منا بھائی
شائستہ عطا
۔۔۔۔۔
منا بھائی تو بس مجھے اور نینا کو کان پکڑی لونڈیاں سمجھتے ہیں۔ ہر وقت پھانسی پر چڑھائے رکھتے ہیں۔ ’’یہ کرو ،وہ کرو! اوپر سے کتاب لا دو۔ ذرا پنکھا ہلکا کر دو۔ دو اسپرو کی ٹکیاں دینا۔ امی سے کہہ دو، شام کا کھانا کمرے میں کھاؤں گا۔ ‘‘وغیرہ وغیرہ۔ بس سارا دن ہم دونوں پورے گھر میں پُتلی کی طرح ناچتے پھرتے ہیں۔ مگر پھر بھی جب دیکھوامی سے شکایت کر رہے ہیں۔’’ امی !کیا ان نکمیوں کو الا بلا کھانے اور خراٹے لینے کے سوا اور کوئی کام نہیں؟ میں چیختا رہتا ہوں لیکن کوئی سنتا ہی نہیں ،کوئی حد ہے بھلا! ‘‘
اور بھیا کی یہ عادت تو مجھے نری زہر لگتی ہے کہ جس روز فلم دیکھنے جانا ہوگا، ہمیں پل بھر کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ کپڑے استری کروائیں گے۔ حمام میں پانی،تولیا، صابن وغیرہ رکھوائیں گے… حد یہ کہ نوکر ہوتے ہوئے بھی ہم ہی سے پالش کروائیں گے اور جب ہم مسکین سی صورت بنا کر کہیں کہ’’ منا بھائی !ہمیں بھی لے چلیے نا!‘‘ تو آنکھیں نکال کر لیکچر دے ڈالیں گے ۔‘‘ ہاں !فلم کے نام پر تو کم بخت بلبلائی جاتی ہیں، لیکن پڑھائی کے وقت موت پڑتی ہے۔ یہ بھی کہا کرونا کہ منا بھائی! آپ رات کو ایک بجے تک پڑھتے ہیں، ہم بھی پڑھا کریں؟ اُس وقت کیوں خراٹے لیتی رہتی ہو؟ ذرا آدھی رات تک پڑھ کر دکھاؤ تو جانوں…! تب نہ فلم دکھانے لے جاؤں تو کہنا…! ‘‘ یہ سن کر ہم کان دبا کر نکل جاتے ہیں اور منا بھائی بڑ بڑاتے ہوئے اپنی کار اسٹارٹ کر دیتے ہیں۔
ایک بار کیا ہوا، منا بھائی کے دوست کے بڑے بھائی کی شادی تھی۔ تین دن پہلے ہم نے دبی زبان سے التجا کی کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے جائیے۔ پہلے تو سترہ سو ساٹھ گز لمبا لیکچر ملا۔ پھر جانے کیسے مان گئے۔ شرط یہ رکھی کہ اب تک تم دونوں کنجوسوں نے جتنی رقم جمع کی ہے وہ تمام میرے حوالے کر دو۔ کیونکہ دُولھا دلہن کے لیے کچھ تحفے تحائف لے جانے ہیں۔ شادی کی خوشی میں ہم نے دلوں پر چٹنی بنانے والا سل بٹا رکھا اور ساری جمع پونجی اُن کے ہاتھ پر رکھ دی۔
ا ب حکم ہوا کہ نینا ان کے سر میں تیل ڈالے اور میں پاؤں دباؤں ۔جی تو میرا بہت چاہا کہ پاؤں کی جگہ اس نمرودکی گردن دبا دوں لیکن اپنی ہی خواہش دبانی پڑی کیونکہ شادی میں شرکت کوئی معمولی بات نہ تھی ۔
دوسرے دن صبح ہی صبح ابھی مولوی شمس الدین کے مرغے نے بانگ ہی دی تھی کہ کسی نے میرا کندھا ہلایا۔میں سمجھی، جانے کیا مصیبت آن پڑی۔ ہڑبڑا کر اٹھی اورآنکھیں مل کر دیکھا تو سامنے منا بھائی کھڑے تھے۔
’’کیا بات ہے؟ ‘‘میں نے پوچھا۔
’’ہو نھ! بڑی آئی بات پوچھنے والی ۔چل اُٹھ! جلدی سے چائے بنا کر لا! دو بجے سے بیٹھا پڑھ رہا ہوں اور مارے درد کے سر پھٹا جا رہا ہے۔‘‘
مجھے سخت غصہ آیا۔ چلا کر بولی ۔’’جاؤ۔ نہیں بنا کر دیتی بڑے آئے رعب جتانے والے۔ خواہ مخواہ جگا ڈالا اتنی سویرے!‘‘
’’اچھا !نہ بنا کر دے ۔مگر یا د رکھ! اگر پھرکبھی شادی کا ذکر زبان پر لائی تو پورے کے پورے دانت توڑ ڈالوں گا۔‘‘
ایک دم سے سارا واقعہ یاد آگیا اور میں جلدی سے اچھل کر باورچی خانے میں بھاگ گئی… آخر شادی میں جو جانا تھا۔
دو پہر کو نینا بے چاری کو منا بھائی کی سواد ر جن قمیصیں دھونی پڑیں اور چھے بجے تک اُنھیں استری کرتے کرتے میری کمر دکھ گئی۔ منا بھائی سامنے کرسی بچھائے مزے سے کتاب پڑھتے رہے۔ غرض ان تین دنوں میں بھیا نے دنیا جہان کا کوئی کام نہ چھوڑا جو ہم سے نہ کرایا ہو۔شادی کے دن ہم صبح ہی سے تیاری میں لگ گئے۔ فراکوں میں کرن لگائی۔ جرابیں دھوئیں۔ بوٹ پالش کرائے۔ بازار سے سرخ ربن لائے۔ نہائے دھوئے اور جلدی جلدی کام ختم کر کے دوپہر کو جب اپنے پیارے پیارے فراک پہننے لگے تو منا بھائی نے واویلا مچا دیا ۔’’ وہاں میم صاحب بن کر جائو گی؟…ریڈیو بار بار اعلان کرتا ہے، اخبار والے لکھ لکھ کر تھک گئے کہ سادہ زندگی اختیار کرو ۔فضول بناؤ سنگار میں قوم و ملک کا روپیہ ضائع نہ کرو۔ لیکن کوئی سنے بھی !جوں رینگتی ہے کسی کے کان پر؟ اگر چلنا ہے تو اسکول والے کپڑے پہن کر چلو۔ ورنہ بیٹھو گھر!‘‘
مرتے کیا نہ کرتے۔ اپنے اوپر جبر کر کے یہ ستم بھی سہا اور سفیدلٹھے کے فراک پہن گر چلے شادی کے گھر۔
ہماری کار دُولھا کے دروازے پر جا کر کھڑی ہوئی تو منا بھائی کے دوست بھاگتے ہوئے آئے ۔’’ ہیلومنا! بڑی دیر کردی تم نے یار!‘‘
’’منا بھائی نے مسکرا کر ہماری طرف دیکھا اور بولے ۔’’معاف کرنا سلیم میاں! میں تو جلد پہنچ جاتا مگر مجھے ان کی وجہ سے دیر ہو گئی۔‘‘
’’ یہ کون ہیں؟ ‘‘سلیم صاحب نے پوچھا۔
’’یہ میری نوکرانیاں ہیں۔ کافی کام کر دیتی ہیں بیچاری۔ آج میرے پیچھے پڑگئیں کہ ہم بھی چلیں گے !مجھے ترس آ گیا اور میں انھیں ساتھ لے آیا۔ کوئی کام وام ہو تو بتا دوانہیں!‘‘
’’ نوکرانیاں تو بڑی ٹھاٹ کی رکھی ہیں یار تم نے !‘‘سلیم صاحب حیرت سے بولے۔
’’خیال کیجیے، اُس وقت ہماری حالت کیا ہوگی ۔کاٹوتو لہو نہیں بدن میں۔ سر چکرانے لگا اور پاؤں کے نیچے زمین ہلنے لگی۔ ہائے !منا بھائی سے یہ امید یہ تھی کہ وہ ہمیں اس طرح ذلیل و خوار کریں گے۔ مگر اس وقت ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔ طوطی کی آواز نقار خانے میں کون سنتا ہے۔ اس لیے خاموش رہنے ہی میں اپنی بھلائی سمجھی۔
سلیم صاحب منا بھائی کو ڈرائنگ روم میں چھوڑ کر ہمارے پاس آئے اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا ۔مجبورا ً اسٹارٹ ہونا پڑا مگر جب اپنا اسٹاپ دیکھا تو جسم میں سے جان نکل گئی۔ وہ ہمیں نوکروں کے کوارٹروں میں لے گئے جہاں کالی پیلی نوکرانیاں گلابی دو پٹے اوڑھے ادھر ادھر پھر رہی تھیں۔ منا بھائی کو دُعائیں دیتے ہوئے ہم ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گئے اور دل ہی دل میں اپنے آپ کو سنے لگے۔
کچھ دیر بعد سارے گھر میں ہل چل مچ گئی۔ پتا چلا کہ برات جا رہی ہے اور سب لوگ تو کاروں میں بیٹھ گئے لیکن نوکروں کے لیے ایک ٹوٹا پھوٹا ٹرک موجود تھا جو معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی کہیں مٹی ڈال کر آیا ہے۔ میں تو صحیح سلامت چڑھ گئی، پر نینا غریب کی کہنیاں بری طرح چھل گئیں۔ جب برات دُلھن کے گھر پہنچی تو خُدا کا شکر ادا کیا کہ کچھ کھانے کو ملے گا۔ صبح مارے خوشی کے ناشتا بھی اچھی طرح نہ کیا تھا اور اب آنتوں نے قل ہو اللہ پڑھنی شروع کر دی تھی۔ خدا خدا کر کے ایک موٹا سا خانساماں کھانے کی پلیٹیں لے کر آگے بڑھا۔ سارے نوکر اس پریوں ٹوٹ پڑے جیسے کھانے کے ساتھ اُسے بھی کھا جائیں گے۔ نینا دوڑ کر آگے بڑھی مگر کسی کی ٹانگوں سے اُلجھ کر دھڑام سے زمین پر آ رہی۔ ایک دو بار میں نے بھی کوشش کی، پرکامیابی نہ ہوئی۔ ناچار صبر کر کے ایک طرف بیٹھ گئے۔ نینا روہانسی ہو رہی تھی اور میری آنکھوں میں بھی آنسو چھلک رہے تھے۔ سوچا، چلو کھانا نہیں ملتا تو دُلھن ہی کو دیکھ آئیں۔ دوتین نوکرانیوں کے ہمراہ دُلھن کو دیکھنے گئے تو اچانک کسی نے مجھے گلے لگالیا۔ میں نے گھبرا کر اوپر دیکھا تو شہلا کا چہرہ نظر آیا۔
وہ بڑے زور سے چیخی۔’’ ارے، تم کہاں؟ ‘‘
’’ہم…ہم…وہ…‘‘میں ہکلا کر رہ گئی۔
’’اچھا!سمجھ گئی ۔برات کے ساتھ آئی ہو۔ یہ دیکھو، میری باجی دلہن بنی بیٹھی ہیں۔ ‘‘
ہم تینوں دلہن کے پاس بیٹھے رہے۔ مارے بھوک کے میرا اور نینا کا برا حال تھا۔ کپڑے یوں میلے ہو رہے تھے جیسے ابھی ابھی کسی اکھا ڑے میں کشتی لڑ کر آرہے ہوں۔
آخر شام ہوئی ۔دلہن کی رخصتی کا وقت آیا ۔سب لوگ کاروں میں سوار ہونے لگے۔ میں نے دیکھا منا بھائی کی کار خوب سمجھی ہوئی ہے اور اُس میں دُولھا دُھن اور دُولھا کی بہنیں بیٹھ رہی ہیں۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ منا بھائی کسی اور کار میں جائیں گے۔
شہلا نے ہمیں اپنی ایک سہیلی روبینا کے ساتھ ایک کار میں بٹھا دیا اور اس سے کہا کہ وہ ہمیں راستے میں ہمارے گھر اُتار دے ۔میں اور نینا گاڑی میں بیٹھے ہی رہے تھے کہ ایک دم سے منا بھائی کی آواز آئی:
’’ارے نینا! ٹھہرو! مجھے بھی چلنا ہے اور کوئی کار خالی نہیں ۔‘‘
’’یہ کون صاحب ہیں؟ ‘‘روبینا نے پوچھا۔
’’ہمیں تو معلوم نہیں، ہم سمجھے شاید آپ کے کچھ لگتے ہیں۔‘‘ نینانے جواب دیا۔
’’کیوں جی؟تم کس سے بات کر رہے ہو؟‘‘روبینا نے منا بھائی سے پوچھا۔
’’جج…جی،یہ میری ب…بہنیں ہیں۔‘‘ منا بھائی تھوک نگل کر بولے۔
’’وہ تو کہہ رہی نہیں کہ آپ اُن کے کچھ نہیں لگتے ۔دیکھیے مسٹر! اِس طرح جھوٹ بول کر آپ گاڑی میں سوار نہیں ہو سکتے۔ جائیے، چلتے پھرتے نظر آئیے !‘‘
منا بھائی کی حالت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ کبھی بوکھلا کر ہمیں دیکھتے اور کبھی کار کو ۔ہم دونوں ایسے منہ بنائے بیٹھے تھے جیسے کبھی زندگی میں ان کی صورت تک نہیں دیکھی ۔
آخر جب منا بھائی سات میل پیدل سفر کر کے گھر پہنچے تو اُن کا پارہ 120ڈگری سے اوپر تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ قابل ذکر نہیں۔ بس اتنا جاننا کافی ہے کہ وہ دن اور آج کا دن، پھر کبھی منا بھائی نے ہمیں ستانے کی کوشش نہیں کی اور ہم ان کی ہر وقت کی غلامی سے بھی بچ گئے۔