۸ ۔ نفسیاتی حربوں کی یلغار
ڈاکٹر عبدالرؤف
۔۔۔۔۔۔۔
جُوں جُوں آنحضور ﷺکے تبلیغی پروگرام میں توسیع ہوتی چلی گئی اور اِس کا دائرہ اثر پھیلتا گیا تُوں تُوں مکّہ کے کافر آپ ﷺ کی مخالفت کرنے اور مسلمانوں پر طرح طرح کے ظُلم وستم ڈھانے میں شدّت اختیار کرتے چلے گئے ۔دشمنوں کی یہ مذموم حرکتیں اس قدر زیادہ ،اس قدر متنوّع اور اس قدر تکلیف دہ تھیں کہ اِنسان ان کے تصوّر ہی سے لرز اُٹھتا ہے ۔جب کافروں نے دیکھا کہ محض زبانی کلامی مخالفت سے بات نہیں بنتی تو اُنھوں نے آنحضور ﷺ کو اقتدار ،دولت اور سکوں کے سبزباغ بھی دکھائے ۔یہ عیّار چالیں بھی ناکام ہُوئیں تو آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے ساتھیوں کو آبائی گھروں اور شہر سے نکال باہر کرنے کے اذیّت دہ منصوبے بنائے ۔خونریز جنگ وجدل کی دھمکیاں دیں ۔مسلمانوں کے محاصرے کیے۔اُن کے معاشرتی اور اقتصادی بائیکاٹ کیے تاکہ وہ اپنے دین سے بے زار ہوکر اسے ترک کر دیں یا دشمنوں کی اندھا دُھند جارحیت کا شکار ہو کر ویسے ہی مٹ جائیں ۔مگر اذیّتوں اور اُلجھنوں کے ان تمام مذموم حربوں کے باوجود آپﷺ اپنے مؤقف پر مضبوط چٹان کی مانند ڈٹے رہے ۔بلکہ دشمنوں کی مخالفت اور ایذا رسانی کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے صبروتحمل ،عزم وہمت اور ایثار واِستقلال میں حیرت انگیز اضافہ ہوتا چلا گیا۔
دُشمنوں کے خطر ناک منصوبوں اور ظلم وستم کی کارروائیوں کو تین بڑے عنوانوں کے تحت سمجھا جا سکتا ہے :
اوّل : ذلیل ورُسوا کرنے کے نفسیاتی حربے
دوم : کالے جادُو اور طلسم کے خطرناک وار
سوم: مختلف طریقوں سے قتل کے منصُوبے
تاریخِ انسانیّت میں نبئ اکرم ﷺ ہی وہ واحد ہستی ہیں جن کو ختم کرنے کے لیے اِس قدر خطرناک سازشیں اور اِتنے متنوّع حربے اِستعمال ہُوئے ۔تاریخِ عالم میں آپ ﷺ ہی وُہ منفرد ہستی ہیں جو اِتنی بڑی تعداد میں اس قدر عیّار سازشوں کے باوجُود طاقت وردُشمنوں کے نرغے سے ہربار نکل جاتے رہے اور اُن سب کے لیے حددرجہ مایوسی اور بے بسی کا باعث بنتے رہے ۔
ظُلم وستم کے ان سفّاک منصوبوں کی تفصیلات بے حد حیرت انگیز ہیں ۔ان میں سے اکثر واقعات تو رونگٹے کھڑے کر دیتے ہیں ۔یہ آپ ﷺ کی معاملہ فہمی اور مستقل مزاجی ہی کا کمال تھا کہ آپ ﷺ ان مہلک حربوں سے قطعی خائف نہ ہُوئے ۔باطل کے آگے گھٹنے ٹیکنے کی بجائے آپ ﷺ نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔چنانچہ دُشمنوں کو انجام کار ہر محاز پر شکست ہُوئی اور اسلام کا بول بالا ہُوا ۔دشمنوں کے مخالفانہ حربوں کی جن تین بڑی قِسموں کا اُوپر حوالہ دیا گیا ہے۔وہ اِس قدر بھیانک اور اِس قدر دلچسپ ہیں کہ اُن کا قدرے مفصّل ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے ۔اِس لیے اِس باب اور اگلے دوبابوں میں اُن پرعلیٰحدہ علےٰحدہ عنوانوں کے تحت روشنی ڈالی گئی ہے۔اِس باب میں فقط اُن تمام مذموم نفسیاتی حربوں کے مختصر خاکے پیش کیے جارہے ہیں جو حضور ﷺ کو ذلیل ورُسوا اور دل برداشتہ کرنے کے لیے کفّارِمکّہ عام اِستعمال کرتے تھے ۔
بدنام کرنے کی سازشیں
حضور ﷺ کے حسین سیرت و کردار میں اِس قدر سحر تھا کہ ابتدائی عمر ہی میں ہر خاص وعام آپ ﷺ کو’’امین ‘‘اور ’’صادق‘‘کے معزّز ترین القابات سے یاد کرنے لگا ۔مگر جو نہی آپ ﷺ نے بُتانِ کعبہ کی بے بسی اور کفّارِمکّہ کے اندازِحیات کے کھوکھلے پن کا بھانڈا پھوڑنا شُروع کیا سب چھوٹے بڑے مشتعل ہوگئے ۔اُنھوں نے انتقاماًآپ ﷺ کو بدنام کرنے کی گٹھیا سازشیں بنائیں ۔چنانچہ آپ ﷺ کو ذلیل ورُسوا کرنے کے لیے ہر قسم کے بدمعاشوں اور بد کاروں کو آپﷺ کے پیچھے لگا دیا گیا ۔
ایک روز تو یہ ہُوا کہ جب آپ ﷺ گھر سے باہر نِکلے تو گلی بازار میں جو بھی آپ ﷺ سے ملتا آپ ﷺ کو ’’جھوٹا‘‘کہتا اور طرح طرح کے طعنے دیتا ۔اس روز آپ ﷺ سے بے انتہا گُستاخ اور ذلیل کُن رویّہ اختیار کیا گیا ۔بدنامی کے یہ اوچھے وار حضور ﷺ کے دِل پر لگے ۔آپ ﷺ جلدی جلدی گھر لوٹے ۔بستر پر لیٹ کر ایک چادر اُوپر اوڑھ لی اور ےُوں اپنے جذباتی زخموں کا مداوا کرنے لگے ۔اسی موقعہ پر اللہ تعالیٰ نے اس مشہُور سورہِ مبارکہ میں آپ ﷺکی ےُوں دلجوئی فرمائی :’’اے چادر لپیٹ کر لیٹنے والے!اُٹھ اور لوگوں کو خبر دار کر ۔‘‘ (سورہ مُدثّر )
گردن میں چادر کا چکّر
بد ذوقی کا یہ بھونڈا مظاہرہ بھی ملاحظہ ہو ۔ایک دن حضور ﷺ خانہ کعبہ میں مصروفِ عبادت تھے ۔عقبہ بن معیط بھی ادھر آنِکلا ۔اُس نے آپ ﷺ سے ٹھٹھّا کرنے کا یہ موقع غنیمت سمجھا ۔چنانچہ اُس نے اپنی چادر اُتاری اور اسے حضور ﷺکی گردن کے گرد لپیٹ دیا۔پھر اِسے اِس زور سے جھٹکا دیا کہ آپ ﷺ زمین پر گر پڑے ۔اِس پر بدتمیز عقبہ اور اُس کے گنوار ساتھی مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہو گئے ۔
مُحمّد ﷺ کی بجائے مُذمّم
آپ ﷺ کی دل کش شخصیت و کردار کی طرح آپ ﷺ کا اسم گرامی بھی بے حد پیارا تھا ۔محمّد عربی زبان کا بے حد حسین لفظ ہے، جس کے معنی ہیں ’’قابلِ تعریف ‘‘۔بد ذوق کفّارِ مکّہ کا ایک مرغوب مشغلہ یہ بھی تھا کہ وہ حضور ﷺ کے نام کو بگاڑتے رہتے تھے ۔چنانچہ مُحمّد ﷺ کے بجائے وہ اکثر آپﷺ کو مُذمّم یعنی ’’قابلِ مذمّت ‘‘بھی کہتے رہتے ۔
حضور ﷺ اِن تمام گُستاخیوں اور بد ذوقیوں کو نظر انداز فرماتے اور صبروتحمل سے کام لیتے تھے ۔آپ ﷺ اکثر فرمایا کرتے تھے :’’کیا تمھیں اُن ضربوں پر حیرت نہیں ہوتی جو قریش مُجھے دینا چاہتے ہیں مگر جن سے اللہ تعالیٰ مُجھے محفوظ رکھتے ہیں ،وہ مجھے مُذمّم ہونے کا طعنہ دیتے ہیں ۔مگر میں تو فی الحقیقت محمّدﷺ ہی ہُوں۔
اُونٹ کے فُضلے والا واقعہ
ایک دِن حضور ﷺ خانہ کعبہ میں عبادت میں مگن تھے ۔قریش کا بڑا اکھّڑ سردار اَبوجَہل اپنے بدمعاش ساتھیوں سے کہنے لگا:’’فلاں جگہ کسی نے اُونٹ ذِبح کیا ہے اور اُس کا فُضلہ (اُوجھ )ابھی تک گلی میں پڑا ہے ۔اگر کوئی اُسے اُٹھالائے تو میں اسے محمّد ﷺ پر دے ماروں گا ۔‘‘یہ سُنتے ہی عقبہ وُہ فضلہ اٹھا لایا ۔جُو نہی حضور ﷺ سجدے میں گئے گندا فضلہ آپ ﷺ کی گردن مبارک پر پھینک دیا گیا ۔اور پھر اس بدتمیزی پر ہر طرف قہقہے گونجنے لگے ۔
حضور ﷺ کا مبارک جسم گندگی میں لت پت ہو گیا ۔اَبو جَہل اور اُس کا ٹولہ بے حد خُوش ہُوا ۔کسی نے حضور ﷺ کی صاحب زادی حضرت فاطمہؓ کو اِس واقعے کی اطّلا ع کر دی ۔وُہ اُس وقت بمشکل پانچ چھ برس کی تھیں ۔بیچاری بھاگم بھاگ خانہ کعبہ پہنچیں ۔گندے فضلے کو آپﷺ کے جسم سے اُٹھایا ،غلاظت کو صاف کیا اور بدتمیز ابو جَہل اور عقبہ کو سخت سُنائیں ۔
اَبو جَہل کی گستاخی
ایک دفعہ حضور ﷺ کوہِ صفا سے گز رہے تھے کہ ابو جہل اپنے گستاخ انداز میں آپﷺ پر آوازے کسنے لگا ۔جب اس ذاتی تضحیک وتمسخر سے اُ س کا جی نہ بھرا تو وہ اسلام کے بارے میں ناروا باتیں بکنے لگا ۔مگر اُس کی اس گستاخی اور بدذوقی پر حضور ﷺ نے کمال صبروتحمل کا ثبوت دیا اور بالکل خاموش رہے ۔
اُس دِن آپ ﷺ کے چچا حضرت حمزہؓ شکار کے لیے مکّہ سے باہر گئے ہُوئے تھے ۔ایک عورت نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔حمزہؓ شکار سے لوٹے تو اُس نے آپ کو سارا واقعہ کہہ سُنایا ۔حمزہؓ طیش میں آ گئے اور سخت غصہ کی حالت میں ابو جہل کی تلاش میں چل نکلے ۔ابو جہل ایک جگہ بیٹھا اپنے دوستوں سے گپ شپ لڑا رہا تھا ۔حمزہؓ نے اُسے دیکھتے ہی اپنی کمان مار کر اُس کا سر زخمی کر دیااور پھر بولے :’’تمھیں محمّد ﷺ کی بے عزّتی کرنے کی جرأت کیسے ہُوئی ؟لو، اب ذرا غور سے سُنو !میں بھی اسلام قبول کر رہاہُوں ۔اب سے آئندہ میں بھی وہی کچھ کہوں گا جو محمّد ﷺ کہتے ہیں ۔اگر تُم میں جرأت ہے تو مُجھ سے اُلجھ کے تو دیکھو !‘‘
ابوجَہل کے چند ساتھی اُس کی حمایت میں اُٹھے ہی تھے کہ اُس نے انھیں یہ کہہ کر روک دیا:’’اِسے جانے دو۔آخر میں نے بھی تو اس کے بھتیجے کو غلیظ گالیاں دی ہیں ۔‘‘
مکمّل بائیکاٹ کا دباؤ
جب مسلمانوں پر آلام و مصائب کے پہاڑ ٹوٹنے لگے اور مکّہ میں جینا دو بھر ہو گیا تو حضور ﷺ کے بعض ساتھی ہجرت کر کے حبشہ آباد ہو گئے ۔کفّا ر کوحسرت تھی کہ یہ لوگ اُن کی ایذا رسانی کی زد سے کیونکر بچ نکلے ۔اُدھر ایک بے حد مؤثر اور طاقتور شخصیّت یعنی حضرت عمرؓ بھی اسلام قبول کر چُکے تھے ۔مختلف عرب قبائل بھی آہستہ آہستہ اسلام کی طرف مائل ہوتے چلے جا رہے تھے ۔حضور ﷺ کا انقلابی مشن خاصا کامیاب ہوتا دکھائی دینے لگا تو کافروں کی پریشانی مزید شدّت اختیار کر گئی۔
صورتحال سے نمٹنے کے لیے کافروں نے ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ۔فیصلہ یہ ہُوا کہ حضور ﷺکے قبائل بنو ہاشم اور بنو مطلب کے تمام افراد کا فوری بائیکاٹ (مقاطعہ)کرد یا جائے ۔بائیکاٹ کے اس منصوبے کے تحت مسلمانوں کے ساتھ شادی بیاہ اور ہر قسم کے لین دین پر مکمّل پابندی لگا دی گئی ۔حضور ﷺ اور مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت اور عداوت کو مستقل دستاویز ی شکل دینے کی خاطر بائیکاٹ کے اس فیصلہ کو ایک کاغذ پر لکھ کر خانہ کعبہ کے وسط میں لٹکا دیا گیا ۔
نفرت کی اس مشہور دستاویز کا کاتب منصور بن عکرمہ تھا۔حضور ﷺ نے اُسے بد دُعا دی تو اُس کی اُنگلیاں بے حس ہو کر ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گئیں ۔
طائف میں طعنے اور اذیّتیں
۶۱۹ء کے لگ بھگ جب مکّہ میں کفّار کی نفسیاتی یلغار خاصی تیز ہو گئی تو حضور ﷺ نے طائف میں تبلیغ کر کے وہاں کے کچھ با اثر لوگوں کو مسلمان کر نا چاہا۔طائف مکّہ سے مشرق کی جانب تقریباََ۹۰ کلو میٹر دُور واقع ہے ۔حضورﷺ سارا راستہ پیدل چل کر وہاں پُہنچے ۔
طائف میں اُن دِنوں تین بھائیوں کو بُہت رُسوخ اور اقتدار حاصِل تھا ۔آنحضور ﷺ ان تینوں سے فرداًفرداًملے اور اُنھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی ۔مگر اُن سنگدل بھائیوں نے آپ ﷺ کی دعوتِ حق کو نہ صرف ٹھکرادیا بلکہ آپ ﷺ کی سخت طعن و تشنیع کی اور اِنتہائی گستاخی سے پیش آئے ۔اُنھوں نے اپنے غلاموں ،گلی بازار کے آوارہ لونڈوں اور طائف کے بدنام بد معاشوں کو حضور کے خلاف بھڑکادیا ۔چنانچہ آناًفاناًایک ہلّہ گلّہ سا ہو گیا اور ایک بے حد مشتعل ہجوم آپ ﷺ کے پیچھے لگ گیا ۔اُنھوں نے آپﷺ پر غلیظ گالیوں اور نوکیلی کنکریوں کی بوچھاڑ کر دی ۔حضور ﷺ شدید زخمی ہو گئے ۔آ پ ﷺ کے جسم کے کئی حصّوں سے خون بہنے لگا ۔مگر درندہ صفت بلوائیوں کا وہ سفّاک ٹولہ پھر بھی آپﷺ کا تعاقب کرتا رہا۔
آخر آپ ﷺ انگوروں کے ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور ہُوئے اور وہاں ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے ۔یہ باغ دو شریف الطبع بھائیوں کی ملکیّت تھا۔طائف کے بد معاشوں کی درندگی سے اُنھیں حضور ﷺ سے کُچھ ہمدردی سی پیدا ہوگئی تھی ۔چنانچہ اُنھوں نے انگوروں کا ایک گُچھا ایک پلیٹ میں ڈال کر اپنے عیسائی غلام عدّاس کے ہاتھ حضور ﷺ کی طرف بھیجا ۔عدّاس جب انگور اُٹھائے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہُوا تو حضور ﷺ کی طلسماتی شخصیت اور مہذّب اندازِگفتگو سے اِس قدر متأثّر ہُوا کہ اُس نے حضور ﷺ کا سر مبارک ،ہاتھ اور پاؤں چُومنے چاٹنے شُروع کر دیے ۔اُس کے آقا دُور کھڑے یہ سب تماشہ دیکھ رہے تھے ۔جب عدّاس واپس لوٹا تو اُنھوں نے حضور ﷺ سے اُس کے والہانہ اظہارِ عقیدت پر اُس کی سخت سر زنش کی ۔
طائف کے غنڈوں کی وحشیانہ حرکتوں سے بھی حضور ﷺ کے عزم واستقلال میں کوئی فرق نہ آیا ۔آپ ﷺصبرو تحمل سے مکّہ واپس تشریف لے آئے اور آتے ہی اُسی ہمّت اور ولولہ سے اپنے تبلیغی مشن میں مصروف ہو گئے۔
حضور ﷺ کی ہَجْوسرائی
ابو لہب اور اُس کی بیوی اُمِّ جمیل حضور ﷺ کی ہمسائیگی میں رہتے تھے ۔اور دونوں میاں بیوی آپ ﷺکو بُہت تنگ کیا کرتے تھے ۔اُمِّ جمیل حضور ﷺ کے راستے میں کانٹے بچھایا کرتی تھی اور آپ ﷺ کو بُہت ستایا کرتی تھی ۔جب ابو لہب اور اس کی مکّار بیوی کی ایذا رَسانی حد سے بڑھ گئی تو سورہ اللہب نازل ہُوئی جس کی آیات ےُوں ہیں :
۱۔ ٹُوٹ گئے ابو لہب کے ہاتھ اور وہ نا مراد ہو گیا۔
۲۔ اُ س کا مال اور اُس کی کمائی اُس کے کسی کام نہ آئے ۔
۳۔ وُہ ضرور شعلہ زن آگ میں ڈالا جائے گا ۔
۴ ۔ اور (اُس کے ساتھ )اُس جورو بھی لگائی بُجھائی کرنے والی (فساد کا ایندھن اُٹھانے والی )۔
۵۔ اُس کی گردن میں مُونجھ کی رسی ہو گی ۔(سورہ اللہب )
دونوں میاں بیوی کی ہولناک تباہی کی پیش گوئی کا چرچا ہُوا تو اُمِّ جمیل سخت برہم ہُوئی ۔اُس نے طیش میں آکر ایک بڑا سا پتھر اُٹھایا اور حضور ﷺ کو مارنے کے لیے اُس مسجد کی جانب چل دی جہاں حضور ﷺ ابو بکرؓ کے ساتھ بیٹھے ہُوئے تھے ۔پھر عجب بات یہ ہُوئی کہ اُسے ابو بکرؓ تو نظر آگئے مگر حضور ﷺکو وہ بالکل نہ دیکھ سکی ۔چنانچہ اِسی حالت میں ابو بکرؓ سے کہنے لگی:’’تمھارا دوست کہاں ہے ؟مجھے پتہ چلا ہے کہ اُس نے میری مذمّت کی ہے ۔خُدا کی قسم ،اگر آج وہ میرے ہاتھ لگ جاتا تو میں اس پتھّر سے اُس کا مُنہ پھوڑ دیتی ۔بخدا میں تو خود بھی شاعرہ ہُوں ۔‘‘پھر اُس نے سورہ لہب کے جواب کے طور پر آپ ﷺ کی ہجو اور اسلام کی مذمّت میں اپنے چند شعر پڑھے اور ےُوں دِل ہلکا کر کے واپس چل دی ۔
جب وہ اکھڑ بُڑھیا آنکھوں سے اُوجھل ہو گئی تو ابو بکرؓ نے حیرت سے حضور ﷺ کی طرف دیکھا اور پُوچھا :’’آپ ﷺ اُسے نظر کیوں نہ آئے ؟‘‘آپ ﷺنے فرمایا :’’اللہ تعالیٰ نے اُس میں مُجھے دیکھ پانے کی صلاحیّت سلب کردی تھی ۔‘‘
پانچ بدتمیز مسخروں کا انجام
کئی بدتمیز گنواروں نے حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کے تمسخر آمیز حربے بھی استعمال کیے۔آپ ﷺ کا تمسخر اُڑانے والوں میں جو پانچ بدتمیز افراد بُہت رُسوا ہُوئے ،اُن کے نام یہ ہیں (۱)اَسود بن عبدالمطلب (۲)اَسود بن عبد یغوث (۳)ولید بن مغیرہ (۴) عاص بن وائل اور (۵)حارث بن الطلالہ۔
یہ لوگ خاصے عمر رسیدہ تھے اور اپنے اپنے قبیلوں میں کافی ’’معزّز‘‘سمجھے جاتے تھے ۔اُنھوں نے حضور ﷺ کا مذاق اُڑانے اور انھیں تنگ کرنے میں انتہا کر دی تھی ۔آخر کار اس بدتمیزی کی پاداش میں یہ پانچ گنواروں کا ٹولہ اپنے عبرتناک انجام کو جا پہنچا ۔اَسود بن عبدالمطلب اندھا ہو گیا ۔اَسود بن عبد یغوث کو اِستسقاء کا مرض لاحق ہُوا ۔اس کا پیٹ پھُول گیا اور وہ شدّتِ مرض سے چل بسا ۔ولید ٹخنے پر شدید زخم سے موت کا شکار ہُوا ۔عاص کے پاؤں میں کانٹا چُبا اور زخم بگڑتے بگڑتے جان لیوا ثابت ہُو ا۔اِسی طرح حارث کے سر میں پِیپ سے اُس کی موت واقع ہُوئی ۔
اِقتداراور دولت کے سبز باغ
دُشمنوں نے ایک بے حد دلفریب حربہ بھی اِستعمال کیا ۔مگر وہ بھی بے کار ثابت ہُوا۔حضور ﷺ کو اِس شرط پر اعلیٰ اقتدار اور بیش بہادر دولت کی بار بار پیش کش کی گئی کہ آپ ﷺ کفّار کے بر گزیدہ بُتوں ،مروجّہ رسوم ورواج اور قدیم اندازِحیات کی مذمّت ترک کر دیں ۔اور اپنے نئے پروگرام کی تعمیل کے لیے تبلیغ واصلاح کے سِلسلے بند کر دیں ۔
کفّار حضور ﷺ سے پُوچھتے :’’کیا آپﷺ کو مال وزر کی ضرورت ہے ؟ہم آپ ﷺ کو مُنہ بولی دولت دینے کے لیے ہر لمحہ تیار ہیں ۔اگر آپ ﷺ سیاسی اقتدار چاہتے ہوں تو ہم آپ ﷺ کو متفقہ اور غیر مشروط طور پر اپنا قائد مان لیتے ہیں ۔کیا آپ ﷺ کا مطمح نظر بادشاہت ہے ؟ہم آپ ﷺ کو حکمران تسلیم کر لیتے ہیں ‘‘وغیرہ وغیرہ ۔
ان بیش بہا بیش کشوں کا بھی حضور ﷺ پر کوئی خاطر خواہ اثر مرتب نہ ہو سکا ۔بلکہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے :’’اگر قریشی سردار میرے ایک ہاتھ میں سُورج اور دُوسرے ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیں تو بھی میں اپنے مشن سے ہر گز دستبردار نہ ہو ں گا ۔بلکہ اس کی تکمیل کے لیے اپنی جان تک دینے کے لیے بھی ہر وقت تیار ہُوں ۔‘‘
’’ذہنی توازن ‘‘کے جھانسے
بعض سادہ لوح یہ سمجھتے تھے کہ حضور ﷺ آسیب زدہ ہیں اور ان پر جِن بھُوت کا سایہ ہے۔چنانچہ اس قسم کے کم فہم لوگ حضور ﷺ کو یہ پیش کش بھی کرتے رہے کہ اگر آپ ﷺ بُتوں کی مخالفت ترک کردیں تو وہ آپ ﷺ کی’’ذہنی تکلیف ‘‘کا مکمّل علاج بھی کرا دیں گے ۔اور یوں آپ ﷺ سکوں اور طمانیت سے ہمکنار ہو جائیں گے ۔
ایسے جاہلوں کو احساس تک نہ تھا کہ وہ تو خود ہی خطرناک ذہنی امراض کے شکار ہو چکے تھے اور اُن کے اندازِفکروعمل اُنھیں کشاں کشاں تباہی وبربادی کی جانب دھکیل رہے تھے ۔
موت کی بد دُعائیں
جب مکّہ میں آنحضور ﷺکے لیے جینا دو بھر کر دیا گیا تو آ پ ﷺ مدینہ ہجرت فرما گئے ۔تاہم دُشمنوں کی نفسیاتی یلغار یہاں بھی اُسی شدّو مد سے جاری رہی ۔مکّہ میں آپ ﷺ کو تنگ کرنے میں کافر پیش پیش تھے ۔مگر مدینہ میں اس ذلیل حرکت کی قیادت یہودیوں کے ہاتھ آئی ۔یہودی جب بھی آپﷺ کو دیکھتے ،طعنے دیتے اور آواز ے کستے ۔آپ ﷺ سے ملتے تو صحیح طریقے سے السّلام علیکم کہنے کے بجائے السّام علیکم (یعنی آپ ﷺ کی موت ہو) کہتے ۔
حضور ﷺ کی دشنام طرازی ا ور ایذا رسانی میں مدینہ کے یہُودی مکّہ کے کافروں سے بازی تو نہ جیت سکے مگر اپنی طرف سے اُنھوں نے بھی کوئی کسر نہ اُٹھا رکھی ۔مگر ان سب باتوں سے حضور ﷺ پر کوئی اثر نہ ہُوا ۔لوگوں کو بُرائی سے بچانے اور نیکی کی طرف مائل کرنے کے لیے آپ ﷺمسلسل جدّوجہد کرتے چلے گئے بلکہ جُوں جُوں آپ ﷺ کی جسمانی اذّیتیں بڑھتی گئیں تُوں تُوں آپ ﷺ بُتوں اور بدی کی مذمّت میں شدّت اختیار کرتے چلے گئے ۔
اپنے نفسیاتی حربوں کی ناکامی اور حضور ﷺکے عزم و استقلال میں ترقی سے دشمنوں کی مایوسی اور اضطراب کی انتہا نہ رہی اور اُن کی مخالفت اور نفرت دن بدن زیادہ شدید اور زیادہ خطرناک رُوپ دھارتی چلی گئی ۔