skip to Main Content

مجاہد سپہ سالار کی دعا اور قسم

طالب ہاشمی

۔۔۔۔۔

پہلی صدی ہجری میں قتیبہ بن مسلم باہلی مسلمانوں کے بہت بڑے جرنیل گزرے ہیں۔ وہ ایک فوجی گھرانے میں 49 ہجری میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ”مسلم“ عرب قبیلے ”بنو باہلہ“ کے سردار اور ایک فوجی افسر تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم وتربیت کا بڑا اچھا انتظام کیا۔ اس کے نتیجے میں قتیبہ کو نہ صرف علم کی دولت مل گئی بلکہ ہرقسم کے ہتھیار استعمال کرنے میں بھی مہارت حاصل ہوگئی یہاں تک کہ وہ اپنے قبیلے کے ان نیک، بہادر اور نڈر نو جوانوں میں شمار ہونے لگے جن کو اپنے دین سے سچی محبت تھی۔ اس زمانے میں اسلامی دنیا کا حکمران اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک تھا۔ اموی کا مطلب ہے بنوامیہ سے تعلق رکھنے والا۔ بنوامیہ قبیلہ قریش ہی کی ایک شاخ تھا۔ ولید کا دور حکومت (86ھ سے 96 ھ تک) اسلامی تا ریخ کا سنہری زمانہ کہلاتا ہے کیونکہ اس زمانے میں مسلمانوں نے کئی ملک فتح کر لیے اور اسلامی حکومت کی سرحد یں چین سے جاملیں۔ نوجوان قتیبہ بن مسلم بھی اپنے والد کی طرح فوج میں بھرتی ہو گئے۔ جلد ہی وہ ایک سچے مسلمان اور نڈ رسپاہی کی حیثیت سے مشہور ہو گئے۔ انھوں نے حکومت کے باغیوں کے خلاف کئی لڑائیوں میں ایسی بہادری دکھائی کہ ان کی دلیری اور بے خوفی کی دھاک بیٹھ گئی۔ ان کی شجاعت اور قابلیت کو دیکھ کر خلیفہ نے انہیں خراسان کا گورنر مقرر کر دیا۔
خراسان کا گورنر مقرر ہونے کے بعد قتیبہ نے وسط ایشیا کے کئی ملکوں بخارا، خوارزم، خارستان، ترکستان وغیرہ کو فتح کر کے ان پر اسلام کا جھنڈ الہراد یا پھر آگے بڑھ کر کاشغر کو فتح کر لیا اور یوں چین کی سرزمین میں داخل ہو گئے۔ قتیبہ نے اپنی فتوحات کا آغاز بخارا کی طرف پیش قدمی کرنے سے کیا۔ یہ علاقہ اس وقت بت پرستوں کا گڑھ تھا۔ اسلامی لشکر خراسان سے بخارا کی طرف بڑھا تو راستے میں دریائے جیحو ں نے اس کو روک لیا کیونکہ اسلامی لشکر کی یلغار کی خبر سن کر دشمن تمام کشتیاں دوسرے کنارے کی طرف لے گیا تھا۔ دریا بڑا گہرا تھا۔ اس وقت سپہ سالارقتیبہ نے دو رکعت نماز پڑھی اور پھر بڑی عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی۔
”اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میں تیرے دین کو سر بلند کرنے کی خاطر جہاد کر رہا ہوں، اس لیے مجھے اور میرے ساتھیوں کو اس دریا میں ڈوبنے سے بچانا۔ اگر میری یا میرے ساتھیوں کی نیت کچھ اور ہوتی تو بلاشبہ ہم سب اس دریا میں غرق کیے جانے کے لائق تھے۔“
یہ دعا مانگ کر قتیبہ نے اپنا گھوڑا دریا میں ڈال دیا اور ان کے ساتھ ہی سارالشکر دریا میں اتر گیا۔ اللہ کی قدرت سب لوگ اس طرح دریا پار کر گئے جیسے خشک زمین پر چل رہے ہوں۔
اس کے بعد جو کچھ پیش آیا وہ لمبی داستان ہے۔ مختصر یہ کہ قتیبہ وسط ایشیا کے ملک پر ملک فتح کرتے چین جیسے بہت بڑے ملک میں جا داخل ہوئے اور کاشغر پر قبضہ کر کے عارضی طور پر وہاں ڈیرا ڈال دیا۔ اس وقت تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ مسلمانوں اور چینیوں کے درمیان خوفناک جنگ ہوگی لیکن چین کے بادشاہ نے (جسے خا قان چین کہا جا تا تھا) عقلمندی سے کام لیا اور اس نے قتیبہ کو پیغام بھیجا کہ اپنے کسی معتبر آ دمی کو میرے پاس بھیجو تا کہ میں اس سے معلوم کروں کہ تم لوگ میرے ملک میں کیوں داخل ہوئے ہو اور تمہاری غرض کیا ہے۔خا قان چین کا پیغام ملنے پرقتیبہ نے ہبیر ہ بن مشرج کلابی کو دس ایسے دانا مجاہدوں کے ساتھ خاقان کے پاس بھیجا جو اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گفتگو کر سکتے تھے۔ اس وفد کی خاقان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں لیکن کوئی بات طے نہ ہوسکی۔ آخری ملاقات میں خاقان نے ہبیرہ سے کہا:
”تم سب سے دانا آدمی معلوم ہوتے ہو، جاؤ اپنے سپہ سالار سے کہہ دو کہ اگر خیر چاہتے ہو تو اس ملک سے نکل جاؤ۔ میرے پاس اتنے بڑے بڑے لشکر ہیں کہ تمہارے لشکر کی ان کے سامنے کوئی حقیقت نہیں۔ میرے یہ لشکر لمحہ بھر میں تمہارے چھوٹے سے لشکر کو کچل ڈالیں گے۔“
ہبیرہ نے تن کر جواب دیا: ”اے بادشاہ! اس لشکر کو چھوٹا کیسے کہا جا سکتا ہے جس کا ایک سرا چین میں ہواور دوسرا ملک شام میں اور یہ جو ہمیں کچلنے کی دھمکی دی گئی ہے تو ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ موت اپنے وقت سے پہلے کبھی نہیں آتی۔ اگر یہ جنگ کے میدان میں آئے تو ہم اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتے ہیں۔“
ہبیرہ کے اس دلیرانہ جواب نے بادشاہ کو حیران کر دیا۔ اس نے پوچھا:
”تمہارا سپہ سالار کن شرطوں پر صلح کر سکتا ہے؟“
ہبیرہ نے جواب دیا۔”وہ قسم کھا چکا ہے کہ جب تک تمہاری زمین کو روند نہ ڈالے اور تم سے خراج وصول نہ کر لے، واپس نہیں جائے گا۔“
خاقان کو معلوم ہو چکا تھا کہ یہ لوگ سارے وسط ایشیا کوز یروز بر کر چکے ہیں اور ان سے لڑنے کے بجائے صلح کر لیناہی بہتر ہے، اس نے کہا:
”ہم تمہارے سپہ سالار کی قسم ابھی پوری کر دیتے ہیں۔“
پھر اس نے سونے کے چند قابوں (طشتوں) میں اپنی زمین کی مٹی، بہت ساز رومال اور قیمتی تحفے قتیبہ کے پاس روانہ کیے اور مسلمانوں سے صلح کی خواہش ظاہر کی۔ قتیبہ نے مٹی کو اپنے قدموں تلے روند ڈالا اور تحفے وغیرہ قبول کر کے واپس اپنے ملک چلے گئے۔ اس سے پہلے چین کا بادشاہ مسلمانوں کے دشمن ملکوں کی مددکر چکا تھا۔ اب اسے معلوم ہو گیا تھا کہ ایسا کرنا کتنا خطرناک ہے چنانچہ مسلمانوں سے صلح کر کے اس نے بتا دیا کہ آئندہ ایسا نہیں کرے گا اور یہی قتیبہ کا مقصد تھا جو پورا ہو گیا تھا۔
***

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top