پہلا معرکہ اور انعامات کی بارش
محمد الیاس نواز
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اے اللہ آج اگرتو نے مسلمانوں کی مدد نہ کی اور یہ مارے گئے تو پھر قیامت تک تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا،یوم البدر(۱۷رمضان)کے حوالے سے خصوصی تحریر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمرو بن حضرمی کا قتل وہ واقعہ تھا کہ جو اسلام کی پہلی جنگ یعنی جنگِ بدر کا پیش خیمہ بنا۔ نبی اکرم ﷺجب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تودفاعی حکمت عملی کے تحت آپ ﷺنے دو کام کئے ۔ایک تو یہ کہ مدینہ کے آس پاس کے قبائل کیساتھ آپ ﷺ نے معاہدے کر لئے کہ اگر مدینہ پر کوئی بھی باہر سے آکر حملہ کرتا ہے تو سب مل کر اسکا مقابلہ کریں گے یا پھر وہ قبائل کسی کا ساتھ نہیں دیں گے(یعنی مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیں گے تو حملہ کرنے والوں کا ساتھ بھی نہیں دیں گے)اور دوسرا کا م یہ کیا کہ قریش کے ان تجارتی قافلوں کی سختی سے نگرانی شروع کردی یعنی ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا شروع کردی جومدینہ کے پاس سے شام کیلئے گزرتے تھے۔
تاکہ اگرقریش زیادہ تنگ کریں تو وقت آنے پر ان قافلوں کا راستہ روک کر ان کو جواب دیا جا سکے۔اسی مقصد کو سامنے رکھ کر آپ ﷺان قافلوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے صحابۂ کرامؓ کو وقتاًفوقتاًبھیجا کرتے تھے۔اسی سلسلے کے تحت رجب۲ہجری میں آپ ﷺنے حضرت عبداللہ بن جحش کو بارہ(۱۲) آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایااور ساتھ ہی ایک خط بھی آپ ﷺنے حضرت عبداللہ کو دیا کہ دو دن کے بعد اسے کھول کر پڑھ لینا۔دو دن کے بعد جب انہوں نے خط کھول کر پڑھا تو لکھا تھا کہ تم جب یہ خط پڑھو تووادئ نخلہ جوکہ
مکہ اور طائف کے درمیان ایک علاقہ ہے،میں جاؤ اور قریش کے آنے والے قافلے کی گھات میں لگ جاؤ اور معلومات حاصل کرو۔چنانچہ یہ لوگ نخلہ پہنچ کر قافلے کی گھات میں بیٹھ گئے۔عرب کے دستور کے مطابق رجب کے مہینے میں لڑائی حرام تھی اوریہ دن رجب کا آخری دن تھاجب قافلہ نخلہ پہنچا۔حضرت عبدااللہ نے دیکھا کہ اگرابھی اس قافلے کو چھوڑ دیتے ہیں تو یہ ہاتھ سے نکل جائے گا اور اگر کل تک حرمِ مکہ کی حدودمیں داخل ہو جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ حرم میں بھی حملہ کرنا حرام ہے اور ویسے بھی رجب کے مہینے میں کفار مسلمانوں کا کون سا لحاظ کرتے تھے یا تنگ کرنے اور ستانے سے کونساباز آتے تھے، اس لئے مسلمانوں کا رجب میں ان پر حملہ کرنابھی کوئی غلط بات نہیں تھی۔لہٰذا فیصلہ یہ ہوا کہ حملہ کر دیا جائے۔اِدھر سے ایک تیر چلایا گیا جو عمروبن حضرمی کو لگا اور وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔اس کے ساتھ ہی دو آدمی گرفتار بھی ہوئے۔صحابہؓ ان قیدیوں کو ساز و سامان کے ساتھ مدینہ لے آئے ۔مگر آپ ﷺنے ناراضگی کااظہار فرمایا کہ میں نے تم لوگوں کو اس کی اجازت نہیں دی تھی اور ساتھ ہی سامان بھی قبول کرنے سے بھی انکار فرما دیا۔گرفتار ہونے والوں کو سامان سمیت رہا کردیا گیااور مرنے والے کے وارثوں کو دیت(مرنے والے کی جان کا معاوضہ)اداکردیا گیا۔مگر یہاں دو باتیں پیدا ہوگئیں۔ایک تو یہ کہ عمروبن حضرمی کے قتل کے بعدوہ دشمنی پیدا ہو گئی کہ جو عربوں کا پُرانا دستور تھا کہ مرنے والے کا بدلہ ضرور لیا کرتے تھے چاہے صدیوں ہی کیوں نہ لڑنا پڑتا،قبیلوں کے قبیلے برباد ہی کیوں نہ ہوجاتے اور ہزاروں آدمی قتل ہی کیوں نہ ہوجاتے تھے۔اور دوسری بات یہ کہ قتل ہونے والا اور گرفتار ہونے والے تینوں ہی مکہ کے معززین میں سے تھے جس سے قریشِ مکہ کو صاف طور پر یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اب ہمارا تجارتی راستہ محفوظ نہیں رہا جس کا مطلب یہ تھا کہ جان اور مال دونوں ہی مستقل خطرے میں پڑ گئے۔اب انہیں چاہئے تو یہ تھا کہ صلح صفائی کا راستہ نکالتے مگر چونکہ اَڑیل اور جاہل تھے اس لئے انہوں نے دوسرا راستہ نکالا یعنی جنگ کا۔اور ویسے بھی ہجرت کے بعد سے ہی قریش کو اس بات کا غم تھا کہ محمد ﷺ ہمارے ہاتھوں سے کیسے نکل گئے ،یہی وجہ تھی کہ وہ ہجرت کے بعد سے ہی مدینہ پر حملے کی تیاری کر رہے تھے اورمدینہ کے آس پاس کی بستیوں کو لوٹ بھی لیا کرتے تھے بلکہ ایک مرتبہ توانہوں نے مدینہ کی حدود میں آکربھی لوٹ مار کی۔جب اس طرح کی دشمنی والی فضاء بن جائے تو پھر بہت ساری غلط فہمیاں اور افواہیں بھی پھیل جاتی ہیں۔یہی صورت حال اس وقت پیش آئی کہ جب عمرو بن حضرمی کے قتل کے بعد ابو سفیان کی قیادت میں قریش کا ایک بہت بڑا قافلۂ تجارت شام سے روانہ ہوا اور جس میں قریش کا بہت سارا سامانِ تجارت تھااورتقریباً تمام قریش کا سرمایہ(پیسہ) اس میں لگا ہوا تھا۔ابھی یہ قافلہ راستے میں ہی تھا کہ یہ بات مشہور ہوگئی کہ محمد ﷺ قافلے پر حملہ کرنے آرہے ہیں ۔یہ سن کر ابو سفیان نے ایک تیز رفتار قاصد مکہ روانہ کیا کہ مکہ والوں کو مدد کیلئے بلایا جائے ۔مکہ میں جب یہ خبر پہنچی تو پورا مکہ جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہو گیااوربہت جلد تیرہ سو آدمیوں کا ایک لشکر مکہ سے قافلے کی مدد کیلئے روانہ ہواجن میں سو گھڑ سوار،چھ سو زرہ پوش ،کافی تعداد میں اونٹ اور جنگی سامان موجود تھا۔ادھر مدینہ میں بھی قریش کی روانگی کی اطلاع پہنچ چکی تھی۔آپ ﷺ نے صحابہؓ سے مشورہ فرمایا۔ تمام صحابہؓ نے ایک ہی بات کی کہ اگر آپ ﷺحکم فرمائیں تو ہم سمند ر میں بھی کود سکتے ہیں اور آگ میں بھی۔یہ سن کر آپ ﷺ نے خوشی کاا ظہار فرمایا اور اس کے ساتھ ہی اسلامی لشکر بھی مدینہ سے روانہ ہو گیا ،مگر اسلامی لشکرکے پاس صرف دو گھوڑے اور چند اونٹ تھے کہ جن پر صحابہؓ باری باری سفر کرتے تھے جبکہ اسلحہ بھی پورا نہیں تھامگر
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
ابھی دونوں لشکر راستے میں تھے کہ تجارتی قافلے کے سردار ابو سفیان کا پیغام مکہ کے لشکر کو ملا کہ ہم مسلمانوں کی پہنچ سے نکل گئے ہیں ،لہٰذا اب لڑنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ تم لوگ واپس چلے جاؤ۔مگر وہ ابو جہل ہی کیا جو واپس چلا جاتا۔وہ اَڑگیا کہ اب آ گئے ہیں تو واپس نہیں جانا چاہئے۔اس بات پر قریش میں اختلاف پیدا ہو گیااور قبیلہ زہرہ اور عدی کے لوگ واپس چلے گئے کہ جب قافلہ بچ کے نکل گیا ہے تو لڑنے کا کیا فائدہ۔تین سو آدمیوں کے واپس چلے جانے کے بعد قریش کا ایک ہزار کا لشکر بچ گیا۔ان ایک ہزار میں سے بھی کچھ لوگ ایسے تھے کہ جو لڑنے کیلئے تیار نہیں تھے کہ جب قافلہ صحیح سلامت نکل گیا تو اب لڑنے کا کیا مقصد؟؟مگر ابو جہل نے انہیں بزدلی کے طعنے دینے شروع کر دئیے۔جبکہ عربوں میں بزدلی ایک بہت بڑا عیب تھا اور بزدلی کا طعنہ اتنا برا طعنہ تھا کہ یہ سننے سے مرجانا زیادہ بہتر سمجھا جاتا تھا۔یہی وجہ تھی کہ جو نہیں لڑنا چاہتے تھے ،وہ بھی لڑنے کو تیار ہوگئے۔قریش چونکہ بدر کے مقام پر پہلے سے پہنچ چکے تھے یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مناسب جگہ پر پہلے سے قبضہ جمالیا۔دوسری جانب جہاں اسلامی لشکر نے پڑاؤڈالا تھا وہاں اتنی ریت تھی کہ اونٹوں کے پاؤں دھنس رہے تھے۔حضرت حبابؓ بن منذر ایک جرنیل صحابی تھے،انہوں نے آپ ﷺ سے پوچھا کہ یہاں ٹھہرنا وحی کی وجہ سے ہے یا جنگی حکمت عملی کی وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا وحی کی وجہ سے نہیں ہے ۔حضرت حبابؓ نے فرمایا کہ یہ جگہ مناسب نہیں ذرا آگے چل کر قریش کے قریب ترین پانی کے چشمے پر قبضہ کرلیا جائے اور باقی کنویں اور چشمے بیکار کردئیے جائیں تاکہ ہمیں پانی ملتا رہے اور انہیں نہ مل سکے۔یہ ایک جنگی حکمت عملی تھی جسکو آپ ﷺ نے پسند فرمایا۔اور آگے بڑھ کر چشمے پرقبضہ کرلیا،مگر آپ ﷺ چونکہ رحمتِ عالم تھے اس لئے اگر کفار میں سے کوئی پانی لے بھی جاتا تو منع نہیں فرماتے تھے۔چونکہ مسلمان بے سروسامانی کی حالت میں یہ امتحان دینے نکلے تھے کہ جس پر اللہ کی مدد اور فتح کا وعدہ تھا ،لہٰذا یہ کیسے ہو سکتا تھاکہ یہ وعدہ پورا نہ ہوتا۔بس پھر اسی رات اللہ کی طرف سے احسانات اور انعامات کی بارش شروع ہو گئی۔اور اللہ کی طرف سے پانچ انعامات عطاء فرمائے گئے۔
(۱)پہلا انعام اللہ کی طرف سے اسی رات رحمت یعنی بارش کی شکل میں نازل ہوا،جس سے پہلا فائدہ تویہ ہواکہ جس ریت میں اونٹوں کے پاؤں دھنس رہے تھے ،وہ جم گئی اور اس پر قدم ٹکنے اور ٹھہرنے لگے جبکہ دوسرا فائدہ یہ ہوا کہ چونکہ مسلمان بدر کے اونچے حصے پر تھے ،اور کفار کی طرف زمین نیچی تھی اسی لئے مسلمانوں نے ریت کی دیواروں کے حوض بنا کرپانی روک لیاتاکہ اسے وضو،غسل اور پینے کیلئے استعمال کیا جاسکے جبکہ کفار کو اس کا نقصان یہ ہوا کہ باقی سارا پانی ،ان کی طرف بہہ کر وہاں جمع ہو گیا اور اچھی خاصی دلدل بن گئی جسکی وجہ سے وہاں چلنا پھرنا مشکل ہو گیا ۔
(۲) مسلمانوں کے جسموں کے ساتھ ساتھ ان کے دلوں کو بھی اللہ نے شیطان کے وسوسوں سے پاک کردیا اور انہیں ایک خاص سکون ، تازگی اور بے خوفی عطاء فرمادی۔
(۳) اس رات اللہ نے مسلمانوں کو چین کی نیند سلا دیا جس کی وجہ وہ جنگ کی صبح تر و تازہ ہو چکے تھے جبکہ قریش نے ساری رات بے چینی میں گزاری۔
(۴)کافروں کے دلوں میں اللہ ربّ العزت نے مسلمانوں کا رعب ڈال دیا۔
(۵)جنگ کے دوران جب اللہ کے نبی ﷺ اللہ سے مسلمانوں کی مدد کی دعا فرمارہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ’’اے اللہ! آج اگرتو نے مسلمانوں کی مدد نہ کی اور یہ مارے گئے تو پھر قیامت تک تیری عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا،اے اللہ! اپنے مددکے وعدے کو پورا فرما‘‘تو مالک الملک نے آسمانوں سے فرشتوں کی فوج اتاری۔
۷۱رمضان المبارک ،۲ہجری جنگ کی صبح آپ ﷺ نے خود صحابہؓ کی صفیں درست فرمائیں۔اور حکمت عملی یہ رکھی گئی کہ کفار جب حملہ کریں گے تو مسلمان صرف اپنا دفاع کریں گے یعنی ان حملوں کو روکیں گے اوراپنی طرف سے کوئی حملہ نہیں کریں گے جب تک کہ سرکار دوعالم ﷺ کی طرف سے حکم نہیں دیا جائے گا، چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور جب کفار حملے کر کرکے تھک گئے تو حکم ہوا کہ اب مسلمان حملہ شروع کریں چنانچہ جب مسلمانوں نے حملہ کیاتوصفوں کو چیرکر رکھ دیااور لاشوں کے کھیت ڈالدئیے ۔
سارے جنگی واقعات کو چھوڑ کر ہم جنگ کے انجام کی طرف آتے ہیں کہ جس سے اندازہ ہوگا کہ اس وقت جبکہ اللہ کی مدد اتر چکی تھی ،اس وقت اللہ کے دشمنوں کا کیا حشر ہوا؟اس جنگ میں چودہ(۱۴)صحابہ کرام نے شہادت نوش فرمائی جبکہ قریش اپنی ستر لاشیں چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور انکے اوّل درجے کے سارے سرداروں کی بھی صفائی ہوگئی تھی،جن میں ابوجہل،عتبہ بن ربیعہ،شیبہ بن ربیعہ،ابوالبختری،زمعہ بن الاسود،عاص بن ہشام اورامیّہ بن خلف شامل ہیں۔جبکہ ستّر ہی گرفتار ہوئے جن میں دوسرے درجے کے سارے سردار شامل تھے۔یہ تھااسلام کی پہلی جنگ،جنگ بدر کا واقعہ کہ جس میں اللہ نے اپنے احسانات کی بارش کر دی۔
فضائے بدر پیدا کر، فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں میں قطار اندرقطار اب بھی
اقبالؒ