ملا پلاؤ
سعید لخت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’اٹن شن‘‘مُلّا پُلاؤ کڑک کر بولے۔
سب لڑکے اکڑکے کھڑے ہو گئے۔
مُلّا پُلاؤنے تھوڑی دیر ڈاڑھی کھجائی اور پھر زور سے بولے’’سینہ نکال کے ،پیٹ پٹخا کے،کوئک مارچ ۔لیفٹ رائٹ۔لیفٹ رائٹ۔لیفٹ۔لیفٹ…………..‘‘
ہم فوج کے جرنیل تھے ۔اس لیے سب سے آگے ہوتے تھے۔چلتے چلتے آگے دیوار آئی ۔دیوار پر سیڑھی لگی تھی ۔جب ہمیں’’رائٹ ٹرن ‘‘یا ’’ لیفٹ ٹرن ‘‘کا آرڈر نہیں ملا تو ہم نے سیڑھی پر چڑھنا شروع کر دیا۔فوج نے دیکھا کے جرنیل صاحب دیوار پر چڑھ رہے ہیں تو وہ بھی چڑھنے لگی۔
مُلّا پُلاؤ کوئک مارچ کا حکم دے کر تھیلے میں سے شیشہ نکال کر مونچھیں درست کرنے لگے تھے۔اس لیے انہوں نے فوج کو دیوار پر چڑھتے ہوئے نہ دیکھا ۔تھوڑی دیر بعد منہ اوپر اٹھایاتو بھنا کر بولے’’ارے ہالٹ!ارے نا معقولو ہالٹ!یہ کیا حرکت ہے؟فوج کہیں دیوار پر بھی چڑھتی ہے؟اترو نیچے۔ میں کہتا ہوں اترو۔۔۔۔‘‘یہ تھے ہمارے اردو اور دینیات کے استاد،مولوی صِبغتہُ اللہ برکاتی،جنہیں لوگ مُلّا پُلاؤ کہتے تھے۔ساٹھ ستر سال کے پیٹے میں ہوں گے۔سر،ڈاڑھی،بھویں بلکہ پلکیں تک سفید ہو چکی تھیں۔مگر دم خم ایسے تھے جیسے کوئی بیس برس کا کڑیل جوان۔جاڑے ہوں کہ گرمی،ہمیشہ ململ کا انگر کھا پہنتے۔البتہ سردیوں میں ایک اونی چادر اوڑھ لیتے تھے۔آواز ایسی پاٹ دار تھی کہ اِس محلے بولیں تو اُس محلّے سنائی دے۔اور جب چلتے تو اتنے زور سے پیر مارتے کے زمین تھرّا اٹھتی۔بعض لوگوں کو اللہ میاں سب سے نرالا بناتا ہے۔ان کی چال ڈھال،بات چیت اور لباس وغیرہ میں کوئی نہ کوئی عجیب بات ایسی ضرور ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ دوسروں سے بالکل الگ تھلگ نظر آتے ہیں ۔مَلّا پُلاؤ بھی ایسے ہی عجیب و غریب آدمیوں میں تھے ۔اُنھیں پُلاؤ کھانے کا بہت شوق تھا۔اس لیے سارا شہر انہیں مُلّا پُلاؤ کہتا تھا۔امیر ہو کہ غریب جس کسی کے گھر کوئی خوشی یا غمی ہوتی تو وہ مُلّا پُلاؤ کو ضرور بُلاتا۔اکیلے آدمی تھے ۔نہ بیوی نہ بچے ۔اس لیے مہینے کے تیسوں دن دعو توں میں گزرتے اور بہت کم ایسا ہوتا کہ مولوی صاحب کے گھر چولہا جلتا۔
مُلّا پُلاؤ ہر وقت ایک چھوٹا سا تھیلا اپنے ساتھ رکھتے تھے جس میں قینچی ،کنگھی،شیشہ اور سرمے دانی ہوتی تھی۔فرصت کے وقت اپنا تھیلا کھول کر بناؤ سنگھار کرتے ا ور اسکول میں کسی بچے کو میلا کچیلا دیکھتے تو فوراََ نلکے پر لے جا کر اس کا منہ دھلاتے ،سرمہ لگاتے اور بالوں میں کنگھی کر کے کہتے ’’دیکھ! اگر کل اس طرح بھنگی بن کر آیا تو دونوں کانوں کے بیچ میں سر کردوں گا۔‘‘
مُلّا پُلاؤ اردو اور دینیات کے استاد ہونے کے علاوہ ڈرل ماسٹر بھی تھے۔روزانہ صبح سویرے اسکول کے صحن میں پریڈ ہوتی تھی،ہمیں جرنیل بنایا گیا تھا ۔ ہم جھنڈا اٹھائے سب سے آگے ہوتے تھے۔جب سب لڑکے آگے پیچھے لائن میں کھڑے ہو جاتے تومُلّا پُلاؤکڑک کر حکم دیتے’’اٹن شن۔۔۔۔سینہ نکال کے ،پیٹ پٹخا کے،کوئک مارچ ۔لیفٹ رائٹ۔لیفٹ رائٹ۔لیفٹ۔لیفٹ۔‘‘
اب مصیبت یہ تھی کہ جب فوج مارچ شروع کر دیتی تو خود آں جناب شیشہ نکال کر اپنی صورت دیکھنے لگتے اور زبان سے کہے جاتے ’’لیفٹ ۔لیفٹ۔لیفٹ۔‘‘
نتیجہ یہ ہوتا کہ فوج یا تو دیوار پر چڑھ جاتی یا پھاٹک سے باہر نکل کر بازار میں گھومنا شروع کر دیتی ۔جب آپ کو ہوش آتا تو پیچھے پیچھے بھاگے آتے اور زور زور سے چیختے ’’ارے ہالٹ! ابے نا لا ئقو ،اباؤٹ ٹررررن۔‘‘
ہمیں یاد نہیں کہ مُلّا پُلاؤنے کبھی کسی لڑکے کو مارا ہو ۔مارنا تو بڑی بات ہے ،کبھی ڈانٹتے ڈپٹتے بھی نہیں دیکھا۔بڑی محبت اور بڑے پیار سے پڑھاتے ۔پڑھاتے کیا ،یوں کہو ،گھول کے پلاتے۔کبھی کوئی بچہ شرارت کرتا یا سبق یاد نہ کرتا تو بس اتنا کہتے ’’ابے،کانوں کے بیچ میں سر کر دوں گا۔‘‘
ایک دن کلاس میںآئے تو زور سے بولے ’’اسٹینڈ اپ۔اٹن شن ۔کوئک مارچ۔‘‘پھر بولے:’’نہ نہ نہ۔ناٹ کوئک مارچ۔سٹ ڈاؤن۔سٹ ڈاؤن۔‘‘لڑکے بیٹھ گئے تو پہلے تو آپ نے سفید براق ڈاڑھی میں انگلیاں پھیریں اور پھر ایک آنکھ میچ کر بولے’’ہم نے آج تک کبھی تمہیں کوئی سزا نہیں دی۔۔۔۔۔آج تم سب مرغا بنو۔۔۔۔۔‘‘
سب لڑکوں نے گھبرا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ہم بولے’’مولوی صاحب ،ہمارا قصور کیا ہے ؟‘‘بولے’’قصور وصور میں نہیں جانتا ۔بس سیدھی طرح مرغا بنو ۔اور میاں سعید،چونکہ تم مانیٹر ہو اس لئے سب سے پہلے تم مرغا بنو۔‘‘
ہم نے کہا ’’مولوی صاحب ،ہمیں تو معلوم نہیں کہ مرغا کیسے بنتے ہیں ۔‘‘
حیرت سے بولے ’’ارے پانچویں جماعت میں پڑھتا ہے اور ابھی تک تجھے مرغا بننا نہ آیا ؟طارق میاں ،تم سعید کو مرغا بن کے د کھاؤ۔‘‘
طارق نے پہلے تو بغلیں جھانکیں پھر مسمسی صورت بنا کر بولا ’’مرغا بننا تو مجھے بھی نہیں آتا ۔‘‘
مُلّا پُلاؤ بہت جھنجھلائے۔باری باری تمام لڑکوں سے پوچھا اور جب سب نے کانوں پر ہاتھ دھرے کہ جناب ،ہمیں پرغا بننا نہیں آتا تو آپ غصے میں کھڑے ہو گئے اور بولے ’’ذرا سوچو تو ۔لوگ کیا کہیں گے کہ مولوی صبغتہ اللہ صاحب برکاتی کے شاگرد اور انہیں مرغا بننا بھی نہیں آتا ۔فرض کرو کل کلاں کو انسپکٹر صاحب آ گئے اور انہوں نے تمہیں مرغا بننے کے لیے کہا تو کیسے بنو گے ؟ تم تو میری ناک کٹوا دو گے ۔لو دیکھو اور یاد رکھو ۔۔اس طرح بنتے ہیں مرغا۔۔۔۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر آپ نے ٹانگوں میں ہاتھ ڈالے اور کان پکڑ کر مرغا بن گئے۔
سب بچے ہاتھوں میں منہ دبائے کھوں کھوں ہنس رہے تھے۔اتفاق کی بات ،ہیڈ ماسٹر صاحب کسی ضرورت سے ادھر آنکلے۔انہوں نے دیکھا کہ مُلّا پُلاؤ مرغا بنے کھڑے ہیں تو پہلے تو آنکھیں جھپکا کر ہماری طرف دیکھا اور پھر مُلّا پُلاؤ سے بولے:
’’اجی،مولوی صاحب ،اجی،میں نے کہا قبلہ۔یہ کیا نا شائستہ حرکت کر رہے ہیں آپ؟‘‘
مُلّا پُلاؤ نے کان چھوڑ دیئے اور جھلا کر بولے’’بیس برس ہو گئے آپ کو پڑھاتے ہوئے اور ابھی تک آپ نے بچوں کو مرغا بننا بھی نہیں سکھایا۔۔۔۔۔‘‘
ایک دفعہ شہر میں ایک ناٹک کمپنی آئی۔ہماری شامت جو آئی تو مُلّا پُلاؤ بھی ناٹک دیکھ آئے۔دوسرے دن اردو کا گھنٹا شروع ہوا تو بولے’’اٹن شن۔کتابیں بند۔‘‘
لڑکوں نے کتابیں بند کر دیں۔ہم سوچ رہے تھے کہ اب مولوی صاحب کوئی مزے دار کہانی سنائیں گے۔آپ تھوڑی دیر آنکھیں بند کر کے سوچتے رہے۔پھر ایک آنکھ کھول کر بولے’’دیکھو بھئی،دو مہینے بعد اسکول کا سالانہ جلسہ ہونے والاہے۔ہمیں ابھی سے مشق شروع کر دینی چاہیے۔‘‘
ہم بولے’’کاہے کی مشق ،مولوی صاحب؟‘‘
بولے’’ڈرامے کی اور کاہے کی۔اس دن ہم ایک ڈرامہ یعنی ناٹک کھیلیں گے۔ڈراما میں نے لکھ لیا ہے۔اس کا نام ہے’’جہانگیر کا انصاف‘‘۔یہ کہانی تم چوتھی جماعت میں پڑھ چکے ہو۔بادشاہ جہانگیر کی ملکہ نور جہاں محل کی کھڑکی میں کھڑی تھی ۔سامنے سے ایک دھوبی گزرا۔اس نے بے خیالی میں ملکہ کو دیکھ لیا۔ملکہ نے آؤ دیکھا نہ تاؤ،جھٹ گولی مار دی۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ہاں،ہاں،مولوی صاحب،ہمیں یاد ہے ۔‘‘ ہم نے خوش ہو کر کہا ۔سب لڑکوں کے دل خوشی کے مارے دھڑکنے لگے۔
مُلّا پُلاؤایک آنکھ میچ کر بولے’’جہانگیر تو ہم بنیں گے اور طارق میاں تم دھوبی بنو گے کیونکہ تمہاری صورت دھوبیوں سے ملتی جلتی ہے ۔اب رہی……………………..نور جہاں…………..تو…………‘‘
یہ کہہ کرآپ نے تمام لڑکوں پر ایک چھچلتی ہوئی نظر ڈالی اور آخر میں اپنی گول گول آنکھیں ہمارے چہرے پر جما دیں۔ہم نے خطرے کو بھانپ لیا۔جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ اوپر اوٹھا دیئے اور گھبرا کر بولے’’نہیں،نہیں،مولوی صاحب ۔میں نور جہاں نہیں بنوں گا ۔‘‘
طارق بولا ’’مولوی صاحب،سعید ہی کو نور جہاں بنائیے۔اس کے بال بھی بڑے بڑے ہیں۔‘‘
رشید بولا’’بالکل ٹھیک۔اس کی آواز بھی نور جہاں جیسی ہے۔‘‘
غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔کلاس میں ایک شور مچ گیا۔مُلّا پُلاؤ میز پر گھونسا مار کر بولے۔’’خاموش!خاموش!ہم نے جو کہہ دیا وہ اٹل ہے۔سعید میاں،تم نور جہاں بنو گے اور ضرور بنو گے۔‘‘
طارق بھی ایک ہی استاد تھا۔بولا’’مگر مولوی صاحب نور جہاں تو ایک عورت تھی۔وہ زنانہ کپڑے پہنتی تھی۔ایسے کپڑے کہاں سے آئیں گے؟‘‘
مُلّا پُلاؤ بولے ’’ہم بنوائیں گے ۔نیلا شیفون کا ڈوپٹّا جھلمل کرتا ہوا ۔بوسکی کا جمپر اور مخمل کا غرارہ۔آہا!واہ وا!‘‘
لڑکے اور لڑکیاں دونوں خدا کے بندے ہیں اور کسی طرح ایک دوسرے سے کم نہیں۔مگر خدا معلوم کیا بات ہے کہ کسی لڑکے کو لڑکی کہہ دو تو وہ مارنے مرنے کو تیار ہو جائے۔لڑکی کو لڑکا کہہ دو تو وہ ایسا منہ بنائے جیسے کھٹی املیاں کھا کے آئی ہے۔ہم نے جو دیکھا کہ ہمیں لڑکی بننا پڑے گا تو روتے روتے ہمارا برا حال ہو گیا۔آنکھوں سے ساون بھادوں کی ایسی جھڑی لگی کہ ندی نالے بہہ گئے۔لڑکے تو قہقہہ مار کر ہنسنے لگے مگرمُلّا پُلاؤ گھبرا گئے۔دوڑے دوڑے آئے،رومال سے ہمارے آنسو پونچھے اور دم دلاسا دے کر بولے’’ارے پگلے،روتا کیوں ہے؟جا،تو نہ بننا نور جہاں۔ہم بن جائیں گے۔بس،اب ہنس دے،کھل کھلا کے ہی ہی ہی ہی ہی ہی ہی ۔‘‘
نہ تو وہ ڈرامہ ہوا اور نہ ہم نور جہاں بنے۔ مگر اسکول کے لڑکوں نے ہمارا نام ہی نور جہاں رکھ دیا۔ہوتے ہوتے سارے شہر میں ہم نور جہاں مشہورگئے۔جب ہمیں کوئی نور جہاں کہتا تو ہم شرم سے کٹ کٹ جاتے۔مارے لاج کے اس طرح منہ چھپاتے جیسے سچ مچ کی نور جہاں ہوں۔بچپن کا زمانہ تھا۔عقل کچی تھی۔ہمیں یہ پتا نہیں تھاکہ عورت یا لڑکی ہونا شرم کی بات نہیں بلکہ اتنی ہی فخر کی بات ہے جتنی کہ لڑکا ہونایا مرد ہونا۔
اور ایک دن۔۔۔۔۔۔ جب ہم اسکول گئے تو ہم نے دیکھاکہ تمام بچے صحن میں جمع ہیں۔استاد کوئی بھی نہیں۔بچوں کے چہرے اترے ہوئے تھے اور آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ہم نے بستہ گملے پر پٹخا اور طارق سے پوچھا’’کیا بات ہے؟‘‘وہ سسکیاں لیتے ہوئے بولا’’م م ملا۔۔پلاؤ م م مر گئے۔سب ماسٹر ان کے گھر گئے ہیں۔ہم سے کہہ گئے ہیں کہ یہیں ٹھہرنا۔ہم ان کے لیے دعا مانگیں گے۔‘‘
کتنے خوش نصیب ہیں وہ استادجن کی وفات پر ان کے شاگرد آنسو بہاتے ہیں!
دوپہر کو ہیڈ ماسٹر صاحب اور دوسرے استاد واپس آگئے۔سب نے فاتحہ پڑھی۔ہم نے گڑ گڑا کے دعا مانگی کہ’’اے اللہ میاں!تومُلّا پُلاؤکو جنت میں ہیڈ ماسٹر بنا دینا اور انہیں روزانہ پُلاؤ کھانے کو دینا۔‘‘
دعا کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب کھڑے ہوئے۔ان کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔بولے’’چند روز پہلے مولوی صاحب مرحوم نے یہ لفافہ مجھے دیا تھا اور کہا تھا کہ میرے مرنے کہ بعد اسے سب کے سامنے کھولنا۔‘‘
انہوں نے لفافہ کھولا اور پڑھنا شروع کیا’’میں مولوی صبغتہ اللہ برکاتی ولد مولوی برکت اللہ برکاتی،یہ وصیت کرتا ہوں کہ میری تمام کتابیں پبلک لائبریری کو دے دی جائیں۔کپڑے لتے غریبوں اور محتاجوں میں تقسیم کر دیئے جائیں۔میرا گھر اور گھر کا ساما ن بیچ دیا جائے۔اس روپے سے اسکول میں کتابوں کی ایک دوکان کھولی جائے اور اس سے جو آمدنی ہو وہ غریب بچوں کی پڑھائی پر صرف کی جائے۔اور اب اٹن شن۔سینہ نکال کے،پیٹ پٹخا کے،کوئک مارچ۔لیفٹ رائٹ۔لیفٹ رائٹ۔ہالٹ!بس جنت آگئی۔