skip to Main Content

پھلوں کا بادشاہ

کلیم چغتائی

۔۔۔۔۔

”بھولنا نہیں، کل رات میرے گھر دعوتِ آم ہے!“
سلیم صاحب نے رخصت ہوتے ہوئے یاد دلایا اور صفدر صاحب گرم جوشی سے بولے:”ہاں ہاں کیوں نہیں، ان شاء اللہ ہم ضرور آئیں گے۔“
”دعوتِ عام!“ دوسرے کمرے میں بیٹھے ہوئے انور نے سوچا۔”اچھا تو سلیم چچا کے گھر کل رات دعوت عام ہے، یعنی جس کا جی چاہے، وہ اس دعوت میں شریک ہو سکتا ہے، جیسے جلسہ عام ہوتا ہے، اس میں کوئی بھی شرکت کر سکتا ہے۔۔۔ میں بھی سلیم چچا کی دعوت عام میں جاؤں گا۔!“
انور اُٹھا اور اپنی امی کے پاس چلا گیا جو باورچی خانے میں بیٹھی سبزی کاٹ رہی تھیں۔
”السلام علیکم امی، آپ نے سُنا، کل سلیم چچا کے گھر دعوتِ عام ہے۔“ انور نے کہا۔
”وعلیکم السلام!ہاں، مجھے معلوم ہے، تمہارے ابو جا ئیں گے، اس دعوت میں۔“امی نے جواب دیا۔
”صرف ابو جائیں گے، مگر وہ تو دعوت عام ہے۔“ انور نے حیرانی سے پوچھا۔
”ہاں ہاں، دعوت آم ہے، اب اس میں پورے محلے کو تو بلانے سے رہے۔“ امی نے کہا۔
”کمال ہے، خود ہی کہ رہی ہیں کہ دعوتِ عام ہے، تو اس کا مطلب یہی ہوا نا کہ سب کی دعوت ہے، جو چاہے چلا جائے۔“
امی اپنی ہنسی نہ روک سکیں۔ ہنستے ہوئے بولیں: ”ارے پگلے، وہ عام لوگوں کی دعوت نہیں ہے، آموں کی دعوت ہے، خاص لوگوں کے لیے۔“
”افوہ، ابو آم کھانے جا رہے ہیں، میں اسے عام لوگوں کی دعوت سمجھتارہا، مگر امی آموں کی دعوت تو ہماری بھی ہونی چاہیے۔“
”اپنے ابو سے کہنا، ابھی مجھے کام کرنے دو۔“
انور رات کا کھانا کھانے کے بعد ابو کا انتظار کرتا رہا کہ وہ آئیں تو اُن سے آموں کی فرمائش کرے، لیکن ابو کسی کام سے چلے گئے تھے۔ ابو کا انتظارکرتے کرتے انور کو نیند آ گئی۔
”انور۔۔۔ انور میاں!“ آواز سُن کر انور کی آنکھ کھل گئی۔ اُس نے آنکھیں مل کر ادھر اُدھر دیکھا، کمرے میں کوئی نہ تھا، انور کو نیند آ رہی تھی، وہ دوبارہ بستر پر لیٹ گیا لیکن پھر آواز آئی۔
”انور میاں!“
”جی!“ انور نے جلدی سے کہا۔
”یہ کون بولا؟“ اُسی آواز نے کہا۔
”جی، یہ میں ہوں انور۔“ انور نے حیرانی سے جواب دیا۔
”ارے تم تو انسان ہو۔ تمہارا نام بھی انور ہے؟“ میں تو اپنے ننھے بھائی ’انور رَٹول‘ کو بلا رہا تھا۔“
اب جو انور نے غور سے دیکھا تو ہلکی ہلکی روشنی میں، میز پر ایک عدد چونسہ آم بیٹھا ہوا تھا۔ اُس سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا آم اس طرح پڑا ہوا تھا جیسے کوئی کروٹ لے کر سو جائے۔ چونسہ نے کہا: ”یہ ہمارے انور رٹول میاں یہیں سو گئے تھے، میں انہیں اٹھا رہا تھا!“
”مگر۔۔۔ مگر آپ تو انسانوں کی طرح باتیں کر رہے ہیں۔“ انور نے حیرت سے کہا۔
”اس میں تعجب کی کیا بات ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ گناہ گاروں کے ہاتھوں، پیروں اور جسم کی کھال تک کو بولنے کی قوت دے دیں گے اور اُن کے یہ اعضا بتائیں گے کہ دنیا میں اُن سے کیا کیا غلط کام لیے گئے۔ مثلاً کسی نے آم چرا کر کھا لیا تو اس کے ہاتھ گواہی دیں گے، جن سے اُس نے آم چرایا تھا، اس کے پیر گواہی دیں گے جن سے وہ چل کر، آم چرانے کے لیے گیا تھا۔“
”ہاں، یہ بات تو ہے۔ اچھا چونسہ بھائی، یہ بتائیں کہ آموں کی کتنی قسمیں ہیں۔“ انور نے کہا۔
”آموں کی قسمیں تو بہت زیادہ ہیں۔ ان میں سے کچھ بہت مشہور ہیں،مثلاً میں ہوں چونسہ، پھر دسہری ہے، سنہرا ہے، انور رٹول، لنگڑا، سندھڑی، فجری، سرولی، بہت سے ہیں۔ کچھ آموں کے نام بڑے دلچسپ ہیں مثلا کریلا، نازک بدن وغیرہ۔“
”ابو کہ رہے تھے کہ آم میں مختلف امراض کا علاج موجود ہے۔“ انورنے پوچھا۔
”ہاں، کیوں نہیں، لیکن پہلے میں تمہیں بتاتا ہوں کہ آم کھاتے ہوئے کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔“
”مجھے معلوم ہے، آم کا رس کپڑوں پر نہیں گرنا چاہیے۔‘‘انور نے جلدی سے کہا۔
”یہ تو ہے ہی، آم ہی نہیں، کوئی بھی شے تمیز اور تہذیب سے کھانی چاہیے۔ میں تو یہ بتارہا تھا کہ آم کھانے سے پہلے ہمیشہ پانی میں بھگو کر ٹھنڈے کر لینے چاہیں اور کھانا کھانے کے بعد آم کھائے جائیں۔ آم کو استعمال سے پہلے اچھی طرح دھو لینا چاہیے۔ آم کے ڈنٹھل سے نکلنے والی رطوبت گلے میں خراش پیدا کرتی ہے اور اگر یہ رطوبت ہونٹوں کے پاس لگ جائے تو کبھی کبھی دانے نکل آتے ہیں اس لیے آم کو دھو لینا اور ڈنٹھل کے پاس سے تراش دینا ضروری ہے۔ آم کھانے کے بعد دودھ یا تھوڑا سا پانی پی لینا چاہیے۔ ویسے اگر جامنیں مل جائیں تو آم کھانے کے بعد چند جامنیں کھا لیں۔ اس سے آم کے نقصانات دورہو جاتے ہیں۔“
”آم میں کون کون سی فائدہ مند چیزیں ہوتی ہیں؟“ انور نے پوچھا۔
”انور میاں! اللہ تعالیٰ نے آم میں حیاتین ج (وٹامن سی) کی بڑی قدار رکھی ہے۔ حیاتین الف (وٹامن اے) بھی خاصا ہے۔ لحمیات (پروٹین) 0.7 فی صد، نشاستہ (کاربو ہائیڈ ریس) 17فی صد، چکنائی 4 فی صد، پانی 7.4 فی صد، چونا (کیلشیم) 14 ملی گرام فی گرام، لوہا (آئرن) 1.3ملی گرام فی گرام اور فاسفورس 13 ملی گرام فی گرام ہوتا ہے۔ آم تقریباً مکمل غذا ہے۔ آپ آم کے ساتھ دودھ یا سادہ چپاتی کھالیں، آپ کے جسم کو ضروری غذائیت مل جائے گی۔“
”آپ بتا رہے تھے کہ آم بہت سی بیماریوں کا علاج ہے۔“ انور نے کہا۔
”ہاں، آم قبض دور کرتا ہے، دُبلے پتلے لوگوں کا جسم فربہ بناتا ہے۔ تم کچے آم ہی کی مثال لو جسے تم کیری کہتے ہو۔ کیری کا اچار چٹنی اور مر بہ تو تم نے کھایا ہو گا۔ کیری کو گرم راکھ یا اُؤن میں گرم کر کے اس کا چھلکا چھیل دیں، پھر اسے پانی میں اچھی طرح مسل کر چھان لیں، پھر چینی ملا کر ایسے شخص کو پلائیں جسے لو لگ گئی ہو اور متلی ہو رہی ہو۔ اُس شخص کی شکایت دور ہو جائے گی۔“
”بھائی جان، یہ کون ہیں؟“ چھوٹا’انور رٹول‘ نیند سے بیدار ہو کرپوچھ رہا تھا۔
”ارے تم اُٹھ گئے۔ آؤ ان سے ملو، یہ ہیں انور میاں، تمہارے ہم نام۔“ چونسہ نے پیار سے کہا۔
”اچھا یہ بھی انور رٹول ہیں؟“ چھوٹے انور رٹول نے معصومیت سے پوچھا۔
”نہیں، نہیں، میں تو انور مقبول ہوں۔“ انور نے جلدی سے وضاحت کی۔ اسی وقت امی کی آواز آئی۔
”انور، انور بیٹے، نیند میں کس سے باتیں کر رہے ہو؟“ امی، انور کا شانہ ہولے سے تھپک کر پوچھ رہی تھیں۔
انور بڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ سامنے امی کھڑی تھیں۔ کمرے میں ہلکی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔
”السلام علیکم امی، آپ کب آئیں۔ میں انور رٹول سے باتیں کر رہا تھا۔“
”انور رٹول؟ بیٹے دعائیں پڑھ کر سکون سے سو جاؤ، ایسا لگتا ہے، خواب میں بھی آم ہی آم دیکھتے رہے ہو۔“ امی یہ کہتے ہوئے انور کو حیران و پریشان چھوڑ کر کمرے سے باہر نکل گئیں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top