skip to Main Content

میری بجیا

عروبہ امتیاز خان
۔۔۔۔۔

بل آخر گرمیوں کی چھٹیوں کا آغاز ہو چکا تھا۔ میں اچھلتی کودتی کندھے پر بستہ لٹکائے گھر میں داخل ہوئی اور باآواز بلند سلام کرنے کے بعد جوتے اتار کر بھاگی بھاگی امی کے پاس پہنچی تاکہ ان سے مطالبہ کر سکوں کہ اس بار چھٹیوں میں کہیں گھومنے چلنا ہے۔ وہاں امی ایک اور خبر لیے میری منتظر تھیں۔ مسکراتے ہوئے کہنے لگیں:
’’سارہ بیٹی! تفریحی مقامات تو تم گھومتی رہتی ہو۔ اس مرتبہ تو ہم نے دو ہفتے کے لیے تمہاری پھوپھو کے ہاں جانے کا ارادہ کیا ہے۔ کیا کہتی ہو؟‘‘
اور اس کے ساتھ ہی سوالیہ نگاہوں سے میری جانب دیکھا۔ میں بھی پھوپھو جان کی طرف جانے کا سن کر خوش ہوگئی۔ آخری مرتبہ جب اتنی طویل مدت کے لیے گئے تھے تو اس وقت میں چھوٹی سی تھی۔ اب تو میں جماعت چہارم میں آگئی ہوں اور ساتھ ہی تھوڑی بہت سمجھدار بھی ہوگئی ہوں۔
ہاں، سمجھدار سے یاد آیا میری پھوپھو جان کی ایک بیٹی ہیں جو مجھے خوب بھاتیں ہیں اور سمجھدار سی لگتی ہیں۔ ان کی ساری باتیں، کام کرنے کا انداز، بات کرنے کا طریقہ سب مجھے پسند آتا ہے اور تو اور وہ مجھ جیسے ننھے منے بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھا کرتی ہیں۔ جب ہم ان کے ہاں ملنے جاتے تھے تو وہ خوب شوق سے مجھے کہانی سناتیں اور میں مزے سے سنتی۔ میں ان کو پیار سے ’بجیا‘ کہتی ہوں۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ اس بار چھٹیاں کارآمد گزرنے والی ہیں۔
اگلے روز ہم اپنا سامان باندھ کر پھوپھو جان کے گھر روانہ ہوگئے۔ ان کا گھر ذرا شہر کے دوسرے سرے پر واقع تھا اس لیے جانے میں کچھ وقت لگتا تھا۔ کچھ دیر بعد ہم پہنچ چکے تھے اور میری نگاہیں بجیا کو تلاش کر رہی تھیں مگر کافی وقت گزرنے کے بعد وہ نظر نہ آئیں تو میں نے پھوپھو جان سے پوچھ ہی لیا:
’’پھوپھو جان! بجیا کدھر ہیں؟ مجھے ان سے ملنا ہیں۔‘‘
’’ارے تمہاری بجیا اب تھوڑی بڑی ہوگئی ہیں نا… تو ان کی مصروفیت اب بڑھ گئی ہے، اس لیے وہ ذرا اپنے کام نبٹا رہی ہوں گی۔ آتی ہوں گی کچھ دیر میں۔ جب تک تم یہ کہانی کی کتاب پڑھ لو۔‘‘
پھوپھو نے جواب دینے کے ساتھ میری جانب کتاب بڑھاتے ہوئے کہا۔ میں کتاب پڑھنے میں لگ گئی لیکن وہ مجھے کچھ خاص نہ لگی، سو میں کتابوں کی الماری کے پاس گئی اور مختلف کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی تاکہ اپنی پسندیدہ کتاب تلاش کر سکوں۔ اب اپنی ناسمجھی میں میں نے کتابوں کی ترتیب تو خراب کی ہی مگر غلطی سے پانی کا گلاس میرے ہاتھ سے کتاب پر گر گیا اور کتاب گیلی ہوگئی۔ اپنی اس کوتاہی پر مجھے کافی شرمندگی محسوس ہوئی اور میں اس کی معافی مانگنے ہی والی تھی کہ پیچھے سے مجھے بجیا کی غصے سے بھری آواز سنائی دی:
’’یہ کیا کر دیا تم نے! میں یہ کتاب ابھی خرید کر لائی تھی۔ اتنی مشکلوں سے ملی تھی اور یہ کیا دیکھ رہی ہوں میں۔ یہ کتابوں کا کیا حشر کر دیا ہے تم نے۔‘‘
بجیا کا یہ روپ دیکھ کر تو میں حیران و پریشان ہو کر رہ گئی اور ساتھ ہی مزید شرمندہ ہو گئی۔ اس سے پہلے کہ اپنی صفائی کے لیے میں کچھ کہتی ، بجیا وہاں سے پیر پٹختی ہوئی چلتی بنیں اور میں جلدی جلدی اپنی سمجھ کے مطابق کتابوں کو ترتیب سے رکھنے لگی۔ میں سوچنے لگی کہ بھلا بجیا کے مزاج میں تبدیلی کیسے آگئی۔ وہ تو نرم مزاج سی تھیں۔ شاید انہیں یہ کتاب بہت پسند تھی۔
شام تک میں شرمندگی کے باعث لیے دیے ہی رہی۔ پھر خیال آیا کیوں نا بجیا سے معافی ہی مانگ لی جائے۔ شاید وہ مان جائیں اور پھر میں نے اپنے قدم بجیا کے کمرے کی جانب بڑھا دیے۔ ان کے کمرے میں داخل ہوئی تو میں نے انہیں جلدی جلدی قلم چلاتے ہوئے پایا۔ امید اور ڈر کے ملے جلے جذبات کے ساتھ میں نے انہیں مخاطب کیا اور کہا:
’’سوری پیاری بجیا! وہ مجھ سے آپ کی کتاب خراب ہوگئی۔ ناراض مت ہوئیں نا! اچھا کیوں نا ہم ساتھ مل کر کچھ کھیلیں؟‘‘
وہاں بجیا نے ناگوار تاثرات کے ساتھ میری جانب دیکھتے ہوئے کہا:
’’اف سارہ تم بھی نا! ابھی میں چند اہم جملے تحریر کر رہی تھی۔ تم نے بات کرکے ذہن سے جملہ محو کر دیا۔ اور رہی کھیل کی بات تو ابھی کھیلنے کا بالکل دل نہیں چاہ رہا۔‘‘
بجیا نے میری کھیلنے کی درخواست خوبصورتی سے ٹال دی۔ یہاں میں نے بجیا سے گھلنے ملنے کے لیے آخری حربہ استعمال کیا:
’’تو آپ کوئی کہانی ہی سنا دیں۔ دیکھیں میں آپ کا ذکر اپنی سہیلیوں میں خوب اترا اترا کر کرتی ہوں کہ میری بجیا کتنی اچھی کہانیاں لکھتی ہیں۔‘‘
میں نے ذرا بجیا کو شیشے میں اتارنے کی کوشش کی مگر یہ حربہ بھی ناکام ہوا جب بجیا نے کہا:
’’سارہ! کیا تمہیں ایک مرتبہ کی بات سمجھ نہیں آتی ہے؟‘‘
اور میں اس کے جواب میں منہ لٹکائے بجیا کے کمرے سے باہر آگئی۔
میں بجیا کے رویے سے کافی غمگین ہو چکی تھی۔ نہیں سمجھ میں آتی تھی کہ اچانک سے بجیا کیوں بدل گئی ہیں۔ شاید وہ اپنے کاموں میں اتنی مصروف ہوگئی ہیں کہ انہوں نے باقی کام پس پشت ڈال دیے ہیں۔ خیر میں نے سوچا وقت تو ایسے گزرے گا نہیں۔ کیوں نا تھوڑی مصوری ہی کر لوں۔ رنگین پینسلیں تو میں اپنے ساتھ لائی تھی مگر کاغذ لانا بھول گئی تھی۔ ادھر ادھر نگاہیں دوڑائیں تو ایک کونے میں چند کاغذات بے یار و مددگار دھرے نظر آئے۔ سوچا یہ کام کے نہیں ہوں گے اور ویسے بھی آدھے لکھے ہوئے تھے سو انہیں اٹھا کر میں ان پر اپنی مصوری کے جوہر دکھانے لگی مگر میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ میں دوبارہ ایک غلطی کر بیٹھی ہوں۔
رات کے کھانے سے پہلے بجیا بمشکل پھوپھو جان کے لاکھ سمجھانے پر اپنے کمرے سے باہر آئیں اور باورچی خانے میں مدد کروانے لگیں۔ میں بھی ذرا بجیا کو کمرے سے باہر دیکھ کر خوش ہوگئی کہ چلو اچھا ہے اسی طرح شاید بجیا سے بات کرنے کا موقع مل جائے گا سو بھاگی بھاگی گئی اور اپنی مصوری کا نمونہ لے جا کر بجیا کے سامنے لہرا کر دکھانے لگی کہ اگلے ہی لمحے بجیا کی چیخ نے میرے چودہ طبق روشن کر دیے یہاں تک کہ میرے ہاتھ سے کاغذ گر پڑے جو بجیا نے لپک کر اٹھا لیے۔
’’اب ایک نیا کارنامہ کیوں انجام دے دیا تم نے۔ یہ تو میری کہانی کا نامکمل مسودہ تھا۔ میں غلطی سے اسے اپنے کمرے سے باہر رکھ کر بھول گئی تھی اور مجھے اب اپنی چھوٹی سی بھول کا یہ نتیجہ ملا ہے۔ کیا یہاں آفت ڈھانے آئی ہو؟‘‘
بجیا کا غصے سے بھرپور چہرہ اور ڈانٹ سن کر تو میری آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور آنسو رواں ہوگئے۔ بجیا کا دل مجھے یوں روتا دیکھ کر پسیج گیا اور وہ ذرا گھبراتے ہوئے مصنوعی ہمدردی کے ساتھ کہنے لگیں:
’’اچھا، اچھا! اب رو تو نہیں۔ جو ہونا تھا سو ہوگیا۔ میں نے آج رات کھانے میں میکرونی بنائی ہے۔ تمہیں پسند ہے نا؟‘‘
اپنے پسندیدہ کھانے کا نام سن کر تو میں اچانک خوش ہوگئی۔ اور تو اور وہ کھانا میری بجیا نے بنایا تھا۔ اس سے بڑھ کر میرے لیے کیا ہوسکتا تھا سو میں رات کے کھانے کا انتظار کرنے لگی۔
کھانا دسترخوان پر لگتے ہی بجیا نے میری جانب میکرونی سے بھری پلیٹ بڑھائی۔ مگر یہ کیا۔ ابھی ایک ہی نوالہ لیا تھا کہ تیز مرچوں کے مارے میری آنکھوں سے پانی بہنے لگا اور یوں لگا کہ جیسے منہ میں ایک آگ سی لگ گئی ہو۔ آن کی آن میں غٹاغٹ پانی کا گلاس پی گئی مگر ابھی بھی مجھے مرچیں لگ رہی تھیں۔ دوسری جانب بجیا حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے کہنے لگیں:
’’کیوں کیا ہوا تمہیں اچانک؟‘‘
’’بجیا! اس میں تو آپ نے خوب مرچیں ڈال دیں ہیں۔ میں تو اب اسے بالکل نہیں کھا سکتی۔‘‘
میں نے سچ سچ ساری بات بیان کر دی مگر یہاں پر سچ کہنا الٹا مجھے ہی گلے پڑ گیا جب بجیا درشتی سے کہہ اٹھیں:
’’اب میں بھلا کیا کر سکتی ہوں کہ تمہارے اندر مرچوں کو برداشت کرنے کی قوت نہیں۔ میں تو ایسی ہی بناتی ہوں۔‘‘
بجیا کے اس جملے پر تو سب حیران ہوگئے کہ آخر بجیا اتنی چراغ پا کیوں ہوگئیں۔ صحیح ہے کہ مرچیں بڑوں کے حساب سے ٹھیک تھیں مگر میں تو ابھی بچی تھی نا۔ بھلا میں کہاں برداشت کر پاتی۔ دوسری جانب سے بجیا کی اصلاح کی کوشش کی گئی جو انہوں نے بیزار چہرے کے ساتھ سنی اور وہ پھر وہاں سے اٹھ کر چلی گئیں۔
پہلے دن کے تجربے کے بعد اب میں بجیا سے دور دور ہی رہنے لگی تھی اور اپنے آپ میں ہی مگن رہتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈیڑھ ہفتہ گزر چکا تھا اور اب میں بجیا کے گھر میں ہونے کے باوجود ان کی رفاقت سے محروم تھی۔ ایک روز بجیا پریشانی کے مارے ادھر ادھر گھر میں گھومنے لگیں۔ کبھی دونوں ہاتھوں سے اپنا سر پکڑتیں تو کبھی کاغذات کے پلندے کو کھنگالتیں۔ آخر مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پوچھ ہی لیا:
’’بجیا! کیا بات ہے آخر! آپ پریشان لگ رہی ہیں۔‘‘
’’ارے کیا بتائوں تمہیں! تم بھلا کہا ںسمجھ پائو گی۔‘‘ بجیا نے فکرمندانہ لہجے میں کہا۔
’’آپ بتائیں تو سہی! میں شاید آپ کی مدد نہیں کر پائوں مگر پریشانی سنانے سے دل کا آدھا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔‘‘
بجیا میرے منہ سے یہ فلسفیانہ جملہ سن کر ذرا حیران رہ گئیں پھر دھیرے سے کہنے لگیں:
’’وہ دراصل تمہاری عمر کے بچوں کے ایک رسالے کا خاص نمبر شائع ہونے والا ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ بھلا میں کیا لکھوں جو رسالے کے معیار پر پورا اتر سکے۔ ایک دم سے ذہن آئیڈیاز سے خالی ہو چکا ہے۔‘‘
بجیا کی بات سن کر میں جھٹ کہہ اٹھی:
’’ارے بجیا! میں ہوں نا! پریشان مت ہوں۔ میں آپ کو آئیڈیاز دوں گی اور آپ کی مدد کروں گی اور مجھے یقین ہے کہ آپ پھر ایک اچھی سی کہانی لکھ لیں گی۔‘‘
بجیا میری بات سن کر مزید حیران ہوئیں اور سوچتے ہوئے کہنے لگیں:
’’مگر تمہارے پاس آئیڈیاز، کیا تمہیں کسی آئیڈیاز کی دکان کا پتا معلوم ہے؟‘‘
جواب میں میں ہنستے ہوئے ان سے کہا:’’وہ دراصل دیکھیں نا! میں آپ کی کہانیوں سے کافی متاثر ہوں اور جب مجھے لکھنا بھی نہیں آتا تھا تو میں سوچا کرتی تھی کہ جب تھوڑی بڑی ہوں گی تو بالکل اپنی بجیا کی طرح کہانیاں لکھا کروں گی۔ اردو کے کلاس میں استانی جب تخلیقی لکھائی کرواتی ہیں تو انہیں میری کہانیاں خوب پسند آتی ہیں …اور تو اور میری کہانی تو اسکول کے مجلے میں بھی شائع ہو چکی ہے۔‘‘
بجیا میری قابلیت اور انسیت سن کر ششدر رہ گئی تھیں۔ متعجب نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہنے لگیں:
’’ذرا میں بھی تو سنو ںکہ بھلا تمہارے ذہن میں کن آئیڈیاز کی کھچڑی پک رہی ہے۔‘‘
بجیا کا یہ کہنا تھا کہ میں مزے لے لے کر اپنے آئیڈیاز سنانے لگی اور بجیا بھی مطمئن چہرے کے ساتھ انہیں کاغذ پر اتارنے لگیں۔
آج ہماری روانگی کا دن تھا۔ دو ہفتے گزر چکے تھے اور اب ہم واپس اپنے گھر جا رہے تھے۔ سب کو خدا حافظ کہہ کر میں گاڑی میں بیٹھنے لگی تو پیچھے سے بجیا بھاگتی ہوئی آئیں اور مسکراتے ہوئے ایک تھیلا پکڑا کر کہنے لگیں:
’’اسے گھر جا کر ہی کھولنا اور اب اگلی مرتبہ جلدی آنا۔ تمہاری آمد کا انتظار کروں گی۔‘‘
میں نے پیار سے بجیا کو گلے لگا لیا اور جلد آنے کا وعدہ کرکے میں گاڑی میں سوار گھر پہنچ چکی تھی۔ گھر پہنچتے ہی میں نے جھٹ تھیلا کھولا تو اس میں ایک ڈبے میں میکرونی اور چند کہانی کی کتابوں کو پایا۔ ساتھ ہی ایک خط بھی موجود تھا جس میں مندرجہ ذیل عبارت لکھی تھی۔
’’عزیزم سارہ!
جب تم گھر آئیں تو نہ جانے کیوں میں تم سے کافی غصے سے پیش آئی اور مجھے لگا کہ تم میرے کاموں کے بیچ میں خلل ڈالو گی اور میں اپنے کاموں پر توجہ نہیں دے پائوں گی۔ پھر میں نے ذرا درشت رویہ اپنایا مگر یہاں تو معاملہ سوچوں کے برعکس تھا۔ تم ایک ذہین اور قابل لڑکی ہو اور تم نے مجھے بہترین انداز میں آئیڈیاز دیے۔ پھر جب میں نے وہ کہانیاں ارسال کیں تو مدیر بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ پائے اور اب میری کہانی خاص نمبر کی زینت بنے گی جس کا سہرا تمہیں جاتا ہے۔ اور ہاں، تمہارے لیے خاص میں نے کم مرچوں کی میکرونی بنائی ہے اور یہ کہانی کی کتابیں تمہارے لیے! امید ہے تمہیں پسند آئیں گی۔‘‘
بجیا کا خط پڑھ کر میرا دل باغ باغ ہو چکا تھا اور میں اگلی چھٹیوں کا انتظار کرنے لگی جب میں بجیا کے گھر جائوں اور پھر ہم ڈھیر سارے آئیڈیاز پر تبادلہ خیال کریں۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top