نتاشا، بابایا گا اور گڑیا
روس کی کہانی
رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
بہت پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک گھنے جنگل کے قریب ایک لڑ کی نتا شارہ ہی تھی۔ وہ بہت چھوٹی سی تھی جب اسکی ماں چل بسی لیکن مرنے سے پہلے اس نے اپنی بیٹی کو ایک چھوٹی سی گڑ یادے کر کہا:
”میری بچی! جب میں نہ ر ہوں گی اور تمہیں کسی چیز کی بہت زیادہ ضرورت ہو تب اس گڑیا سے مشورہ مانگ لیا کرنا۔ لیکن اسکو سب سے چھپا کر بہت حفاظت سے رکھنا۔“
آنے والے دنوں میں نتاشا کے باپ نے دوسری شادی کر لی اور نئی ماں اپنی دو بیٹیوں کے ساتھ آئی توان تینوں نے نتا شا کو ستانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ رات گئے تک نتا شا گھر کے کاموں میں جتی رہتی پھر بھی ان کا منہ سیدھا نہ ہوتا۔ ان کا بس چلتا تو وہ نتاشا کوسو نے بھی نہ دیتیں۔ کبھی کبھار جب نتاشاان حالات سے تنگ آ جاتی تو وہ چپکے سے اپنی گڑیا نکال کراپنی سب مشکلات اسے بتاتی اور پھر جانے کیسے بڑے سے بڑا کام بھی وہ با آسانی کر لیتی۔ اسکے کام کی رفتاردیکھ کراکثر اسکی سوتیلی ماں بھی پریشان ہوجاتی۔
ایک مرتبہ نتاشا کا باپ کسی ضروری کام کے لئے کئی دن سے گھر سے باہر گیا ہوا تھا۔ خزاں کا موسم تھا۔ دن چھوٹے تھے۔ سورج جلد ڈھل جاتا تھا۔ سر شام ہی اندھیرا پھیلا اور پھر تیز بارش کھڑ کیوں،دروازوں پر دستک دینے لگی۔ طوفانی ہوائیں چمنیوں کے رستے چنگھاڑتی ہوئی اندر داخل ہونے لگیں۔ سوتیلی ماں کے دل میں خیال آیا کہ نتاشا سے جان چھڑانے کا اس سے بہتر موقع پھر نہ ملے گا۔ اس نے اپنی دونوں بیٹیوں کو بلایا اور نتا شا کوبھی اور کہنے لگی کہ”میں تم تینوں کو کچھ کام دے رہی ہوں۔ تمہیں ہرصورت انہیں پورا کرنا ہوگا۔“ یہ کہہ کر اس نے بڑی لڑکی کو کروشیے سے جالی بننے کو دی، دوسری کو جرابیں بنانے کود یں اور تا شا کو چرخہ کاتنے کو کہا اور ایک چھوٹی سی موم بتی جلا کر خود اپنے کمرے میں چلی گئی۔
موم بتی اس قدر چھوٹی تھی کہ چند لمحوں میں ہی ختم ہوگئی۔
”اب کیا کریں؟ روشنی کہاں سے لائیں؟“ بڑی لڑکی نے کہا۔
”روشنی تو بس ایک جگہ سے ہی مل سکتی ہے اور وہ ہے بابایا گا کا گھر۔“ دوسری مکاری سے بولی۔
”کہتی تو تم ٹھیک ہو۔ پر وہاں کون جائے؟ میرا کروشیا تو خوب چمک رہا ہے۔ مجھے کہیں جانے کی ضرورت نہیں۔“ بڑی ہنس کر بولی۔
”اور میں کیوں جانے لگی۔ دیکھو میری سلائیاں بھی کیسی روشن ہیں۔ ان سے جرائیں بننا کچھ مشکل نہیں۔ جانا تو نتا شا کو پڑے گا۔“ یہ کہہ کر چھوٹی ہنس پڑی اور دونوں نے مل کر نتا شا کو باہر دھکیل دیا۔ وہ غریب حیران پر یشان بارش میں بھیگنے اورٹھنڈ میں کا نپنے لگی۔
روس میں بچے جس چڑیل سے ڈرتے ہیں۔ اسے ”بابا یا گا“ کہا جاتا ہے۔ گاؤں میں سب کو پتہ تھا کہ بابا یا گا گھنے جنگل میں رہتی ہے۔ اس کا گھر زمین سے اونچا تھا اور بڑے بڑے پنجوں پہ یوں کھڑا تھا جیسے کوئی جناتی مرغی ہو۔ بابایا گا ایک جادوئی گولے پہ سوار ہوکر پورے جنگل میں گھومتی پھرتی تھی اور اپنے گھر کے آس پاس کسی کو برداشت نہیں کرتی تھی۔
نتا شاجیسی نازک بچی کا یہ سوچ کر ہی دل ہل گیا کہ اسے روشنی لینے کے لئے بابا یا گا کے گھر جانا پڑے گا۔ اچا نک اسے اپنی گڑیا کا خیال آیا جسے وہ اپنے فراک کی پوشید ہ جیب میں چھپائے رکھتی تھی۔ اس نے جلدی سے گڑیا کواپنی تھیلی پر رکھا اور کہنے لگی:
”میری پیاری سہیلی! یہ ظالم لوگ مجھے جنگل میں بھیج رہے ہیں، بابا یا گا کی جھونپڑی سے روشنی لانے کے لئے۔ بھلاوہاں سے بھی کوئی واپس آیا ہے؟ اب بتاؤ میں کیا کروں؟“
اندھیرے میں گڑیا کی آنکھیں ستاروں کی طرح چمکنے لگیں اور وہ بولی۔ ”پیاری نتا شا! جب تک میں تمہارے ساتھ ہوں تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ بے فکر ہو کر چلی چلومگر ہاں میرا راز کسی کومت بتانا۔ مجھے اپنی جیب میں چھپالو۔“
نتا شانے گڑیا جیب میں ڈالی اور چل پڑی۔ اف! کیابھیا نک سماں تھا۔ ہوادرختوں میں پھنکارتی پھر رہی تھی۔ پتے سائیں سائیں کر رہے تھے۔ نتا شادل کڑ اکر کے چلتی رہی۔ جانے کب تک چلتی رہی۔ اچا نک گھوڑے کی ٹاپوں سے زمین لرزنے لگی اور پھر ایک سفید رنگ کا گھوڑا نمودار ہوا۔ اسکے سوار کالباس بھی سفید تھا۔ ادھر وہ برق رفتاری سے گز را ادھر آسمان پر سفیدی نمودار ہوگئی۔ نتا شا کچھ دیر جھجکی اور پھر آگے چل پڑی۔ اچھا نک پھر زمین گھوڑے کی ٹاپوں سے کانپ اٹھی۔ اس مر تبہ گھوڑا اور سوارآگ کے شعلوں کی طرح چمکدار اور سرخ تھے۔ جوں ہی وہ گزرے،آسمان پہ شفق پھوٹتی نظر آنے لگی۔ نتا شا چلتی رہی چلتی رہی یہاں تک کہ جنگل میں اسے ایک وسیع میدان دکھائی دیا۔ اسکے درمیان میں بابا یا گا کی جھونپڑی مرغی کے پنجوں جیسے ستونوں پہ کھڑی تھی۔ اس کے چاروں طرف انسانی ہڈیوں کی باڑ لگی تھی اور بڑے دروازے کے دونوں طرف روشنی کی قندیلوں کے بجائے دو کھوپڑیاں نصب تھیں۔ نتا شا خوفزدہ ہوکر یہ بھیا نک گھر دکھارہی تھی کہ ایک تیسر اسوار دھماکے سے اسکے قریب سے گزر گیا۔ یہ سر سے پیر تک سیاہ تھا اور کالے گھوڑے پر سوار تھا۔ اسکے گزرتے ہی ہرطرف تاریکی پھیل گئی مگر اندھیرا ہوتے ہی کھوپڑیوں کی آنکھیں تیز لیمپ کی سی روشنی دینے لگیں اور اس روشنی میں نتا شا نے دیکھا کہ بابایا گا اپنے جادوئی گولے پہ سوارا اپنے گھر کی طرف آ رہی ہے۔ وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے لمبے سے جھاڑوکویوں ہل رہی تھی جیسے پتوار سے کشتی چلاتے ہیں۔
”کون ہے میرے گھر کے آس پاس؟ جو بھی ہے سامنے آئے۔“ وہ سوں سوں سونگھتی ہوئی چلائی۔
نتا شاہمت کر کے جھاڑیوں میں سے نکلی اور بابایاگا کے سامنے جھک کر اسے تعظیم دی۔
”میں نتا شاہوں اور مجھے میری بہنوں نے آپ کے گھر روشنی لینے بھیجا ہے۔“
”میں ان بہنوں اور ان کی ماں کو اچھی طرح جانتی ہوں۔ وہ جو بھی چا ہیں کہہ سکتی ہیں۔ خیر تم آ ہی گئی ہوتو پہلے میرے گھر میں کچھ کام کرو۔ پھر میں روشنی دینے کے بارے میں سوچوں گی۔“
اس نے اپنا منہ جھونپڑی کے دروازے کی طرف کیا اور تیز آوازمیں چیخی۔ ”کھل دروازے کھل۔ بابایا گا آئی ہے۔“
ہڈیوں سے بنادرواز کھل گیا اور چڑیل نتا شا کا با زو تھام کر اسے اندر لے گئی اور کہنے لگی۔”جلدی سے میرے لئے کھانا تیار کرو۔“
وہ خود بستر پہ لیٹ گئی۔ نتا شانے باور چی خانے میں جا کر دیکھا وہاں پکانے کے لئے بے شمار چیز یں رکھی تھیں۔ بھیڑ، بطخ، مرغی کا گوشت،انڈے اور نہ جانے کیا کیا۔ نتا شانے چولہا جلایا اور جلدی جلدی ڈھیر ساراسوپ اور بھنا ہوا گوشت تیار کر کے میز پر رکھا اور ایک بڑے تھال میں بہت سا آٹا گوندھ کر ڈھیروں ڈھیر روٹیاں بھی پکاڈالیں اور چڑیل کو کھانے کے لئے اٹھایا۔ وہ میز پر بیٹھ کر سب کچھ ہڑپ کر گئی۔ آخر میں صرف ایک روٹی چھوڑ کر کہنے لگی۔ ”یہ تمہارے لئے ہے مگر میں یونہی کھانے کو نہیں دیا کرتی۔ تمہیں صبح اٹھ کر میرے گھر کی مکمل صفائی کرنی ہوگی۔ بستر کی چادر یں بھی دھوڈالنا۔ اور پھر رات کا کھانا آج سے زیادہ پکانا۔ آج تو میرا آدھا پیٹ ہی بھرا ہے اور ہاں ایک کام اور بھی ہے وہ دو پہر میں کرنے کا ہے۔صحن میں ایک بوری میں گندم، چاول اور چنے پڑے ہیں۔ ان سب کو الگ الگ کرنا ہے۔ اگر ان میں سے ایک چیز بھی دوسرے میں ملی تو میں تمہیں کچا چبا جاؤں گی۔“
یہ لمبی چوڑی ہدایات دے کر وہ بستر پر گر کے خراٹے لینے لگی۔ نتاشا نے ایک کونے میں جاکر چپکے سے اپنی گڑیا سے مدد مانگی۔ گڑیا نے کہا۔”تم خدا سے دعا مانگ کر آرام سے سو جاؤ۔ صبح دیکھنا کیا ہوتا ہے۔“ نتا شا ایک کونے میں دبک گئی۔
صبح منہ اندھیرے ہی اسکی آنکھ کھل گئی۔ وہ سوچنے لگی کہ کس کام سے دن کا آغاز کرے۔ اچانک کل جیسا شور سنائی دیا اور سفید براق سوار،سفید گھوڑے پر سوارزن سے گزرتا کھڑکی سے دکھائی دیا اور افق پرسفیدی نظر آنے لگی۔ بابایا گابھی اٹھ کر بھاری قدموں سے باہرآ رہی تھی۔ نتاشا سہم گئی پر چڑیل نے اسے دیکھا تک نہیں۔ اس نے سیٹی بجائی تو اس کا گولا کہیں سے نکل کر آ کھڑا ہوا۔ وہ اس پر سوار ہو گر درختوں سے اوپر اڑتی ہوئی بادلوں تک جاپہنچی اور پھر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ اسی وقت شعلے جیسا سرخ سوار اپنے گھوڑے پہ برق رفتاری سے گزرا اور آسمان پر سورج کی کرنیں جھلملانے لگیں۔ اور اس سنہری اجالے میں نتا شانے دیکھا کہ ہر وہ کام جو چڑیل نے اسکے ذمے لگایا تھا، ہو چکا ہے۔ گھر شیشے کی طرح صاف ہے۔ سب جھاڑ جھنکار اور خاک دھول غائب ہے۔ کپڑے دھلے ہوئے الگنیوں پہ لٹک رہے ہیں۔ گندم، چاول اور چنے کے الگ الگ ڈھیر لگے ہیں۔ اس نے حیران ہوکرخفیہ جیب کوٹٹولا تو گڑیا کی آواز آئی کہ جب چڑیل لوٹے گی تو اسے اسکی خواہش کے مطابق گرما گرم کھانا تیار ملے گا پر جب وہ لوٹے تم یوں مصروف نظر آنا جیسے سب کچھ تم نے ہی کیا ہے۔
دیکھتے ہی دیکھتے خزاں کا چھوٹا سادن ڈھل گیا اور جونہی سیاہ گھوڑے والا سیاہ پوش سوار تیزی سے گھوڑا دوڑاتا ہوا گزرا، ہر طرف تار یکی چھا گئی۔ کھوپڑیوں کی آنکھیں لود ینے لگیں اور بابا یا گا کا جادوئی گولا بھی آ پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ ہر چیز اس کے حکم کے عین مطابق ہے اور نتاشا کھانے کی میز پہ کھانے لگائے اسکی منتظر ہے تو وہ قدرے حیران ہوئی اور پھر میز پہ کھانے کے لئے بیٹھ گئی۔ کھانا اتنالذیز اور وافرتھا کہ وہ خوش ہوگئی اور نتا شا سے کہنے گی:
”ادھر آ لڑ کی! کیا چپ چاپ بیٹھی ہے؟ کچھ بات کر۔“
نتا شانے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ”یہ تین سوار جو سفید، سرخ اور سیاہ ہیں،کون ہیں؟“
”وہ تینوں دن، سورج اور رات ہیں اور میرے غلام ہیں۔ اب تم بھی سچ سچ بتاؤ کہ جو کام میں نے تمہیں دیئے تھے۔ وہ تم نے کیسے کر لئے؟“
نتاشا نے لمحہ بھر سوچا اور پھر بولی۔”میری ماں نے مرتے وقت مجھے دعادی تھی جو ہر ضرورت میں میرے کام آتی ہے۔“
”اوہ! دعاؤں کا میرے گھر بھلا کیا کام؟ میں کسی ایسے بچے کو اپنے گھر میں نہیں رکھ سکتی جس کے سر پر دعاؤں کا سایہ ہو۔ نکلو! نکلو!! فوراً میرے گھر سے نکل جاؤ۔“
اس نے نتا شا کا ہاتھ تھاما اور اسے لے کرگھر سے باہر نکلی۔ ہڈیوں کی باڑ سے بنے احاطے سے باہر نکل کر اس نے ایک جلتی ہوئی آنکھوں والی کھوپڑی اٹھائی اور اسے ایک لکڑی پہ لگا کر نتاشا کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔
”یہ لو وہ روشنی جوتم لینے آئی تھیں۔ یہ تمہاری کارگزاری کا انعام ہے۔لواور بھاگ جاؤ یہاں سے۔“
نتا شاسر پٹ واپس دوڑی۔ اندھیری رات میں کھوپڑی کی روشن آنکھیں اسے راستہ دکھارہی تھیں۔ وہ آرام سے گھر تک پہنچ گئی۔
”تم نے کہاں اتنی دیر لگادی تھی؟“سوتیلی ماں اور اسکی بیٹیاں چیخیں۔ دراصل نتا شا کے جاتے ہی سچ مچ اندھیرا ہو گیا تھا۔ آتش دان کی آگ بجھ گئی تھی اور تب سے وہ اندھیرے اور ٹھنڈ میں بیٹھی تھیں۔ نتاشا کے ہاتھ میں جلتی ہوئی مشعل دیکھ کر ان کی بانچھیں کھل گئیں اور وہ اسکی طرف جھپٹیں لیکن کھوپڑی کی آ نکھیں انہیں یوں گھورنے لگیں کہ اسکی شعا میں انہیں آر پار جاتی محسوس ہونے لگیں۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹیں مگر شعا عیں ان کے تعاقب میں تھیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان شعاؤں نے انہیں پھونک ڈالا۔ساتھ ہی کھوپڑی کی آنکھیں بجھ گئیں اور آتشدان میں خود بخودآگ روشن ہو گئی۔ ہمیشہ کے لئے۔
نتا شانے کھوپڑی کو باغ کے ایک کونے میں دفن کر دیا۔ وہ باپ کے آنے تک اکیلی رہی مگر وہ اکیلی کہاں تھی۔ اسکی سہیلی گڑیا اسکے ساتھ تھی۔ جب باپ واپس آیا تو نتاشا نے اسے سا راواقعہ سنایا۔ باپ نے اسے گلے سے لگا کر اپنی کوتاہی کی معافی مانگی۔ نتاشا کی زندگی کے باقی دن ہنسی خوشی گزرے۔