پیاری سی پہاڑی لڑکی
ناول: Heidi
مصنف: Johanna Spyri
مترجم: مسعود احمد برکاتی
۔۔۔۔۔
جون کا مہینہ تھا۔ تیز دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ سوئٹزر لینڈ کا پہاڑی علاقہ تھا۔ ایک جوان تن درست عورت پہاڑی راستے پر چڑھ رہی تھی۔ راستہ بہت زیادہ ڈھلواں اور اونچا نیچا تھا۔ یہ راستہ ایک چھوٹے سے خوب صورت قصبے مائن فیلڈ کے باہر سے گزرتا تھا۔ بڑی لطیف ہوا چل رہی تھی۔ یہ ہوا جنگلی پھولوں کی خوش بو سے مہک رہی تھی۔ پہاڑی کی اونچائی پر چراگاہوں میں پھول، پودے اور درخت خود بہ خود اگ آتے ہیں۔ یہ انسان کی محنت کے محتاج نہیں ہوتے۔
عورت کا نام ڈیٹی تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں کپڑوں کی گٹھڑی تھی۔ دوسرے ہاتھ سے اس نے ایک چھوٹی سی لڑکی کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ لڑکی پانچ برس سے زیادہ کی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس کے گال دھوپ کی گرمی سے سرخ ہو رہے تھے۔ گرمی کے باوجود لڑکی نے کئی کپڑے پہن رکھے تھے۔ وہ دہر ا لباس پہنے ہوئے تھی، اونی موزے، بھاری بوٹ اور سرخ رنگ کا موٹا گلو بند۔ لڑکی بوجھل قدموں سے چل رہی تھی۔ کئی گھنٹے کی چڑھائی چڑھنے کے بعد دونوں ایک چھوٹے سے گاؤں ڈور فلی پہنچ گئیں۔
ڈیٹی اس گاؤں کی رہنے والی تھی اور وہاں کے لوگ اس کو جانتے تھے۔ بعض گھروں کے اندر سے اس کو آواز بھی دی گئی لیکن اس نے جواب نہیں دیا اور چلتی رہی۔ جب وہ گاؤں کی بڑی سڑک کے آخری سرے پر واقع ایک مکان تک پہنچی تو اس مکان میں سے ایک آواز آئی:’’ ڈیٹی! اگر تم اور اوپر جارہی ہو تو میں بھی تمھارے ساتھ چلوں گی۔ بس آدھا منٹ!‘‘
ڈیٹی رک گئی اور خاموش کھڑی ہو گئی۔ چھوٹی لڑکی بینچ پر بیٹھ گئی۔
ڈیٹی نے اس سے پوچھا: ’’ہیدی! کیا بہت تھک گئی ہو؟‘‘
ہیدی نے جواب دیا:’’ نہیں لیکن مجھے گرمی بہت لگ رہی ہے۔‘‘
’’خیر ہم جلدی وہاں پہنچ جائیں گے۔ اسی طرح چلتے رہے تو ایک گھنٹے میں ہم وہاں ہوں گے۔‘‘
اسی وقت ایک موٹی مگر خوب صورت عورت مکان کے اندر سے نکلی اور ان کے ساتھ ہو گئی۔ چھوٹی لڑکی ہیدی بھی بینچ پر سے اُٹھ کر ان کے پیچھے چلنے لگی۔ دونوں عورتیں آپس میں باتیں کر رہی تھیں۔ وہ ڈور فلی اور اس کے قریب رہنے والے لوگوں کے بارے میں باتیں کر رہی تھی۔ اس عورت کا نام بار بی تھا۔ آخر اس نے ڈیٹی سے پوچھا کہ وہ ہیدی کے ساتھ کہاں جارہی ہے؟
ڈیٹی نے باربی کو بتایا کہ چند سال پہلے میری بہن کا انتقال ہو گیا تھا۔ ہیدی اسی کی بیٹی ہے۔ یہ دنیا میں اکیلی رہ گئی تھی، اس لیے میں نے اس کو رکھ لیا اور پالا پوسا لیکن اب مجھے شہر فرینکفرٹ میں ایک بہت عمدہ نوکری مل رہی ہے اور شہر یہاں سے خاصا دور ہے۔
بار بی نے پوچھا: ’’تو پھر غریب ہیدی کی دیکھ بھال کون کرے گا؟‘‘
ڈیٹی نے جواب دیا :’’میں اسے انکل آلپ کے پاس لے جارہی ہوں وہ پہاڑ پر رہتے ہیں۔ وہ اس کے دادا ہیں۔ اب ضروری ہو گیا ہے کہ ان کو ہیدی کی ذمے داری سونپی جائے۔‘‘
یہ سن کر بار بی بڑی حیران ہوئی۔ گاؤں کے سب لوگ انکل آلپ اور ان کے روکھے پن سے واقف تھے۔ وہ پہاڑ پر بالکل اکیلے رہتے تھے۔ گاؤں کے کسی آدمی سے بات نہیں کرتے تھے۔ وہ برسوں سے گر جا بھی نہیں گئے تھے۔ ان کی سفید داڑھی خاصی لمبی تھی۔ ان کی آنکھوں سے وحشت ٹپکتی تھی۔ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ ان کا نام انکل آلپ کس طرح پڑا اور وہ اتنے برسوں سے تنہا کیوں رہ رہے ہیں۔ بار بی جانتی تھی کہ ڈیٹی سے زیادہ انکل آلپ کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ اس کے پوچھنے پرڈیٹی نے بتانا شروع کیا:
’’انکل آلپ اپنے باپ کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ ان کا ایک چھوٹا بھائی تھا۔ وہ ایک عمدہ مکان میں اور ایک اچھے گاؤں میں رہتے تھے، لیکن انکل کو گاؤں کی پُر سکون زندگی پسند نہیں تھی۔ ان کو شہر کی رونق اور ہنگامے اچھے لگتے تھے۔ چناں چہ وہ گاؤں سے نکل کھڑے ہوئے۔ وہ شہروں شہروں گھومتے پھرتے رہے اور بُری صحبت میں پھنس گئے۔ شراب پینے اور جوا کھیلنے لگے اور دھیرے دھیرے اپنی ساری جائیداد ہار گئے۔ جب ان کے ماں باپ کو یہ حالات معلوم ہوئے تو وہ بے چارے شرم اور غم کے مارے ختم ہو گئے۔ ان کا بھائی بھی برباد ہو گیا۔ نہ معلوم وہ کہاں چلا گیا۔ کسی کو اس کے بارے میں آج تک خبر نہیں۔
انکل آلپ بھی غائب ہو گئے۔ بس ان کی بُری باتیں یا درہ گئیں۔ بہت دن بعد معلوم ہوا کہ وہ کسی دور دراز ملک کی فوج میں ملازم ہو گئے ہیں۔ اس کے بعد دس برس تک ان کے متعلق کسی کو کچھ نہیں معلوم ہوا۔ پھر ایک دن وہ گاؤں واپس آگئے۔ ان کے ساتھ ان کا ایک بیٹا تھا۔ انھوں نے اپنے بعض عزیزوں سے کہا کہ وہ اس لڑکے کی دیکھ بھال کریں، لیکن کوئی عزیز راضی نہیں ہوا۔ کوئی ان سے یا ان کے لڑکے سے واسطہ نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ انکل اتنے غصے ہوئے کہ انھوں نے قسم کھائی کہ آیندہ وہ گاؤں میں قدم نہیں رکھیں گے۔ اس کے بعد وہ ڈور فلی آگئے اور اپنے لڑکے کے ساتھ ہی رہنے لگے۔ لڑکے کا نام’’ تو بیاس‘‘ تھا۔ انکل کی بیوی کے متعلق کسی کو کچھ پتا نہیں ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان کی بیوی کا انتقال ہو چکا ہے۔
انکل نے کچھ رقم بچا رکھی تھی جس سے انھوں نے تو بیاس کو بڑھئی کا کام سیکھنے کے لیے بھیج دیا۔ لڑکے کو تو گاؤں والے پسند کرتے تھے لیکن بڑے میاں کسی کو اچھے نہیں لگتے تھے۔ بعض لوگوں نے یہ خبر پھیلا دی تھی کہ فوجی ملازمت میں ان سے کوئی بڑی غلطی ہوگئی تھی جس کی وجہ سے مشکل میں پھنس گئے تھے، لہٰذا وہاں سے بھاگ آئے۔ ان کی دادی اور میری پردادی بہنیں تھیں، اس لیے ہم ان کو انکل کہنے لگے اور چوں کہ ڈور فلی میں تقریباًسب ہی ہمارے رشتے دار تھے، اس لیے سب گاؤں والے ان کو انکل کہنے لگے۔ پھر جب سے وہ ڈور فلی سے بھی اور اوپر پہاڑ پر جا کر رہنے لگے تو وہ انکل آلپ مشہور ہو گئے (انگریزی میں آلپ کے معنی پہاڑ کی چوٹی کے ہیں)۔
ان کا لڑکا تو بیاس بڑھئی کا کام سیکھ کر واپس گاؤں آ گیا۔ کچھ دن بعد میری بہن ایڈل ہیڈ سے اس کی شادی ہو گئی۔ وہ دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔ ان کی یہ بچی ہیدی پیدا ہوئی۔ لیکن افسوس دو سال ہی گزرے تھے کہ تو بیاس کا انتقال ہو گیا۔ وہ ایک مکان بنا رہا تھا کہ لکڑی کا ایک لٹھا اس کے سر پر آن پڑا۔ میری بہن کو اس کی موت کا اتنا صدمہ ہوا کہ وہ سخت بیمار پڑگئی اور دوبارہ بستر سے نہ اُٹھے سکی۔ چند ہفتوں کے بعد وہ بھی ختم ہو گئی۔ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ انکل کے بُرے اعمال کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہمارے مذہبی پیشوا نے بھی انکل سے کہا کہ ان کو اپنے گناہوں سے تو بہ کرنی چاہیے، لیکن ان باتوں سے انکل اتنے غصے ہوئے کہ انھوں نے تمام لوگوں سے بول چال ہی بند کر دی۔ وہ پہاڑ پر چلے گئے اور وہیں رہنے لگے۔ جب سے وہ نیچے اترے ہی نہیں۔ ہیدی کو جب سے میں پال رہی ہوں، لیکن اب مجبور ہوں، مجھے نوکری کی وجہ سے فرینکفرٹ جانا پڑ رہا ہے۔ انکل کے علاوہ ہیدی کا کون ہے جس کے پاس اس کو چھوڑ دوں۔‘‘
جب یہ دونوں عورتیں باتیں کر رہی تھیں تو اس دوران ہیدی خاموشی سے راستے سے ہٹ کر ہرے بھرے درختوں، پودوں اور پھولوں کی طرف چلی گئی۔ وہ بہت خوش تھی۔ اس سے پہلے اس نے ایسی خوب صورت اور سر سبز جگہ نہیں دیکھی تھی۔ یہ کھلی جگہ اس کو بہت اچھی لگ رہی تھی۔ وہ اپنی خالہ ڈیٹی کے ساتھ جس قصبے میں رہتی تھی وہاں اس کو گھر میں ہی رہنا پڑتا تھا۔ اس کو باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس وقت وہ خوب بھاگ دوڑ اور اُچھل کود کر رہی تھی۔ سورج کی روشنی میں چمکتے ہوئے حسین و رنگین پھولوں کو دیکھ کر اس کا دل خوشی سے جھوم رہا تھا۔ وہ پلٹ کر اپنی خالہ کے پاس لوٹنا چاہتی تھی کہ اس کی نظر ایک لڑکے پر پڑی جو ڈھیلی ڈھالی پتلون پہنے ہوئے تھا لیکن اس کے پیروں میں جوتے نہیں تھے۔ و ہ بکریوں کا ایک گلہ چرار ہا تھا۔
ہیدی اپنے بھاری کپڑوں میں ہانپتی کانپتی اس لڑکے کی طرف دوڑی۔ لڑکے نے ایک لمحے کے لیے بکریوں کو گھاس چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ہیدی قریب ہی بیٹھ گئی اور بکریوں کے گلے میں لٹکی ہوئی گھنٹیوں کی جھنکار سنے لگی۔ ہوا گرم تھی۔ ہیدی نے اپنے جوتے، موزے، گلوبند اور کچھ کپڑے اُتار دیے۔ اس کے ساتھ اس نے لڑکے پر سوالوں کی بوچھار کر دی :’’تم کتنی بکریاں چراتے ہو؟‘‘
’’ ان کے نام کیا ہیں؟‘‘
’’تم ان کو کہاں لے جارہے ہو؟‘‘
’’یہ بکریاں کس کی ہیں؟ ‘‘
لڑکا ہنسا کہ یہ لڑکی اس کو کسی سوال کا جواب دینے کی مہلت نہیں دے رہی ہے اور سوال پر سوال کیے جارہی ہے۔ اچانک ہیدی نے اپنی خالہ کی آواز سنی:
’’ہیدی! تم کہاں ہو؟ کیا کر رہی ہو؟ تمھارے کپڑے اور جوتے کہاں ہیں؟ ‘‘
ہیدی نے جواب دیا: ’’میں یہاں ہوں، میرے کپڑے گھاس پر رکھے ہیں۔ مجھے گرمی بہت لگ رہی تھی، اس لیے میں نے کچھ کپڑے اُتار دیے۔ آخر بکریاں بھی تو کپڑے نہیں پہنتیں۔‘‘
ڈیٹی وہاں آئی اور اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا:
’’فوراً آؤ بے وقوف لڑکی! اور پیٹر! تم یہ کپڑے اُٹھا کر انکل آلپ کے گھر تک لے آؤ، کیوں کہ تمھیں بھی تو ادھر ہی آنا ہے۔‘‘
بکریوں کو چرانے والا لڑ کا پیٹر گیارہ برس کا تھا۔ وہ روزانہ صبح ہی صبح نیچے ڈور فلی گاؤں جاتا اور گھر گھر سے بکریوں کو جمع کر کے ان کو چرانے کے لیے پہاڑی چر اگا ہوں میں لے آتا۔ وہ انکل کی بکریاں بھی چرانے لے جاتا پھر شام کو انھیں واپس پہنچا دیتا۔
ہیدی اور پیٹر بہت جلد دوست بن گئے۔ پیٹر صرف گرمیوں ہی میں اپنے ہم جولیوں سے مل جل سکتا تھا۔ سردی میں تو دن بہت چھوٹا ہوتا ہے۔ اس موسم میں تو صرف بکریاں ہی پیٹر کے ساتھ ہوتی تھیں۔ گھر میں صرف اس کی ماں اور دادی تھیں۔ اس کا باپ بھی چرواہا تھا لیکن چند برس پہلے وہ ایک درخت کاٹتے ہوئے دب کر مر گیا تھا۔ پیٹر کی ماں کا نام بریخت تھا، لیکن اس کو ہر شخص ’’چروا ہے کی ماں‘‘کہا کرتا تھا۔ پیٹر کی دادی ہر شخص کی دادی اماں تھیں۔ بار بی تو واپس اپنے گھر چلی گئی لیکن ڈیٹی، پیٹر اور ہیدی چلتے رہے اور آخر انکل کے گھر کے قریب پہنچ گئے۔ انکل آلپ اپنے لکڑی کے گھر کے باہر بینچ پر خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ پائپ ان کے منھ میں لگا ہوا تھا اور ہاتھ گھٹنوں پر رکھے ہوئے تھے۔ ہیدی دوڑ کر سب سے آگے نکل گئی اور سیدھی انکل کے پاس پہنچ گئی۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بولی: ’’ہیلو دادا ابا!‘‘
انکل کھڑے ہو گئے اور روکھے پن سے بولے:’’ او ہو، یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟‘‘
مگر اس کے ساتھ ہیدی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ہیدی نے اپنے دادا کو غور سے دیکھا۔ اس کو ان کی بڑی لمبی داڑھی اور گھنی سفید بھنویں بہت پسند آ ئیں۔ اب ڈیٹی اور پیٹربھی قریب پہنچ چکے تھے۔ پیٹر خاموش کھڑا ہو گیا۔ ڈیٹی سلام کرنے کے بعد بولی: ’’میں آپ کی پوتی کو لائی ہوں۔ کیا آپ نے اسے پہچان لیا؟ جب آپ نے اس کو آخری باردیکھا تھا تو یہ صرف ایک برس کی تھی۔‘‘
’’تم اسے یہاں کیوں لائی ہو؟ ‘‘انکل آلپ نے اس روکھے انداز سے کہا۔ پھر پیٹر کو دیکھ کر بولے: ’’اور تم نو دو گیارہ ہو جاؤ، اپنی بکریوں کو لے کر۔‘‘ انھوں نے پیٹر کی طرف اس طرح دیکھا کہ وہ فوراً چلتا بنا۔
ڈیٹی نے انکل کو بتایا: ’’ اب میں شہر جارہی ہوں۔ میں نے ہیدی کو چار برس تک رکھا۔ میرے علاوہ اب دنیا میں آپ ہی اس کے ہیں۔ یہ آپ کی ذمے داری بھی ہے۔‘‘
انکل نے ڈیٹی کو گھور کر دیکھا اور بولے: ’’ٹھیک ہے، لیکن اگر اس کا دل یہاں نہ لگا اور اس نے تمھیں یاد کر کے رونا چلانا شروع کر دیا تو میں کیا کروں گا؟‘‘
’’ بہر حال اب آپ ہی کو اسے سنبھالنا ہے۔‘‘
یہ کہہ کرڈیٹی نے انکل اور ہیدی دونوں کو اللہ حافظ کہا اور جتنی تیز وہ چل سکتی تھی اتنی تیزی سے واپس پہاڑ سے اُترنے لگی۔ وہ دل سے خوش نہیں تھی، کیوں کہ مجبور اًہیدی کو چھوڑ کر آ رہی تھی۔ جب اس کی بہن مررہی تھی تو ڈیٹی نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہیدی کا پورا خیال رکھے گی لیکن اب ڈیٹی نے خود کو سمجھایا کہ اگر میری حالت اچھی ہوتی تو میں شہر میں نوکری نہ کرتی اورہیدی کو نہ چھوڑتی۔ جب ڈیٹی آنکھوں سے اوجھل ہوگئی تو انکل دوبارہ بینچ پر بیٹھ گئے اور نظریں زمین پر گاڑے ہوئے کچھ سوچنے لگے۔ وہ پائپ کے بڑے بڑے کش لے رہے تھے۔ آخر وہ ہیدی سے کہنے لگے: ’’تمھیں کیا چاہیے؟‘‘
’’دادا ابا! میں گھر کو اندر سے دیکھنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’تو پھر آؤ، اپنے کپڑے بھی اُٹھا لا ؤ۔‘‘
ہیدی نے ان کپڑوں کو دیکھا جو ڈبل تھے اور اس نے گرمی کی وجہ سے اُتار دیے تھے اور جن کو پیٹر سے اُٹھوا کر ڈیٹی یہاں تک لائی تھی۔ ہیدی نے بڑے مزے سے ان سے کہا:
’’ لیکن ان کی ضرورت نہیں۔ بکریاں بھی تو دن بھر کپڑوں کے بغیر پھرتی رہتی ہیں۔‘‘
’’ ٹھیک ہے، اگر تم نہیں پہننا چاہتیں تو نہ پہننا، مگر ان کو اندر لے آؤ۔ ہم انھیں الماری میں رکھ دیں گے۔‘‘
ہیدی نے انکل کے کہنے پر عمل کیا اور ان کے پیچھے پیچھے گھر کے اندر چلی گئی۔ یہ لکڑی کا بنا ہوا ایک بڑا کمرہ تھا۔ اس میں ایک میز، ایک کرسی، لکڑی کی ایک بڑی الماری اور ایک چولھا رکھا تھا۔ ایک کونے میں انکل کا بستر تھا۔ ہیدی نے ان چیزوں پر نظر ڈالنے کے بعد پوچھا: ’’میں کہاں سوؤں گی؟‘‘
انکل نے جواب دیا: ’’جہاں تمھارا دل چاہے سو جانا۔‘‘
ہیدی اس جواب سے بہت خوش ہوئی اور اپنے سونے کی جگہ تلاش کرنے لگی۔ ایک طرف لکڑی کی ایک سیڑھی لگی ہوئی تھی۔ وہ جلدی سے موم بتی ہاتھ میں لے کر اس پر چڑھ گئی۔ اوپر ایک دو چھتی تھی۔ وہاں گھاس پھیلی ہوئی تھی۔ گھاس ہری ہری اور تازہ تھی۔ دیوار میں ایک بڑا سا گول سوراخ تھا۔ اس سوراخ میں سے نیچے پہاڑ کی وادی دکھائی دیتی تھی۔ دریا اور درخت بھی نظر آ رہے تھے۔ اوپر کی طرف دیکھا تو برف پوش پہاڑ کی چوٹیاں آسمان سے باتیں کرتی نظر آ رہی تھیں۔ ہیدی بے اختیار بول اُٹھی: ’’دادا ابا! بس میں یہیں سوؤں گی۔ کتنی پیاری جگہ ہے یہ۔‘‘
’’اچھی بات ہے، لیکن تمھیں ایک بستر کی ضرورت ہوگی۔ میں تلاش کرتا ہوں۔‘‘
کچھ دیر میں دونوں نے مل کر ایک کپڑے کا غلاف بنایا اور اس میں گھاس بھر لی۔ بستر تیار ہو گیا۔ انکل ایک پرانا ساکمبل بھی اوڑھنے کو لے آئے۔ یہ دیکھ کر ہیدی کہنے لگی: ’’ بستر اورکمبل دونوں کتنے اچھے ہیں۔ میرا تو جی چاہ رہا ہے کہ رات آنے سے پہلے ابھی سو جاؤں۔‘‘
انکل کہنے لگے: ’’مگر پہلے تمھیں کچھ کھانا چاہیے۔ تم تو بہت بھوکی ہوگی۔‘‘
بستر کی تیاری اور نئی جگہ کی خوشی میںہیدی کو کھانے کا خیال ہی نہیں آیا تھا۔ اب کھانے کا لفظ سن کر اس کی بھوک بھڑک اُٹھی۔ دونوں نیچے اترے۔ انکل ایک اسٹول پر بیٹھ گئے۔ آگ سلگائی، پنیر کا ایک بڑا سا ٹکڑا ایک کانٹے میں اٹکایا اور اس کو آگ پر سینکنا شروع کیا۔ وہ سنہر ا سنہرا سا ہو گیا۔ ہیدی بڑے غور سے انکل کو کام کرتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ اسے یکا یک کچھ خیال آیا۔ وہ اُٹھ کر الماری کے پاس گئی۔ جب انکل میز کی طرف آئے تو انھوں نے دیکھا کہ میز پر روٹی، رکابیاں، چمچے، چھریاں اور دو پیالے بڑے سلیقے سے سجے ہوئے تھے۔ یہ دیکھ کر وہ بولے: ’’خوب !مجھے خوشی ہے کہ تم بغیر کسی کے کہے خود کام کرتی ہو لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ تم بیٹھو گی کس چیز پر؟‘‘
ہیدی جلدی سے وہ اسٹول کھینچ لائی جس پر انکل چولھے کے پاس بیٹھتے تھے، لیکن وہ اتنا نیچا تھا کہ اس پر بیٹھ کر ہیدی آرام سے کھانا نہیں کھا سکتی تھی۔ انکل نے جلدی سے اپنی کرسی کھینچ کر اسٹول کے پاس کر دی۔ اب کرسی ہیدی کے لیے میز کا کام دے رہی تھی۔ انکل خود میز کے کنارے پر ٹک گئے۔ اب انکل نے ایک پیالے میں دودھ بھرا اور ہیدی کی طرف بڑھایا۔ ایک روٹی اور پنیر بھی دیا۔ ہیدی ایک ہی سانس میں غٹاغٹ سارا دودھ پی گئی تو انکل نے پوچھا:’’ تمھیں دودھ پسند آیا؟‘‘
’’بہت بہترین دودھ ہے۔ میں نے اس سے پہلے اتنا اچھا دودھ کبھی نہیں پیا۔‘‘
کھانے کے بعد انکل آلپ باہر نکلے اور بکریوں کے اُسارے (شیڈ) میں گئے۔ فرش پر جھاڑو دی۔ بکریوں کے لیے تازہ گھاس رکھی۔ہیدی ان کو کام کرتے دیکھ رہی تھی۔ شام ہو گئی تھی۔ ہوا بھی تیز ہوتی جارہی تھی۔ سرو کے پیڑوں میں سے ہوا گزرتی تو سریلی سی آواز بڑی اچھی لگتی۔ اس آواز کے ساتھ ہیدی نے ایک اور آواز بھی سنی۔ یہ سیٹی کی آواز تھی۔ سیٹی پیٹر نے بجائی تھی جو چراگاہ سے بکریوں کو واپس لا رہا تھا۔ جب بکریاں قریب آگئیں تو انکل کی دو بکریوں کو دیکھ کر ہیدی نے خوشی سے پوچھا:
’’دادا ابا! کیا یہ دونوں ہماری ہیں؟ واقعی ہماری ہیں؟ ان کے نام کیا ہیں؟ کیا یہ ہمیشہ ہمارے پاس ہی رہیں گی؟‘‘
انکل نے جواب دیا:’’ ایک وقت میں ایک سوال کیا کرو۔ سفید بکری کا نام ننھی سوان ہے اور کتھئی والی کا نام ننھی بیئر ہے۔ اب تم جاؤ اور اندر سے پیالہ لے آؤ۔ پیٹر دودھ دوہ رہا ہے۔‘‘
جیسے جیسے سورج اونچے پہاڑوں کے پیچھے چھپتا گیا، ہوا تیز ہوتی گئی۔ہیدی گھر کے باہر بینچ پر بیٹھ گئی۔ وہیں اس نے ایک پیالہ دودھ پیا۔ اس کے بعد بینچ سے اُٹھتے ہوئے کیا:
’’شب بخیر ننھی سوان !شب بخیر ننھی بیئر!شب بخیر دادا ابا !شب بخیر پیٹر!‘‘
رات کو ہوا بہت تیز ہوگئی۔ اتنی تیز کہ گھر کی لکڑی کی دیوار یں چر چرانے لگیں۔ بکریوں کے اُسارے میں ہوا کے زور سے دونوں بکریاں آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرانے اور’’ میں میں‘‘ کرنے لگیں۔ سرو کے پیڑوں کی کئی شاخیں ٹوٹ کر گر گئیں۔ انکل آلپ کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اُٹھے اور سوچنے لگے کہ ننھی ہیدی ڈر رہی ہوگی لیکن جب وہ اوپر پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ ہیدی بے خبر سو رہی ہے۔ اس کا معصوم ہنستا ہوا چہرہ اس کے ہاتھوں پر رکھا ہوا تھا۔ گول سوراخ سے چاندنی اندر آ رہی تھی اور ہیدی کا چہرہ اس میں اور زیادہ پیارا لگ رہا تھا۔ انکل وہاں کھڑے اس کو دیکھتے رہے۔ جب بادل کے ایک ٹکڑے نے چاند کو ڈھانپ کر اند ھیرا کر دیا تو انکل واپس نیچے آگئے۔
دوسرے دن صبح سیٹی کی باریک اور تیز آواز سے ہیدی جاگ گئی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ دھوپ کی ایک لکیر بستر پر پڑ رہی ہے اور گھاس سونے کی طرح چمک رہی ہے۔ ابھی ہیدی پوری طرح جاگی نہیں تھی، اس لیے اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے۔ اس نے نظریں گھما کر چاروں طرف دیکھا، پھر انکل کی آواز بھی سنائی دی تو اس کو پچھلے دن کی سب باتیں یاد آ گئیں۔ وہ اُٹھ بیٹھی۔ اس کا دل دوبارہ بکریوں کو دیکھنے کو چاہا۔
بستر سے نکل کر اس نے جلدی جلدی کپڑے بدلے۔ سیڑھی سے نیچے اتری اور گھر کے باہر نکلی۔ وہاں پیٹر نظر آیا۔ اس کے ساتھ بکریاں بھی تھیں۔ انکل اپنی بکریوں کے اُسارے کا دروازہ کھولنے جا رہے تھے۔ ہیدی بھی بکریوں کو دیکھنے کو لپکی۔ انکل نے اسے دیکھا تو پوچھنے لگے: ’’ہیدی! کیا تم بھی پیٹرا اور بکریوں کے ساتھ چراگاہ جانا چاہتی ہو؟‘‘
ہیدی کا بھی دل چاہ رہا تھا، وہ خوشی سے اُچھلنے لگی۔ انکل اس کی خوشی دیکھتے ہوئے راضی ہو گئے اور کچھ سوچ کر پیٹر کو آواز دی: ’’پیٹر! یہاں آؤ، ہیدی بھی تمھارے ساتھ جائے گی لیکن تمھیں اپنے ساتھ کچھ کھانے کو لے جانا چاہیے۔‘‘
پیٹر نے اپنا کھانے کا تھیلا انکل کی طرف بڑھا دیا اور انھوں نے اس میں ایک بڑی سی روٹی اور پنیر کا ایک بڑا ٹکڑا رکھ دیا۔ اس کے بعد انھوں نے ہیدی اور پیٹر دونوں کو چراگاہ روانہ ہونے کی اجازت دے دی۔
ہیدی کے لیے چڑھائی ایک بڑی مہم سے کم نہ تھی۔ بکریاں خوشی خوشی پگ ڈنڈی پر اُچھل کود کر رہی تھیں۔ جون کے مہینے کا سورج پوری طرح چمک رہا تھا اور پہاڑ کی ہری ہری گھاس کو بھی چمکا رہا تھا۔ اودے اودے، نیلے پیلے پھول کھلنے شروع ہو گئے تھے۔ہیدی ادھر اُدھر دوڑتی پھر رہی تھی اور منھ سے عجیب عجیب آوازیں نکال کر اپنی خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔ وہ اپنے دامن میں پھول بھر رہی تھی۔ پیٹر کو بکریوں کا خیال تھا کہ وہ ادھر اُدھر نہ ہو جائیں، سیدھے راستے پر چلتی رہیں۔ آخر وہ دونوں ایک نا ہموار چٹانی ٹیلے کے نیچے پہنچ گئے۔ پیٹر نے وہاں ایک مناسب جگہ تلاش کر کے اپنا تھیلا ایک چٹان کے بڑے سے سوراخ میں جما دیا تا کہ ہوا کا کوئی تیز جھونکا تھیلے کو اُڑا کر پہاڑی کے دامن میں گہری ڈھلان پر نہ گرا دے۔ بکریوں نے گھاس چرنی شروع کر دی۔
تھوڑی دیر بعد ان کو بھوک لگنے لگی۔ دو پہر بھی ہوگئی تھی۔ پیٹر نے بکریوں کو اکٹھا کیا۔ننھی سوان کا دودھ دوہ کرہیدی کے مگ میں بھر دیا اور تھیلے سے کھانے کی چیزیں نکال کر کپڑے پر پھیلا دیں۔ہیدی نے فٹافٹ دودھ پی لیا پھر اپنے کھانے میں پیٹر کو شریک کیا۔ پیٹر کو اس تواضع پر حیرت ہوئی۔ کھانے کے بعد ہیدی کی نظر ایک چھوٹی سی سفید بکری پر پڑی تو اس نے دیکھا کہ وہ مسلسل’’ میں میں ‘‘کر رہی ہے۔ ہیدی نے اس کی گردن میں ہاتھ ڈال دیے اور پیٹر سے پوچھا:
’’کیا بات ہے؟ یہ کیوں بے چین ہے؟‘‘
پیٹر نے بتایا کہ یہ اپنی ماں کو یاد کر رہی ہے، جس کو اس کے مالک نے بیچ دیا ہے۔ ہیدی کو بکری پر بڑا ترس آیا۔ وہ اس سے باتیں کرنے لگی۔ اس نے بکری کو گود میں اٹھا لیا اور بولی: ’’تم گھبراؤ نہیں، رو ئو نہیں، اب میں روزانہ یہاں آیا کروں گی اور تمھارے ساتھ رہوں گی۔ اب تم اکیلی نہیں رہوگی۔‘‘
بکری ہیدی کی باتیں تو کیا سمجھی ہوگی، لیکن ہیدی کے ہاتھوں نے جو بکری کے جسم کو چھورہے تھے، اس پر اثر کیا اور ایک ہمدرد کو اپنے قریب پا کر بکری نے چلانا بند کر دیا۔
تھوڑی دیر تک ہیدی اور پیٹر نے آنکھ مچولی کا کھیل کھیلا۔ہیدی کو بہت مزہ آیا۔ دن تیزی سے گزر گیا۔ شام ہونے لگی، سورج ڈوبنے لگا اور پہاڑوں کے پیچھے اپنا چہرہ چھپانے لگا۔ ہیدی کی نظر آسمان کی طرف اُٹھی تو وہ حیرت سے چلا اٹھی:
’’پیٹر پیٹر! وہ کیا ہو رہا ہے؟ آسمان سرخ ہو رہا ہے۔ ہر طرف آگ کے شعلے نظر آ رہے ہیں۔ پیڑجل رہے ہیں۔ برف اور چٹانیں بھی لال ہو رہی ہیں۔‘‘
پیر نے بڑی بے پروائی سے جواب دیا: ’’ ایسا روز ہی ہوتا ہے۔‘‘
ہیدی نے پھر پوچھا: ’’مگر یہ کیا ہے؟‘‘
پیٹر نے اسی انداز سے کہا: ’’ بس یہ ہوتا ہے۔‘‘
ہیدی بہت خوش تھی۔ اس نے آج بہت سی نئی چیزیں دیکھی تھیں۔ واپسی میں راستے بھر خاموشی رہی۔ جیسے ہی ہیدی کو اپنا گھر نظر آیا وہ دوڑ کر اپنے دادا کے پاس پہنچ گئی۔ بڑے میاں گھر کے باہر بینچ پر بیٹھے ہوئے سگار پی رہے تھے۔ ہیدی نے ان کو بتایا کہ میں نے آج شام کو برف میں آگ لگتے ہوئے دیکھی۔ پیٹر نے اس کو یہ نہیں بتایا تھا کہ یہ آگ نہیں بلکہ جب سورج غروب ہوتا ہے تو پہاڑوں کے پیچھے اس کی روشنی اس رنگ کی ہو جاتی ہے۔ انکل نے بتایا کہ اسے ’’شفق‘‘کہتے ہیں۔
اس رات ہیدی جلدی سو گئی۔ اس کو خواب میں بھی پہاڑ، سورج، پھول، بکریاں اور برف سب سرخ نظر آتے رہے۔
وقت گزرتا گیا۔ گرمیاں آئیں، خزاں آئی، پھر سردیاں آگئیں۔ خوب برف پڑنے لگی۔ پیٹر نے بکریوں کو چر اگاہ لے جانا چھوڑ دیا۔ اس کے بجائے وہ روزانہ دو پہر کو اسکول جانے لگا۔ ہیدی گھر کے ہی کاموں میں لگ گئی، اس لیے اس کا دل لگا رہا۔ ہیدی اپنے دادا کو کام کرتے ہوئے دیکھتی تو اسے بڑا اچھا لگتا۔ بڑے میاں لکڑی کا کام کرتے تھے۔ لکڑی کی تراش خراش اور نقش و نگارہیدی کو بہت بھلے لگتے تھے۔
ڈورفلی کے اسکول ماسٹر نے انکل آلپ کو کہلا بھیجا کہ پہاڑی علاقے کے دوسرے بچوں کی طرح ہیدی کو بھی اسکول آنا چاہیے، لیکن بڑے میاں نے جواب میں کہلا دیا کہ ہیدی ابھی چھوٹی اور کم زور ہے اور اس قابل نہیں کہ وہ روزانہ پہاڑ سے گاؤں اور پھر گاؤں سے پہاڑ واپسی کے لیے اتر نے چڑھنے کی محنت برداشت کر سکے۔
ہیدی اب سات برس کی ہو گئی تھی اور اس نے گھر کے خاصے کام سیکھ لیے تھے۔ بکریوں کی دیکھ بھال بھی اسے آگئی تھی۔ بکریاں بھی اس سے مانوس ہوگئی تھیں اور اس کی آواز سنتے ہی’’ میں میں‘‘کرنے لگتی تھیں۔
یکا یک سردی بڑھ گئی۔ صبح کے وقت پیٹر ہاتھوں کو ملتا ہوا آتا تا کہ کچھ گرمی آئے۔ ایک رات کو خوب برف پڑی۔ اتنی برف پڑی کہ سارے درخت برف سے ڈھک گئے۔ کسی درخت کا ایک پتا بھی نظر نہیں آرہا تھا۔ ہیدی اس منظر کو کھڑکی میں سے دیکھ رہی تھی۔ اس کو یہ منظر بہت بھلا لگ رہا تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ کاش! اتنی برف پڑے کہ گھر برف سے ڈھک جائے اور گھر سے نکلنا مشکل ہو جائے لیکن ہیدی کی خواہش پوری نہیں ہوئی۔
صبح اُٹھ کر انکل نے برف ہٹائی اور چلنے کا راستہ بنایا۔ راستہ صاف ہوتے ہی پیٹر ملنے آگیا۔ وہ انکل کے پاس بیٹھ گیا اور باتیں کرنے لگا۔ انکل نے اس سے اسکول کے بارے میں پوچھا۔ سردیوں کے زمانے میں پیٹر اسکول جایا کرتا تھا اور پڑھنا لکھنا سیکھتا تھا۔ ہیدی کو بھی شوق ہوا اور وہ پوچھنے لگی کہ اسکول میں کیا ہوتا ہے۔ اس نے پیٹر پر سوالات کی بوچھار کر دی۔ انکل ہنسنے لگے۔ پیٹر ہیدی کو سمجھانے کی کوشش کرنے لگا۔
اس عرصے میں انکل نے کھانا تیار کر لیا اور پیٹر کو بھی کھلایا۔ کھانے کے بعد پیٹر نے شکریہ ادا کیا اور اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ اس نے کہا: ’’آپ ہمارے ہاں آئیں اور دادی سے ملیں۔ ‘‘
ہیدی بہت خوش ہوئی۔ اصل میں وہ گاؤں جانا چاہتی تھی۔ ہیدی نے دوسرے دن صبح ہی انکل سے پیٹر کے ہاں چلنے کا تقاضا شروع کر دیا۔ انکل نے اسے ٹالنے کی کوشش کی اور کہا کہ ابھی برف بہت ہے، لیکن ہیدی کے شوق اور ضد کے آگے انکل کو ہتھیار ڈالنے پڑے۔
ایک دن صبح ہی صبح انکل نے برف گاڑی نکالی۔ اس گاڑی میں لوہے کی لمبی تان لگی ہوئی تھی جس کو پکڑ کر گاڑی کو کھینچنے میں آسانی ہوتی تھی۔ وہ اس گاڑی میں بیٹھ کر اتنی تیزی سے نیچے گئے کہ ہیدی کو محسوس ہوا کہ وہ اُڑ رہی ہے۔ وہ خوشی سے چیخنے لگی۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ پیٹر کے گھر پہنچ گئے۔ گاڑی ٹھیک گھر کے باہر رکی۔ انکل نے ہیدی کو گھر میں بھیج دیا۔
جس دروازے سے ہیدی پیٹر کے گھر میں داخل ہوئی وہ باورچی خانے میں کھلتا تھا۔ باورچی خانے سے ایک دروازہ ایک چھوٹے سے کمرے میں کھلتا تھا۔ کمرے کی چھت بہت نیچی تھی اور کمرہ کھلا کھلا سا تھا۔ کمرے میں ہیدی کو دو عورتیں نظر آئیں۔ ایک عورت ایک جیکٹ کی مرمت کر رہی تھی۔ دوسری عورت بہت بوڑھی تھی اور اس کی کمر جھکی ہوئی تھی۔ وہ ایک کونے میں چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی۔ ہیدی سیدھی اسی عورت کے پاس گئی اور کہنے لگی:
’’دادی سلام! آخر میں آہی گئی۔‘‘
دادی نے سر اٹھایا،ہیدی کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا اور بولیں: ’’کیا تم انکل آلپ کی پوتی ہو؟‘‘
جب ہیدی نے بتایا: ’’جی ہاں اور وہی مجھے برف گاڑی میں ساتھ لائے ہیں۔ ‘‘تو دونوں عورتوں کو بڑا تعجب ہوا۔ وہ تینوں باتیں کرنے لگیں۔ باتوں کے دوران ہیدی نے ادھر اُدھر نظر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ گھر کی کھڑکی کا ایک پٹ جھکا ہوا ہے۔ اس نے کہا: ’’دادی! دیکھیے کھڑکی کا ایک پٹ لٹک رہا ہے اور ہل رہا ہے، کہیں گر نہ جائے۔ میرے دادا اس کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔‘‘
دادی نے جواب دیا: ’’میری پیاری بچی! میں دیکھ نہیں سکتی، ہاں آواز سن سکتی ہوں۔ پٹ کے ہلنے کی آواز یں رات کو زیادہ آتی ہیں۔ بعض وقت تو مجھے ڈر ہوتا ہے کہیں گھر ہی نہ گر جائے اور ہم مر جائیں۔ کوئی بھی مدد کرنے والا نہیں ہے۔‘‘
بڑی بی نے ہیدی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ نابینا ہیں، لیکن ہیدی کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دیکھ نہیں سکتے۔ اس نے بڑی بی کا ہاتھ پکڑا اور کھڑکی کے پاس لے گئی تاکہ ان کو برف گرنے کا منظر دکھائے۔ بڑی بی نے دوبارہ بتانے کی کوشش کی مگر ہیدی اپنی بات پر قائم تھی۔ وہ کہنے لگی :’’دادی گرمیوں میں بھی آپ سورج کی روشنی دیکھتی ہوں گی۔ سورج جب پہاڑوں کے پیچھے چھپنے لگتا ہے تو ہر چیز سرخ ہو جاتی ہے۔ کیا آپ یہ منظر نہیں دیکھ سکتیں؟‘‘
جب دادی نے انکار میں سر ہلایا تو ہیدی سے برداشت نہ ہو سکا اور وہ صدمے سے رونے لگی۔ اس کا دل چاہا کہ وہ دادی کی مدد کرے، لیکن ہیدی کیا اللہ کے سوا کوئی بھی دادی کی آنکھوں میں روشنی واپس نہیں لا سکتا تھا۔ ہیدی کے رونے سے بڑی بی کو دکھ پہنچا اور انھوں نے ہیدی کو دلا سا دینے کے لیے کہا کہ اگر وہ ان کے پاس کبھی کبھی آتی رہے گی توان کی تکلیف کم ہو جائے گی۔ہیدی نے جلدی جلدی آتے رہنے کا وعدہ کیا اور کہا کہ وہ دوبارہ اپنے دادا کو ساتھ لائے گی جو کھڑکی کے پٹ کو ٹھیک کر کے جما دیں گے۔ دونوں
عورتوں کو یقین نہیں آیا کہ انکل آلپ اس کی بات مانیں گے، کیوں کہ انکل آلپ کئی سال سے پہاڑ سے نیچے نہیں اترے تھے۔
واپسی میں ہیدی نے انکل کو راستے ہی میں ساری بات بتادی اور یہ بھی کہ دادی کا گھر گرنے والا ہے، مرمت کی ضرورت ہے۔ انکل کو اس بات سے کوئی دل چسپی نہیں تھی اور وہ مرمت کرنے کے لیے تیار نہیں تھے لیکن ہیدی کے بار بار کہنے پر اور اس کی پریشانی دیکھ کر وہ پیٹر کی ماں اور دادی کی مدد کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔
دوسری صبح ہی ہیدی اور انکل، پیٹر کے گھر پہنچ گئے۔ ہیدی دوڑی دوڑی اندر گئی اورپیٹر کی ماں اور دادی دونوں کے ہاتھ چومے۔ تھوڑی دیر میں ان کو گھر کے باہر ٹھوکا پیٹی کی آواز آنے لگی۔ پیٹر کی ماں باہر کی طرف لپکیں اور دیکھا کہ انکل آلپ کھڑکی کے پٹ کی مرمت میں مصروف ہیں۔ انھوں نے انکل کو اندر آنے کو کہا، لیکن انکل نے صرف ’’نہیں‘‘کہا اور اپنے کام میں لگے رہے۔
ایک اور سردیاں گزر گئیں، پھر گرمیاں آئیں اور پھر دوسری سردیاں آئیں۔ پہاڑ پر ہیدی کی یہ دوسری سردیاں بھی ختم ہونے کے قریب تھیں۔ اب ہیدی ذرا بڑی ہو گئی تھی۔ اس نے اپنے دادا سے بہت سی کام کی اور اچھی باتیں سیکھ لی تھیں۔ اب وہ ہر ہفتے پیٹر کی ماں اور دادی کو دیکھنے جاتی تھی۔ وہ ان کو بہت چاہنے لگی تھی۔ ہیدی اپنے دادا کے پہاڑی گھر میں خوش اور مطمئن تھی۔ کھلی صاف ہوا اور آلودگی سے پاک ماحول نے اس کی صحت پر بھی اچھا اثر کیا تھا۔
سردیوں کے دوران پیٹر دوبارہ اسکول ماسٹر صاحب کا پیغام لے کر انکل آلپ کے پاس آیا کہ ہیدی کو اسکول بھیجنا شروع کر دیں لیکن انکل نے صاف انکار کر دیا۔ سردی کم ہونے لگی تھی، سورج کی تیز کرنوں نے برف کو پگھلانا شروع کر دیا تھا۔ ایک دن ایک آدمی گھر کے باہر کھڑا تھا۔ہیدی کی نظر اس پر پڑی۔ وہ کالے کپڑے پہنے ہوئے تھا اور شریف آدمی معلوم ہو رہا تھا۔ اس نے ہیدی سے کہا: ’’ڈرو نہیں، مجھے بچے بہت اچھے لگتے ہیں۔ آؤ مجھ سے مصافحہ کرو۔ تم ہیدی ہونا؟ تمھارے دادا کہاں ہیں؟‘‘
’’وہ گھر کے اندر ہیں اور لکڑی کے چمچے بنا رہے ہیں۔ ‘‘
ہیدی نے یہ کہہ کر ان صاحب کو اندر بلا لیا۔ وہ صاحب ڈور فلی کے مذہبی رہ نما تھے اور جب انکل وہاں رہتے تھے تو یہ صاحب ان کے پڑوسی تھے۔ وہ انکل سے یہ کہنے آئے تھے کہ ہیدی کو اسکول بھیجا کریں، یہ ہیدی کی تعلیم شروع کرنے کے لیے بہت مناسب وقت ہے، مگر انکل نہیں مانے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہیدی کے لیے اچھا ہے کہ وہ پہاڑی ہی پر رہ کر پرندوں اور جانوروں سے زندگی کا سبق سیکھے۔ اسکول جا کر وہ بُرے طور طریقے سیکھ سکتی ہے، لیکن ان صاحب نے پھر زور دے کر کہا :
’’ انکل آلپ! آپ کو گاؤں میں واپس آ جانا چاہیے تاکہ ہیدی اسکول میں پڑھ سکے۔‘‘
انکل نے ان سے ہاتھ ملا کر دھیمے لہجے میں جواب دیا :’’مجھے معلوم ہے آپ بچی کو اسکول بھجوانے کو کیوں کہ رہے ہیں، لیکن میں یہ نہیں کر سکتا۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ میںہیدی کو اسکول نہیں بھیجوں گا اور نہ گاؤں میں رہنے کو واپس جاؤں گا۔‘‘
وہ صاحب نا اُمید ہو کر خاموشی سے واپس چلے گئے مگر انکل کا موڈ خراب ہو گیا۔ اب وہ کچھ نہ بولے اور دن بھرہیدی سے بھی بات نہ کی۔
ابھی بڑے میاں کا موڈ ٹھیک نہیں ہوا تھا کہ دوسرے دن صبح دروازے پر دستک ہوئی۔ اس بار ڈیٹی آئی تھی۔ اس نے ہیٹ پہن رکھا تھا جس پر خوب صورت پر لگے ہوئے تھے۔ لمبا کوٹ اور لمبا شرارہ جو اتنا نیچے تھا کہ زمین سے لگ رہا تھا۔ انکل نے چپ چاپ اس کو اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ ڈیٹی نے بات شروع کی:
’’ہیدی کتنی اچھی اور خوش نظر آرہی ہے۔ یہ اتنی تن درست توانا ہو گئی ہے کہ مجھے اس کو پہچاننے میں دقت ہوئی۔ اس کو دیکھنے کے لیے جلد یہاں آنا چاہتی تھی لیکن دو سال تک اتنی مصروف رہی کہ وقت نہیں نکال سکی۔‘‘ اس کے بعد ڈیٹی نے تفصیل سے بتایا :’’جب سے میں فرینکفرٹ شہر گئی ہوں اسی وقت سے ہیدی کے لیے فکر مند تھی اور اس کے لیے کسی اچھے سے گھر کی تلاش میں تھی۔ شکر ہے کہ اب مجھے اس کے لیے ایک اچھا گھر مل گیا۔ شہر میں ایک مال دار گھراناہے۔ ان کی ایک بیٹی فالج سے معذور ہو گئی ہے اور بے چاری ہر وقت پہیا کرسی (وھیل چیئر )پر بیٹھی رہتی ہے۔ تنہائی اور خاموشی سے پریشان رہتی ہے۔ اس کے گھر والے اس کی دسراہٹ کے لیے ایک ہم جولی کی تلاش میں ہیں، جو اس کے ساتھ باتیں کرے اور کھیلے اور اس طرح معذور لڑکی کا وقت اچھا کٹے۔ مجھے فورا ًہیدی کا خیال آیا اور میں اس کو لینے کے لیے سیدھی یہاں آگئی۔ وہاں رہنے سے ہیدی کی زندگی بن جائے گی۔‘‘
ساری بات سن کر انکل نے کہا:’’ میں ہیدی کو اپنے سے جدا نہیں کر سکتا۔‘‘
لیکن ڈیٹی اپنی بات پر قائم رہی۔ وہ انکل پر غصے ہونے لگی اور کہنے لگی: ’’میں نے گاؤں میں سب کچھ سن لیا ہے کہ آپ نے ہیدی کو اسکول بھیجنے سے بالکل انکار کر دیا ہے۔ آپ اس کو جاہل رکھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘ڈیٹی نے انکل کو دھمکی دی: ’’اگر آپ نے ہیدی کو نہیں چھوڑا تو میں اس کو تعلیم سے روکنے کے غلط کام پر آپ کے خلاف مقدمہ دائر کروں گی اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے نہیں چوکوں گی، تعلیم سے روکنا خلاف قانون ہے۔ یہ میری بھانجی ہے۔ میں اسے جاہل نہیں رہنے دوں گی۔‘‘
انکل کو بھی غصہ آ گیا اور وہ چلا کر بولے:
’’بس بس بہت ہو گیا۔‘‘
ڈیٹی نے کہا: ’’آپ اس کو اپنے پاس رکھنا کب چاہتے تھے۔ جب میں اسے یہاں لائی تھی تو آپ نے بڑی مشکل سے اسے قبول کیا تھا، اس لیے خاص طور پر مجھے اس کی فکر تھی اور اب میں اسے لے کر جاؤں گی۔‘‘
ہیدی کو پہاڑی زندگی پسند آگئی تھی۔ وہ یہاں خوش تھی۔ پہاڑی کی سادہ فطری زندگی اس کو اچھی لگتی تھی۔ اب وہ یہیں رہنا چاہتی تھی۔ اس نے اپنے دادا کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔ ڈیٹی نے ہیدی کا دوسرا ہاتھ پکڑ لیا۔ہیدی نے کہا: ’’آنٹی! مجھے مت لے جاؤ، مجھے یہیں رہنے دو۔‘‘
لیکن ڈیٹی اپنی بات پر ڈٹی رہی۔ انکل کا غصہ بڑھ گیا۔ انھوں نے فرش پر پیر پٹخنے شروع کر دیے۔ وہ بڑ بڑاتے رہے، لیکن آخر ڈیٹی کی ضد کے آگے انھوں نے ہتھیار ڈال دیے اور بولے: ’’لے جاؤ اس کو اور برباد کر دو لیکن اب کبھی میرے پاس واپس نہ لانا۔ میں نہیں چاہتا کہ اسے پروں والے ہیٹ میں دیکھوں اور نہ میں اس کے منھ سے اس قسم کی باتیں سننا گوارا کروں گا جیسی تم کر رہی ہو۔ ‘‘
یہ کہہ کر بڑے میاں باہر نکل گئے۔
ان کے نکلتے ہی ڈیٹی الماری کی طرف لپکی اور ہیدی کے کپڑے وغیرہ نکال کر گٹھڑی بنائی۔ اس نے ہیدی سے کہا: ’’ اگر شہر میں تمھارا دل نہ لگے تو تم واپس آسکتی ہو۔ تمھارے دادا اس وقت غصے میں ہیں۔ غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا تو وہ خود راضی ہو جائیں گے۔‘‘
ہیدی نے پوچھا :’’میں جب چاہوں واپس آسکتی ہوں؟ کل ہی واپس آ سکتی ہوں؟آپ سچ کہہ رہی ہیں نا؟‘‘
’’ہاں جب تمھارا دل چاہے واپس آجانا، مگر اس وقت جلدی کرو۔ راستہ لمبا ہے۔ ہمیں ٹرین پکڑنی ہے۔ وقت نکل جائے گا۔‘‘
ہیدی کو اب ذرا تسلی ہو گئی اور وہ راضی ہو گئی۔ ڈیٹی نے ہیدی کا ہاتھ پکڑا اور چل پڑی۔ راستے میں پیٹر اپنی بکریوں کے ساتھ نظر آیا۔ ہیدی پر اس کی نظر پڑی تو اس نے پریشان ہو کر پوچھا: ’’کہاں جارہی ہو؟ ‘‘
’’میں فرینکفرٹ جاری ہوں لیکن جلد ہی واپس آ جاؤں گی۔‘‘
پیٹر کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ ڈیٹی کو ڈر ہوا کہ کہیں پیٹر کو دیکھ کر ہیدی پھر ارادہ نہ بدل دے، اس لیے اس نے ہیدی کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور تیز تیز چلنے لگی۔ ڈیٹی نے فرینکفرٹ کی تعریف شروع کی اور یہ بات پھر دہرائی:
’’ اگر تمھیں اچھا نہ لگے تو تم جب چاہو دادا کے پاس چلی آنا۔‘‘
تھوڑی دیر میں وہ گاؤں پہنچ گئیں۔ یہاں پہنچ کر ڈیٹی اور زیادہ تیز چلنے لگی کہ کہیں گاؤں والے ان کو دیکھ کر سوالات شروع نہ کر دیں۔ وہ بھاگم بھاگ اسٹیشن پہنچ گئیں اور فرینکفرٹ جانے والی گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ جیسے ہی ریل چلی، ہیدی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اس نے بھرائی آواز میں کہا:’’ اللہ حافظ! میرے پہاڑ و! اللہ حافظ! میں جلد ہی واپس آؤں گی۔ ‘‘
پھر اس نے اپنی خالہ کی طرف دیکھ کر کہا: ’’ہیں نا آنٹی؟ میں جلد واپس آ جاؤں گی تا؟‘‘
٭٭٭
ہیدی کے جانے کے بعد انکل آلپ کی حالت خراب ہو گئی۔ہیدی کے ساتھ زندگی کی سب خوشیاں چلی گئیں۔ وہ اپنے آپ سے کہتے: ’’معلوم نہیں میں مرنے سے پہلے اپنی پوتی کو دیکھ سکوں گا یا نہیں۔‘‘
کبھی وہ اتفاق سے پہاڑ سے نیچے جاتے تو لوگ ان کے تنے ہوئے چہرے کو دیکھ کر ان کو بد مزاج کہتے۔ مائیں اپنے چھوٹے بچوں کو ان کے نام سے ڈراتیں۔ انکل آلپ کبھی کبھی اپنا پنیر بیچنے اور گوشت وغیرہ خرید نے گاؤں سے گزرتے ہوئے نیچے وادی میں جاتے تھے۔ وہ اپنے کام سے کام رکھتے اور اپنے خیالوں میں مگن چلے جاتے۔ ان کے جانے کے بعد لوگ چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں جمع ہو کر باتیں کرتے۔ ان میں سے زیادہ تر کا خیال تھا کہ انکل آلپ کا چہرہ پہلے سے زیادہ کرخت ہو گیا ہے۔ اب وہ سلام کا جواب بھی نہیں دیتے لیکن سب اس پر متفق تھے کہ ہیدی کو ان سے جدا کرنا زیادتی ہے۔
٭٭٭
فرینکفرٹ میں ڈیٹی ایک گھر میں ہیدی کو لے گئی۔ وہ مسٹر سیسی من کا گھر تھا۔ وہ بہت دولت مند آدمی تھے۔ ان کی اکلوتی بیٹی کلا را بیمار تھی اور تمام دن پہیا کرسی پر بیٹھے بیٹھے وقت گزارتی تھی۔ وہ بہت صابر بچی تھی۔ اس کا دبلا پتلا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ اس کی آنکھیں ہلکی نیلی تھیں۔ اس کی ماں کا کئی سال پہلے انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے باپ مسٹر سیسی من نے اس کی اور گھر کی دیکھ بھال کے لیے ایک عورت مس روٹن میئر کو ملازم رکھ لیا تھا۔ وہ سمجھ دار لیکن بہت سخت عورت تھی اور کبھی ہنستی تو کیا، مسکراتی بھی نہیں تھی۔ اس کے علاوہ گھر میں دو نوکر اور تھے، سباس شیئن اور ٹینٹی۔ یہ دونوں بھی گھر کے کام کرتے تھے۔
جب ڈیٹی اور ہیدی وہاں پہنچیں تو کلارا اپنی پہیا کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کو ان کے آنے کی امید تھی۔ ڈیٹی اور ہیدی دروازے میں کھڑی ہو گئیں اور انتظار کرنے لگیں کہ مس روٹن میئر بلائیں تو اندر جائیں۔ مس روٹن میئر نے ان کو دیکھا تو اپنے ساتھ ڈرائنگ روم میں لے گئیں اور ہیدی کو اوپر سے نیچے تک کئی بار دیکھا۔ ہیدی معمولی سے سوتی کپڑے پہنے ہوئی تھی۔ مس روٹن میئر کوہیدی کچھ زیادہ نہیں جچی۔ انھوں نے پہلا سوال کیا: ’’کیا نام ہے تمھارا؟‘‘
ہیدی نے اپنا نام بتایا تو مس بولیں:’’ یہ تو تمھارا اصلی نام نہیں ہو سکتا۔‘‘
ہیدی کے جواب دینے سے پہلے ڈیٹی بیچ میں بول پڑی: ’’اصل میں ہیدی شرمیلی بچی ہے اور شہر پہلی بار آئی ہے۔ اس کا اصل نام اس کی ماں کے نام پر’’ ایڈل ہیڈ ‘‘ہے۔‘‘
مس روٹن میئر نے سوالات جاری رکھے اور جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ پڑھ لکھ نہیں سکتی تو وہ بڑی پریشان ہوئیں۔ ان کے خیال میں ہیدی جیسی خستہ حال پہاڑی لڑ کی کلارا کی سہیلی بننے کے لیے موزوں نہیں تھی، لیکن ڈیٹی نے ان کی بات پر زیادہ توجہ نہیں دی اور یہ کہہ کر گھر سے چلی گئی: ’’اگر میری ضرورت ہوئی تو میں پھر آ جاؤں گی۔‘‘
اس پورے عرصے میں ہیدی اپنی جگہ بیٹھی رہی۔ ڈیٹی روانہ ہوئی تب بھی وہ نہ ہلی۔ کلارا اپنی کرسی پر بیٹھی ہوئی یہ سب دیکھ اور سن رہی تھی۔ اب اس نے ہیدی سے پوچھا تو اس نے جواب دیا: ’’مجھے ہر شخص ہیدی کہتا ہے اور یہی میرا نام ہے۔ ‘‘
’’بہت خوب میں بھی تمھیں یہی کہوں گی۔ ‘‘کلارا نے کہا۔
کچھ عرصے میں کلارا اور ہیدی آپس میں مانوس ہو گئیں۔ کلارا نے ہیدی کو بتایا: ’’میں تنہا ہوں اور میری زندگی بے مزہ ہے۔ صرف ایک ماسٹر اشر صاحب پڑھانے آتے ہیں لیکن اب تم آگئی ہو اور اُمید ہے کہ تم ایک اچھی دوست ثابت ہوگی۔‘‘
ہیدی کہنا چاہتی تھی کہ وہ جلد ہی پہاڑ پر واپس جانا چاہتی ہے اور اپنے دادا کے علاوہ پیٹر، اس کی ماں اور دادی سے ملنا چاہتی ہے، لیکن اسی وقت مس روٹن میئر کمرے میں آئیںاور بتایا کہ کھانا تیار ہے تو ہیدی کو اپنی بات کہنے کا موقع نہیں ملا۔ کھانے کا کمرہ بہت بڑا تھا اور بہت اچھا لگ رہا تھا۔ہیدی نے اس سے پہلے ایسا کمرہ نہیں دیکھا تھا۔ کھانا بھی بہت عمدہ اور مزے دار تھا۔ ہیدی کو اس موقع پر پیٹر کی دادی یاد آ گئیں۔ ان کو کریم رول بہت پسند تھے۔ سباس شیئن نے ہیدی کے سامنے مچھلی کی پلیٹ رکھی توہیدی نے اس سے کریم رول لانے کو کہا۔ وہ کریم رول لایا توہیدی نے ایک رول اُٹھا کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔
سباس شیئن بڑی مشکل سے اپنی ہنسی روک سکا لیکن مس روٹن میئر نے تو ایک لمبا لیکچر دے ڈالا اور کھانے کے طور طریقے بتانے شروع کر دیے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کھانے کے دوران نوکروں سے زیادہ بات نہیں کرتے۔ مس روٹن میئر نے سمجھاتے ہوئے جو ہیدی کی طرف دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ سورہی ہے۔ دن بھر کی تھکن کے بعد اس کو سخت نیند آرہی تھی۔
سباس شیئن نے اس کو گود میں اُٹھا کر اوپر کی منزل میں لے جا کر اس کے کمرے میں بستر پر لٹا دیا۔ لیٹنے کے بعد ہیدی کی آنکھ کھلی۔ اس نے آرام دہ بستر اور خوب صورت کمرے کو دیکھا۔ صاف ستھری چادر اور نرم نرم تکیے ہیدی کو بہت بھلے معلوم ہوئے۔ جیسے ہی اس نے تکیے پر سر رکھا وہ دوبارہ نیند کی آغوش میں پہنچ گئی۔
صبح اٹھی تو اسے یاد نہیں رہا کہ وہ کہاں ہے۔ اس نے چاروں طرف دیکھا، آنکھیں ملیں، کئی بار آنکھیں ملنے کے بعد اسے یاد آیا کہ وہ اب پہاڑ پر اپنے دادا کے گھر میں نہیں ہے۔ وہ بستر سے اُتری، کپڑے بدلے، ایک کھڑکی کے پاس گئی، پھر دوسری کھڑکی کی طرف اور پردے ہٹا کر باہر دیکھنے کی کوشش کی لیکن پردے بہت بھاری تھے۔ بڑی مشکل سے ذرا سے کھسکے اورہیدی کو دیواروں اور کھڑکیوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ اسے ڈر لگنے لگا۔ جب وہ دادا کے گھر تھی تو اُٹھنے کے بعد سب سے پہلے کھلے آسمان کے نیچے درخت، سبزہ اور پھول دیکھ کر دل خوش کیا کرتی تھی۔ ہیدی کو ایسا معلوم ہوا کہ جیسے اسے کسی نے قید کر دیا ہو۔ وہ سوچنے لگی کہ شہر کے لوگ کیسے ہوں گے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ شہری زندگی کو لوگ کیوں اچھا سمجھتے ہیں۔ اس کا دم گھٹنے لگا۔
اسی وقت کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ گھر کا ملازم ٹینٹی آیا اور اس نے بتایا کہ ناشتا تیار ہے۔ہیدی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ناشتا کیا ہوتا ہے۔ اس کے دادا اس کو ناشتا بھی کرواتے تھے اور کھانا بھی کھلاتے تھے لیکن انھوں نے کبھی یہ الفاظ استعمال نہیں کیے تھے، اس لیے وہ پھر اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ تھوڑی دیر گزری تو مس روٹن میئر کمرے میں آئیں اور ناشتے میں دیر کرنے پر ناراض ہونے لگیں، پھر اس کو نیچے کھانے کے کمرے میں لے گئیں۔
کھانے کے بعد ہیدی اور کلارا اکیلی رہ گئیں۔ہیدی اپنی پچھلی زندگی کی باتیں کرنے لگی۔ وہ کلارا کو بتا رہی تھی کہ دادا کے ساتھ وقت کیسے گزرتا تھا اور پہاڑ پر کیا کیا چیزیں تھیں اور اس کو وہاں کتنا مزہ آتا تھا۔ کلا را بڑی دل چسپی سے یہ باتیں سن رہی تھی۔ اتنے میںاشر صاحب آگئے۔ وہ کلارا کو پڑھانے آتے تھے۔ مس روٹن میئر ان کو علاحدہ لے گئیں اورہیدی کے متعلق بتایا۔ انھوں نے کہا کہ ہیدی نہ لکھ سکتی ہے اور نہ پڑھ سکتی ہے اور ان کا خیال ہے کہ وہ کبھی سیکھ نہیں سکے گی۔ اشر صاحب سمجھ دار آدمی تھے۔ انھوں نے کہا کہ وہ ہیدی کو خود دیکھیں گے اور بات کر کے اندازہ لگائیں گے۔ یہ سن کر مس روٹن میئراشر صاحب کو مطالعے کے کمرے میں لے آئیں اور خود دوسرے کمرے میں چلی گئیں۔
یکا یک زبر دست شور کی آواز آئی۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے زلزلہ آ گیا ہو اور ہر چیز گر رہی ہو۔ مس روٹن میئر گھبرا کر دوڑ یں تو دیکھا کہ کمرے میں فرش پر کتا بیں، کاغذ، روشنائی اور قلم بکھرے پڑے ہیں۔ وہاں ان کو ہیدی نظر نہیں آئی۔اشر صاحب نے مس روٹن کو بتایا کہ ہیدی کمرے میں ادھر سے اُدھر جارہی تھی کہ اس کے ہاتھ میں میز پوش آ گیا۔ اس کو کھینچنے سے میز پر جو بھی چیزیں تھیں، فرش پر گر پڑیں۔ مس روٹن میئر کو بہت غصہ آیا اور وہ ہیدی کی تلاش میں کمرے سے باہر نکلیں۔ ہیدی باہر کھلنے والے دروازے کے پاس کھڑی تھی۔ وہ سڑک کی ہر چیز کو حسرت سے دیکھ رہی تھی۔ پتھروں سے بنی ہوئی سڑک پر دوڑتی ہوئی سواریوں کی آواز درختوں کی سرسراہٹ سے بالکل مختلف تھی۔ مس روٹن میئر نے ہیدی کو ڈانٹا اور وعدہ لیا کہ آئندہ جب اشر صاحب پڑھا رہے ہوں تو وہ خاموش بیٹھے گی اور ادھر ادھر نہیں دوڑے گی۔
اشر صاحب کے جانے کے بعد ٹینٹی نے کمرہ صاف کیا، چیزیں سلیقے سے جمائیں اور کلارا سونے کے لیے چلی گئی۔ وہ دن کو تھوڑی دیر کے لیے سوتی تھی۔ دن کو کھانے کے بعد تھوڑی دیر سونا صحت کے لیے مفید ہے۔ہیدی کو کوئی کام نہیں تھا۔ اس نے سباس شیئن سے کہا کہ وہ بڑی کھڑکی کھول دے۔ سباس نے ہیدی کو ایک اسٹول پر کھڑا کر دیا تا کہ وہ کھڑکی میں سے باہر جھانک سکے لیکن ہیدی کو صرف عمارتیں اور پتھر کی سڑکیں ہی نظر آئیں۔ہیدی نے سباس شیئن سے پوچھا کہ کوئی ایسی جگہ ہے جہاں سے وہ پوری بستی کا منظر دیکھ سکے۔ سباس نے کہا کہ اگر وہ گر جا کے مینار پر چڑھ جائے تو وہاں سے پورے شہر کا نظارہ کر سکتی ہے۔ ہیدی یہ سن کر اسٹول سے کود پڑی اور دوڑ کر زینے سے اُتری تا کہ باہر کے دروازے پر پہنچ سکے لیکن کوئی مینار نظر نہیں آیا۔ وہ آگے چل پڑی، کھلی گلیوں اور سڑکوں سے گزری اور اس کو کئی لوگ ملے، لیکن سب لوگ اتنی جلدی میں تھے کہ اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ کسی سے راستہ پوچھے۔
آخر اس کو ایک لڑکا ملا جو سڑک کے ایک طرف کھڑا ہوا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں دف اور دوسرے ہاتھ میں ایک کچھوا تھا۔ ہیدی اس کے قریب گئی اور اس سے پوچھا: ’’میں چرچ کے مینار تک کیسے پہنچ سکتی ہوں؟‘‘
لڑکے نے کہا: ’’میں تمھیں چرچ تک پہنچادوں گا، لیکن اس کا معاوضہ لوں گا۔‘‘
ہیدی نے تھوڑی دیر تک سوچا اور پھر اس سے کہا: ’’میرے پاس تو کچھ نہیں ہے، لیکن کلارا کے پاس رقم ہے اور وہ خوشی سے یہ رقم دے دے گی۔‘‘
لڑکا راضی ہو گیا اور وہ مختلف سڑکوں سے گزارتا ہوا ہیدی کو چرچ لے گیا۔ وہ چرچ پہنچے تو وہاں دروازے پر ایک بوڑھا آدمی کھڑا تھا۔ اس نے ہی چرچ کا دروازہ کھولا۔ ہیدی نے اس کو بتایا: ’’میں مینار پر چڑھ کر شہر کا نظارہ کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
بوڑھے آدمی نے یہ سن کر سر کھجایا اور سوچنے لگا۔ پھر اس نے مینار کا راستہ بتا دیا۔ہیدی خوشی خوشی مینار پر چڑھ تو گئی لیکن اوپر پہنچ کر اس کو مایوسی ہوئی۔ وہاں سے صرف مکانوں کی چھتوں، چمنیوں اور چھوٹے چھوٹے میناروں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ آخر وہ بد دل ہو کر نیچے آگئی۔
بوڑھے آدمی نے اس کی مایوسی کا اندازہ کر لیا اور اس سے باتیں کرنے لگا۔ پھر اس نے ہیدی سے کہا: ’’آؤ میں تمھیں بلی کے بچے دکھاؤں۔‘‘
ہیدی نے بلی کے بچے دیکھے تو وہ اسے بہت پیارے لگے اور وہ خوش ہو کر ان کی آوازوں کی نقل کرنے لگی۔ جب بوڑھے نے اس سے کہا کہ وہ اسے دو بچے دے سکتا ہے تو ہیدی کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور ایک بالکل سفید بچہ اور ایک کتھئی بچہ پسند کیا اور ان کو اپنی دونوں جیبوں میں ڈال لیا۔ اس نے بوڑھے آدمی سے کہا: ’’ہمارے گھر میں بہت جگہ ہے، اتنی جگہ ہے کہ ہم یہ سارے بلی کے بچے رکھ سکتے ہیں۔‘‘
بوڑھے نے اس سے گھر کا پتا پوچھا اور کہا کہ اگر کوئی اور ان بچوں کو لینے والا نہ ملاتو وہ باقی بچوں کو بھی اس کے گھر پہنچا دے گا۔ اب ہیدی نے بڑے میاں سے اجازت مانگی اور لڑکے سے کہا: ’’مجھے واپس گھر پہنچا دو۔‘‘
وہ جلد ہی گھر پہنچ گئے۔ہیدی نے گھنٹی بجائی۔ سباس شیئن نے دروازہ کھولا۔ وہ بہت پریشان تھا اور ہیدی کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہا تھا۔ اس نے پوچھا: ’’تم کہاں چلی گئی تھیں؟ ‘‘
ہیدی نے کوئی جواب نہیں دیا اور وہ سیدھی کھانے کے کمرے میں پہنچی۔ وہاں سب خاموش تھے۔ مس روٹن میئر بہت غصے میں تھیں۔ انھوں نے کہنا شروع کیا: ’’یہ بڑی غلط بات ہے کہ تم اجازت لیے بغیر گھر سے چلی گئیں۔ تم نے پوچھنا تو کیا بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا، پھر اتنی دور گئیں اور اب اتنی دیر میں لوٹی ہو۔ میں نے ایسی لڑکی کبھی نہیں دیکھی۔ ‘‘
ان باتوں کے جواب میں ایک آواز آئی: ’’میاؤں!‘‘
مس روٹن میئر نے سمجھا کہ یہ آواز ہیدی نے نکالی ہے۔ اب تو غصے سے ان کا پارا چڑھ گیا۔ وہ بولیں: ’’تم میرا مذاق اُڑاتی ہو۔ تمھیں یہ جرات کیسے ہوئی؟‘‘
لیکن ہیدی کے کچھ کہنے سے پہلے بلی کے بچوں نے پھر میاؤں میاؤں کرنا شروع کر دیا۔ مس روٹن میئر کا دماغ اور گرم ہوگیا اور وہ غصے سے کانپنے لگیں۔ وہ کھڑی ہو گئیں۔ اسی وقت بلی کے بچے ہیدی کی جیبوں سے نکل پڑے۔
’’ کیا؟ بلی کے بچے یہاں! ‘‘مس روٹن میئر چلا ئیں اور سباس شیئن کو بلانے کمرے سے باہر چلی گئیں۔ وہ اس سے یہ کہنے گئی تھیں کہ ان بچوں کو باہر پھینک آئے۔ سباس شیئن کمرے کے باہر سے یہ تمام باتیں سن رہا تھا اور اتنی زور سے ہنس رہا تھا کہ اس کوہنسی پر قابو پا کر اندر آنے میں ذرا دیر لگی۔ اس عرصے میں کلارا ان بچوں کو اپنی گود میں لے چکی تھی۔ اس کو یہ بہت پیارے لگے۔ اس نے سباس شیئن سے کہا: ’’ تم ہماری مدد کرو۔ کوئی ایسا کو نا تلاش کرو جہاں ان بچوں کو چھپایا جا سکے اور یہ مس روٹن کو نظر نہ آئیں۔ اگر انھوں نے دیکھ لیا تو یقینا ان بچوں کو پھنکوا دیں گی لیکن ہم ان کو رکھنا چاہتے ہیں، تا کہ جب ہم اکیلے ہوں تو ان سے کھیل سکیں۔‘‘
سباس شیئن ہنسا اور کہنے لگا: ’’میرے پاس ان کے لیے ایک اچھی جگہ ہے۔‘‘
وہ خوش تھا۔ہیدی کی وجہ سے گھر کی رونق بڑھ گئی تھی اور اس کی حرکتوں سے کسی نہ کسی دل چسپی کا سامان ہوتا رہتا تھا۔ اسے مس روٹن میئر کو غصے سے بھڑکتے ہوئے دیکھ کر بڑا مزہ آتا تھا۔
دوسرے دن صبح جیسے ہی سباس شیئن نے اشر صاحب کے لیے دروازہ کھولا تو گھنٹی دوبارہ بجی۔ سباس نے دروازہ کھولا تو وہاں ایک لڑکا کھڑا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں دف تھا اور دوسرے ہاتھ میں کچھوا۔ یہ وہی لڑکا تھا جو ہیدی کو چرچ لے گیا تھا۔ سباس نے پوچھا: ’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘
’’میں کالا را سے ملنا چاہتا ہوں۔ وہ میری قرض دار ہے۔ ‘‘
سباس نے کہا: ’’تم جھوٹ بول رہے ہو۔‘‘
اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ لڑکا کیا کہہ رہا ہے۔ آخر کلارا کسی سے قرض کیسے لے سکتی ہے لیکن لڑکا اپنی بات پر قائم رہا تو سباس شیئن کو خیال آیا کہ ہو نہ ہو اس بات کا تعلق ہیدی کے کل باہر جانے سے ہے، اس لیے اس نے لڑکے کو کلارا کے کمرے میں پہنچا دیا۔ لڑ کا دف بجانے لگا۔ مس روٹن میئر دوسرے کمرے میں تھیں۔ ان کے کان میں دف کی آواز پہنچی تو وہ جلدی سے کلارا کے کمرے میں آئیں اور لڑکے کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگیں۔ انھوں نے لڑکے سے چیخ کر کہا: ’’بند کر ودف کو فورا ًبند کرو۔‘‘
وہ لڑکے کی طرف بڑھیں لیکن فورا ًرک گئیں۔ فرش پر کوئی چیز پڑی تھی۔ انھوں نے دیکھا کہ کوئی عجیب سی کالی چیز ان کے پیروں کے پاس ہے۔ وہ کچھوا تھا۔ وہ ایک دم اُچھلیں، تاکہ کچھوے پر ان کا پیر نہ پڑ جائے اور سباس شیئن کو زور سے آواز دی۔ سباس کمرے کے باہر کھڑا ہنستے ہنستے دہرا ہو رہا تھا۔ جب وہ اندر آیا تو مس روٹن میئر ایک کرسی پر ٹک چکی تھیں۔ انھوں نے سباس کو حکم دیا: ’’فوراً اس لڑکے اور اس جانور کو گھر سے باہر نکال دو۔‘‘
سباس نے لڑکے کو دروازے تک پہنچایا اور اس کی جیب میں چپکے سے کچھ سکے ڈال دیئے، کیوں کہ اس نے بہت اچھی موسیقی سنائی تھی۔
اس عرصے میں کلارا، ہیدی اور اشر صاحب نے پڑھنا پڑھانا جاری رکھا اور مس روٹن میئر بھی کمرے میں بیٹھی دیکھتی رہیں۔ تھوڑی دیر میں سباس اندر آیا اور اس نے کلا را کو ایک چھوٹی ٹوکری دی۔ اس نے کہا کہ یہ ٹوکری ایک شخص اس کے لیے دے گیا ہے۔ کلارا نے ٹوکری کا ڈھکنا اُٹھایا تو بلی کے کئی بچے نکل پڑے اور کمرے میں پھیل کر خوب اچھلنے کودنے لگے۔ کوئی تواشر صاحب کی پتلون کو کاٹنے لگا اور کوئی روٹن میئر کی قمیص کو چاٹنے لگا۔ پورا کمرہ لڑائی کا میدان بنا ہوا تھا، لیکن کلا را خوش تھی۔ وہ مزے لے رہی تھی۔ اب تو مس روٹن میئر کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ بری طرح چیخنے لگیں۔ انھوں نے سباس شیئن اور ٹینٹی دونوں کو آوازیں دینی شروع کیں۔ وہ چاہتی تھیں کہ ان بلی کے بچوں کو فوراً وہاں سے بھگا دیا جائے۔ وہ دونوں ملازم اندر آئے اور بلی کے بچوں کو جمع کر کے ٹوکری میں بھر کر انھیں ایک کوٹھڑی میں چھپا دیا۔ وہیں پہلے والے دونوں بلی کے بچے بھی رکھے ہوئے تھے۔
مس روٹن میئر ہیدی سے کہنے لگیں: ’’میں تم جیسی نالائق لڑکی کے لیے صرف ایک سزا تجویز کر سکتی ہوں۔ تمھیں ایک اندھیری کوٹھڑی میں بند کر دیا جائے، جس میں چو ہے اور چمگادڑیں ہوں۔ صرف اسی طرح تمھاری اصلاح ہو سکتی ہے۔‘‘
کلارا نے یہ سن کر نا خوشی کا اظہار کیا اور بولی: ’’مہربانی کر کے پاپا کے آنے تک انتظار کیجیے۔ وہ بہت جلد آنے والے ہیں۔ وہ آئیں تو میں ان سے ساری بات کہہ دوں گی، پھر وہی صحیح فیصلہ کر سکیں گے۔‘‘
مس روٹن میئر جانتی تھیں کہ وہ کلارا کا کہنا نہیں ٹال سکتے، کیوں کہ اگر کلا را کسی معاملے میں نا خوش ہو تو مسٹر سیسی من بہت ناراض ہوں گے، اس لیے مس روٹن میئر خاموش ہو گئیں، لیکن انھوں نے اتنا ضرور کہا کہ مالک کے آجانے کے بعد میں بھی ان کو حالات بتاؤں گی۔ بے چاری ہیدی اب تک یہ نہیں سمجھ سکی تھی کہ اس کی کیا غلطی ہے۔ وہ بہت رنجیدہ اور پریشان ہو گئی اور جلد ہی گہری نیند سوگئی۔ اسے خواب میں بھی اپنا گھر دکھائی دیا۔
چند دن بعد مسٹر سیسی من آگئے۔ گھر میں داخل ہو کر انھوں نے پہلا کام یہ کیا کہ کلا را کو ڈھونڈا اور اس کے پاس پہنچے۔ انھوں نے کلارا کو گلے لگایا اور بتایا کہ وہ انھیں بہت یاد آتی تھی۔ پھر وہ ہیدی کی طرف مڑے اور پیار سے اس کا گال تھپتھپایا۔ انھوں نے ہیڈی سے پوچھا: ’’کلا را کے ساتھ تمھاری کیسی نبھ رہی ہے؟‘‘
ہیدی نے خوشی سے سر ہلایا اور بولی :’’کلا را بہترین دوست ہے۔‘‘
مسٹر سیسی من مسکرائے اور کہنے لگے: ’’اب تم دونوں سے رات کے کھانے پر ملاقات ہوگی۔‘‘
مسٹرسیسی من جب کھانے کے کمرے میں آئے تو مس روٹن میئر نے ہر چیز کو سلیقے سے جمااور سجا رکھا تھا۔ بیٹھتے ہی مس روٹن میئر نے وقت ضائع کیے بغیر مالک سے وہ سب کہہ ڈالا جوپچھلے چند دن میں گزرا تھا۔ انھوں نے اپنا یہ خیال ظاہر کر دیا کہ ہیدی اچھی بچی نہیں ہے، لیکن مسٹر سیسی من مس روٹن میئر کو اچھی طرح جانتے تھے، اس لیے انھوں نے ان کے بیان پر زیادہ یقین نہیں کیا۔ آخر مس روٹن میئر نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہیدی کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے۔
اب تک مسٹر سیسی من نے مس روٹن میئر کی باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی لیکن یہ آخری بات اہم تھی۔ اس نے مسٹر سیسی من کو سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اگر یہ بات صحیح ہے تو کلارا کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پھر بھی مسٹر سیسی من کو مس روٹن میئر پر بھروسا نہیں تھا، اس لیے انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ خود ہیدی سے باتیں کریں گے۔ انھوں نے جلدی جلدی کھاناختم کیا اور معذرت کر کے اُٹھے اور سیدھے کلارا کے کمرے میں گئے، تاکہ اس سے بھی حالات پوچھیں۔ ہیدی بھی وہیں تھی، اس لیے مسٹر سیسی من نے ایک لمحے میں کچھ سوچا۔ہیدی کے سامنے خود اسی کے بارے میں بات کرنا مشکل تھا، اس لیے مسٹر سیسی من نے ہیدی کو ایک گلاس پانی لانے کے لیے کہا۔
ہیدی نے پوچھا: ’’تازہ پانی؟‘‘
’’ہاں، بالکل تازہ پانی۔‘‘
ہیدی کے کمرے سے نکلنے کے بعد انھوں نے اپنی کرسی کلارا کے اور قریب کر لی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ پھر پیار بھرے لہجے میں انھوں نے کلا را سے کہا: ’’میںچاہتا ہوں کہ تم بلی کے بچوں، کچھوے، موسیقی والے لڑکے اور ہیدی کے عجیب رویے کے بارے میں مجھے سب کچھ بتاؤ۔‘‘
کلارا نے تفصیل سے حالات بتائے۔ جب وہ کہ چکی تو مسٹر سیسی من نے ایک قہقہہ لگایا۔ ان کی ہنسی میں خوشی شامل تھی۔
’’اچھا تم نہیں چاہتیں کہ میں اسے واپس اس کے گھر بھیج دوں۔ تم اس سے پریشان نہیں ہو؟‘‘
’’نہیں، نہیں پاپا! بالکل نہیں، جب سے ہیدی یہاں آئی ہے، بڑے دل چسپ واقعات ہوئے ہیں۔ اس کے یہاں رہنے سے مجھے بڑا مزہ آ رہا ہے۔ وہ اپنی پہاڑی زندگی، اپنے دادا کی با تیں اور دوسرے بہت مزے دار قصے سناتی ہے۔‘‘
اسی وقت ہیدی داخل ہوئی۔ وہ مسٹر سیسی من کے لیے واقعی تازہ پانی لائی تھی، اس کے لیے اسے پانی کے چشمے تک جانا پڑا تھا۔ اس نے بتایا: ’’مجھے راستے میں ایک مہربان آدمی ملا تھا۔ اس نے پوچھا کہ تم کون ہو اور تازہ پانی کیوں لے جارہی ہو؟ ‘‘اس آدمی کی مسکراہٹ بڑی عجیب تھی۔ اس نے گلے میں سونے کی ایک موٹی زنجیر ڈال رکھی تھی اور اس کے ہاتھ میں ایک چھڑی بھی تھی۔ ‘‘
کلارا نے فورا ًجان لیا کہ وہ اس کے ڈاکٹر تھے۔ مسٹر سیسی من نے سوچا کہ ڈاکٹر میرے دوست ہیں اور اس لڑکی سے تازہ پانی منگوانے پر دل میں کیا سوچ رہے ہوں گے۔ شام کو مسٹر سیسی من نے مس روٹن سے کہا: ’’ہیدی واپس نہیں بھیجی جائے گی۔ وہ یہیں رہے گی۔ میں نے اس کو بالکل ٹھیک ٹھاک پایا ہے اور میرے خیال میں وہ کلارا کی ایک اچھی ساتھی ثابت ہوگی۔‘‘
مسٹر سیسی من نے مس روٹن میئر سے یہ بھی کہا کہ ہیدی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ محبت سے پیش آنا چاہیے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کے جانے کے بعد جلد ہی ان کی والدہ بھی آجائیں گی۔
یہ سن کر کہ اس کی پیاری دادی اماں آنے والی ہیں، کلا را بے حد خوش ہوئی۔ کلارا نے ہیدی کو دادی اماں کے متعلق بہت سی باتیں بتائیں اور کہا کہ ان کے آنے کے بعد گھر میں بڑی رونق ہو جائے گی اور بہت مزہ آئے گا۔
دادی اماں کے پہنچنے کے دن کاہیدی بہت بے چینی سے انتظار کر رہی تھی۔ اس نے دادی اماں کو دیکھا تو وہ بہت اچھی لگیں۔ ان کے چہرے ہی سے ہمدردی اور محبت ٹپک رہی تھی۔ ان کے سفید،مگر گھنگریالے بال بڑے تھے اور پیارے لگ رہے تھے۔ دادی اماں کو بھی ہیدی پسند آئی۔
مس روٹن میئر نے دادی سے ہیدی کے متعلق اچھے الفاظ نہیں کہے لیکن دادی اماں کو اس بچی میں کوئی برائی نظر نہیں آئی، بلکہ وہ ان کو اچھی لگی۔
کچھ دن بعد دادی اماں کو خیال ہوا کہ جب دن میں کھانے کے بعد کلا را سو جاتی ہے تو ہیدی اکیلی رہ جاتی ہے اور اس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا۔ ہیدی نے اب تک پڑھنا نہیں سیکھا تھا۔ دادی اماں کو اس کی بڑی فکر تھی۔ ایک دن انھوں نے ہیدی کو نیچے بلایا اور اپنے پاس بٹھا کر باتیں کرنے لگیں۔ انھوں نے ہیدی کے سامنے تصویروں کی کتاب کھولی۔ ہیدی بہت خوش تھی کہ اس دن وہ اکیلی نہیں رہی اور روزانہ کی طرح بور نہیں ہوئی۔ دادی اماں نے اس کو جو تصویریں دکھا ئیں اسے وہ بھی بہت اچھی لگیں۔ اس کا دل چاہا کہ یہ تصویریں دیکھتی ہی رہے۔ تصویریں دیکھتے دیکھتے جب ایک ایسی تصویر سامنے آئی، جس میں چراگاہ، ہری ہری گھاس اور بھیڑیں نظر آئیں اور ایک گڈریا دکھائی دیا تو ہیدی بے اختیار رونے لگی۔ اس کو اپنا گھر بُری طرح یاد آنے لگا، جس سے اس کو بہت پیار تھا۔ اس کو پیٹر اور اس کی دادی بھی یاد آنے لگیں جن کو وہ بہت دور چھوڑ آئی تھی۔
دادی اماں نے اس کے آنسو پونچھے اور اس کو سمجھایا۔ خود ان کی سمجھ میں یہ بات آگئی کہ ہیدی کو اب تک پڑھنا لکھنا کیوں نہیں آیا۔ ہیدی نے انھیں بتایا کہ پیٹر نے اس سے کہا تھا کہ پڑھنا لکھنا بہت مشکل ہے، اس لیے وہ کبھی پڑھنا لکھنا نہیں سیکھ سکے گی۔ دادی اماں نے اس کو سمجھایا کہ یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے، بلکہ بڑا دل چسپ مشغلہ ہے۔ اس کو کوشش کرنی چاہیے۔ دادی اماں نے ہیدی سے پوچھا کہ کیا وہ چراگاہ اور بھیڑوں والی تصویروں کی کہانی پڑھنا چاہتی ہے؟ ہیدی نے جواب دیا کہ یقینا اسے ایسی کہانی پڑھنے میں بہت مزہ آئے گا۔
اس روز ہیدی نے تھوڑی دیر سوچا اور اس نتیجے پر پہنچی کہ اگر وہ دو پہر کا وقت کہانیاں پڑھنے میں صرف کرے تو اس کی تنہائی بھی دور ہو جائے گی اور وہ دور دراز جگہوں کے قصے بھی پڑھ سکے گی۔
چند دن بعد ایک صبح اشر صاحب نے دادی اماں سے ملنے کی خواہش کی۔ ان کو اجازت دے دی گئی۔ وہ دادی اماں کے کمرے میں پہنچے اور سلام کیا تو دادی اماں نے اپنی عادت کے مطابق مسکرا کر ان کے سلام کا جواب دیا۔اشر صاحب بیٹھنے کے بعد بولے:
’’مجھے آپ کو ایک خوش خبری سنانی ہے، جو بات ناممکن معلوم ہوتی تھی وہ ممکن ہو گئی ہے۔ہیدی حروف پہچاننے لگی ہے اور اس نے پڑھنا سکھ لیا ہے۔ خود مجھے بھی زیادہ امید نہیں تھی لیکن اس نے بہت جلد سیکھ لیا۔‘‘
دادی اماں بہت خوش ہو ئیں۔ انھوں نے اشر صاحب کی محنت اور دل چسپی کی داددی اور اطمینان کا اظہار کیا۔ رات کو دادی اماں نے ہیدی کو ایک تصویری کتاب تحفے میں دی۔ہیدی انتہائی خوش ہوئی اور اس نے چراگاہ والی کہانی کلا را کو پڑھ کر سنائی۔ پڑھنا آجانے کے بعد ہیدی کی زندگی میں تبدیلی آگئی تھی۔ اب وہ اپنے آپ کو تنہا نہیں سمجھتی تھی۔ جب بھی باتیں کرنے کے لیے کوئی ساتھی نہ ہوتا، کتابیں اس کی ساتھی بن جاتیں۔ اب وہ کتابیں پڑھتی تھی اور نئی نئی معلومات اور نئے نئے خیالات اس کو خوش رکھتے۔
سیسی من صاحب کے گھر کی نچلی منزل میں مطالعے کا کمرہ کتابوں سے بھرا ہوا تھا۔بعض کتابیں تو بہت بڑی تھیں۔ہیدی کے لیے ان کا سمجھنا مشکل تھا، لیکن ایسی کتابوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی جو ہیدی پڑھتی تھی تو اس کی سمجھ میں آجاتی تھیں اور وہ انھیں خوب مزے لے لے کر پڑھتی تھی۔
ہر روز دو پہر کے وقت دادی اماںہیدی سے پوچھتی تھیں کہ کیا اس نے کتاب پوری پڑھ لی ہے؟ اگرہیدی جواب میں ہاں کہتی تو دادی اماں اس کو نیچے لائبریری میں لے جاتیں اور وہاں سے ایک اور کتاب چن کر دے دیتیں۔ شام کے وقت ہیدی، کلارا اور دادی اماں ساتھ مل کر مطالعہ کرتے۔ بعض دفعہ ہیدی پوری کتاب اونچی آواز میں پڑھ کر سناتی۔ کلارا بھی بہت خوش تھی کہ اس کی سہیلی نے آخر پڑھنا سیکھ لیا اور وہ دونوں مل کر کتابوں کی دنیا کی سیر کر سکتی ہیں۔
بہت سی کتابیں پڑھنے کے باوجو د دادی اماں کی دی ہوئی کتاب ہیدی کی سب سے پسندیدہ کتاب تھی، جسے اس نے اپنے کمرے میں ایک خاص جگہ رکھ رکھا تھا اور وہ اس کو بار بار پڑھتی تھی۔ وہ سوچتی تھی کہ میں جب پہاڑی پر واپس جاؤں گی تو یہ کتاب پیٹر کی دادی کو پڑھ کر سناؤں گی۔
اب اشر صاحب کے لیے پڑھانا خاصا آسان ہو گیا تھا۔ہیدی بھی اچھا خاصا پڑھ رہی تھی اور اب اشر صاحب کو دونوں سہیلیوں کو پڑھانے میں وقت اور محنت کم لگتی تھی۔ ہیدی نئے الفاظ جلد ہی سیکھ لیتی تھی اور خود سوال کر کے سبق آگے بڑھاتی تھی۔ کبھی کبھی اشر صاحب، ہیدی سے کتاب کا کوئی لمبا سا حصہ بلند آواز سے پڑھنے کو کہتے اور وہ یہ دیکھ کر خوش ہوتے کہ ہیدی بڑی خوبی سے الفاظ کو صحیح طریقے سے ادا کر رہی ہے۔
یہ سب کچھ تھا اور کتابیں پڑھنا سیکھ لینے کی وجہ سے ہیدی کی دل چسپی بڑھ گئی تھی اور اس کا دماغ مصروف رہتا تھا لیکن اب بھی دادا کی یاد نے اس کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ اس کو پہاڑوں پر اپنا گھر اب بھی یاد آتا تھا۔ جب بھی وہ تصویروں والی کتاب دیکھتی، اسے چراگاہ، سبزہ اور بھیڑوں کی تصویریں نظر آئیں۔ہیدی کا دل اس دن اپنے گھر واپس جانے کو بے چین ہو جاتا۔
کچھ عرصے بعد دادی اماں نے اعلان کیا کہ وہ واپس جانے والی ہیں۔ ان کی روانگی کے دن کلارا اور ہید ی دونوں بہت اداس تھیں۔ ان کو فکر تھی کہ دادی اماں کے جانے کے بعد حالات اچھے نہیں رہیں گے۔
آخر دادی اماں چلی گئیں۔ ان کے جانے کے بعد ہیدی گھر کی یاد میں بیماری رہنے لگی۔ رات کو وہ سونے سے پہلے اپنے پہاڑی گھر کو یاد کر کے رونے لگتی۔ کبھی کبھی اس کو خیال آتا کہ انکل آلپ یا پیٹر کی داد ی بیمار ہوگئی ہیں اور وہ اس کے واپس پہنچنے سے پہلے ختم ہو جائیں گے۔ہیدی کی اُداسی اتنی بڑھ گئی کہ وہ دبلی ہوگئی اور اس کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ وہ کھانا بھی کم کھانے لگی تھی ۔کبھی تو وہ بالکل ہی نہیں کھاتی تھی۔ اس بات سے گھر کا ملازم سباس شیئن بھی بہت پریشان تھا۔
اب ایک نئی بات ہوئی۔ ایک دن صبح جب سباس شیئن سوکر اٹھا تو اس نے باہر کا دروازو کھلا ہوا پایا، لیکن گھر کی کوئی چیز غائب نہیں تھی، اس لیے یہ خیال نہیں ہوا کہ کوئی چور آیا تھا۔ کئی دن تک ایسا ہی ہوتا رہا۔ ہر روز صبح دروازہ کھلا ہوا ملتا۔ گھر کے سب نوکر پریشان تھے۔
پھر سباس شیئن نے فیصلہ کیا کہ وہ نچلی منزل کے بڑے کمرے میں رات گزارے گا تا کہ وہ دیکھ سکے کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ اس نے گارڈ جون کو بھی ساتھ رکھا اور گھر میں سے سیسی من صاحب کے ہتھیار بھی لے لیے۔ دونوں آدمی بڑے کمرے میں کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ آدھی رات کو ایک آواز آئی۔ آواز بہت ہلکی تھی۔ سباس شیئن کو ذرا نیند آ گئی تھی۔
جون نے اس کو بلایا اور کہا :’’سباس شیئن ذ را اٹھو، دیکھیں کہ کیا قصہ ہے۔‘‘
جون کمرے کے کھلے ہوئے دروازے سے باہر نکلا۔ اس کے ہاتھ میں موم بتی تھی۔ یکا یک باہر کے دروازے سے ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا۔ باہر کا دروازہ کسی نے کھول دیا تھا۔ ہوا کے تیز جھونکے سے موم بتی بجھ گئی۔ وہ جلدی سے واپس کمرے کے اندر دوڑا۔ اندھیرے میں وہ سباس شیئن سے ٹکرا گیا۔ اس نے دروازہ بند کر لیا اور بڑی مشکل سے موم بتی دوبارہ جلائی۔ سباس شیئن بالکل نہیں سمجھ سکا کہ کیا ہوا ہے۔ وہ جون کو دیکھ کر پریشان ہو گیا، کیوں کہ جون خوف کے مارے پیلا پڑ گیا تھا اور بری طرح کانپ رہا تھا۔ اس نے گھبرا کر جون سے پوچھا: ’’تم نے کیا دیکھا؟‘‘
جون نے بتایا: ’’باہر کے دروازے میں کسی کی پرچھائیں نظر آئی۔ ایک سفیدسی چیز تھی۔ کوئی انسان تھا یا۔۔۔ اور وہ لمحوں میں نظروں سے غائب ہو گیا۔‘‘
وہ دونوں اپنی کرسیوں میں دھنس گئے اور صبح کا انتظار کرنے لگے۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ صبح ہوتے ہی وہ مس روٹن میئر کے پاس پہنچے اور ان کو ساری داستان سنائی۔ مس روٹن میئر نے فورا ًسیسی من صاحب کو خط لکھا اور ان سے درخواست کہ وہ فوراًگھر تشریف لے آئیں۔ سیسی من صاحب نے روٹن میئر کی بات کا بالکل یقین نہیں کیا اور کوئی جواب نہیں دیا، لیکن باہر کا دروازہ روزانہ صبح کھلا ہوا ملتا۔ آخر مس روٹن میئر نے کلا را کو پوری بات بتائی۔ کلارا اتنی ڈری کہ بیماری سی ہو گئی۔
اب مس روٹن نے سیسی من صاحب کو لکھا کہ یہ سلسلہ جاری ہے اور کلارا کی صحت پر خراب اثر پڑ رہا ہے۔ اب تو سیسی من صاحب کو یقین کرنا پڑا اور وہ گھر آگئے۔ انھوں نے رات کو خود اپنے ہاتھ سے باہر کا دروازہ بند کیا، لیکن صبح وہ کھلا ہوا ملا۔ چناں چہ ان کو سوچنا پڑا اور انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس واقعے کی اصلیت کا سراغ لگا کر رہیں گے۔
شام کو انھوں نے اپنے دوست ڈاکٹر کلاسن کو بلوایا۔ ڈاکٹر کلاسن، کلارا کا علاج بھی کرتے تھے۔ رات کو دونوں دوست آرام کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ جاگتے رہنے کے لیے انھوں نے کافی کا سہارا لیا۔ آدھی رات کے بعد انھوں نے ایک آواز سنی۔ کوئی دروازے کی کنڈی کھول رہا تھا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر اُٹھ کر دھیرے دھیرے باہر کے دروازے کی طرف بڑھنے لگے۔ قریب پہنچ کر سیسی من صاحب نے آواز لگائی:’’ کون ہے؟‘‘
ایک سفید سایہ نظر آیا جو آواز سن کر پلٹا اور ایک ہلکی سی چیخ ماری۔ یہ ہیدی تھی۔ ننگے پیر اور سفید گون پہنے ہوئے۔ دونوں آدمیوں پر اس کی نظر پڑی تو وہ کانپنے لگی۔
ڈاکٹر کلاسن نے پوچھا: ’’کیوں ہیدی! تم یہاں کیا کر رہی ہو؟‘‘
ہیدی نے ہکلا کر جواب دیا: ’’پتا نہیں میں کیا کر رہی ہوں۔‘‘
ڈاکٹر کلاسن، ہیدی کا ہاتھ پکڑ کر اس کو دروازے کے پاس سے اندر کی طرف لے آئے۔ انھوں نے ہیدی سے بڑی نرمی اور شفقت سے باتیں شروع کیں۔ جلد ہی وہ سمجھ گئے کہ ہیدی سوتے میں چلنے کی عادی ہے اور ہیدی ہی وہ بھوت ہے، جس سے ہر شخص اس قدر ڈر رہا تھا۔ چند سوالات کرنے کے بعد ڈاکٹر کلاسن اس نتیجے پر پہنچے کہ ہیدی گھر کی یاد میں بُری طرح پریشان ہے۔ اس کی صحت پر برا اثر پڑ رہا ہے۔ نیند میں چلنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ خوش نہیں ہے اور وہ یہاں سے جانا اور اپنے گھر پہنچنا چاہتی ہے۔ ڈاکٹر کلاسن نے سیسی من صاحب کو یہ بات بتائی اور ان کو مشورہ دیا کہ ہیدی کو اپنے دادا کے پاس جانے کی اجازت دے دینی چاہیے۔ انھوں نے کہا :
’’بچی کو غور سے دیکھیے غم سے پیلی پڑ گئی ہے اور تھوڑے ہی دن میں اس کا وزن کئی پونڈ کم ہو گیا ہے۔ کچھ جانے اور سمجھے بغیر وہ سوتے ہی میں ہر رات کو دروازہ کھولتی ہے۔اس کو کل ہی گھر واپس بھجوادینا چاہیے۔ اس کے لیے یہی میر انسخہ ہے۔‘‘
سیسی من صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ انھیں معلوم تھا کہ کلا را، ہیدی کو کتنا چاہتی ہے اور اس کی جدائی کا کلارا کو کتنا غم ہوگا لیکن وہ ڈاکٹر کلاسن کی بات کو بھی اچھی طرح سمجھ رہے تھے۔ وہ ہیدی کو بیمارڈالنا اور پریشان دیکھنا بھی نہیں چاہتے تھے۔ انھوں نے چند لمحے غور کیا اور پھر ڈاکٹر کلاسن کی طرف مڑ کر بولے:
’’مجھے معلوم ہے کہ ہیدی کے چلے جانے سے کلا را کتنی پریشان ہوگی لیکن آپ کا کہنا بھی صحیح ہے۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ ہیدی کو کل صبح اس کے گھر روانہ کر دیا جائے۔‘‘
سیسی من صاحب ارادے کے پکے تھے۔ دوسرے دن صبح ہی انھوں نے ہیدی کی روانگی کا انتظام شروع کرا دیا۔ انھوں نے مس روٹن میئر سے کہا کہ وہ ہیدی کا سامان تیار کریں اور اس کے لیے ایک صندوق منگوا کر اس میں کپڑے پیک کر دیں۔ سیسی من صاحب نے اپنی پیاری بیٹی کلارا کو بھی یہ بات بتائی۔ کلارا بہت پریشان ہوئی اور اس نے اپنے باپ کا ارادہ بدلنے کی کوشش کی لیکن سیسی من صاحب نے کلارا کو جب پوری تفصیل سے ہیدی کی کیفیت بتائی اور سمجھایا تو کلارا مان گئی۔ سیسی من صاحب نے کلا را سے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ سال اس کو ہیدی سے ملانے اس کے گھر لے چلیں گے۔ کلارا کو اس بات سے ذرا سکون حاصل ہوا۔ اس نے اپنے باپ سے اجازت چاہی کہ کیا وہ کچھ چیزیںہیدی کو تحفے کے طور پر دے سکتی ہے؟ سیسی من صاحب نے خوشی سے اجازت دے دی اور یہ کہہ کر کمرے میں چلے گئے کہ تم خوب اطمینان سے اپنی سہیلی کے لیے تحفوں کا انتخاب کرلو۔
ہید ی کو جب یہ خبر ملی کہ اس کو گھر بھیجا جا رہا ہے تو وہ اتنی خوش ہوئی، اتنی خوش ہوئی کہ اس سے کھانا نہیں کھایا گیا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہی ہوں لیکن جب سباس شیئن اس کا صندوق لے کر آیا تو اسے یقین آ گیا۔
کلارا نے اپنی سہیلی کے لیے کئی چیزیں جمع کی تھیں۔ ایک کمبل، کئی جوڑے کپڑے، رومال اور سینے پرونے کی چیزیں۔ پھر حیران کرنے والی ایک بات یہ کہ پیٹر کی دادی کے لیے نرم نرم سینڈ وچوں سے بھری ہوئی ایک پوری ٹوکری بھی تھی۔ہیدی، کلارا سے چمٹ گئی اور دونوں سہیلیوں نے ایک دوسرے سے پھر ملنے کا وعدہ کر کے گرم جوشی سے الواد عی بوسہ کیا۔
ہیدی کے دادا کے گھر تک کا سفر لمبا تھا، اس لیے سباس شیئن کو ہیدی کے ساتھ بھیجا گیا۔ انھوں نے ڈور فلی جانے والی ریل گاڑی پکڑی۔ وہ دوسرے دن ڈور فلی پہنچے۔ہیدی نے پورے راستے دادی کی ٹوکری کو سنبھال کر اپنی گود میں رکھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ دادی کہیں بیمار نہ ہوں، اللہ نہ کرے مرہی نہ گئی ہوں۔ جیسے ہی ریل گاڑی رکی اس کے جذبات بے قابو ہو گئے۔
گاڑی سے اُتر کر سباس شیئن نے ایک تانگا کیا اور تانگے والے سے مفصل بات کی تو سباس شیئن کو اطمینان ہو گیا کہ وہ ہیدی کو حفاظت اور آرام سے اس کے گھر پہنچا دے گا تو تانگے میں ہیدی کو بٹھا دیا۔ سباس شیئن نے صندوق تانگے میں رکھوا دیا اور بڑا سا ایک پیکٹ اور ایک خط ہیدی کے ہاتھ میں دیا اور کہا: ’’یہ پیکٹ سیسی من صاحب کی طرف سے تمھارے لیے ہے اور خط تمھارے دادا انکل آلپ کے لیے۔ اللہ حافظ!‘‘
تانگے والا اصل میں بیکری والا تھا۔ وہ ہیدی کے خاندان کو خوب جانتا تھا۔ اس نے ہیدی کو بھی ایک ہی نظر میں پہچان لیا تھا، وہ ہیدی سے راستے بھر باتیں کرتا رہا۔ ڈور فلی پہنچ کر بیکری والے نے ہیدی کو گود میں لے کر تانگے سے اُتارا۔ہیدی نے اس کا شکریہ ادا کیا اور کہا: ’’یہ صندوق تم سے انکل لے جائیں گے۔‘‘
تانگے سے اتر کرہیدی نے جوش میں بے تحاشا بھاگنا شروع کر دیا۔ اس کو راستے میں کئی جگہ رکنا پڑا۔ اس کا سانس پھول رہا تھا، کیوں کہ ٹوکری خاصی بھاری تھی اور چڑھائی بھی تھی لیکن اس کے دماغ میں دادی سمائی ہوئی تھیں۔
جب وہ پیٹر کے گھر کے قریب پہنچی تو اس سے دروازہ نہیں کھولا گیا، کیوں کہ ہاتھ کانپ رہے تھے۔ کسی طرح وہ اندر داخل ہوئی۔ اس کا سانس اتنا پھول رہا تھا کہ وہ ایک لفظ بھی بولنے کے قابل نہیں تھی۔ کمرے کے ایک کونے سے آواز آئی:’’ اس طرح توہیدی آیا کرتی تھی۔ ہائے، میں اس سے مل بھی سکوں گی کہ نہیں۔‘‘
ہیدی چلائی: ’’یہ میں ہی ہوں آپ کی ہیدی۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنے آپ کو دادی کی گود میں گرا دیا اور ان سے چمٹ گئی۔ خوشی کے مارے اس سے بولا نہیں جارہا تھا۔ دادی بھی حیرت اور خوشی کی وجہ سے بڑی مشکل سے بول رہی تھیں۔ انھوں نے ہیدی کا سر تھپتھپایا اور ان کی نابینا آنکھوں سے بڑے بڑے آنسو نکل کر ہیدی کے ہاتھ پر گر پڑے۔ انھوں نے کہا: ’’میری بچی! کیا واقعی یہ تم ہو؟ ‘‘
ہیدی نے جواب دیا: ’’جی دادی! واقعی میں ہیدی ہی ہوں۔ اب آپ پریشان نہ ہوں، میں اب ہمیشہ کے لیے آگئی ہوں، اب میں کبھی نہیں جاؤں گی۔‘‘
ہیدی نے دادی کو وہ ٹوکری دی اور کہا: ’’ اب آپ کو کچھ دن تک سخت روٹی نہیں کھانی پڑے گی۔‘‘
دادی مسکرا ئیں۔ ان کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ہیدی واپس آگئی ہے۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد ہیدی اپنے گھر کی طرف چل پڑی۔ ہوا ٹھنڈی تھی اور ہر چیز اچھی لگ رہی تھی، پہلے سے بھی زیادہ خوب صورت اور تازہ۔ پہاڑ کی چوٹیوں پر برف جمی ہوئی تھی۔ چراگاہ اور وادی کی زمین سرخ اور سنہری ہو رہی تھی۔ بادل بھی چھائے ہوئے تھے۔ تازہ خوش بودار ہوا نے ہیدی کی تھکن اُتار دی تھی۔
وہ دوڑتی دوڑتی دادا کے گھر کے قریب پہنچ گئی۔ اسے پہلے فر کے درخت نظر آئے، پھر چھت، اس کے بعد پورا گھر اور آخر میں خود دادا۔ وہ اپنی عادت کے مطابق گھر کے باہر بینچ پر بیٹھے ہوئے پائپ پی رہے تھے۔ ہیدی لپک کر ان سے چمٹ گئی۔ جانے کتنے عرصے بعد انکل آلپ کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیرنے لگے۔ انھوں نے ہیدی کو اپنے گھٹنے پر بٹھا لیا اور اس پر نظریں جما دیں۔ آخر وہ بولے: ’’اچھا! تو تم واپس آگئیں۔ تم کوئی خاص موٹی تازی تو نظر نہیں آ رہی ہو۔ کیا انھوں نے خود تمھیں واپس بھیجا ہے؟‘‘
ہیدی نے دادا کو شہر میں اپنے گزرے ہوئے وقت کا سارا حال تفصیل سے سنایا اور بتایا کہ وہ لوگ بڑے اچھے، بہت خیال رکھنے اور محبت کرنے والے ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا: ’’میں آپ کو یاد کر کے بیمار ہو گئی تھی، اس لیے ڈاکٹر کے مشورے پر مجھے واپس بھیجا گیا ہے۔‘‘
پورا قصہ سنا کر اس نے سیسی من صاحب کا خط انکل کو دیا اور پیکٹ بھی دکھایا۔ انکل نے خط پڑھا اور ایک لفظ کہے بغیر اس کو اپنی جیب میں رکھ لیا۔ انھوں نے ہیدی کو بتایا: ’’پیکٹ میں رقم ہے جو تمھارے لیے ہے اور اسے تم اپنی مرضی کے مطابق جس طرح چاہو خرچ کر سکتی ہو۔‘‘
تھوڑی دیر میں انکل نے ہیدی کو دودھ کا ایک بڑا مگ، کچھ روٹی اور پنیر دیا، پھر خود بھی کھایا۔ بہت دن کے بعد ہیدی کو بھوک لگی تھی اور کھانے میں مزہ آیا تھا۔ یکا یک ہیدی کے کانوں میں سیٹی کی آواز آئی۔ وہ باہر دوڑی۔ اس نے دیکھا کہ پیٹرآرہا ہے۔ اس کے چاروں طرف بھیڑیں تھیں۔ پیٹر نے ہیدی کو دیکھا اور اسے حیرت سے تکنے لگا۔ اس نے کہا: ’’مجھے یقین نہیں آرہا ہے کہ میں تمھیں یہاں پھر دیکھ رہا ہوں۔‘‘
دونوں تھوڑی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ آخر ہیدی پیٹر سے رخصت ہو کر گھر میں آئی تو اس نے دیکھا کہ انکل نے اس کے لیے ایک بہت اچھا بستر تیار کر دیا ہے اور اس پر صاف ستھری چادر بچھا دی ہے۔ جب ہیدی سونے کے لیے لیٹی تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے وہ کبھی یہاں سے گئی ہی نہیں تھی۔
صبح کا وقت تھا۔ہیدی گھر کے باہر انکل کے انتظار میں ہوا سے جھومتے درختوں کے نیچے کھڑی تھی۔ دونوں کو پہاڑ سے نیچے جانا تھا۔ انکل کو وہاں سے ہیدی کا صندوق لانا تھا اورہیدی پیٹر کی دادی کے پاس جارہی تھی۔ موسم بڑا صاف شفاف تھا۔ ہیدی یہاں کی ہر چیز کو اپنے میں جذب کر لینا چاہتی تھی۔ پہاڑ کے اتار چڑھاؤ، فر کے درخت، سبزہ اور صاف تازہ پہاڑی ہوا سے اس کی روح تازہ ہو رہی تھی۔ جیسے ہی انکل گھر سے باہر آئے دونوں نے نیچے کی طرف چلنا شروع کر دیا۔ پیٹر کی دادی، ہیدی کو دوبارہ دیکھ کر بہت خوش ہوئیں انھوں نے کہا: ’’مجھے تمھارے لائے ہوئے سینڈ وچ بہت پسند آئے۔‘‘
یہ سن کرہیدی نے سوچا کہ کاش! سینڈ وچ اتنے ہوتے کہ دادی کو کوئی اور چیز کھانے کی کبھی ضرورت ہی نہ پیش آتی۔
یکا یک اس کو اس رقم کا خیال آیا جو سیسی من صاحب نے اس کو دی تھی۔ اس کے چہرے پر اطمینان کی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے کہا: ’’میں پیٹر کو رقم دوں گی تا کہ وہ روزانہ گائوں کی بیکری سے تازہ سینڈ وچ آپ کے لیے لے آیا کرے۔ ‘‘
دادی نے یہ بات نہیں مانی ان کو یہ بات پسند نہیں آئی کہ ہیدی اپنی رقم ان پر خرچ کرے لیکن انھوں نے دیکھا کہ ہیدی بہت پر جوش ہے تو وہ خاموش ہو گئیں۔
دادی کا دل بہلانے کے لیے ہیدی الماری سے دُعاؤں کی ایک کتاب نکال لائی۔ اب اس کو پڑھنا تو آہی گیا تھا۔ اس نے دادی کو ان کی پسندیدہ دُعائیں پڑھ کر سنائیں۔ بڑی بی کو دعائیں سن کر اتنا لطف آیا کہ وہ اس کا اظہار لفظوں میں نہیں کرسکیں۔
ہیدی دن کا باقی حصہ بھی دادی کے پاس ہی رہی اور ان سے مزے مزے کی باتیں کرتی رہی۔ شام کو انکل آلپ آگئے اور انھوں نے کنڈی کھٹکھٹا کر ہیدی کو بلایا کہ اب چلنے کا وقت ہو گیا ہے۔
واپسی میں ہیدی راستے بھر دادا سے باتیں کرتی رہی۔ اس نے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ سیسی من صاحب کی دی ہوئی رقم کو میں دادی پر خرچ کروں۔‘‘
انکل مسکرائے۔ ان کوخوشی ہوئی کہ ان کی پوتی اتنے بڑے دل والی اور ہمدرد ہے۔ رات کو کھانے پر دادا پوتی میں خوب باتیں ہوئیں۔ہیدی نے شہر میں جو وقت گزارا تھا اس کا ذکر مزے لے لے کر کیا اور بتایا کہ سیسی من صاحب اور ان کے گھر والے بہت مہربان اور ہمدرد ہیں۔ ان باتوں کو انکل آلپ نے بڑی دل چسپی سے سنا اور بہت خوش ہوئے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ بہت عرصے کے بعد انکل کو کسی انسان میں اچھائی نظر آئی اور یہ اچھائی انھوں نے ہیدی کی آنکھوں سے دیکھی۔ اب انھیں معلوم ہوا کہ ہیدی ان کے لیے ایک نعمت ہے۔ انھوں نے اب تک جو تنہا اور تلخ زندگی گزاری، وہ بے مزہ تھی۔ اس رات کو انکل دیر تک خاموشی سے سوچتے رہے، پھر انھوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ تنہا زندگی نہیں گزاریں گے اور دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہیں گے۔ ان سے اچھے تعلقات رکھیں گے، ان کو اپنی زندگی میں شریک کریں گے۔ ان کے دکھ درد میں اور ان کی خوشیوں میں شامل ہوں گے۔لوگوں کے کام آؤ، ان کی باتیں سنو تو خوشی ملتی ہے، اسی لیے انسان کو سماجی حیوان کہا گیا ہے۔
دوسرے دن صبح اُٹھے تو انکل بالکل بدلے ہوئے انسان تھے۔ انھوں نے ہیدی سے کہا: ’’تم کلارا کے دیے ہوئے کپڑے پہنو۔ ‘‘
خود انھوں نے اپنا پرانا نیلا سوٹ نکالا۔ اس کے پیتل کے بٹنوں کو پالش کر کے چمکایا اور ہیٹ نکال کر پہنا۔ پھر ہیدی کو ساتھ لے کر وہ پہاڑی سے نیچے اُترے اور ڈور فلی گاؤں کے گر جاپہنچے۔ گاؤں کے لوگ پہلے ہی گر جا پہنچ چکے تھے۔ دونوں چپ چاپ پچھلی صف میں بیٹھ گئے۔ لوگوں نے بڑے تعجب سے انکل کو گھورنا شروع کر دیا۔ وہ آپس میں کانا پھوسی کر کے بڑے میاں کی گرجا میں آمد پر اپنے تاثرات اور خیالات کا اظہار کر رہے تھے اور خوشی میں ایک دوسرے کو ٹہوکے دے رہے تھے۔ جب وعظ ختم ہوا تو انکل، ہیدی کا ہاتھ پکڑ کر پادری کے پاس لے گئے۔ پادری صاحب اخلاق سے پیش آئے۔ انھوں نے انکل کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا۔ انکل نے پادری صاحب سے اپنے پچھلے رویے کی معافی مانگی کہ اس وقت انھوں نے پادری صاحب کے بلانے پر ہیدی کو اسکول نہیں بھیجا تھا۔ انکل اور پادری میں دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ آخر دونوں نے گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ انکل سردیوں کے دنوں میں گاؤں میں رہنے پر راضی ہو گئے۔ اس سے یہ فائدہ ہوا کہ ہیدی سردی کے موسم میں بھی اسکول جاسکتی تھی۔
گائوں کے لوگ باہر کھڑے دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ جیسے ہی انکل آلپ باہر نکلے بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ انکل کے آنے پر خوشی کا اظہار کیا اور ان کی صحت کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔ اصل میں وہ انکل کو بدلا ہوا دیکھ کر بہت خوش تھے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ انکل نے پہاڑی سے نیچے گاؤں میں آکر ان کے درمیان رہنے کا ارادہ کر لیا ہے تو وہ اور بھی خوش ہوئے اور انھوں نے انکل کو مبارک بادہی نہیں دی بلکہ ہر قسم کی مدد کا وعدہ بھی کیا۔
آخر جب انکل اورہیدی گھر کے لیے واپس چلنے لگے تو کچھ لوگ تھوڑی دور تک ان کے ساتھ آئے اور انھوں نے انکل کو دعوت بھی دی کہ وہ کسی دن ان کے گھر آئیں۔ انکل کے دل پر بھی ان سب باتوں کا بڑا اثر ہوا۔ لوگوں کی طرف سے ان کی مایوسی اور بدظنی بڑی حد تک دور ہوگئی۔ ان کی آنکھوں میں امید اور خوشی کی چمک پیدا ہوئی۔ ہیدی یہ سب دیکھ اور سن رہی تھی۔ وہ انکل سے کہنے لگی: ’’ دادا ابا! آج آپ بہت بدلے ہوئے لگ رہے ہیں۔ میں نے آپ کو پہلے کبھی اتنا پر سکون اور مطمئن نہیں دیکھا۔‘‘
انکل آلپ مسکرائے۔ پھر انھوں نے کہا: ’’آج نہ جانے کتنے عرصے بعد میرا دل خوش ہے۔ میں اتنا خوش ہوں کہ میں نے لوگوں کے ساتھ کڑواہٹ اور روکھے پن سے پیش آنے کے طریقے کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں اپنے اس رویے کی وجہ سے تنہا ہو گیا تھا، میرا نہ کوئی دوست تھا اور نہ پڑوسی۔ ہیدی! تمھاری وجہ سے میں بدل گیا ہوں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے دوبارہ پیدا ہوا ہوں۔ اب میں ایک نئی زندگی شروع کر رہا ہوں۔ ‘‘
باتیں کرتے کرتے وہ پیٹر کے گھر پہنچ گئے۔ انکل فورا ًگھر میں داخل ہو گئے۔ انھوں نے پیٹر کی وادی کو دیکھ کر بڑے تپاک سے سلام کیا اور کہنے لگے: ’’خزاں کا موسم آنے سے پہلے مجھے اس گھر کی کچھ اور مرمت کرنی چاہیے تا کہ خزاں کی ہوائیں آپ کو پریشان نہ کریں۔ میں بہت جلد آ کر یہ کام کروں گا۔‘‘
پیٹر کی دادی کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا کہ واقعی یہ باتیں انکل آلپ کے منھ سے نکل رہی ہیں۔ وہ بولیں: ’’انکل آلپ! یہ میں کیا سن رہی ہوں؟ اب تک آپ جو کام کر چکے ہیں، میں اس کا شکر یہ ادا کرتی ہوں۔ ‘‘یہ کہ کر انھوں نے اپنا ہاتھ مصافحے کے لیے بڑھایا۔
انکل نے بھی فوراً اپنا ہاتھ بڑھایا اور دونوں نے پورے خلوص اور گرم جوشی سے ہاتھ لائے۔ دوایسی ہستیاں جن کوہیدی دل سے چاہتی تھی، مگر دونوں میں ذرا دوری تھی، آج دوستی کے خوب صورت رشتے میں بندھ گئیں۔
٭٭٭
ستمبر کا مہینہ ہے۔ صبح کی دھوپ نکلی ہوئی ہے۔ ڈاکٹر کلاسن جنھوں نے اپنے دوست سیسی من کو مشورہ دیا تھا کہ ہیدی کو اس کے گھر بھیج دیا جائے، اس وقت سیسی من صاحب کے گھر کی طرف جارہے تھے۔ موسم اچھا تھا اور ہر شخص پر اس کا خوش گوار اثر تھا، لیکن بے چارے ڈاکٹر کلاسن گردن جھکائے جا رہے تھے۔ ان کے بال تیزی سے سفید ہونے لگے تھے۔ غم نے ان کے چہرے کو کملا دیا تھا۔ ان کی اکلوتی لڑکی کا حال ہی میں انتقال ہو گیا تھا۔ کچھ عرصے پہلے ان کی بیوی بھی فوت ہو چکی تھی۔ بیوی کے بعد بیٹی ہی ان کی زندگی تھی۔ بیٹی کی موت نے ان سے ساری خوشیاں چھین لی تھیں اور ان کا دل کسی کام میں نہیں لگتا تھا۔
ڈاکٹر کلاسن سیسی من صاحب کے گھر پہنچے تو ملازم نے دروازہ کھولا اور ان کو ڈرائنگ روم میں پہنچایا، جہاں سیسی من صاحب نے ان کا استقبال کیا اور دونوں نے مصافحہ کیا۔ سیسی من صاحب کو ڈاکٹر کلاسن کے چہرے سے ان کے غم کا اندازہ ہو رہا تھا، لیکن انھوں نے دوسری باتیں شروع کر دیں، تا کہ ڈاکٹر کلاسن تھوڑی دیر کے لیے تو اپنا غم بھلا سکیں۔
ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد سیسی من صاحب بولے: ’’بھائی کلاسن! میں نے کلارا کو بتایا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کی رائے میں ابھی تم ہیدی کے پاس جانے کے لیے اتنا لمبا سفر کرنے کے قابل نہیں ہو۔ کلارا یہ سن کر بہت رنجیدہ ہوئی اور خاموش ہو گئی۔ کیا اب بھی آپ کی رائے یہی ہے؟ ویسے کلارا کی صحت اب خاصی اچھی ہے۔‘‘
ڈاکٹر کلاسن کو سیسی من صاحب کا یہ سوال اچھا نہیں لگا، لیکن انھوں نے اپنے غصے کو دبایا اور پھر سمجھایا کہ کلارا ابھی پہاڑی علاقے میں چلنے پھرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے، اس لیے اسے وہاں بھیجنا کسی طرح مناسب نہیں ہے۔
سیسی من صاحب کو بھی اندازہ تھا کہ کلاسن کی بات صحیح ہے، لیکن وہ اپنی بیٹی کی خواہش سے مجبور تھے اور اس کے سامنے ڈاکٹر کی بات دہرانے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔ وہ اسی سوچ بچار میں تھے کہ کیا کریں کہ یکا یک ان کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ کلا را کی جگہ خود کلاسن کوہیدی کے پاس بھیجا جائے۔ یہ بات خود کلاسن کے لیے بھی اچھی رہے گی۔ پہاڑ کی صاف ستھری آب و ہوا، مناظر کی تبدیلی، ہرے بھرے درخت، پھول، پودے ان کی طبیعت پر اچھا اثر کریں گے۔ ماحول بدلے گا تو بیٹی کی یاد بھی کم ہو جائے گی اور وہ اپنا غم بھولنے لگیں گے۔ پھر وہ ہیدی سے ملیں گے تو واپس آکرکلارا کو اس کی باتیں بتائیں گے، جس سے کلارا کی تسلی ہو جائے گی۔
سیسی من صاحب نے اپنا خیال ڈاکٹر کلاسن پر ظاہر کیا تو وہ گہری سوچ میں گم ہو گئے۔ اب وہ اپنے متعلق بھی سوچ رہے تھے اور کلارا کے بارے میں بھی۔ آخر انھوں نے گردن اُٹھائی اور اپنی رضامندی ظاہر کر دی۔
جب سیسی من صاحب نے کلارا کو بتایا کہ ابھی اس کو سفر کی اجازت نہیں دی جاسکتی تو اسے بہت افسوس ہوا، لیکن اس کو خود بھی اپنی صحت کا کچھ اندازہ تھا۔ پھر جب اس کو یہ بتایا گیا کہ اس کے بجائے ڈاکٹر کلاسن جائیں گے اور ہیدی سے ملیں گے تو اس کے آنسو تھم گئے۔ اس نے اپنے آپ پر قابو پایا اور کہنے لگی: ’’ڈاکٹر صاحب! مہربانی کر کے آپ ضرور جائیے اور واپس آکر مجھے ہیدی کی بہت ساری باتیں بتائیے۔ وہ کیسی ہے؟ اس کا گھر اور گاؤں کیسا ہے؟ وہ خوش ہے؟ اسے کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ آپ یہ باتیں بتائیں گے تو میں سمجھوں گی کہ میں خود ہیدی سے مل آئی ہوں۔‘‘
تینوں نے پروگرام طے کر لیا۔ کلارا نے ہیدی کو تحفے بھیجنے کی تیاری شروع کر دی۔ وہ ہیدی کو بہت کچھ بھیجنا چاہتی تھی، لیکن زیادہ چیزیں ڈاکٹر کلاسن کے لیے لے جانا مشکل تھا، اس لیے اس نے خوب سوچ سمجھ کر ایک تو عمدہ ساکوٹ تیار کیا، جس میں سر پر اوڑھنے کا ٹوپ بھی لگا ہوا تھا تا کہ ہیدی سردی کے موسم میں اس کو پہن اوڑھ کر پیٹر کے گھر جا سکے اور دادی سے مل سکے۔ ایک گرم شال بھی اس نے منگوائی، جو دادی کے کام کی تھی۔ہیدی کے لیے اس نے کیک کا ایک بڑا سا ڈبا بھی منگوایا۔ پیٹر اور دادی کے لیے کھانے کی عمدہ عمدہ چیزیں منگوائیں۔ انکل آلپ کے لیے اعلاقسم کا پائپ کا تمبا کو منگوایا۔ ان کے علاوہ ہیدی کے لیے اس نے بہت سی چھوٹی چھوٹی چیزوں کا ایک پیکٹ بنایا تا کہ جب ہیدی اس کو کھولے تو اسے خوشی کے ساتھ حیرت بھی ہو۔ تمام تحفوں کو پیک کر کے کلارا، ڈاکٹر کلاسن کا انتظار کرنے لگی کہ وہ آکر یہ سامان لے جائیں۔
ڈور فلی خط لکھ دیا گیا تھا کہ ڈاکٹر کلاسن آرہے ہیں۔ اس اطلاع سے ہیدی بہت خوش تھی اور بے چینی سے کلاسن کا انتظار کر رہی تھی۔
ڈاکٹر کلاسن، کلارا کے تحفے اور اپنا سامان لے کر ڈور فلی پہنچ گئے۔ جب وہ انکل آلپ کے گھر جانے کے لیے پہاڑ پر چڑھ رہے تھے تو وہاں کی تازگی بخش ہوا ان کے گالوں کو چھو رہی تھی۔ دور سے فر کے درخت تیز ہو اسے جھولتے ہوئے بہت اچھے لگ رہے تھے۔ شہر کی بوجھل اور آلودہ ہوا کے مقابلے میں گاؤں اور پہاڑ کی صاف اور ہلکی ہوا انسان میں تازگی اور توانائی پیدا کرتی ہے۔ شہر میں انسانوں کی کثرت اور کارخانوں کے دھوئیں سے لوگ بیمار اور کم زور ہونے لگتے ہیں۔ ڈاکٹر کلاسن کو ذرا سی دیر ہی میں فرحت کا احساس ہونے لگا۔ انھوں نے اوپر کی طرف نظریں دوڑائیں تو ان کو ایک سایہ سا نظر آیا جو دوڑتا ہوا ان کی طرف آ رہا تھا۔ یہ ہیدی تھی جو ہاتھ ہلاتی اور زور سے آواز دیتی ہوئی چلی آرہی تھی۔ قریب پہنچتے ہی ہیدی، ڈاکٹر کلاسن سے لپٹ گئی۔ ڈاکٹر کلاسن بھی ہیدی کے اس تپاک سے خوش ہوئے۔ دونوں نے ایک دوسرے کی خیریت پوچھی۔ہیدی نے کلارا کی صحت اور حالات کے متعلق سوالات کی بوچھار کر دی۔ وہ سیسی من صاحب اور کلارا کی دادی یہاں تک کہ مس روٹن میئر کے بارے میں بھی سوال پر سوال کرنے لگی۔ کافی دور چلنے کی وجہ سے بے چارے کلاسن کا ابھی تک سانس پھولا ہوا تھا، اس لیے وہ ٹھیک سے بول نہیں پارہے تھے۔
آخر وہ دونوں انکل کے گھر پہنچے۔ہیدی کو اندازہ ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر کلاسن کی آنکھوں میں کسی نہ کسی غم کا سایہ ہے۔ وہ سمجھنے کی کوشش کر رہی تھی کہ کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب رنجیدہ ہیں اور ان کے چہرے پر خوشی کی چمک نہیں ہے۔ ہیدی نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا کچھ بھی ہو ڈاکٹر کلاسن جب تک پہاڑ پر رہیں گے، وہ انھیں خوش رکھنے کی کوشش کرے گی۔
گھر پہنچتے ہی ہیدی نے اپنے دادا سے ڈاکٹر کلاسن کا تعارف کرایا۔ دونوں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملائے۔ دونوں میں بہت جلد دوستی ہوگئی۔ بات یہ تھی کہ ہیدی پہلے ہی ان دونوں سے ایک دوسرے کے متعلق اتنا کچھ کہہ چکی تھی کہ ان کو آپس میں ذرا بھی اجنبیت محسوس نہیں ہوئی۔
ڈاکٹر کلاسن نے ہیدی کو کلارا کے بھیجے ہوئے تحفے دیے۔ اس کو گرم کوٹ بہت پسند آیا۔ پیٹر کی دادی کے لیے بھیجی ہوئی شال دیکھ کر بھی ہیدی کو بہت خوشی ہوئی۔ اس نے سوچا کہ کل ہی یہ شال دینے دادی کے پاس جاؤں گی۔ دوسرے دن صبح ہی ہیدی، ڈاکٹر صاحب کو لے کر اوپر بکریوں کی چراگاہوں کی طرف روانہ ہوئی۔ راستے بھر وہ بکریوں، ان کی عجیب عادتوں، پہاڑ کی چوٹیوں اور پھول پودوں کے بارے میں باتیں کرتی رہی۔ ہیدی اپنی پسندیدہ جگہ پہنچی۔ وہاں سے نیچے بہت دور تک وادی نظر آتی تھی اور اوپر کی جانب برف سے چمکتی ہوئی پہاڑ کی چوٹیاں دکھائی دیتی تھیں۔ وہ اس جگہ رُک کر بیٹھ گئے۔
ہیدی بولی: ’’کیا آپ کو بھی یہ جگہ اتنی ہی پیاری اور حسین لگتی ہے جتنی مجھے؟‘‘
ڈاکٹر کلاسن نے جواب دیا: ’’ہاں بالکل، یہ علاقہ بہت خوب صورت ہے، لیکن یہ بتائو کہ کیا کوئی غم زدہ انسان بھی ایسی جگہ اپنا غم بھول سکتا ہے؟‘‘
ہیدی نے فوراً کہا: ’’یہاں کوئی غم گین نہیں ہے۔ یہاں اتنا قدرتی حسن اور پیار ہے، جو غموں کو بھلا دیتا ہے۔ ہمارے ساتھ کچھ عرصے رہیں گے تو آپ خود دیکھ لیں گے۔‘‘
ڈاکٹر کلاسن نے ہیدی کی بات پر غور کیا۔ یہ ان کے دل کو لگی۔ انھوں نے سوچا کہ یہاں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ بیٹی کے مرنے کے بعد شہر میں زندگی میرے لیے بے مزہ ہوگئی ہے۔ وہاں ہر چیز سے اس کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ کیوں نہ میں انکل آلپ کی مہمان نوازی سے فائدہ اُٹھا کر زندگی کے کچھ دن یہاں سکون سے گزاروں۔
پورے مہینے موسم بہت خوش گوار رہا۔ ڈاکٹر کلاسن روزانہ صبح انکل آلپ کے ساتھ لمبی سیر کونکل جاتے۔ وہ دونوں بہت اونچائی پر چڑھ جاتے، جہاں صنوبر کے اونچے اونچے درخت طوفانی ہوا کا مقابلہ کرتے تھے۔ ان سے اوپر چٹانوں پر شاہینوں کے گھونسلے تھے۔ انکل آلپ مزے مزے سے باتیں کرتے، پہاڑوں کے متعلق نئی نئی باتیں بتاتے اور اپنی زندگی کی کہانی بھی سناتے۔ ڈاکٹر صاحب کا وقت بڑا اچھا گزر رہا تھا۔ دونوں میں خوب گہری دوستی ہو گئی۔ صحت بخش ہوا، خالص غذا اور بے لوث دوستی نے ڈاکٹر صاحب کے دل سے غم کا بوجھ ہلکا کر دیا۔ ان کی آنکھوں میں رونق آگئی اور ان کے چہرے پر صحت کی سرخی چھلکنے لگی۔
ستمبر کا مہینہ ختم ہو رہا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی چھٹی بھی پوری ہونے کو آئی۔ ان کے شہر واپس جانے کا وقت آگیا۔ ان کو یہاں سے رخصت ہونا تھا۔ ان کے چہرے سے اداسی ٹپک رہی تھی۔ پہاڑ پر ان کے دن بڑے سکون سے گزرے تھے۔ انکل آلپ کے لیے بھی ڈاکٹر کلاسن کی جدائی تکلیف دہ تھی۔ ہیدی بھی ڈاکٹر صاحب سے بہت مانوس ہوگئی تھی۔ اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ یہ پُر لطف وقت اتنی جلد گزر جائے گا۔ وہ پریشان اور خاموش ہوگئی، لیکن ڈاکٹر کلاسن نے دونوں سے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی پھر آئیں گے۔ انھوں نے دونوں کی مہمان نوازی کا شکر یہ ادا کیا اور رخصت ہو گئے۔
ہیدی سرو کے ایک درخت کے نیچے کھڑی ہو کر دیکھتی رہی اور ہاتھ ہلا ہلا کر خدا حافظ کہتی رہی، یہاں تک کہ ڈاکٹر کلاسن نظروں سے اوجھل ہونے لگے۔ ڈاکٹر صاحب نے آخری بار مڑ کر ہیدی کی طرف دیکھا تو وہ سوچنے لگے کہ ایسی سادہ ،پُر سکون اور آلودگی سے پاک فضا واقعی پریشان اور بیمار لوگوں کے لیے ٹانک سے کم نہیں ہوتی۔ یہاں مجھے دوبارہ زندگی ملی ہے۔
ڈاکٹر کلاسن نے فرینکفرٹ شہر جا کر سیسی من صاحب اور خاص کر کلارا کوہیدی کے حالات بتائے اور پہاڑی زندگی کے قصے بھی مزے لے لے کر بیان کیے۔ کلارا کا دل بہت خوش ہوا۔ اس کی صحت پر بھی اچھا اثر پڑا۔ اس نے خود ڈاکٹر کلاسن کی اچھی صحت دیکھی اور خود بھی ہیدی کی پہاڑی زندگی کا اندازہ کر لیا۔ اب اس کا دل ہیدی کو دیکھنے کے لیے اور زیادہ بے چین ہونے لگا۔ ہیدی اور کلارا کے درمیان خط بھی آنے جانے لگے۔
پیٹر اورہیدی کی معصومانہ دوستی بھی بڑھتی جارہی تھی۔ اب وہ دونوں روزانہ چرا گاہ جاتے اور خوب دل بھر کر موسم اور خوش گوار پہاڑی فضا کا لطف اٹھاتے۔ ایک دن پیٹر ایک خط لایا۔ یہ خط ڈا کیے نے ہیدی کو پہنچانے کے لیے دیا تھا۔ ہیدی نے جلدی جلدی خدا کھولا۔ کلارا نے لکھا تھا:
’’پیاری ہیدی! سلام اور پیار! آخر کار فیصلہ ہو گیا۔ ہم جون کے آخر میں تمھارے پاس آرہے ہیں، دادی اماں اور میں۔ اس فیصلے میں ڈاکٹر کلاسن کے کہنے سننے کا بڑا اثر ہے۔ ہر بار جب وہ ہمارے ہاں آتے ہیں، کہتے ہیں کہ تم نے اب تک سامان کیوں نہیں باندھا؟ جلدی کرو، جلدی کرو۔ ہیدی! میں بتا نہیں سکتی کہ تمھیں دیکھنے اور تم سے ملنے کے خیال ہی سے میں کتنی خوش ہوں۔ میں گھڑی کی چوتھائی میں تمھیں، دادا آلپ کو، پیٹر اور بکریوں کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ ہم ڈور فلی گاؤں میں ٹھیریں گے اور جب موسم خوش گوار ہوگا تو اوپر پہاڑی پر آئیں گے اور تمھارے پاس پہنچیں گے۔ دادی اماں بھی حد سے زیادہ خوش ہیں، بس مجھ سے انتظار برداشت نہیں ہو رہا۔‘‘
تمھاری پیاری دوست
کلارا
اس سال سردی خوب پڑی اور برف بھی اتنی پڑی کہ بے چارے پیٹر کے گھر کے دروازوں تک پر برف جم گئی۔ رات بھر برف باری ہوتی رہتی اور صبح کے وقت برف سے گھر کا دروازہ بند ہو جاتا۔ پیٹر کو کھڑکی میں سے کود کر باہر نکلنا پڑتا۔ اس سردی میں انکل آلپ کو یاد آیا کہ انھوں نے پادری صاحب سے ہیدی کو اسکول بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ جیسے ہی موسم کی پہلی برف باری ہوئی انھوں نے ہیدی اور بکریوں کو ساتھ لیا اور پہاڑی سے نیچے گاؤں میں اتر گئے تا کہ سردی کے موسم میں وہیں رہیں۔
ڈورفلی میں گر جا کے قریب گلی میں ایک بڑا، مگر ٹوٹا پھوٹا سا گھر تھا۔ انکل آلپ کی اس پر نظر پڑی تو انھوں نے سوچا کہ تھوڑی سی مرمت کے بعد یہ خاصا آرام دہ مکان بن سکتا ہے۔ انھوں نے یہ گھر کرائے پر لے لیا اور اس کی مرمت کرنے لگے۔ انھوں نے درمیان میں لکڑی کی دیوار بنائی اور فرش پر گھاس جمائی تاکہ سردیوں میں بکریوں کے لیے آرام سے رہنے کی جگہ ہو جائے۔ انھوں نے کمرے کے اندر فرنیچر کی بھی مرمت کی۔ صنوبر کی لکڑی کا دروازہ درست کیا اور دیواروں پر رنگ و روغن کیا، فرش صاف اور ہموار کیا۔ ہیدی کو یہ اپنے پہاڑی گھر سے زیادہ پسند آیا۔ یہ اس سے کافی بڑا بھی تھا۔ ہیدی نے پیٹر کو بلایا اور دونوں نے مل کر پورے گھر کو گھوم پھر کر دیکھا اور بہت تعریف کی۔
گاؤں میں اسکول شروع ہو گیا تھا۔ہیدی نے بھی جانا شروع کر دیا۔ جلد ہی وہ گاؤں کی عادی ہو گئی اور روزانہ اسکول جانے لگی۔ پیٹر بھی اسکول میں داخل تھا، مگر وہ ناغے بہت کرتا تھا۔ہیدی نے اس بات کو محسوس کیا اور یہ بھی غور کیا کہ پیٹر کو ٹھیک سے پڑھنا نہیں آتا۔ ایک دن شام کو ہیدی نے پیٹر کو علاحدہ بلا کر بات کی۔ اس وقت وہ پیٹر کے گھر میں تھے۔ ہیدی نے اس سے کہا: ’’میں نے ایک بات سوچی ہے۔‘‘
’’کیا؟‘‘
’’ تمھیں پڑھنا سکھ لینا چاہیے۔‘‘
’’مجھے آتا ہے۔‘‘
’’میرا مطلب ہے، باقاعدہ اور اچھی طرح پڑھنا سیکھ لو تا کہ خوب کتابیں پڑھ سکو۔‘‘
’’مشکل ہے۔‘‘
’’پہلے میں بھی یہی سمجھتی تھی مگر اب میرا خیال بدل گیا ہے۔ انسان جس کام میں دل لگائے وہ سیکھ سکتا ہے۔ مجھے کلارا کی دادی نے یہ بات سمجھائی تھی اور میں نے اس سے فائدہ اُٹھایا۔ ‘‘
پیٹر چپ چاپ سنتا رہا۔ اس کوہیدی کے لہجے پر تھوڑا سا تعجب ہوا، کیوں کہ ہیدی کی باتوں میں اعتماد تھا۔ہیدی نے مدد کرنے کی بھی پیش کش کی۔ اس نے کہا: ’’تمھاری دادی بیمار ہیں۔ جب ان کو معلوم ہوگا کہ تم خوب پڑھنے لکھنے لگے ہو تو وہ بہت خوش ہوں گی۔ پیٹر ہچر مچر کر رہا تھا، لیکن جب ہیدی کا اصرار بڑھا تو پیٹر نے سوچا کہ اگر میں ہیدی کی بات نہیں مانوں گا تو اس کو رنج ہوگا، پھر دادی کی بھی تو یہی خواہش ہے، اس لیے پیٹر نے ہیدی کی بات مان لی۔
ہیدی خوش ہو کر ہنسنے لگی۔ وہ اسی وقت پیٹر کو کھینچ کر میز پر لے گئی۔ میز پر ایک کتاب رکھی ہوئی تھی۔ یہ ’’اے بی سی ڈی‘‘کی ایک خوب صورت کتاب تھی، جو کلارا نے بھیجی تھی۔ ہیدی کو یہ کتاب بہت پسند تھی، اس لیے اس نے سوچا کہ پیٹر کو بھی یہی کتاب پڑھانی چاہیے۔ وہ دونوں اس میز پر بیٹھ گئے اور ہیدی نے مزے لے لے کر کتاب کا ایک ایک حرف پیٹر کو یاد کرانا شروع کیا۔ اس طرح واقعی پیٹر کا دل لگنے لگا۔ہیدی نے بھی خوب اس کا دل بڑھایا۔ جب استاد دل لگا کر پڑھائے تو شاگر د کو سبق آسان معلوم ہونے لگتا ہے۔
اب یہ ان دونوں کا روزانہ کا معمول ہو گیا۔ وہ روزانہ شام کو بیٹھتے اور ہیدی بڑی محبت سے اس کو پڑھاتی۔ پیٹر بھی بڑی پابندی سے پڑھنے لگا اور اس نے اچھا خاصا پڑھنا لکھنا سیکھ لیا۔ برف باری ہو رہی تھی۔ہیدی کے لیے پیٹر کے گھر میں داخل ہونا مشکل ہو گیا تھا۔ وہ دادی کے پاس نہیں پہنچ پا رہی تھی۔ اس کو فکر تھی کہ دادی کو کتاب پڑھ کر کون سنا رہا ہوگا لیکن پیٹر برف باری کے باوجود روزانہ ہیدی کے گھر آتا تھا۔
ایک دن شام کے وقت پیٹر گھر واپس آیا اور اس نے اپنی ماں کے سامنے اعلان کیا: ’’اب میں کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘
ماں نے پوچھا ’’کیا؟ تم کیا کر سکتے ہو؟‘‘
جواب دینے کے بجائے پیٹر الماری کی طرف گیا اور نظموں کی کتاب اُٹھا لایا۔ کتاب کھول کر اس نے بڑی اچھی آواز میں ایک نظم سنانی شروع کی۔ ماں اور دادی دونوں بڑی توجہ سے سننے لگیں۔ خوشی اور حیرت کے مارے ان کے منھ سے ایک لفظ بھی نہیں نکل سکا۔ ان دونوں کا خیال تھا کہ وہ کبھی اپنی زندگی میں پیٹر کو اچھی طرح کتاب پڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکیں گی۔
دوسرے دن پیٹر اسکول گیا۔ جب ماسٹر صاحب نے اس سے کتاب پڑھنے کو کہا تو وہ فرفر پڑھنے لگا۔ ماسٹر صاحب کو بھی تعجب ہوا، مگر وہ خوش بھی ہوئے۔ تھوڑی دیر میں ماسٹر صاحب کو معلوم ہو گیا کہ یہ ہیدی کا کارنامہ ہے۔ اسکول کی چھٹی ہوتے ہی ماسٹر صاحب پادری کے پاس پہنچے اور ان کو یہ خوش خبری سنائی۔ وہ دونوں کچھ دیر تک ہیدی کے بارے میں باتیں کرتے رہے۔ پادری صاحب نے انکل آلپ کی بھی تعریف کی۔ گاؤں میں انکل کی مقبولیت بڑھتی جارہی تھی۔
سردیاں ختم ہو گئیں۔ بہار دوبارہ اپنا رنگ جمانے لگی۔ برف پڑنی بند ہو گئی تھی۔ گرمی سے برف پگھل کر چشمے کی صورت میں نیچے وادی میں پہنچ رہی تھی۔ پہاڑی علاقہ دوبارہ سرسبز و شاداب ہو گیا تھا۔ دھوپ بھی جان دار ہو گئی تھی۔ ہری بھری گھاس میں پھولوں کی کلیاں کھلتی ہوئی نظر آ رہی تھیں۔ آنکھوں کو یہ منظر بھلا لگتا تھا۔ انکل آلپ پہاڑ پر اپنے گھر واپس آگئے۔ بلندی سے نیچے کی طرف چلتی ہوئی ہوا کی سائیں سائیں ہیدی کے کانوں میں رس گھولنے لگیں۔ ہوا تیز سے تیز ہوتی جارہی تھی۔ ہر چیز سے بہار کی واپسی کا احساس ہورہا تھا۔
ایک دن صبح ہیدی گھر سے نکلی، تا کہ نکلتے سورج کی کرنوں سے جسم کو توانائی پہنچائے اور کچھ پھول گل دان کے لیے توڑے۔ یکا یک اس کی نظروں نے دور کچھ دیکھا۔وہ چلائی: ’’دادا! دادا! جلدی آئیے۔‘‘
بڑے میاں لپک کر آئے اور ہیدی کی انگلی کی سیدھ میں نظریں دوڑا ئیں۔ انھوں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا جلوس آرہا ہے۔ دو آدمی ایک ڈولی میں چھوٹی سی لڑکی کو بٹھائے ہوئے آرہے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک آدمی پہیاگاڑی کو کھینچ کر لا رہا ہے، جس میں کوئی بیٹھا ہوا نہیں ہے۔ ایک اور آدمی سامان سے لدا پھندا آ رہا ہے۔ وہ شاید قالین اور کمبل اُٹھائے ہوئے تھا۔
ہیدی پھر چلائی:’’ وہ آ رہے ہیں، وہ آ رہے ہیں۔‘‘
اس کا خوشی کے مارے بُرا حال تھا۔ وہ بار بار اُچھل کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں یہ چھوٹا سا قافلہ قریب پہنچ گیا۔ ہیدی اور انکل بھی تیزی سے آگے بڑھ کر ان تک پہنچ گئے۔ کہاروں نے ڈولی زمین پر رکھ دی۔ اس میں کلارا بیٹھی تھی۔ دونوں لڑکیاں لپک کر گلے ملیں۔ اب کلارا کی دادی بھی پہنچ گئیں۔ گھوڑا گاڑی سے اُتر کر انھوں نے بڑی شفقت سے ہیدی کو گلے لگایا۔ اس کے بعد وہ انکل آلپ کی طرف مڑیں، جو ان سب کو مسکرا مسکرا کر خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے کو سلام کیا اور خیر و عافیت دریافت کی۔
کلارا کی دادی انکل سے بولیں: ’’کیا شان دار جگہ ہے! ایک بار تو یہاں آ کر بادشاہ کی بھی آنکھیں کھل جائیں۔ ہیدی کو صحت مند دیکھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ پہاڑ کی صحت بخش ہوا اور کھلی فضا نے اس پر بڑا اچھا اثر کیا ہے۔‘‘
انکل مسکرائے۔ پھر وہ پہیا کرسی کو آگے لائے اور اس پر قالین کا ٹکڑا بچھایا۔ انھوں نے کلارا سے کہا: ’’پورے راستے میں تمھاری پہیا کرسی کو دھکیل کرلے چلوں گا۔‘‘
کلارا نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور وہ سب انکل کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ کلا را کوشش کے باوجود اپنی نظریں ہرے بھرے درختوں، پودوں اور پھولوں سے نہیں ہٹا سکی۔ اب تک اس کی زندگی عالی شان مکانوں میں گزری تھی، مگر اب وہ کھلی فضا اور صاف ہوا میں سانس لے رہی تھی۔ شہروں کے بند گھر، آلودہ اور بھاری ہوا انسان کے اندر سستی اور مردہ دلی پیدا کردیتی ہے۔
کلارا نے کہا: ’’پیاری ہیدی! کاش میں چل پھر سکتی اور تمھارے ساتھ وہ سب چیزیں دیکھ سکتی جن کا تم ذکر کرتی رہی ہو۔‘‘
ہیدی نے انکل کے ہاتھ سے کلارا کی کرسی اپنے ہاتھ میں لے لی اور اپنی پوری طاقت سے اس کو دھکا دیتی ہوئی سرو کے درختوں کے قریب لے آئی۔ وہاں رک کر دونوں باتیں کرنے لگیں اور اونچے اونچے درختوں کی تعریف کرنے لگیں۔ اس کے بعد ہیدی نے پہیا کرسی کو آگے بڑھایا اور بکریوں کے سائبان کے قریب لے آئی اور کلا را کودکھانے لگی۔ کلارا بار بار پہاڑ کی کھلی فضا اور اس کے اثر سے طبیعت میں پیدا ہونے والی جولانی کا ذکر کر رہی تھی۔
ہیدی کہنے لگی: ’’ واقعی یہ منظر نہایت حسین ہے لیکن یہ بھی، اس چر اگاہ کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے جہاں بکریاں چرانے کے لیے لے جائی جاتی ہیں۔ چراگاہ اور زیادہ اوپر ہے۔ کاش !میں تمھیں وہاں صرف ایک بار لے جاسکتی اور تم پھولوں کی بہار دیکھ سکتیں۔ وہاں کچھ حصوں میں گھاس نیلے رنگ کی ہے اور کچھ حصوں میں سنہرے رنگ کی۔‘‘
اُودے اُودے نیلے نیلے پیرہن
کلارا بے قرار ہو کر انکل سے کہنے لگی: ’’دادا جان! آپ کے خیال میں کیا میں وہاں جا سکوں گی؟ ‘‘
انکل کے جواب دینے سے پہلے ہیدی بول اُٹھی: ’’میرے دادا بہت تجربے کار ہیں، وہ ضرور کوئی نہ کوئی ترکیب سوچ لیں گے۔‘‘
انکل آلپ مسکرانے لگے۔ کوئی جواب دینے کے بجائے وہ گھر کے اندر سے چند کرسیاں نکال لائے اور ایک میز کے چاروں طرف لگا دیں۔ پھر انھوں نے پنیر کے سنہرے سنہرے ٹکڑوں کی ایک ڈش لا کر رکھی اور کھانے کی کئی چیزیں میز پر سجا دیں۔ کھانا شروع ہو گیا۔ کلارا کی دادی کو کھانا کھانے کی یہ جگہ بہت پسند آئی۔ گویا یہ ایک دیہاتی ڈائننگ روم تھا، جہاں سے دور دور تک دیکھا جا سکتا تھا اور نیچے وادی کا منظر بھی نظر آ رہا تھا۔ کھانے کے دوران میں دادی نے کئی بار اپنی پوتی کو تعجب سے دیکھا۔ کلارا نے تیسری بار پنیر اور روٹی کے سلائس لیے تھے۔
وہ کہنے لگی: ’’یہ کھانا اتنا مزے دار ہے کہ مس روٹن میئر ا سے تیار کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتیں۔‘‘
انکل آلپ نے خوش ہو کر کہا: ’’بات یہ ہے کہ پہاڑی ہوا نے تمھاری بھوک کو بڑھا دیا ہے، اس لیے تمھیں کھانا بہت اچھا لگ رہا ہے۔ بھوک ہو تو دال بھی قور ما لگتی ہے۔‘‘
کھانے کے دوران میں انکل آلپ اور دادی باتیں کرتے رہے۔ دونوں ایک دوسرے کے خیالات سے واقف ہوتے رہے۔ شام ہونے لگی اور سورج اپنا منھ پہاڑوں کے پیچھے چھپانے لگا۔ دادی نے یہ دیکھ کر کہا: ’’اب ہمیں نیچے ڈور فلی چلنا چاہیے۔‘‘
کلارا کا چہرہ کملانے لگا۔ وہ بے چین ہو کر خوشامد کرنے لگی: ’’دادی اماں! ہمیں دو ایک گھنٹے اور یہاں ٹھیر نے دیجیے۔ ہم نے تو اب تک ہیدی کا گھر بھی اندر سے نہیں دیکھا۔ کاش! دن دس گھنٹے اور بڑا ہو جاتا۔‘‘
انکل آلپ ان کو گھر دکھانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ انھوں نے کلارا کی پہیا کرسی گھر کے دروازے کی طرف دھکیلی لیکن دروازہ اتنا چھوٹا تھا کہ کرسی اندر نہیں جاسکی۔ انکل نے فورا ًکلارا کو اپنے مضبوط بازوؤں میں اُٹھا لیا اور اندر لے گئے۔ دادی بھی اندر پہنچ گئیں اور گھر کی صفائی ستھرائی اور سلیقہ دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں۔
او پر دو چھتی پر چڑھتے ہوئے انھوں نے ہیدی سے کہا: ’’مجھے یقین ہے کہ تم وہاں سوتی ہوگی۔‘‘
ہیدی نے ہاں میں سر ہلایا۔ سب او پر پہنچ گئے۔ کلارا کو بھی او پر پہنچا دیا گیا۔
وہ خوشی سے چلائی: ’’اوہو! کیسی عمدہ جگہ ہے۔ میں اس بستر پر لیٹے لیٹے آسمان دیکھ سکتی ہوں اور درختوں سے ٹکراتی ہوا کی سنسناہٹ سے لطف اندوز ہو سکتی ہوں۔ میں نے کبھی ایسا عمدہ چھوٹا سا بیڈ روم نہیں دیکھا۔‘‘
انکل آلپ نے کلارا کی دادی کی طرف دیکھا اور بولے: ’’اگر آپ پسند فرما ئیں تو کلارا کو یہاں کچھ دن کے لیے چھوڑ دیجیے۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں اس کی صحت بحال ہو جائے گی اور اس میں تو انائی آجائے گی۔ ہمیں اس کے یہاں رہنے سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ میں اس کا پورا پورا خیال رکھوں گا۔ اس کے لیے ہیدی کے بستر کے برابر میں ایک اور بستر بچھا دوں گا۔‘‘
دونوں لڑکیاں خوشی سے چلا اٹھیں۔
دادی نے جواب دیا: ’’آلپ صاحب! آپ عظیم انسان ہیں۔ میں بھی اس وقت یہی سوچ رہی تھی کہ کلارا کچھ دن یہاں رہے تو کتنااچھا ہو، لیکن آپ کی تکلیف کے خیال سے میں یہ کہہ نہیں پا رہی تھی۔‘‘
دادی کا خیال تھا کہ انکل کی نگرانی میںہیدی کے ساتھ ایسی اچھی جگہ رہنا کلارا کے لیے دوا اور علاج سے زیادہ مفید ہوگا۔ ہیدی اور کلا را خوش خوش سیر کا پروگرام بنانے لگیں اور دونوں بزرگوں نے دو چھتی پر کلارا کے لیے بستر بچھا دیا۔ پھر کلا را کو خط لکھنے کی ہدایت کرنے کے بعد دادی گھوڑا گاڑی پر سوار ہو کر نیچے ڈور فلی روانہ ہونے لگیں تو انکل بھی ان کو پہنچانے ساتھ ساتھ گئے۔
کلارا اپنے بستر پر لیٹ کر دیوار کے سوارخ میں سے آسمان کا نظارہ کرنے لگی۔شفاف آسمان پر ستارے جھلمل کر رہے تھے۔ کلارا پکار اٹھی: ’’ارے ہیدی !مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے ہم کسی اُڑن کھٹولے میں بیٹھے آسمان پر جارہے ہیں۔‘‘
دونوں تھوڑی دیر باتیں کرتی رہیں۔ہیدی کو جلد ہی نیند آگئی لیکن کلارا کچھ دیر جاگتی رہی ۔کلارا نے اس سے پہلے کبھی تاروں بھرا آسان نہیں دیکھا تھا۔ شہر میں مغرب کے بعد اس کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی اور گھر میں سب کھڑکیوں پر پردے پڑے ہوئے تھے۔ آخر اس کو بھی نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا، مگر اس کو خواب میں بھی تارے نظر آتے رہے۔
صبح سب سے پہلے انکل آلپ کی آنکھ کھلی اور وہ اپنی عادت کے مطابق باہر نکلے۔ پہاڑ پر کہر چھائی ہوئی تھی۔ ہلکے ہلکے بادلوں کو سورج کی کرنوں نے گلابی بنا دیا تھا۔ انکل دونوں بچیوں کے پاس پہنچے۔ کلارا نے ابھی ابھی آنکھیں کھولی تھیں اور وہ بستر پر پڑی ہوئی سورج کی ہلکی ہلکی کرنوں سے جسم کو سینک رہی تھی۔ انکل نے اس سے پوچھا کہ’’ رات کیسی گزری؟ نیند کیسی آئی؟‘‘
کلارا نے جواب دیا: ’’بہت اچھی نیند آئی۔ سونے کے بعد میری ایک بار بھی آنکھ نہیں کھلی۔ بس ابھی اُٹھی ہوں۔‘‘
انکل نے ناشتے کا انتظام کیا۔ دونوں لڑکیوں کے سامنے بھاپ نکلتے ہوئے دودھ کے پیالے لا کر رکھے۔ کلارا نے اس سے پہلے کبھی بکری کا دودھ نہیں پیا تھا، اس لیے وہ ذرا جھجک رہی تھی لیکن جب اس نے دیکھا کہ ہیدی مزے لے لے کر دودھ پی رہی ہے تو اس نے بھی دودھ کا پیالہ منھ سے لگالیا۔ دودھ پینے کے بعد اس نے سوچا یہ تو بڑا مزے دار ہوتا ہے۔
ہیدی اور کلارا دونوں نے بڑے بڑے پروگرام بنائے، لیکن ہیدی نے کہا کہ سب سے پہلے ہمیں دادی کو خط لکھنا چاہیے، کیوں کہ ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ روزانہ خط لکھا کریں گے۔ چناں چہ دونوں نے گھر کے باہر بیٹھ کر خط لکھے۔
کلا را موسم سے لطف لیتی رہی۔ کیا خوب صورت منظر تھا، ہلکی ہلکی ہوا اس کے نرم نرم گالوں کو چھورہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جسے ہوا درختوں کے کان میں کچھ کہ رہی ہے۔ آدھا دن گزر گیا۔ انکل پھر ان کے لیے دودھ کے دو پیالے لے آئے۔ انھوں نے کہا کہ کلارا کو کھلی جگہ میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہیے۔ چناں چہ انھوں نے دوپہر کا کھانا بھی گھر سے باہر ہی کھلے ڈائننگ روم میں کھایا۔ اس کے بعد ہیدی نے کلارا کی پہیا کرسی کو کھینچ کر صنوبر کے درختوں کے سائے میں کر دیا۔ وہ دونوں وہاں سہ پہر تک رہیں۔ کلارا نے ہیدی کے شہر سے آجانے کے بعد کے کئی قصے سنائے۔ مس روٹن میئر کی مزے دار باتیں بھی بتا ئیں۔
دو ہفتے اس طرح گزر گئے۔ رات کو وہ سکون سے دو چھتی پر سوتیں۔ صبح با ہر بیٹھ کر ناشتا کرتیں۔ ان کی طبیعت بہت خوش ہوتی تو خوب کھاتیں، خوب باتیں کرتیں۔ پہاڑ کی زندگی کا مزہ شہر کی زندگی سے مختلف ہوتا ہے۔ انکل آلپ نے دیکھا کہ کلارا کی صحت روز بہ روز بہتر ہوتی جارہی ہے۔ اس کے جسم پر گوشت چڑھتا جا رہا ہے اور رخساروں پر گلابی رنگت چمکنے لگی ہے، تو انھوں نے روزانہ صبح کلارا کو پہیا کرسی پر بٹھانے سے پہلے اس کو اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی مشق کرانی شروع کی۔ شروع شروع میں کلارا کھڑے ہونے سے ڈرتی تھی، کیوں کہ اس کو تکلیف ہوتی تھی، لیکن دھیرے دھیرے اسے مشق ہونے لگی اور وہ خود بھی زیادہ کوشش کرنے لگی تو انکل نے دونوں لڑکیوں سے وعدہ کیا کہ اب میں بہت جلد تم کو اوپر چراگاہ میں لے چلوں گا لیکن کلارا کو بھی میرا ایک کہنا ماننا ہو گا۔ آج رات اس کو کھڑے ہونے کی تھوڑی سی مشق کرنی ہوگی۔ ہیدی نے کلارا کو بتایا۔ کلارا نے فورا ًوعدہ کر لیا کہ انکل جیسا کہتے ہیں میں ویسا ہی کروں گی۔ وہ اوپر چراگاہ جانے کی مہم کو ہر قیمت پر کام یاب بنانا چاہتی تھی۔
شام کو پیٹر بکریاں لے کر چراگاہ سے واپس آیا تو ہیدی نے اس کو آواز دی :
’’پیٹر! ہم کل صبح تمھارے ساتھ چلیں گے اور سارا دن چراگاہ کی سیر میں گزاریں گے۔‘‘
پیٹر نے سنی ان سنی کر دی اور ایک بکری کی بے قصور پٹائی کردی۔
دونوں لڑکیوں نے طے کیا کہ آج رات کو نہیں سوئیں گی اور صبح تک جاگتی رہیں گی۔ لیکن جیسے ہی انھوں نے سرتکیوں پر رکھے، نیند کی پری نے ان کو سلا دیا اور وہ گہری نیند سوگئیں، کیوں کہ وہ دن بھر کی محنت کے بعد تھک چکی تھیں۔ دن کو محنت کرو تو رات کو بڑی اچھی نیند آتی ہے۔ رات بھر پھولوں اور پودوں سے بھرے میدان کلارا کے خواب میں آتے رہے۔ پھولوں کے میدان بھی آسمان کی طرح نیلے رنگ کے ہو گئے تھے۔ہیدی کا بھی یہی حال تھا۔ اس کو ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے سرو کے درختوں سے ہوا سر گوشی کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ ’’آؤ لڑ کیو !تم بھی آؤ، جلد آؤ!‘‘
دوسرے دن صبح ہی صبح انکل آلپ اپنے گھر سے نکلے۔ انھوں نے چاروں طرف نظریں دوڑا ئیں اور پھر آسمان کی طرف دیکھا کہ موسم کیسا ہے۔ سرخی مائل روشنی پہاڑ کی چوٹیوں پر نظر آ رہی تھی۔ تازہ ہوا نے درختوں کی شاخوں کو جھلا نا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے سوچا، تھوڑی دیرہی میں سورج نکل آئے گا اور دن خوش گوار گزرے گا۔ انکل آلپ پہیا کرسی کو اُسارے سے باہر نکال لائے اور اسے گھر کے سامنے کھڑا کر دیا۔ وہ او پر جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ پھر وہ اندر گئے کہ لڑکیوں کو جگائیں اور یاد دلائیں کہ وہ دن نکل آیا جس کا انھیں بے چینی سے انتظار تھا۔ اب وہ اُٹھیں اور تیاری کریں۔
اس عرصے میں پیٹر، ہیدی کے گھر پہنچ گیا۔ وہ اپنی بکریوں کے ساتھ تھا اور ان کو لکڑی سے ہانک رہا تھا، لیکن اس کے لکڑی چلانے میں غصہ شامل تھا، پیار نہیں تھا، جو ہمیشہ ہوتا تھا۔ اصل میں وہ ہیدی سے خوش نہیں تھا، اس لیے اس کا موڈ خراب تھا۔ کئی ہفتوں سے ہیدی سے اس کی ملاقات اطمینان سے نہیں ہوئی تھی، کیوں کہ ہیدی کبھی اسے تنہا نہیں ملی۔ کلارا ہر وقت اس کے ساتھ رہتی تھی۔ آج ہیدی او پر چراگاہ میں آرہی ہے، اس وقت بھی یہ اجنبی لڑکی اس کے ساتھ ہو گی اور مزے سے پہیا کرسی پر چڑھی بیٹھی ہوگی۔ پیٹر کو یہ پہیا کرسی بہت بُری لگی۔ اس نے کھا جانے والی نظروں سے کرسی کو دیکھا اور پھر ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ اس کو کوئی شخص قریب نظر نہیں آیا۔ اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ایک اچھے کھلاڑی کی طرح دوڑتا ہوا کرسی تک پہنچا اور اپنی پوری طاقت سے کرسی کو نیچے چٹانوں کی طرف دھکیل دیا۔ کرسی تھوڑی دور تک تیزی سے اپنے پہیوں پر چلی پھر چٹانوں سے پھسل کر لڑھکنے لگی۔ پیٹر نے ایک بار پھر چاروں طرف نظریں دوڑائیں اور یہ دیکھ کر اسے اطمینان ہو گیا کہ کرسی کو دھکا دیتے ہوئے اسے کسی نے نہیں دیکھا۔ اب وہ قریب کی جھاڑیوں میں اس طرح چھپ گیا کہ اسے کوئی نہ دیکھ سکے، لیکن وہ سب کو دیکھ سکے۔
کرسی گہرائی میں تیزی سے گرنے لگی۔ اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے لگے۔ پیٹر اپنی کام یابی پر خوشی سے اُچھل رہا تھا۔ وہ بے وقوف یہ سمجھ رہا تھا کہ کرسی ٹوٹ جانے کا مطلب یہ ہے کہ کلارا کو فوراً اپنے شہر واپس جانا پڑے گا۔ اتنے میں انکل آلپ، کلارا کو اپنے بازوؤں میں تھامے ہوئے گھر سے باہر آئے۔ ہید ی ان کے ساتھ تھی۔ کرسی نظر نہیں آئی توانھوں نے پوچھا کہ کرسی کہاں چلی گئی؟
ہیدی نے ادھر اُدھر سر گھما کر دیکھا اور پھر گھبرا کر بولی: ’’ اُف خدایا! تیز ہوانے کرسی کو اڑا کر نیچے پھینک دیا۔‘‘
کلارا روہانسی ہو کر کہنے لگی: ’’میں بڑی بد قسمت ہوں۔ اب میرے بیٹھنے کے لیے کچھ نہیں رہا اور مجھے فرینکفرٹ شہر جانا پڑے گا۔ ‘‘
یہ الفاظ سن کر پیٹر خوشی سے پھولے نہ سمایا اور اپنی بکریوں کو لے کر چراگاہ کی طرف چل پڑا۔ انکل کی بکریوں کو لینے کا بھی اس کو خیال نہ آیا۔ بے چاری ہیدی نے کلا را کوتسلی تشفی دینے کی بہت کوشش کی۔ انکل نے وعدہ کیا کہ وہ اس نئی مشکل سے نکلنے کی کوئی نہ کوئی ترکیب سوچ لیں گے۔ اس کے ساتھ انھوں نے دماغ لڑانا شروع کیا تو انھوں نے سوچا کہ کلارا کو اپنے اوپر لاد کر کسی نہ کسی طرح چرا گاہ لے جائیں گے۔ وہ اُسارے کے اندر گئے تا کہ ایک قالین کا ٹکڑا اُٹھا لائیں۔ یہ دیکھ کر انھیں حیرت ہوئی کہ بکریاں وہیں بندھی ہوئی ہیں اور پیٹر انھیں لے کر نہیں گیا۔
بہر حال، انکل آلپ ارادے کے پکے تھے۔ تھوڑی ہی دیر بعد ان کا چھوٹا سا قافلہ پہاڑ کی بلندی پر چڑھ رہا تھا۔ دونوں بکریاں آگے آگے تھیں، کلارا انکل کے بازوؤں میں اور ہیدی ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ جب وہ اونچائی پر چراگاہ میں پہنچ گئے تو انھوں نے دیکھا کہ تمام بکریاں ہمیشہ کی طرح چر رہی ہیں اور پیٹر پاؤں پسارے لیٹا ہوا آرام کر رہا ہے۔ انکل نے آواز لگائی: ’’بے وقوف لڑکے! تم میری بکریوں کو کیوں چھوڑ آئے؟‘‘
یہ مانوس آواز سن کر پیٹر ہر بڑا کر اُٹھ بیٹھا اور بڑی مشکل سے جواب دے سکا: ’’وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔‘‘
انکل نے کوئی جواب نہیں دیا۔ انھوں نے قالین زمین پر بچھایا اور کلا را کو اس پر بیٹھا دیا۔
کلارا کہنے لگی: ’’یہ بیٹھک کرسی ہی کی طرح آرام دہ ہے۔ ‘‘
وہ چاروں طرف نظریں گھما کر خوب صورت منظر دیکھنے لگی۔ اس کے منھ سے نکلا: ’’یہ سب کتنا حسین اور کتنا پیارا ہے!‘‘
انکل آلپ نے کہا: ’’میں نیچے واپس جا رہا ہوں، ذرا دیکھوں پہیا کرسی کا کیا بنا۔‘‘
انھوں نے ہیدی کو ایک ٹھنڈی جگہ دکھا دی جہاں وہ اپنا کھانا رکھ سکتی تھی۔
انھوں نے پیٹر سے کہا: ’’تم ان لڑکیوں کو کھانے کے وقت دودھ دے دینا۔ میں شام کو واپس آجاؤں گا۔‘‘
لڑکیاں خوشی خوشی وہاں رہیں اور آپس میں گپ شپ کرتی رہیں۔ ایک ایک درخت، ایک ایک پودا بلکہ ایک ایک پھول ان کے دلوں کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔ وہ قدرت کی فیاضی اور فطرت کے حسن کی تعریف کر رہی تھیں۔ ہرے بھرے پیڑ، سر سبز گھاس اور رنگ برنگے پھول ان کو زندگی کے نئے معنی بتا ر ہے تھے۔ باتیں کرتے کرتے ہیدی کو خیال آیا کہ شاید کلارا اس جگہ کے علاوہ دوسری جگہ بھی دیکھنا چاہے۔ پہاڑ کا دوسرا حصہ شاید کلارا کو اور زیادہ پسند آئے۔ چناں چہ ہیدی نے پیٹر کو آواز دے کر کہا کہ وہ کلارا کی مدد کرے تا کہ کلا را تھوڑی دور چل سکے۔
پیٹر نے سوچا کہ کہیں ہیدی کو شبہ نہ ہو جائے کہ وہ اس سے ناخوش ہے اور کرسی کی تباہی میں اس کا ہاتھ ہے، اس لیے وہ بڑی مستعدی اور پھرتی سے ان دونوں کے پاس پہنچا۔ چند بار کی کوشش کے بعد وہ اور ہیدی دونوں نے مل کر کلارا کو سیدھا کھڑا کرنے میں کام یابی حاصل کر لی۔ ان دونوں کی مدد کرنے سے کلارا نے اپنا پاؤں زمین پر ٹکایا، لیکن اسے بڑا تعجب ہوا کہ اس کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ اس نے پاؤں پر تھوڑا سا وزن بھی ڈالا، یہاں تک کہ وہ ایک دو قدم بھی اٹھا کر چلنے میں کام یاب ہو گئی۔
وہ خوشی سے چیخ کر بولی: ’’دیکھو دیکھو ہیدی !میں چل سکتی ہوں۔ اگر میں روزانہ تمھارے ساتھ آتی رہوں تو مجھے یقین ہے کہ بالکل اکیلی بھی چلنے پھرنے کے قابل ہو جاؤں گی۔‘‘
لیکن کلا را کو ابھی سہارے کی ضرورت تھی۔ تینوں بچے ہیدی کی ایک پسندیدہ جگہ پر گئے جہاں کثرت سے پھول تھے۔ وہ نرم اور گرم گھاس پر بیٹھ گئے اور پھولوں کی مہک سے اپنے دل و دماغ کو تازہ کرنے لگے۔
دوپہر کے کھانے کے لیے وہ واپس چراگاہ آگئے۔ اب پیٹر سے کلارا کو سہارا دینے کے لیے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ تینوں نے انکل کا لایا ہوا کھانا کھولا اور اطمینان سے کھایا۔ کھانا کھاتے ہوئے انھیں کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ انکل آلپ واپس آگئے۔ہیدی دوڑی دوڑی ان کے پاس گئی اور بتایا کہ کلارا کی حالت اب بہتر ہے۔ ہیدی اتنی پُر جوش تھی کہ اس کے منہ سے الفاظ نہیں نکل رہے تھے لیکن انکل اس کی بات سمجھ گئے۔ انکل کا چہرہ خوشی سے کھل اُٹھا۔ وہ کلارا کی طرف بڑھے اور اس کی طرف اس طرح مسکرا کر دیکھا کہ دونوں کی خوشی میں بے حد اضافہ ہو گیا۔
انکل آلپ نے کہا: ’’جس چیز کے لیے کوشش کی جاتی ہے وہ فتح کر لی جاتی ہے۔ تم نے یہ بات ثابت کر دی۔ تم ایک مضبوط ارادے کی لڑکی ہو۔ ‘‘
انکل نے کلارا کو سہارا دے کر اُٹھایا۔ اب تو کلارا اور بھی اچھی طرح چلنے کے قابل ہو گئی تھی۔ تھوڑی سی مشق کرانے کے بعد انکل نے کہا: ’’بس اب کافی ہو گیا، آرام کرو، پاؤں پر بہت زیادہ بوجھ ڈالنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
گھر پہنچ کر انکل نے مشورہ دیا کہ دادی کو خط لکھ کر بلا لینا چاہیے۔ ان کو یکا یک حیرت زدہ کرنے میں بڑا مزہ آئے گا۔
اگلے چند دن کلارا کی زندگی کے سب سے پُر مسرت دن تھے۔ صبح اُٹھتے ہی روزانہ اس کے ذہن میں جو خیال آتا وہ یہ تھا کہ میں صحت مند ہوں اور چل پھر سکتی ہوں۔ وہ ہر روز چلتی اور پچھلے دن سے کچھ زیادہ چلتی۔ اس مشق اور ورزش نے اس کی بھوک بھی بڑھا دی۔ یہ دیکھ کر انکل اس کے لیے زیادہ دودھ اور پنیر رکھتے۔ انکل بہت خوش تھے۔ انھیں سکون کے ساتھ فخر بھی تھا کہ کلارا کی صحت پوری طرح بحال ہوگئی ہے۔ پہاڑ کی پاک وصاف ہوا کے علاوہ ہیدی کے پیار اور خود انکل کی خدمت نے یہ کرشمہ کر دکھایا۔
ایک دن انھیں اطلاع مل گئی کہ کلارا کی دادی آرہی ہیں۔ اس دن سارا وقت گھر کی صفائی ستھرائی میں صرف کیا گیا۔ پھر دونوں لڑکیاں گھر سے باہر بچھی ہوئی بینچ پر بیٹھ گئیں اور ان کا راستہ دیکھنے لگیں۔ انکل پہاڑ کے اوپری حصے پر پہنچ کر طرح طرح کے پھول تلاش کر کے جمع کر رہے تھے۔ ہیدی تھوڑی تھوڑی دیر میں اُچک اُچک کر نیچے وادی میں دیکھتی کہ دادی آئیں کہ نہیں، آخر گھوڑے کی پیٹھ پر دادی کا سایہ نظر آیا۔ جلد ہی دادی پہنچ گئیں اور اپنی پوتی پر حیرت سے نظریں جما دیں۔ کلا را اچھل کر دادی سے لپٹ گئی۔
بڑی بی خوشی سے رونے لگیں۔ پھر ان کی نظر انکل آلپ پر پڑی تو انھوں نے بے اختیار انکل کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولیں: ’’میں آپ کا شکریہ کسی طرح ادا نہیں کر سکتی۔‘‘
انکل نے جواب دیا: ’’میں نے کچھ نہیں کیا۔ اس کرشمے کے لیے آپ کو پہاڑ کی آلودگی سے پاک ہوا اور سورج کی روشنی کا شکر گزار ہونا چاہیے۔‘‘
٭٭٭
اب ایک اتفاق دیکھیے۔
سیسی من صاحب اپنی تجارت کے سلسلے میں شہر سے باہر تھے۔ وہ آج پیرس میں تھے۔ کام کی زیادتی ختم ہوتے ہی انھیں اپنی بیٹی کلارا کی یاد بڑی شدت سے آئی۔ ان کے دل میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ بغیر اطلاع کے پہنچ کر کلارا کو حیرت زدہ کیا جائے۔ چناں چہ انھوں نے ٹرین پکڑی اور ڈورفلی کی طرف روانہ ہو گئے۔
انکل آلپ کے گھر سب خوشیاں منا رہے تھے۔ اُدھر سیسی من صاحب پہاڑ پر چڑھ رہے تھے۔ ایک موڑ پر پہنچ کر ان کی نظر او پر اٹھی تو ان کو دولڑکیاں انکل کے گھر کے پاس چلتی پھرتی نظر آئیں۔ ایک لڑکی ذرا لمبی اور گوری تھی۔ اس کے قریب جولڑ کی تھی اس کو سیسی من صاحب نے پہچان لیا۔ وہ ہیدی تھی۔ ذرا اور اوپر پہنچے تو وہ حیرت سے رک گئے اور لمبی والی لڑکی کو گھور گھور کر دیکھنے لگے۔ ان کے دل میں یادوں کے چراغ جلنے لگے۔ وہ لمبی لڑکی ان کی مرحوم بیوی کی ہو بہو تصویر تھی۔ وہ کلا راتھی، جو اپنی ماں کی یاد دلا رہی تھی۔
کلارا نے اپنے باپ کے پاس پہنچ کر کہا: ’’پاپا! آپ مجھے نہیں پہچانتے؟ کیا میں اتنی بدل گئی ہوں۔‘‘
سیسی من صاحب ذرا سا جھجکے کہ شاید میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ پھر وہ بیٹی کی طرف لپکے اور اس کو گلے سے لگا کر بھینچ لیا۔ دادی نے کلارا کے الفاظ سُن لیے تھے۔ اب وہ دونوں کے قریب آگئیں۔ وہ دھیمی آواز میں اپنے بیٹے (سیسی من) سے بولیں: ’’شاید تمھارا خیال تھا کہ تم یکا یک پہنچ کر ہمیں حیرت میں ڈال دو گے لیکن تمھاری بیٹی نے یہ کام تم سے بہتر کیا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر دادی کھلکھلا کر ہنسیں۔سیسی من صاحب بھی دل کھول کر ہنسے۔ پھر وہ انکل آلپ کی طرف بڑھے اور ان کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے کلارا کا اتنا خیال رکھا اور مہمان سے زیادہ اپنی بیٹی سمجھا۔ دادی ذرا تھکی ہوئی تھیں۔ وہ ان لوگوں سے ذرا ہٹ کر بیٹھ گئیں۔ انھوں نے یکا یک ایک آواز سنی، اُدھر دیکھا تو سرو کے درخت کے پیچھے پیٹر چھپ رہا تھا۔ دادی نے سمجھا کہ شاید یہاں کئی لوگ جمع ہیں اس لیے وہ شرما رہا ہے۔ انھوں نے اس کو نرمی سے بلایا لیکن وہ اتناڈرا ہوا تھا کہ ایک قدم آگے نہیں بڑھا پایا۔
دادی نے پوچھا: ’’کیا میں اتنی خوف ناک لگتی ہوں؟ آلپ صاحب! کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ لڑکا مجھ سے اتنا خوف زدہ کیوں ہے؟‘‘
انکل نے جواب دیا: ’’اصل میں وہ ضمیر کا مجرم ہے۔ پہیا کرسی کو نیچے دھکا دینے والا یہی ہے۔ اب اس کو سزا ملنے کا ڈر ہے۔ جب یہ نالائق میری بکریاں لیے بغیر چراگاہ چلا گیاتھا تو مجھے اسی دن شبہ ہو گیا تھا لیکن اب تو مجھے یقین ہو گیا ہے۔‘‘
انکل نے دادی کو تمام کہانی سنادی، لیکن دادی پھر بھی پیٹر پر غصہ نہیں ہوئیں، بلکہ اور زیادہ مہربان ہو گئیں، کہنے لگیں: ’’ہمیں ٹھنڈے دل سے سوچنا چاہیے۔ وہ ہیدی کا دوست ہے۔ ہم نے اس کی سہیلی کو پوری گرمیوں اس سے دور رکھا۔ اس نے بے وقوفی ضرور کی، لیکن ہمیں اس کی غلطی کو نظر انداز کر دینا چاہیے۔ اچھا پیٹر! بتاؤ تم کیا تحفہ لینا پسند کرو گے؟‘‘
پیٹر اس مہربانی پر ہکا بکا رہ گیا۔ وہ تو انتہائی خوف ناک سزا کی توقع کر رہا تھا لیکن اس کے بجائے اس کو تحفہ پیش کیا جارہا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ آخر اس نے تحفے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اسے کیا چیز چاہیے۔ سوچتے سوچتے اس کو یاد آیا کہ اس نے میلے میں ایک خوب صورت سیٹی دیکھی تھی۔ اس نے کہا: ’’مجھے چھے پینس چاہییں، تا کہ میں سیٹی خرید سکوں۔‘‘
دادی نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’تم لالچی نہیں ہو۔ ‘‘
پھر انھوں نے پرس میں سے کچھ رقم نکالی اور پیٹر کو دیتے ہوئے بولیں: ’’یہ تمھارے تحفے کے لیے ہے۔ تم اس سے سیٹی کے علاوہ بھی بہت سی چیزیں خرید سکتے ہو۔‘‘
پیٹر نے رقم لے کر دادی کا شکر یہ ادا کیا اور پھر خوشی خوشی دوڑتا ہوا دونوں لڑکیوں کے پاس پہنچ گیا۔
سیسی من صاحب نے انکل آلپ سے کہا: ’’مجھے بہت عرصے کے بعد اتنی خوشی ملی ہے۔ ایسی دولت کا کیا فائدہ کہ جس سے میں اپنی پیاری بیٹی کو صحت اور خوشی نہ دے سکا۔ مہربانی کر کے مجھے بے تکلف بتائیے کہ میں یہ احسان اُتارنے کے لیے آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
انکل نے جواب دینے سے پہلے چند لمحے سوچا اور پھر کہا: ’’میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور زیادہ عرصے زندہ نہیں رہوں گا۔ جب تک میں جیتا ہوں، ہیدی کی سر پرستی کرتا رہوں گا، لیکن میرے بعد اس کا کوئی نہیں ہوگا۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے بعد اس کو روزی کمانے کے لیے پہاڑ چھوڑ کر کہیں نہ جانا پڑے۔‘‘
سیسی من صاحب نے فوراً کہا: ’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ اس کی دیکھ بھال کروں گا اور کوشش کروں گا کہ یہ خوش رہے۔ اس کو یہاں سے کہیں اور جانے کے لیے مجبور نہیں ہونا پڑے گا۔ اس کے علاوہ یہاں اسے دوسرے خیر خواہ بھی مل جائیں گے۔ ایک صاحب کو میں جانتا ہوں کہ جو نوکری سے فارغ ہونے والے ہیں۔ وہ میرے دوست ڈاکٹر کلاسن ہیں۔ وہ بڑھاپے میں ایک پہاڑی گاؤں میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ میری والدہ کے مشورے پر انھوں نے ڈور فلی گاؤں کو پسند کر لیا ہے اور بہت جلد یہاں آنے والے ہیں۔ اس طرح ہیدی کو دو سرپرست مل جائیں گے۔ ‘‘
اس کے بعد سیسی من صاحب نے ان لوگوں کو بتایا کہ میں نے اپنی والدہ اور بیٹی کے ساتھ سوئٹزر لینڈ جانے کا پروگرام بنایا ہے۔ سیسی من صاحب نے کہا: ’’میں آج رات ڈور فلی میں ٹھیروں گا اور صبح کلارا کو لینے یہاں آؤں گا۔‘‘
کلارا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وہ پہاڑ اور ہیدی کو چھوڑنے کے نام ہی سے رنجیدہ ہو گئی، لیکن ہیدی نے اس کو یہ کہ کر تسلی دی: ’’ایک سال چٹکی بجاتے ہی ختم ہو جائے گا اور اگلے سال تم پھر یہاں آؤ گی۔ پھر تم بھی اسی طرح اپنے پیروں سے چلو پھرو گی جیسے میں چلتی ہوں۔ بس پھر تم، میں اور پیٹر روزانہ چر اگاہ جایا کریںگے۔ بکریاں بھی ہمارے ساتھ ہوا کریں گی۔‘‘
دن کا باقی حصہ پلک جھپکتے میں گزر گیا اور کلا را آخری بار سونے کے لیے گھاس کے بستر پر پہنچ گئی۔ صبح سیسی من صاحب کلارا کو لینے آپہنچے۔ چند منٹ انکل آلپ سے باتیں کرنے کے بعد انھوں نے کلا را سے کہا کہ اب چلنے کا وقت آگیا ہے۔ہیدی اور کلارا نے گلے مل کر ایک دوسرے کو رخصت کیا۔ کلارا اپنی دادی والے گھوڑے پر سوار ہوگئی۔ہیدی پک ڈنڈی کے بیچ میں کھڑی ہو کر اس وقت تک ہاتھ ہلاتی رہی جب تک جانے والے آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گئے:
جانے والو ہمیں یاد بہت آؤ گے
٭٭٭
Facebook Comments