skip to Main Content

قرض

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

سیلاب کا زور ٹوٹ چکا تھا۔
گزشتہ کئی دنوں سے موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ تیز آندھی پہلے ہی بہت سے کچے مکانات کی چھتیں اڑا لے گئی تھی۔ طوفانی بارش کی وجہ سے درجنوں مکانات کی دیوار یں بیٹھ گئی تھیں۔ قصبے کے جتنے علاقے پہاڑی کے دامن اور نشیب میں واقع تھے، وہاں پانی بھر چکا تھا اور مکانات کی چھتوں تک آ پہنچا تھا۔ رہی سہی کسر سیلاب نے پوری کر دی تھی۔ ان علاقوں میں رہنے والے، بڑی مشکل سے اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوئے تھے۔ امدادی تنظیموں نے دن رات ایک کر کے سیلاب میں گھرے ہوئے لوگوں کی مدد کی تھی، پھر بھی پانچ افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔
اب بارش رک چکی تھی اور پانی بھی خاصی حد تک اتر چکا تھا لیکن سیلاب سے ہونے والی تباہی کے آثار ہر طرف نظر آ رہے تھے۔ بہت سے علاقوں میں گھٹنوں گھٹنوں پانی تھا۔ کچھ علاقوں میں کمر تک پانی تھا۔ ان تمام علاقوں میں رہنے والے بہہ جانے والا اپنا اپنا سامان تلاش کر رہے تھے۔ کچھ لوگ اپنا سامان سروں پر اٹھائے محفوظ مقامات کی طرف جا رہے تھے۔ کچھ ایسے تھے جو اپنا بچا کھچا سامان لے کر ایک یا دو چار پائیوں پر سکڑے سمٹے بیٹھے تھے۔
سردی غضب کی تھی۔ لوگوں کے گرم کپڑے اور لحاف وغیرہ بھی، سیلابی پانی اپنے ساتھ بہا لے گیا تھا۔ بہت سے لوگ معمولی کپڑوں میں گزارہ کر رہے تھے اور دونوں ہاتھ بغلوں میں دبائے، سردی سے تھر تھر کانپ رہے تھے۔ پانی میں جگہ جگہ درختوں کی ٹہنیاں، چپلیں، پلاسٹک کا سامان اور دوسری ہلکی پھلکی اشیاء تیر رہی تھیں۔ جو درخت سلامت رہ گئے تھے، ان کی ٹہنیوں سے رنگ برنگ کپڑوں کی دھجیاں لپٹی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ علاقے میں بجلی کی فراہمی کئی دنوں سے بند تھی۔
حکومت نے فوری طور پر ایک بلند جگہ پر شامیانے لگا کر امدادی کیمپ قائم کر دیا تھا، لیکن وہاں گنجائش سے زیادہ افراد نے پناہ لے رکھی تھی۔
”اب کیا کیا جائے؟“ نذیر ملک نے راشد چوہان سے پوچھا۔ ”ہمارے پاس سامان بالکل ختم ہو چکا ہے اور لوگ سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں۔ ان بے چاروں کے پاس کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔“
”حکومت نے ریڈیو پر اعلان کیا تو ہے کہ امدادی سامان جلد روانہ کر دیا جائے گا، لیکن میرا خیال ہے کہ سامان پہنچنے میں کم از کم دو دن اور لگ جائیں گے۔“
راشد چوہان نے کہا۔ ”مجھے ڈر ہے سردی سے کچھ اور افراد نہ مرجائیں۔“
”ہماری تنظیم جتنا کچھ کر سکتی تھی، اس سے بھی بڑھ کر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب امدادی اشیاء کہاں سے لائیں۔ اگر آج یا کل، پھر بارش ہوگئی تو خطرہ ہے کہ پھر سیلاب آ جائے گا۔“ نذیر ملک نے افسردہ لہجے میں کہا۔
”کیوں نہ ہم سیٹھ کر امت سے بات کریں۔“ راشد چوہان نے کہا۔
”کون؟ سیٹھ کر امت؟ مجھے تو اس شخص سے کوئی خاص امید نہیں ہے، سیٹھ تو ہے پر میں نے سنا ہے خاصا بخیل ہے۔“نذیر ملک نے بیزاری سے کہا۔
”تم نے کس سے سنا؟“
”سیٹھ کرامت کے گھر میں جو ملازم کام کرتے ہیں، وہی بتاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر ایک کمرے میں دو بتیاں روشن ہوں تو سیٹھ صاحب ایک بتی بجھوا دیتے ہیں کہ فضول خرچی ہو رہی ہے۔ لباس بھی سادہ سا پہنتے ہیں۔ ایک بار تو ایک ملاقاتی نے سیٹھ کی آستین میں پیوند بھی لگا دیکھا تھا۔“ نذیر ملک کا لہجہ طنزیہ ہو گیا۔
راشد چوہان چند لمحوں تک سر جھکائے سوچتے رہے پھر بولے:
”آؤ میرے ساتھ، سیٹھ کر امت کے گھر چلتے ہیں، میرا دل کہتا ہے کہ ان شاء اللہ ہمیں کامیابی حاصل ہوگی۔“
”چلو، آج تمہارے دل کی مان لیتے ہیں، مگر یہ سوچ لو، سیٹھ صاحب کا بنگلہ یہاں سے بہت دور اور چڑھائی پر ہے۔ راستہ بڑا دشوار ہے اور بارش کے بعدتو اور بھی خطرناک ہو گیا ہے۔“ نذیر ملک نے خبر دار کیا۔
”کوئی بات نہیں۔ ہم لوگ ان شاء اللہ ساڑھے تین چار گھنٹوں میں پہنچ ہی جائیں گے۔“ راشد چوہان نے امید بھرے لہجے میں جواب دیا۔

٭……٭……٭

وہ دونوں آہستہ آہستہ چڑھائی چڑھ رہے تھے۔ دونوں ہانپ رہے تھے۔ چڑھائی تھی بھی خطرناک، جلدی پہنچنے کی خاطر، انہوں نے ایک مختصر راستہ اختیار کیا تھا، لیکن یہ راستہ بہت اونچا نیچا اور خراب تھا۔ تقریباً چار گھنٹوں کے دشوار سفر کے بعد آخر وہ سیٹھ کرامت کے بنگلے تک پہنچ ہی گئے۔
بنگلے کے دروازے پر کھڑے باور دی چوکیدار نے اجنبی چہرے دیکھ کر بندوق تان لی لیکن جب راشد چوہان نے اپنا اور نذیر ملک کا تعارف کروایا اور بتایا کہ وہ کس مقصد کی خاطر یہاں آئے ہیں تو چوکیدار کا رویہ دوستانہ ہو گیا۔ اس نے سیٹھ صاحب کو اطلاع بھجوائی۔ اندر سے پیغام آیا کہ مہمانوں کو بٹھایا جائے۔ اگر وہ ہاتھ منہ دھونا چاہیں تو اس کا انتظام کیا جائے۔
پہاڑی علاقے میں طویل سفر کر کے، واقعی نذیر ملک اور راشد چوہان کے ہاتھ، پاؤں اور لباس مٹی اور کیچڑ سے آلودہ ہو چکے تھے۔ وہ دونوں بہت تھکن بھی محسوس کر رہے تھے۔ دونوں نے سیٹھ صاحب کے بنگلے کے احاطے میں لگے نل کے ذریعے سے ہاتھ، منہ اور پاؤں اچھی طرح دھوئے۔ پھر چوکیدار انہیں اندر کمرے میں لے گیا۔
یہ کمرہ خاصا بڑا تھا۔ صوفے پرانے طرز کے تھے۔ کھڑکیوں پر لٹکنے والے پردے بھی سادہ سے تھے۔ کمرے میں کوئی قیمتی گلدان یا آرائش کی اشیاء بھی نظر نہ آتی تھیں۔
اندر کی طرف کھلنے والے دروازے کا پردہ ہلا اور پردہ ہٹا کر سیٹھ کر امت کمرے میں آگئے۔
”السلام علیکم!“ سیٹھ صاحب نے گرم جوشی سے کہا۔ ”مجھے کرامت حسین کہتے ہیں۔“
”وعلیکم السلام، میں راشد چوہان ہوں۔“ راشد چوہان نے کہا۔ ”اور یہ نذیر ملک ہیں۔ ہم لوگ تحریک خادمان خلق سے تعلق رکھتے ہیں۔“
”بہت خوب!“ سیٹھ صاحب نے سر ہلایا۔
”ہم آپ کا زیادہ وقت نہیں لیں گے۔ یوں بھی ہمیں شام سے پہلے پہلے واپس پہنچنا ہے۔ ہم بڑی مشکلوں سے یہاں پہنچے ہیں۔ سیٹھ صاحب آپ کو تو معلوم ہو گا، گزشتہ ایک ہفتے سے ہونے والی زبردست بارش، آندھی اور سیلاب نے ہر طرف تباہی مچادی ہے۔“
”جی ہاں۔“ سیٹھ صاحب نے جواب دیا۔
”سینکڑوں افراد سخت سردی میں تھر تھر کانپ رہے ہیں۔ ان کے مکانات سیلاب اور بارش کی وجہ سے بیٹھ گئے ہیں، سامان بھی سیلاب لے گیا۔ اب ان کے بدن پر پورا لباس ہے، نہ پیٹ بھرنے کے لیے خوراک، چھوٹے چھوٹے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، ان کی چیخیں سن کر دل دہل جاتا ہے۔“ راشد چوہان نے یہ کہہ کر سر جھکا لیا۔ نذیر ملک نے کہا:
”ہماری تحریک کے پاس جتنا سامان تھا، وہ ہم نے پورا تقسیم کر دیا، مگر اب بھی بہت سے لوگ بھوکے ہیں۔ ان کے پاس رہنے کا ٹھکانا ہے نہ سردی سے بچاؤ کا کوئی انتظام۔“
”ہمارے پاس رقم بھی نہیں ہے اور اگر رقم ہوتی بھی تو ہم کیا کر لیتے۔ ہمیں تو سامان کی شدید ضرورت ہے۔ خیمے، تر پالیں، برتن، خوراک، کمبل، لحاف سوئٹر، دوائیں۔۔۔“راشد چوہان کی آواز بھر ا گئی، پھر وہ چند لمحے بعد رک کربولے:
”سیٹھ صاحب، میں نے ایک عورت کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا دودھ پیتا بچہ، سیلابی پانی میں دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گیا، اس عورت کی کیا حالت ہوئی، میں بتا نہیں سکتا۔۔۔ سیٹھ صاحب، ہم بڑا دشوار راستہ طے کر کے آپ کے پاس صرف اس لیے آئے ہیں کہ آپ کی مدد حاصل کر سکیں۔ ان شاء اللہ آپ کو اس نیکی اور ایثار کا بہت بڑا اجر ملے گا۔“
سیٹھ کر امت سر جھکائے سوچتے رہے، پھر انہوں نے سر اٹھایا اور بولے:
”بھئی میرے پاس تو جو کچھ تھا، اسے میں یا تو قرض دے چکا ہوں یاقرض پر دینے کا ارادہ رکھتا ہوں۔“
”اچھا؟“ راشد چوہان نے حیرت سے کہا۔
”اور میں جو کچھ قرض دیتا ہوں، ان شاء اللہ مجھے وہ کئی گنا بڑھ کر واپس ملے گا۔ میں ابھی حاضر ہوتا ہوں۔“ یہ کہہ کر سیٹھ صاحب اندر چلے گئے۔
”میں نے تم سے کہا تھا کہ نہیں؟“ نذیر ملک نے غصے سے کہا۔”یہ سیٹھ لوگ ہمیشہ اپنے فائدے پر نظر رکھتے ہیں۔ ضرور انہوں نے کسی سُودی اسکیم میں پیسہ لگا دیا ہوگا۔۔۔ کئی گنا بڑھ کر واپس ملے گا۔۔۔ بلاوجہ اتنی مشکلوں سے یہاں آئے، اس سے اچھا تھا کہ۔۔۔“نذیر صاحب کا جملہ ادھورا رہ گیا۔
سیٹھ صاحب اندر آ گئے تھے۔ ان کے پیچھے پیچھے ملازم ایک ٹرالی لیے آرہا تھا۔ ٹرالی میں چائے، پھل اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء سجی ہوئی تھیں۔
”معاف کیجیے سیٹھ صاحب، ہمارے مسلمان بھائی بہنیں کئی دنوں سے مصیبت میں گرفتار ہیں۔ انہیں کل سے کھانے کو نہیں ملا، ہم یہ نہیں کھا سکتے۔“ نذیر ملک نے سخت لہجے میں کہا۔
”مجھے آپ کا جذ بہ پسند آیا۔“ سیٹھ صاحب کہہ رہے تھے، ”لیکن آپ بے فکر رہیں، آپ کے قصبے کے لوگ ان شاء اللہ آج کی رات بھو کے نہیں سوئیں گے۔“
”وہ کیسے؟“ نذیر ملک اور راشد چوہان دونوں نے حیرانی سے پوچھا۔
”میں نے کھانے پینے کے سامان سے بھری کئی گاڑیاں روانہ کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ لحاف، کمبل اور دوسرا سامان بھی جا رہا ہے۔ مزید سامان،شہر سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے تین گھنٹے بعد پہنچ جائے گا۔ میں نے فون کر دیا ہے۔۔۔ اور یہ لیجیے۔۔۔ سیٹھ صاحب نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ایک چیک نکالا۔ یہ کچھ رقم ہے، جب ذرا حالات درست ہو جا ئیں تو آپ اس رقم سے اور امدادی کام کر سکتے ہیں۔“
نذیر ملک اور راشد چوہان جیسے خواب دیکھ رہے تھے۔ راشد نے ہاتھ بڑھا کر چیک لے لیا اور اس پر نظر ڈالی۔ دس لاکھ روپے کا چیک تھا۔
”م…… مگر آپ تو کہہ رہے تھے کہ آپ کسی کو قرض دے چکے ہیں اور ……آپ کو اپنی رقم کئی گنا بڑھ کر واپس ملے گی……ہم تو سمجھے آپ کسی اسکیم میں پیسہ لگا چکے ہیں۔“ راشد چوہان نے اٹک اٹک کر کہا۔
”میں نے غلط نہیں کہا تھا۔ آپ نے قرآن پاک کی سورۃ الحدید کی آیت نہیں پڑھی، دیکھیے سامنے لگی ہوئی ہے۔“ سیٹھ صاحب نے ایک طرف اشارہ کیا، جہاں ایک فریم میں ایک آیت اور اس کا ترجمہ خوب صورت انداز سے لکھا ہوا تھا۔ دونوں نے ترجمہ پڑھا:
”کون ہے جو اللہ کو قرض دے، اچھا قرض، تا کہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا کرواپس دے اور اس کے لیے بہترین اجر ہے۔“ (الحدید۔11)
”میں تو اب اپنے مالک اور خالق ہی کو قرض دیتا ہوں، جس نے مجھ سے قرض طلب فرمایا ہے۔“سیٹھ کر امت کہہ رہے تھے۔ اور ہاں۔۔۔ آپ دونوں سے گزارش ہے کہ کسی کو یہ نہ بتائیے گا کہ یہ تھوڑی بہت امدادی اشیاء اور رقم میں نے دی ہے، ورنہ اللہ کو دیا گیا یہ قرض، اچھا قرض نہیں رہے گا۔۔۔ ایک بات اور۔۔۔ آپ لوگوں کی واپسی کے لیے میں نے جیپ کا انتظام کر دیا ہے۔ آپ جب چاہیں واپس روانہ ہو سکتے ہیں۔“
راشد چوہان اور نذیر ملک گم سم ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے تھے۔ نذیر ملک اپنے دل میں سخت شرمندہ ہو رہے تھے کیونکہ جن سیٹھ صاحب کو وہ بخیل سمجھ رہے تھے وہ تو ایسے سخی نکلے کہ جو اپنی سخاوت کو ظاہر کرنا بھی نہیں چاہتے تھے یعنی بے ریا غنی انسان! راشد چوہان کے دل سے دعا نکلی:”اللہ تعالیٰ ہر ایک کو ایسے نیک عمل کی توفیق بخشے۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top