skip to Main Content

قصہ ایک تقریب کا

سیما صدیقی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیگم آصف، تخت پہ آلتی پالتی مارے بیٹھی اُبٹن گھول رہی تھیں….. گھر کی ساری لڑکیاں بیوٹی پارلر روانہ ہوچکی تھیں سواے بڑی بہو کے، اُسے اس لیے چھوڑ دیا گیا تھا کہ ممی اکیلی رہ جائیں گی(واقعی ایک اکیلی ممی اتنی بدنظمی نہیں پھیلا سکتی تھیں جتنی دونوں نے مل کر پھیلائی) بہو کو اپنی نیل پالش کھرچتے کھرچتے اچانک کچھ خیال آیا تو ہاتھ روک کر بولیں۔
’’ارے ممی! چار بج گئے….. باورچی ابھی تک نہیں آیا؟‘‘
’’اچھا! چار بج گئے۔‘‘ ممی کے اطمینان میں کوئی فرق نہ آیا۔
’’ابھی زکی کو بھیجتی ہوں۔‘‘
’’زکی !! زکی!! بیٹا ذرا پتا تو کرو، یہ باورچی کہاں رہ گیا؟‘‘ تھوڑی دیر میں زکی بے فکری سے ہاتھ جھلاتا واپس آیا۔
’’ممی و ہ تو بخار میں پڑا ہے….. اسپتال جارہا تھا….. ‘‘
’’لو بھئی یہ خوب رہی !! آنا نہیں تھا تو کسی سے کہلواہی دیا ہوتا …..اب کیا ہوگا؟‘‘
’’ہونا کیا ہے! نورانی کباب ہاؤس، زندہ باد۔ پکا پکایا کھانا منگوالیتے ہیں۔‘‘ زکی نے آسان حل پیش کیا۔
’’ارے مگر وہ جو ڈھیر سارا بریانی کا سالن تیار کرکے رکھ گیا ہے، اس کا کیا ہوگا؟‘‘
’’اور رضیہ جو بے حساب چاول بھگو گئی ہے وہ؟‘‘ بہو نے لقمہ دیا۔
’’ہائیں!!یہ رضیہ کو کیا سوجھی ، کسی سے پوچھ تو لیا ہوتا؟‘‘ بیگم آصف ہنسیں۔
’’کہہ رہی تھی کہ اگر باورچی نہ آیا تو ہم خود پکالیں گے!‘‘ نہ جانے ہم سے کون لوگ مراد تھے۔ بہو نے کندھے اُچکا کر کہا۔
\”لو بھئی یہ خوب رہی۔ چاول بھگو کر خود غائب ہوگئیں۔‘‘ بیگم آصف کی عادت تھی کہ اپنے جملے کے آخر میں ہنس دیتی تھیں اور اگر بات ان کے خیال میں کچھ زیادہ ہی مزے دار ہو تو تالی بھی بجادیتی تھیں۔
’’اب بہو تم ہی اس کشتی کو پار لگاؤ…. چلو شاباش چولھا جلاؤ۔‘‘ بہو کا منھ بن گیا، جھنک کر بولی۔
’’ممی مجھ سے نہیں بن سکتی اتنی ساری بریانی …..!ویسے بھی یہ گھر کے چولھے پر تو پکنے سے رہی۔ ‘‘
اتنے میں بیل بجی۔ کچھ ہی لمحوں بعد جیلانی چچا نے کچن میں جھانکا:’’السلام علیکم! بھئی معلوم ہوتا ہے ہم شاید جلدی آگئے یہاں تو سناٹا پڑا ہے۔ رسم کب ہوگی۔ پانچ تو بج گئے؟‘‘
’’ارے بھیا! خوب تماشا ہوا، لڑکیاں پارلر چلی گئیں اور باورچی اسپتال! اب مسئلہ یہ ہے کہ اس کھانے کا کیا کیا جائے جو ادھورا سر پہ دھرا ہے۔‘‘
’’ارے یہ تو کوئی مسئلہ ہی نہیں…..‘‘ جیلانی چچا جو ذرا ’ڈینگو ٹائپ‘ کے آدمی تھے فوراً بولے:’’بھئی میں نے تو اپنے گھر میں بڑی بڑی دیگیں اُتاری ہیں۔ بڑی دعوتیں نمٹائی ہیں۔ لوگ انگلیاں چاٹتے رہ جاتے ہیں۔ تم یہ پتیلا وغیرہ گلی میں پہنچاؤ۔ بس لکڑی، کوئلہ اور مٹی کے تیل کا بندوبست کرادو۔ باقی مجھ پر چھوڑ دو۔‘‘
’’مگر چچا یہ تو ممکن نہیں ….. ‘‘ زکی نے جیلانی چچا کے کندھے کے عقب سے جھانکا۔
’’کیوں بھلا؟‘‘
’’ہماری گلی میں شام ہوتے ہی چوہے چہل قدمی کے لیے نکل آتے ہیں، مہمانوں کے علاوہ ’وہ‘ خود بھی پسند نہیں کریں گے کہ وہاں بریانی پکوائی جائے وہ بھی کسی اور کے لیے۔‘‘
’’اوہو!! تو کیا مسئلہ ہے! ہم چھت پر پکالیں گے۔ تم لوگ یہ دیگ چھت پہ پہنچاؤ اور وحید کو کوئلہ لکڑی کے لیے دوڑاؤ….. ‘‘

*۔۔۔*

مسز جیلانی اپنے بچوں کے ساتھ منھ بنائے برآمدے میں بیٹھی تھیں ابھی تو گھر والے سرجھاڑ منھ پھاڑ گھوم رہے تھے۔ تقریب شروع ہونے کے دور دور تک آثار نہ تھے۔ بیگم آصف کی بہوایک زرد پائجامہ لیے اِدھر سے اُدھر آتی جاتی دکھائی دے رہی تھیں۔ آخر قدرے جھجکتے ہوئے بولیں۔
’’آنٹی ذرا پاؤں اِدھر کھسکائیے گا۔ سلائی مشین نکالنی ہے، کم بخت درزی نے بہت ہی ڈھیلا سی دیا ہے۔ ایک سلائی مارلوں۔‘‘
بیگم جیلانی جن کو خبر مل چکی تھی کہ ان کے میاں کو بریانی پکانے چھت پر چڑھادیا گیا ہے تپی بیٹھی تھیں۔ منھ بناکر کھسکتے ہوئے بولیں:’’ارے بہو ڈھیلا پائجامہ پہننے سے کون سی بدشگونی ہوجائے گی یا رسم میں کوئی کمی رہ جائے گی جو تم عین وقت پر یہ سلائی مشین نکالنے چلی ہو…..؟‘‘
’’عین وقت نہیںآنٹی لڑکے والے تو سات بجے سے پہلے نہیں آنے کے۔ حیدرآباد سے آرہے ہیں نا ….. پہنچے پہنچتے، پہنچیں گے۔‘‘
بہو نے برآمدے میں بیٹھے بروقت آنے والے مہمانوں پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جیسے کہہ رہی ہو کہ آپ لوگ کیوں (دئیے گئے وقت کے مطابق) آکر بیٹھ گئے، گھر میں کوئی کام نہ تھا کیا؟ اچانک صحن سے ایک نئی طرح کا شور بلند ہوا۔
’’ممی یہاں تو دور دور تک کوئی لکڑیوں کا ٹال نہیں۔‘‘ وحید نے اعلان کیا۔
’’لو بھئی یہ بھی خوب رہی….. !‘‘ بیگم آصف اپنے مخصوص انداز میں چہکیں۔ ’’چلو زکی اپنے ماموں کو فون کرو۔ جب وہ آئیں تو یہ سارا سامان لیتے آئیں ۔ اُن کی طرف یہ چیزیں ضرور مل جائیں گی….. ‘‘ ابھی یہ بھاگا دوڑی جاری تھی کہ گاڑیاں رکنے کی آواز آئی۔ وحید چلایا:’’ارے! دولھا والے آگئے !\”
’’ہائیں! ابھی سے…..‘‘ جس بہو نے ابھی ایک ہی پائنچا ٹائٹ کیا تھا حیرت کا اظہار کیا۔
بیگم آصف فرج کی جانب بھاگیں۔ ’’ارے کوئی ہار پھول نکالو ….. دیکھو تو سب ویسے ہی اُلجھے پڑے ہیں….. یہ لڑکیاں کہاں رہ گئیں۔ بال بنوانے کے چکر میں ناک کٹوائیں گی کیا؟‘‘
دولھا والوں میں سے کسی کے کان میں پڑگیا کہ لڑکی گھر میں نہیں۔ ایک صاحبہ قدرے تیکھے لہجے میں بولیں:’’بہن پتاتو کرائیے کہیں لڑکی وہیں تو مایوں نہیں بیٹھ گئی؟‘‘
بیگم آصف حسب عادت چہکیں: ’’لو بھئی، یہ خوب کہی آپ نے ! ذرا یہ ہار تو سلجھائیے۔‘‘ اُلجھے ہوئے پھولوں کا ڈھیر مہمانوں کے آگے ڈھیر کیا ہی تھا کہ پھر گاڑیاں رُکنے کی آواز آئی۔ معلوم ہوا کہ بالآخر لڑکیاں واپس آگئیں۔

*۔۔۔*۔۔۔*

چولھا سلگا لیا گیا ہے بس یہ پتیلا اوپر پہنچانا ہے۔ دو طرف سے پتیلا پکڑا گیا، پھسلتا پھسلاتا ….. ایک دو مہمانوں کے پاؤں کچلتا، آخر پتیلا اوپر پہنچ گیا۔ جیلانی چچانے ماہرانہ انداز میں آستینیں چڑھالیں اور بولے:’’زکی میاں! چھت کی ساری لائٹیں کھول لو….. اندھیرا ہورہا ہے۔‘‘
’’لائٹیں؟ مگر ہماری چھت پر تو بجلی کا کنکشن ہی نہیں !‘‘
’’کیا !‘‘ جیلانی چچا پہ بجلی گر پڑی۔’’ارے بے وقوفو! یہ بات پہلے بتانی چاہیے تھی نا! اب اتنے اندھیرے میں بریانی کیسے پکے گی؟‘‘
زکی منھ بناکر بولا:’’جب چھت پر بریانی پکنے کی ابتدائی بات چیت ہوئی تھی تو اس وقت پانچ بجے تھے مجھے کیا خبر تھی کہ ماموں کوئلے لانے میں آٹھ بجادیں گے اور ان چاولوں کا بھی اللہ ہی مالک ہے جو تین بجے سے بھیگ کر چوراہو رہے ہیں۔‘‘
اتنے میں نیچے زینے پہ کھڑے ہوکر کوئی چلایا۔ ’’رسم ہورہی ہے…. سب قریبی لوگ نیچے آجائیں۔‘‘ (اور دور کے لوگ کھڑے بریانی پکاتے رہیں)
جیلانی چچا ٹھنڈی سانس بھر کر بولے: ’’تم لوگ نیچے جاؤ۔ میں اسے کسی طرح اپنی روحانی صلاحیتوں کی مدد سے پکانے کی کوشش کرتا ہوں۔ اندازے اور وجدان کے ذریعے پکنے والی یہ کراچی کی تاریخ کی پہلی بریانی ہوگی….. ‘‘
زکی اور وحید صورتحال سے سخت بے زارہوچکے تھے۔ فوراً نیچے دوڑ لگاگئے اور جیلانی چچا چھت پر اکیلے رہ گئے۔

*۔۔۔*

مووی میکر آچکا تھا۔ تقریب کی کارروائی سلو موشن میں ہورہی تھی کیونکہ رسم خاندانی طور طریقوں کے بجاے مووی والے کے احکامات اور ہدایات کے مطابق انجام پارہی تھی۔
مہمانوں کے بیٹھنے کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہ تھا۔ ڈرائنگ روم میں جو چند صوفے تھے اُن پہ جو بیٹھ جاتا سو بیٹھ جاتا۔ کھڑا اس خوف سے نہ ہوتا کہ پھر یہ موقع ملے نہ ملے؟ غلطی سے بھی کوئی کھڑا ہوتا تو تاک میں لگا کوئی دوسرا مہمان اس کی جگہ ہتھیا لیتا۔ کچھ مہمان دیوار سے ٹیک لگائے سارس کی طرح ایک ٹانگ پہ کھڑے تھے۔ اندازاً بارہ بجے رات تک انہیں اسی طرح کھڑے رہنا تھا لہٰذا بیک وقت دونوں پیروں کو تھکانا مناسب نہ تھا۔
’’دراصل مہمان زیادہ آگئے۔ ہمارا تو خیال تھا کہ سب کہاں آئیں گے؟ مگر یہاں تو سارے ہی آگئے ۔ اسی لیے کچھ بے ترتیبی ہوگئی….. ‘‘ دلہن کی خالہ نے اپنے استری شدہ بال جھٹکتے ہوئے کہا۔ یہ سن کر سارس کی طرح ایک پیر پہ کھڑے مہمان تھکن کے ساتھ ذلت بھی محسوس کرنے لگے۔ بیگم جیلانی سے رہا نہ گیا تنک کر بولیں:’’ہاں بھئی خاندان والے تو اسی انتظار میں بیٹھے تھے کہ کب ان کے ہاں ’کھڑے ہونے کی‘ کوئی تقریب ہو اور کب وہ دوڑے آئیں۔لڑکی کو مایوں بٹھانے کا مطلب باقی مہمانوں کو کھڑے رکھنا ہے، یہ ہمیں معلوم نہ تھا۔‘‘
برابر والی نے مسز جیلانی کا ہاتھ دبایا:’’چھوڑئیے بھی مسز جیلانی….. کھانا لگے تو بس ہم کھسکیں۔‘‘
کھانے کا ذکر میزبانوں کے کانوں میں بھی پڑگیا۔
’’کھانے کے بعد کنسرٹ بھی ہوگا۔ دلہن کے بھائیوں نے آرکسٹرا کا انتظام بھی کیا ہے….. ‘‘
دلہن کی خالہ نے بھوکے مہمانوں کو خوش خبری سنائی تو ایک خاتون جل کر بولیں جن کا میک اپ اُتر اور پارہ چڑھ چکا تھا: ’’کچھ دیر کے لیے آرکسٹر ااندر رکھوادیجیے تاکہ کچھ مہمان اس پر بھی بیٹھ سکیں۔ ویسے بھی لڑکی کے بھائی آرکسٹرا کے بجاے کرسیوں کاانتظام کرلیتے تو مہمان زیادہ خوشی محسوس کرتے۔‘‘
بیگم آصف حسبِ عادت چہک کر بولیں:’’لو بھئی یہ خوب کہی آپ نے، گھر میں تو جگہ کی تنگی ہو ہی جاتی ہے….. ہم چاہتے تو یہ تقریب کسی فائیو اسٹار میں بھی رکھواسکتے تھے مگر ہوٹل کی تقریبات بڑی فارمل اور روکھی پھیکی ہوتی ہیں، جبکہ ہمارے ہاں کی ہر تقریب بڑے روایتی انداز میں ہوتی ہے۔‘‘
’’ہاں بھئی اس کی تو میں بھی گواہ ہوں….. روایتی والی بات ٹھیک ہے….. کیوں کہ دلھن کی ماں کی شادی میں بھی اتنی ہی بھگدڑ اور نحوست مچی تھی جیسی اس وقت ہے….. ‘‘ مسز جیلانی نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑتے ہوئے کہا۔ اسی اثنا میں وحید نے آکر اعلان کیا۔
’’خواتین و حضرات! کھانے میں کچھ تاخیر ہے لہٰذا کنسرٹ کے لیے آپ سب لان میں تشریف لے آئیے۔‘‘
بھوکے پیاسے مہمان صرف اس آس پر گھسٹتے ہوئے وہاں پہنچے کہ شاید بیٹھنے کا خاطر خواہ بندوبست ہو، مگر پتا چلا کہ وہاں بھی کھڑے ہوکر گانے سننے ہیں کیونکہ یہی جدید انداز ہے۔ تین فاقہ زدہ، زرد آنکھوں اور بکھری زلفوں والے لڑکے اپنے سے کہیں بڑے جثہ کے آلات موسیقی لیے کھڑے تھے جن کو بجانے میں ان کی جان ناتواں ہوا ہورہی تھی۔ ڈرمر،ڈرم کو بے تحاشا پیٹ رہا تھا۔ ایک صاحب جو بھوک سے بلبلارہے تھے تپ کر بولے۔’’جی تو چاہتا ہے کہ ڈرم کے بجاے میزبانوں کو پیٹا جائے۔‘‘
گانے کی بیٹ شروع ہوئی جس کی دھمک سے فنکار خود اسٹیج سے گرے جارہے تھے۔ بیچ والا، آڑھا ہوکر دائیں والے پر گرنے لگتا تو محسوس ہوتا کہ وہ لڑکا نہیں پیسا کا مینار ہو۔ بالآخر سب سے دبلے لڑکے نے گانے کا آغاز کیا۔
’’میں ٹوٹا ساز ہوں….. انوکھا راز ہوں….. جگر کے پار ہوں ….. غموں کی برسات ہوں ….. آہ …… ہاہ ….. ہاہ ….. اوہ ….. ہو ….. ہو ….. ‘‘
دولہا والوں میں سے کسی نے اعتراض اُٹھایا: ’’ارے بھائی…..! یہ خوشی کے موقع پہ، اس ٹوٹے سازکوبلوانے کی کیا تک تھی؟ یہ دکھوں کا مارا ہمارے لیے ہی رہ گیا تھا؟ کوئی ہیپی سانگ سناؤ بھئی ہیپی سانگ!‘‘
فنکار نے فوراً گانا بند کردیا…. آرکسٹرا نے دُھن تبدیل کی….. گلوکار نے چند سانسیں (آخری نہیں) سینے میں اکٹھا کیں اور پوری طاقت سے نئے گیت کا آغاز کیا۔
’’خوشی ملی ….. ہاں ملی ….. ، ملی ملی ….. تجھے ملی ….. نہ ملی ….. کیوں نہ ملی ….. ؟‘‘
یہ تفتیشی گانا ابھی ابتدائی مراحل ہی میں تھا کہ دلھن کے پڑوسی چلا اُٹھے۔’’یہ کیا بکواس ہے…..‘‘ آخر یہ کون سے فن کار ہیں جن کا ہم نے کبھی نہ نام سنا نہ شکلیں دیکھیں اور کیا گارہے ہیں؟ لگتا ہے مایوں کی خوشی میں آج ہی ان فنکاروں نے جنم لیا ہے؟‘‘ 
لڑکی کے بھائی چڑ کر بولے: ’’جناب یہ ہمارے دوست ہیں مگر کافی فنکشنز میں پرفارم کرچکے ہیں اگر آپ لوگوں کودلچسپی نہیں تواور بات ہے حالانکہ موسیقی تو روح کی غذا ہوتی ہے۔‘‘
حیدرآباد کے ایک مہمان جمائی لے کر بولے:’’میری مانو تو میاں!! یہ گیت اُن بد روحوں کو سناؤ جو بلاوجہ زمین پہ بھٹک رہی ہیں، شاید اسی بہانے وہ چیختی چلاتی اس دنیا کا پیچھا چھوڑ کر عالمِ برزخ کی طرف نکل جائیں۔‘‘
فنکار ستے ہوئے چہروں کے ساتھ اسٹیج سے نیچے اُتر آئے۔ اسی اثناء میں کسی نے آکر یہ مژدہ سنایا کہ کھانا لگ گیا ہے۔ مہمان جیسے کھل سے گئے۔ حیدرآباد والے مہمانوں کو آج ہی کی کوچ سے کُوچ بھی کرنا تھا۔ وہ سب سے پہلے صحن کی جانب لپکے جہاں دسترخوان بچھ چکا تھا اور خلاف توقع بیٹھنے کا بھی انتظام تھا۔ مسز آصف چہک کر بولیں: ’’لو بھئی یہ خوب رہی….. کتنی جلدی بارہ بج گئے۔ اب جناب کیا لڑکی والے، کیا لڑکے والے سب ہی بسم اللہ کریں۔‘‘
گھر کی بہو قدرے جھجکتی شرماتی آئی اور ایک بڑا تھال درمیان میں رکھ دیا (پلیٹیں، چمچے اور سلاد دستر خوان پر پہلے سے موجود تھا) بھوک سے نڈھال ایک خاتون نے تھال میں چمچہ ڈالاتو دوسری نے کہنی مار کر روک دیا۔ 
’’ارے خالہ….. ٹھہرئیے تو… یہ تو میٹھا ہے….. شاید حلوہ….. یہ کھانے کے بعد کھائیے گا۔ کھانا آتا ہی ہوگا!‘‘ اس پروہ جھجھکنے والی بہو بولی (جو اس گھر کی واحدفرد تھی جو جھجھکتی تھی ورنہ سب ہی بڑے بے دھڑک تھے)
’’نہیں آنٹی….. یہ میٹھا نہیں….. بریانی ہے….. ‘‘
’’کیا…..!!‘‘ سارے مہمان دھک سے رہ گئے۔ چاول اتنے گیلے تھے کہ آپس میں چپک کر ملغوبہ سا بن گئے تھے۔ بیگم آصف اپنے مخصوص رنگ میں بولیں۔
’’یہ خوب رہی….. بریانی ذرا نرم ہوگئی…. بس جناب….. جو ہوسکا وہ حاضر ہے….. اپنوں میں یہی ہوتا ہے….. کوئی غیر تو ہے نہیں یہاں (کاش ہوتے) کہ تکلف ہو۔‘‘
ایک مہمان خاتون بریانی کا تھال کھسکا کر بولیں:’’بہن یہ آپ سنبھال کر رکھیں….. لفافے وغیرہ چپکانے کے کام آئے گی۔‘‘
’’لفافے…. لو بھئی یہ خوب کہی آپ نے بھلا انٹرنیٹ کے دور میں لفافوں کا کیا کام؟‘‘
مہمان، بیگم آصف کی ڈھٹائی پر ہکا بکا بیٹھے تھے اور بھیگی آنکھوں سے گو لتھی بریانی کو دیکھ رہے تھے۔ صرف وہی بچے شوق سے کھارہے تھے جو ٹھوس غذا میں پہلا قدم رکھ چکے تھے یا وہ بزرگ جن کے دانت نہ تھے۔ آخر دلھن کی خالہ نمودار ہوئیں اور قدرے خفگی سے بولیں: ’’بھئی کیا مسئلہ ہوگیا …. پہلے تو کھانے….. کھانے کا شور تھا، گانا تک نہ سننے دیا اور اب کھانا لگ گیا ہے تو سب ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ ہمارا تو باورچی ہی عین وقت پہ غائب ہوگیا تھا….. وہ تو جیلانی چچا کو داد دینی چاہیے کہ انہوں نے اتنی ایمرجنسی میں، اتنی جلدی بریانی تیار کردی، ورنہ یہ بھی نہ ملتی (کاش نہ ملتی) وہ بے چارے ابھی تک چھت سے جلی لکڑیاں سمیٹ رہے ہیں۔‘‘
’’اتارو اپنے جیلانی چچا کو…. ذرا نیچے تو آئیں۔‘‘ ایک مہمان بلند آواز میں چلایا جس کے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوچکا تھا۔
’’ہاں بھئی…. بلاؤ اپنے جیلانی چچا کو….. ہم بھی انہیں داد دینا چاہتے ہیں….. ‘‘ لڑکے والوں میں سے بھی کچھ حضرات نے آستینیں چڑھا کر چھت کی جانب دیکھا۔
عین اسی وقت چھت سے عقبی گلی میں کسی کے کودنے کی دھماکہ خیز آواز اُبھری۔
’’دھب!!!‘‘ اور پھر اندر باہر ہر طرف سناٹا چھا گیا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top