’’نادر صاحب کے بچے‘‘
نائلہ صدیقی
………………………..
’’ارے ارے ذرا سنبھل کر!‘‘ گھر میں داخل ہوتے ہوئے رفیق صاحب ٹھوکر کھا کر گرتے گرتے بچے، اُدھر بیگم کا یہ جملہ ان کی سماعت سے ٹکرایا۔
’’ہنھ! جس کو ایسے گھر والے ملیں وہ کب تک سنبھلتا رہے؟‘‘ رفیق صاحب بھنا کر بولے اور راستے میں پڑی سائیکل کو ایک زوردار ٹھوکر رسید کی۔
’’ یہ سائیکل مُنا چلا رہا تھا، چلاتے چلاتے گر پڑا تو ۔۔۔‘‘ بیگم رفیق نے صفائی پیش کرنا شروع کی۔
’’تو آپ گرے ہوئے مُنے کو اُٹھا کر اندر لے گئیں اور یہ سائیکل یہیں گرا چھوڑ دیا کہ جب مُنا گرا ہے تو اس کا باپ کیوں نہ گرے؟‘‘ رفیق صاحب تلملا کر بولے۔ ’’اور ہاں یہ منے کی گرنے کی رفتار کچھ بڑھتی نہیں جارہی؟ آخر اس کی کیا وجہ ہے؟‘‘ رفیق صاحب نے پوچھا۔
’’وجہ کیا ہونا ہے؟‘‘ دراصل منے کی عمر بڑھ رہی ہے اس لئے!‘‘
’’اس وجہ سے تو سب سے زیادہ مجھے گرنا چاہئے بیگم!‘‘ رفیق صاحب جملہ کاٹ کر بول اُٹھے۔
’’اوہو آپ سے کون بحث کرے؟ یہ نہیں کہ اندر جاکر چوٹ کھائے بچے کو دیکھیں‘‘۔ بیگم رفیق نے پیر پٹخ کر کہا۔
’’جی ہاں! میری تو قسمت ہی یہ ہے کہ روزانہ دفتر سے آکر روتے بسورتے چوٹ زدہ بچوں کو دیکھنے میں لگ جاؤں‘‘۔ انہوں نے آہ بھری۔
’’ساری دنیا کے بچے ایسے ہی ہوتے ہیں، آپ تو ٹھہرے ناشُکرے!‘‘ ان کی بیگم نے ناگواری سے کہا۔
’’ارے ساری دنیا کی قسمت ایسی کہاں؟ اب یہ پڑوس میں نادر صاحب کے بچوں کو دیکھ لو، کیسے تمیزدار، صاف ستھرے اور پیارے بچے ہیں۔ مجال ہے جو اُن کے گھر میں کبھی راستے میں سائیکل پڑی نظر آجائے۔ آج تو خیر مُنے نے گرنے کا تکلف کرلیا ورنہ وہ ہمیشہ سائیکل چلاتے چلاتے راستے میں چھوڑ کر بھاگ لیتا ہے اور دوسرے ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں‘‘۔ رفیق صاحب نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا اور پیر کا انگوٹھا سہلاتے ہوئے اندر کا رُخ کیا۔ بیگم بھی منہ بنا کر اُن کے پیچھے ہولیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کمرے میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔ بیگم رفیق ننھی پر برس رہی تھیں جس نے ریفریجریٹر میں سے مٹھائی نکالنے کی کوشش میں دودھ کی پتیلی لڑھکا دی تھی۔ چور ننھی حلق پھاڑ کر رونے کی مشق کررہی تھی تاکہ اس کیس سے باعزت بری ہوسکے۔ قالین پر دودھ کی نہر بہہ رہی تھی۔ اتنے میں رفیق صاحب کی بہن کمرے میں داخل ہوئیں ’’ارے بھابی! کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے انجان بن کر پوچھا، حالانکہ جو کچھ ہوا تھا وہ پورے کمرے میں نظر آرہا تھا۔
’’ارے ہونا کیا ہے؟ یہ کم بخت بچے، سچ کہتے ہیں ان کے پاپا! ایسے بچے تو کہیں نہ ہوں گے جیسے ہمارے ہیں۔ اب اس ننھی نے مٹھائی چرانے کے چکر میں دودھ گرادیا، بھلا بتاؤ یہ کیا حرکت ہے؟‘‘ بیگم رفیق نے ننھی کو دھمکا جڑتے ہوئے کہا۔
’’آئے ہائے غضب! اس مٹھائی پر تو نجانے مکھیوں کی کتنی نسلیں پل کر جوان ہوگئیں اور یہ ننھی اب چلی ہے اُسے چرانے! توبہ توبہ اور یہ دودھ! اب آپ بھائی صاحب کو چائے کیسے پلائیں گی، وہ تو آتے ہی ہوں گے‘‘۔ بہن صاحبہ نے مستقبل کے اندیشوں سے ڈرایا۔
’’ارے غزالہ! جب آفس سے آتے ہی اُن کے پاؤں دودھ سے دھلیں گے تو پھر چائے پینے کی نوبت کیسے آئے گی؟ میرا مطلب ہے کہ قالین کا یہ حشر دیکھ کر وہ تو آگ بگولہ ہوجائیں گے‘‘۔ بیگم رفیق نے سہم کر کہا۔
’’بھائی صاحب کو آگ بگولہ کرنے میں ننھی بھی اہم کردار ادا کرے گی، میرا مطلب ہے کہ یہ دودھ کے چھینٹوں اور مٹھائی کے شیرے سے سجی ننھی اُن کو خوب خوش کرے گی‘‘۔ غزالہ نے چبا چبا کر کہا۔
’’ارے ہاں دیکھو تو سہی اس کا حشر! جنگی بھتنی! اس کے پاپا آنے ہی والے ہیں، میں ذرا اس کا حلیہ درست کردوں تم جب تک یہ قالین وغیرہ صاف کردو‘‘۔ بیگم رفیق ننھی کو گھسیٹتے ہوئے باہر نکل گئیں۔ غزالہ نے ناک چڑھا کر گندے قالین، دودھ کی اُلٹی ہوئی پتیلی اور مٹھائی کے گرے ہوئے ڈبے کو دیکھا۔
’’ہنھ! چوریاں اور بدتمیزیاں ان کے بچے کریں اور صفائیاں میں کرتی پھروں!‘‘ غزالہ نے سر جھٹک کر سوچا اور ٹی وی لاؤنج کی طرف چل دی۔
’’سچ ہی کہتے ہیں بھائی صاحب! نادر صاحب کے بچے کتنے اچھے ہیں، کیا مجال جو اُن کے گھر اس قسم کی کوئی گندگی نظر آجائے‘‘۔ غزالہ نے ٹی وی کھولتے ہوئے سوچا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
چچ چچ! یہ فریکچر کیسے ہوا؟ نادر صاحب نے بستر پر لیٹے رفیق صاحب کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا جن کا ایک پیر پلاسٹر میں جکڑا ہوا تھا۔ ارے صاحب! جس گھر میں ایسی وبال اولاد ہو اُسے فریکچر کی کیا کمی؟ مجھے تو اپنی اُن ہڈیوں پر حیرت ہے جو اب تک بچی ہوئی ہیں، ورنہ تو خیر سے جب سے یہ بچے چلنے پھرنے کے قابل ہوئے ہیں، میری مسلسل ہڈیاں ٹوٹ رہی ہیں‘‘۔ رفیق صاحب بولتے چلے گئے۔
’’دراصل کل یہ کیلے کے چھلکے پر سے پھسل کر گرگئے اور یہ پیر کی ہڈی۔۔۔‘‘ بیگم رفیق نے مجرموں کی طرح سر جھکا کر فریکچر کے اسباب پر روشنی ڈالی۔
’’جی ہاں جیسے مجھے تو پھسلنے کا بڑا شوق ہے اور میں اسی انتظار میں بیٹھا رہتا ہوں کہ کب گھر میں کیلے کھا کر چھلکے پھینکے جائیں اور کب میں اُن پر پھسل کر گروں۔ صاف بات کیو ں نہیں بتاتیں کہ تمہارے ننھے نے کیلا کھا کر چھلکا فرش پر ڈال دیا تھا‘‘۔ رفیق صاحب نے بلبلا کر کہا۔
’’ارے بھائی صاحب چھوڑئیے! بچے تو ایسی حرکتیں کرتے ہی رہتے ہیں‘‘۔ نادر صاحب نے بات کو ٹالنا چاہا۔
’’ارے واہ! ایسے کیسی حرکتیں ہوجاتی ہیں؟ آخر ان ناہنجاروں کو کوئی اور حرکت کیوں نہیں سوجھتی اور پھر آپ کے بھی تو بچے ہیں، وہ کتنے!۔۔۔
’’ناہنجار، ناہنجار‘‘۔ رفیق صاحب کے تینوں بچے دروازے میں سے جھانک کر چیخ رہے تھے۔
’’دیکھا ان کم بختوں کو؟‘‘ رفیق صاحب تلملا کر بستر سے اُٹھنے لگے۔
’’ارے میں اُن کی خبر لیتی ہوں، آپ لیٹے رہئیے‘‘۔ بیگم رفیق نے گھبرا کر کہا اور بچوں کو دھکیلتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئیں۔
’’کم بختوں، کم بختوں‘‘۔ بچے مسلسل نعرے لگاتے جارہے تھے۔ رفیق صاحب نے نڈھال ہوکر تکیے پر سر رکھ دیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
سارا کمرہ کاغذ کے جہازوں اور اخبار کے پھٹے ہوئے ٹکڑوں سے بھرا ہوا تھا۔ بیگم رفیق نے مسز نادر کو اندر بُلاتے ہوئے بڑی شرمندگی محسوس کی، اگرچہ بچوں کی وجہ سے اُن کے گھر میں شرمندگی محسوس کرنے کی سطح کافی کم ہوچکی تھی۔
’’آئیے بیٹھئے ناں!‘‘ انہوں نے مہمان نوازی کرنے کی کوشش کی۔
’’بس ابھی میں ذرا جلدی میں ہوں، میں یہ کہنے آئی تھی کہ ماشاء اللہ بھائی صاحب صحت یاب ہوچکے ہیں اور اِدھر ہمارے ببلو کا رزلٹ آگیا ہے، فرسٹ آئے ہیں ماشاء اللہ تو میں چاہتی ہوں کہ اس خوشی میں آپ کل کھانا ہمارے ساتھ کھائیے۔۔۔ مسز نادر کی بات ابھی مکمل نہ ہوئی تھی کہ اُن کے منہ پر ایک جہاز آکر لگا۔ یہ ننھے نے منے کی طرف اُچھالا تھا، راستے میں مسز نادر لپیٹ میں آگئیں۔
’’ارے یہ میرے بچے بڑے شریر ہیں‘‘۔ بیگم رفیق نے کھسیا کر کہا۔
’’کوئی بات نہیں‘‘۔ مسز نادر نے بکھر جانے والے بال سمیٹے۔ ’’تو پھر میں کل انتظار کروں گی‘‘۔ وہ اُٹھتے ہوئے بولیں۔
’’ضرور ضرور!‘‘ بیگم رفیق نے ننھی کے ہاتھ سے قینچی چھینتے ہوئے کہا جس سے وہ مسز نادر کے بال کاٹنے جارہی تھی۔ یہ قینچی کل بیگم رفیق نے سلائی کرتے کرتے میز پر چھوڑ دی تھی اور حسب معمول واپس رکھنا بھول گئی تھیں۔ رفیق صاحب گنگناتے ہوئے واش بیسن کی طرف بڑھے اور ٹوتھ پیسٹ کی طرف ہاتھ بڑھایا، لیکن پچکی ہوئی ٹیوب دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خون اُتر آیا۔ آج انہیں نادر صاحب کے گھر کھانے پر جانا تھا، لہٰذا غصے پر قابو پاکر کلی پر اکتفا کیا۔ صابن فرش پر پڑا گُھل رہا تھا۔ انہوں نے کیبنٹ سے نیا صابن نکال کر منہ دھویا اور تولیے سے منہ پونچھتے ہوئے فرش پر گھلتے صابن کے جھاگ سے بچتے باہر نکل آئے۔ گیلا تولیہ بستر پر پھینک کر خود کپڑوں کی تلاش میں الماری میں گھس گئے۔ ان کی بیگم بچوں کو پکڑ دھکڑ کر نہلانے دُھلانے میں مصروف تھیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
’’اُف کیسا گھر ہے یہ! نہ فرش پر پانی بہہ رہا ہے اور نہ قالین پر دھبے ہیں، نہ راستے میں کھلونے بکھرے پڑے ہیں اور نہ دیواروں پر پنسل کی لکیریں ہیں، حد تو یہ ہے کہ صوفوں پر آئس کریم بھی نہیں گری اور یہ شیشے کی میز، اس پر تھوک کا ایک بھی قطرہ نہیں۔ واہ گھر ہے یا جنت‘‘۔ رفیق صاحب جھوم کر بولے۔ نادر صاحب فون سننے کے لئے کمرے سے باہر گئے تھے اور مسز نادر کچن میں تھیں۔
’’بیگم ذرا اپنے لاڈلوں کو قابو میں رکھنا، کہیں ان کا گھر بھی اپنے گھر جیسا نہ بنادیں‘‘۔ رفیق صاحب نے ہدایت کی۔
’’نادر صاحب کے بچے بھوندو ہیں، بالکل ڈل، جبکہ ہمارے بچے شریر ہیں یعنی ذہین اور ذہین بچے ہی شرارتیں کرتے ہیں جناب!‘‘ بیگم رفیق نے چڑ کر کہا۔
’’اوہ خدایا! مجھے یہ بات معلوم نہیں تھی ورنہ تو میں خدا سے یہ دُعا کرتا کہ دنیا میں صرف اور صرف ڈل بچے پیدا ہوں، تاکہ ہماری دنیا بالکل صاف ستھری، کوڑے کرکٹ اور بدتمیزی سے پاک نظر آئے جو بقول آپ کے اِن شریر بچوں نے پروڈیوس کی ہے‘‘۔ رفیق صاحب نے آنکھیں بند کرکے کہا۔
’’ہنھ!‘‘ بیگم رفیق نے ہنکارہ بھرا۔ اتنے میں مسز نادر کمرے میں داخل ہوئیں اور ان سب کو کھانے کی میز پر چلنے کی دعوت دی۔ کھانا خوشگوار اور پُرامن ماحول میں کھایا گیا، کیونکہ رفیق صاحب نے اپنے بچوں کو گھورنے اور ان کی بیگم نے میز کے نیچے سے چٹکیاں کاٹ کر قابو میں رکھا ہوا تھا۔ بچے ویسے بھی ماں باپ کے منہ سے مسلسل اپنی شکایتیں اور نادر صاحب کے بچوں کی تعریفیں سن کر چڑے بیٹھے تھے اور کوئی بدتمیزی یا ذہانت نہیں دکھا رہے تھے۔ کھانے سے فارغ ہوکر گپ شپ کا دور چلا جس کے بعد رفیق صاحب نے اجازت چاہی، تمام اہلِ خانہ گیٹ کی طرف چلے، میزبان انہیں رُخصت کرنے کے لئے پیچھے پیچھے آرہے تھے۔
’’ارے یہ کیا؟‘‘ نادر صاحب نے جھک کر فرش پر سے کرکٹ کا بلا اُٹھایا۔
’’بچے کرکٹ کھیل رہے تھے، کھانا لگا تو یہیں چھوڑ کر بھاگ لئے‘‘۔ ان کی بیگم نے وضاحت پیش کی۔
’’اچھا تو ذرا میں یہ بلا بچوں کے کمرے میں رکھ آؤں، پھر آپ کو خدا حافظ کہنے دروازے تک چلتا ہوں‘‘۔ نادر صاحب نے کہا۔
’’ارے چھوڑئیے! بچوں نے گرایا ہے وہ ہی اُٹھا کر رکھ آئیں گے‘‘۔ رفیق صاحب نے ہنس کر کہا۔
’’نہیں صاحب! اس انتظار میں رہا تو سبھی ٹھوکر کھا کر گریں گے، ان بچوں کا کیا بھروسہ؟ یہ کون سے ذمہ دار ہیں؟‘‘ نادر صاحب بلا پکڑ کے بچوں کے کمرے کی طرف مُڑ گئے اور رفیق صاحب اپنے گھر والوں کے ہمراہ واپس چلے آئے۔ دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوئے۔ بچوں نے گھر میں گھستے ہی یاہو کرکے جوتے اُتار پھینکے اور کمرے میں بھاگ گئے۔
’’ارے یہ بدتمیز!‘‘ بیگم رفیق کا جملہ ادھورا رہ گیا، کیونکہ رفیق صاحب جھک کر بچوں کے جوتے اُٹھا رہے تھے۔
’’ارے ارے! یہ آپ کیا کررہے ہیں؟‘‘ وہ گھبرا کر ان کی طرف بڑھیں۔
’’کوئی بات نہیں! میں یہ جوتے بچوں کے کمرے میں رکھ آتا ہوں، ورنہ یہ اس وقت تک راستے میں پڑے رہیں گے جب تک اِن کی دوبارہ ضرورت نہ پڑجائے‘‘۔ وہ جوتے سنبھالتے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔ بیگم رفیق بُت بنی کھڑی انہیں د یکھتی رہ گئیں۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ رفیق صاحب یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ اپنے بچوں کو نادر صاحب کے بچوں جیسا بنانے سے پہلے وہ خود نادر صاحب بنیں گے۔