skip to Main Content

پالتو

احمد عدنان طارق

۔۔۔۔۔۔۔

اگر آپ کے پاس بھی پالتو جانور ہے تو یہ کہانی آپ کے لیے بہت ہی خاص ہے

۔۔۔۔۔۔۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے۔ دور کہیں ایک لڑکا ناصر رہتا تھا۔ اس کی ایک پالتو بلی تھی جس کا نام مانو تھا۔ شروع شروع میں وہ دونوں اکثر سیر کے لیے اکٹھے نکلتے۔ مانو اپنے مالک سے بہت محبت کرتی تھی لیکن لڑکے کو اب مانو سے کوئی اتنی رغبت نہیں تھی۔ اگرچہ اس کا فرض یہ تھا کہ وہ اس بے زبان جانور کا خیال رکھے لیکن کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ وہ خود تو کھیلنے چلا جاتا اور مانو کو یکسر بھول جاتا۔ مانو گھر کے صحن میں اپنے لیے بنے ہوئے چھوٹے سے گھر میں رہتی تھی۔ اگرچہ یہ ایک خوبصورت گھر تھا مگر ہر گھر کی طرح اس کو بھی صفائی کی ضرورت تھی۔ کم از کم ہفتہ میں ایک بار۔ مگر کئی دفعہ ناصر کو یاد رہتا اور کئی دفعہ نہیں۔
مانو کو صاف اور تازہ پانی پینا بہت پسند تھا لیکن ناصر کئی دفعہ اس کے برتن میں صاف پانی ڈالنا بھی بھول جاتا۔ حتیٰ کہ پانی پڑا پڑا سبز اور باسی ہوجاتا اور اس سے بہت گندی بو آنی شروع ہوجاتی اور کئی دفعہ تو دو دودن گزر جاتے اور بے چاری مانو۔
ناصر کی امی نے اسے کہا کہ بیٹا اب سردی بہت بڑھ گئی ہے۔ کیا تم نے مانو کے گھر میں جھانکا ہے وہاں کچھ کپڑے یا بستر ہے جو گرم ہو جس سے بے چاری مانو کو زیادہ سردی نہ لگے؟ ناصر نے ماں کے آگے تو ہاں کردی لیکن اصل میں اس نے اس بات کا خیال نہیں رکھا۔ مانو نے کھیل کھیل کر پرانا بستر چیتھڑوں میں تبدیل کر لیا تھا۔ اب وہ رات کو ننگے فرش پر لیٹتی تھی۔ اور ساری رات سردی میں ٹھٹھرتی رہتی۔ وہ کئی دفعہ خیالوں ہی خیالوں میں ناصر کے گرم بستر کے متعلق سوچتی اور اس کا دل مچلتا کہ وہ اس کے ساتھ بستر میں گھس جائے لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتی تھی۔ کیونکہ رات کو اسے دڑبے میں بند کر دیا جاتا تھا اور وہ مجبوری میں ساری رات سردی جھیلتی۔
ایک رات جب مانو اپنے گھر میں کانپ رہی تھی۔ ایک بونے کا ادھر سے گزر ہوا۔ جو اپنے لیے دودھ لینے جارہا تھا۔ اس نے مانو کے دانت بجنے کی آواز سنی۔ لہٰذا اس نے مانو کے گھر میں جھانکا۔ اس نے مانو سے پوچھا کہ اسے کیا مسئلہ ہے؟ تمھیں تو بڑی سردی لگ رہی ہے۔ کیا تمہارے پاس اوڑھنے کے لیے کوئی لحاف نہیں ہے؟
مانو نے کہا: ”نہیں میرے پاس اوڑھنے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ بلکہ میرا پانی بھی اتنا ٹھنڈا ہو گیا ہے کہ پیاس لگنے کے باوجود میں اسے پی نہیں سکتی۔ ناصر پانی دوبارہ رکھنا بھول گیا ہے۔ وہ تو اب مجھے سیر کرنے کے لیے بھی ساتھ نہیں لے کر جاتا۔ لہٰذا مجھے موقع ہی نہیں ملتا کہ میں تھوڑی ورزش کرکے اپنے جسم کو گرم کرسکوں۔“ پھر اس نے بونے سے درخواست کی کہ کیا وہ اسے پینے کے لیے تھوڑا پانی لا کر دے سکتا ہے۔ اس نے بونے کو بتایا کہ قریبی ندی سے اسے پینے کا پانی مل جائے گا۔ بونے نے پانی کے برتن میں جمی ہوئی برف کو توڑا اور پھر اسے خالی کرکے ندی کی طرف دوڑ کر گیا۔ اس نے برتن میں پانی بھرا اور لا کر مانو کے قریب رکھ دیا۔ پھر اس نے مانو سے کہا کہ اس کی خواہش ہے کہ کہیں سے اسے اوڑھنے کے لیے لحاف مل جائے جو وہ مانو کو لا کر دے تاکہ مانو کو سردی نہ لگے۔ مگر مانو نے بونے سے کہا کہ کوئی بات نہیں، امید ہے ناصر کو کل یاد آجائے گا اور وہ مجھے اوڑھنے کے لیے کوئی گرم چیز لادے گا۔
بونا یہ سن کر دودھ لینے چلا گیا۔ وہ بہت ناراض تھا۔ اسے مانو کی حالت پر بہت ترس آرہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح مانو کو اوڑھنے کے لیے کوئی لحاف مل جائے۔ پھر اسے یاد آیا کہ قریب ہی ایک اچھا آدمی رہتا ہے،جو ہر وقت لوگوں کی مدد کرتا رہتا ہے۔ لہٰذا وہ دودھ لے کر سیدھا اس آدمی کے گھر چلا گیا۔ اس نے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک سیاہ بلی نے دروازہ کھولا اور بونا اس کے پیچھے پیچھے گھر کے اندر داخل ہوگیا۔ اس نے جلدی جلدی مانو کا حال اس شخص کو سنایا۔ یہ شخص جادو بھی جانتا تھا لیکن یہ برا جادوگر نہیں تھا۔ جادوگر سنتا گیا اور غصے میں آتا گیا۔ اس لاپروا لڑکے کو ضرور سزا ملنی چاہیے۔ یہ کہہ کر اس نے دونوں ہاتھوں سے تالی بجائی تو سیاہ بلی دوبارہ اندر آئی۔ اسے جادوگر نے حکم دیا کہ جاؤ پولیس والے کو بلا کرلاؤ۔ بلی یہ سنتے ہی غائب ہوگئی اور جب وہ دوبارہ نمودار ہوئی تو اس کے ساتھ ایک موٹا پولیس آفیسر بھی تھا۔ جادوگر نے اس کو حکم دیا کہ جاؤ اور ناصر کو گرفتار کرکے لاؤ جو نزدیک ہی رہتا ہے۔ کل صبح اسے عدالت میں پیش کرو اور اس پر ایک چھوٹے بے بس اور بے زبان جانور پر ظلم کرنے کا مقدمہ چلاؤ۔ پولیس والے نے یہ سن کر جادوگر کو سلام کیا اور غائب ہوگیا۔
ناصر بڑے مزے سے اپنے گرم گرم بستر میں سو رہا تھا کہ اچانک اپنے قریب چمکنے والی لالٹین کی روشنی سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے دیکھا ایک موٹا پولیس آفیسر اس کے سرہانے کھڑا ہے۔ اس نے سختی سے ناصر کو حکم دیا کہ وہ فوراً اس کے ساتھ چلے وہ اسے اپنی پالتو بلی کے ساتھ ظلم کرنے کے الزام میں گرفتار کرتا ہے۔ بے چارے ناصر نے اپنا کوٹ پہنا اور پولیس والے کے ساتھ ہولیا۔ موٹے پولیس والے نے اچانک اپنے پر کھولے اور فضا میں اڑنے لگا۔ اس نے مضبوطی سے ناصر کو پکڑا ہوا تھا۔ ناصر کے لیے بھاگنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ ناصر نے رات جادوگر کے مکان پر گزاری اور صبح موٹا پولیس والا اسے عدالت میں لے گیا۔ جس میں ایک جج تنہا عدالت میں سب سے اونچی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی کمر پر بھی پولیس والے کی طرح پر موجود تھے۔ نیچے بینچوں پر سات آٹھ افراد موجود تھے۔ سب کی کمر پر پر تھے۔ یہ جیوری کے ارکان تھے۔
”یہ ناصر ہے۔“ ناصر کو لانے والے پولیس آفیسر نے جج صاحب کو بتایا۔ اس نے جج صاحب کو ناصر کے جرموں کی فہرست گنوائی۔
جرم نمبر ۱: مانو کو صاف پانی نہ پلانا۔
جرم نمبر۲: ناصر کو گرم بستر میں لیٹے ہوئے مانو کا بستر بھولنا۔
جرم نمبر۳: مانو کو سیر کے لیے ساتھ نہ لے جانا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جان بوجھ کر اس کا خیال نہ کرنا۔
جج صاحب نے ناراض ہو کر ناصر کی طرف دیکھا پھر انہوں نے جیوری کے دوسرے ارکان کی طرف دیکھا اور ان سے پوچھا کہ ناصر کو کیا سزا ملنی چاہیے؟ جیوری کے سارے ارکان ایک دوسرے سے کھسر پھسر کرنے لگے۔
وہ ناصر کے مقدر کا فیصلہ کررہے تھے۔ آخر ان میں سے ایک ممبر اپنی جگہ سے اٹھا۔ اس نے جج صاحب سے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ناصر کو مانو کی طرح ایک پالتو چھوٹا سا کتا بنا دیا جائے اور اسے کسی بونے کے ساتھ رہنے کے لیے بھیج دیا جائے۔ جج صاحب کو یہ فیصلہ بہت پسند آیا لیکن ناصر نے شور مچا دیا۔ وہ عدالت میں رونے پیٹنے لگا کہ ایسا نہ کریں میری امی انتظار کررہی ہوں گی۔ وہ پریشان ہوں گی کہ میں کدھر چلا گیا ہوں۔
جج صاحب نے اسے بتایا کہ وہ فکر نہ کرے تمہاری سزا کے دنوں میں مانو ناصر بن کر تمہارے گھر میں تمھاری جگہ رہے گی اور عیش کرے گی۔ اچھے کھانے کھائے گی۔ اچھے کپڑے پہنے گی اور رات کو اچھے بستر میں سوئے گی۔ اب ادب سے کھڑے ہوجاؤ۔
ناصر ادب سے کھڑا ہوگیا۔ وہ حیران تھا کہ اب پتا نہیں کیا ہوگا۔ جج صاحب نے اپنی جادوکی چھڑی اٹھائی اور اس کے جسم سے لگائی اور کہا
تم کو ہم دیتے ہیں سزا
لڑکے تھے تمھیں کتا بنا دیا
جادو کے ان الفاظ کا جج صاحب کے منھ سے ادا ہوتے ہی ناصر کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے سارے جسم پر سیاہ بال اُگ رہے ہوں۔ اس کے پہنے ہوئے کپڑے غائب ہو گئے۔ اس کی ایک لمبی دم نکل آئی۔ اس کی ناک لمبی ہوگئی۔ ہاتھوں اور پیروں کی جگہ پنجوں نے لے لی۔ اب وہ مکمل کتے کا روپ اختیار کرچکا تھا اور اس کے منھ سے صرف بھوں بھوں کی آواز نکل سکتی تھی۔ ناصر کو کتے کے روپ میں زنجیر باندھ کر عدالت سے باہر لے جایا گیا۔ یہاں ایک بونا رہتا تھا جو ہر وقت سبز کپڑے پہنے رکھتا تھا۔ وہ ناصر کو دیکھ کر بالکل خوش نہیں ہوا۔ اس نے پولیس والے سے معذرت کی کہ وہ کوئی پالتو جانور رکھنا نہیں چاہتا۔ پالتو جانوروں کا خیال رکھنا بڑی مصیبت ہے۔ پھر بھی اگر یہ جج صاحب کا حکم ہے تو وہ انکار نہیں کرسکتا۔ ناصر کے لیے بونے کے گھر میں رہنے کے لیے کوئی جگہ بنی ہوئی نہیں تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ کمرے میں بنی چمنی جس میں آگ جل رہی تھی کے آگے فرش پر سو جائے گا مگر اس سے پہلے ہی ایک بڑی سیاہ بلی نے وہ جگہ سنبھال لی۔ یہ سیاہ بلی بہت خوفناک تھی۔ اس نے ذرا سے ناصر کو پنجے دکھائے تو وہ بے چارہ اس سے بچنے کے لیے بھاگا اور بونے کی ٹانگوں میں آگیا۔ جو وہاں سے گزر رہا تھا۔ اس کے ہاتھوں میں ٹھنڈے پانی سے بھرا ہوا جگ تھا۔ جیسے ہی بونا گرا سارا پانی ناصر کے اوپر آگرا۔ اوپر سے بونے نے ناصر کو بہت برا بھلا کہا۔ ناصر کا خیال تھا کہ بونا کسی خشک کپڑے سے اسے سکھائے گا مگر نہیں۔ لہٰذا بے چارہ ناصر ایک کونے میں بیٹھ گیا اور کانپنا شروع کردیا لیکن اس کی ابھی بھی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ آگ کے نزدیک جائے کیونکہ وہ خوفناک بلی ابھی بھی وہاں براجمان تھی۔ سبز بونا بہت مصروف شخص تھا۔ وہ ہر وقت اِدھراُدھر بھاگتا پھرتا۔ کبھی یہ کرتا کبھی وہ۔ وہ ہر وقت بڑبڑاتا اور خود پر کڑھتا رہتا۔ بلی بیگم البتہ ہر وقت مزے سے بیٹھی رہتیں اور کبھی بونا کوئی جادو کا منتر پڑھنے کے لیے چاک سے کوئی دائرہ بناتا تو وہ اس دائرے میں جادو کروانے بیٹھ جاتیں۔ کچھ ہی دیر کے بعد ناصر کو بڑی شدت سے بھوک لگنی شروع ہوگئی۔ بلی نے اس کے سامنے ڈھیروں کھانا کھایا اور پھر دودھ پیا لیکن بونے نے ناصر کو کھانے کے لیے کچھ بھی نہ دیا۔ وہ عادت کے مطابق ناصر کے قریب سے گزرتا ہوا بڑبڑایا کہ وہ اسے ٹھہر کر کچھ کھانے کو دے گا لیکن پھر وہ شاید بھول گیا لہٰذا ناصر کو بھوکا رہنا پڑا۔ اس نے سوچا کہ شاید وہ بھونکے گا توبونے کو خیال آئے اور وہ اسے کچھ کھانے کو دے لیکن جیسے ہی اس نے منھ سے آواز نکالی۔ بونے کو غصہ آ گیا۔ اس نے اپنی بڑی سی چھڑی ہاتھ میں پکڑی اور بے چارے ناصر کی کمر پر رسید کی۔ ناصر تو تڑپ ہی گیا۔ اس کی کھڑی دم خودبخود نیچے کی طرف ہوگئی اور وہ دوڑ کر میز کے نیچے گھس گیا لیکن بونے نے اسے میز کے نیچے سے کھینچ لیا۔ وہ اسے دروازے تک گھسیٹتا لے گیا اور وہاں سے اسے باہر پھینک دیا۔ باہر موسلادھار بارش ہورہی تھی۔ ناصر نے ادھر ادھر سر چھپانے کے لیے کوئی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کی۔ باغیچے کے ایک کونے میں ایک جھاڑی سی اُگ رہی تھی۔وہ بھاگ کر گیا اور اس کے نیچے دبک کر بیٹھ گیا۔ وہ بھوکا تھا، گیلا تھا اور اسے شدید سردی لگ رہی تھی اب وہ سوچ رہا تھا کہ پالتو جانور کے لیے دنیا میں سب سے بری چیز یہ ہے کہ اس کا مالک ظالم ہو اور اس سے پیار نہ کرتا ہو۔ بارش تھم گئی ۔ ناصر جھاڑی کے نیچے سے نکلالیکن گھر کا دروازہ ابھی تک بند تھا لہٰذا وہ گھر میں داخل نہ ہوسکا۔ وہ ساتھ والے گھر میں گیا۔ اس کے مالک نے بھی ایک پالتو کتا رکھا ہوا تھا لیکن وہ کتا خوش نصیب تھا۔ کیونکہ اس کا مالک اس کا خیال رکھتا تھا۔ اس کے بال سنوارے جاتے تھے وہ خوش رہتا تھا۔
ناصر کی خواہش تھی کہ کاش وہ بھی کسی ایسے ہی مالک کے پاس ہوتا۔ تو وہ اس کا بہت خیال کرتا۔ پھر اس کے گھر کا دروازہ کھلا اور بونے نے اسے بلانے کے لیے سیٹی بجائی۔ ناصر فوراً بھاگ کر اندر چلا گیا لیکن اسی وقت بونے کی بلی غرا کر پھر اس پر جھپٹی اور وہ الٹے پاؤں واپس بھاگا۔ بونے نے بھی الٹا ناصر کو ہی ڈانٹا کہ اس کی وجہ سے اس کی بلی پریشان ہوتی ہے۔ لہٰذا بہتر ہے کہ اس کے نزدیک نہ آؤ اور کسی کونے میں لیٹ جاؤ۔
بے چارہ ناصر ایک کونے میں لیٹ گیا۔ بلی البتہ بدستور آگ کی تمازت کے مزے لوٹتی رہی اور خود کو اپنی زبان سے صاف کرتی رہی۔ اس کے قریب ہی دودھ کا ایک اور خالی برتن پڑا ہوا تھا اور ناصر کو یقین تھا کہ بونے نے یہ دودھ اس کے لیے رکھا تھا لیکن ظاہر ہے سیاہ بلی اس کا کھانا بھی ہڑپ کرچکی تھی۔ آخرکار ناصر کو نیند آگئی لیکن ابھی تھوڑا وقت ہی گزرا تھا کہ بونے نے اسے پھر جگا لیا۔ اس کے گلے میں زنجیر باندھی اور اسے کھینچتا ہوا باہر کی طرف لے چلا ۔باہر اس نے پائپ کا ایک بڑا سا ٹکڑا پڑا ہوا دیکھا تھا۔ بونے نے اس میں کچھ جھاڑ جھنکار ڈال کر ناصر کا بستر بنا دیا اور اسے کہا کہ اگر کوئی نامانوس یا اجنبی آدمی گھر کے قریب سے گزرے تو بھونک کر مجھے خبردار کرنا۔ ناصر پھر پھنس گیا اسے تو بالکل پتا نہیں تھا کہ مانوس شخص کون ہے اور نامانوس کون؟ اسے سخت سردی لگ رہی تھی۔ کیونکہ تیز ہوا فراٹے بھرتی ہوئی اس کے پائپ والے گھر سے گزر رہی تھی۔ آخر تکلیف سے اس نے کراہنے والی آواز نکالنی شروع کر دی۔ بونے نے اس کی آواز سنی تو وہ پھر گھر سے نکلا اس نے ناصر کو دھمکی دی کہ اگر اب اس نے کوئی آواز نکالی تو وہ چھڑی سے اس کی پٹائی کرے گا۔ ظاہر ہے اس کے بعد ناصر کی جرات نہیں ہوئی کہ وہ کوئی اور آواز منھ سے نکالے۔ وہ خاموش پائپ میں لیٹ گیا۔ اس امید کے ساتھ کہ کوئی نامانوس آدمی ادھر سے نہ ہی گزرے۔ تاکہ اسے آواز نکالنی نہ پڑے۔ لیکن آدھی رات کے وقت اس نے گیٹ کے باہر کسی کے قدموں کی آہٹ سنی۔ وہ خوف سے چپکا لیٹا رہا۔ نامانوس آدمی؟ پھر گیٹ ایک چڑچڑاہٹ کے ساتھ کھلا اور کوئی اندر آیا۔ ناصر کو یقین نہیں آیا وہ مانو تھی ناصر کی پالتو بلی۔
وہ بھاگ کر ناصر کے پائپ کے پاس آئی اور اسے سونگھنے لگی اور کہنے لگی: ”میں نے تمھارے بارے میں سنا تھا کہ تمھیں کتے کے روپ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جبکہ مجھے تمھارے روپ میں تبدیل کردیا گیا تھا۔ مگر آدھی رات کو میں اپنے روپ میں واپس آگئی تو میںنے سوچا کہ تمھیں آزاد کرواؤں۔ تم مجھ پر سختی کیا کرتے تھے لیکن مجھے تم سے پیار ہے اور میں تمھارے لیے کچھ بھی کرسکتی ہوں۔ لہٰذا اب ہلنا مت میں اپنے دانتوں سے تمھارے پٹے کو کاٹتی ہوں۔ ناصر مانو کا بہت مشکور تھا۔ وہ ساکن بیٹھا رہا اور جلد ہی مانو نے اس کے گلے میں چمڑے کا پٹا کاٹ دیا۔ وہ اب آزاد تھا۔ مانو نے اسے کہا کہ وہ اس کے پیچھے آئے کیونکہ اسے راستہ معلوم ہے۔ دونوں دوست رات کی تاریکی میں بھاگتے ہوئے آخر ناصر کے گھر کے قریب آگئے۔ ”تم اپنے کمرے میں جا کر اپنے بستر میں لیٹ جاؤ۔ صبح خود بخود تم لڑکے بن جاؤگے۔“ مانو نے ناصر کو بتایا۔
ناصر چپ چاپ گھر میں داخل ہوا۔ سیڑھیاں چڑھا
باقی صفحہ نمبر ۱۷
بقیہ ”پالتو“
اور اپنے گرم بستر میں گھس گیا اور جلد ہی سو گیا۔ صبح اٹھا تو وہ لڑکا بن چکا تھا۔ وہ صبح کپڑے بدل رہا تھا اور رات کے واقعات پر حیران بھی ہو رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ پالتو جانور اپنے مالکوں سے کتنی محبت کرتے ہیں اور کسی پالتو جانور کا کسی ظالم مالک کے پاس رہنا کتنا مشکل ہے اور وہ مانو کے ساتھ کتنی زیادتی کرتا رہا ہے۔ وہ صحن میں گیا تو مانو وہاں موجود تھی۔ اسے دیکھ کر مانو نے اپنی دم تیزی سے ہلانا شروع کر دی۔ ناصر نے مانو کو دونوں بازوؤں میں لے لیا اور اس کا شکریہ ادا کیا اور اپنے نامناسب رویے کی معذرت بھی کی اور ساتھ اسے کہنے لگا کہ آئندہ وہ ہمیشہ اس کا خیال کرے گااور پھر اس نے ایسا ہی کیا۔ اب مانو کے گھر میں مانو کے لےے گرم بستر بچھا ہوا تھا۔ ہمیشہ تازہ پانی پینے کے لیے اس کے برتن میں موجود ہوتا تھا۔ اچھا کھانا کھانے کو ملتا تھا۔ صبح سویرے ناصر اسے سیر کے لیے بھی لے جاتا تھا۔ مانو اب بہت خوش تھی۔ مجھے امید ہے کہ آپ سب بچوں کے پالتو جانور بھی آپ سے خوش ہوں گے۔
٭….٭

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top