skip to Main Content
جلیبیاں

جلیبیاں

احمد ندیم قاسمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم گورنمنٹ اسکول میں جماعت پنجم کے طالب علم تھے۔ ایک دن فیس اور فنڈز کے مبلغ چار روپے لے کر اسکول پہنچے تو پتہ چلا کہ آج ماسٹر غلام محمد چھٹی پر ہیں، لہٰذا فیس کل لی جائے گی۔ دن بھر تو یہ چار روپے ہماری جیب میں چپ چاپ پڑے رہے، مگر جب ہم چھٹی کے بعد اسکول سے باہر نکلے تو یہ روپے بولنے لگے۔
ایک روپیہ کہنے لگا، ’’سوچتے کیا ہو؟ سامنے کی دکان پر کڑھاؤ میں سے جو تازہ تازہ جلیبیاں نکل رہی ہیں، تو یوں ہی تو نہیں نکل رہی ہیں۔ جلیبی کھانے کی چیز ہے، روپیہ خرچ کرنے کی چیز ہے اور اسے وہی لوگ خرچ کرتے ہیں جنہیں جلیبیاں اچھی لگتی ہیں‘‘۔
ہم نے کہا ’’دیکھو بھائی چار روپو! ہم بڑے اچھے لڑکے ہیں اور تم ہمیں گمراہ نہ کرو، ورنہ ٹھیک نہیں ہوگا۔ بازار کی چیزوں کی طرف ہم دیکھنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ پھر تم ہماری فیس اور فنڈ کے روپے ہو۔ آج ہم خرچ کر بیٹھیں گے تو کل اسکول میں ماسٹر غلام محمد اور اُس کے بعد قیامت کے دن اللہ میاں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ بہتر یہ ہے کہ تم ہمارے کان نہ کھاؤ بھائی! اور ہمیں سیدھا گھر جانے دو‘‘۔ روپوں کو ہماری یہ بات اتنی بری لگی کہ سب ایک ساتھ بولنے لگے۔ اُن دنوں کا روپیہ بجتا بھی تو بہت زیادہ تھا۔ گھبرا کر ہم نے اِدھر اُدھر دیکھا اور چاروں روپوں کو اپنی مٹھی میں جکڑ لیا تو وہ چپ ہوگئے۔ چند قدم چلنے کے بعد ہم نے اپنی انگلیوں کو ذرا ڈھیلا کیا تو سب سے پرانا روپیہ بولا ’’ہم تو تمہارے ہی بھلے کی بات کررہے ہیں، سچ سچ بتاؤ کیا تازہ تازہ اور پھر گرم گرم جلیبیاں کھانے کو تمہارے اپنا جی نہیں چاہ رہا ہے؟‘‘
منہ میں پانی تو بھر آیا، مگر ہم اس سیلاب میں آسانی سے بہہ جانے والے نہیں تھے۔ اسکول میں ہم بڑے ہونہار بچوں میں گنے جاتے تھے۔ چوتھی جماعت کے امتحان میں تو ہم نے چار روپے مہینے کا وظیفہ بھی جیتا تھا۔ اس کے علاوہ ہم ایک اچھے خاصے کھاتے پیتے گھر سے اسکول آتے تھے۔ اتنے رعب داب والا بچہ بازار میں کھڑے ہوکر جلیبیاں کھانے لگے؟ نہیں، یہ بات ہرگز ٹھیک اور مناسب نہیں ہے۔
اُس روز تو روپوں کو خرچ ہونے کا کچھ ایسا شوق تھا کہ بس کچھ نہ پوچھو۔ ہم گھر جاکر پلنگ پر بیٹھے تو وہ بولنے لگے۔ ہم کھانا کھانے چلے تو وہ چیخنے لگے۔ ہم نے بستر پر لیٹ کر کروٹیں بدلنا شروع کیں تو وہ رونے لگے۔ تنگ آکر ہم اُٹھے اور ننے پاؤں بازار کی طرف بھاگ نکلے۔ حلوائی کو اکٹھی ایک روپے کی جلیبیاں تولنے کو کہہ دیا۔
وہ بڑا سستا زمانہ تھا۔ ایک روپے کی اتنی جلیبیاں ملتی تھیں جو اب بیس روپے میں بھی نہ ملیں۔ حلوائی نے ایک پرانا اخبار کھولا اور اُس پر جلیبیوں کا ایک ڈھیر لگادیا۔ ہم جلیبیوں کے ڈھیر کو اپنے سینے سے چمٹائے ایک قریب کی گلی میں گھس گئے۔ ایک محفوظ مقام پر پہنچ کر جو ہم نے جلیبیاں کھانا شروع کیں تو اتنی کھائیں، اتنی کھائیں کہ اگر اُس وقت کوئی ہمارے پیٹ کو ذرا سا دبا دیتا تو جلیبیاں کانوں اور نتھوں میں سے لٹک پڑتیں۔
گلی میں محلے بھر کے لڑکے ہمارے اردگرد جمع ہوگئے اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ہمیں دیکھنے لگے۔ ہم جلیبیاں کھا کر سیر تو ہو ہی چکے تھے، اس لئے موج میں آگئے اور ایک ایک جلیبی اُن کو بھی تھمادی۔ اب تک ہمارے اردگرد بچوں کا ایک بہت بڑا ہجوم جمع ہوگیا تھا اور گداگروں نے بھی ہلہ بول دیا تھا۔
ہم نے باقی روپوں کی بھی جلیبیاں خرید کر بانٹ دیں۔ اس کے بعد نل پر آکر ہاتھ منہ دھوئے اور یوں مسمی صورت بنائے گھر واپس آگئے جیسے ہم نے جلیبی کی صورت عمر بھر نہیں دیکھی۔ کمرے میں جاکر بستر پر لیٹ گئے۔ جلیبیاں تو ہم نے کھالیں مگر انہیں ہضم کرنا بہت مشکل ہوگیا۔ شام کے بعد مارے باندھے کھانا بھی کھانا پڑا۔ اگر ہم نہ کھاتے تو نہ کھانے کی وجہ پوچھی جاتی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم ساری رات پیٹ کے درد کے مارے اپنے بستر پر جلیبی بنے پڑے رہے۔
بچوں کے معدے ہاضمے کی مشینیں ہوتی ہیں، سو صبح تک ہماری مشین بھی چالو رہی اور ہم روز کی طرح منہ دھو کر اسکول کی طرف چل دیئے۔ ہمیں معلوم تھا کہ آج پچھلے مہینے کا وظیفہ مل جائے گا اور اُس رقم سے فیس ادا کرکے ہم جلیبیوں کو پوری طرح ہضم کرلیں گے۔ مگر وہاں جاکر پتہ چلا کہ اس مہینے کا وظیفہ تو اگلے مہینے ملے گا۔ یہ سن کر ہمیں تو چکر آگیا۔
ماسٹر غلام محمد نے بتایا کہ تفریح کے گھنٹے میں فیس لی جائے گی۔ تفریح کی گھنٹی بجی تو ہم بستہ بغل میں دبائے چپکے سے اسکول سے باہر نکلے اور وہاں پہنچ گئے جہاں سے ریلوے اسٹیشن شروع ہوجاتا ہے۔ ریل کی پٹری کے پاس ہی ایک بہت بڑا سایہ دار درخت تھا۔ ہم وہیں بیٹھ گئے اور سوچنے لگے کہ کیا اس دنیا میں ہم سے زیادہ بھی بدنصیب بچہ کوئی ہوسکتا ہے۔
شروع شروع جب روپوں نے ہماری جیب میں شور مچایا تھا تو ساری بات کتنی سیدھی سادی لگی تھی۔ یہی کہ فیس کے روپوں کی مٹھائی کھا جاؤ اور کل اسکول سے وظیفہ لے کر اسکول ہی میں فیس ادا کرڈالو۔ اگر ہمیں پتہ ہوتا کہ وظیفہ اگلے مہینے ملے گا تو ہم جلیبیاں کھانے کا پروگرام بھی اگلے مہینے پر ٹال دیتے۔ اب ذرا سی جلیبیاں کھا لینے کے جرم میں ہم زندگی میں اسکول سے پہلی بار غیر حاضر ہوئے تھے اور یہاں ریلوے اسٹیشن کے ایک سنسان گوشے میں ایک درخت کے نیچے سکڑے بیٹھے تھے۔
درخت کے نیچے بیٹھنے کے بعد سب سے پہلے تو ہمیں تھوڑا سا رونا آیا، پھر یہ سوچ کر ہمیں ہنسی آگئی کہ یہ جو ہم آنسو بہا رہے ہیں تو یہ آنسو نہیں ہیں، جلیبیوں کے رس کے قطرے ہیں۔
جلیبیوں سے ہمیں فیس اور فیس سے ماسٹر غلام محمد کے ڈنڈے سے خدا یاد آگیا۔ ہم نے آنکھیں بند کرلیں اور بڑی رقت کے ساتھ دعا مانگنے لگے۔ ’’اللہ میاں! ہم بڑے نیک اور فرمانبردار لڑکے ہیں۔ ہمیں پوری نماز یاد ہے، قرآن مجید کی آخری دس سورتیں بھی ازبر ہیں۔ آپ چاہیں تو ہم سے پوری آیتہ الکرسی ابھی اور اسی وقت سن لیجئے۔ عرض یہ ہے کہ یہ جو ہم نے فیس کے روپوں کی جلیبیاں کھالی ہیں تو چلیے ہم مانے لیتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوگئی۔ اب آپ یوں کیجئے کہ ہمارے بستے میں چار روپے رکھ دیجئے۔ اے اللہ میاں جی! بس آج ہماری مدد فرما دیجئے! آپ کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ ہمارا چپڑاسی تک ہر مہینے پندرہ بیس روپے لے جاتا ہے، تو اللہ جی! ہم تو آخر ایک بڑے افسر کے بھتیجے ہیں، کیا آپ ہمیں چار روپے بھی نہیں دیں گے؟‘‘
دعا مانگنے کے بعد پوری نماز، قرآن مجید کی آخری دس سورتیں، آیت الکرسی، کلمہ طیبہ، درود شریف، غرض وہ سب کچھ پڑھ ڈالا جو ہمیں یاد تھا۔ پھر ہم نے اپنے بستے پر ’’چُھوہ‘‘ کی اور بسم اللہ کہہ کر جب ہم نے بستہ کھولا تو بھئی سچ کہا تھا کسی نے کہ قسمت کے لکھے کو کون مٹا سکتا ہے۔ بستے میں چار روپے چھوڑ چار پیسے بھی نہیں تھے۔ زور زور سے رو دینے کو جی چاہا، مگر پھر اچانک خیال آیا کہ اسکول میں چھٹی ہوگئی ہوگی۔ ہم تھکے ہارے وہاں سے اُٹھے اور بازار میں آکر اسکول میں چھٹی کی گھنٹی بجنے کا انتظار کرنے لگے تاکہ بچے نکلیں تو ہم بھی اُن کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے گھر یوں پہنچیں جیسے سیدھے اسکول سے آرہے ہیں۔
دوسرے دن بھی ہم نے یہی کیا۔ اُسی درخت کے نیچے بیٹھ کر وہیں دعائیں پھر مانگنا شروع کردیں۔ بار بار عرض کیا کہ ’’اللہ میاں! آج تو دے دیجئے، آج تو دوسرا دن ہے‘‘ پھر کہا ’’اچھا تو آئیے، ایک مزے کا کھیل کھیلیں۔ ہم یہاں سے اُس سگنل کی طرف چلے جاتے ہیں۔ آپ چپکے سے اس بڑے سے پتھر کے نیچے چار روپے رکھ دیجئے۔ ہم سگنل کو چھو کر واپس آئیں گے اور یہ پتھر اُٹھا کر دیکھیں گے تو نیچے چار روپے پاکر لطف آجائے گا‘‘۔
ہم سگنل تک گئے۔ مسکراتے ہوئے واپس آئے، بسم اللہ پڑھ کر پتھر کو زور لگا کر جو اُٹھایا تو نیچے سے ایک یہ لمبا بالوں بھرا کیڑا بل کھاتا ہوا اُٹھا اور ہماری طرف بڑھا۔ ہم چیخ مار کر بھاگے اور ایک بار پھر سگنل کو چھو آئے۔ اس کے بعد ہم وہاں سے یہ سوچ کر چلے کہ کل وضو کرکے اور صاف کپڑے پہن کر یہاں آئیں گے اور صبح سے دوپہر تک نمازیں ہی پڑھتے رہیں گے۔ آخر ہمیں چار روپے ہمارا خدا نہیں دے گا تو اور کون دے گا۔ مگر اُس دن ہم ظاہر میں اسکول سے اور اصل میں ریلوے اسٹیشن سے گھر واپس پہنچے تو پکڑے گئے۔ اسکول سے ہماری غیر حاضری کی رپورٹ پہنچ چکی تھی۔ یہ بتانا فضول ہے کہ اُس کے بعد کیا ہوا۔
وہ تو جو ہوا سو ہوا لیکن ساتویں آٹھویں جماعت تک ہم یہی سوچتے رہے کہ اگر اُس روز اللہ میاں ہمیں چار روپے بھیج دیتے تو کسی کا کیا بگڑ جاتا۔ اس کے بعد ہی ہم اس نتیجے تک پہنچے کہ اگر اللہ میاں یونہی مانگنے پر دے دیا کرتے تو انسان آج بھی چیل کوؤں کی طرح درختوں میں گھونسلے بنائے بیٹھے ہوتے اور اب تک انہوں نے جلیبی بنانے کا فن بھی نہ سیکھا ہوتا۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top