قصہ ایک کہانی کا
کاوش صدیقی
’’بھائی جان حماقتیں کسے کہتے ہیں؟ ‘‘کھانے کی میز پر بیٹھے ہوئے سلیم نے اپنے بڑے بھائی علیم سے بڑی سنجیدگی سے پوچھا۔
’’جوسارادن تم کرتے رہتے ہو !‘‘بھائی نے اتنی ہی سنجیدگی سے فوراً جواب دیا۔
ربیعہ ہنسنے لگی۔
’’ تمہیں ہنسنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ سلیم نے ربیعہ کوگھورا۔
’’ ہنسنا ضرورتاً نہیں ہوتا، موقع کی مناسبت سے ہوتا ہے۔‘‘ ربیہ نے ترکی بتر کی جواب دیا۔
’’میرا خیال ہے مجھے چپ رہنا چاہیے۔‘‘
سلیم غصے سے کہتا ہوا اپنی پلیٹ پر جھک گیا۔
’’ اچھا خیر یہ منہ بسورنا چھوڑ و۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراض نہیں ہوتے۔ یہ بتاؤ یہ حماقتوں کی تحقیق کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟‘‘علیم نے پوچھا۔
’’ آج اسکول میں بزم ادب کی میٹنگ ہوئی تھی۔ اس میں معروف مزاح نگار کرنل شفیق الرحمن کی کتابوں کے متعلق اردو کے استاد بتارہے تھے۔ ان کی کتابوں میں ’حماقتیں‘ اور دوسری کتاب ’مزید حماقتیں‘ بھی ہیں شاید…‘‘ سلیم نے بتایا۔’’ وہ کہہ رہے تھے، ان کتابوں کو پڑھو اور کوئی مضمون لکھ کر دکھاؤ، اس لیے پو چھ ر ہا تھا۔‘‘
’’ یہ تو بہت آسان ہے مضمون تو کیا تم پوری کتاب لکھ سکتے ہو!‘‘ربیعہ نے فوراً کہا۔
’’اچھا !میں کتاب لکھ سکتا ہوں…؟‘‘سلیم نے خوش ہوکر پوچھا۔’’ کیا یہ ممکن ہے؟‘‘
’’کیوں نہیں بس اپنی صرف ایک سال کی کارکردگی بیان کر دو۔ تمھاری زندگی کاہر لمحہ حماقتوں سے لبریز ہے۔ ‘‘ربیعہ نے نہایت خلوص سے مشورہ دیا۔
’’مجھے نہیں کرنی آپ لوگوں سے کوئی بات۔‘‘ سلیم نے منہ بنا کر غصے سے کہا۔’’آپ لوگ اصل میں خوف زدہ ہیں۔‘‘
’’ یہ سراسر ہم پر بہتان ہے۔‘‘ ربیعہ نے فوراً احتجاج کیا۔’’ ہم سا بہادر کون ہوسکتاہے، پچھلے ہفتے ہم نے لال بیگ کا قتل عام کیا تھا…‘‘
ربیعہ نے اپنی بہادری کا ذکر کیا۔
’’ بالکل مگر وہ سب اسپرے سے آنجہانی ہوئے تھے۔‘‘ سلیم نے فوراً حقیقت واضح کی۔
’’لیکن اتنی لاشوں کو ٹھکانے لگا نا آسان ہے کیا؟‘‘
’’بالکل جب آپ حمیدہ آپی کو کہہ دیں کہ صفائی کر دو۔‘‘ سلیم نے ربیعہ کوترنت جواب دیا۔
حمید ہ آپی ان کی ملازمہ کا نام تھا۔ امی جان کا سخت حکم تھا کہ ملازموں سے عزت و احترام سے پیش آنا ہے، اس لیے کوئی ملازموں کوفقط نام سے نہیں پکارتا تھا۔
’’ دیکھو… مزاح لکھنا آسان کام نہیں۔ مزاح کسی صورت حال کو ایسا رخ دینا کہ جس سے بات میں شوخی اور شگفتگی کا عنصر پیدا ہواور انسان کی حس لطیف محظوظ ہو…‘‘ علیم بھائی جان نے سمجھایا۔
’’ یہ حس لطیف کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’مس لطیف کی بہن۔‘‘ ربیعہ نے درمیان میں لقمہ دیا۔
’’ بری بات!‘‘علیم بھائی جان نے ربیعہ کوٹو کا۔’’ ہر وقت شرارت نہیں کرتے۔‘‘
’’حس لطیف انسانی مزاج کا ایسا عنصر ہے کہ جس کے ذریعے وہ صورت حال کو ہلکے پھلکے انداز میں آسانی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘ علیم بھائی جان نے آسان لفظوں میں کہا۔’’ اللہ پاک نے انسانی دماغ میں غم واندوہ ،مسکرانے اور ہنسنے کی صلاحیت رکھی ہے، اس کے ذریعے وہ پیش آنے والی مشکل صورت حال سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور مہلت حاصل کر لیتا ہے اور یوں غم و تکلیف کی فضا سے باہرآجاتا ہے۔ اچھی بات، لطیف اسی سے بنا ہے جس کا مطلب ہے لطیف ،بار یک ،مہین۔ کیوں کیا سمجھے؟‘‘ بھائی جان نے مزید کھاتے ہوئے آخر میں پو چھا۔
’’یہی کہ حماقتیں ہنسنے مسکرانے کا نام ہے۔‘‘ سلیم نے سادگی سے جواب دیا۔
سلیم کے جواب پر علیم اور ربیعہ دونوں اپنی بے ساختہ ہنسی نہ روک سکے۔
سلیم دونوں بہن بھائیوں کا منہ دیکھنے لگا۔
’’ بھینس کے آگے بین بجاؤ، بھینس کھڑی پکھر ائے!‘‘ ربیعہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’کیا مطلب میں بھینس ہوں؟‘‘ سلیم برا مان گیا۔
’’ نہیں…‘‘ علیم بھائی نے اپنی ہنسی روکتے ہوئے کہا۔
’’ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض لوگ بھینس کے سامنے بین بجا کر خوش ہور ہے ہوتے ہیں کہ بھینس سر ہلا ہلا کر موسیقی سے لطف اندوز ہورہی ہے مگر در حقیقت بھینس اپنا چارہ کھارہی ہوتی ہے۔ اس کو موسیقی سے قطعا !دلچسپی نہیں ہوتی۔‘‘ بھائی جان نے سمجھایا۔
رات اچھی خاصی گزر چکی تھی مگر سلیم کو نیند نہیں آرہی تھی۔ مختلف سوالات اس کے ذہن میں پیدا ہور ہے تھے۔ اس کا دل چاہ ر ہا تھا کہ وہ بھی کچھ لکھے مگر کیا لکھے۔ کیسے لکھے اور کس موضوع پر لکھے۔یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
ربیعہ پانی پینے کے لیے اٹھی تو اس نے سلیم کے کمرے کی بتی جلتے دیکھی۔ وہ اندرآگئی۔’’ کیا بات ہے ابھی تک سوئے نہیں؟ ‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں کچھ لکھنا چاہتا ہوں مگر سمجھ میں نہیں آتا کیا لکھوں…؟‘‘ سلیم نے بتایا۔
’’یہ کیا مشکل ہے کچھ بھی لکھ لو، ان کے متعلق لکھو جن کے متعلق تم جانتے ہو۔ گھر،گھر کی اشیائ،افراد۔ اس طرح لکھنا آسان ہو جائے گا۔ موضوع مل جائے تو لفظ خودبخود چلے آتے ہیں۔‘‘ ربیعہ نے کہا۔
’’مثلاً‘‘ سلیم نے دلچسپی سے سوال کیا۔
’’مثلاً…مثلاً… میرے متعلق لکھو۔’ میری پیاری آپی ربیعہ‘ کے عنوان سے۔‘‘ربیعہ نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ہاں…یہ ٹھیک رہے گا ۔‘‘اچانک سلیم ہنسا۔’’دو جملے تو اچانک ہی ذہن میں آگئے ہیں۔ سناؤں؟‘‘
’’ضرور… ضرور…‘‘ ربیعہ بستر کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔ٰؓۃ بستر کے سامنے پڑی کرسی پر بیٹھ گئی۔ ربیہ اور سیم دو بہت پیارے بہن بھائی تھے۔ سلیم نے کہنا شروع کیا۔
’’ربیعہ اور سلیم دو بہت پیارے بہن بھائی تھے۔‘‘ سلیم نے کہنا شروع کیا۔
’’تھے کیا مطلب؟… ہیں۔‘‘ ربیعہ قدرے غصے سے بولی۔
’’ارے بھئی کہانی ہے نا، پہلی بار شروع کی ہے۔‘‘ سلیم نے کہا۔’’سنیں توسہی… ربیعہ اور سلیم دو بہت پیارے بہن بھائی تھے۔ ایک دن اچانک دونوں مر گئے۔ ربیعہ چڑ یل بن گئی اور سلیم بھوت …‘‘سلیم کے لہجے میں شرارت بھری ہوئی تھی۔
ربیعہ بے ساختہ مسکرادی۔ کہنے لگی:
’’تم بھوت بننے کے بعد پہلے سے زیادہ اچھے لگنے لگے ہو۔‘‘
سلیم نے کہا :’’مگر آپی! آپ چڑیل بننے کے باوجود بالکل نہیں بدلیں، ویسی کی ویسی ہی ہیں۔‘‘
’’بدتمیز…‘‘ربیعہ نے بمشکل اپنی ہنسی ضبط کرتے ہوئے کہا۔
’’ کیسی لگی کہانی؟‘‘ سلیم نے پوچھا۔
’’ابھی تو آغاز ہے۔‘‘ ربیعہ نے مسکرا کے کہا:’’ آگے چل کے نجانے کیا گل کھلاؤ گے۔ چلو اب سو جاؤ۔‘‘
’’مگر میں تو کہانی مکمل کر کے ہی سوؤں گا۔‘‘ سلیم نے کہا۔
’’تمھاری مرضی، میں تو چلی سونے، صبح کالج بھی جانا ہے۔‘‘ ربیعہ جمائی لیتے ہوئے کمرے سے باہر نکل گئی۔
۔۔۔۔۔
دوسرے دن سلیم نے اپنا لکھا ہوا مضمون اپنے اردو کے استاد کو دکھایا۔
’’ مضمون لکھا ہے یا کہانی لکھی ہے۔ ‘‘استاد نے پوچھا۔
’’ معلوم نہیں سر! ‘‘سلیم نے سادگی سے جواب دیا۔’’ بس جو میرے ذہن میں آیا اسے لکھتا چلا گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ کہانی ہے مضمون ہے یا صرف جملے ہیں۔‘‘
’’ بہت خوب، جولوگ آغاز کرتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوتے ہیں۔ راستہ کتنا ہی طویل کیوں نہ ہو، پہلا قدم ہی راستہ کم کرنا شروع کر دیتا ہے۔‘‘ انھوں نے نرمی سے کہا۔
پھر کلاس کی جانب متوجہ ہوکر بولے:
’’بچو! سلیم محمود نے ایک تقر رکھی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سب غور سے سنیںاور پھر اس پر اپنی رائے دیں۔ ‘‘اس کے بعد انھوں نے سلیم کی تحریر پڑھنا شروع کی۔
ہر جملے پر، ہر فقرے پر طالب علم بے ساختہ ہنس رہے تھے۔
’’مرغی انڈوں پر کیوں بیٹھتی ہے؟ ‘‘استاد نے سوال کیا۔
’’ اس لیے کہ اس کے گھر میں صوفے نہیں ہوتے۔‘‘
’’ہم اتوار کو چھٹی کیوں کرتے ہیں؟‘‘
’’کیوں کہ اس دن استاد بھی چھٹی کرتے ہیں۔‘‘
’’بھینس کالی کیوں ہوتی ہے؟‘‘
’’کیوں کہ اس کے پاس فیئر اینڈ لولی خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے۔‘‘
’’کیاتیرا کی کرنے سے انسان د بلا ہو سکتا ہے؟‘‘
’’ہرگز نہیں۔ ور نہ کوئی وہیل مچھلی اتنی بھاری بھر کم نہ ہوتی۔‘‘
’’دنیا میں سب سے کم جھوٹ کس ماہ بولا جا تا ہے؟‘‘
’’فروری کے مہینے میں۔‘‘
’’چاند زیادہ دور سے یا لاہور؟‘‘
’’لاہور۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’ہمیں چاند نظر آتا ہے لا ہور نہیں۔‘‘
’’وہ جو ناممکن کو ممکن اور ممکن کو ناممکن ثابت کر دے مگر کرے کچھ بھی نہ، اسے کیاکہتے ہیں؟‘‘
’’لیڈر‘‘
’’اگر دنیا میں کچھ بھی نہیں بدلا تو وہ گدھا ہے۔بچو!ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہو؟میری طرف دیکھو۔‘‘
’’وہ شخص جو ہمیشہ آپ کی جیب پر نظر رکھے ہوئے ہو، اسے مخلص دوست کہتے ہیں۔‘‘
تحریر تو ختم ہوئی مگر کلاس میں قہقہوں کا طوفان نہیں تھم رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اردوکے ٹیچر نے کہا:
’’مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ سلیم نے ایک قابل قدر کوشش کی ہے۔ مزاح شگفتگی کا نام ہے۔ زندگی میں بہت سے مسائل اور پریشانیاں ہیں لیکن اگر ہم اپنی زند ہ دلی کو قائم رکھتے ہوئے ان کا سامنا کر یں تو بڑی سے بڑی مشکل پر قابو پاسکتے ہیں۔‘‘
سلیم کو اپنے استاد کے ان حوصلہ افز اکلمات کوسن کر بے پناہ خوشی محسوس ہورہی تھی۔ بالآخراس نے اپنے لکھنے کا آغاز کر دیا تھا۔
۔۔۔۔۔
کہانی پر تبصرہ کیجئے، انعام پائیے