skip to Main Content

تین ٹانگوں والاسٹول

ڈنمارک کی کہانی

رضوانہ سید علی
۔۔۔۔۔
کسی بستی میں ایک کم عمر درزی رہتا تھا۔ جس کا نام ”ٹا مکن“ تھا۔ وہ دنیا میں بالکل اکیلا تھا۔ اسکی کل کائنات چند سوئیاں، دھاگے کی نلکیاں اور ایک قینچی تھی۔ ہاں ایک چیز اور بھی تھی وہ تھا ایک لکڑی کا تین ٹانگوں والا اسٹول۔ اس حال میں بھی ٹا مکن خوش ہی رہتا تھا۔ ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ پانی میں بھیگی سوکھی روٹی کھانے کے بجائے نہایت عمدہ شاہی کھانے کھارہا ہے۔ لیٹنے کے لئے اسکے پاس شاہی چھپر کھٹ ہے اور بیٹھنے کے لئے تین ٹانگوں والے اسٹول کی جگہ سونے کا تخت ہے۔ مارے حیرت کے ٹامکن کی آ نکھ کھل گئی۔ سامنے نعمتوں کے بجائے وہی ٹوٹا پھوٹا اسٹول تھا اور وہ ہمیشہ کی طرح خاک کے بستر پر ڈھیر تھا۔ صبح ہوئی تو ناشتے کے لئے رات کی سوکھی روٹی اور پانی کا کٹورہ تھا۔
”افوہ! کیا خواب تھا۔ کس کوسناؤں؟ کیا اس اسٹول کو جو میرے سامنے پڑا ہے؟“ ٹامکن نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
اچا نک اسٹول میں حرکت پیدا ہوئی اور اس نے دو دفعہ ادھر ادھر ہل کر کہا۔ ”میرے آقا! آپ اپنا خواب مجھے سنا سکتے ہیں۔“
ٹا مکن حیران رہ گیا۔ خیر اس نے اپنا خواب بیان کر دیا اور پھر اسٹول میں سے آواز آئی۔”میرے آقا کو یہاں سے نکل کر اپنی سلطنت تلاش کرنی چاہیے۔“
ٹامن کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ پھر وہ جوش میں آ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ ”واہ کیا بات ہے تم نے بالکل درست مشورہ دیا۔ یہاں رہ کر تو میں ساری عمر کپٹرے سیوں گا یا پھٹے پرانے لباس اور جرا بیں ہی مرمت کرتا رہوں گا۔ مجھے یہاں سے نکل جانا چاہیے۔“
یہ کہتے کہتے اس نے اپناکل سامان یعنی سوئیاں، دھاگے اورقینچی ایک تھیلے میں رکھ لئے اور چلنے کوتیار ہوگیا۔
”میرے آقا! مجھے بھی ساتھ لے چلیں۔“ تین ٹانگوں والا اسٹول بول اٹھا۔
”ضرور! تم نے تو مجھے شاندار مستقبل کی نوید دی ہے۔ تم میرے ساتھ ر ہوگے۔“
اسٹول ایک ٹا نگ پرگھوم گھوم کرنا چنے اور گانے لگا:
”ایک دو تین،ایک دو تین…… آقا کے وعدے کتنے حسین۔“
ٹامکن ہنسا اور چل پڑا۔ اسٹول ناچتا گا تا اس کے پیچھے ہولیا۔ کتنے ہی جنگل گزرے۔ پہاڑ،وادیاں، ندیاں، چشمے،صحرا اور گلزارآ تے اور گزرتے رہے۔ ٹامکن چلتا رہا چلتار ہا۔ تین ٹانگوں والا اسٹول اسکے ساتھ تھا۔ دونوں کبھی رک جاتے،آرام کرتے پھر آگے بڑھنے لگتے۔ کبھی دونوں باتیں کرتے، کبھی خاموش ہو جاتے۔ کبھی ٹامکن سیٹی کی کوئی دھن بجانے لگتا اور اسٹول اسکی دھن پر رقص کرنے لگتا۔ چلتے چلتے راستے میں ایک بہت بڑ ادر یا آ گیا۔
”اب کیا کروں؟ مجھے تو تیرنا نہیں آ تا؟؟“
”آقامیری ایک ٹا نگ پڑلو اور دریا میں اتر جاؤ۔ کیا معلوم در یا پارخوش قسمتی آپ کی منتظر ہو۔“
”واہ میرے شیر!“ ٹا مکن نے خوش ہو کر کہا اور اسٹول کی ٹانگ پکڑ کر دریا میں اتر گیا۔ پانی بہت تیز تھا مگر اسٹول تیر کے تیزی سے دوسرے کنارے کی طرف بڑھتا گیا اور کچھ دیر بعد وہ خشکی پہ پڑے تھے۔
ٹامکن نے خوش ہو کر کہا۔”میں وعدہ کرتا ہوں کہ اگر میں مستقبل میں بادشاہ بن گیا تو میرے وزیراعظم تم ہی ہو گے۔“
اسٹول ہلکی سی لے میں گنگنایا:
”ایک دو تین، ایک دو تین۔ بھول نہ جانا یہ وعدہ حسین“
”کبھی نہیں بھولوں گا میرے دوست!“نا مکن نے مسکرا کر کہا۔
وہ پھر آگے چل پڑے۔ کافی لمبا سفر طے کرنے کے بعد ٹامکن نے دیکھا کہ وہ جوں جوں آ گے بڑ ھ ر ہے ہیں، زمین خشک ہوتی جارہی ہے۔ بہت کم پیڑ پودے ہیں، وہ بھی خشک، گھاس مرجھائی پڑی ہے۔
”لگتا ہے یہاں عرصے سے بارش نہیں ہوئی۔“ ٹا مکن نے سوچا۔ اچانک اس کی نظر آسمان پہ پڑی۔ اسے دور سیاہ پہاڑ کی چوٹی سے ایک سیاہ بادل کچھ نیچے اتر نامحسوس ہوا اور اسے لگا کہ اب بارش ہو جائے گی۔
پہاڑ کے دامن میں کسی بستی کے آثار بھی دکھائی دے رہے تھے اور اسکے آخری کنارے پر ایک شاندارقلعے کے مینار چمکتے نظر آ ر ہے تھے۔
اچا تک کہیں سے ایک دبلی پتلی سی بچی نمودار ہوئی اور ٹا مکن کو غور سے دیکھنے لگی۔ پھر ایک دم اس کا بازو پکڑکر بولی:
”تم ہمارے لئے بارش لا سکتے ہو؟“
”یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ میں بھلابارش کیسے لاسکتا ہوں؟؟ بارش تو و ہ با دل لائے گا۔ دیکھو کتنا بڑا ہے۔“
لڑکی نے مایوسی سے اس طرف دیکھا اور پھر ٹامکن کا بازو چھوڑ کر رونے گئی۔
”نہیں۔ یہ تو ہمیشہ ہی رہتا ہے مگر بارش نہیں برسا تا۔ ہمارے کھیت سوکھے رہتے ہیں۔ ہمارے ندی نالے خشک پڑے ہیں۔ ہمارے مویشی کمزور ہیں۔ہم پیاسے ہیں۔ ہمارے کھیت سوکھے رہتے ہیں۔ ہمارے پاس پینے کو دودھ نہیں، کھانے کواناج نہیں۔ جو تھوڑا بہت بچا ہے وہ بھلا کب تک ساتھ دے گا؟ کب تک؟؟“
بستی کے کونوں کھدروں سے بہت سے لوگ نمودار ہو گئے۔ سب آہستہ آہستہ چلتے ہوئے ٹامکن کے قریب آ گئے۔ بچی ابھی بھی خشک آنسوؤں سے رور ہی تھی۔ ٹا مکن حیران پریشان کھڑا تھا۔ لوگوں کی پر یشانی دیکھ کر اس کا دل بھر آیا تھا۔ مگر اسکے پاس کوئی حل نہ تھا۔ اچانک اسے اپنے اسٹول کی آواز سنائی دی:
”سنومیرے آقا! یہ بادل پانی سے یوں لبالب بھرا ہے جیسے تمہارا تھیلا دھاگے کی نلکیوں سے۔اگر تم اپنی قینچی سے اس بادل کو کاٹ دو تو اس میں بھرا پانی بہہ نکلے گا۔“
”میراخیال ہے کہ میں ایسا کرسکتا ہوں۔“ ٹامکن نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔
”بہت خوب!لیکن جو کرو،سوچ سمجھ کر کرنا۔ ایک چھوٹا ساعمل مستقبل میں بہت دور تک اثر انداز ہوتا ہے۔“
”میں جانتا ہوں۔“ٹامکن نے اعتماد سے کہا اور آگے بڑھنے لگا۔ بستی اورقلعے سے بہت آگے، اوپر ہی اوپر یہاں تک کہ چوٹی پہ جا پہنچا۔ اب سیا ہ بادل عین اسکے سر پہ منڈ لارہا تھا۔ ٹامکن نے کمر سے بندھا تھیلا کھول کرقینچی نکالی اور اچھل کر اسے بادل میں گاڑا اور تین لمبے لمبے گول دائرے اس کی مدد سے کھینچ دیے۔
”چھپ چھپ چھپاک……“کیا زور دار پانی کا فوارہ چھوٹا۔ ٹامکن اس میں نہا گیا اور پھر زور دار بارش ہونے لگی۔ بستی دادوتحسین کے نعروں سے گونج اٹھی۔ لوگ بارش میں نہانے اور دیوانہ وار ناچنے گانے لگے۔ پھر وہ نیچے اتر تے ہوئے ٹامکن کی طرف لپکے، انہوں نے اسے کندھوں پر اٹھالیا اور قلعے میں لے گئے۔
”اب تم ہی ہمارے بادشاہ ہو۔“ انہوں نے اسے سونے کے تخت پر بٹھا دیا اور اسکے سر پہ تاج رکھ دیا۔ ادھر تین ٹانگوں والا اسٹول پہاڑ کے دامن میں پڑارہ گیا۔ بیچارہ بارش میں بھیگ رہا تھا اور دھیمے دھیمے گارہا تھا:
”ایک دو تین،ایک دو تین…… بھول گئے تم وہ وعدے حسین۔“
اور واقعی ٹامکن کو کچھ یاد نہ تھا کہ اس کا کو ئی ساتھی بھی تھا جو کبھی اسے آنے والے زمانوں کی حسین خوش خبریاں سنایا کرتا تھا۔ وہ مزے سے شاہی زندگی کے لطف اٹھار ہاتھا۔ شاہی چھپر کھٹ پہ سوتا۔ سونے کے تخت پہ بیٹھتا اور مزیدار کھانے کھاتا۔ مگر پھر یوں ہوا کہ بارش جوبرس رہی تھی برستی ہی چلی گئی۔ سوکھی گھاس ہری ہوگئی۔ پیڑ پودوں میں جان پڑ گئی۔ ندی نالے پانی سے لبالب بھر گئے مگربا رش نہ رکی اور پانی سیلاب بن کر بستی کی طرف لپکا۔لوگوں کی ہنسی ان کے گلے میں اٹک گئی۔
”اب کیا کریں؟ پہلے خشکی ہمیں مارے ڈال رہی تھی۔ اب سیلاب ہمیں تباہ کر دے گا۔ ٹامکن! قلعے سے نکلواور ہماری مددکرو۔ روکو یہ بارش۔ ہمیں سورج چاہیے۔“ ہرطرف شور مچ گیا۔
”یہ تونئی بات ہوگئی اب کیا کروں؟“ ٹامکن نے سوچا تو اسے خیال آیا کہ بادل اگر کٹ سکتا ہے تو سل بھی سکتا ہے۔ اس نے اپنا تھیلا سنبھالا اور پہاڑ کی چوٹی کی طرف چل پڑا۔ بستی والے اسکے پیچھے پیچھے تھے، ٹامکن نے دیکھا کہ با دل ہلکا ہوکر کافی اوپراٹھ چکا تھا۔ اس نے اچک اچک کراسے چھونے کی کوشش کی مگر نا کا م رہا۔ پھر اس نے چلا کر کہا:
”مجھے سیڑھی چاہیے بلکہ بہت سی سیڑھیاں چاہئیں۔“
لوگ بستی کی طرف بھاگے۔ بہت سی سیڑھیاں بلکہ کرسی، میزیں بھی اٹھالائے اور ٹامکن کے لئے ان کا ایک مینارہ سا بنادیا۔ ٹامکن اوپر چڑھتا چلا گیا۔ آخری سرے پہ پہنچ کر اس نے موسلا دھار بو چھاڑ میں اوپر دیکھا۔ سیاہ بادل عین اسکے سر پہ تھا اور اس میں تین بڑے بڑے گول شکاف صاف دکھائی دے رہے تھے۔ مگر وہ ابھی بھی اس کی پہنچ سے دور تھا۔ بس تھوڑی ہی دور۔ اگر میں تھوڑ اسا اور اوپر ہو جاؤں تو پھر اسے چھو سکتا ہوں۔ ٹامکن نے اچکنے کی کوشش کی۔ اسکی انگلیوں کی پہنچ سے ابھی بادل دور تھا۔ ٹامکن نے مایوسی سے نیچے دیکھا،سب کی نظر یں اس پہ جمی تھیں۔ بارش بری طرح برس رہی تھی۔ بپھرا پانی سیلاب کی صورت دھاڑ رہا تھا۔ تباہی بڑھتی آ رہی تھی اور پھر اسکی نظرتین ٹانگوں والے اسٹول پر پڑی جو پہاڑ کے دامن میں بے کس پڑا تھا۔
”اوہ میرے خدا! یہ میں نے کیا کیا؟ ایک تو میں نے بادل میں اتنے گہرے شگاف ڈال دیئے اور پھر اپنے اتنے اچھے ساتھی کو بھول گیا جو دکھ کے دنوں میں میرے ساتھ تھا۔ مجھے اتنے اچھے مشورے دیتا تھا۔ میں بادشاہ بننے کے لائق نہیں۔“
اس نے سر سے تاج اتارا اورلوگوں کی طرف اچھال دیا۔ اسکی آنکھوں سے آنسو نکل کر بارش کے ساتھ ساتھ نیچے جانے لگے اور پھر وہ اسٹول کے اوپر جا گرے۔
اچا نک اسٹول اپنی جگہ سے اچھلا اور اوپر چڑھنے لگا۔
”ٹھہر ومیرے دوست!میرے آقا!! میں آ رہا ہوں۔ نیچے مت آنا۔ وہیں رہو۔“
سب حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ اسٹول لڑھکتا ہوا ان کے پاس سے گزرا اور سیٹرھیوں کے مینار پر چڑھنے لگا۔ ٹا مکن سر جھکائے رور ہاتھا کہ اپنے دوست کی آواز اسے سنائی دی۔ اس نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو تین ٹانگوں والا اسٹول اسکی طرف بڑھتا آرہا تھا۔ ٹامکن کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ قریب آتے ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر اسٹول کو تھام لیا۔
”مجھے معاف کر دو میرے پیارے دوست! بہت شرمندہ ہوں میں۔“
”چھوڑو یہ وقت باتوں کانہیں۔جلدی سے مجھ پہ کھڑے ہو کر بادل کے شگاف سی ڈالو“اسٹول نے کہا۔
ٹامکن بھی ہوش میں آ گیا۔ اس نے اسٹول کوکسی نہ کسی طرح سیڑھی کے آخری قدم پہ جمایا اور اس پہ چڑھ کر کھڑا ہو گیا۔ اب اس کی انگلیاں بادل کو چھو سکتی تھیں۔ اس نے سوئی میں دھاگہ ڈالا اور جلدی جلدی ٹانکے لگانے لگا۔ جیسے جیسے بادل کے شکاف سلتے گئے۔ بارش کم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ بس ہلکی سی پھلوار رہ گئی جو ٹانکوں کے نیچے سے رس رہی تھی۔ شام ڈھلنے کوتھی کہ سورج نے بستی کی طرف جھانکا اور دھنک کے سارے رنگ فضاء میں پھیل گئے۔ہرندی، نالا اور تالاب جگمگانے لگا۔
”ہمارابادشاہ ٹامکن،ہمارا بادشاہ ٹا مکن!!“ لوگ دیوانہ وارنعرے لگانے لگے۔ ٹامکن نیچے اترا۔ تین ٹانگوں والا اسٹول اس کے ساتھ تھا۔
”میرے بھائیو! میں بادشاہ بننے کے لائق نہیں۔ آپ کسی عقلمند اور اصول پسند انسان کو اپنابادشاہ چن لیں۔ اگر آپ چاہیں تو میرا یہ اسٹول آپ کی مدد کر سکتا ہے۔ اسکے مشورے ہمیشہ بہت عمدہ ہوتے ہیں۔“
ٹامکن نے کہا تو بستی کے ایک بڑے بوڑھے نے آگے بڑھ کر اسٹول سے مشورہ طلب کیا کہ”بستی کا با دشاہ کون ہو؟“
اس نے جواب دیا کہ ”میرے خیال میں تو ٹامکن ہی بہترین انتخاب ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ی سمجھدار ہے، محنتی اور بہادر ہے۔ اپنی غلطی کھلے دل سے مانتا ہے۔ لوگوں کے دکھ درد سمجھتا ہے اور مسائل کے حل نکال سکتا ہے۔“
سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم بھی یہی سمجھتے ہیں،پھر بزرگ نے آگے بڑھ کر ٹامکن کو تاج پہنادیا۔ ”اگر آپ یہی سمجھتے ہیں تو میری بھی ایک خواہش ہے۔“
”وہ کیا؟“
”یہی کہ میرا اسٹول میر اوز یر اعظم ہوگا۔“
”ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔“
تین ٹانگوں والا اسٹول جھوم جھوم کرنا چنے گانے لگا۔:
”دکھ درد آیا،دکھ درد گیا…… بادشاہ نے وعدہ پورا کیا۔“

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top