skip to Main Content

پیسے جو اُڑ گئے

کہانی: Money That Flew Away
مصنفہ: Enid Blyton
ترجمہ: پیسے جواُڑگئے
مترجم: ریاض عادل
۔۔۔۔۔
میلکم اور جیسی بہت خوش اورپرجوش تھے،کیوں کہ ان کی امی انھیں آج دوپہر کے بعدمیلے میں لے کر جارہی تھیں۔ان دونوں کے پاس اپنے جمع کیے ہوئے پیسے بھی تھے اور امی نے، صرف ان کے میلے کے خرچ کے لیے، دس پاؤنڈ کا ایک نوٹ بھی اپنے پرس میں علاحدہ رکھ لیاتھا،جوان کے خیال میں میلکم اور جیسی کے ٹکٹس،چائے اور بسکٹس کے لیے کافی تھا۔مگرصبح صبح ہی ایک مصیبت ان کے گلے پڑگئی،جب امی نے بیکری والے کو پیسے دینے کے لیے،اپنا پرس کھولا،تو وہ دس پاؤنڈکانوٹ نیچے گرگیا۔اس وقت تیزہواچل رہی تھی جو اس نوٹ کو اڑانے لگی۔
”بچو!جلدی کرو!اسے پکڑو!“امی نے دس پاؤنڈکانوٹ اڑتے دیکھا تو اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،بچوں سے،اونچی آوازمیں کہا۔
میلکم اور جیسی اڑتے ہوئے نوٹ کے پیچھے بھاگنے لگے۔دس پاؤنڈکانوٹ اڑتے اڑتے ان کے باغیچے کی طرف جارہاتھا۔نوٹ،اب ہوا کی وجہ سے، تیزی سے اڑرہاتھا۔وہ جیسے ہی باغیچے کے پاس پہنچے تواچانک ہی دس پاؤنڈکانوٹ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔انھوں نے یہاں وہاں نوٹ تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگروہ اڑکرکہیں دورجاچکاتھا۔
بچوں نے آدھے گھنٹے تک،ہراس جگہ،جہاں ان کے خیال میں دس پاؤنڈکانوٹ اڑکرجاسکتاتھا،اسے ڈھونڈا،مگر وہ انھیں نہیں ملا۔انھیں بہت مایوسی ہوئی اور وہ امی کی طرف آتے ہوئے سوچنے لگے کہ اب امی انھیں میلے میں نہیں لے کرجائیں گی۔ان کاخیال ٹھیک نکلا۔”پیارے بچو!مجھے بہت افسوس ہے کہ اب میں تمھیں میلے میں نہیں لے کرجاسکتی۔ہم پہلے ہی دس پاؤنڈکانوٹ کھوچکے ہیں۔اب میلے میں جانا اچھی بات نہیں ہوگی۔“امی نے دکھ بھرے لہجے میں کہاتو میلکم اور جیسی،دونوں نے امی کو اپنے بازوؤں میں بھرلیااور ان سے لاڈکرتے ہوئے کہنے لگے:
”امی!کوئی بات نہیں۔ہم بالکل ناراض نہیں ہوں گے۔ہم پھر کسی اوردن،جب ہمارے پاس پیسے ہوں گے،وہاں چلے جائیں گے، اور اچھی اچھی چیزیں لے لیں گے۔“
امی ان کی یہ بات سن کر بہت خوش ہوئیں اور اپنے دل میں سوچنے لگیں کہ وہ دونوں کتنے اچھے اور فرماں برداربچے ہیں۔”شاباش بچو!پھر تم دونوں ایساکرو کہ جھاڑولے کر باغیچے کی صفائی کرو۔تم چاہوتوگرے ہوئے خشک پتے اکٹھے کرکے الاؤبھی روشن کرلینا۔مجھے پتا ہے تمھیں یہ سب بہت اچھالگتاہے۔“امی نے کہا۔
الاؤکا سن کر وہ دونوں بہت خوش ہوئے:”بالکل صحیح کہا آپ نے امی جان۔ ہمیں واقعی یہ بہت اچھا لگتا ہے۔“پھران دونوں نے اپنااپناجھاڑواٹھایااور باغیچے کی طرف چل پڑے۔یہ سوچ کر وہ دونوں بہت خوش تھے کہ وہ اپنی امی کی مددکررہے ہیں۔انھوں نے سارے خشک پتے ایک ڈھیر کی صورت میں جمع کیے اور گھر سے ماچس لا کر، جیسی نے جیسے ہی انھیں آگ لگائی، توخشک پتوں نے فوراًآگ پکڑلی۔الاؤروشن ہوچکا تھا۔
پھرجیسے ہی آگ کے شعلے بلندہوئے تو میلکم خوشی سے چلااٹھا:جیسی!وہ دیکھوان خشک پتوں میں،ہمارادس پاؤنڈ کا نوٹ پڑاہواہے۔جلدی سے مجھے وہ لکڑی پکڑاؤ،تاکہ میں اسے جلنے سے پہلے باہرنکال سکوں۔“ اس نے جیسی کے قریب پڑی لکڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔اور پھر اس سے پہلے کہ آگ کے شعلے دس پاؤنڈ کے نوٹ کو جلاڈالتے،وہ اسے صحیح سلامت باہر نکالنے میں کامیاب ہوچکاتھا۔نوٹ ہاتھ میں آتے ہی وہ دونوں خوشی سے اندر کی طرف بھاگتے چلے گئے،تاکہ اپنی امی کو یہ خوش خبری سناسکیں۔
”امی!امی!ہمیں اپنا دس پاؤنڈ کا نوٹ مل گیا ہے۔یہ اڑتاہوا باغیچے کے خشک پتوں میں جاگراتھا،اسی لیے ہم اسے ڈھونڈنہیں سکے تھے۔کیا اب ہم میلے میں جاسکتے ہیں؟۔“میلکم نے خوشی سے بھرپورلہجے میں امی کو خوش خبری سناتے ہوئے کہا۔
”بالکل جائیں گے۔“امی نے خوش ہوتے ہوئے کہا:”مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی ہے کہ تمھیں نوٹ مل گیا ہے۔ذرا سوچو!اگر تم باغیچے کی صفائی نہ کرتے تو یہ نوٹ تمھیں کبھی نہ ملتا۔اب تم اس کے حق دار ہو کہ تمھیں میلے میں لے جایا جائے۔“
اپنی امی کی یہ بات سن کر میلکم اور جیسی کے چہرے خوشی سے دمکنے لگے۔

٭٭٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top