قصہ ایک شادی کا
بینا صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’حد ہوگئی یقینا کسی دشمن نے لڑکی والوں کے کان بھرے ہیں ،ہم اورکنجوسَ؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راکع، رافع اور ساریہ کے ابو کے خاندان میں شادی تھی۔ یہ شادی دوسرے شہر میں تھی۔ ابوآفس کے اہم کام اور امی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ر ک گئے اور تینوں بچوں کو دوسرے شہر کی شادی میں اپنی نمائندگی کے لیے بھیج دیا۔
بچے سامان اُٹھائے خوشی خوشی نفیسہ پھپھو کے گھر میں داخل ہوئے مگر شادی کے گھر میں پھیلی خاموشی اور خشکی سے ٹھٹک کے رہ گئے۔
’’رافع! ہم غلط گھر میں تو نہیں آگئے؟‘‘ راکع نے حیران پر یشان ہوکے پوچھا۔
’’گھر تو ان کا یہیں تھا او ر گھر میں رہنے والوں کے چہرے اور نام بھی یہی تھے۔‘‘ رافع چڑ کے بولا۔
در اصل یہ ایک مکمل کنجوس گھرانہ تھا۔ فر حان جس کی شادی ہورہی تھی، انتہائی خشک مزاج لڑ کا تھااور خر چ ہی نہیں ، بلکہ مسکرانے اور بولنے کے معاملے میں بھی حد در جے کنجوس تھا۔ جو کافی عجیب عادت تھی۔
فر حان کی بہن فر ح انتہائی موڈی تھی۔ جب اس سے کہو پیٹ میں درد ہے تو قور مہ اور کوفتے بناتی تھی اور جب کہو کچھ چٹپٹا کھانے کا دل چاہ رہا ہے تو مونگ کی دال کی کھچڑی اُبال دیتی تھی، محفلوں میں لان کے کپڑے پہن کے جاتی اور گھر میں قیمتی جوڑے رگیدتی پھرتی۔ جب کہا جاتا کچھ بولوتو گم صم کھڑی ہوجاتی اور خاموش رہنے کی فر ما ئش کی جاتی تو بے تکی باتوں کے ڈھیر لگا دیتی۔ کنجوسی میں وہ وقتا فوقتا گھر والوں کا ہاتھ بٹایا کرتی۔ مثلاً صفائی ستھرائی میں کنجوسی، عید پہ مہمانوں کی ٹھنڈی باسی سویوں اور بُھسے ہوئے بسکٹوں سے خاطر تواضع۔ چار کپوں کی تہہ میں پڑی چاے سے دو نئے چاے کے کپ بنانا وغیرہ وغیرہ۔
فر ح اور فر حان کی امی نفیسہ بانوکنجوس گھرانے میں سب سے بلند مقام کی حامل تھیں۔ گھر کے تمام افراد ان ہی کی سر براہی میں کنجوسی کے سارے کام انجام دیا کرتے۔ مثلاً دوسروں کو تحفہ دینے سے کترا یا جانا اور ہر اس محفل میں جانے سے پہلے ناراضی کا لبادہ اوڑھ لینا، جہاں تحفہ دینا پڑ جائے۔ اگر کبھی نوبت آہی جائے تو گھر کی کوئی پرانی استعمال شدہ یا مسترد شدہ چیز اُٹھا کے بطور تحفہ پکڑا دی جائے۔ سلامی کے لفافے میں نوٹ رکھنے کو بھولنا بھی ان ہی کا ایجاد کر دہ بہانہ تھا۔
فرحان کے ابو سعید صا حب انتہائی گھبرا ئی ہوئی شخصیت کے مالک تھے۔ جو پہلی بار دیکھتا سمجھتا کوئی بُری خبر سنی ہے۔ جو ہمیشہ سے جانتے تھے وہ سمجھتے تھے یہ ان کی شنا ختی علامت ہے۔ کیونکہ نفیسہ بانو حد درجے کنجوس تھیں۔ اس لیے ماسی ر کھنے کی قائل نہ تھیں اور گھر ہر وقت اوندھا پڑا رہتا۔ چیزیں جب بھی کہیں تلاش کی جا تیں، وہاں ہر گز نہ ملتیں جہاں آخری بار دیکھی گئی تھیں۔ فر ح جب کبھی موڈ میں ہوتی تو صفا ئی کر تی ۔ بد قسمتی سے آج وہی دن تھا۔
لہٰذا راکع، رافع اور ساریہ گھر میں داخل ہوئے تو گھر میں خوف و ہراس کی فضا طار ی تھی۔ جہاں جہا ں فر ح کی جھاڑو جاتی ، کسی کا موبائل کور ، کسی کی انگوٹھی ، کسی کی چپل بیک جنبشِ جھاڑو اُڑاتی چلی جاتی۔
’’سب سن لیں ،میں نے جو چا دریں بچھا دیں سو بچھا دیں، اب شادی تک یہی چلیں گی۔ یہی صفا ئی شادی کے دن تک استعمال کر نی ہے ۔‘‘ فر ح صفا ئی کے معاملے میں بھی کفایت شعاری کی قائل تھی۔ ’’خبردار جو کم از کم دو گھنٹے تک کوئی بستر پہ بیٹھا ۔ دوگھنٹے تک تو بستر کی چا در یں بے شکن رہیں۔‘‘
’’ارے راکع، را فع، ساریہ تم لوگ؟ کب آئے ؟ گیٹ کھلا تھا کیا؟‘‘
سعید صا حب راکع رافع کو دیکھ کے مزید گھبرا اُٹھے اور ان کی طر ف لپکے۔
’’ارے بیٹا بیٹھو ناں۔‘‘ نفسیہ بانو نے خوش اخلا قی سے کہا۔ راکع، رافع اور ساریہ گھبرا ئی ہوئی نظروں سے فر ح کو دیکھ رہے تھے کہ بیٹھنے سے جو شکن چادر پہ ممکنہ طور پر نمودار ہوتی ،وہ فر ح کے ماتھے پر ابھی سے نظر آرہی تھی۔
’’کیسی ہیں فر ح باجی؟ ‘‘ساریہ نے تھوک نگل کر فر ح سے اخلاق کی ٹھانی۔
’’نظر آرہی ہوں، جیسی ہوں ۔ سارا گھر کب سے گندا تھا۔ آج ہی صا ف کیا ،آج ہی تم لوگ آگئے۔‘‘فر ح چڑ کر بولی۔
’’فکر نہ کر یں ، ہم اتنے چھوٹے بچے نہیں کہ گھر گندا کریں۔‘‘ راکع مسکرا کر بولا۔ ساتھ ہی اس کے اوسان بھی خطا ہوگئے۔ اس کے جوتوں میں لگی مٹی کمرے کے فر ش پہ کالا ٹیکا بن کے دمک رہی تھی۔
’’بیٹا! چلو اندر ڈرا ئنگ روم میں بیٹھو۔‘‘ نفیسہ بانو نے جلدی سے ان کو فر ح کے غیض و غضب سے بچانے کے لیے ڈرا ئنگ روم کی جانب دھکیلا۔
ڈرا ئنگ روم میں گھپ اند ھیرا تھا اور لمبے صوفے پہ کوئی لمبی تا نے پڑا تھا۔ راکع اس پہ بیٹھتے بیٹھے بچا یا شاید لمبی تا ننے والا راکع کے نیچے آنے سے بچا۔ وہ دبلے پتلے فر حا ن بھائی یعنی دُولھا میاں تھے، جن کی شادی میں شر کت کے لیے یہ ساری تگ ودو ہورہی تھی۔
’’کیا حال ہے فر حان بھائی؟ “رافع گڑ بڑا کر حال پوچھنے لگا۔
’’ایسا حال ہے کہ کوئی سونے بھی نہیں دیتا۔‘‘ فر حان خشک لہجے میں بولا تو راکع، رافع اور ساریہ شر مندہ ہوگئے۔
’’سوری فر حا ن بھائی، وہ اند ھیرا تھا اس لیے پتا نہیں چلا کہ صوفے پہ کشن کے علاوہ آپ بھی ہیں۔‘‘ راکع گھبرا کے بولا۔
’’چلو ، اب تو پتا چل گیا، اب کہیں اور بیٹھو، کیونکہ فر ح نے بستر کی چادروں پہ دوگھنٹے کاکر فیو لگا رکھا ہے۔‘‘
فر حان بھا ئی دوبارہ لمبے صوفے پہ ٹانگیں لمبی کر کے لیٹ گئے۔
’’حد ہوگئی ، اب پتا چل گیا؟ سعید پھپھا کیوں ہر وقت گھبرائے رہتے ہیں؟ ہم تو تھوڑی دیر میں ہی گھبرا گئے۔‘‘ ساریہ آہستہ سے بو لی۔
’’بیٹا اس صوفے پہ بیٹھ جاؤ تم تینوں دبلے دبلے تو ہو۔‘‘ نفیسہ بانو جلدی سے چھوٹے صوفوں کی طرف اشارہ کر کے بولیں۔
’’جی اچھا پھپھو، اپنے دبلے ہونے پہ خا صی خوشی محسوس ہورہی ہے آج۔‘‘ رافع دل ہی دل میں بولا۔
’’میں تمھارے لیے کچھ لاتی ہوں۔‘‘ نفیسہ پھپھو کمرے سے نکل گئیں۔ واپس آئیں تو ان کے لیے کچھ لائیں تو مگر سعید پھپھا کو۔
’’آپ بیٹھ کے با تیں کر یں بچوں سے ، میں فر ح سے کہتی ہوں کھاناچڑ ھائے۔‘‘وہ دوبارہ چلی گئیں۔
’’یہ وقت کھانا چولھے پہ چڑ ھانے کا ہے یا حلق میں اتارنے کا؟‘‘ساریہ آہستہ سے بولی۔
’’سعید پھپھا، ساری تیاریاں ہوگئیں شادی کی؟ کو ئی کام ہوتو بتا ئیے؟ ‘‘رافع کو وہ رسمی جملہ یاد آیا جو امی نے سکھا یا تھا۔
’’ساری تیاریاں؟ وہ تو نہیں ہوئیں۔‘‘سعید پھپھا بُر ی طرح گھبرا گئے۔
’’وہ اصل میں بات طے ہونے کی خوشی میں جو لڈو آئے تھے انھیں چیونٹے کھارہے ہیں ، وہ بانٹنے تھے رشتے داروں میں۔‘‘
پھپھا تھوک نگل کر بولے۔ ’’مگر چار دن بعد تو برات ہے۔ اب بات طے ہونے کی کیا خوشی ؟ میرا مطلب لڈو بانٹنے کا وقت تو گز ر گیا،اب تو چھوہارے بانٹنے کا وقت ہے۔‘‘ راکع حیران ہوگیا۔
’’بھئی، یہ لڈو تین ہفتے قبل آئے تھے، بیگم نے کہا جب ہمیں کوئی لڈو نہیں کھلاتا تو ہم کیوں کھلائیں؟ اس لیے سب ر کھے کے رکھے رہ گئے۔ اب خرا ب ہورہے ہیں تو سوچا، بانٹ ہی دیں۔ ‘‘سعید پھپھا شر مند ہ ہوکر بولے۔
’’تو پھر اب یہ تین ہفتے پرانے لڈو چیونٹوں میں ہی بانٹ دیجیے۔‘‘ساریہ چڑ کے بولی۔
’’ کسی غر یب کو دے دیتے اس کا بھلا ہوجاتا۔‘‘ رافع آہستہ سے کہہ اٹھا۔
’’غر یب کو دینے کے لیے میں نے کہا تھا مگر غر یب ہمارے گھر سے دور بھاگتے ہیں، کیونکہ تمھاری نفیسہ پھپھو اس شہر کی تمام ماسیوں، جمعداروں اور کام والوں کو بُرا بھلا کہہ کے نکال چکی ہیں ،ان کو کسی کا کام پسند نہیں۔‘‘ سعید پھپھا رو انی میں بولے پھر حسبِ معمول گھبرا گئے۔’’تم اپنی پھپھو کو مت بتا نا بچوں کہ یہ میں نے تمھیں بتایاہے۔‘‘
’’ہم دُلھن کے کپڑے وغیرہ دیکھ سکتے ہیں؟‘‘ساریہ شادی میں دلچسپی ظاہر کرنے کی ایک اور کوشش کرتے ہوئے بولی۔
’’وہ تو ابھی تک مارکیٹ میں ہوں گے۔‘‘سعید پھپھا بوکھلا اُٹھے۔
’’کیا مطلب؟ چار دن بعد برات ہے اور دلہن کے کپڑے مارکیٹ میں ہیں؟‘‘ ساریہ حیران ہوگئی۔
’’بھئی مار کیٹ میں دُلھن کے کپڑے منہگے بہت تھے۔ اب ہم نے کہہ دیا ہے وہ لوگ اپنی مر ضی سے دُلھن کے کپڑے بنالیں۔‘‘ نفیسہ بانو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں۔
’’اور دُولھا کے کپڑے؟‘‘ راکع نے پوچھا۔
’’اس کی تیاری فر حان خود کر ے گا۔‘‘ نفسیہ بانو اطمینان سے بولیں۔
’’فی الحال فر حان بھائی صرف سونے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘رافع مسکرایا۔
’’باقی مہمان کب آئیں گے پھپھو؟‘‘راکع نے بوریت سے پوچھا۔
’’ہائیں۔ باقی مہمان بھی آئیں گے کیا؟ ‘‘سعید پھپھا بر ی طر ح بوکھلا کے نفسیہ بانوکو دیکھنے لگے۔
’’ارے کو ئی نہیں آئے گا۔ ہم بالکل نئے طر یقے سے شادی کر رہے ہیں۔ہمارا ہر رشتے دار شادی ہال میں پہنچے گا اور کھانے کا آخری نوالہ منھ میں لیتے ہی واپس چلا جائے گا۔ کوئی بھی تقریب ہمارے گھر میں نہیں ہوگی۔ ہمارے گھر کی ایک کر سی ایک چمچ اِدھر اُدھر نہیں ہوگااس شادی کے معاملے میں ۔ ساری تقر یبات دُلھن والے کریں گے۔‘‘ نفیسہ بانو سخت لہجے میں بولیں۔
’’یہ تو عجیب طریقہ ہے۔‘‘ساریہ حیرانی سے بولی۔ ’’یہی جدید طر یقہ ہے۔‘‘نفیسہ بانو مسکرائیں۔
’’ولیمہ تو ہوگا ناں کم از کم۔‘‘ رافع ہکا بکا تھا۔
’’ وہ تو مجبوری ہے کر ناہوگا ، مگر ہال میں ہوگا۔ ہال فرحان کے دوست کے ابو کے دوست کا ہے، ہمیں مفت ملے گا اور ولیمے کا کھانا تمھارے پھپھا کے چچازادبھائی کے ماموں زا د بھائی کا کیٹر نگ ہے۔ وہ لوگ ویسے تویتیم خانوں وغیرہ کاکھانا تیار کرتے ہیں مگر ولیمے کا بھی کردیں گے بالکل مفت میں۔ یہ ہے ہماری سادگی سے شادی۔‘‘ نفیسہ بانو فخر سے بولیں۔
’’ایسی سادگی جس میں کوئی روپیہ لڑ کے والے خر چ نہ کریں واہ۔ لڑ کی والے اپنی لڑ کی کے کپڑے بھی خود بنائیں، جہیز بھی دیں، ساری تقر یبات بھی کر یں ۔ واہ بھئی واہ۔‘‘ رافع طنز یہ بولا۔
’’ولیمے کا مینو کیا ہوگا؟‘‘ساریہ گھبراکے بولی ۔
’’ ہڈیوں کا شوربا ،نان اور شاید کھیر۔ اصل میں کھیرمفت دینے کی بات چل رہی ہے ابھی۔‘‘نفیسہ بانو بے فکری سے بولیں۔
’’مگر آپ نے لڑ کی کو کچھ تو دیا ہوگا؟‘‘ساریہ اس گھر میں آنے والی لڑ کی کے مستقبل سے خوف زدہ تھی۔
’’ہاں ہاں ۔ ہم خاندانی لوگ ہیں ۔ کوئی ٹٹ پونجیے نہیں۔ ضرور دیں گے زیور۔ مگر ابھی سے لا کے کیا کریں گے؟ خواہ مخواہ کا کر ایہ چڑھے گا۔‘‘
’’جی کرایہ؟‘‘ رافع حیران ہوگیا۔
’’دُلھن کوہم کراے کا زیور دیں گے، اگلے دن واپس۔ میں تو اپنی اسی کفایت شعاری کے لیے مشہور ہوں۔ یہی تو تمھارے پھپھا کو پسند ہے۔‘‘ نفیسہ بانو فخر سے بولیں۔
’’مم۔۔۔ مجھے پسند ہے؟‘‘ سعید پھپھا دھک سے ر ہ گئے۔ نفیسہ پھپھو نے گھورا تو خاموش ہوگئے۔
’’رہے کپڑے تو میں نے فر ح کے تمام پرانے کپڑوں کو ٹائٹ کرالیا ہے، دُلھن دبلی پتلی جو بہت ہے۔‘‘ نفیسہ بانومسکر ائیں۔ ’’لڑ کی والے یہ سب دیکھنا چاہیں تو ہم موبائل پہ تصویریں کھینچ کے لے جائیں گے مگر انھیں گھرآنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ خواہ مخواہ ناشتے پا نی کا خر چہ کیوں کریں بھلا؟ ‘‘
پھر وہ سعید پھپھا کو اشارہ کرتی کمرے سے نکل گئیں۔ وہ بھی ان کے پیچھے چلے گئے۔
’’مجھے تو اس دبلی پتلی لڑ کی سے ہمدردی محسوس ہورہی ہے۔ ‘‘ساریہ بڑ بڑا ئی۔
’’اور مجھے بھوک محسوس ہورہی ہے۔‘‘ راکع نے پیٹ پہ ہاتھ پھیرا۔
’’زیادہ اُمیدیں نہ لگاؤ، جو اکلوتے بیٹے کے ولیمے پہ ہڈ یوں کا مفت شور با کھلائے وہ ہم جیسے زبر دستی کے مہمانوں کو کیا پیش کریں گے؟‘‘
رافع جل کے بولا:’’ ہاں پتا نہیں ہمیں کیسے گھر میں آنے دیا گیا؟‘‘ راکع حیران تھا۔
’’کچھ بھی ہو، شادی کے تمام انتظا مات میں کنجوسی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔‘‘ ساریہ بڑبڑائی۔
’’یہ شادی سادگی سے نہیں، کنجوسی سے کی جارہی ہے ، سادگی یہ ہے کہ غیر ضروری خرچ نہ کیے جا ئیں اور یہاں تو ضروری خر چ کے سوال پہ بھی چہروں پہ سوالیہ نشان اُبھر رہے ہیں۔‘‘ رافع بولا۔
’’مگر کنجوسی کے یہ تمام منصوبے لڑ کی والوں کے اوپر ظلم ہیں۔ ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ ’’راکع سوچ میں گم ہو تے ہوئے بولا۔
*۔۔۔*
’’فر حان بھائی، میں لڑ کی کے چچا زاد بھائی کو جانتا ہوں۔ اس کا دوست میرے شہر میں ہوتا ہے ۔ اس سے پتا چلا ،آ پ کی بہت تعر یفیں ہوتی ہیں وہاں۔‘‘ راکع نے کھنکھار کے کہا۔ آج پہلی بار فر حان بھائی جیتی جاگتی شکل میں موجود تھے۔ ورنہ ہمیشہ سوتے ہوئے ملاکرتے۔
’’اچھا واقعی۔‘‘ فر حان بھائی خوش ہوگئے۔
’’مگر ایک بات وہاں سب کہتے ہیں۔۔۔ بتادوں؟‘‘ راکع جھجھک کے بولا۔
’’ہاں ہاں بتاؤ۔ ‘‘فر حان بھائی بے چینی سے بولے۔ ’’وہ ۔۔۔وہ سمجھتے ہیں کہ آ پ لوگ کنجوس ہیں۔ پتا نہیں کیوں؟‘‘ راکع ڈرتے ڈرتے بولا۔
’’ ارے ہم کیوں ہوتے کنجوس؟ ہم جدی پشتی امیر اور خاندانی لوگ ہیں۔‘‘فرحان بھائی چڑ کے بولے۔
’’اگر امیر اور خاندانی ہیں تواس بات کا علم لڑ کی والوں کو کب اور کیسے ہو گا؟‘‘رافع مسکرایا۔
’’کیا مطلب؟ ‘‘فر حان بھائی چونکے۔
’’لڑ کی کو فر ح باجی کے گھسے پٹے کپڑے دیے جارہے ہیں۔ کراے کے زیور چڑ ھائے جارہے ہیں۔ مفت ہال میں مفت شور بے پہ ولیمہ ہورہا ہے۔لڑ کی والوں کو گھر میں آنے کی اجازت نہیں کہ کہیں چاے پانی کا خرچ نہ ہو۔ ساری تقر یبات لڑ کی والوں کے کھاتے میں لکھی گئی ہیں۔ جانتے ہیں ناں ۔۔۔‘‘
’’آپ؟‘‘ راکع سنجیدگی سے کہتا چلاگیا۔
’’ان سب باتوں سے انھیں مدد مل رہی ہے کہ آ پ کو کنجوس سمجھیں۔‘‘ رافع بولا۔
’’حد ہوگئی، یقیناًکسی دشمن نے لڑ کی والوں کے کان بھرے ہیں۔ ہم اور کنجوس؟‘‘ فر حان بھائی اَکڑ کے بولے۔
’’پھر کم ازکم ولیمے کے کھانے کا تو اچھاسا انتظام کرادیں۔ یتیم خانے کے شور بے کی جگہ۔ ورنہ وہ لوگ سچ ثابت ہوجائیں گے، آپ کو کنجوس کہنے میں۔‘‘ رافع جلدی سے گرم لوہے پہ چوٹ لگاتے ہوئے بولا۔
’’پورے ڈیڑ ھ سال ہوگئے نوکری کرتے ہوئے۔ میرے پاس میری اٹھارہ مہینے کی تنخواہ بے کار پڑی ہے۔ امی خر چ نہیں کر نے دیتیں لیکن اگر میں نے کھانا اچھا کرا دیا تو امی ناراض نہ ہوجائیں۔ ‘‘ فر حان بھائی جھجھکتے ہوئے بولے ۔
ولیمے پہ اچھا کھانا کرانا سنت ہے۔ لڑ کے کی حلال کمائی اس کے ولیمے کے کھانے پہ صرف ہو اس سے اچھا مقصد کیا ہوگا؟ لوگ خوش ہوں گے تو آپ کی امی کی ناراضی بھی خود ہی دورہوجائے گی۔‘‘ راکع بولا۔
’’ہوں۔۔۔ کہتے تو ٹھیک ہو، پھر کباب پراٹھا اور چکن بر یانی قسم کی چیز ر کھ لیں اور میٹھے میں کسٹرڈ۔ ‘‘فر حان بھائی جوش میں آگئے۔
’’ویر ی گڈاور ہاں۔۔۔ ہماری ہونے والی بھابی کو اچھے اور نئے کپڑے۔ جو ان کا حق ہے، ان کو عزت دینے کا یہ طر یقہ نہیں کہ ان کو کسی کی اُترن تحفے میں دی جائے۔‘‘ ساریہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔
’’کراے کے خاندان۔۔۔میرا مطلب کرا ے کے خاندانی زیور کے بجاے چھوٹا مگر ذاتی کمائی سے خر یدا ہوا زیور بھی۔‘‘رافع نے مسکرا کے فر حان بھائی کے کندھے پہ ہاتھ ر کھا۔
فر حان بھائی نے رافع کا ہاتھ تھام کے کہا۔’’ پھر تو وہ لوگ ہمیں کنجو س نہیں سمجھیں گے ناں؟ ‘‘
*۔۔۔*
ولیمے پر نفیسہ پھپھو نے آتشی گلابی جوڑا پہنا تھا۔ کھانے کی ڈشیں اُلٹیں توان میں چکن بریانی، کباب پراٹھے اور کسٹرڈ دیکھ کر مزید آتشیں اور لال پیلی ہو گئیں۔ مہمانوں کا ہر نوالہ ان کے دل پہ گھونسے کی طرح لگ رہا تھا۔ کونے میں موبائل کا کیلکولیٹر کھول کے بیٹھ گئیں۔
’’کباب۔۔۔چکن بریانی ۔۔۔ کولڈ ڈرنک اُف توبہ۔ کتنے خر چ کر ڈالے اس لڑکے نے ؟‘‘
پھرجب گھر آکے فر حان بھائی نے نئے زیور کا ڈبہ دُلھن کوپیش کیا تو ان کا بس نہ چلتا تھا کہ ان کے ہا تھ سے چھین لیں۔ پھٹ پڑیں۔
’’اتنی فضول خر چی کی ہمت کیسے ہوئی تم کو؟ اور دُلھن! فوراً یہ زیور واپس کرو۔ یہ کرا ے کا زیور ہے۔‘‘
’’جی نہیں پھپھو۔ یہ فر حان بھائی کی اپنی کمائی کا زیور ہے۔ کیونکہ خاندانی عزت کراے پہ حا صل نہیں کی جاتی۔‘‘ راکع مسکرا کے بولا۔
نفیسہ پھپھو کی شعلہ بر ساتی نگاہیں ان تینوں پہ جم گئیں۔
’’تو یہ تم تین شیطان تھے۔‘‘لیکن تینوں شیطانوں کے بیگ پہلے ہی تیار تھے۔
’’اللہ حافظ پھپھو۔ بہت مزاآیا شادی میں۔‘‘
تینوں سر پہ پیر ر کھ کے دروازے کی طرف بھاگے، جہاں را کع کی بک کرائی ہوئی ٹیکسی انھیں ریلوے اسٹیشن لے جانے کوتیار تھی۔
*۔۔۔*
راکع، رافع اور ساریہ کے ابو کے خاندان میں شادی تھی۔ یہ شادی دوسرے شہر میں تھی۔ ابوآفس کے اہم کام اور امی طبیعت کی خرابی کی وجہ سے ر ک گئے اور تینوں بچوں کو دوسرے شہر کی شادی میں اپنی نمائندگی کے لیے بھیج دیا۔ بچے سامان اُٹھائے خوشی خوشی نفیسہ پھپھو کے گھر میں داخل ہوئے مگر شادی کے گھر میں پھیلی خاموشی اور خشکی سے ٹھٹک کے رہ گئے۔ ’’رافع! ہم غلط گھر میں تو نہیں آگئے؟‘‘ راکع نے حیران پر یشان ہوکے پوچھا۔ ’’گھر تو ان کا یہیں تھا او ر گھر میں رہنے والوں کے چہرے اور نام بھی یہی تھے۔‘‘ رافع چڑ کے بولا۔ در اصل یہ ایک مکمل کنجوس گھرانہ تھا۔ فر حان جس کی شادی ہورہی تھی، انتہائی خشک مزاج لڑ کا تھااور خر چ ہی نہیں ، بلکہ مسکرانے اور بولنے کے معاملے میں بھی حد در جے کنجوس تھا۔ جو کافی عجیب عادت تھی۔ فر حان کی بہن فر ح انتہائی موڈی تھی۔ جب اس سے کہو پیٹ میں درد ہے تو قور مہ اور کوفتے بناتی تھی اور جب کہو کچھ چٹپٹا کھانے کا دل چاہ رہا ہے تو مونگ کی دال کی کھچڑی اُبال دیتی تھی، محفلوں میں لان کے کپڑے پہن کے جاتی اور گھر میں قیمتی جوڑے رگیدتی پھرتی۔ جب کہا جاتا کچھ بولوتو گم صم کھڑی ہوجاتی اور خاموش رہنے کی فر ما ئش کی جاتی تو بے تکی باتوں کے ڈھیر لگا دیتی۔ کنجوسی میں وہ وقتا فوقتا گھر والوں کا ہاتھ بٹایا کرتی۔ مثلاً صفائی ستھرائی میں کنجوسی، عید پہ مہمانوں کی ٹھنڈی باسی سویوں اور بُھسے ہوئے بسکٹوں سے خاطر تواضع۔ چار کپوں کی تہہ میں پڑی چاے سے دو نئے چاے کے کپ بنانا وغیرہ وغیرہ۔ فر ح اور فر حان کی امی نفیسہ بانوکنجوس گھرانے میں سب سے بلند مقام کی حامل تھیں۔ گھر کے تمام افراد ان ہی کی سر براہی میں کنجوسی کے سارے کام انجام دیا کرتے۔ مثلاً دوسروں کو تحفہ دینے سے کترا یا جانا اور ہر اس محفل میں جانے سے پہلے ناراضی کا لبادہ اوڑھ لینا، جہاں تحفہ دینا پڑ جائے۔ اگر کبھی نوبت آہی جائے تو گھر کی کوئی پرانی استعمال شدہ یا مسترد شدہ چیز اُٹھا کے بطور تحفہ پکڑا دی جائے۔ سلامی کے لفافے میں نوٹ رکھنے کو بھولنا بھی ان ہی کا ایجاد کر دہ بہانہ تھا۔ فرحان کے ابو سعید صا حب انتہائی گھبرا ئی ہوئی شخصیت کے مالک تھے۔ جو پہلی بار دیکھتا سمجھتا کوئی بُری خبر سنی ہے۔ جو ہمیشہ سے جانتے تھے وہ سمجھتے تھے یہ ان کی شنا ختی علامت ہے۔ کیونکہ نفیسہ بانو حد درجے کنجوس تھیں۔ اس لیے ماسی ر کھنے کی قائل نہ تھیں اور گھر ہر وقت اوندھا پڑا رہتا۔ چیزیں جب بھی کہیں تلاش کی جا تیں، وہاں ہر گز نہ ملتیں جہاں آخری بار دیکھی گئی تھیں۔ فر ح جب کبھی موڈ میں ہوتی تو صفا ئی کر تی ۔ بد قسمتی سے آج وہی دن تھا۔ لہٰذا راکع، رافع اور ساریہ گھر میں داخل ہوئے تو گھر میں خوف و ہراس کی فضا طار ی تھی۔ جہاں جہا ں فر ح کی جھاڑو جاتی ، کسی کا موبائل کور ، کسی کی انگوٹھی ، کسی کی چپل بیک جنبشِ جھاڑو اُڑاتی چلی جاتی۔ ’’سب سن لیں ،میں نے جو چا دریں بچھا دیں سو بچھا دیں، اب شادی تک یہی چلیں گی۔ یہی صفا ئی شادی کے دن تک استعمال کر نی ہے ۔‘‘ فر ح صفا ئی کے معاملے میں بھی کفایت شعاری کی قائل تھی۔ ’’خبردار جو کم از کم دو گھنٹے تک کوئی بستر پہ بیٹھا ۔ دوگھنٹے تک تو بستر کی چا در یں بے شکن رہیں۔‘‘ ’’ارے راکع، را فع، ساریہ تم لوگ؟ کب آئے ؟ گیٹ کھلا تھا کیا؟‘‘ سعید صا حب راکع رافع کو دیکھ کے مزید گھبرا اُٹھے اور ان کی طر ف لپکے۔ ’’ارے بیٹا بیٹھو ناں۔‘‘ نفسیہ بانو نے خوش اخلا قی سے کہا۔ راکع، رافع اور ساریہ گھبرا ئی ہوئی نظروں سے فر ح کو دیکھ رہے تھے کہ بیٹھنے سے جو شکن چادر پہ ممکنہ طور پر نمودار ہوتی ،وہ فر ح کے ماتھے پر ابھی سے نظر آرہی تھی۔ ’’کیسی ہیں فر ح باجی؟ ‘‘ساریہ نے تھوک نگل کر فر ح سے اخلاق کی ٹھانی۔ ’’نظر آرہی ہوں، جیسی ہوں ۔ سارا گھر کب سے گندا تھا۔ آج ہی صا ف کیا ،آج ہی تم لوگ آگئے۔‘‘فر ح چڑ کر بولی۔ ’’فکر نہ کر یں ، ہم اتنے چھوٹے بچے نہیں کہ گھر گندا کریں۔‘‘ راکع مسکرا کر بولا۔ ساتھ ہی اس کے اوسان بھی خطا ہوگئے۔ اس کے جوتوں میں لگی مٹی کمرے کے فر ش پہ کالا ٹیکا بن کے دمک رہی تھی۔ ’’بیٹا! چلو اندر ڈرا ئنگ روم میں بیٹھو۔‘‘ نفیسہ بانو نے جلدی سے ان کو فر ح کے غیض و غضب سے بچانے کے لیے ڈرا ئنگ روم کی جانب دھکیلا۔ ڈرا ئنگ روم میں گھپ اند ھیرا تھا اور لمبے صوفے پہ کوئی لمبی تا نے پڑا تھا۔ راکع اس پہ بیٹھتے بیٹھے بچا یا شاید لمبی تا ننے والا راکع کے نیچے آنے سے بچا۔ وہ دبلے پتلے فر حا ن بھائی یعنی دُولھا میاں تھے، جن کی شادی میں شر کت کے لیے یہ ساری تگ ودو ہورہی تھی۔ ’’کیا حال ہے فر حان بھائی؟ “رافع گڑ بڑا کر حال پوچھنے لگا۔ ’’ایسا حال ہے کہ کوئی سونے بھی نہیں دیتا۔‘‘ فر حان خشک لہجے میں بولا تو راکع، رافع اور ساریہ شر مندہ ہوگئے۔ ’’سوری فر حا ن بھائی، وہ اند ھیرا تھا اس لیے پتا نہیں چلا کہ صوفے پہ کشن کے علاوہ آپ بھی ہیں۔‘‘ راکع گھبرا کے بولا۔ ’’چلو ، اب تو پتا چل گیا، اب کہیں اور بیٹھو، کیونکہ فر ح نے بستر کی چادروں پہ دوگھنٹے کاکر فیو لگا رکھا ہے۔‘‘ فر حان بھا ئی دوبارہ لمبے صوفے پہ ٹانگیں لمبی کر کے لیٹ گئے۔ ’’حد ہوگئی ، اب پتا چل گیا؟ سعید پھپھا کیوں ہر وقت گھبرائے رہتے ہیں؟ ہم تو تھوڑی دیر میں ہی گھبرا گئے۔‘‘ ساریہ آہستہ سے بو لی۔ ’’بیٹا اس صوفے پہ بیٹھ جاؤ تم تینوں دبلے دبلے تو ہو۔‘‘ نفیسہ بانو جلدی سے چھوٹے صوفوں کی طرف اشارہ کر کے بولیں۔ ’’جی اچھا پھپھو، اپنے دبلے ہونے پہ خا صی خوشی محسوس ہورہی ہے آج۔‘‘ رافع دل ہی دل میں بولا۔ ’’میں تمھارے لیے کچھ لاتی ہوں۔‘‘ نفیسہ پھپھو کمرے سے نکل گئیں۔ واپس آئیں تو ان کے لیے کچھ لائیں تو مگر سعید پھپھا کو۔ ’’آپ بیٹھ کے با تیں کر یں بچوں سے ، میں فر ح سے کہتی ہوں کھاناچڑ ھائے۔‘‘وہ دوبارہ چلی گئیں۔ ’’یہ وقت کھانا چولھے پہ چڑ ھانے کا ہے یا حلق میں اتارنے کا؟‘‘ساریہ آہستہ سے بولی۔ ’’سعید پھپھا، ساری تیاریاں ہوگئیں شادی کی؟ کو ئی کام ہوتو بتا ئیے؟ ‘‘رافع کو وہ رسمی جملہ یاد آیا جو امی نے سکھا یا تھا۔ ’’ساری تیاریاں؟ وہ تو نہیں ہوئیں۔‘‘سعید پھپھا بُر ی طرح گھبرا گئے۔ ’’وہ اصل میں بات طے ہونے کی خوشی میں جو لڈو آئے تھے انھیں چیونٹے کھارہے ہیں ، وہ بانٹنے تھے رشتے داروں میں۔‘‘ پھپھا تھوک نگل کر بولے۔ ’’مگر چار دن بعد تو برات ہے۔ اب بات طے ہونے کی کیا خوشی ؟ میرا مطلب لڈو بانٹنے کا وقت تو گز ر گیا،اب تو چھوہارے بانٹنے کا وقت ہے۔‘‘ راکع حیران ہوگیا۔ ’’بھئی، یہ لڈو تین ہفتے قبل آئے تھے، بیگم نے کہا جب ہمیں کوئی لڈو نہیں کھلاتا تو ہم کیوں کھلائیں؟ اس لیے سب ر کھے کے رکھے رہ گئے۔ اب خرا ب ہورہے ہیں تو سوچا، بانٹ ہی دیں۔ ‘‘سعید پھپھا شر مند ہ ہوکر بولے۔ ’’تو پھر اب یہ تین ہفتے پرانے لڈو چیونٹوں میں ہی بانٹ دیجیے۔‘‘ساریہ چڑ کے بولی۔ ’’ کسی غر یب کو دے دیتے اس کا بھلا ہوجاتا۔‘‘ رافع آہستہ سے کہہ اٹھا۔ ’’غر یب کو دینے کے لیے میں نے کہا تھا مگر غر یب ہمارے گھر سے دور بھاگتے ہیں، کیونکہ تمھاری نفیسہ پھپھو اس شہر کی تمام ماسیوں، جمعداروں اور کام والوں کو بُرا بھلا کہہ کے نکال چکی ہیں ،ان کو کسی کا کام پسند نہیں۔‘‘ سعید پھپھا رو انی میں بولے پھر حسبِ معمول گھبرا گئے۔’’تم اپنی پھپھو کو مت بتا نا بچوں کہ یہ میں نے تمھیں بتایاہے۔‘‘ ’’ہم دُلھن کے کپڑے وغیرہ دیکھ سکتے ہیں؟‘‘ساریہ شادی میں دلچسپی ظاہر کرنے کی ایک اور کوشش کرتے ہوئے بولی۔ ’’وہ تو ابھی تک مارکیٹ میں ہوں گے۔‘‘سعید پھپھا بوکھلا اُٹھے۔ ’’کیا مطلب؟ چار دن بعد برات ہے اور دلہن کے کپڑے مارکیٹ میں ہیں؟‘‘ ساریہ حیران ہوگئی۔ ’’بھئی مار کیٹ میں دُلھن کے کپڑے منہگے بہت تھے۔ اب ہم نے کہہ دیا ہے وہ لوگ اپنی مر ضی سے دُلھن کے کپڑے بنالیں۔‘‘ نفیسہ بانو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولیں۔ ’’اور دُولھا کے کپڑے؟‘‘ راکع نے پوچھا۔ ’’اس کی تیاری فر حان خود کر ے گا۔‘‘ نفسیہ بانو اطمینان سے بولیں۔ ’’فی الحال فر حان بھائی صرف سونے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘رافع مسکرایا۔ ’’باقی مہمان کب آئیں گے پھپھو؟‘‘راکع نے بوریت سے پوچھا۔ ’’ہائیں۔ باقی مہمان بھی آئیں گے کیا؟ ‘‘سعید پھپھا بر ی طر ح بوکھلا کے نفسیہ بانوکو دیکھنے لگے۔ ’’ارے کو ئی نہیں آئے گا۔ ہم بالکل نئے طر یقے سے شادی کر رہے ہیں۔ہمارا ہر رشتے دار شادی ہال میں پہنچے گا اور کھانے کا آخری نوالہ منھ میں لیتے ہی واپس چلا جائے گا۔ کوئی بھی تقریب ہمارے گھر میں نہیں ہوگی۔ ہمارے گھر کی ایک کر سی ایک چمچ اِدھر اُدھر نہیں ہوگااس شادی کے معاملے میں ۔ ساری تقر یبات دُلھن والے کریں گے۔‘‘ نفیسہ بانو سخت لہجے میں بولیں۔ ’’یہ تو عجیب طریقہ ہے۔‘‘ساریہ حیرانی سے بولی۔ ’’یہی جدید طر یقہ ہے۔‘‘نفیسہ بانو مسکرائیں۔ ’’ولیمہ تو ہوگا ناں کم از کم۔‘‘ رافع ہکا بکا تھا۔ ’’ وہ تو مجبوری ہے کر ناہوگا ، مگر ہال میں ہوگا۔ ہال فرحان کے دوست کے ابو کے دوست کا ہے، ہمیں مفت ملے گا اور ولیمے کا کھانا تمھارے پھپھا کے چچازادبھائی کے ماموں زا د بھائی کا کیٹر نگ ہے۔ وہ لوگ ویسے تویتیم خانوں وغیرہ کاکھانا تیار کرتے ہیں مگر ولیمے کا بھی کردیں گے بالکل مفت میں۔ یہ ہے ہماری سادگی سے شادی۔‘‘ نفیسہ بانو فخر سے بولیں۔ ’’ایسی سادگی جس میں کوئی روپیہ لڑ کے والے خر چ نہ کریں واہ۔ لڑ کی والے اپنی لڑ کی کے کپڑے بھی خود بنائیں، جہیز بھی دیں، ساری تقر یبات بھی کر یں ۔ واہ بھئی واہ۔‘‘ رافع طنز یہ بولا۔ ’’ولیمے کا مینو کیا ہوگا؟‘‘ساریہ گھبراکے بولی ۔ ’’ ہڈیوں کا شوربا ،نان اور شاید کھیر۔ اصل میں کھیرمفت دینے کی بات چل رہی ہے ابھی۔‘‘نفیسہ بانو بے فکری سے بولیں۔ ’’مگر آپ نے لڑ کی کو کچھ تو دیا ہوگا؟‘‘ساریہ اس گھر میں آنے والی لڑ کی کے مستقبل سے خوف زدہ تھی۔ ’’ہاں ہاں ۔ ہم خاندانی لوگ ہیں ۔ کوئی ٹٹ پونجیے نہیں۔ ضرور دیں گے زیور۔ مگر ابھی سے لا کے کیا کریں گے؟ خواہ مخواہ کا کر ایہ چڑھے گا۔‘‘ ’’جی کرایہ؟‘‘ رافع حیران ہوگیا۔ ’’دُلھن کوہم کراے کا زیور دیں گے، اگلے دن واپس۔ میں تو اپنی اسی کفایت شعاری کے لیے مشہور ہوں۔ یہی تو تمھارے پھپھا کو پسند ہے۔‘‘ نفیسہ بانو فخر سے بولیں۔ ’’مم۔۔۔ مجھے پسند ہے؟‘‘ سعید پھپھا دھک سے ر ہ گئے۔ نفیسہ پھپھو نے گھورا تو خاموش ہوگئے۔ ’’رہے کپڑے تو میں نے فر ح کے تمام پرانے کپڑوں کو ٹائٹ کرالیا ہے، دُلھن دبلی پتلی جو بہت ہے۔‘‘ نفیسہ بانومسکر ائیں۔ ’’لڑ کی والے یہ سب دیکھنا چاہیں تو ہم موبائل پہ تصویریں کھینچ کے لے جائیں گے مگر انھیں گھرآنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ خواہ مخواہ ناشتے پا نی کا خر چہ کیوں کریں بھلا؟ ‘‘ پھر وہ سعید پھپھا کو اشارہ کرتی کمرے سے نکل گئیں۔ وہ بھی ان کے پیچھے چلے گئے۔ ’’مجھے تو اس دبلی پتلی لڑ کی سے ہمدردی محسوس ہورہی ہے۔ ‘‘ساریہ بڑ بڑا ئی۔ ’’اور مجھے بھوک محسوس ہورہی ہے۔‘‘ راکع نے پیٹ پہ ہاتھ پھیرا۔ ’’زیادہ اُمیدیں نہ لگاؤ، جو اکلوتے بیٹے کے ولیمے پہ ہڈ یوں کا مفت شور با کھلائے وہ ہم جیسے زبر دستی کے مہمانوں کو کیا پیش کریں گے؟‘‘ رافع جل کے بولا:’’ ہاں پتا نہیں ہمیں کیسے گھر میں آنے دیا گیا؟‘‘ راکع حیران تھا۔ ’’کچھ بھی ہو، شادی کے تمام انتظا مات میں کنجوسی کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔‘‘ ساریہ بڑبڑائی۔ ’’یہ شادی سادگی سے نہیں، کنجوسی سے کی جارہی ہے ، سادگی یہ ہے کہ غیر ضروری خرچ نہ کیے جا ئیں اور یہاں تو ضروری خر چ کے سوال پہ بھی چہروں پہ سوالیہ نشان اُبھر رہے ہیں۔‘‘ رافع بولا۔ ’’مگر کنجوسی کے یہ تمام منصوبے لڑ کی والوں کے اوپر ظلم ہیں۔ ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ ’’راکع سوچ میں گم ہو تے ہوئے بولا۔