ننھا بیرا
اعظم طارق کو ہستانی
………………..
’’اوئے چھوٹے جلدی جلدی ہاتھ چلا، دیکھ نہیں رہا کہ آج رش بہت زیادہ ہے اور کام بھی تو ایسے مرمر کر کررہا ہے جیسے تیرے سر پر ننگی تلوار لٹک رہی ہے۔‘‘ ہوٹل کے منیجر نے برتن دھونے والی جگہ کا معائنہ کیا تو وہاں ساجد دھیرے دھیرے برتن مانجھنے میں مصروف تھا۔ آج رش بھی زیادہ تھا اس لیے نگران کو اس کی سستی پر خوب غصہ چڑھا اور زبردست ڈانٹ پلا دی۔
بارہ سالہ ساجد اس کی دھاڑ سن کر اندر تک کانپ اٹھا اور تیز تیز ہاتھ چلانے لگا۔ ہوٹل کے منیجرکو مالک کی طرف سے سختی کے ساتھ ہدایت تھی کہ وہ ہوٹل پر کام کرنے والے افراد کی کڑی نگرانی کرے کہ کوئی اپنے کام میں کوتاہی تو نہیں برت رہا ہے۔ ساجد نے برتن دھو کر سوکھا کپڑا بھی مار دیا تو منیجر نے اسے میزیں اور کرسیوں کی صفائی کا حکم صادر فرمایا۔ ایک بج چکا تھا ، ہوٹل پر رش میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اسے بھوک بھی ستا رہی تھی۔بارہ بجے سے ہی اس کے پیٹ میں چوہے دوڑنے شروع ہو چکے تھے جب کہ کھانا تین بجے ملنا تھا۔ مجبوراً اپنے ناتواں جسم کو سنبھالتاہوا میزیں اور کرسیوں کی صفائی میں لگ گیا۔
وہ ابھی چھوٹا سا تھا کہ جب اس کے والد کینسر کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ علاج کے لیے لیا گیا قرض بھی اچھاخاصا بڑھ چکا تھا۔ رشتہ داروں نے ہوا کا رخ دیکھتے ہی فوراً آنکھیں پھیر لیں۔ ساجد کی ماں زاہدہ نے گھر کو سنبھالا دیا اور ساجد کی پڑھائی کو جاری رہنے دیا۔ وہ پڑھائی کی اہمیت کے پیش نظر اور اپنے بچے کی ذہانت کی وجہ سے ساجد کی پڑھائی پر خصوصی توجہ دے رہی تھی۔ مگر اچانک لوگوں کی طرف سے قرض کی ادائیگی کے تقاضے نے ساجد کی ماں کو پریشان کر دیا۔ گھر اپنا تھا یہ اﷲ کا بڑا احسان تھا۔ پریشان حال زاہدہ نے اپنے کام کو بڑھا کر قرض ادا کرنا ضروری سمجھا۔
وہ قرض کی اس لعنت سے جلد ازجلد چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی۔ راتوں کو اٹھ اٹھ کر کپڑے سینے سے اس کی طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی۔ پچھلے دو ماہ سے ساجد کی فیس ادا نہ ہوئی تو ہیڈ ماسٹر نے ساجد کو بلایا اور کہا: ’’ہم تمہارے باپ کے نوکر نہیں لگے ہوئے ہیں ، ہمیں بھی اساتذہ کو تنخواہیں دینی پڑتی ہیں اور تمہارے ساتھ تو خصوصی رعایت بھی کی جارہی ہے مگر اس کے باوجود دو ماہ سے تمہاری فیس جمع نہیں ہوئی۔‘‘
’’مگر وہ سر گھر کے حالات۔۔۔‘‘ ساجد ہیڈ ماسٹر کی بات سن کر روہانسا ہو گیا۔
’’ میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘ ہیڈ ماسٹر نے ساجد کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’اگر ایک ہفتے کے اندر اندر تمہاری فیس جمع نہ ہوئی تو تمہیں ششماہی امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا جائے گا۔‘‘ ہیڈماسٹر کے لہجے میں کرختگی تھی۔ ’’اب جاؤ اور اگلے بدھ کو اسکول، فیس سمیت آنا ورنہ اسکول آنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ ساجد نے اپنے آنسو بمشکل ضبط کیے اور دفتر سے باہر نکل آیا۔
وہ اپنی ماں پر بوجھ بننا نہیں چاہتا تھا اور ماں کی طبیعت کی خرابی کے باعث وہ اُنہیں مزید پریشان نہیں کرنا چاہتاتھا اس لیے اس نے خود کوئی کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ شروع میں تو زاہدہ اسے کام کرنے کی ہرگزاجازت دینے پر تیار نہ تھی مگر عبدالودودجو کہ ان کا ایک اچھا پڑوسی اور رشتہ دار بھی تھا، اس نے کہا کہ ’’بہن جی فکر نہ کریں۔ یہ میرے ساتھ ہی رہے گا۔ بہت بڑا ہوٹل ہے۔ ایک ہفتہ میں اچھے خاصے پیسے مل جائیں گے۔‘‘
’’مگر بھائی صاحب!۔۔۔ ساجد تو ابھی بہت چھوٹا ہے۔‘‘ زاہدہ فکر مندی سے بولی۔
’’بہن جی! اگر آج اس کی تعلیم ادھوری رہ گئی تو یاد رکھنا ہوٹل پہ کام کرنا آج چند دن کی بات ہے ، کل کلاں امتحان نہ دے سکا تو ساری زندگی اسی ہوٹل میں گزرے گی۔‘‘ مجبوراً زاہدہ کو اپنے بچے کے تابناک مستقبل کے لیے حامی بھرنی پڑی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
پانچوں دوستوں کے لباس تقریباً ایک جیسے تھے۔ پرفیوم کی ایسی خوشبو اٹھ رہی تھی کہ گویا پرفیوم کی ساری بوتلیں کپڑوں پر انڈیل لی گئی ہوں۔
’’یار جمیل بھائی !اس ہوٹل کے کھانوں کی دھوم دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ آج تو مزہ آجائے گا۔ ‘‘ ان میں سے ایک بولا۔
مزہ کیسے نہیں آئے گا جب سیٹھ جمیل صاحب ہماری دعوت کر رہے ہیں۔‘‘ ایک نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’اس ہوٹل کو دیکھ کر تو میری بھوک چمک اٹھی ہے۔‘‘ دوسرے نے لقمہ دیا۔ وہ پانچوں ہوٹل کی طرف بڑھنے لگے ہی تھے کہ اچانک ایک بچہ ان کے سامنے آیا۔ اس کے ہاتھ میں بے شمارگلاب کے پھول تھے۔
’’صاحب جی ایک پھول لے لو نا۔۔۔ صرف ایک پھول۔۔۔‘‘
ننھے بچے نے گویا التجا شروع کر دی۔ جمیل صاحب نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور سو روپے کا نوٹ بچے کو دیتے ہوئے کہا: ’’جاؤ بیٹا! یہ میری طرف سے تحفے کے طور پر قبول کرلو۔‘‘ بچہ پہلے تو جھجکا پھر نوٹ لے کر ایک سمت چل پڑاجیسے وہ اسی کا منتظر تھا۔ اب یہ قافلہ پھر ہوٹل کی جانب گامزن ہوا۔ لیکن ۔۔۔ !
اب ان کا موضوع بدل کر جمیل صاحب کی فیاضانہ طبیعت کی طرف مڑ چکی تھی۔
’’اپنے جمیل صاحب نے شاید ہی کبھی کنجوسی کی ہو۔‘‘ ان میں سے پہلے والے نے کہا تو دوسرا بھی بول اٹھا:’’ ہاں تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو، مجھے اپنی ساری زندگی میں ایسے لوگ کم ہی نظر آئے ہیں۔‘‘ وہ پانچوں ہوٹل میں سجی خوبصورت میزوں کے گرد کرسیوں پر بیٹھ چکے تھے۔
تیسرا بولا:’’ حضرت ۔۔۔!جمیل بھائی کے ساتھ میرا اکثر دوسرے شہروں میں جانا ہوا ہے اور راستہ میں کسی بھی قسم کے بچے نے کوئی چیز بیچنا چاہی تو جمیل صاحب نے بغیر کوئی چیز لیے ایک بڑی رقم اس بچے کے حوالے کی ہے۔ تیسرا اچانک جمیل صاحب کی طرف دیکھ کر مزید بولا: ’’جمیل صاحب وہ بچے والا واقعہ یاد ہے۔‘‘
کون سا واقعہ۔۔۔؟‘‘ جمیل صاحب انجان بنتے ہوئے بولے۔ وہ غضب کے ایکٹر ثابت ہوئے۔لیکن ان کی آنکھیں بخوبی پڑھی جا سکتی تھیں۔
’’ارے وہی جو اپنے ماں کی آنکھوں کے آپریشن کے لیے بھیک مانگ رہا تھا اور آپ نے اسی وقت جو دس ہزار اس بچے کے حوالے کر دیے تھے اور سب لوگ آپ کی تعریف بھی کررہے تھے۔۔۔ اخبار میں بھی شاید خبر آئی تھی۔‘‘
جمیل صاحب بولے: ’’ ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ یاد آگیا۔ ‘‘
’’یہ ویٹر کہاں ہے؟‘‘ چوتھا جو اب تک خاموش تھا بول اٹھا۔
’’وہ آرہا ہے۔‘‘ دوسرے نے سرگوشی کی۔۔۔ ’’بیچارے کو دیکھو تو سہی۔۔۔ابھی عمر ہی کیا ہے۔‘‘ ننھا ویٹر نزدیک آچکا تھا۔
’’جی سر! آرڈر دیجیے۔ ‘‘ آواز سن کر جمیل صاحب نے ویٹر کو غور سے دیکھااور بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا۔
’’ارے ساجد تم۔۔۔!‘‘
’’سر! آپ یہاں۔‘‘ ساجد نے اپنے ہیڈ ماسٹر کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔
’’ارے ارے۔۔۔ جمیل صاحب یہ وہی بچہ نہیں ہے جسے آپ کے اسکول میں غالباً فرسٹ آنے پر خصوصی انعام دیا گیا تھا۔‘‘
’’ہاں یہ وہی ہے۔‘‘ جمیل صاحب نے اعتراف کیا۔
’’ ارے ننھے بچے تم یہاں کیسے؟ تمہارے پرنسپل تو نہایت دریادل ہیں۔ کیا تم اب بھی ان کے اسکول میں پڑھتے ہو؟‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’اگر تم پر کوئی مصیبت آہی گئی تھی اور تمہیں یوں ہوٹلوں میں کام کرنا پڑا تو اپنے پرنسپل کو کیوں نہیں بتایا۔ وہ تمہاری مدد کردیتے۔‘‘ چوتھے نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ وہ جمیل صاحب کے ریاکاری کے اس فعل سے بخوبی واقف تھے۔
’’یار چھوڑو۔۔۔ بھوک لگی ہے کھانا منگواؤ۔‘‘ جمیل صاحب نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔
’’نہیں! جمیل صاحب یہ بہت ذہین بچہ ہے، ضرور کوئی مسئلہ ہے۔‘‘
’’بیٹے! تم ہمیں اپنا سمجھو شاید ہم تمہاری مدد کر سکیں۔‘‘ پہلا بولا۔
’’وہ دراصل۔۔۔‘‘ ساجد نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔
جمیل صاحب کا رنگ فق ہو چکا تھا۔ انہوں نے ساجد کو گھور کر منع کرنے کی ناکام کوشش کی مگر چوتھے کی نظر جمیل صاحب پر ہی تھی۔ اس لیے وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے۔
’’وہ دراصل قرض ہم پر بہت بڑھ چکا تھا۔ ماں رات کو دیر تک کام کرتی۔ اس وجہ سے ان کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ قرض ادا کرتے کرتے میری دو ماہ اسکول کی فیس ادا نہیں ہو سکی۔‘‘ ساجد انہیں واقعی اپنا سمجھتے ہوئے بولتا چلاگیا۔
’’کل پرنسپل صاحب نے کہا تھا کہ اگر ایک ہفتہ کے اندر اندر فیس نہ دی تو امتحان میں بیٹھنے نہیں دوں گا۔ اسی وجہ سے یہاں کام کرنے کے لیے آیا تاکہ فیس ادا کرکے امتحان دے سکوں ۔‘‘ ان چاروں نے حیرت بھری نظروں سے ماسٹر صاحب کو دیکھا جن کی نظریں شرم و ندامت سے جھکی ہوئی تھیں اور وہ سوچ رہے تھے کہ ریاکاری کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ کاش زمین پھٹ جائے اور میں زمین میں سما جاؤں۔ مگر اب ایسا ممکن نہ تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*