skip to Main Content
ننھی چڑیا

ننھی چڑیا

غلام عباس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ننھی صُغرا ا چُوزوں کو دانہ ڈال رہی تھی۔اتنے میں ایک ننھی چڑیا اُڑتی ہُوئی چُوزوں میں آکر بیٹھ گئی،اور بڑی دیر تک ان چُوزوں میں بیٹھی رہی۔

صُغرا بولی:’’اے ہے۔کیا چھوٹی سی چڑیاہے۔یہ یہاں سے چلی کیوں ،نہیں جاتی۔‘‘

اتنے میں چُوزوں کی ماں بی مُرغی مٹکتی ہوئی اُدھر آنکلی اور بھاگ کر چڑیا کے پا س گئی اور اُسے ٹھونگ مارکر کہنے لگی:’’جا ؤ جی یہاں سے ۔کیا تیرے باوے کا مکان ہے؟‘‘

اتنے میں گھر کی بلی نے اُسے دُور سے بھانپا اور بی مُرغی سے کہنے لگی:

’’آپا! تم چُپکی ہو رہو۔مہمان گھر میں آئے ہیں تو اس کی خاطر تواضع کرنی لازم ہے۔‘‘اور پھر ننھی چڑیا کی طرف لپکی۔

بے چاری چڑیا تھر تھر کانپنے لگی۔اُسے بلی کی آنکھوں میں اپنی موت نظر آئی۔ڈر کر طاق میں جا بیٹھی۔

تب تھوڑی دیر کے بعد ایک بڑا سا ہیبت ناک کُتا لنگڑاتا ہوا اُس کی طرف آ نکلا۔اس کے دائیں طرف کے کان پرخارش نکلی ہوئی تھی اور کان کے بال جھڑ گئے تھے۔وہ اپنی لال لال انگارہ سی آنکھوں سے چڑیا کو گھورنے لگا۔چڑیا دم بخود ہو کر طاق میں بیٹھی رہی اور دل ہی دل میں کہہ رہی تھی:

’’اللہ میاں !مجھے اس مصیبت سے باہر نکال اور جو نہیں نکالتا،تو پھر مجھ پر بجلی ہی گرا دے۔‘‘

دن بھر ننھی چڑیا طاق ہی میں بُھوکی پیاسی بیٹھی رہی اور ڈر کے مارے کانپتی رہی اور اس کا دل اس زور سے دھک دھک کرتا رہا،کہ معلوم ہوتاتھا کہ اب بند ہوا کہ اب بند ہوا۔

رات ہوگئی۔آسمان پر ستارے جھلملانے لگے،لیکن ننھی چڑیا ڈر کے مارے اُسی طاق پر بیٹھی رہی۔

صبح سے ننھی چڑیا بھوکی پیاسی اس طاق میں بیٹھی تھی اور اب تو پیاس کے مارے اُس کا بُرا حال ہو رہا تھا اور پھر کہنے لگی:’’اے اللہ میاں! مجھے پانی کا ایک قطرہ ہی مل جاتا،لیکن اگر میں طاق سے باہر نکلی ،تو بلی مجھے اپنا نوالہ ہی کر لے گی۔‘‘

تب گھر کا ملازم لڑکا جھمن کڑوے تیل کا چراغ جلا کر اس طاق میں رکھنے کے لیے آیا۔چڑیا دبک کر کونے میں بیٹھی رہی،اور رات بھر ’’اے اللہ میں اب کیا کروں؟‘‘’’اے اللہ !میں اب کیا کروں؟‘‘ اپنے دل ہی دل میں کہتی رہی،اور روتی رہی۔

آخر خدا خدا کر کے رات ختم ہوئی اور دن کا اُجالا ہر طرف پھیلنے کگا۔تھوڑی ہی دیر کے بعدکسان کا لڑکا اُدھر آنکلا۔اس نے جو ننھی چڑیا کو طاق میں دُبکے بیٹھے دیکھا تو اُسے بہت ترس آیا۔بولا:

’اے ہے،بے چاری چڑیا کا کوئی پر ٹوٹ گیا ہے،۔۔۔۔شاید اسی وجہ سے یہ اُڑ نہیں سکتی اور یہاں دُبک کر بیٹھی ہے۔‘‘یہ کہہ کر وہ باہر چلا گیا۔

کسان کے لڑکے کے مُنہ سے پر نام سنتے ہی چڑیا کی زبان سے خوشی کے مارے چیخ نکل گئی۔اُسے اپنی بے عقلی پر بہت غصہ آیا۔پھر ایکا ایکی اپسے اپنے پروں کا خیال آگیااور وہ پُھر سے آسمان کی طرف اُڑ گئی،اور آن کی آن میں نظروں سے غائب ہوگئی۔

اے ہے،بے چاری ننھی چڑیا کو اپنے پروں کا خیال ہی نہیں آیا۔وہ یہ بُھول ہی گئی تھی کہ اللہ میاں نے اُسے پروں کی ایسی طاقت بخشی ہے،جس سے یہ جہاں چاہے اُڑ کر پہنچ سکتی ہے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top