skip to Main Content

پکا وعدہ

نادیہ احمد
۔۔۔۔۔

سعد اور فہد چھٹیوں میں دادا سے ملنے گئے تو مانو بلی بھی ان کے ساتھ ہی گئیں۔ سعد اور فہد کے دادا جی ایک چھو ٹے سے قصبے میں رہتے تھے۔ دادا جی نے ایک گلہری بھی پال رکھی تھی۔ بی گلہری بڑی شرارتی تھی۔تھوڑی دیر میں ہی مانو بلی اوربی گلہری کی دوستی ہو گئی۔
ٍٍٍ وہ دونوں دادا سے ملے تو دادا بہت خوش ہوئے۔ سعد نے اپنے ہاتھ سے بنا ہوا بہت پیارا کارڈ بھی دادا کو دیا۔دادا کے گھر کے پیچھے ایک چھوٹا سا پیارا سا باغ تھا۔ جہاں ایک خوبصورت تالاب میں رنگ برنگی مچھلیاں تیرتی نظر آتی تھیں۔ وہاں ایک پیاری سی بطخ بھی رہتی تھی۔سعد اور فہد کو وہ پارک بہت پسند تھا۔
انہوں نے جاتے ہی دادا سے کہا کہ باغ کی سیر کے لیے چلیں۔
دادا نے کہا۔ ’’پہلے کھانا کھا کر آرام کرو پھر باغ کی سیر کیلئے چلے جانا۔‘‘
سعد اور فہد نے دادی کے ہاتھ کا مزیدار کھانا کھایا اور باغ کی طرف روانہ ہوئے کیونکہ باغ گھر سے زیادہ دور نہیں تھا اس لئے دادی نے انہیں اکیلے جانے کی اجازت بھی دے دی۔ سعد اور فہد کے ساتھ ساتھ مانو بلی اور بی گلہری بھی چلیں۔
موسم بہت خوشگوار تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔اور آسمان پر بہت سے بادل بھی تھے۔ ابھی وہ باغ پہنچے ہی تھے کہ بی گلہری بھاگ کر درختوں میں چھپ گئیں کیونکہ وہ تو وہاں کے چپے چپے سے واقف تھیں ۔مانو بلی بھی بی گلہری کے ساتھ ہی ہولیں کہ اچانک بارش شروع ہوگئی۔سعد اور فہد ایک درخت کے نیچے کھڑے ہو گئے۔بارش کی بوندوں کے دائرے میں تیر تی رنگ برنگی مچھلیاں،تالاب میں ہمیشہ کی طرح بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔
اتنے میں سعد کی نظر بطخ پر پڑی۔ اس بار بطخ کے ساتھ اس کے تین ننھے منے، پیارے پیارے بچے بھی تھے۔ بطخ کے بچے دیکھ کر سعد اور فہد بہت خوش ہو گئے۔تھوڑی دیر میں ہی بارش رک گئی تو فہد نے دیکھا بی گلہری جھولے کے نیچے بارش سے چھپی بیٹھی تھیں۔ ’’مگر یہ کیا؟ مانو بلی کہاں گئی؟‘‘ فہد نے فوراً کہا۔
ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس کی نظر درخت کے اوپر پڑی۔ مانو بلی حسب عادت درخت پر چڑھی سورہی تھیں۔ سعد کو یہ دیکھ کر بہت ہنسی آئی۔ اس نے فہد سے کہا، کہ اب اس کو نیچے کیسے اتاریں؟
سعد نے درخت کی طرف دیکھا اور ’’میاؤں‘‘کی آواز نکالی۔ مانو بلی نے جیسے ہی فہد کی آواز سنی ،چھلانگ لگا کر کودی اور سعد کی گود میں چڑھ گئی اور فہد نے بی گلہری کو اٹھایا۔
’’چلو سعد! دادا جی انتظار کررہے ہو ں گے۔‘‘ فہد نے کہا۔
’’ مگر ابھی تو ہمیں بہت کھیلنا ہے۔ دیکھو نا! ہمارے شہر میں اتنا پیارا باغ ہی نہیں ہے۔‘‘
’’ باغ کیوں نہیں ہے؟‘‘فہد بولا۔
’’نہیں…وہ… باغ تو ہے، مگر اتنا صاف ستھرا نہیں ہے۔‘‘ سعد نے فوراً کہا۔
’’ ہاں یہ بات بھی ہے۔ باغ تو ہے لیکن صاف ستھر ا نہیں ہے۔لیکن بھئی صاف ستھرا رکھنا کس کی ذمہ داری ہے؟ ‘‘فہد نے سوال کیا۔
’’ کس کی؟‘‘ سعد بولا۔
’’ارے بھئی اپنے اردگرد کی چیزوں کو صاف ستھرارکھنے کی ذمہ داری ہم سب کی ہے ناں۔‘‘ فہد نے کہا۔
’’اوہ ہاں!‘‘ سعد نے فوراً کہا۔
’’یہ ہمارا فرض بھی ہے اور’صفائی نصف ایمان بھی ہے۔‘ ہمارے ٹیچر نے یہی بتایا تھا۔‘‘
’’ہمم! بالکل ٹھیک!‘‘فہدنے کہا۔
’’چلو پھر وعدہ کریں کہ اپنے شہر کے با غ کو بھی اتنا خوبصورت بنائیں گے۔‘‘
’’پکا وعدہ!!!‘‘
سعد اور فہد نے ایک آواز ہو کر کہا۔۔ اور گھر کی طرف چل دیئے۔۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top