skip to Main Content

جنگلینا اور بونی

سائرہ شاہد
۔۔۔۔۔

ایک ہرے بھرے جنگل میں بہت سارے جانور اور پرندے رہتے تھے۔ اُن جانوروں کے ساتھ ایک ننھی سی لڑکی جنگلینا بھی رہتی تھی جسے سب جانور اور پرندے بہت پیار کرتے تھے۔ جنگلینا بھی ان سب کا خیال رکھتی اور انھیں اچھی اچھی باتیں سکھاتی تھی۔ اس جنگل میں ایک چھوٹا سا بھالو بھی رہا کرتا تھا جس کا نام بونی تھا۔ بونی ہر وقت کھانے کی فکر میں لگا رہتا اور بہت سارا کھانا کھاتا تھا۔
’’بس کرو بونی! تم سب کے ساتھ کھانے بیٹھے تھے لیکن اب تک تمھارا پیٹ نہیں بھرا۔‘‘ایک دن جنگلینا نے کہا تو بونی نے دونوں ہاتھوں سے کھانا منہ میں ڈالتے ہوئے جواب دیا:
’’ابھی تو شروع کیا ہے جنگلینا! میرا پیٹ نہیں بھرا۔‘‘
اُس کی بات سُن کر سب ہنسنے لگے اور سفید بلی اسٹیلا نے ببلی بندریا کو اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’بونی بھیا نے ابھی کھانا شروع ہی نہیں کیا، صرف ذائقہ چکھ رہے تھے۔ ہیں نا بونی بھیا؟‘‘
اسٹیلا کی بات سُن کر بونی نے زور زور سے سر ہلایا کہ وہ ٹھیک کہہ رہی ہے اور اسٹیلا ببلی کی طرف دیکھ کر ہنسنے لگی۔
’’ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنا اچھی بات نہیں ہے بونی! تم بیمار ہو جاؤ گے۔‘‘جنگلینا نے بونی کے قریب بیٹھتے ہوئے کہا اور اس کے سامنے سے باقی کھانا اٹھا کر ایک طرف رکھنے لگی۔
’’میں بہت طاقتور ہوں جنگلینا! وہ دیکھو وہ برگد کا پیڑ ہے نا بالکل اُسی کی طرح طاقتور۔‘‘بونی نے اُس کے ہاتھ سے شہد کی بوتل واپس لیتے ہوئے جواب دیا تو جنگلینا نے افسوس سے سر ہلایا اور وہاں سے اُٹھ کر چلی گئی۔
بونی کھانے سے فارغ ہو کر برگد کے پیڑ کی جانب چل دیا جہاں لوہے کی زنجیروں کو پیڑ کی شاخ سے باندھ کر لکڑی کے تختے کا جھولا بنایا گیا تھا۔ اُسے جھولے کی طرف جاتا دیکھ کر ڈیزی چڑیا اُڑ کر اس کے کندھے پر جا بیٹھی، اسٹیلا بلی اور گوچی گلہری بھی اس کے پیچھے لپکیں کیوں کہ انھیں پتہ چل گیا تھا کہ اب کھیل کا وقت ہے۔ بونی کے ساتھ ساتھ وہ سب بھی باری باری جھولے لینے لگیں۔

*****

’’آ جاؤ اسٹیلا! تم بھی جھولے لو۔‘‘کچھ ہی دن گزرے تھے کہ بونی روز کی طرح جھولے لے رہا تھا اور اس نے اسٹیلا کو آواز دی ۔
اسٹیلا چھلانگ لگا کر جھولے پر چڑھ گئی اور بونی کی گود میں جا بیٹھی۔ ڈیزی چڑیا نے بھی شور سنا تو گھونسلے سے نکل کر بونی کے کندھے پر جھولے لینے جا بیٹھی۔ اتنے میں گوچی گلہری اور ببلی بندریا بھی وہاں آ گئیں۔ گوچی نے اسٹیلا کے پنجے پکڑ لیے اور ببلی نے اچھل کر جھولے کی زنجیر پکڑ لی۔ اب وہ سب مزے سے جھولے لے رہے تھے۔ بونی زمین پر اپنے پاؤں رکھتا اور پاؤں کو جھٹکا دے کر پیچھے کی طرف جاتا تو جھولے کی رفتار تیز ہو جاتی۔ کچھ ہی دیر بعد کڑ کڑ کی آواز آئی اور سب کی چیخیں بلند ہوئیں۔ ڈیزی اڑ کر ایک شاخ پر جا بیٹھی، اسٹیلا اور گوچی نے زور سے چھلانگ لگائی اور جھولے سے اتر گئیں۔ ببلی نے نیچے چھلانگ لگائی اور دور تک بھاگتی چلی گئی جب کہ بونی برگد کی ٹوٹی شاخ اور جھولے سمیت زمین پر پڑا کراہ رہا تھا۔
’’اوئی۔۔۔۔ مر گیا۔۔۔‘‘بونی نے اپنی ٹانگیں پکڑتے ہوئے دہائی دی تو جنگلینا جلدی سے بھاگ کر آئی اور جھولے کے نیچے سے اس کی ٹانگیں نکالنے لگی۔ ایک دم ہونے والا شور سن کر وہ اپنی جھونپڑی سے باہر آئی تھی اور ان کی بھاگ دوڑ دیکھی تھی۔ اسٹیلا، ببلی، گوچی اور ڈیزی بہت ڈری ہوئی تھیں اور برگد کی ٹوٹی ہوئی شاخ کو دیکھ رہی تھیں۔
’’بونی تم ٹھیک ہو؟‘‘جنگلینا نے فکر مندی سے سوال کیا تو بونی نے سر جُھکا لیا۔
’’ضرورت سے زیادہ بوجھ نے برگد کا بازو توڑ دیا اور بونی بھیا کی ٹانگیں۔۔۔۔‘‘ببلی کی زبان پھسلی تو جنگلینا نے اُسے گھورتے ہوئے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
’’مجھے معاف کر دو جنگلینا! آئندہ میرا پیٹ ہو یا کوئی پیڑ، ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالوں گا۔‘‘بونی نے اپنی ٹانگیں سہلاتے ہوئے کہا تو ڈیزی اڑ کر جنگلینا کے کندھے پر آ بیٹھی۔
’’برگد کی قربانی سے بونی بھیا سدھر جائیں تو۔۔۔۔۔‘‘ڈیزی نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ جنگلینا نے اس کی چونچ پکڑ کر اُسے اُٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔
’’ہمارا طاقتور بونی اب ضرور سدھر جائے گا ان شاء اللہ۔‘‘جنگلینا نے مسکراتے ہوئے بونی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا تو سب لوگ کھلکھلانے لگے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top