پراسرار ہم سفر
کہانی:الرفیق المجہول
مصنف: عبد اللہ الکبیر
مترجم:محمد فیصل علی
۔۔۔۔۔
امین اپنے والد صاحب کے قریب بیٹھا آنسو بہا رہاتھاجو کہ بسترِمرگ پہ پڑے کراہ رہے تھے۔ان کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ وہ زیرِلب کلمہ پڑھ رہے تھے۔پھر ان کی آواز سنائی دی اور وہ وصیت کرتے ہوئے بولے:
’’میرے بیٹے!میرا آخری وقت آچکا ہے،اپنا… ہمیشہ …خیال…‘‘
ان کے الفاظ درمیان میں رہ گئے اور ان کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔امین کی دنیا اجڑ چکی تھی۔وہ زار زار رونے لگا۔اسی اثناء میں اس پہ غشی سی طاری ہوگئی اور اسے اونگھ آگئی۔تب اس نے ایک خواب دیکھا۔اس نے دیکھا سورج،چاند اور ستارے اس کی طرف دیکھ کر مسکرارہے ہیںاور ان کے ساتھ ہی ایک خوب صورت آدمی ہے جو ہنس رہا ہے،پھر امین کو اپنے والد نظر آئے جو اس آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ رہے ہیں کہ ’’یہ تمھارا انعام ہے،نیکی کاانعام!۔‘‘اچانک امین کی آنکھ کھل گئی تو اس نے خود کو اپنے والد صاحب کی میت کے ساتھ اکیلے پایا۔اس نے خواب کو ذہن میں دہرایا اور پھر تجہیزوتکفین کے کاموں میں لگ گیا۔اب وہ اتنے بڑے گھر میں اکیلا ہوکر رہ گیا تھا،لہٰذا چند دنو ں کے بعد ہی اس کاجی اکتا گیا۔اس نے وہ گھر بیچا اور کسی اور شہر کی طرف چل پڑا۔
…٭…٭…
امین مسکین صورت بنائے اپنے سفر پہ رواں دواں تھا۔اس وقت وہ ایک بستی سے گزر رہاتھا۔اچانک اس نے ایک عجیب منظر دیکھا۔وہ منظر دیکھ کر اس کا غصہ آسمان کو چھونے لگا۔اس نے دیکھا کہ دو آدمی قبرستان سے ایک میت کو اس کی قبر سے نکال کر گھسیٹ رہے تھے،اس کے ساتھ ساتھ ان کے منھ سے گالیاں بھی نکل رہی تھیں۔امین سے رہا نہ گیا۔وہ زور سے بولا:
’’ارے احمقو! یہ کیا کررہے ہو؟ رک جائو۔‘‘
اس کی بات سن کر دونوں شریر آدمی اس کی طرف مڑے اور کہا:
’’اپنی شکل گم کرو میاں ،ورنہ لینے کے دینے پڑجائیں گے۔‘‘
امین نے آگے بڑھتے ہوئے قدرے سخت لہجے میں کہا:
’’میرے ہوتے ہوئے تم اس میت کی بے حرمتی نہیں کرسکتے،تمھیں جو کچھ چاہیے مجھ سے لے لو۔‘‘
یہ سن کر دونوں حیران ہوگئے،پھر ان میں سے ایک بولا:
’’ تمھیںپتہ ہے؟ ،اس نے ہمارا قرض دینا ہے ،کیا تم وہ ادا کروگے؟‘‘
’’ہاں میں تیار ہوں۔‘‘
امین نے اپنے کندھے پہ لٹکے تھیلے سے اشرفیوں کی تھیلیاں نکالتے ہوئے کہا۔یہ دیکھ کر دونوں شریر آدمیوں کی آنکھیں چمک اٹھیں،انھوں نے منھ مانگی رقم کا مطالبہ کیااور رقم اینٹھ کر چلتے بنے۔امین نے اس شخص کی میت کو دوبارہ قبر میں اتارا ،زمین برابر کردی اور وہاں بیٹھ کر اس کے لیے دعائے مغفرت کرنے لگا۔یہ نیکی کرنے کے بعد اس کا دل سکون سے بھر گیا تھا۔اب وہ آگے بڑھ گیا۔ اس کا گزر ایک جنگل سے ہورہا تھا،یہاں چاروں طرف گھنے گھنے درخت تھے۔امین کافی دور تک رکے بغیر چلتاچلا گیا،یہاں تک کہ وہ تھک گیا اور ایک جگہ سستانے کے لیے رکا۔اس نے درخت کی ٹیک لگالی اور آنکھیں بند کرلیں،اچانک اس کے کانوں میں ایک آواز پڑی۔
’’بھائی کہاں جارہے ہو؟‘‘
امین نے چونک کر آنکھیں کھولیں اور دیکھا تو اس کے سامنے ایک خو ب صورت نوجوان کھڑا مسکرارہاتھا،اسے دیکھ کر امین حیرت سے اچھل پڑا،یہ تو وہی نوجوان تھا جسے امین نے خواب میں دیکھا تھا۔
’’آپ کون ہیں؟‘‘ امین نے فورا ًسوال کیا۔
’’میرا نام اعظم ہے، میں بھی آپ کی طرح مسافر ہوں ،اگر ہم اکٹھے سفر کریں تو سفر بھی اچھا کٹ جائے گا اور ہم ایک دوسرے کا خیال بھی رکھ سکیں گے،کیا خیال ہے؟‘‘
اس نے پرخلوص لہجے میں کہا۔
’’جی جی کیوں نہیں ،اندھا کیا چاہے دو آنکھیں،مجھے آپ کا ساتھ قبول ہے۔‘‘
امین نے کہا تو وہ نوجوان مسکرادیا۔ ابھی وہ یہ بات کر ہی رہے تھے کہ اچانک انھیں ایک چیخ سنائی دی۔آواز قریب ہی سے آئی تھی۔انھوں نے چونک کر دیکھا توکچھ فاصلے پر ایک بڑھیا گری ہوئی نظر آئی۔اس نے لکڑیوں کا گٹھا بھی اٹھایا ہوا تھا، جو اس وقت ایک طرف گرا ہوا تھا اور وہ اپنے پائوں کو پکڑے چلائے جارہی تھی۔یہ دیکھ کر امین اس کی مدد کو دوڑا،اعظم نے بھی اس کی پیروی کی تھی۔
’’کیا ہوااماں جی؟ اٹھیں ،میں آپ کی مدد کرتا ہوں۔‘‘
امین نے ان کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا۔بڑھیا نے ہلنے کی کوشش کی مگر وہ اٹھ نہ سکی اور پھر پائو ں کو دیکھ کر بولی:
’’لگتا ہے میرا پائوں ٹوٹ گیا ہے۔‘‘
’’اوہ…‘‘ امین نے کے منھ سے نکلا۔ایسے میں اعظم آگے بڑھا اور کہا:
’’بی اماں ،میرے پاس ایک جادواثر مرہم ہے جو آپ کے ٹوٹے ہوئے پائوں کو ابھی ٹھیک کردے گالیکن…‘‘
’’لیکن کیا؟‘‘ بڑھیا نے قدرے حیرت سے پوچھا۔
’’لیکن یہ کہ مجھے بدلے میں یہ تین پھول چاہئیں۔‘‘اعظم نے کہا تو امین کے ساتھ ساتھ بڑھیا بھی چونک گئی اور اسکی نگاہ بے اختیار ان تین پھولوں کی طرف اٹھ گئی جو اس کی قمیص کی سامنے والی جیب میں اڑسے ہوئے تھے۔
’’بیٹا !تم نے کافی مہنگی اور قیمتی چیز مانگ لی ہے، لیکن فکر نہ کرو،میں یہ تمھیں دینے کو تیار ہوں، بس تم میرا پائوں ٹھیک کردو۔‘‘
بڑھیا نے کہا تو اعظم مسکرا دیا،اس نے اپنے تھیلے سے ایک ڈبیا نکالی اور اس میں موجود مرہم بڑھیا کے پائوں پہ لگایا،مرہم لگاتے ہی وہاں سے ہلکی ہلکی روشنی سے پھوٹتی نظر آئی اور پھر بڑھیا کے چہرے پہ حیرت پھیل گئی،اس نے اپنے پائوں کو ہلایا جلایا اور پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’یہ تو کمال ہے ۔‘‘
اس کے منھ سے نکلا،اس کا پائوں اب بالکل ٹھیک ہوگیا تھا،ایسے میں اعظم نے اپنے ہاتھ اس کی طرف بڑھائے،بڑھیا اس کا مطلب سمجھ گئی اور وہ تینوںپھول اس کی طرف بڑھادئیے،اس کے بعد وہ اپنی لکڑیاں اٹھائے چل دی اور وہ دونوں مسافر بھی اپنا سامان اٹھائے آگے کی طرف بڑھ گئے،امین اپنے انوکھے ہم سفر کو حیرت سے دیکھ رہا تھا،اسے وہ آدمی غیر معمولی لگ رہاتھا۔
’’کیا ہم یہ نیکی کسی معاوضے کے بغیر نہیں کرسکتے تھے؟‘‘
امین نے ناخوش گوار لہجے میں کہا۔اعظم خاموش رہا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔وہ اسی طرح چلتے گئے حتیٰ کہ شام ہوگئی،اب ان کے ایک سرائے تھی۔
’’یہاں چلتے ہیں دوست!‘‘اعظم نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘
امین نے مختصر سا جواب دیا اور وہ سرائے میں داخل ہوتے چلے گئے۔فوراً ہی ایک آواز ان کے کانوں میں پڑی:
’’آج آپ دیکھیں گے، ایک عجیب وغریب کھیل،یہ کھیل ہے جوشیلے بھڑکیلے پُتلوں کا جسے پیش کریں گے محترم آکاش صاحب ! ‘‘
یہ اعلان باربار دہرایا جارہاتھا،امین اور اس کے دوست نے کھانا کھایا اور پھر سرائے کے ایک کونے میں بنے ہال کی طر ف بڑھے جو اس وقت لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا،یہ سب لوگ ان پتلوں کا تماشا دیکھنے جمع تھے۔اسٹیج کے پردے کے سامنے اس وقت دو پتلے بے جان انداز میں پڑے تھے،یہ کپڑے سے بنے ہوئے تھے،ان کی سج دھج نرالی تھی جو دیکھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کررہی تھی،تھوڑی دیر بعد ہی ہلکی ہلکی موسیقی بجنا شروع ہوگئی اور آکاش نے اسٹیج کے پیچھے بیٹھ کران پتلوں کی ڈوریں مخصوص انداز میں ہلانا شروع کردیں۔دیکھتے ہی دیکھتے بے جان پتلوں میں جان سی پڑ گئی۔وہ یوں رقصاں ہوگئے، جیسے جیتے جاگتے انسا ن رقص کرتے ہیں،جیسے جیسے موسیقی تیز ہورہی تھی ویسے ویسے رقص بھی تیز ہورہا تھا،اسی اثنا میں ایک اندوہ ناک واقعہ ہوا،وہ یہ کہ تماشادیکھنے والوں میں سے ایک آدمی کا کتا بے قابو ہوا اور سیدھا اسٹیج پہ موجودان پتلوں پہ جھپٹا،اگلے ہی لمحے ایک پتلا اس کے منھ میں دبا ہواتھا۔ہال میں دبی دبی چیخیں ابھریں اور موسیقی بھی تھم گئی۔کتے کا مالک بھاگا بھاگا اسٹیج پہ پہنچا اور اپنے کتے کو ڈانٹنے لگا،پھر اس نے وہ پتلااس کے منھ سے نکال کر اسٹیج پہ رکھا اور واپس مڑنے لگا،ایسے میں ایک بلند آواز آدمی نے اسے للکار کر روکا اور کہا:
’’میرا نقصان کون پورا کرے گا؟‘‘یہ آکاش تھا،ان پتلوں کا مالک،اس وقت اس کا چہرہ غصے سے لال ہورہاتھا۔
’’معذرت دوست !یہ بے زبان جانور نقصان پورا نہیں کرسکتا ،البتہ اگر تم چاہو تو میں کوشش کرسکتا ہوں۔‘‘
کتے کے مالک نے قدرے استہزائیہ لہجے میں کہا اور پھر ایک خنجر نکال کر اس کی طرف معنی خیز اندازمیں اشارہ کیا،آکاش یہ دیکھ کر ڈر گیا اور اپنی ٹوٹے پھوٹے پتلے کولے کر اسٹیج کے پیچھے غائب ہوگیا،اب لوگ بھی اٹھ کر جانے لگے،گویا معاملہ رفع دفع ہوگیا۔
’’امین! میرے ساتھ آئو۔‘‘اعظم نے امین کے کندھے پہ ہاتھ رکھا اور اسٹیج کے پیچھے بنے کمرے کی طرف بڑھنے لگا،امین بھی اس کے پیچھے ہولیا،وہ چلتے چلتے ایک کمرے کے قریب پہنچ گئے،اندر سے رونے کی آوازیں آرہی تھیں،اعظم نے دروازے پہ دستک دی تو اندر یکلخت خاموشی سی چھا گئی،پھر تھوڑی دیر بعد دروازہ کھل گیا،ان کے سامنے آکاش کھڑا تھا،اس کا چہرہ رونے کی وجہ سے سرخ سا ہورہاتھا۔
’’جی فرمائیے!‘‘اس نے استفسار کیا۔
’’میں آپ کی پتلے کو ٹھیک کرسکتا ہوں۔‘‘اعظم نے کہا۔
’’وہ کیسے؟یہ اب پہلے جیسا نہیں بن سکے گا۔‘‘ آکاش نے منھ بنایا اور دروازہ بند کرنے لگا۔
’’رکو! یہ پہلے سے بھی بہتر بنے گا۔‘‘اعظم مسکرایا تھا۔
’’مگر کیسے؟‘‘ آکاش نے بے یقینی کے عالم میں کہا۔
’’میرے پاس جادو ہے۔‘‘اعظم بھرپور انداز میں مسکرایا۔
’’اور تم بدلے میں کیا معاوضہ لوگے ؟کتنے پیسے؟‘‘آکاش نے الجھن بھرے انداز میں پہلو بدلاتھا۔
’’کچھ نہیں،بس مجھے تمہاری یہ تلوار چاہیے اور بس۔‘‘
اعظم نے کمرے میں جھانک کر سامنے ہی لٹکی ایک تلوار کی طرف اشارہ کیا،جو خوب چمک رہی تھی۔یہ سن کر آکاش کا چہرہ کھل اٹھا، جیسے یہ تلوار اس کے لیے اہم نہ ہو۔اس نے وہ تلوار اٹھا کر اعظم کو پیش کردی،اعظم نے تلوار لے لی اور اپنے تھیلے سے وہ عجیب مرہم نکالا اور آکاش کی پتلے پر لگا یا،اس مرہم کے لگتے ہی اس پتلے پہ روشنی سی پھیل گئی اور وہ پہلے جیسا ہوگیا ،بلکہ اس کی چمک دمک پہلے سے بھی بڑھ چکی تھی،اب لگ ہی نہیں رہا تھا کہ اسے کبھی کتے نے چبایا یا بھنبھوڑا ہے۔یہ دیکھ کر آکاش حیران رہ گیا،ادھر اعظم نے آکاش کو سلام کیا اور کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا،امین بھی اس کے پیچھے تھا،وہ سوچ رہاتھا کہ یہ اعظم تو پراسرار آدمی بنتا جارہاہے ۔وہ رات انھوں نے سرائے میں گزاری۔اگلے روز طلوع آفتاب کے بعد وہ اپنے راستے پہ ہولیے اور اپنا سفر شروع کردیا،چند کوس بعد ہی انھوں نے ایک بڑے شہر کو اپنے سامنے پایا،اس شہر کی فصیلیں بہت اونچی تھیں،شہر سے باہر ایک بہت بڑی بطخ کا مجسمہ نصب تھا۔یہ مجسمہ تو پتھر کا تھا مگر اس کے پر بہت خوب صورت تھے،اور یہ پر بالکل اصلی لگ رہے تھے۔ ان کی چمک دیکھ کر انسان حیران رہ جاتا تھا۔وہاں سے گزرتے ہوئے اعظم نے ایک اور عجیب کام کیا،اس نے وہ تلوار نکالی اور آناً فاناً اس بطخ کے پر کاٹ کر اپنے تھیلے میں ڈال دیئے۔امین نے کچھ پوچھنا چاہا مگر اعظم نے اسے چپ رہنے کا اشارہ کیا اور وہ کندھے اچکا کر رہ گیا۔
٭٭٭
امین اور اعظم شہر میں داخل ہوگئے تھے۔یہ شہر اس لحاظ سے بڑا عجیب وغریب تھا کہ وہاں کے ہرآدمی کے چہرے پہ ایک عجیب سی اداسی چھائی ہوئی تھی،زندگی کی خوشیاں اور رونقیں ان کے چہروں سے غائب تھیں۔امین دل ہی دل میں کڑھ رہاتھا،وہ سوچ رہاتھا کہ آخر یہ ماجرا کیا ہے۔اعظم نے شاید اس کی یہ کیفیت محسوس کرلی تھی۔وہ بولا:’’ تم اس ہوٹل میں چلو اور کمرے بک کروا لو،میں ابھی آتا ہوں،ذرا شہر کے حالات معلوم کر آئوں میں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘امین نے سرہلایا۔
اعظم چلاگیا۔تھوڑی دیر بعد اس کی واپسی ہوئی،امین نے اس کے چہرے پہ سوالیہ نظریں گاڑ دی تھیں جیسے کچھ جاننا چاہتا ہو۔
’’اس شہر کے بادشاہ کا نام رامان ہے۔اس کا اکلوتا بیٹاکاران دشمن جادوگر کے قبضے میں ہے،اس جادو گر کے جادو کی وجہ سے پورا شہر بیمار رہتا ہے،یہاں کے ہرآدمی کے سر میں ہمیشہ درد رہتا ہے۔ ‘‘اعظم نے بتایا۔
’’اوہ۔‘‘امین کے منھ سے نکلا۔
’’عجیب بات اور ہے،کیا تم سننا چاہوگے؟‘‘اعظم نے کہا تو امین چونک پڑا۔
’’وہ کیا؟‘‘اس نے بے تابی سے پوچھا۔
’’وہ یہ کہ بادشاہ کا بیٹا جو جادوگر کے قبضے میں ہے،وہ قبضہ صرف اس کے دماغ پہ ہے،مطلب جادوگر نے بادشاہ کے بیٹے کو اغوا نہیں کیا ،بلکہ صرف اس کے دماغ پہ قبضہ جمایا ہے ،اب کاران اس جادوگر کا غلام ہے۔‘‘اعظم نے نئی سنائی تھی۔
’’اس سے اس شریر جادوگر کا کیا مقصد ہوسکتا ہے؟‘‘امین نے حیرت سے پوچھا۔
’’میرے خیال میں وہ بادشاہ کے جانشین یعنی اس کے بیٹے کو قابو میں کرنا چاہتا ہے اور اسی کے ذریعے ہی وہ شہر کے لوگوں پر جادو کے گندے اثرات پھیلارہاہے۔‘‘اعظم نے کہا۔
’’عجیب ،بہت ہی عجیب!! لیکن کیا اس کا کوئی توڑ بھی ہے؟‘‘امین نے افسوس زدہ لہجے میں کہا۔
’’توڑ تو ہے،اور اسی توڑ کو کرتے کرتے کئی افراد اپنی جان سے بھی گزرچکے ہیں۔‘‘اعظم نے ہونٹ بھینچتے ہوئے کہا۔
’’کیا کوئی خطرناک کام ہے کیا؟ کوئی طلسم ہفت شکل قسم کا ؟‘‘امین نے پوچھا۔
’’ہاں ایسے ہی سمجھ لو، جادوگر کی طرف سے ایک اعلان ہے کہ جوکوئی اس کے تین سوالات کے جوابات دے دے گا،تو وہ اس سلطنت کا وزیر ہوگا اور اس کے وزیر بنتے ہی جادوگر اپنا طلسم بھی ختم کردے گا۔‘‘اعظم نے بتایا۔
’’اوہ ،اچھا،لیکن وہ کس طرح کے سوالات ہوں گے؟‘‘امین نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’یہ اندازہ نہیں ،سوال ہوتے تو جادوگر کی طرف سے ہیں لیکن یہ سوال شہزادہ کاران پوچھتا ہے،یقینی بات ہے کہ وہ جادوگر سے ہدایات لیتا ہوگا۔‘‘اعظم نے خیال ظاہر کیا۔
’’تو کیا خیال ہے ؟ ہم قسمت آزمائی کریں؟‘‘امین نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کیوں نہیں ،ضرور،اور اس میں ،میں تمہاری مدد کروں گا۔‘‘اعظم پراسرار انداز میں ہنسا تھا۔
’’مدد ؟کیسے؟‘‘امین نے حیرانی سے پوچھا۔
’’بس تم دیکھتے جائو،ابھی ہم بادشاہ کے دربار میں جاکرکاتبوں کو اپنا نام اور ضروری کوائف لکھوالیتے ہیں کہ ہم بھی سوالوں کے جوابات دیں گے۔‘‘اعظم نے کہا تو امین نے سرہلاکر اس کی تائید کی اور وہ دونوں چل پڑے۔
٭٭٭
آدھی رات ہوچکی تھی۔امین گہری نیند میں غرق تھا۔اعظم بھی سویا ہوا تھا۔ہرطرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔اچانک اعظم اٹھ بیٹھا ، اس کے ہونٹوں پہ ایک پراسرار مسکراہٹ تھی۔وہ چپکے سے اٹھا،اس نے اپنا خاص تھیلا اٹھایا جس میں بڑھیا کے دئیے ہوئے پھول،وہ قیمتی تلوار اور بطخ کے پر تھے۔وہ کمرے سے باہر نکل کر زینے کی طرف بڑھنے لگا،تھوڑی دیر بعد وہ چھت پرآچکا تھا،اس نے جلدی سے اپنا تھیلا کھولا اور اس میں سے وہ کٹے ہوئے پر نکالے،اب اس نے پروں کو اپنے بازوئوں کے ساتھ لگایا اور انہیں مخصوص انداز میں حرکت دی، اگلے ہی لمحے وہ پر اس کے بازوئوں کے ساتھ مل چکے تھے اور اب وہ کسی پرندے کے حقیقی پروں کی طرح نظر آرہے تھے۔اگلے ہی لمحے اعظم ان جادوئی پروں کے سہارے ہوا میں محوِ پرواز تھا۔وہ بادشاہ کے محل کے ساتھ آکر چھپ گیا۔کچھ دیر بعد محل کی ایک کھڑکی کھلی اور وہاں سے ایک اڑن قالین برآمد ہوا۔اس قالین پہ بادشاہ کا بیٹاشہزادہ کاران بیٹھا تھا۔قالین اسے اڑاتے ہوئے ایک سمت میں لیے جارہاتھا۔اعظم نے بھی مناسب فاصلے سے اس کا تعاقب شروع کردیا۔قالین کی منزل ریاست کا شمالی پہاڑی سلسلہ تھی۔وہاں جاکر قالین رک گیا اور کاران اتر گیا۔اس نے دائیں بائیں دیکھا اور ایک غار میں گھستا چلا گیا۔اعظم بھی غار کے قریب ہوگیا،اس نے سنا اندر سے دو آوازیں آرہی تھیں:
’’غلام حاضر ہے آقا!‘‘
’’کیا بات ہے؟‘‘
دوسری آواز آئی جو یقینا جادوگر کی تھی جب کہ پہلی کاران کی تھی۔
’’ایک امین نامی نوجوان نے ہمارا چیلنج قبول کیا ہے،اس نے دستاویزات پہ دستخط بھی کیے ہیں اور…‘‘کاران کہتے کہتے رک گیا۔
’’اور کیا؟‘‘جادوگر کی غصیلی آواز سنائی دی۔
’’اور یہ کہ اس کی ہاتھ کی پشت پہ دو ستارے نما نشانات بھی ہیں،یہ وہی نشانی ہے جو آپ نے بتائی تھی۔‘‘کاران نے کہا۔
’’اوہ،یہ نوجوان ہمارے لیے خطرہ بن سکتا ہے،میری معلومات کے مطابق اس پہ خیر کا سایہ ہے اور خیر کی روشنی اس کی مدد کررہی ہے۔‘‘جادوگر کی تشویش زدہ آواز سنائی دی۔
’’تو پھر میرے لیے کیا حکم ہے؟ میں اس سے کیا سوال کروں؟‘‘کاران نے پوچھا۔
’’تم اس سے پوچھنا کہ وہ یہ بتائے کہ تم اس وقت کیا سوچ رہے ہو اور اس وقت تم اپنے ذہن میں اپنے جوتوں کے بارے میں سوچنا،مجھے یقین ہے وہ نہیں بتاپائے گا۔‘‘جادوگر نے کہا تو اعظم کے چہرے پہ مسکراہٹ پھیل گئی۔
اس نے فوراً واپسی کی راہ لی اور ہوٹل پہنچ کر اپنے بستر پر سوگیا۔اگلی صبح جب امین مقابلے کے لیے جانے لگا تو اعظم نے کہا:
’’دوست ! رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے اور میں اکثر سچے خواب ہی دیکھتا ہوں۔‘‘
’’اور وہ کیا ہے؟‘‘امین نے پوچھا۔
’’خواب تمہارے مقابلے کے متعلق ہے،خواب یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ بادشاہ کا بیٹا تم سے پوچھے گا کہ تم یہ بتائو کہ وہ اس وقت کس چیز کے بارے میں سوچ رہا ہوں،اوریاد رکھو کہ وہ اپنے جوتوں کے بارے میں سوچ رہا ہوگا۔‘‘اعظم نے اسے بتایا۔
’’بھلا یہ بھی کوئی سوال ہے؟ مجھے تو تم پہ ہنسی آرہی ہے۔‘‘
امین نے اس کامذاق اڑاتے ہوئے کہا اوراعظم مسکرانے لگا۔جب وہ محل میں پہنچا توشہزادے کاران نے سوال کیا:
’’نوجوان !یہ بتائو کہ میں اس وقت کس چیز کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔‘‘
اس کے یہ الفاظ سن کرامین کا دماغ حیرت کی شدت سے گھومنے لگا،اس نے بڑی مشکل سے اپنی کیفیت پہ قابو پایا اور پرسکون آواز میں بولا:
’’حضور! آپ اس وقت اپنے جوتوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔‘‘
امین کا یہ جواب سن کر شہزادہ حیرت سے اچھل پڑا اور وہ غصے کے عالم میں اٹھ کھڑا ہوا:
’’کاتبو! لکھو، یہ پہلا جواب درست ہے،کل یہ نوجوان دوسرے سوال کا جواب دینے آئے گا۔‘‘
کاران کی بات سن کر کاتبوں پر بھی سکتہ طاری ہوگیا۔وہ چند لمحے تو پتھر کے بت بنے بیٹھے رہے،اس کے بعد وہ لکھنے لگے،ادھر نوجوان امین کا مارے خوشی کے چہرہ لال ہورہاتھا۔وہ خوش خوش ہوٹل میں واپس آگیا۔اگلی رات اعظم نے پہلے کی طرح کاران کا تعاقب کیا اور دوسرا سوال اور اس کا جواب بھی معلوم کرلیا۔اگلی صبح اس نے امین کو وہ سوال و جواب بتادیا کہ یہ رات میں نے خواب میں دیکھا ہے۔ امین اب سمجھ گیا تھا کہ اعظم کے پاس پراسرار طاقت ہے لہٰذا اس نے اس کا شکریہ ادا کیا اور محل چلا آیا،تھوڑی دیر بعد وہ شہزادے کے سامنے تھا۔
’’ہاں نوجوان یہ بتائو آج میں نے صبح اٹھ کر کس چیز کے بارے میں سوچا تھا؟‘‘کاران نے سوال کیا۔
’’جنا ب عالی! آپ نے آج صبح اپنے دستانوں کے بارے میں سوچا تھا۔‘‘
امین نے اعتماد سے جواب دیا اور شہزادے کا رنگ اڑتا نظر آیا۔اس نے کمزور سی آواز میں کہا:
’’درست جواب!‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھ کرکمرے میں چلاگیا۔سب درباری بہت خوش ہورہے تھے۔تیسری رات بھی اعظم نے کاران کا پیچھا کیا۔جادوگر کے غار کے قریب پہنچ کر وہ چھپ گیا۔اندر سے بات چیت کی آواز آرہی تھی۔
’’کل آخری سوال ہے آقا،کل اگر اس نے درست جواب دے دیا تو آپ میرے آقانہیں رہیں گے…‘‘
’’ہونہہ ! اس کی ایسی کی تیسی،کل تم اس سے پوچھنا کہ میں اس وقت جس چیز کے بارے میں سوچ رہا ہوں،وہ ابھی اور اسی وقت میرے سامنے پیش کرو۔‘‘
’’اور میں کس چیز کا تصور کروں؟‘‘کاران نے پوچھا۔
’’میرے سر کا…‘‘
جادوگر نے کہا تو کاران کے چہرے پر خوف پھیل گیا۔اس نے اجازت لی اور واپس محل کی طرف محوسفر ہوگیا۔ادھر اعظم حرکت میں آگیا،اس نے بڑھیا والے تین پھول نکال کر اپنے جسم پر پھیرے اور جادوگر کے سامنے آگیا۔جادوگر اسے دیکھ کر شیطانی اندازمیں ہنسا اور کہا:
’’آئو آئو خیر کی روشنی،تاکہ میں تمہیں اپنے اندھیرے غار میں دھکیل سکوں۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اپنے ہاتھوں کو مخصوص انداز میں حرکت دی اور اعظم کی طرف ہاتھوں کو جھٹکا ،اس کے ہاتھ سے ایک تیز روشنی نکلی اوراعظم پہ پڑی،مگر اعظم کو تو کچھ نہ ہوا،یہ دیکھ کر جادوگر ششدر رہ گیا،اب اعظم نے اپنی خاص تلوار نکالی اورایک ہی وار میں جادوگر کا سرتن سے جدا کردیا۔اب اس نے اس کا سر ایک بڑی سی بوری میں ڈالا اورواپس ہوٹل میں آگیا،صبح اس نے امین سے کہا کہ:
’’ آج کاران تم سے کوئی چیز مانگے گا اوروہ چیز میں نے اس بوری میں رکھ دی ہے۔‘‘
’’اوہ اچھا ،کیا میں اسے دیکھ سکتا ہوں۔‘‘
’’نہیں ہرگز نہیں!!‘‘
اعظم نے سختی سے منع کردیا تو امین کندھے اچکا کررہ گیا۔امین بوری اٹھائے محل جاپہنچا۔شہزادے کاران نے سوال کیا:
’’نوجوان ! آج اس وقت میں جو چیز سوچ رہا ہوں،اسے ابھی اور اسی وقت میرے حضور پیش کرو۔‘‘
امین کچھ دیر حیرت سے اسے دیکھتا رہا،پھر اس نے وہ بوری اس کے سامنے الٹ دی،اگلے ہی لمحے امین،شہزادہ اور سارے درباری خوف کے مارے اٹھ کھڑے ہوئے،ان کے سامنے جادوگر کا کٹا ہوا سر پڑا ہوا تھا،عین اسی وقت ایک تیز جھماکہ سا ہوا اور چاروں سمت دھواں پھیل گیا۔تھوڑی دیر بعد دھواں چھٹا تو سب نے دیکھا شہزادہ کاران بے ہوش تھا۔
’’اوہ ! شہزدے کیا ہوا آپ کو؟‘‘
کئی آوازیں ابھریں،فوراً ہی شاہی طبیب آگئے،انہوںنے شہزادے کا معائنہ کیا اور اسے ادویات دیں،تھوڑی دیر بعد شہزادے کی آنکھ کھل گئی،اس نے حیرت سے دائیں بائیں دیکھا اور کہا:
’’شکر ہے خدایا،اب میرے دماغ پہ وہ بوجھ نہیں ہے،لگتا ہے میں آزاد ہوگیا ہوں،وہ وہ نوجوان امین کدھر ہے،اسے فورا ًبلائو۔‘‘
شہزادے کے حکم پہ سبھی خادم بھاگے اور امین کو بلا لائے،امین کو دیکھ کر شہزادے نے مسکرا کر اسے گلے لگایا اور کہا:
’’خوش آمدید ہمارے وزیر اعظم !!‘‘
یہ سنتے ہی چاروں طرف شادیانے بجنے لگے،جلد ہی یہ بات پوری سلطنت میں پھیل گئی ،امین بھاگتا بھاگتا ہوٹل میں پہنچا اور اعظم کے کمرے میں جاگھسا تاکہ اسے یہ خوش خبری سناسکے،آگے کا منظر بڑا ہی عجیب تھا،اعظم بیٹھا رو رہاتھا۔
’’دوست کیا ہوا تمہیں؟‘‘امین نے حیرت اور تشویش سے پوچھا۔
’’کچھ نہیں دوست،میں اب تم سے جدا ہونے لگا ہوں،اس لیے اداس ہوں،اپنا خیال رکھنا اور ہمیشہ ہمدردی اور نیکی کی صفات اپنائے رکھنا،میں اب چلا،الوداع دوست الوداع!!‘‘
اعظم نے کہا اور پھر ایک عجیب کام ہوا،امین نے دیکھا کہ کمرے کے ایک کونے میں اس قبرستان کی تصویر نمودار ہوئی جہاں امین نے اس میت کو دفنایا تھا،ادھر اعظم روشنی میں تبدیل ہوتا جارہاتھااور وہ روشنی اس قبر میں داخل ہوتی جارہی تھی،جیسے ہی روشنی قبر میں داخل ہوئی،ایک تیز خوش بو سی پھیلی اور اعظم غائب ہوگیا،امین کا مارے حیرت کے برا حال تھا،تاہم وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ پراسرار طاقت خیر کی طاقت تھی جو اللہ تعالیٰ نے اس کی مدد کے لیے بھیجی تھی۔اس نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا اور محل کی جانب چل پڑا۔
Facebook Comments