۴ ۔ نبوت کا نور
نظرزیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت خدیجہ سے شادی کرنے کے بعد حضورﷺ کو ہر طرح کا آرام حاصل ہو گیا ۔وہ بہت امیر تھیں اور انہوں نے اپنی ساری دولت حضور ﷺ کے سپرد کر دی تھی‘لیکن آپﷺ عیش وآرام کی زندگی گزارنے کے بجائے اللہ کی عبادت اور اللہ کے بندوں کو فائدہ پہنچانے والے کاموں میں لگے رہتے تھے۔بھوکوں کو کھانا کھلاتے ۔جن کے پاس کپڑے نہ ہوتے ‘انہیں کپڑے پہناتے۔کسی کو مصیبت میں دیکھتے تو اس کی مدد کرتے ۔
ان کاموں کے علاوہ آپ کا قاعدہ تھاکہ کچھ ستو اور پانی لے کر ایک غار میں چلے جاتے اور کئی کئی دن اللہ کی عبادت کرتے رہتے ۔اس غار کا نام حرا ہے ۔یہ مکہ شہر سے شمال مغرب کی طرف کوئی تین میل کے فاصلے پر ایک پہاڑ میں ہے ۔یہ چار گز لمبا اور پونے دو گز چوڑا ہے ۔غار بہت بڑے اور بہت گہرے گڑھے یا کھڈکو کہتے ہیں ۔یہ پہاڑوں میں بھی بن جاتے ہیں اور زمین میں بھی۔
ایک دن کا ذکر ہے آپ ﷺغار حرا کے اندر اللہ کی عبادت کر رہے تھے کہ نبیوں اور رسولوں کو اللہ کا پیغام پہنچانے والا فرشتہ جبریل ؑ ظاہر ہوا اور آپ ﷺ سے کہا ’’پڑھیے ۔‘‘
آپ ﷺ نے جواب دیا ’’میں پڑھنا نہیں جانتا ۔‘‘
یہ سن کر آپﷺ کو فرشتے نے سینے سے لگا کر بھینچا اور کہا :’’پڑھیے۔‘‘
آپ ﷺنے پھر وہی جواب دیا ۔اسی طرح فرشتے نے آپ ﷺکو تین بار بھینچا اور کہا’’پڑھیے‘‘اور آپ ﷺ نے یہی جواب دیا ۔’’میں پڑھنا نہیں جانتا ‘‘۔اس کے بعد فرشتے نے کہا :
’’اپنے رب کا نام لے کر پڑھیے جس نے تمام چیزوں کو پیدا کیا ۔پڑھیے اور آپﷺ کا رب بہت کرم کرنے والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جو وہ نہ جانتا تھا۔‘‘
یہ قرآن مجید کی سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیتیں تھیں جوفرشتے نے تلاوت کیں ۔اور یہی پہلی وحی تھی جو حضورﷺ پر نازل ہوئی ۔
وحی اس کلام کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعے اپنے نبیوں اور رسولوں کی طرف بھیجتارہا۔
حضورﷺ پر پہلی وحی ۹ ربیع الاول مطابق ۱۲ فروری ۶۱۰ء پیر کے دن اتری ۔اس وقت آپ ﷺ کی عمر چالیس سال ایک دن تھی ۔
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تک اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی اور رسول بھیجے جو دنیا کے تمام علاقوں میںآئے اور تمام قوموں کو برائیوں سے روکتے اور نیکی کے کام کرنے کی تعلیم دیتے رہے ۔ان میں حضور محمد ﷺ سب نبیوں کے سردار اور اللہ کے آخری رسول ﷺ ہیں ۔آپ ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا اور وہ تعلیم مکمل ہوگئی جو انسانوں کو نیکی کے راستے پر چلانے کے لیے نبی ﷺ اور رسول ﷺ دیتے آرہے تھے ۔
غار حرا میں فرشتے کا ظاہر ہونا اورقرآن کی آیتیں پڑھنا ایک عجیب بات تھی ۔یہ نرالی بات ہوئی‘تو حضور ﷺ پریشان ہوئے اور گھر آکر اپنی بیوی حضرت خدیجہ سے فرمایا ’’مجھے کپڑا اڑھادو ۔مجھے کپڑا اڑھادو۔‘‘پھر غار حرا میں ہونے والا سارا واقعہ سنایا اور یہ بھی فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے ۔
حضرت خدیجہ بہت عقل مند خاتون تھیں اور حضورﷺکے بارے میں ساری باتیں بھی جانتی تھیں ۔انہیں معلوم تھا کہ آپﷺنے اپنی پوری زندگی میں ایک کام بھی ایسا نہیں کیا جس سے کسی کوکوئی نقصان پہنچا ہو ۔آپﷺتو ہمیشہ دوسروں کو فائدہ ہی پہنچاتے رہے ‘چنانچہ انہوں نے اطمینان دلایا :
’’اللہ آپﷺ کو نقصان نہ پہنچنے دے گا ‘کیونکہ آپ ﷺ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں ۔دوسروں کے کام آتے ہیں ۔غریبوں کی ا مداد کرتے ہیں ۔مہمانوں کی خاطر مدارت کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں تکلیفیں اٹھا نے والوں کی مدد کرتے ہیں ۔‘‘
تسلی دینے کے علاوہ حضرت خدیجہ حضور ﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں ۔وہ پہلے آسمانی کتابو ں زبور ‘ تورات اور انجیل کے عالم تھے اور یہ بات جانتے تھے کہ اس زمانے میں اللہ کا آخری رسولﷺ آنے والا ہے۔
حضورﷺ سے سارا واقعہ سن کر انہوں نے خوشی ظاہر کی اور کہا :
’’اللہ کی قسم یہ تو وہی فرشتہ تھا جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا۔خوش ہو جائیے آپﷺ اس زمانے کے نبی ہیں۔اب کچھ ہی دن بعد وہ وقت آئے گا جب آپ ﷺ کی قوم آپﷺ کو جھٹلائے گی۔آپﷺ کو تکلیفیں دے گی ۔آپﷺسے جنگ کرے گی اور آپﷺ کو یہاں سے نکال دے گی۔اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپﷺکی بھر پور مدد کروں گا ۔‘‘
یہ بات سن کر حضور ﷺ نے فرمایا ’’کیا میری قوم کے لوگ میرے ساتھ ایسا سلوک کریں گے؟‘‘
ورقہ بن نوفل نے کہا :’’ہاں ایسا ہی ہو گا ۔پہلے زمانے سے نبیوں اور رسولوں کے ساتھ ان کی قوموں کے لوگ ایسا ہی سلوک کرتے آرہے ہیں ۔‘‘
اسلام کا پیغام پہچانے کا حکم
پہلی وحی آنے کے بعد کچھ دن ایسے گزرے کہ وحی لانے والا فرشتہ جبرئیل ؑ ظاہرنہ ہوا۔پھر جبر ئیل ؑ نے قرآن مجید کی آیتیں پہنچانی شروع کر دیں اور حضور ﷺ تک اللہ تعالیٰ کا یہ حکم بھی پہنچایا کہ آپﷺ اپنی نبوت کا اعلان کر دیں اور دین اسلام کا پیغام لوگوں کو سنائیں ۔
پہلی دفعہ فرشتے کو دیکھ کر جو گھبراہٹ ہوئی تھی وہ دور ہو گئی۔اور حضور ﷺ کو پوری طرح یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے واقعی آپ ﷺ کو نبوت بخشی ہے اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق لوگوں کو یہ بتایا کہ میں اللہ کا رسولﷺ ہوں اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اس کام پر مقرر کیا ہے کہ اس کا حکم اس کے بندوں تک پہنچاؤں ۔
آپ نے دین اسلام کا پہلاپیغام سنایا وہ یہ تھا کہ بتوں ‘چاند ستاروں اور آگ وغیرہ کی پوجا چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو ۔اس کے ساتھ آپﷺ نے یہ بھی بتایا کہ اللہ تعالیٰ ہی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہی سب کو روزی دیتا اور سب کی حفاظت کرتا ہے۔وہ کسی کا محتاج نہیں ‘بلکہ سب اس کے محتاج ہیں اور وہ اپنی ذات میں اکیلاہے ۔کوئی اس کا ساجھی نہیں ۔
اللہ کو سب سے بڑا اور اکیلا ماننے کو تو حید کا عقیدہ کہتے ہیں ۔اور یہ ہمارے دین اسلام کی بنیاد ہے۔اگر کوئی آدمی یہ مانتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی اوربھی اس کی مدد کر سکتا ہے یا اللہ تعالیٰ جیسے اختیار اور طاقت رکھنے والاکوئی اور بھی ہے ‘تو وہ مسلمان نہ رہے گا ‘بلکہ مشرک بن جائے گا‘یعنی شرک جیسا بڑا گناہ کرنے والا ہو جائے گا ۔
اللہ کی ذات اور اس کی صفتوں میں کسی اور کو ساجھی ماننا شرک کہلاتا ہے اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس گناہ کا کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا ۔اللہ تعالیٰ اس کے اس گناہ کو کبھی معاف نہ کرے گا ۔
حضور ﷺ نے اسلام کی اچھی باتیں سب سے پہلے اپنے گھر والوں کو بتائیں اور یہ باتیں سن کر آپﷺ کی بیوی حضرت خدیجہ فوراََ مسلمان ہو گئیں۔انہوں نے یہ بات سچے دل سے مان لی کہ آپﷺ واقعی اللہ کے رسولﷺ ہیں ۔حضرت خدیجہ کے علاوہ آپ ﷺ کے چچا حضرت ابو طالب کے بیٹے حضرت علی بھی مسلمان ہوگئے۔اس وقت حضرت علیؓ کی عمر ۹ برس تھی اور وہ حضور ﷺ کے ساتھ ہی رہتے تھے ۔اسی طرح حضور ﷺ کے خادم اور منہ بولے بیٹے حضرت زیدؓ بن حارثہ بھی مسلمان ہو گئے ۔
اسلام کا نور پھیلا
نبوت ملنے کے بعد تین سال تک حضور ﷺ لوگوں کو چپکے چپکے دین اسلام کی باتیں بتاتے رہے اور آپ ﷺ کی ان کو ششوں سے گھر والوں کے علاوہ سب سے پہلے آپﷺ کے دوست حضرت ابوبکرصدیقؓ مسلمان ہوئے۔
حضرت ابو بکر صدیقؓ کے علاوہ حضرت عثمانؓ حضر ت زبیرؓ بن العلوم ‘ حضرت طلحہؓ ‘حضرت سعدؓ بن ابی وقاص اور حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف وغیرہ چالیس آدمیوں نے اسلام قبول کیا ۔
تین سال بعد اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حکم دیا کہ اب لوگوں کو کھلم کھلا دین اسلام کی باتیں بتائیے اور اس حکم کے مطابق ایک دن آپﷺ کوہ صفا پر تشریف لے گئے اور لوگوں کو پکارا ۔’’یا صباحاہ یا صباحاہ ‘‘
عر بوں کاقاعدہ تھا کسی طرح کا خطرہ دیکھتے تھے‘تو اپنی قوم کے لوگو ں کو مدد کے لیے اسی طرح پکارتے تھے ۔پکارنے والے کی آواز سن کر سب اکھٹے ہو جاتے تھے اور اس کی مدد کرتے تھے۔
حضورﷺ نے صفا پہاڑ پر چڑھ کر پکارا تو لوگ اکھٹے ہو گئے اور پکارنے کی وجہ پوچھی۔
حضور ﷺ نے فرمایا ’’لوگو! اگر میں یہ کہوں کہ اس پہاڑ کی دوسری طرف سے دشمنوں کی ایک فوج حملہ کرنے کے لیے آرہی ہے تو کیا تم میری اس بات کو سچ مان لو گے؟‘‘لوگوں نے ایک زبان ہو کر کہا :’’ہاں سچ مان لیں گے‘ کیونکہ ہم نے آپ کو کبھی جھوٹ بولتے نہیں سنا ۔‘‘
لوگوں کا یہ جواب سن کر حضور ﷺ نے فرمایا:’’تو خبر دار ہو جاؤ‘میں تمہیں ایک سخت عذاب سے ڈرانے آیا ہوں جو تمہارے سامنے ہی ہے ۔‘‘
پچھلے تین برسوں میں قریش کے سرداروں کو یہ بات معلوم ہو گئی تھی کہ ہماری برادری کایہ شخص اپنے آپ کو اللہ کا رسول کہتا ہے اور لوگوں کو ایک نئے مذہب کی طرف بلا رہا ہے۔
حضورﷺ نے یہ فرمایا ‘تو سمجھ گئے اب حضور ﷺ اپنے اسی نئے مذہب کی باتیں شروع کر دیں گے۔یہ سمجھ کر اور لوگ تو خیر چپ رہے ‘لیکن آپ ﷺ کا چچا ابولہب بہت ناراض ہو کر بولا :تیرا سارا دن مصیبت میں گزرے ‘کیا تو نے یہی کہنے کے لیے ہمیں بلایا تھا۔‘‘یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا ۔
حضور ﷺ نے بہت کو شش کی کہ لوگ آپ ﷺ کی باتیں سنیں ‘لیکن وہ سب ابو لہب کے ساتھ وہاں سے واپس چلے گئے۔
عام دعوت
کوہ صفا پر اللہ کا پیغام سنانے کے بعدحضور ﷺ نے لوگوں کو دین کی باتیں بتانے کے لیے یہ طریقہ اپنا یا کہ آپﷺگلیوں اور بازاروں میں کھڑے ہو کر تقریریں کرتے اور لوگوں کے پاس جاکر ان سے کہتے کہ کفر اور گناہ کی باتیں چھوڑ کر اللہ کو مانو اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزارو ۔
یہ بات ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ اس زمانے میں لوگ بہت سی برائیوں میں پھنسے ہوئے تھے ۔سب سے بڑی برائی تو یہ تھی کہ اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے بتوں کی پوجا کرتے تھے ۔ان میں کچھ ایسے بے عقل بھی تھے جو چاند ستاروں ‘آگ اور درختوں وغیرہ کو پوجتے تھے۔
اس بہت بڑی برائی کے علاوہ چو ری کرنے ‘بے گناہوں کو ستانے ‘کسی پر الزام لگا دینے ‘دھوکہ دینے ‘جھوٹ بولنے اور اسی طرح کی برائیوں کو معمولی باتیں خیال کرتے تھے اور دن را ت ایسے ہی کام کرتے رہتے تھے ‘ان میں بعض تو ایسے ظالم تھے کہ اگر کسی کے گھر بیٹی پیدا ہو جاتی تو اس کا باپ زمین میں گڑھا کھود کر اسے زندہ ہی دبا دیتا تھا ۔
حضورﷺلوگوں کو ایسے سب گناہوں سے روکتے تھے اور نصیحت کرتے تھے کہ بتوں اور دوسری چیزوں کی پوجا چھوڑ کر اللہ کی عبادت کرو اور گناہ کی باتیں چھوڑ کر نیک اور شریف بن جاؤ۔
یہ ساری ہی باتیں ایسی تھیں کہ جو انہیں اپنا لیتا تھا اس کی زندگی سنور جاتی تھی‘لیکن اپنی بے عقلی کی وجہ سے قریشی سردار آپﷺ کے دشمن بن گئے اور کوشش کرنے لگے کہ آپﷺدین کی یہ اچھی باتیں کرنے سے رک جائیں ۔
آپﷺ جہاں بھی جاتے کوئی نہ کوئی وہاں پہنچ جاتا اور لوگوں سے کہتا :’’محمد ﷺکی باتیں نہ سنو ‘یہ تمہیں تمہارے باپ دادا کے دین سے پھیر دیں گے ۔‘‘
حضورﷺ کی باتیں سننے سے روکنے کے لیے وہ لوگوں سے یہ بھی کہتے’’ان کی باتیں مت سننا‘
یہ بہت بڑے جادو گر ہیں ۔‘‘
کوئی کہتا ’’یہ دیوانے ہو گئے ہیں ۔‘‘(نعوذباللہ )
مکہ کے کافر ان نیک دل لوگوں کو بھی ستاتے جو مسلمان ہو گئے تھے ‘لیکن یہ تو اللہ کا سچا دین تھا جس کی باتیں حضور ﷺ اس کے بندوں کو بتا رہے تھے۔اسی لیے قریش کے مخالفت ‘دشمنی اور ظلم کے باوجود مسلمانوں کی تعداد بڑھتی ہی جاتی تھی اور جو مسلمان ہو جاتا تھا، اسلام پر قائم رہتا تھا ۔
اسلام کی یہ کامیابی دیکھ کر مکہ کے قریشی سردار چاہتے تو یہ تھے آپﷺ کو قتل کر دیں‘لیکن آپﷺ کے خاندان بنی ہاشم سے ڈرتے تھے ۔آپ ﷺ کے چچا ابوطالب اگر چہ خود مسلمان نہ ہو ئے تھے ‘لیکن آپ ﷺ کو ہر قسم کی مصیبتوں سے بچانے کے لیے آگے آجاتے تھے اور ان کی وجہ سے دشمن آپ کو نقصان پہچانے سے رک جاتے تھے ۔
ابو طالب پر دباؤ
ابو طالب کو حضور ﷺ کی حمایت سے روکنے کے لیے ایک دن دشمنوں نے یہ صلاح کی کہ ابوطالب سے مل کر صاف لفظوں میں کہہ دیا جائے کہ وہ اپنے بھتیجے کی حمایت کرنے سے رک جائیں ‘ورنہ ہم ان کی بھی پروا نہ کریں گے۔
یہ مشورہ کرنے کے بعد کئی سردار مل کر ابو طالب کے پاس گئے اور ان سے کہا:’’اے ابو طالب‘یا تو تم اپنے بھتیجے کو منع کردوکہ ہمارے باپ دادا کے مذہب کو غلط نہ کہا کرے اور جن بتوں کو ہم پوجتے ہیں انہیں برا نہ بتایا کرے ‘ورنہ ہم سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔اب ہم تمہارا بھی لحاظ نہ کریں گے ۔‘‘
ابو طالب نے یہ دھمکی سنی تو رسولﷺسے فرمایا :’’بھتیجے‘مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو کہ میں اٹھا نہ سکوں ‘‘
چچا کی بات سن کر رسولﷺنے فرمایا :’’چچا جان ‘اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ پر چانداور دوسرے ہاتھ پر سورج بھی رکھ دیں گے ‘تو وہ کام نہ چھوڑوں گا‘جو کر رہا ہوں ‘یہاں تک کہ اللہ کا دین پھیل جائے یا یہ کوشش کرتے ہوئے میری جان جاتی رہے۔‘‘
یہ کہہ کر آپﷺ اٹھے اوروہاں سے جانے لگے ۔اس وقت آپﷺ کی آنکھوں میں آنسوبھر آئے تھے ۔ابو طالب نے یہ دیکھا‘تو تسلی دیتے ہوئے کہا :’’بھتیجے ‘تم جو کام کر رہے ہو شوق سے کرتے رہو ۔میں تمہارا ساتھ دوں گا۔‘‘
یہ سنا تو قریشی سردار شرمندہ ہوکر وہاں سے چلے گئے ۔
غریب مسلمانوں پر ظلم
قریشی سردار جن میں ابو لہب‘ابو جہل‘امیہ بن خلف اور عاص بن وائل آگے آگے تھے رسولﷺ کو کھلم کھلا نقصان نہ پہنچا سکے تو غریب مسلمانوں پر غصہ اتارنے لگے ۔
ان غریب مسلمانوں میں حضرت بلالؓحضرت عمارؓ بن یاسر ‘ان کے والد حضرت یاسرؓ اور ان کی والدہ وغیرہ کو بہت ستایا ۔مارتے پیٹتے‘ دوپہر کے وقت دھوپ میں کھڑا کر دیتے ۔ہاتھ اور پاؤ ں رسیوں سے باندھ کر قید کر دیتے تھے اور ایسے ہی اور ظلم کرتے۔
حضرت بلال بن رباحؓ جنہیں بلال حبشی کہا جاتا ہے ایک بہت ہی ظالم شخص امیہ بن خلف کے غلام تھے۔جب وہ مسلمان ہو گئے ‘ تو امیہ بن خلف کو بہت غصہ آیا۔وہ حضرت بلالؓ کو دوپہر کے وقت گرم ریت پر لٹا دیتا اور ان کی چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتا۔کبھی پیروں میں رسی باندھ کر آوارہ لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور وہ انہیں گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے ۔یہ ظلم کرتے ہوئے امیہ حضرت بلالؓ سے کہتا جب تک تو محمدؐ کا دین نہ چھوڑے گا تجھے اسی طرح سزا دی جائے گی ‘لیکن حضرت بلالؓ اسکی بات نہ مانتے اور احد احد کہتے رہتے۔
حضرت بلالؓ کی ان تکلیفوں کا خاتمہ اس طرح ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انہیں امیہ بن خلف سے خرید کر آزاد کر دیا ۔
حضرت بلالؓ ہی کی طرح حضرت خباب بن ارتؓ کو بھی مسلمان ہو جانے کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیفیں دی گئیں ‘لیکن وہ ایمان پر قائم رہے ۔حضرت خبابؓ ایک ظالم عورت ام انمار بنت سباع کے غلام تھے۔وہ مسلمان ہو گئے تو اس عورت اور اس کے قبیلے کے لوگوں نے ان پر بہت ظلم کیا ۔انہیں انگاروں پر لٹا کر چھاتی پر بھاری پتھر رکھ دیتے یا کوئی آدمی چھاتی پر پاؤں رکھ کر کھڑا ہو جاتا اوراس وقت تک کھڑا رہتا جب تک انگارے بجھ نہ جاتے۔
کبھی لوہا گرم کر کے ان کے سر پر داغ لگاتے اور کہتے ’’جب تک تو محمد ؐ کا دین نہ چھوڑے گا تیرا یہی حال کرتے ر ہیں گے۔‘‘لیکن حضرت خبابؓ اپنا ایمان بچانے کے لیے یہ ساری تکلیفیں خوشی سے سہتے رہے۔
حضرت عمار بن یاسرؓ ،ان کے والد حضرت یاسر بن عامرؓ اور والدہ حضرت سمیہ بنت خباطؓ قبیلہ بنی مخزوم کے ایک سردار ابو حذ یفہ کے غلام تھے۔
رسولﷺ نے اسلام کی باتیں بتائیں تو یہ تینوں ہی مسلمان ہو گئے اور اس بات پر ابو حذیفہ اور اس کے قبیلے کے لوگ ان پر سخت ظلم کرنے لگے۔
حضرت سمیہؓ بوڑھی عورت تھیں ‘ابوحذیفہ انہیں لوہے کی کڑیوں سے بنا ہوا کرتا ‘جو لڑائی کے وقت پہنا جاتا تھا اور جسے زرہ کہتے تھے پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیتا۔لوہے کی گڑیاں گرم ہو جاتیں ‘تو حضرت سمیہؓ کو سخت تکلیف ہوتی ‘لیکن وہ صبر کرتیں ۔ایک دن تو ایسا ہوا کہ ظالم ابوجہل نے بر چھا مار کر انہیں شہید ہی کر دیا۔اسلام کے راستے میں سب سے پہلے یہی خاتون شہید ہوئیں ۔
کہا جاتا ہے حضرت عمارؓ کے والد حضرت یاسر بن عامرؓ کو بھی ظالموں نے اسی وجہ سے شہید کر دیا کہ وہ مسلمان ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے حضرت عمارؓ کو بھی حد سے زیادہ ستایا ‘لیکن وہ ایمان پر قائم رہے۔انہی کی طرح اور بہت سے لوگوں کو ستایا گیا اور انہوں نے خوشی خوشی کافروں کے ظلم برداشت کئے۔
ان سب مظلوم مسلمانوں کے حالات لکھے جائیں تو ایک بہت بڑی کتاب بن جائے ‘لیکن ان چند واقعات سے بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دین اور اپنے ایمان کے خاطر بڑے سے بڑا ظلم سہا۔
جیسا کہ بچوں کو معلوم ہو گیا ہو گا یہ مسلمان بالکل غریب تھے ۔ان میں سے بہت تو دوسرں کے غلام تھے ‘ جب یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی کہ رسول ﷺ جو باتیں بتاتے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہیں ‘تو انہوں نے وہ سب باتیں سچے دل سے مان لیں اور ان پر عمل کرنے لگے اور کفر ‘یعنی برائی کی سب باتیں چھوڑ دیں۔
اللہ تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ادا کر نا چاہیے کہ اس نے ہمیں مسلمانوں کے گھروں میں پیدا کیا اور اسلام جیسی دولت ہمیں بالکل مفت میں مل گئی۔یہ کیسی قیمتی چیز ہے اس کا اندازہ بچے صرف اس بات سے کر سکتے ہیں کہ پہلے زمانے کے مسلمان اپنا ایمان اور اپنا دین بچانے کے لیے اپنی جان کی بھی پروانہ کرتے تھے۔بڑی سے بڑی تکلیف اٹھاتے تھے‘لیکن دین سے نہ پھر تے تھے۔
پیارے بچوں کو چاہیے اپنے بزرگوں کی طرح اپنے دین اسلام کو سب سے بڑی دولت سمجھیں اور اس کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق زندگی گزاریں۔
ہمارے دین اسلام کی باتیں ایسی اچھی اور فائدہ پہچانے والی ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے ثواب ملنے کے ساتھ اس دنیا میں بھی بہت بر کتیں حاصل ہو تی ہیں ۔ہمارے بزرگ دین کی باتوں پر چلنے کی وجہ سے ہی بہت بڑی سلطنت کے مالک بن گئے تھے۔ہم ان باتوں پر عمل کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں ویسی ہی عزت اور شان دے گا۔