مُرغی فلو
فرحان احمد نجمی
۔۔۔۔۔
امتحانوں سے فارغ ہونے کے بعد میں نے ماموں کے گھر جانے کا پروگرام بنایا اور پھر امی سے ضد کرکے میں نے ایک ہفتے کی اجازت لی اور ماموں کے گھر چل دیا جو کہ ہمارے گھر سے 2 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک خوبصورت سے مکان میں رہتے تھے، اُن کی کوئی اولاد نہ تھی اسی لئے اکثر یا تو وہ مجھے بلا لیتے تھے یا پھر میں خود چھٹیوں میں اُن کے گھر چلا جاتا تھا۔ میرے ماموں ایک بڑے ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹر ہیں، اسی لئے اکثر اُن سے سائنس سے متعلق کافی گفتگو رہتی تھی۔ ماموں اور ممانی مجھے اچانک دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کافی دیر تک اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے، پھر ممانی نے ماموں سے کھانے پینے کا سامان لانے کو کہا اور میں بھی ماموں کے ساتھ بازار چل دیا۔
بازار میں کافی رونق تھی، ماموں نے کچھ سبزیاں، فروٹ اور بریانی وغیرہ کا سامان خریدا اور پھر واپس آنے لگے، واپسی پر میری نظر ایک دکان پر لگے بورڈ پر پڑی جس پر لکھا تھا، 3 کلو والی زندہ مرغی صرف 25 روپے کے حساب سے لے جائیں۔ میں حیران رہ گیا کہ 80، 90 روپے فی کلو کے حساب سے ملنے والی زندہ مرغی اتنی سستی کیسے ہوگئی کہ 3 کلو زندہ مرغی صرف 25 روپے میں ملنے لگی اور اس کے باوجود دکان پر مرغی خریدنے والا کوئی نہ تھا۔ دکاندار بھی پریشانی کے عالم میں بیٹھا ہوا تھا۔ گھر پہنچ کر میں نے ماموں سے اس بات کا ذکر کیا۔ ماموں نے مسکراتے ہوئے کہا ۔’’بھئی سوال تو کافی اچھا اور معلوماتی ہے، مگر اس کا تفصیلی جواب رات کھانے کے بعد ملے گا۔ ‘‘اس کے بعد ماموں باہر چلے گئے اور میں اخبار پڑھنے لگا۔
رات کو کھانے سے فارغ ہونے کے بعد جب چائے کا دور چل رہا تھا میں نے دوبارہ ماموں سے اپنا سوال دہرایا تو ماموں کو یاد آیا کہ انہیں تو میرے سوال کا جواب دینا تھا، اس لئے فوراً میرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہنے لگے کہ ۔’’یہ بات اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ ایک کلو والی مرغی 80، 90 میں ملا کرتی تھی اور اب 3 کلو والی زندہ مرغی صرف 25 روپے کے حساب سے مل رہی ہے، مگر اُسے خریدنے والا کوئی نہیں ہے اور اس کی وجہ ایک بیماری ہے جسے برڈ فلو کہتے ہیں اور اس کی وبا کافی ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے جس کی وجہ سے لاکھوں مرغیاں ضائع کی جاچکی ہیں۔‘‘
’’ماموں یہ ’’برڈ فلو‘‘ کیا ہے، ذرا اس کی تفصیل بتائیں؟‘‘ میں نے ماموں سے سوال کیا۔
ماموں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں بھئی کیوں نہیں! برڈ فلو جس کو ’’ایوین انفلوائنزا‘‘ (Avian Influenza) بھی کہتے ہیں۔ پرندوں کے ذریعے پھیلنے والی خطرناک بیماری ہے جو انفلوئنزا A وائرس کے ذریعے پھیلتی ہے۔ ’’برڈ فلو‘‘ کا پہلا کیس ہانگ کانگ میں 1997ء میں ظاہر ہوا تھا جس کے باعث 18 لوگ اس بیمار کا شکار ہوگئے تھے، جس میں سے 6 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ہانگ کانگ ہی میں 2003ء میں اس بیماری کے دو کیس سامنے آئے تھے جس میں ایک کی موت واقع ہوگئی تھی۔ پھر 2004ء کو مشرقی ایشیا میں اس وبا سے 10 افراد کی موت واقع ہوگئی تھی۔ اپریل 2006ء تک ایشیا میں 204 افراد اس بیماری کا شکار پائے گئے ہیں۔ برڈ فلو ایک خطرناک بیماری ہے جس کے باعث ہمارے جسم کا مدافعتی نظام انتہائی کمزور ہوجاتا ہے۔ اس بیماری کے خلاف اب تک کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوسکی ہے۔‘‘
’’ماموں یہ بتائیں برڈ فلو لوگوں کو کس طرح متاثر کرتا ہے؟‘‘ میں نے بے چینی سے پوچھا۔
ماموں نے چائے پیتے ہوئے کہا۔ ’’تقریباً تمام پرندوں کے ذریعے برڈ فلو انسانوں میں پھیل سکتا ہے، لیکن مرغی، جنگلی بطخ اور ہنس اس بیماری کے سب سے اہم پرندے ہیں۔ یہ بیماری پرندوں سے پرندوں میں، پرندوں سے دوسرے جانوروں میں اور کھانے یا سانس لینے کے ذریعے پرندوں سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے۔ ابھی تک انسانوں سے انسانوں میں اس بیماری کے پھیلنے کی وبا ظاہر نہیں ہوئی۔‘‘
’’ماموں انسانوں میں برڈ فلو کی کیا علامات ہوتی ہیں۔‘‘ میں نے مزید دلچسپی لیتے ہوئے ایک اور سوال داغ دیا۔
ماموں نے چائے کا آخری گھونٹ پینے کے بعد کپ ایک طرف رکھتے ہوئے پھر اپنی بات شروع کی۔ ’’بیٹے انسانوں میں برڈ فلو کے باعث کوئی خاص علامات ظاہر نہیں ہوپاتیں، کیونکہ یہ عام فلو کی علامات سے کافی مماثلت رکھتی ہے، مثلاً آنکھوں کا سوج جانا، کھانسی، بخار، گلے میں تکلیف اور پٹھوں وغیرہ میں تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ اگر یہ انفیکشن خطرناک حد تک بگڑ جائے تو اس کے باعث نمونیا اور سانس کی دوسری خطرناک بیماریاں ہوسکتی ہیں جس کی وجہ سے انسان کی جان بھی جاسکتی ہے۔‘‘
’’ماموں یہ بتائیں کہ برڈ فلو سے کیسے بچا جاسکتا ہے‘‘۔ اس بار ے میں نے تھوڑا گھبراتے ہوئے سوال کیا۔
ماموں نے ایک لمبا سانس لیا اور پھر کہا۔ ’’بھئی اس بیماری کا کوئی خاص علاج نہیں ہے، لیکن انسانی فلو میں دی جانے والی ادویات کافی حد تک برڈ فلو کے خلاف کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں، اس کے علاوہ ایشیا میں پھیلنے والے برڈ فلو وائرس کے خلاف ابھی تک کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوسکی ہے۔ لیکن اپریل 2005ء کے بعد سے اس بیماری سے بچائو کی ویکسین کی تیاری کے لئے مختلف تجربات کئے جارہے ہیں۔ برڈ فلو سے بچائو کے لئے درج ذیل احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہئیں:
سفر کرنے والوں کو اپنے ہاتھ صابن اور پانی سے اچھی طرح دھو لینے چاہئیں، پولٹری کی تمام غذائوں اور انڈوں کو اچھے طریقے سے پکانا چاہئے، اس بیماری کی موجودگی میں پولٹری اور دوسرے پرندوں سے تعلق نہیں رکھنا چاہئے، وہ لوگ جو اس بیماری سے متاثرہ علاقوں سے سفر کرکے گھر واپس لوٹتے ہیں تو انہیں فوراً ہی اپنے معالج سے طبی امداد لینی چاہئے۔ اس طرح سے برڈ فلو جیسی بیماری سے بچائو ممکن ہوسکتا ہے۔‘‘
’’ماموں کیا پاکستان میں یہ بیماری موجود ہے؟‘‘ میں نے سوال پوچھا۔
’’بیٹا پاکستان میں ابھی تک اس کا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ اس لئے حفاظتی تدبیر کو سامنے رکھتے ہوئے مرغی کھانے میں کوئی حرج نہیں۔‘‘
’’اچھا بھئی کافی رات ہوگئی ہے، اب آپ دونوں سونے کی تیاری کرلیں۔‘‘ اچانک ممانی کی آواز کانوں سے ٹکرائی جس کے بعد معلوم ہوا کہ رات کے 1:00 بج چکے ہیں، مجھے بھی نیند آرہی تھی اس لئے میں نے ماموں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے برڈ فلو جیسی خطرناک بیماری سے متعلق اہم معلومات فراہم کیں۔ اس کے بعد میں شب بخیر کہتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف جہاں مجھے سونا تھا ،چل دیا۔