skip to Main Content

قدرت کا قانون

میرزا ادیب
۔۔۔۔۔۔

وہ ایک دوسرے کے دوست تھے۔ان کی دوستی اس زمانے میں شروع ہوئی تھی جب وہ بچے تھے۔ایک ہی محلے میں رہنے کی وجہ سے انہیں آپس میں ملنے اور مل کر سیر و تفریح کرنے اور کھیل کودنے کا بڑی آسانی سے موقع مل جاتا تھا۔
الطاف کا باپ ریلوے کے محکمے میں ہیڈ کلرک تھا اور نیاز کا باپ ایک معمولی درجے کا بڑھئی۔الطاف کے گھر میں خوش حالی تھی اور نیاز غربت میں زندگی بسر کرتا تھا۔
نیاز نے مڈل امتحان پاس کرلیا تو اس کے والد بیمار رہنے لگے جس سے گھر کی حالت اور خراب ہوگئی۔نیاز تعلیم جاری نہ رکھ سکا۔اس کے باپ نے اسے اپنے ساتھ کام پر لگا لیا۔اس کے مقابلے میں الطاف پڑھتا رہا اور اب میٹرک کرچکا تو مزید تعلیم کے لیے اسے انگلینڈ بھیج دیا گیا۔
الطاف اور نیاز ایک دوسرے سے جدا ہو گئے تھے۔تاہم ان کے دلوں میں محبت قائم رہی اور وہ خط و کتابت کے ذریعے سے اپنی دوستی کو پروان چڑھاتے رہے۔
دوسال کے بعد نیاز کے والد کاانتقال ہوگیا،گھر کی ساری ذمے داری اس پر آپڑی۔نیاز اپنی ذمے داری سے گھبراتا نہیں تھا۔جو کچھ دن بھر محنت کرنے کے بعد اسے ملتا وہ اپنی ماں کے ہاتھ پر رکھ دیتا تھا۔ماں خوش ہوکر اسے دعائیں دیتی اور نیاز دل میں ارادہ کرلیتا تھا کہ وہ زیادہ کام کرکے زیادہ کمائی کرے گا تاکہ گھر کی ساری ضرورتیں آسانی سے پوری ہوتی رہیں۔
نیاز اور الطاف کی محبت میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔دونوں ایک دوسرے کو خطوں کے ذریعہ سے یاد کرتے رہتے تھے اور حال احوال پوچھتے رہتے تھے۔
نیاز کی ماں بھی بیمار رہنے لگی ۔اس کی خواہش تھی کہ مرنے سے پہلے اپنے بیٹے کے سر پرسہرا بندھا ہوا دیکھ لے۔نیاز گھر کی خستہ حالی دیکھ کر اس کے لیے تیار نہیں تھا تاہم ماں کی ایک جائز خواہش بھی رد نہیں کر سکتاتھا۔اس نے ماں سے کہہ دیا:
”اماں!آپ جو چاہیں کریں،میں آپ کے حکم کو ٹالوں گا نہیں۔“
ماں نے کوشش کرکے اپنے عزیزوں میں ایک لڑکی ڈھونڈلی اور اسے بہو بنا لیا۔الطاف خود تو دوست کی شادی میں شامل نہ ہو سکا،مگر اس نے دوست کو اعلیٰ درجے کا لباس بھیج دیا۔یہ لباس دیکھ کر نیاز کا دل خوشی سے کھل اٹھا۔
نیاز کا پہلوٹی کا بیٹا ہوا تو اس کی دادی دنیا میں نہیں تھی۔پوتے کے آنے سے ایک مہینے پہلے وفات پاگئی تھی۔
گھر کے اخراجات میں اضافہ ہوگیا تھا۔نیاز کی بیوی صدیقہ ایک اچھے گھر کی بیٹی تھی۔دل کھول کر خرچ کرنے کی عادی تھی۔نیاز کی آمدنی میں تو اضافہ نہ ہوسکا تھا اس لیے اسے زیادہ محنت کرنے کی ضرورت پیش آئی اور وہ دن کے ساتھ ساتھ راتوں کو بھی کام کرنے لگا۔
ادھر الطاف اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکا تھا۔اس کے والد بھی ریلوے کے ایک بڑے افسر بن گئے تھے۔اب الطاف کوپردیس میں رہنے کی کوئی مجبوری نہیں تھی۔
الطاف واپس آیا تو اس کے والدین نے پرانا گھر چھوڑکر شہر کے باہر ایک شان دار بنگلے میں رہائش اختیار کرلی تھی۔الطاف چند گھنٹے گھر میں رہنے کے بعد اپنے پرانے دوست کی طرف چلا گیا۔
نیاز نے جو اپنے پیارے دوست کو گھر کے دروازے پر پایا تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ۔دونوں بے اختیار ایک دوسے سے بغل گیر ہو گئے۔خوشی بہت زیادہ ہوتو انسان بول نہیں سکتا۔یہی حالت اس وقت ان دونوں کی ہوئی۔دونوں کی آنکھیں بے اختیار آنسو بہانے لگیں۔
الطاف شام تک اپنے دوست کے گھر میں رہا۔پھر جلد ملاقات کا وعدہ کرکے اپنے بنگلے میں آگیا جہاں اس کے عزیز اور احباب اس کے منتظر بیٹھے تھے۔
الطاف سے ملاقات کے بعد نیاز کو کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی کھوئی ہوئی دولت اسے اچانک واپس مل گئی ہے۔وہ بہت خوش تھا اور اس بات پر مطمئن تھا کہ دونوں دوست پھر پہلے کی طرح ملتے رہیں گے۔دل چسپ باتیں کیا کریں گے اور ایک ساتھ سیر وتفریح بھی کیا کریں گے۔نیاز کی گزر بسر مشکل سے تو نہیں ہوتی تھی تاہم سوچ سمجھ کر خرچ کرتا تھا۔اس کی بیوی بھی اس معاملے میں شوہر کا ساتھ دیتی تھی۔
الطاف گیارہ سال کے بعد آیا تھا۔نیاز اس کا سب سے پرانا دوست تھا۔اس کا فرض بنتا تھا کہ اپنے دوست کی دعوت کرے۔اس نے اپنی بیوی سے ذکر کیا تو وہ بولی:
”تمہارا دوست بہت دولت مند ہے۔ہم ٹھہرے غریب۔اس کی شان کے شایان دعوت کرنی ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔“
”دعوت تو کرنی ہی پڑے گی۔“نیاز کا فیصلہ تھا۔نیاز کی بیوی نے اس کی مشکل کا حل اس طرح نکالاکہ جو زیور اس کے ماں باپ نے شادی کے موقع پردیا تھا وہ ایک بینک میں رہن رکھ کر اچھی خاصی رقم قرض لے لی اور ایک شان دار ہوٹل میں الطاف اور اس کے گھر والوں کی دعوت کا اہتمام کرلیا۔اس دعوت میں الطاف کے اکثر عزیز،رشتے دار اور احباب بھی شامل ہوئے۔
نیاز پر کافی بڑا قرض چڑھ گیا تھا۔مگر وہ خوش تھا کہ اس نے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔الطاف نیاز کے ہاں آتا رہا اور نیاز اس سے ملنے اس کے ہاں جاتا رہا۔کئی مہینے بیت گئے۔الطاف کے والدین نے اپنے بیٹے کی شادی کا سلسلہ شروع کردیا۔ایک بڑے گھرانے میںگفت گو ہونے لگی۔
منگنی کی شام کو الطاف نے اپنے سارے رشتے داروں اور شہر کے بڑے لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو اپنے ہاں دعوت میں بلایا۔نیاز بھی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ شامل ہوا۔اس نے اور اس کی بیوی نے صاف ستھرا لباس پہن رکھا تھا ،تاہم تینوں کی موجودگی الطاف کے دولت مند اور عالی مرتبہ سسرال کی نظروں میں بری طرح کھٹکتی تھی۔
دعوت کے بعد الطاف کے سسر اور ساس نے الطاف پر زور دیا کہ وہ اپنی شان پہچانے اورنیاز جیسے کم رتبہ لوگوں سے تعلقات قائم نہ رکھے۔ اس سے اس کی شان کو بٹا لگتا ہے۔
الطاف نے انہیں بہتیرا سمجھایا کہ نیاز اس کا بچپن کا دوست ہے اور بہت مخلص آدمی ہے۔اس سے ملنا جلنا ترک کرنا اس کے لیے نہ تو مناسب ہے اور نہ آسان مگر اس کے بزرگ اپنی بات پر اڑے رہے۔
”الطاف بیٹا !ہم تمہارے بھلے کی بات کرتے ہیں۔انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔ایسے بہت معمولی آدمی سے دوستانہ تعلقات برقرار رکھو گے تو لوگ کیاکہیں گے!“
اس کے سسر اور ساس کے علاوہ اس کے اپنے ماں باپ نے بھی بار بار یہی کہا۔الطاف کی کوئی دلیل نہ چل سکی ۔وہ کس کس کی مخالفت کا مقابلہ کرتا۔آخر اس نے ان سب کے آگے اپنی گردن جھکا دی۔چند روز بعد الطاف نے نیاز کو اپنے ہاں بلایا اور جھجکتے ہوئے کہہ دیا:
”نیاز!تم میرے پیارے دوست ہو۔تمہیں چھوڑتے ہوئے مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے مگر کیا کروں میں مجبور ہوں۔“
نیاز نے یہ لفظ سنے تو اس نے محسوس کیا کہ یہ الفاظ وہ ایک خوف ناک خواب میں سن رہا ہے۔اس کو بے حد صدمہ ہوا لیکن اس نے سوچا کہ یہ معاملہ بہت آگے بڑھ گیا ہے۔اس نے نہ تو اپنے سچے دکھ کا اظہارکیا اور نہ اپنے دوست کو بے وفائی کا طعنہ دیا کہ یہ معاملہ بگڑ جائے اور اس کے دوست کو نقصان پہنچے۔اس نے کہا:
”الطاف! تم وہ کرو جو تمہارے بزرگ چاہتے ہیں۔میں خوش،میرا اللہ خوش،اللہ حافظ۔“
یہ کہتے ہوئے نیاز نے جلدی سے اپنا چہرہ دروازے کی طرف موڑ لیا کیوں کہ اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے تھے۔
نیاز بڑے بوجھل دل اور بوجھل قدموں کے ساتھ اپنے گھر آگیا۔وہ اس وقت تنہا رہنا چاہتا تھا۔اسے ڈر تھا کہ بیوی نے اسے دیکھ لیا تو وہ اس کے چہرے سے اس کے دکھ کا اندازہ لگالے گی۔اس لیے وہ جلدی سے اپنے کمرے میں چلا گیا اور دروازہ بند کرکے چٹخنی لگادی۔
صدیقہ باورچی خانے میں مصروف تھی۔اسے شوہر کے آنے کا علم نہ ہو سکا۔اسے یہ تو معلوم ہو گیا تھا کہ الطاف نے اسے اپنے ہاں بلایا ہے اور یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔مگر جب شام ہو گئی اور نیاز واپس نہ آیا توصدیقہ پریشان ہوگئی۔
”دوپہر کو گیا تھا۔اب شام ہونے والی ہے۔گھر کیوں نہیں آیا؟“اس کے دل میں یہ سوال ابھرا تو اس نے یہ سمجھ کر دل کو تسلی دی کہ،” دونوں کہیں باہر چلے گئے ہیں یا نیاز اپنے دوست کی شادی کے لیے چیزیں خریدنے میں مصروف ہوگیا ہوگا۔“
تھوڑی دیر بعد کسی کام کی غرض سے وہ باورچی خانے سے باہر نکلی تو اس کی نظر نیاز کے کمرے پر پڑی۔وہ ٹھٹک سی گئی۔نیاز کا یہ کمرا،نیاز گھر میں ہو یا گھر سے باہر،عموماً کھلا ہی رہتا تھا۔”آج بند کیوں ہے؟“اس سوال کے آتے ہی صدیقہ نے دروازے کو کھولنے کی کوشش کی۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔
”ہیں یہ کیا۔نیاز آیا ہوا ہے اور اس نے دروازہ بند کر رکھا ہے؟“اسے حیرت ہوئی۔دروازے پر زور زور سے ہاتھ مارنے لگی۔
”نیاز!نیاز!دروازہ کیوںبند کر رکھا ہے؟“
صدیقہ کئی منٹ تک دروازہ کھٹکھٹاتی رہی۔آخر دروازہ کھل گیا۔نیاز کی آنکھیں سرخ تھیں۔
”نیاز!ہوا کیاہے؟بند کمرے میں کیا کر رہے تھے اور تمہاری آنکھوں سے صاف پتا چلتا ہے کہ روتے رہے ہو۔“
نیاز نے اسے ٹالنے کی کوشش کی:
”رات سو نہیں سکا تھا۔واپس آیا تو نیند آگئی۔“
”نیند آنے کے بعد آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں!نہیں نیاز، اصل بات مجھ سے چھپا رہے ہو۔میں تمہاری بیوی ہوں۔مجھ سے کچھ چھپایا تو اچھی بات نہیں ہوگی۔“
بیوی کا اصرار بڑھتا گیا۔نیاز نے جو کچھ ہوا تھا اسے بتا دیا۔
”تو یہ معاملہ ہے۔نیاز!میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا،امیر اور غریب کی دوستی زیادہ دیر نہیں رہ سکتی۔مانتے ہی نہیں تھے۔آج دیکھ لیا انجام۔“
نیاز کو غصہ آگیا:
”غلط کہہ رہی ہومیرا دوست مجبور ہوگیا ہے۔“
”مجبور ہوگیا ہے، کیوں مجبور ہوگیا ہے؟یہ کہو کہ اس کے اندر کا امیر آدمی جاگ اٹھا۔“
”نہیں ، نہیں صدیقہ!انسان کبھی کبھی بہت مجبور ہوجاتا ہے۔“
صدیقہ نے محسوس کرلیا کہ اگر یہ بحث جاری رہی تو دونوں میں تلخ کلامی ہوجائے گی۔اس لیے خاموش ہوکر کمرے سے باہر چلی گئی۔
نیاز کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ کام کرتے کرتے یکایک بے حس و حرکت ہوجاتا تھا اور بے اختیار اوپر دیکھنے لگتا تھا۔صدیقہ نے یہ بھی دیکھا تھا کہ وہ نہ تو وقت پر کھانا کھاتا ہے اورنہ وقت پر دکان کی ذمے داری سنبھالتا ہے۔
صدیقہ شوہر کے دکھ کو خوب سمجھتی تھی،مگر اسے غصہ بھی تھا کہ اس کا شوہر ایک بے وفا دوست کی بے وفائی پر کیوں اندر ہی اندر گھلتا جا رہا ہے۔
ایک روز اس سے صبر نہ ہوسکا۔بول اٹھی:”نیاز!تمہاے دوست نے تمہارے ساتھ بڑی بے وفائی کی ہے۔قدرت کا قانون ہے کہ بے وفا سزا سے نہیں بچ سکتا۔اسے اپنے کیے کی سزا ملے گی اور ضرور ملے گی۔“
نیاز کو اپنی بیوی سے بڑی محبت تھی۔اس نے اس پر کبھی زیادہ غصہ نہیں کیا تھا، مگر اس روز اسے سخت غصہ آیا اور اس نے بیوی کو بری طرح جھڑک دیااور اسے برا بھلا کہا۔صدیقہ نے یہ صدمہ سہ لیا اور آنسو بہاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔
وقت تو کبھی رکتا نہیں ہے۔گزرتا چلا جاتا ہے۔دنوں نے مہینوں کی اور مہینوں نے برسوں کی صورت اختیار کرلی۔نیاز اپنے دوست کی جدائی کاصدمہ تو نہ بھول سکا تاہم وہ خود کو زیادہ سے زیادہ مصروف رکھنے میں کامیاب ہوگیا۔
اس دوران نیاز الطاف کے ہاں نہ گیا اور الطاف بھلا کیسے اس کے ہاں آ سکتا تھا۔اس نے تو خود ہی دوستی کے تعلقات ختم کیے تھے۔تنہائی کے وقت نیاز اپنے دوست کو یاد کرکے رولیتا اور یوں اس کے دل کی بھڑاس نکل جاتی تھی۔
سات برس بیت گئے۔نیاز کا بیٹا ترقی کرکے ایک افسر بن گیا تھا۔نیاز کی حالت پہلے سے کافی بہتر ہوگئی تھی۔مگر اس کی سادگی میں فرق نہ پڑا تھا۔ہر شام کو نیاز اپنی بیوی کے ساتھ سیر کو ضرور جاتا تھا۔ایک دن اس کی طبیعت ذرا خراب تھی۔اس نے شام کی سیر کا پروگرام منسوخ کرنا چاہا تو صدیقہ نے کہا:
”ہر روز آپ اپنی مرضی سے باہر جاتے تھے۔آج میری مرضی سے چلیں۔“
”کیوں؟“
”بس میری مرضی ہے۔“
”ٹھیک ہے۔میری طبیعت آرام چاہتی ہے،لیکن تمہاری بات رد نہیں کروں گا۔“
وہ کار میں بیٹھ گئے۔ایک ہسپتال کے قریب پہنچ کر صدیقہ نے کہا:
”نیاز!تم کو خبر ہے نا میری ایک دور کی رشتے دار یہاں زیر علاج ہے۔ادھر آگئے ہیں تو اسے دیکھتے چلیں۔“
ہسپتال میںصدیقہ آگے آگے اور نیاز اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔صدیقہ اسے ایک وارڈ کے اندر لے آئی۔
”صدیقہ!یہ تو مردانہ وارڈ ہے۔“
”جی ہاں! میں تم کو یہیں لانا چاہتی تھی۔ادھر آﺅ۔یہ دیکھو۔“
نیاز نے سامنے بیڈ پر نظر ڈالی۔
”ہیں یہ کیا….الطاف؟“
صدیقہ نے اپنے شوہر کی پریشانی کو بھانپ لیا۔وہ بولی:
”یہ الطاف ہیں۔تمہاری آنکھیں دھوکا نہیں کھا رہیں۔دیکھو،اپنے دوست کو۔ہیروئن کھا کر تباہ ہوگیا ہے۔نیاز!میں نے کہا تھا نا کہ قدرت کا قانون ہے جو شخص دوستی میں بے وفائی کرے وہ سزا سے نہیں بچ سکتا۔“
نیاز پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا تھا۔وہ ٹکٹکی باندھ کر اپنے کمزور اور بیمار دوست کو دیکھ رہا تھا۔الطاف نے آنکھیں کھول دی تھیں اور بیٹھنے کی کوشش کررہا تھا۔بڑی مشکل سے وہ بیٹھ گیا اور بولا:
”نیاز!تمہاری بیوی نے بالکل ٹھیک کہا ہے۔قدرت کا قانون اٹل ہے۔میرا گھر بار تباہ ہوگیا ہے۔میری صحت تباہ ہوگئی ہے۔“
ڈاکٹر خاموشی سے آکر ایک طرف کھڑا ہوگیا تھا۔الطاف اور نیاز دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے۔
”آپ نیاز ہیں؟“ڈاکٹر نے نیاز سے پوچھا۔
”جی ہاں، میں ہی نیاز ہوں۔“نیاز نے مدھم لہجے میں کہا۔
ڈاکٹر کہنے لگا:
”الطاف نے مجھے اپنے اور آپ کے بارے میں سب کچھ بتادیا ہے۔“
الطاف بولا:”نیاز میں نے تم سے بے وفائی کی تھی….میں تمہارا مجرم ہوں….قدرت کا قانون ہے کہ اس جرم کی سزا ملے۔“الطاف کے لفظ سنتے ہی نیاز نے کہا:
”میرے دوست!اگر قدرت کا یہ قانون ہے کہ مجرم کو اس کے جرم کی سزا ملے تو یہ بھی اسی کا قانون ہے کہ مجرم کو معاف کردیا جائے۔میں نے تمہیں معاف کردیا ہے۔“
یہ لفظ سنتے ہی الطاف نے روتے ہوئے اپنے بازو پھیلائے اور نیاز کا آنسو بھرا چہرہ اس کے بازوﺅں میں سمٹ گیا۔
ڈاکٹر، نرسیں،صدیقہ سب کے سب چپ چاپ کھڑے تھے۔ان کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ اس منظر سے بہت متاثر ہیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top