skip to Main Content

پیغمبروں کی سرزمین

کلیم چغتائی
۔۔۔۔۔

اردن ایک اہم اسلامی ملک ہے۔ یہ ملک ایک تاریخی سرزمین پر واقع ہے۔ اس سرزمین پر”وادی موسیٰ“ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام فرمایا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کی قبریں بھی اسی خطہ ارض میں ہیں۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں موتہ کے مقام پر مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان پہلی جنگ ہوئی تھی اور جس میں حضرت زید بن حارثہ، حضرت جعفر طیار اور دیگر کئی صحابہ کرام نے شہادت کا مرتبہ پایا تھا۔ یہیں وادی شعیب علیہ السلام ہے اور اسی ملک سے متصل سرزمین فلسطین ہے جہاں مسلمانوں کاقبلہ اول، بیت المقدس ہے۔
اُردن کے شمال میں شام، مشرق میں عراق، جنوب میں سعودی عرب اور مغرب میں فلسطین واقع ہے۔
اُردن کو شمال سے جنوب تک ایک وادی دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے۔ دریائے اردن اسی وادی سے ہو کر بہتا ہے اور آخر کار بحیرہ مردار میں جا گرتا ہے۔ انیس سو اڑتالیس (1948ء) تک دریائے اردن کی مشرقی جانب والے حصے کو شرق اردن اور مغربی جانب والے حصے کو فلسطین کہا جاتا تھا۔ اس سال انگریزوں نے فلسطین کو اس طرح تقسیم کر دیا کہ اس کا مغربی حصہ جو نہایت سرسبز ہے، یہودیوں کے حوالے کر دیا اور مشرق کی طرف کا کچھ حصہ عربوں کو دے دیا۔ اگلے سال شاہ عبداللہ (اردن کے موجودہ شاہ عبداللہ ثانی کے پردادا) نے اس علاقے کو اپنی مملکت میں شامل کر لیا۔ انھوں نے اپنی مملکت کو شرق اردن کی بجائے ”المملکۃ الاردنیہ الہاشمیہ“ کا نام دیا۔ آج بھی اردن کا سرکاری نام یہی ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے پہلے، اردن کی سرزمین پر اشوریوں اور قبطیوں کا قبضہ رہا۔ ایک سو چھے عیسوی میں رومیوں نے اسے فتح کر لیا۔ چھے سو چھتیں عیسوی میں تیس ہزار مسلمان سپاہیوں کے لشکر نے ڈھائی لاکھ رومیوں کے لشکر کو شکست دی۔ یہ جنگ دریائے یرموک کے کنارے لڑی گئی۔ یہ خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق کا زمانہ خلافت تھا۔ حضرت ابو عبیدہ نے اس سال اس پورے علاقے کو فتح کر لیا، جہاں اردن واقع ہے۔ بعد میں چند شہر حضرت خالد بن ولید اور حضرت عمرو بن العاص نے فتح کیے۔ یہ علاقہ سینکڑوں برس تک اسلامی ریاست کا حصہ رہا۔
گیارہویں صدی عیسوی ختم ہونے کو تھی، جب عیسائیوں نے سلطنت یروشلم قائم کر کے اردن کو اس کا حصہ بنا لیا۔ تقریباً سو برس بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کو کھلی شکست دی۔ پندرہ سو سے انیس سو عیسوی تک اردن، خلافت عثمانیہ کا حصہ رہا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد اردن فرانس کے مقبوضہ علاقے کے طور پر شام میں شامل رہا۔ بعد میں برطانیہ اور فرانس کی سازش کے نتیجے میں دریائے اردن کی مشرقی جانب والا حصہ برطانیہ کومل گیا۔ تقریبا پچیس برس بعد برطانیہ نے اردن کو خود مختاری دے دی۔
چودہ مئی انیس سو اڑتالیس (1948ء) عیسوی کو یہودیوں نے نئی ریاست ”اسرائیل“کے قیام کا اعلان کیا۔ عرب افواج فلسطین میں داخل ہو گئیں۔ مسجد اقصیٰ، گنبد صحرا اور بیت المقدس، اردن کے زیر انتظام آئے لیکن انیس سوسڑ سٹھ میں اسرائیل نے اردن پر حملہ کیا اور چھے روز کی جنگ میں پورے بیت المقدس اور مغربی کنارے کے تمام علاقے پر قبضہ کر لیا۔
اردن کو اس لحاظ سے بڑی اہمیت حاصل ہے کہ یہاں جبل موسیٰ نام کا پہاڑ ہے۔ اس کا قدیم نام سینا ہے۔ اس کا نام طور بھی ہے اور اسی کی وادی کو قرآن مجید نے وادی مقدس کہا ہے۔ طور وہ پہاڑ ہے جس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دو بار طلب کیا گیا۔ ایک بار اللہ تعالیٰ نے آپ سے کلام کر کے آپ کو نبوت عطا فرمائی اور دوسری بار آپ اس وقت طلب کیے گئے جب بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کے بعد، حضرت موسیٰ کو بنی اسرائیل کے لیے شریعت عطا کی گئی۔
اردن کی جنوبی سمت عقبہ کی مشہور بندرگاہ ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جو قدیم زمانے میں ”ایلہ“ کہلاتی تھی۔ جہاں بنی اسرائیل نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی۔ اللہ نے انھیں حکم دیا تھا کہ ہفتے کے روز دنیا کا کوئی کام نہ کیا جائے لیکن بنی اسرائیل نے نافرمانی کی۔ وہ اس دن مچھلیاں پکڑتے تھے اور تجارت کرتے تھے۔ ہفتے کے دن کو ”سبت“کہتے ہیں۔ بنی اسرائیل نے سبت کے دن نافرمانی کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کیا اور ان کو بندر بنا دیا۔ اس واقعے کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔
شرق اردن کے علاقے میں کسی زمانے میں قوم ثمود بھی آباد تھی۔ اس قوم کے لوگ بڑے ہنر مند تھے اور پہاڑوں کو تراش کر ان میں عمارتیں بناتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو پیغمبر بنا کر اس قوم کی طرف بھیجا تھا لیکن اس قوم نے اللہ کے احکام کی نافرمانی کی اور اس پر بھی عذاب آیا۔ ایک زبردست زلزلے نے سینکڑوں میل تک کے علاقے کو تباہ کر دیا۔
بحیرہ احمر اور خلیج عقبہ کے کنارے پر مدین کا علاقہ تھا۔ جزیرہ نما سینا کے مشرقی ساحل پر بھی اس کا سلسلہ پھیلا ہوا تھا۔ اللہ نے حضرت شعیب علیہ السلام کو اپنا نبی بنا کر بھیجا تھا لیکن یہ قوم ناپ تول میں بے ایمانی کرنے لگی اور مسافروں کو لوٹنے میں لگ گئی اس لیے اس پر بھی عذاب آیا اور وہ تباہ ہوگئی۔
شرق اردن ہی کے علاقے میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم رہتی تھی۔ ان کے صدر مقام کا نام سدوم تھا جو بحیرہ مردار کے قریب واقع تھا۔ اس قوم نے بے حیائی کے کام کیے اور حضرت لوط علیہ السلام کے بار بار سمجھانے کے باوجود باز نہ آئی، آخر اللہ تعالیٰ نے ان پر پتھروں کی بارش برسائی، ان کی بستیوں کو الٹ کر رکھ دیا۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال پہلے کی بات ہے۔ قوم لوط کے تمام شہر بحیرہ مردار میں غرق ہو گئے۔
اردن مجموعی طور پر ایک گرم اور خشک ریگستانی ملک ہے۔ یہاں موسم گرما میں شدید گرمی پڑتی ہے، البتہ رات میں درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے۔ گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت پچاس درجے سینٹی گریڈ ہو سکتا ہے۔ سردیوں میں اوسط درجہ حرارت دس در جے سینٹی گریڈ رہتا ہے۔
اردن کا دارالحکومت عمان ہے۔ یہی ملک کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ اس کی آبادی دس لاکھ کے قریب ہے۔ آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا شہر الزرقا ہے جس کی آبادی چار لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ دیگر اہم شہروں میں غضبہ، عر بد اور الکرک شامل ہیں۔
اردن میں دو بڑی یونیورسٹیاں ہیں۔ عمان میں تین بڑے کتب خانے موجود ہیں۔ ملک کی بیاسی فی صد آبادی لکھنا پڑھنا جانتی ہے۔

اردن،مختصر معلومات
سرکاری نام:المملکۃ الأردنیۃ الہاشمیہ
رقبہ:89556 مربع کلومیٹر
آبادی:47 لاکھ 55ہزار
دار الحکومت:عمان
کرنسی:دینار
سرکاری زبان:عربی
اہم فصلیں:گندم، جو، زیتون، کیلا، انگور، ٹماٹر، تربوز، انجیر، بادام
اہم صنعتیں:پلاسٹک، سیمنٹ، سوتی کپڑا، تیل کی صفائی، بجلی کا سامان

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top