے تھے۔ انہوں نے ایک لفافہ ان کو تھمایا۔”بھائی صاحب دس برس پہلے یہ پانچ ہزار روپے آپ نے مجھے قرض دیے تھے۔ میں ملک سے باہر چلا گیا تھا۔ یہ آپ کی امانت واپس کرنے آیا ہوں۔“ صابر صاحب گم سم ہو کر سن رہے تھے۔”اور سینے، اب میں نے فیکٹری لگا لی ہے۔ مجھے ایک ایمان دار اکاؤنٹینٹ کی ضرورت ہے، اور وہ آپ کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ یہ میرا کارڈ ہے، آپ گیارہ بجے تک پہنچ جائیے گا۔ ضرور۔“
صابر صاحب کے عزیز جاچکے تھے اور صابر صاحب کے ذہن میں رات کو پڑھی ہوئی قرآنی آیت کا ترجمہ گونج رہا تھا۔