skip to Main Content
مگ ٹوٹ گیا

مگ ٹوٹ گیا

نذیر انبالوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تتلی کے خاص نمبر کے ٹائٹل پر ٹوٹے ہوئے مگ کی تصویر تھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ماہنامہ تتلی کا ایڈیٹر بنے مجھے ایک سال ہو گیا تھا۔تتلی کے بارہ شمارے میرے سامنے میز پر پڑے تھے۔ملک کے بچو ں کے ایک بڑے رسالے کا ایڈیٹر ہونا معمولی بات نہ تھی۔یوں تو مجھے بچوں کے لیے کہانیاں لکھتے ہوئے کافی عرصہ ہو گیا تھامگر میں نے کبھی یہ سوچا تک نہ تھاکہ تتلی جیسے مقبول عام رسالے کا ایڈیٹر بنوں گا۔تتلی میں میری کئی کہانیاں شائع ہو کر قارئین کی پسندیدگی حاصل کر چکی تھیں ۔تتلی کے سابق ایڈیٹر میرے اچھے دوستوں میں شامل تھے ۔ ایک بڑے ادارے نے بیرون ملک سے بچوں کا ایک میگزین شروع کیا تو تتلی کے ایڈیٹر وہاں چلے گئے ۔تتلی کی انتظامیہ نے ایڈیٹر کی اسامی کے لیے اخبار میں اشتہار دیا ۔چند دنوں بعد میں بھی اس اسامی کا امید وار بن کر انٹر ویو پینل کے سامنے موجود تھا۔پینل کے لوگ میرے نام سے واقف تھے ۔دس منٹ کی بات چیت کے بعد میں تتلی کا ایڈیٹر بن چکا تھا۔
’’مجھے امید ہے کہ آپ تتلی کے معیار کو بر قرار رکھیں گے۔‘‘تتلی کے مالک نے کہا۔
دوسرے دن مین ایڈیٹر کی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا۔یہ کام میرے لیے نیا نہیں تھا اس لیے میں بہت جلد اس ماحول میں رچ بس گیا۔وقت گزرتے دیر کہاں لگتی ہے‘وقت تو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہوتا ہے۔تتلی کے بارہ شمارے میری ادارت میں چھپ چکے تھے ۔ایک سال کا عر صہ گزرتے دیر نہ لگی تھی۔انتظامیہ اور قارئین کارکردگی سے مطمئن تھے ۔قارئین کی طرف سے اصرار تھا کہ تتلی کا ایک خاص نمبر شائع کیا جائے ۔اب فیصلہ یہ کرنا تھا کہ خاص نمبر کس موضوع پر ہو اور اسے کس ماہ شائع کیا جائے ۔مجھے جو بھی ملنے کے لیے آتا۔میں خاص نمبر کے بارے میں اس سے ضرور بات کرتا۔ایک دن میرے ایک قریبی دوست ملنے کے لیے آئے تو میں نے ان سے خاص نمبر کے حوالے سے بات کی تو وہ فوراً بولے۔
’’ہاں تتلی کا خاص نمبر ضرور شائع ہونا چاہیے۔‘‘
’’خاص نمبر تو ہونا چاہیے مگر کس موضوع پر؟‘‘
’’موضوع …………موضوع…………ہاں ایک موضوع ہے جس پر شاید پہلے کسی بچوں کے رسالے نے نمبر شائع نہیں کیا ۔‘‘ریاست نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا۔
’’کیا ہے و ہ موضوع؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’تکبر‘‘
’’بھلا یہ کیا موضوع ہوا اس پر کیسے خاص نمبر نکال سکتے ہیں ؟‘‘
’’کیوں نہیں نمبر نکال سکتے ۔تکبر کے حوالے سے کہانیاں ‘مضامین اور نظمیں آسانی سے دستیاب ہو سکتی ہیں ۔دستیاب نہ بھی ہوں تو یہاں لکھنے والوں کی کیا کمی ہے ایک سے بڑھ کر ایک عمدہ لکھنے والے کا تتلی کو قلمی تعاون حاصل ہے۔‘‘ریاست کی باتوں میں وزن تھا ۔ ریاست جب دفتر سے رخصت ہوا تو ہم تکبر کا ابتدائی خاکہ تیار کر چکے تھے۔تتلی کے اگلے شمارے میں اعلان کر دیا گیا کہ اکتوبر کا شمارہ خاص نمبر ’’تکبر ‘‘ہو گا۔قارئین کی فر مائش تھی کہ اس خاص نمبر کے لیے میں بھی کوئی خاص کہانی لکھوں ۔میں جب سے تتلی کا ایڈیٹر بنا تھا میرا لکھنے کا عمل خاصہ متاثر ہوا تھا۔تکبرنمبر کا اعلان ہوتے ہی بہت سی تحریریں موصول ہو چکی تھیں ۔میں جس موضوع پر لکھنے کا ارادہ کرتا ویسی تحریر پہلے سے موجود ہوتی ۔کسی خاص موضوع پر معیاری کہانی لکھنا ایک مشکل کام ہے۔قارئین کی طرف سے ارسال کردہ تحریروں کو ضروری کانٹ چھانٹ کے بعد میں اسے کمپوزنگ کے لیے بھیجتا رہا۔ایک شام کہانی لکھنے کا ارادہ کیا اور ایک موضوع پر کچھ غور کر کے لکھنے لگا۔چند سطور کے بعد قلم مزید نہ لکھ سکا۔کہانی کا ارادہ ترک کر کے میں کالم ’’گلدستہ‘‘جس میں نئے لکھنے والوں کی تحریریں شائع کی جاتی تھیں اس کے لیے آنے والا مواد دیکھنے لگا۔بھکر سے ایک بچے نے تکبر کے موضوع پر ایک حدیث مبارکہ لکھ کر بھیجی تھی۔میں وہ حدیث پڑھ کر لرز گیا۔میں نے اپنے ارد گرد نگاہ ڈالی ۔ایک نہیں بہت سی کہانیاں میرا استقبال کر رہی تھیں ،تھوری دیرپہلے تک میرے پاس لکھنے کے لیے کچھ نہ تھااب اتنا مواد کہ میرے لیے مشکل ہو رہی تھی کہ کیا لکھوں اور کیا چھوڑوں ۔حدیث مبارکہ پڑھ کر میں ماضی میں جھانکنے لگا تھا۔ہم تینوں گہرے دوست اچھرہ کے ایک اوسط درجے کے ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے ۔
’’کیا کھانے کا موڈ ہے؟‘‘توصیف نے پوچھا۔
’’جو مرضی منگوالیں ۔‘‘میرا جواب سن کر ساجد نے کہا۔
’’ایک چکن‘ایک سبزی کی پلیٹ منگوالیں۔‘‘
تھوڑی دیر میں ہمارا کھانا آگیا ہم مختلف موضوعات پر باتیں کرتے رہے ۔تتلی کا بھی ذ کر آیا مگر اس وقت ہم میں سے کسی کے ذہن میں نہیں تھا کہ میں چند ماہ میں تتلی کا ایڈیٹر بن جاؤ ں گا۔تتلی کا پہلا شمارہ آیا تو ساجد نے میری دعوت کی تھی۔دفتر سے نکلتے ہوئے میرا خیال تھا کہ ہم کسی اچھے ہوٹل اور بڑے ہو ٹل میں جائیں گے مگرہم اچھرہ کے اسی ہوٹل میں آکر ٹھہرے تھے جہاں ہم اس سے پہلے نہ جانے کتنی بار آئے تھے۔
’’کیا یہاں کھانا کھلاؤ گے؟‘‘ میرے لہجے میں غرور کی جھلک تھی۔
’’تو یہاں کیا ہے؟‘‘ ساجد بولا۔
’’یہاں صاف ستھرائی کا انتظام نہیں ہے یہاں اور کیا ملے گا صرف دال روٹی ہی تو ہے چلواٹھو یہاں سے۔‘‘
’’ہم کہیں نہیں جائیں گے ہم نے کھانا کھانا ہے تو یہیں کھائیں گے ورنہ …….!‘‘
’’ورنہ کیا؟‘‘میں نے توصیف کی بات اچک لی تھی۔
’’ورنہ نہیں کھائیں گے۔‘‘توصیف بولا۔
’’تو میں کہاں کھا رہا ہوں ‘تتلی کا ایڈیٹر اور اس گھٹیا ہوٹل میں کھانا کھائے گاتم دونوں ہی یہاں کھانا کھاؤ میں تو جا رہا ہوں ۔‘‘
میرے دماغ میں سمایا تکبر مجھے ہوٹل سے باہر لے آیا تھا۔دونوں مجھے روکتے رہے مگر میں انہیں اب بھلا کیا سمجھتا تھا۔اس روز تکبر نے مجھے اپنے دوستوں سے دور کر دیا تھا میرے انداز سے دوسروں کو اس بات کا پتا چلتا جا رہا تھا کہ غرور نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا ہے۔
ایک دن ساہیوال سے ایک قاری ملنے آیا تو میں نے اس کے لیے چائے منگوائی ۔ملازم جب چائے کپ میں ڈالنے لگا تو میں نے میز کی دراز سے ایک بڑا سا پھولوں والا مگ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
’’صاحب جی ! جی یہ کیا ہے؟‘‘چائے والا لڑکا بولا ۔
’’دیکھ نہیں رہے مگ ہے مگ ‘پیارا سا مگ۔‘‘
’’تو کیا اس میں چائے ڈال دوں ؟‘‘
’’یہ مگ چائے ہی کے لیے ہے ۔آج سے میں اسی میں چائے پیا کرو ں گا ۔‘‘میرا جملہ سن کر قاری نے معنی خیز انداز میں مجھے گھورا۔ملازم نے ہوٹل کے کپ میں چائے ڈال کر قاری اور مگ میں چائے ڈال کر میرے سامنے رکھ دی ۔اس کے بعد تو دفتر میں رنگ برنگے مگ ہو گئے۔میری سوچ تھی کہ تتلی جیسے بڑے رسالے کا ایڈیٹر ہو کر مجھے ہوٹل کے معمولی کپ میں چائے نہیں پینی چاہئے ۔میرے کچھ ملنے والوں نے اس بارے میں ٹوکا بھی مگر تکبر کب مجھے اپنی قید سے آزاد کرتا تھا۔میں اس کی قید سے کبھی نہیں نکلنا چاہتا تھا۔وہ مجھے اپنے سحر میں مبتلا کرتا جا رہا تھا اور میں اس کے سحر میں مبتلا ہوتا جا رہا تھا۔میں تکبر کے سحر میں گرفتار تھا کہ ایک ادارے نے بچوں کے تمام رسائل کے درمیان کشمیر نمبر کے موضوع پر مقابلے کا اعلان کیا۔میں نے ملک میں چھپنے والے بچوں کے رسائل پر نگاہ ڈالی تو مجھے کوئی بھی ایسا رسالہ نظر نہ آیا جس کے ساتھ تتلی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہو ۔سبھی رسائل نے کشمیر پر خصوصی شمارے شائع کیے۔وہ گھڑی بھی آگئی جب ایوارڈکی تقریب ہونی تھی۔تتلی ہمیشہ کی طرح اول نمبر پر رہا ۔ایوارڈ وصول کرنے کے بعد مجھے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے مائیک پر بلایا گیا تو میری گردن تکبر سے اکڑی ہوئی تھی۔میں نے اس موقع پر کہا تھا کہ تتلی کے سوا کون سا ایسا بچوں کا رسالہ ہے جس کو پہلا انعام دیا جا سکتا‘ہمارا دوسرے رسالوں سے کیا مقابلہ ہے۔دوسرے رسائل ہمارا مقابلہ کیسے کر سکتے ہیں! غرور نے مجھے اس مقام پر پہنچا دیا تھا کہ میں سمجھتا تھا کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہی درست ہے۔اس صورت حال میں وہ دوست جو میرے خیر خواہ تھے مجھ سے دور ہوتے چلے گئے اور مطلب پرست اور خوشامدی میرے قریب ہوتے گئے۔میرے چاہنے والے اب جہاں مجھے میری سالگرہ یا عیدین کے مواقع پر کارڈز بھیجتے تھے وہاں خوبصورت رنگین مگ بھی آتے تھے۔میرے کئی چاہنے والے تو مجھ سے اس حوالے سے ناراض بھی ہو جاتے کہ میں ان کے دئیے ہوئے مگ میں چائے کیوں نہیں پیتا۔اب میں نے اپنے چاہنے والوں کو خوش کرنے کے لیے ہر مگ کے لیے ایک دن مقرر کر لیا تھا۔اس طرح باری باری سارے مگ میرے استعمال میں آگئے ۔اپنے ادارے میں مجھے مگ والے ایڈیٹر کا نام دیا گیا ۔میرے ادارے کے لوگ میرے بارے میں جو کچھ کہتے تھے وہ کسی نہ کسی ذریعے سے مجھ تک ضرور پہنچ جاتا تھا۔کچھ دنوں پہلے میں کمپوزنگ سیکشن مین داخل ہونے لگا تو میرے کانوں نے سنا تھا۔
’’اقبال کا دماغ تو غرور نے خراب کر دیا ہے بندے کو بندہ ہی نہیں سمجھتا۔‘‘
’’ہاں یار‘تم ٹھیک کہتے ہو‘دفتر کو مگوں کی دکان بنا دیا ہے۔اس سے بات کرو تو لگتا ہے محمد اقبال سے نہیں تکبر اقبال سے بات کر رہے ہیں ۔توبہ ہے بھئی توبہ ہے!تکبر نے تو اقبال کا دماغ خراب کر رکھا ہے۔‘‘
’’دماغ خراب ہو گا تمہارا! میں اپنے دفتر کو دفتر رکھوں یا مگ شاپ بناؤں تمہیں اس سے کیا ہے!‘‘ میرا تلخ لہجہ دونوں کو خاموش کرنے کے لیے کافی تھا۔
اس دن توصیف اور ساجد سے میری آخری ملاقات ہوئی تھی جب وہ دونوں مجھے ملنے آئے تو چائے آئی‘ان دونوں کے حصے میں ہوٹل کے کپ اور میرے حصے میں خوبصورت مگ آیا تھا۔
’’میں چائے نہیں پیوں گا۔‘‘توصیف اٹھتے ہوئے بولا۔‘‘
’’’کیوں؟‘‘میں نے پوچھا۔
’’چلو اٹھو توصیف ! یہ خود ہی یہ چائے اپنے مگ میں پئے۔‘‘
ساجد کی بات مجھے سب کچھ سمجھانے کے لیے کافی تھی۔میں اطمینان سے مگ میں چائے پیتا رہااور وہ دونوں چلے گئے تکبر نے مجھے انہیں روکنے نہ دیاتھا۔فون کی گھنٹی مجھے ماضی سے حال میں لے آئی تھی۔ایک ادیب نے تکبر کے لیے بھیجی ہوئی کہانی کے بارے میں پوچھنے کے لیے فون کیا تھا۔جب تتلی کا تکبر نمبر شائع ہوا تو میری کہانی اس میں شامل تھی ۔رسالے کے ٹائٹل پر ایک ٹوٹے ہوئے مگ کی تصویر اوربچے کی بھیجی ہوئی وہ حدیث مبارکہ چھپی جس نے مجھے مگ توڑنے پر مجبور کیا تھا۔حدیث مبارکہ یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’قیامت کے روز خدا کچھ لوگوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اٹھائے گا۔لوگ انہیں اپنے قدموں سے روندیں گے‘پوچھا جائے گا یہ چیونٹیوں کی شکل میں کون ہیں ؟انہیں بتایا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو تکبر کرتے تھے۔‘‘جو میرے قریب ہیں وہ تتلی کے ٹائٹل پر ٹوٹے ہوئے مگ کا مفہوم سمجھ جائیں گے۔مجھے اب یقین ہے کہ توصیف اور ساجد بھی مجھے معاف کر دیں گے۔

Facebook Comments
error: Content is protected !!
Back To Top